احمد بن حسن میمندی؛ خطاط

الف نظامی

لائبریرین
1493.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
احمد بن حسن میمندی
آپ فن خطاطی کے استاد اجل اور ہفت قلم خطاط تھے

مسلمانوں کی تاریخ علم و فضل اور پاکیزہ فنون سے بھری نظر آتی ہے۔ مسلمان حکمران وزیر ، امراء سب ہی علم و ادب اور پاکیزہ فنون خصوصا فن خطاطی کے بہت دلدادہ تھے۔ مسلمانوں کی 14 سو سالہ تاریخ گزشتہ 60 برسوں کو چھوڑ کر مکمل طور پر علمی و ادبی ، فنی پاکیزگی اور خطاطی کے کے اعلی ذوق کی آئینہ دار تھی۔
ایران ، اردن ، شام ، مصر میں تو آج بھی خطاطی کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ ایران میں تو سرکاری طور پر اس فن کو بے حد پذیرائی حاصل ہے۔ پاکستان میں جدیدیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مصور خطاطی کے ارتقاء کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں
احمد بن حسن میمندی ؛ آپ سلطان محمود غزنوی کے قریبی ساتھی اور اہم ترین وزراء میں شامل تھے۔ علوم و فنون کے بے حد ماہر تھے۔ فن خطاطی کے حوالے سے مستند رائے رکھنے والے مبصر اور فن خطاطی کے مختلف خطوط مثلا خطِ کوفی ، محقق ، جلیل اور مصاحف کے بہت بڑے اور تسلیم شدہ خطاط تھے۔ تاریخ خط و خطاطاں کے مطابق آپ کو غزنوی دور کے ممتاز ترین اساتذہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بغداد و دمشق میں فن خطاطی پر بہت کام ہو رہا تھا اور اس دور کے ممتاز خطاطوں کی کاوشوں سے نت نئے رسم الخط ایجاد ہو رہے تھے۔ جناب احمد بن حسن میمندی خطاطی کے اس ارتقاء سے پوری طرح باخبر تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے بغداد کا بھی سفر کیا اور وہاں کے معروف علماء کرام اور خطاط حضرات سے ملاقات کی اور ان سے اصلاح خط کا شرف حاصل کیا۔
آپ کا قول ہے کہ فنِ خطاطی ذہنی و قلبی پاکیزگی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس لیے قرآن کریم کی خطاطی کو وہ لازم سمجھتے تھے۔ سلطان محمود غزنوی کے دور میں غزنی اور دیگر شہروں میں بننے والی مساجد میں آپ نے خطاطی کے جوہر دکھائے۔ آپ کے فن پارے جہاں کاغذوں پر کہیں کہیں نظر آتے ہیں وہیں پتھروں اور لکڑی کی رحلوں اور دیگر مقدس مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔
احمد بن حسن کے خط میں اگرچہ بہت شان تھی لیکن نقاشی یعنی تہذیب کے ساتھ ان کی خطاطی کی بات ہی کچھ اور ہے۔ سرکاری کاغذات پر وہ نہایت نظر افروز انداز میں خطِ نستعلیق لکھا کرتے تھے۔ سلطان محمود کے نام کی مہریں بھی انہوں نے تیار کیں اور اس دور کے سکوں کے لیے بھی خطاطی فرمائی۔
سلطان محمود کا عہد علم وادب کی کا دور تھا۔ عالم اسلام میں جگہ جگہ بڑے بڑے خطاط موجود تھے اور فن خطاطی کا دور دورہ تھا۔ ہر طرف قرآن کریم لکھے جا رہے تھے اور احمد بن حسن میمندی نہ صرف ان کی سرپرستی کرتے تھے بلکہ ان خطاطوں کی بھر پور مدد بھی کرتے تھے۔ آپ کی کوششوں سے لاہور میں کتابوں کی تیاری کا کارخانہ قائم ہوا اور یہاں ایک ایسا دفتر بنایا گیا جہاں سے قلم ، کاغذ اور روشنائی دستیاب ہوتی تھی۔ اس حوالے سے سرزمین لاہور میں پہلا علمی و کتابی مرکز سلطان محمود غزنوی نے قائم کیا اور پھر اس کے بعد حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی آمد اور مدارس کے قیام کی وجہ سے لاہور علمی طور پر آگے بڑھتا چلا گیا۔
احمد بن حسن میمندی کا انتقال 427 ہجری یعنی 1035 ء میں ہرات میں ہوا۔
 
آخری تدوین:
Top