ابھی ہم زندہ ہیں۔

ایم اے راجا

محفلین
(((((ابھی ہم زندہ ہیں )))))
اسلام آباد میں بائیک پر سفر کے دوران رات کو 9 بجے سے 9:30 کے درمیان میری قمیض کی سائیڈ والی جیب سے میرا پرس گر گیا جب میں گھر پینچا اور علم ہوا تو بہت پریشان ہوا، پرس میں اصل شناختی کارڈ، سروس کارڈ، 2 اے ٹی ایم کارڈ اور بہت سے ضروری کاغذات کے علاوہ کچھ نقدی بھی تھی، مجھے پتہ تھا کہ اٹی ایم کارڈ اور نیا شناختی کارڈ وغیرہ بنوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اسکے لیئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا بہرحال جو ہونا تھا سو ہو گیا،اب پچھتائےکیا ہوت چڑیا چگ گئی کھیت، صبح 5 بجے میں نے احتیاط گھر سے فیض آباد تک مری روڈ کا ایک چکر بھی لگایا کہ شاید پرس کہیں پڑا ہوا مل جائے اور راستے میں موجود پولیس چیک پوسٹ پر بھی اطلاع دی.
دوسرے دن مجھے تقریبا 11 بجے کے قریب ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی رسیو کرنے پر کالر نے مجھ سے پرس کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ رات فیض آباد سے اسلام آباد گھر آتے ہوئے مری روڈ پر کہیں گر گیا ہے، تب کالر نے مجھے اپنا نام شکیل عباسی بتایا اور مزید کہا کہ میں سوزوکی پک اپ کرائے پر چلاتا ہوں رات 10 بجے کے قریب مجھے متی روڈ پر راول چوک کے پاس سڑک کے عین درمیان پڑا ہوا ایک کالا پرس نظر آیا جس پر سے تیز رفتار گاڑیاں گذر رہی تھیں اور میری گاڑی بھی اوپر سے گذر گئی کچھ آگے جا کر میں نے گاڑی روکی اور اتر کر واپس آ کر پرس اٹھایا چیک کرنے پر اسمیں کچھ نقدی اور کارڈز ملے، میں جب واپس گھر پہنچا تو گھر والوں نے کہا کہ تم یہ پرس پھینک دو ورنہ تم پر الزام لگ جائے گا مگر میں نے کہا کہ میں اس پرس کے مالک کو ڈھونڈ کر پرس ضرور اس تک پہنچائوں گا. چونکہ پرس میں موجود کارڈز پر سندھ کا ایڈریس تھا اور کوئی فون نمبر نہیں تھا پھر میں نے کافی تگ و دو کے بعد اپنے ایک دوست کے ذریعے آپکے شناختی کارڈ نمبر پر رجسٹرڈ زونگ کا نمبر حاصل کیا اور اس پر کال کی تو آپکے گھر رابطہ ہوا اور گھر سے کسی صاحب نے آپ کا یہ نمبر دیا، آپکا پرس میرے پاس امانت ہے، اسنے اپنا پتہ بتاتے ہوئے کہا کہ آپ جب چاہیں اپنی امانت مجھ سے لے جائیں. دو دن بعد میں نے اس سے پرس وصول کیا اور اس میں موجود نقدی میں سے کچھ اس محنت کش ایماندار ڈرائیور کو دینا چاہیئے جسے لینے سے اس نے یہ کہہ کر سختی سے انکار کردیا کہ، صاحب کیوں آپ میری نیکی کو کاغذ کے ان چند ٹکڑوں کے عیوض پانی میں ڈالنا چاہتے ہیں اگر مجھے یہ لینے ہوتے تو میں یہ سارے روپے اپنی جیب میں ڈالتا اور پرس کہیں پھینک دیتا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے.
میں نے پرس چیک کیا جو کہ گاڑیوں کے ٹائروں
تلے روندے جانے کی وجہ سے پھٹ چکا تھا مگر تمام رقم، 2 اےٹی ایم کارڈ اصل شناختی کارڈ اور سروس کارڈ اور قرآن پاک کی ایک آیت لکھا کاغذ موجود تھے بس کارڈز کی کچھ فوٹو کاپیاں اور وزیٹنگ کارڈز بائیک کے کاغذات اور لائیسنس کی مائیکرو کاپی وغیرہ گم تھی جو کہ یقینا پرس گرنے سے نکل کر کہیں گر گئ ہونگی اور پھر گاڑیوں کے گذرنے سے اڑ گئی ہونگی اور رات کو کافی آندھی اور بارش بھی آئی تھی سو پانی میں گھل گئی ہونگی. مجھے نقدی سے زیادہ اصل کارڈز مل جانے کی خوشی تھی، میں شکیل عباسی کو لاکھوں دعائیں دیتا ہوا واپس آ گیا.
ہمارے ملک اور معاشرے میں ایسے ہزاروں شکیل عباسی ابھی زندہ موجود ہیں جو غریب تو ہیں مگر ایماندار اور خوددار ہیں اسی لیئے ہم بطور قوم لاکھوں برائیوں کے باوجود ابھی زندہ ہیں بس ضرورت اس بات کی ہیکہ ہمیں اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہیئے کہ وہ بڑے ہو کر شکیل عباسی بن سکیں. زندہ آباد شکیل عباسی زندہ آباد.
ایم اے راجا.
 
ایک واقعہ میرے کزن کے ساتھ بھی پیش آیا۔
وہ کراچی سے یہاں اسلام آباد آیا تھا۔ اور ائرپورٹ سے ٹیکسی کر کے ہمارے گھر آیا۔
جب اندر آ گئے تو کچھ دیر گپ شپ کے بعد اس کو اچانک اپنے لیپ ٹاپ کا خیال آیا جو اس نے ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دیا تھا۔ اور اٹھانا بھول گیا تھا۔
لیپ ٹاپ اس نے کچھ دن قبل ہی خریدا تھا۔ اب ٹیکسی والے کا نہ تو کوئی رابطہ نمبر تھا نہ ہی گاڑی کا نمبر۔
فوری طور پر نکل کر قریبی سٹاپس پر جا کر دیکھا۔ ایک بھائی ائر پورٹ کے ئے روانہ ہوا، کہ شاید واپس وہیں گیا ہو۔
خیر کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ٹیکسی والا خود گھر آ کر لیپ ٹاپ دے گیا۔ اور سب نے شکر ادا کیا۔ اور ٹیکسی ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا۔
 
Top