آپ کے ہاں سائلین کس طرح فریاد کرتے ہیں؟؟؟

مظہر آفتاب

محفلین
مجھے جو طریقہ سب سے منفرد لگا وہ ایک عورت جو اپنے بچے کو ساتھ لئے پھرتی ہے کہتی ہے میں نے منت مانی تھی کہ اگر بیٹا ہوا تو اسے مانگ کر کپڑے پہناوں گی۔ لاہور میں طرح طرح کے بھکاری ملتے ہیں موٹر سائیکل پر ایک خاتون کے ہمراہ یہ کہتے ہوئے اکثر پائے جاتے ہیں کہ پیٹرول ڈلوانا ہے ۔
 
پورے سات (۷) صفحہ تو نہ پڑھ سکا لیکن امید ہے یہ انوکھا اور جدید طریقہ ابھی تک دامِ تحریر میں نہ آیا ہوگا.
ابھی کچھ دن گزرے ایک دوست نے بتایا کہ دوپہر کے وقت وہ اپنے دفتر میں آرام فرمارہے تھے کہ اسی دوران خاتونِ خانہ کی گھبرائی ہوئی کال موصول ہوئی. اطلاع یہ ملی کہ انہی کی گلی میں ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی ہے اور ڈکیتی پر مزاحمت کے دوران زخمی ہونے والا شہری انہی کے دروازے کے آگے بےسدھ پڑا ہے. موصوف اس اطلاع پر حسبِ توفیق فکرمند ہوئے اور خاتونِ خانہ کو تسلی دے کر اس امید پر اطمینان سے دوبارہ آرام کرنے میں مصروف ہوگئے کہ بہرحال گلی میں اور لوگ بھی رہتے ہیں کوئی نہ کوئی خداترسی کاثبوت دے ہی دے گا. اور ایسا ہی ہوا.
جب رات کو ہمارے یہ دوست دفتر سے تھکےہارے گھر پہنچے تو گلی کے کونے پر ہی انہیں پورے واقع کی اطلاع مل گئی.
ہوا یہ تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دوافراد گلی میں داخل ہوئے اور گلی میں کھڑے غریب مسکین ٹھیلے والے کو لوٹنے لگے اس غریب نے دہائی دینے کیلئے آواز لگائی تو کمبختوں نے اسے زدوکوب کیا اور گلی میں ادھ موا چھوڑ کے بھاگ گئے بہرحال شورشرابے پر لوگ گھروں سے نکلے تو مظلوم ٹھیلے والا تڑپتا ہوا ملا. لوگوں نے پانی وغیرہ پلایا حالت درست کی تو وہ بلک بلک کے رونے لگا، پوچھنے پر پتا چلا کہ گھر کا خرچہ چلانے کیلئے ہزار پندرہ سو روپے رکھے تھے جو ڈاکو لوٹ کر لے گئے، اب گھر جائے بھی تو کس منہ سے؟۔۔ خیر محلے والوں نے مل ملا کر اس کا نقصان پورا کردیا۔ ہمارے دوست نے اس واقعہ پر غیر محتاط افسوس کا اظہار فرمایا اور گھر آگئے، پتا چلا کہ اس رقم میں ایک حصہ خاتون خانہ نے ان کی نیک کمائی سے بھی ملایا ہے کیونکہ بہرحال وہ شخص زخمی ہو کر انہیں کے دروازے پر گرا تھا۔
اگلے روز جب ہمارے دوست اپنی بیگم اور بچوں کو لیکر سسرائیل گئے تو ہوبہو وہی منظر کوچہءجاناںِ ماضی میں بھی وقوع پزیر ہو رہا تھا ۔۔ حد تو یہ ہے کہ جاناںِ ماضی یعنی حالیہ خاتون خانہ نے بھیگی آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز سے تصدیق کی کہ یہ تو وہی مظلوم آدمی ہے جسے کل بھی لوٹنے کے بعد زخمی حالت میں تڑپتا چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔۔
 
ہمارے پاس ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے، جس سے نوواردانِ گداگری مستفید ہو سکتے ہیں ، مثال کے طور پر ، ناظم آباد کے پل پر ایک معصوم سا بچہ بیٹھا رو رہا ہے اور قریب ہی ابلے ہوئے کابلی چنوں کی بالٹی الٹی پڑی ہے ۔۔ سیلف ایکسپلینٹری (self explanatory) منظر کو دیکھ کر بہت سے لوگ اپنی گاڑی کی کھڑکیوں سے دست فیاضی دراز کرتے ہیں، جس سے مظلوم کی مدد بھی ہو جاتی ہے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کی رفتار بھی کم ہوجاتی ہے تاکہ وہ بھی اس منظر کو دیکھ سکیں۔
 
ایک انتہائی معتبر صحافی دوست نے خبر دی کہ ایک بار مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہ نے اخباری کالم میں معاشرے میں موجود صلارحمی کے جذبے کی عملی تصویر دکھاتے ہوئے لکھا کہ سڑک پر ایک شخص سے اس کا سامانِ تجارت بکھر گیا ، پھر کیا تھا یکایک مذکورہ جذبے کے تحت عوام نے اس کی بھرپور مالی امداد کی، معتبر صحافی کا بیان ہے کالم پڑھتے ہیں ایڈیٹر نے عثمانی صاحب کو فون کیا اور بتایا حضور جو واقعہ آپ نے تحریر کیا ہے وہ اسی سڑک پر کئی ایک مرتبہ دوہرایا جاچکا ہے۔۔۔۔
ایک اور معتبر شاعر دوست کا بیان ہے کہ ان کے پرانے محلے میں ایک صاحب رہا کرتے تھے جو ہر جمعہ کو کسی دوردراز کی مسجد میں اسلام قبول کرتے ہوئے پائے جاتے تھے، اور اپنے مالی معاملات میں مسلمانوں کو بھرپور معاونت کا موقع فراہم کیا کرتے تھے۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اور ایسا بھی شخص اِن ہی ریل گاڑیوں پہ دیکھا جو دونوں بازووں سے محروم تھا اور گلے میں پڑیاں ڈال کے بیچ رہا تھا۔ بہت مطمئن۔

ہمارے ہاں بسوں میں ایک شخص آیا کرتا تھا جو دونوں بازوؤں سے محروم تھا۔ وہ عطر فروخت کیا کرتا تھا ۔ لوگ اُس سے عطر لے کر پیسے اُس کی جیب میں ڈال دیا کرتے تھے یعنی اُس نے اپنی معذوری کے باوجود لوگوں پر بوجھ بننا پسند نہیں کیا۔
 
جدید فن گداگری کا ایک آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ کسی خوشحال علاقے میں اگر گداگر کسی طور کسی شخص کو ہنسا دے یا اس کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئے تو مال مل ہی جاتا ہے ، "بچے برائے فروخت" کا بورڈ اٹھائے سڑک کے کنارے کھڑے ماں باپ اور دو چھوٹے چھوٹے پیارے سے بچوں کو دیکھ کر ہر شخص افسردہ ہو تا ہے ، ایسے میں جب کوئ گاڑی قریب آکر رکتی ہے اور بیگم صاحبہ اور صاحب کے ساتھ پچھلی سیٹ سے بچے بھی گاڑی کی کھڑکیوں سے آدھے آدھے باہر لٹک کر بہت معصومیت سے پوچھتے ہیں " سنو! تم اپنے بچے کیوں بیچ رہے ہو؟" گداگر اوٹ سے پنجرہ نکالتے ہوئے کہتا ہے " ارے نہیں بیگم صاحبہ، اپنے نہیں خرگوش کے بچے بیچ رہا ہوں۔۔ یہ دیکھیں"۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بس میں چیزیں بیچنے والے لوگوں میں دو لوگ اور یاد آتے ہیں۔

ایک صاحب بس میں مکھن بیچا کرتے تھے۔ یہ مقامی مکھن کی ٹکیہ فروخت کیا کرتے تھے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ یہ بہت خوش مزاج تھے اور اپنی باتوں سے مسافروں کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ بہت روانی سے بات کیا کرتے تھے اور بہت خوش اخلاق معلوم ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ ایک صاحب اور تھے۔ یہ کافی بزرگ تھے۔ یہ صاحب منجن بیچا کرتے تھے اور خود کو "قیامت کا اُدھار" کہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اُن سے بغیر پیسوں کے منجن لے جائیں اور آزمائش و اطمینان کے بعد جب اگلی بار ملاقات ہو تو پھر پیسے دے دیں۔

تاہم بعد میں یہ ڈراتے بھی تھے کہ اگر منجن پسند آنے کے بعد بھی پیسے نہ دیے تو پھر یہ قیامت کا اُدھار ہوگا اور وہ صاحب اس کی قیمت، قیامت کے دن لیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت سے لوگ بہت سے طریقوں سے مانگتے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ "صبح کا فقیر" اور "شام کا فقیر" کی روایت بھی دیہاتوں میں ہوا کرتی تھی۔ (ہمارے علاقے میں گداگر کے لیے فقیر کا لفظ عام مستعمل ہے۔۔ وضاحت اس لیے دے رہا ہوں کہ کوئی زود تصوف آدمی اس کے لغوی و صوفی معانی کی بحث نہ شروع کر دے)۔ بڑھتے ہوئے گداگروں نے ان کے درمیان بھی مقابلہ بازی کی فضا قائم کر دی۔ کوئی فقیر ہوا کرتا تھا۔ وہ صرف آٹا لیا کرتا تھا۔ محلے میں کوئی بھی اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتا تھا۔ اس طرح کے بہت سے گداگروں میں جو انداز آج تک مجھے یاد ہے۔ وہ ایک صبح کے فقیر کا ہوا کرتا تھا۔ اب احباب منع بھی کریں۔ تب بھی واقعہ تو میں سناؤں گا۔

پہلےکے فقیر سادہ ہوا کرتے تھے کہ آٹا اور کھانا وغیرہ لے لیا کرتے تھے آج کو تو نقد سے کم پر سودا نہیں کرتے۔ :)

ہمارے محلے میں یہ فقیر صرف جمعے والے دن فجر کی نماز کے فورا بعد آیا کرتا تھا۔ اس کا انداز بہت ہی عجیب تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی ہوا کرتی تھی۔ جس کے ایک سرے سے یہ دروازوں پر دستک دیتا جاتا تھا۔ ہر دروازہ صرف ایک بار کھٹکھٹاتا۔ محض ایک بار۔ اس کی آواز ایک تسلسل سے گونجا کرتی تھی۔ "حق حق اللہ، حق حق اللہ۔ حسین دا ابا۔ سب دا مولا۔ حق حق اللہ۔ حق حق اللہ"۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس کے علاوہ کبھی اس کو کچھ اور کہتے سنا ہو۔ یہ رکا نہیں کرتا تھا۔ بس گذرتا جاتا تھا۔ اگر کوئی اس کو روک لیتا۔ تو یہ اپنی اسی جگہ پر رک جاتا۔ اور واپس نہیں آیا کرتا تھا۔ اگر کسی کو کوئی چیز دینی ہوتی تھی۔ تو وہاں جا کر دے کر آنی پڑتی تھی۔ بہت دلچسپ ادا تھی۔

خوب !

یہ اُس قسم کا فقیر لگ رہا ہے جو علیم الحق حقی صاحب کی کہانیوں میں آ جایا کرتا تھا۔ :)

مدتوں مجھے اس کو دیکھنے کی بہت حسرت رہی۔ یہ حسرت بھی ایک دن پوری ہوئی۔ لیکن بات طویل ہوجائے گی۔ اور شاید موضوع سے بھی ہٹ جائے۔

بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ سنائیے ایسی کیا بات ہے یہ محفل یہاں رات بیتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
لاہور میں گداگر گالیاں بھی بکتے ہیں۔ اگر آپ ان کو روپے پیسے نہ دو تو یہ گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں سب سے خطرناک قسم کھسرے حضرات کی ہے۔ وہ تو پنجابی کی زبان زد عام گالیوں کا بہت روانی سے استعمال کرتے ہیں۔

پہلے زمانے میں فقیر لوگ دعائیں دیا کرتے تھے لیکن یہ گداگر تو گالیاں ہی دیں گے۔ شاید کچھ نہ کچھ مل جانے پر بھی گالی ہی دیتے ہوں کہ دیکھا کیسا 'بیوقوف' بنایا۔ :)

سب سے خطرناک قسم جس کا آپ نے ذکر کیا وہ اب کراچی میں بہت بڑھتے جا رہے ہیں اور سنتے ہیں کہ اِن میں سے بہت سے تو صرف پیسہ کمانے کے لئے سوانگ رچائے ہوئے ہوتے ہیں۔ :)
 
مختلف اشاروں پر لڑکے اور لڑکیاں اخبار بیچ رہے ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ رو رہے ہوتے تھے۔ جیسے کہ شدید پریشانی میں ہوں۔ اور لوگ ہمدردی میں مدد بھی زیادہ کرتے ہیں۔
ایک آدھ تک تو معاملہ درست لگتا تھا، لیکن جب ایک تسلسل سے مختلف افراد کو یہی طریقہ اپنائے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نیا طریقہ ہے یہ۔
2010 اور 2011 میں عموماً ہر دوسرے تیسرے دن ایف-11 سے ایف-6 آنا جانا پڑتا تو میں مارگلہ ایوینیو استعمال کرتا تھا۔ مجھے شاہین چوک پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ کبھی کبھار ان اخبار فروش لڑکیوں اور لڑکوں کو ہاتھ میں کتابیں تھامے بھی دیکھا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
2010 اور 2011 میں عموماً ہر دوسرے تیسرے دن ایف-11 سے ایف-6 آنا جانا پڑتا تو میں مارگلہ ایوینیو استعمال کرتا تھا۔ مجھے شاہین چوک پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ کبھی کبھار ان اخبار فروش لڑکیوں اور لڑکوں کو ہاتھ میں کتابیں تھامے بھی دیکھا تھا۔
پہلی نظر دیکھا تو پریشان ہو گیا کہ آپ ہر دوسرے تیسرے دن ایف سولہ پر سواری کرتے تھے، پھر خیال آیا کہ ایف 11 کب پاکستان آیا؟
 
ہمارے ہاں گن پوائنٹ پر
مانگنے کا رواج پایا جاتا ہے بندہ سب کچھ دیے کر بھی کہتا ہے بھائی جان کچھ اور چاہیے کہ ہم جائے فرمابرداری سے اجازت لیتے ہیں​
 

اے خان

محفلین
ہمارے گھر ہر صبح،دوپہراور شام کوہستانی بچے آتے ہیں اور صدا لگاتے ہیں.وظیفہ راکے اللہ مو اوبخہ (کھانے کی اشیاء مانگتے ہیں)
 
Top