مکمل آدم بو ۔ منشا یاد

فرخ منظور

لائبریرین
آدم بو
(تحریر:منشا یاد)
جب سے ساتھ والے گاؤں میں نوجوان مولوی منظور درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر آیا ہوا ہے مولوی اللہ رکھا کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔
اور اگرچہ ان کے شاگرد، نائب اور خدام ان کی ہمت بڑھاتے اور اس کل کے چھوکرے کا مکو ٹھپ دینے کی یقین دہانیاں کراتے رہتے ہیں لیکن انہیں اپنا ستارہ گردش میں نظر آتا ہے اور اگرچہ مولوی منظور نے ابھی تک ان کے خلاف زبان نہیں کھولی مگر انہیں یقین ہے کہ وہ اس کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے اور مناسب موقع پا کر ضرور ان سے اپنے باپ کا بدلہ لے گا جس کے خلاف انہوں نے فتوٰی دیا اور اسے بڑی مسجد سے بے دخل کرایا تھا۔ ویسے بھی نوجوان مولوی جس قسم کے خیالات کا پرچار کر رہا ہے اور جس طرح عام لوگوں اور کمی کاریوں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے وہ ان کے لئے کسی بڑے خطرے کی علامت ہے۔ انہیں اپنے برسوں کے تجربے اور سرکردہ لوگوں سے گہرے تعلقات کی وجہ سے اعتماد ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ پتہ نہیں نوجوان مولوی درسگاہ سے کیا کیا نئی باتیں سیکھ کر اور کس سانچے میں ڈھل کر آ گیا ہو اور اسے جوعلم کا جن چمٹا ہوا ہے وہ کب تک چمٹا رہے اورشنید ہے کہ اب تو اس نے اپنے وعظ میں تاریخ، جغرافیے اور کتی سائنس کی باتیں شامل کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔
مولوی اللہ رکھا کے احباب اور خیر خواہوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ وقتی اور ہنگامی ہے۔ جونہی نوجوان مولوی کے پاؤں زمین پکڑیں گے وہ اپنے آپ میں آ جائے گا۔مگر مولوی اللہ رکھا کی تشفی نہیں ہوتی انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ خود ایک بار پھر سے پیدا ہو کر اپنے مقابلے پرآ نکلے ہیں اور سب کچھ تہ و بالا کر کے رکھ دیں گے۔
برسوں پہلے کی بات ہے۔
مولوی احمد دین کا پہلی بیوی سے ایک ہی لڑکا تھا۔ سوتیلی ماں کی گالیوں اور بدسلوکیوں سے عاجز آ کر وہ قصے کہانیوں میں پناہ لیتا لیکن پھر یہی قصے اور کہانیاں اس کے لئے عذاب الیم بن گئیں۔
گاؤں میں داخل ہونے یا باہر جانے کے لئے ایک ہی بڑا راستہ تھا اس راستے پر ایک بدصورت دیو ہر وقت بیٹھا آدم بو، آدم بو پکارتا رہتا تھا۔ لوگ اسے بڑا ملک کہتے تھے۔ وہ سچ مچ بہت بڑا تھا۔ اس کے سامنے جا کر ہاتھی سکڑ کر چوہے اور چوہے پدی بن جاتے تھے۔ دو تہائی گاؤں کا مالک اور لمبے چوڑے خاندان کا سربراہ۔ دیکھنے میں بھی ہیبت ناک۔ باسی گوشت کا پہاڑ۔۔ اس کی آواز اس کی شکل و صورت کی طرح مکروہ اور خوفناک تھی۔ اس کا جب اور جسے جی چاہتا بلوا لیتا۔غریب کسان، کمی کاری اور ان کے بچے اکثر بیگار میں پکڑے رہتے۔ کسی میں انکار کی جرأت نہیں تھی۔ انکار کی صورت میں وہ نہایت فحش گالیاں دیتا اور جوتے مار مار کر شکل بگاڑ دیتا تھا۔
چوریوں،ڈاکوں، رسہ گیریوں، قتلوں اور مقدموں سے فراغت پا کر اب وہ سارا دن ڈیرے میں بیٹھا حقہ گڑگڑاتا اور کمی کاریوں سے پاؤں دبواتا،مالش کراتا، چلمیں بھرواتا اور پنکھا جھلواتا رہتا تھا۔ اللہ رکھا کے ذمے اس کی تفریح طبع کا کام تھا۔ پتہ نہیں اس کی سمجھ میں کچھ آتا تھا یا نہیں مگر وہ اکثر اس سے سوہنا و زینی کا قصہ سنتا تھا۔ اسے دوسرا کوئی قصہ یا کتاب پسند نہیں تھی اور سوہنا و زینی کا قصہ اس نے اسے اتنی بار سنایا تھا کہ اسے خود زبانی یاد ہو گیا تھا۔ مگر بڑا ملک ہر دفعہ اتنی دلچسپی سے سنتا تھا جیسے زندگی میں پہلی بار سن رہا ہو۔۔ وہ یہ قصہ سنا سنا کر تنگ آ گیا تھا اور انکار نہ کر سکنے کی اذیت میں مبتلا رہنے لگا تھا۔ وہ بدبو جو اسے بڑے ملک کے جسم سے آتی تھی اب کتاب کے اوراق اور لفظوں سے بھی آنے لگی۔ قصہ پڑھتے پڑھتے اس کا دماغ بدبو سے بھر جاتا اور اسے متلی آ جاتی، وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ایک طرف کو بھاگ جاتا، پھر فراغت پا کر دوڑتا ہوا آتا اور ایک کل کی طرح دوبارہ قصہ پڑھنے لگتا۔
کئی بار اس نے انکار کر دینا چاہا مگر بڑے ملک کا پیغام ملتے ہی وہ اپنے یا بڑے ملک کے مر جانے کی دعائیں مانگتا ہوا بھاگم بھاگ اس کے ڈیرے پر پہنچ جاتا اور اس وقت تک گلا پھاڑ پھاڑ کر قصہ گاتا رہتا جب تک کہ بڑا ملک خود ہی جمائیوں کے کئی گڑھے پھاند کر نیند کے کسی اندھے کنوئیں میں نہ گر جاتا۔
اس نے کئی بار اپنے باپ مولوی احمد دین سے اپنی تکلیف اور خوف کا اظہار کیا لیکن وہ بھی بے بس تھا۔اس نے کئی بار سوچا بڑے ملک کو قتل کر کے پھانسی لگ جائے مگر بڑے ملک کے سامنے جا کر اس کی گھگھی بندھ جاتی۔
پھر ایک روز وہ سوتیلی ماں کی بدسلوکیوں اور بڑے ملک کے جسم سے اٹھنے والی سڑاند سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ گیا اور سینکڑوں میل دور ایک دینی مدرسے کے درویش طالب علموں کی صف میں شامل ہو گیا۔
چند سال دینی، اخلاقی اور روحانی تعلیم حاصل کرنے اور درویشانہ زندگی گزارنے کی تربیت حاصل کر کے جب وہ درسگاہ سے نکلا تو اس کے سامنے زندگی کا بے حد وسیع میدان تھا۔ وہ ایک عالم با عمل تھا اور اس کا سینہ محبت،علم اور غمگساری کے جذبات سے لبریز تھا۔۔ وہ گاؤں آیا تو بڑا ملک اپنے ڈیرے میں تخت پوش پر موجود نہیں تھا۔ اس نے صدق دل سے اس کے لیے مغفرت کی دعا کی لیکن وہ گاؤں میں مستقل قیام نہ کر سکا اور دوبارہ عازم سفر ہوا۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر گاؤں کے ان لوگوں کے درمیان،جن کے سامنے وہ بچپن میں ننگا پھرتا رہا تھا اور ان دوستوں اور ہم عمروں میں جن کے ساتھ تالابوں میں نہاتا، کبڈی کھیلتا، بیر توڑتا اور سوتیلی ماں سے مار کھاتا رہا تھا اسے اپنی خود کو منوانے اور اپنا مدعا بیان کرنے میں مشکل پیش آ سکتی تھی اور وہ صرف اپنا مدعا بیان نہیں کرنا چاہتا تھا وہ بہت کچھ بدل دینا،بہت کچھ تہہ و بالا کر دینا چاہتا تھا۔
مولوی اللہ رکھا نے اس نئے گاؤں میں آ کر واقعی بہت کچھ بدل ڈالا تھا۔ ان سے پہلے گاؤں کے نیم خواندہ امام مسجد نماز پڑھانے، بچے کے کان میں اذان دینے، بھیڑ بکری ذبح کرنے اور جنازہ پڑھانے کا معاوضہ لیتے تھے ہر فصل کے موقع پر دوسرے کمی کاریوں کی طرح بوہل میں ان کا بھی حصہ ہوتا۔ عید بقر عید پر وہ مسجد میں کپڑا بچھا دیتے اور عید کی نماز پڑھانے کے عوض لوگوں سے غلہ اور نقدی وصول کرتے۔ نماز پڑھا کر وہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے اور پھر چھوٹی اور بڑی کھالوں کے بیوپار میں الجھے رہتے۔ ان کا حکم تھا کہ انڈہ کھانے کے لئے اس پر بھی تکبیر پڑنا ضروری ہے کیونکہ اس میں بھی جان ہوتی ہے لوگ انہیں تین انڈوں پر تکبیر پڑھانے پر ایک انڈہ بطور معاوضہ دیتے کیونکہ صحیح طریقے سے تکبیر تو وہی پڑھ سکتے تھے۔ مگر مولوی اللہ رکھا نے یہاں آ کر ان سب قبیح رسموں اور روایتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ پرانے مولوی صاحب لاکھ چیختے چلاتے رہے اور طرح طرح کے الزامات لگاتے اور کہتے رہے کہ وہ خلاف شرع باتیں بتاتا ہے مگر لوگ شریعت کی ان باتوں کو جلدی اور آسانی سے سمجھ لیتے ہیں جن میں ان کا فائدہ ہو چنانچہ مولوی اللہ رکھا کی کامیابی کی پتنگ اونچی اور اونچی اڑنے لگی اور چھوٹی اور بڑی مسجدوں کے جدی پشتی امام صاحبان گاؤں سے ہجرت کر کے گئے یا انہوں نے اپنا آبائی کام چھوڑ کر کوئی دوسرا کام دھندہ شروع کر دیا۔
مولوی اللہ رکھا نذر نیاز نہیں لیتے تھے۔ بڑے درویش صفت انسان تھے۔ مفت خوری سے سخت پرہیز کرتے اور خود محنت کر کے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ وہ دن بھر اینٹیں ڈھوتے، لائیاں کرتے، مویشی چراتے، بان کی رسیاں اور چارپائیاں بنتے۔۔ اور بغیر کسی فیس یا معاوضے کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے۔ لوگ ختم پڑھوانے کے لئے حلوے، کھیریں، سیویاں اور پراٹھے لاتے وہ ان کی دل شکنی کے ڈر سے ختم پڑھ دیتے مگر کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاتے، لوٹا دیتے یا کسی غریب یا بیوہ کے ہاں بھجوا دیتے۔ وہ مسجد کے حجرے میں رہتے تھے۔ خود مسجد میں جھاڑو دیتے، صفائی کراتے، چراغ جلاتے، نمازیوں کے وضو کے لئے حوض میں پانی بھرتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو اذان دیتے۔ لوگ ان کی بے حد عزت کرتے اور ان سے محبت بھی۔ مگر جب وہ منبر پر کھڑے ہوتے تو ان کی آواز سے آس پاس کے گھروں کی دیواریں لرزنے لگتیں۔گنہگاروں اور دوسروں کا حق مارنے والوں کے دلوں پر ہیبت طاری ہو جاتی۔ خدا کے سوا وہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے۔
پھر انہوں نے کچھ عرصہ بعد ایک ایسی غریب بیوہ سے نکاح کر لیا جس کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق ہو گئی تھی۔ مولوی صاحب سے نکاح کے بعد بی بی جی کے سوئے ہوئے نصیب جاگ اٹھے اور چند ہی برس میں گھر بچوں سے بھر گیا۔
مولوی صاحب ہمیشہ سے روکھی سوکھی کھا کر وقت گزارتے آئے تھے۔ بی بی جی نے بھی ان کا بہت عرصہ تک ساتھ دیا اور عسرت اور فاقوں کی زندگی گزارنے پر بھی خدا کا شکر ادا کرتی رہیں مگر پھر بچوں کی وجہ سے مولوی صاحب سے چوری چھپے کھانے پینے کی کوئی چیز قبول کر لیتیں۔ مولوی صاحب کو پتہ چلا تو شروع شروع میں بہت خفا ہوئے مگر پھر یہ سوچ کہ بچوں کو فاقوں مارنا اور اچھی چیزوں کے لئے ہمیشہ ترساتے رہنا مناسب نہیں،خاموش ہو گئے
پھر ایک بار ذیلدار کا چالیسواں تھا اس کے متمول بیٹوں نے اسے بڑا کیا یعنی چالیسویں کا غیر معمولی اہتمام کیا۔پوری برادری کو کھانے کی دعوت دی اور ختم کے موقع پر مولوی صاحب کے سارے کنبے کے کپڑے اور دنیا جہان کی نعمتیں، پھل اور میوے حاضر کئے۔ مولوی صاحب پریشان ہو گئے۔ ختم پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کے پھٹے پرانے کپڑے اور ترسی ہوئی صورتیں گھوم گئیں۔انہوں نے گلو گیر آواز میں کہا۔
’’میں کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔۔ کسی کمی کے ہاتھ سب چیزیں ہمارے گھر پہنچا دی جائیں۔‘‘
اور جس طرح شیر عام طور پر آدمی پر حملہ نہیں کرتا مگر جب ایک بار اس کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو آدم خور ہو جاتا ہے،مولوی اللہ رکھا کے منہ کو بھی جب مفت کا حلوہ مانڈا ایک بار لگ گیا تو پھر لگتا ہی چلا گیا۔ اور آہستہ آہستہ وہ پہلے مولوی صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے۔
اور اب اتنے برسوں بعد۔۔ مولوی اللہ رکھا کی امامت کا دائرہ اپنی مسجد سے نکل کر آس پاس کے کئی ایک چھوٹے بڑے دیہات کی مسجدوں تک پھیل گیا ہے۔ ان مسجدوں میں ان کے نائب امام آمدنی کے ایک تہائی حصے پر کام کرتے ہیں، وہ خود ہفتے میں ایک دو بار ہر مسجد میں نماز پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے نہایت محنت، ہوشیاری اور اپنے زور خطابت کی وجہ سے ایک ایک کر کے ان مسجدوں پر قبضہ کیا ہے اور دیہات کے وڈیروں اور زمینداروں میں اپنے اثر و رسوخ اور رموز شریعت سے آگاہی کی بنا پر نیم خواندہ ملاؤں کو بے دخل کیا ہے ان کا شمار علاقے کے اچھے کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ ہر کسی کے کام آتے ہیں۔وہ ہاڑی ساؤنی کے کارے پر نہایت تھوڑے منافع پر بڑی بڑی رقمیں قرض دے دیتے ہیں۔فصل، زمین یا مویشی رہن یا زیور گروی رکھنے کے لئے لوگ انہی کے پاس آتے ہیں کہ وہ نہایت دیانتدار اور قابل اعتماد ہیں۔کسانوں اور کمی کاریوں نے ہی نہیں بڑے بڑے زمینداروں نے ان سے منافع پر موٹی موٹی رقمیں لے کر ٹیوب ویل لگوائے اور ٹریکٹر خریدے ہیں۔ مولوی صاحب نے اپنا بہت بڑا اور محل نما پکا مکان بنا لیا ہے اور اس میں بجلی لگوا لی ہے انہیں کسی سے کچھ مانگنے یا کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی لوگ خود ہی ہر چیز میں سے اللہ کا حصہ نکال کر ان کو پہنچا دیتے ہیں۔
وہ بہت اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے مگر جب سے نوجوان مولوی منظور درسگاہ سے لوٹا اور قریب والے گاؤں کی ایک مسجد سنبھال بیٹھا ہے ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ مگر انہیں یہ سوچ کر قدر ے اطمینان ہوتا ہے کہ لوگ کئی طرح سے ان کے محتاج ہیں اور پھر مولوی منظور کو ان کی طرح تعویذ گنڈا نہیں آتا بلکہ وہ اسے شرک سمجھتا ہے اور وہ خود محض امام مسجد ہی نہیں آس پاس کے دیہات کے واحد طبیب بھی ہیں اور بعض با اثر لوگوں کے خفیہ نکاحوں اور دوسرے بہت سے اہم رازوں کے امین بھی۔۔!
ہر جمعہ کی شام کو وہ مولوی منظور کے گاؤں سے آنے والی رپورٹ کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں ان کا کوئی خادم یا وفادار مولوی منظور کے جمعے کے وعظ میں شریک ہو جاتا ہے اور تمام حالات سے انہیں باخبر رکھتا ہے۔ مولوی منظور کے مقتدیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اب انہیں رمضان شریف کے پہلے جمعے کا انتظار ہے۔ رمضان شریف شروع ہوتے ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں ایک دم غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے اور لوگ پند و نصائح اور وعظ و تلقین کی باتوں پر خصوصی توجہ دینے لگتے ہیں۔ اس پورے علاقے میں دو ہی جگہ جمعے کی نماز کے اجتماعات ہوں گے اور نمازیوں کی تعداد سے ان کے اور مولوی منظور کے درمیان ایک طرح کا الیکشن ہو جائے گا۔
رمضان کے پہلے جمعے کی شام کو ان کا ایک خادم پریشان حال لوٹتا ہے تو ان کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ مولوی منظور کے مقتدیوں کی تعداد کسی طرح ان کے اپنے نمازیوں کی تعداد سے کم نہیں ہے۔۔ انہیں اسی بات کا ڈر تھا۔ ان کا رنگ اڑ جاتا ہے اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اس رات تراویح کی نماز پڑھاتے ہوئے انہیں ایک عرصہ بعد لقمہ ملتا ہے اور ابھی وہ لقمہ سے سنبھل نہیں پاتے کہ سجدہ سہو پڑ جاتا ہے۔
رات کو وہ تھکے تھکے اور نڈھال سے گھر لوٹتے ہیں اور دالان میں بچھی ہوئی بہت سی چھوٹی بڑی چارپائیوں کے قریب سے گزر کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چھت پر آتے ہیں۔ بی بی جی ان کی آہٹ سن کر لمحہ بھر کے لئے جاگتی ہیں پھر مچلی ہو کر مصنوعی خراٹے لینے لگتی ہیں۔ وہ اپنے سرہانے تپائی پر رکھا ٹھنڈے میٹھے دودھ کا ارک جتنا گلاس اٹھاتے اور مزے لے لے کر گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں۔ لیکن اچانک انہیں ایک جانی پہچانی مگر ناگوار سی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور جی متلانے لگتا ہے۔ وہ دودھ کا گلاس تپائی پر رکھ دیتے ہیں اور ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہیں انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مگر بدبو کے بھبکے لپکتے چلے آتے ہیں۔ اچانک انہیں یاد آتا ہے کہ یہ بدبو ویسی ہی ہے جیسی بڑے ملک کے جسم سے اٹھتی تھی۔ وہ قے روکنے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر وہ نہیں رکتی۔
 
Top