آبِ گُم - شہر دو قصہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے

اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے

میں نے اس کا دل خوش کرنے کے لیے کہا “ چاچا تم تو بالکل ویسے ہی ٹانٹھے رکھے ہو۔ کیا کھاتے ہو؟“ یہ سنتے ہی لاٹھی پھینک، سچ مچ سینہ تان کے، بلکہ پسلیاں تان کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا :

“ صبح نہار منھ چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ ایک فقیر کا ٹوٹکا ہے۔ کچھ دن ہوئے محلے والے میرے کنے (پاس) وفد بنا کے آئے۔ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میرے سامنے بات کرنے کا ہیاؤ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کہا برخوردار، کچھ منھ سے پھوٹو۔ عرض اور غرض میں کاہے کی شرم۔ کہنے لگے، چاچا تم لاولد ہو۔ دوسری شادی کر لو۔ ابھی تمہارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ جس دوشیجا کر طرف بھی چشمِ آبرو سے اشارہ کر دو گے، کچھ دھاگے میں بندھی چلی آوے گی۔ ہم بقلم خود پیام لے کے جائیں گے۔ میں بولا، پنچایت کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ جوان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ کے جواب دوں گا۔ کس واسطے کہ میری ایک مستوارت مر چکی ہے۔ یہ بھی مر گئی تو تاب نہیں لا سکوں گا۔ ذرا دل لگی دیکھو۔ ان میں کا ایک چرب زبان لونڈا بولا کہ چاچا، ایسا ہی ہے تو کسی پکی عمر کی سخت جان لگائی (عورت) کے ساتھ دو بول پڑھوا لو۔ بلقیس دو دفعہ رانڈ ہو چکی ہے۔ میں نے کہا ہشت،

“کیا خوب گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ“​

صاحب، ملیدے کے استعارے کو اب کون سمجھے گا۔ یوں کہیے کہ شکار مردہ سزاوارِ شہباز نہیں۔ میں نے چھیڑا “ چاچا اب بڑھاپے میں نئی روشنی کے بے کہی بیوی سے نباہ کرنا، اسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔“

بولا “ میاں، آپ نے وہ پرانی مثل نہیں سنی کہ ہزار لاٹھی ٹوٹی ہو، پھر بھی گھر بھر کے برتن باسن توڑنے کو بہت ہے۔“

یہ کہہ کر لاٹھی پہ سر ٹیک کے اتنے زور سے ہنسا کہ دمے کا دورہ پڑ گیا۔ دس منٹ تک کھو کھو گھس گھس کرتا رہا۔ مجھے تو ہول آنے لگا کہ سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گوتم بدھ بطور پیپر ویٹ

گوتم بدھ بطور پیپر ویٹ

ایک دن ملا عاصی سے طے پایا کہ اتوار کو لکھنؤ چلیں گے۔ اور وہ شہرِنگاراں دیکھیں گے جس پر شامِ اودھ ختم ہوئی۔ لکھنؤ کے شیدائی اور ترجمانِ شیوا بیان مولانا عبد الحلیم شرر نے اودھ کے تمدن کا یہ باب ایک ڈوبتے سورج کی سرخی شفق سے رقم کیا ہے۔ میرا اصرار تھا کہ تم ساتھ چلو۔ چالیس برس بعد تنہا دیکھنے کا کس میں حوصلہ تھا۔ لوگوں نے ڈرا دیا تھا کہ زندگی اور زندہ دلی کا وہ مرقع جس پر ساری رونقیں، رعنائیاں اور رنگینیاں ختم تھیں - حضرت گنج - اب حسرت گنج دکھلائی دیتا ہے۔ صاحب لکھنؤ haunted (آسیب زدہ) شہر ہو یا نہ ہو، اپنا تو ہائنٹڈ ذہن ہئی ہے۔ مجھے تو ایک صاحب نے یہ کہہ کر بھی دہلا دیا کہ تمہیں چار باغ ریلوے اسٹیشن کا نام اب صرف ہندی میں لکھا نظر آئے گا۔ سارا لکھنؤ چھان مارو، کہیں اردو میں سائن بورڈ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ قبروں کے کتبے اب بھی نہایت خوشخط اردو میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسا پاکیزہ خط اور ایکے موتی پرونے والے خطاط تمہیں ڈھونڈے سے پاکستان میں نہیں ملیں گے۔ میں مہمان تھا۔ چپکا ہو رہا۔ دو دن قبل ایک دلی والے سے سیدھے سبھاؤ کہیں یہ کہہ دیا کہ دلی کی نہاری اور گولے کے کباب دلی کی بسبت کراچی میں بہتر ہوتے ہیں۔ ارے صاحب وہ تو سر ہو گئے۔ میں نے کان پکڑے۔

عاصی وقتِ مقررہ پر نہیں آئے۔ پہلے تو غصہ آیا۔ پھر تشویش ہونے لگی۔ رکشا پکڑی اور ان کے حجرہ دلکشا گیا۔ دری پر بوسیدہ کاغذات، فائلیں اور تیس برس کے سیکڑوں بل اور رسیدیں پھیلائے، ان کے بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھے تھے۔ مینڈک کی طرح پھدک پھدک کر مطلوبہ کاغذ تک پہنچے تھے۔ جس کاغذ کا بعد میں بغور معائنہ کرنا ہو اس پر بدھ کی مورتی رکھ دیتے۔ تین بدھ تھے ان کے پاس، آنکھیں موندے ہولے ہولے مسکراتا ہوا بدھ، بیوی کو سوتا چھوڑ کر گھر سے جاتا ہوا جوان بدھ، مہینوں کے مسلسل فاقے ہڈیوں کا پنجر بدھ۔ ان تینوں بدھوں کو وہ اس وقت پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ میں تیز تیز چل کے آیا تھا۔ پسینے میں شرابور، ململ کا کُرتا پیاز کی جھلی کی طرح چپک گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے پنکھا “ آن “ کیا تو سوئچ کے شاک سے پچھاڑ کھا کے فرش پر گرا۔ خیر، صاحب، اسے آن کرنا تھا کہ کمرے میں آندھی آ گئی اور سیکڑوں پتنگیں اُڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کو نظر آنے بند ہو گئے۔ ان کا تیس سالہ فائلنگ سسٹم محوِ پرواز تھا۔ انہوں نے لپک کر لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور پنکھا بند کیا۔ چالیس پچاس سال پرانا پیتل کا سوئچ شاک مارتا ہے۔ آن اور آف کرنے سے پہلے کھڑاؤں نہ پہنو تو موت واقع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ پھر انہوں نے دوڑ دوڑ کر اپنا دفترِ لخت لخت اس طرح جمع کیا جس طرح لونڈے پتنگ لوٹتے ہیں۔ کہنے لگے، بھائی معاف کرنا۔ آج لکھنؤ ساتھ نہ جا سکوں گا۔ ایک ناگہانی الجھیڑے میں پھنس گیا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مُرغا بننے کی فضیلت

مُرغا بننے کی فضیلت

صاحب، وہ الجھیڑا یہ تھا کہ نگر پالیکا (بلدیہ) نے پانی کا جو بِل انہیں کل بھیجا تھا، اس میں ان کے والد کا نام اعجاز حسین کے بجائے اعجاز علی لکھا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ “ سہوِ کتابت “ نوٹس نہیں کیا تھا۔ اب وہ گزشتہ تیس سال کے تمام بل چیک کر رہے تھے کہ اس غلطی کی شروعات کب ہوئی۔ کسی اور محکمے کے بل یا سرکاری مراسلے میں یہ سہو ولدیت ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کیوں ہے؟ اور نہیں ہے تو کیوں نہیں؟ ایک تحقیق طلب مسئلہ یہ بھی کھڑا ہوا کہ پانی کے محکمے کو ولدیت سے کیا سروکار۔ اسی کی ایک شق یہ نکلی کہ آیا اوروں کے بلوں میں بھی متعلقہ والد کی نشان دہی کی جاتی ہے یا نہیں۔ میں نے کہا، مولانا، بل “ پے“ کیجیئے اور خاک ڈالیے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بولے فرق کی بھی ایک ہی کہی۔ اگر باپ کے نام سے بھی فرق نہیں پڑتا تو پھر دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں پڑے گا۔ پانچویں کلاس میں، میں نے ایک دفعہ شاہجہاں کے باپ کا نام ہمایوں بتا دیا تو ماسٹر فاخر حسین نے مُرغا بنا دیا تھا۔ وہ سمجھے میں مذاق کر رہا ہوں۔ یہ غلطی نہ بھی کرتا تو کسی اور بات پر مُرغا بنا دیتے۔ اپنا تو طالبِ علمی کا سارا زمانہ اسی پوز میں گزرا۔ بنچ پر آنا تو اس وقت نصیب ہوتا تھا جب ماسٹر کہتا کہ اب بنچ پر کھڑے ہو جاؤ۔ اب بھی کبھی طالبِ علمی کے زمانے کے خواب آتے ہیں تو یا تو خود کو مُرغا بنا دیکھتا ہوں یا وہ اخبار پڑھتا ہوا دیکھتا ہوں جس میں میرا رولنمبر نہیں ہوتا تھا۔ مسٹر دوارکا داس چتر ویدی، ڈائرکٹر آف ایجوکیشن حال میں یورپ اور امریکا کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ سنا ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک نے مُرغا بنانے کا پوز “ ڈسکور “ ہی نہیں کیا۔ میں نے تو عاجز آ کر ترکی ٹوپی اوڑھنی چھوڑ دی تھی۔ مُرغا بنتا تو اس کا پھندنا آنکھوں سے ایک انچ کے فاصلے پر تمام وقت پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا تھا۔ دائیں بائیں۔ پیریڈ کے آخر میں ٹانگیں بری طرح کانپنے لگتیں تو پھندنا آگے پیچھے جھولنے لگتا۔ اس میں ترکوں کی توہین کا پہلو بھی نکلتا تھا جسے میری غیرت قومی نے گوارا نہ کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے کسی بھی قسم کی ٹوپی نہیں اوڑھی۔

میں نے فقرہ کسا، مہاتما بدھ تھی تو ننگے سر رہتے تھے۔ انہوں نے فقرہ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کبھی غور کیا، جب سے لڑکوں کو مُرغا بنانا بند ہوا ہے، تعلیمی اور اخلاقی معیار گر گیا ہے۔ ویسے تو میں اپنے شاگردوں کی ہر نالائقی برداشت کر لیتا ہوں، لیکن غلط تلفظ پر آج بھی کھٹ سے مُرغا بنا دیتا ہوں۔ جسم سے چپکی ہوئی جینز پہننے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس سے فارسی الفاظ کے تلفظ، آبدست اور مُرغا بننے میں دقت ہوتی ہے۔ مگر آج کل کے لونڈوں کی ٹانگیں پانچ منٹ میں ہی ناطاقتی سے لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ میں اپنے زمانے کے ایسے لڑکوں کو جانتا ہوں جو بیس بیس بید کھانے پر “ سی “ تک نہیں کہتے تھے۔ ایک تو ایس پی ہو کے ریٹائر ہوا۔ دوسرا دیہات سُدھار کے محکمے میں ڈائریکٹر ہو گیا تھا۔ اب ویسے شرارتی اور جی دار لڑکے کہاں، دراصل اس زمانے میں کیریکٹر بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ بس یوں سمجھو کہ جیسے کیمیا بنانے میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی تھی، اسی طرح آج کل کی تعلیم میں ایک بید کی کسر رہ جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک کٹورہ چاندی کا

ایک کٹورہ چاندی کا

اس دن سخت گرمی تھی۔ کوئی نصف صدی بعد ناریل کے ڈونگے سے پانی نکال کر اسی نقشین کٹورے سے پیا۔ اند سورۃ یاسین کندہ ہے۔ خالص چاندی کا ہے۔ آپ نے کٹورا سی آنکھ کا محاورہ سنا ہے؟ حضور میں نے دیکھی ہے۔ تو شام کو جب ہم فٹ بال کھیل کر لوٹتے تو اس پتلے کنارے کو ہونٹوں کے بیچ میں لیتے ہی لگتا تھا کہ ٹھنڈک رگ رگ میں اُتر رہی ہے۔ اسی کٹورے میں شہد گھول کے مُلا عاصی کو پیدا ہوتے ہیں ماں کے دودھ سے پہلے چٹایا گیا۔ اسی کٹورے سے نزع کے وقت ان کے دادا اور والد کے منھ میں آبِ زم زم چوایا گیا تھا۔ اب بھی آئے دن لوگ مانگ کے لے جاتے ہیں اور بیمار کو آبِ شفا پلاتے ہیں۔ میں نے پینے کو تو کٹورے سے پانی پی لیا۔ مگر عجیب لگا۔ کھدے ہوئے حروف میں کالا سیاہ میل جما ہوا تھا۔

صاحب، سچی بات یہ کہ پانی تو آج بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہے۔ کٹورا بھی وہی ہے۔ پینے والا بھی وہی۔ پر وہ پہلی سی پیاس کہاں سے لائیں۔

یوں تو گھر میں ایک مراد آبادی گلاس بھی ہے۔ انہی کا ہم عمر ہو گا۔ پہلی مرتبہ ان سے ملنے گیا تو ایک شاگرد کو دوڑایا۔ وہ کہیں سے ایک پڑیا میں شکر مانگ کر لایا۔ انہوں نے اسی گلاس میں الٹی پنسل سے گھول کر شربت پلایا۔ میں تو شکر کے شربت کا مزہ بھی بھول چکا تھا۔ ہمارے بچپن میں اکثر اسی سے مہمان کی تواضع ہوتی تھی۔ سوڈے اور جنجر کی بوتل تو صرف بد ہضمی اور ہندو مسلم فساد میں استعمال کی جاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
شیر (شاہ) لوہے کے جال میں ہے

شیر (شاہ) لوہے کے جال میں ہے

دیکھیئے، میں کہاں آ نکلا۔ بات بلوں سے شروع ہوئی تھی۔ جب انہوں نے اپنا دفتر پریشاں سمیٹ لیا تو میں نے پھر پنکھا آن کرنا چاہا، مگر انہوں نے روک دیا۔ کہنے لگے معاف کرنا۔ شیر شاہ علیل ہے۔ پنکھے سے بخار اور تیز ہو جائے گا۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس نام کا، بلکہ کسی بھی نام کا، کوئی بیمار نظر نہ آیا۔ اور نظر آتا بھی کیسے۔ شیرشاہ دراصل اس بیمار کبوتر کا نام تھا جو کونے میں ایک جالی دار نعمت خانے میں بند تھا۔ ایسے نعمت خانے، جنہیں لوگ گنجینے بھی کہتے تھے، اس زمانے میں ریفریجریٹر کی جگہ استعمال کیے جاتے تھے۔ حدودِاربع بھی کم و بیش وہی۔ لکڑی کے دو تین منزلہ فریم پر چاروں طرف لوہے کی مہیں جالی منڈھی رہتی تھی۔ جس کا ضمنی مصرف ہوا پہنچانا، لیکن اصل مقصد مکھیوں، بلیوں، چوہوں اور بچوں کو کھانے سے محروم رکھنا تھا۔ اس کے پایوں تلے بالعموم پانی سے لبریز چار پیالیاں رکھی ہوتی تھیں۔ جن میں ان چٹوری چیونٹیوں کی لاشیں تیرتی رہتی تھیں جو جان پر کھیل کے، یہ خندق پار کر کے ممنوعہ لذائذ تک پہنچنا چاہتی تھیں۔ یہ نعمت خانے ڈیپ فریزر اور ریفریجیریٹر سے اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ان میں رکھا ہوا بدمزہ کھانا نو دس گھنٹے بعد ہی سڑ جاتا تھا۔ اسے روز نکال نکال کے ہفتوں نہیں کھلایا جاتا تھا۔ ایسے نعمت خانے اس زمانے میں ہر متمول گھرانے میں ہوتے تھے۔ نچلے متوسط طبقے میں چھینکا استعمال ہوتا تھا۔ جب کہ غریب غربا کے ہاں روٹی کی اسٹوریج کے لیے آج بھی محفوظ ترین جگہ پیٹ ہی ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا نعمت خانہ 1953ء سے ملا عاصی کے بیمار کبوتروں کا Intensive Care Unit ہے۔ اس دن لکھنؤ نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بیمار کبوتر کو اکیلا چھوڑ کر سیر سپاٹے کے لیے جانا نہیں چاہتے تھے۔ ایک کبوتری نورجہاں اچانک مر گئی تو دس بارہ دن گھر سے نہیں نکلے۔ کیوں کہ اس کے بچے بہت چھوٹے اور بالکل گاؤدی تھے۔ انہیں سیتے رہے۔ دروپدی نام کی ایک انارا (سرخ آنکھوں والی) کبوتری کی چونچ ٹوٹ گئی۔ اسے مہینوں اپنے ہاتھ سے چوگا کھلایا۔ انہوں نے ہر کبوتر کا ایک نام رکھ چھوڑا ہے۔ اس وقت ایک لقہ کبوتر رنجیت سنگھ نامی دروازے کے سامنے سینہ اور دُم پھیلائے دوسرے فرقے کی کبوتریوں کے گرد اس طرح چکر لگا رہا تھا کہ اگر وہ انسان ہوتا تو فرقہ وارانہ فساد میں کبھی کا مارا جا چکا ہوتا۔ نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں “ شمار “ ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کبوتروں کی چھتری

کبوتروں کی چھتری

کبوتر بازی ان کا بہت پرانا شوق ہے۔ ان کے والد کو بھی تھا۔ میرے والد بھی پالتے تھے۔ کبوتر کی فضیلت کے تو آپ کے مرزا عبدالودود بیگ بھی قائل ہیں۔ سچے شوق اور ہابی کی پہچان یہ ہے کہ بالکل فضول اور بے مصرف ہو۔ جانور کو انسان کسی نہ کسی فائدے اور خود غرضی کے تحت پالتا ہے۔ مثلا کتا وہ دکھیارے پالتے ہیں جو مصاحب اور درباری افورڈ نہیں کر سکتے۔ بعض لوگ کتا اس مغالطے میں پال لیتے ہیں کہ اس اس میں برادرِ خورد کی خوبیاں ہوں گی۔ بکری اس غرض سے پالتے ہیں کہ اس کی مینگنی میں دودھ ملا کر جوابا اردو نقادوں کو پلائیں گے۔ ہاتھی زیادہ تر معتوب اُمرا پالتے تھے جنہیں بادشاہ سزا کے طور پر ہاتھ مع ہودہ نقرئی بخش دیتا تھا کہ جاؤ اب تمام عمر اسے کھلاتے ٹھساتے رہو۔ طوطے کو بڑے ارمانوں سے پالتے ہیں کہ بڑا ہر کے اپنی بولی بھول جائے گا اور ساری عمر ہمارا سکھایا ہوا بول دہراتا رہے گا۔ مولوی صاحبان مُرغے کی اذان فقط مُرغی کے لالچ میں برداشت کر لیتے ہیں۔ اور 1963ء میں آپ نے بندر محض اس لیے پالا تھا کہ اس کا نام “ ڈارون “ رکھ سکیں۔ لیکن صاحب کبوتر کو صرف اس لیے پالا جاتا ہے کہ کہ کبوتر ہے اور بس۔ لیکن مُلا عاصی کے ایک پڑوسی سعد اللہ خان آشفتہ نے قسم کھا کر کہا کہ ایک دن کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میں صبح چھ بجے گرم کشمیری چائے کی ایک چینک لے کر ان کے ہاں گیا۔ دیکھا کہ کمرہ یخ ہو رہا ہے اور وہ گرمائی کے لیے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک کبوتر دبائے بودھی ستو کی مورتی کے سامنے دھیان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غلو و غیبت بر گردنِ راوی۔

ایک صحبت میں کبوتروں کا ذکر چھڑ گیا تو کہنے لگے، میں نے سنا ہے، گو کہ یقین نہیں آتا، کہ کراچی میں کبوتروں کی ایک بھی چھتری نہیں۔ یارو، تم نے کیسا شہر بنایا ہے؟ جس آسمان پر کبوتر، شفق، پتنگ اور ستارے نہ ہوں ایسے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ بھائی ابرار حسین دسمبر 1973ء میں‌ کراچی میں تھے۔ دو مہینے رہے ہوں گے۔ مطلع مستقل ابر آلود رہا۔ صرف ایک دن دوربین کی مدد سے ایک ستارہ نظر آیا۔ وہ دمدار ستارہ تھا۔ کہہ رہے تھے کراچی میں لوگ ہم لکھنؤ والوں کی طرح پتنگ، تیتر، مرغ اند مینڈھے نہیں لڑاتے۔ خود لڑ لیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس محلے میں بھی اب نہ کوئی پتنگ اُڑاتا ہے، نہ کبوتر۔ لے دے کے یہی ایک چھتری رہ گئی ہے۔ لکھنؤ کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ اور ایک وہ زمانہ تھا کہ تمہارے جانے کے بعد دسمبر میں علیم الدین نے - بھئی وہی اپنا شیخ چلی لڈن - پاکستان جانے کے لیے بوریا بستر باندھ لیا تھا، مگر عین وقت پر ارادہ فسخ کر دیا۔ کس واسطے کہ ماسٹر عبدالشکور بی اے، بی ٹی نے اسے ڈرا دیا کہ تم ٹرین میں کبوتروں کی چھتری ہمراہ نہیں لے جا سکتے۔ اور چوری چھپے لے بھی گئے تو واہگہ سرحد پر پاکستان کسٹم والے نہ جانے کیا سمجھیں کے تمہیں دھر لیں۔ بھائی بشارت، تم تو ہجرت کر کے مہاجر بنے۔ ہم اپنے شہر میں بیٹھے بیٹھے ہی غریب الوطن ہو گئے۔ یہ وہ شہر تھوڑا ہی ہے۔ وہ شہر تو قصہ کہانی ہو گیا۔ آکار بدل چکا ہے۔ اب اس محلے میں 95 فیصد گھروں میں ویجی ٹیرین (سبزی خور) رہتے ہیں۔ ان کی بلیاں گوشت کو ترس گئی ہیں۔ چنانچہ سارے دن میری چھتری کے چوگرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ بھئی تمہیں تو یاد ہو گا، کوپر ایلن اینڈ کمپنی کا بڑا صاحب۔ کیا نام تھا اس کا؟ سر آرگھرانس کپ؟ اس کی میم جب ولایت سے سیامی بلی لائی تو سر آرتھر نے کانپور شہر کے سارے بلوں کو neuter (آختہ) کروا دیا تھا تا کہ بلی پاکدامن رہے۔ دو بنگلے چھوڑ کر اجمل بیرسٹر رہتے تھے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے تھے کہ ایک رات ان کے کتے کو بھی پکڑ کر احتیاطاً آختہ کروا دیا۔ سن اکتالیس کا قصہ ہے۔ Quit India تحریک سے ذرا پہلے۔

ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ وہ اب بھی ہنستے ہیں تو بچوں کی طرح ہنستے چلے جاتے ہیں۔ پھر آنکھیں پونچھ کر یکلخت سنجیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے کہ اب مجھ میں اتنا دم نہیں رہا کہ چھت پر آواز لگا کے سب کو کابکوں میں بند کروں۔ سدھے سدھائے کبوتر تو چراغ جلے خود آ آ کے کابک میں دبک جاتے ہیں۔ بقیہ کو شاگرد گھیر گھار کے بند کر دیتے ہیں۔ وہی دانہ چوگا ڈالتے ہیں۔ اشرافوں کے جتنے شوق تھے سب پہ زوال آ گیا۔ شہر میں جوار تک نہیں ملتی۔ پچاس میل دور ایک گاؤں سے منگواتا ہوں۔ پٹواری میرا شاگرد رہ چکا ہے۔ آج کل کسی گریجویٹ کو پکڑ کے پوچھ دیکھو۔ جوار، باجرے اور کنگنی کا فرق بتا دے تو اسی کے پیشاب سے اپنی بھویں منڈوا دوں۔ ننانوے فیصد نے زندگی میں جَو بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ اماں، کیا کراچی کا بھی یہی حال ہے؟ مگر تیورس کے سال ایک کرم فرما اس شغل میں میرے توغل کے پیشِ نظر (دیکھیے یہاں بھی ملا کے منھ سے ماسٹر فاخر حسین بول رہے ہیں) کراچی سے سوغات میں ایک ناول لائے، “ دلی کی شام “۔ کوئی جید عالم ہیں پروفیسر احمد علی۔ بھئی خوب لکھتے ہیں۔ دلی کے روڑے لگتے ہیں۔ ان کے انگریزی ناول کا بامحاورہ ترجمہ ہے۔ واللہ جی خوش ہو گیا۔ ہر صفحے پر دِلی کے تمام بیگماتی محاورے اور کبوتر ایک ساتھ چھوڑ دیے ہیں۔ ان کی کوئی اور کتاب کبوتروں کے متعلق ہو تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ بھجنا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کالا کبوتر اور دوشیزہ کی بلی

کالا کبوتر اور دوشیزہ کی بلی

ان کے سڑی پن کا ایک واقعہ ہو تو بیان کروں۔ ایک سالانہ روٹین کا حال سناتا ہوں۔ میٹرک کے زمانے سے ہی (جب وہ اپنی بائیسویں سالگرہ منا چکے تھے) انہوں نے یہ وتیرہ اختیار کر لیا تھا کہ امتحان کا نتیجہ اخبار میں نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ اخبار لینا اور پڑھنا اور اخبار بینوں سے ملنا ترک کر دیتے تھے۔ ممکن ہے اس کا سبب بے نیازی ہو۔ خوف بھی ہو سکتا ہے۔ مرزا کا خیال ہے کہ اپنی سالانہ نالائقی کو کولڈ پرنٹ میں face نہیں کر سکتے تھے۔ بہر حال، نتیجے سے تقریباً ایک ہفتے قبل، اپنے ایک جگری دوست امداد حسین زیدی کو اپنا ایک کالا گرہ باز اور ایک سفید لوٹن کبوتر دے آتے۔ اور کمرہ مقفل کر کے خود مراقبے میں چلے جاتے۔ امداد حسین کو یہ ہدایت تھی کہ جیسے ہی اخبار میں میرے پاس ہونے کی خبر پڑھو، فورا سفید کبوتر چھوڑ دینا۔ اور فیل ہو جاؤں تو کالا۔ پھر دن بھر کھڑکی سے آدھا دھڑ نکال نکال کر کبھی سؤئے آسماں اور کبھی چھتری کو دیکھتے کہ کبوتر خبر لایا کہ نہیں۔ ہر سال منحوس کالے کبوتر کو ذبح کر کے مرجینا (دوشیزہ کی بلی کا نام) کو کھلا دیتے۔ یہ شاہانہ وضع داری انہوں نے بی - اے تک قائم رکھی کہ قدیم زمانے میں بادشاہ بھی بری خبر لانے والے قاصد کا سر قلم کروا دیتے تھے۔ رزلٹ والے ہفتے میں گھر میں روز کئی دفعہ رونا پیٹنا مچتا تھا۔ اس لیے کہ ان کی والدہ اور ہمشیرگان جیسے ہی کوئی کالا کبوتر دیکھتیں رونا پیٹنا شروع کر دیتیں۔ یوں تو چھتری پر دن میں کئی سفید کبوتر بھی آتے تھے مگر وہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ غلطی سے آن بیٹھے ہیں۔ بالآخر تین چار سال بعد رُلا رُلا کر، وہ دن آتا جب :

تڑپتا، لوٹتا، اٹھتا جو بےتابانہ آتا ہے

یعنی سفید لوٹن کبوتر آتا تو اسی خوشی میں اپنے تمام کبوتروں کو جن کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ ہو گی، جوار کی بجائے گہیوں کھلاتے اور سب کو ایک ساتھ اُڑاتے۔ دوسرے دن اس کبوتر کے پاؤں میں چاندی کی مُنی سی پُنیجنی (کبوتر کی جھانجھن) ڈال دیتے، اور اس کے کابک کے پاس کبوتر خانے میں دس تافتہ (سفید چمکیلے رنگ کا کبوتر یا کبوتری) کبوتریوں کا اضافہ کر دیتے۔ کبوتر خانہ تو ہم روانی میں لکھ گئے۔ ورنہ نقشہ یہ تھا کہ جب انہوں نے بی اے پاس کیا تو میٹرک، انتڑ میڈیٹ اور بی اے تینوں ملا کر تیس عدد خولہ کبوتریوں کے اضافے کے بعد ان کا سارا گھر اس طائرِ خوش خبر یعنی لوٹن کبوتر کے حرمِ خاص میں تبدیل ہو چکا تھا۔ گھر والوں کی حثیت ان کبوتریوں کے خدمت گاروں اور بیٹ اٹھانے والوں سے زیادہ نہیں رہی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے

وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے

جس دن وہ شیر شاہ نامی کبوتر کی علالت کے سبب میرے ساتھ لکھنؤ نہ جا سکے، میں نے کسی قدر جھنجلاتے ہوئے ان سے کہا “ بندہ خدا دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اب تو اس کبوتر بازی پہ خاک ڈالو۔“

فرمایا “ تمہارے والد بھی تو بڑے پائے کے کبوتر باز تھے۔ میں تو ان کے سامنے بالکل اناڑی ہوں۔ اب لوگ اسے گھٹیا شوق سمجھنے لگے ہیں، ورنہ یہ صرف شرفا کا شوق ہوا کرتا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بہادر شاہ کی سواری نکلتی تو دو سو کبوتروں کی ٹکری اوپر ہوا میں سواری کے ساتھ اُڑتی ہوئی جاتی۔ اور جہاں پناہ پر سایہ کیئے رہتی۔ جب واجد علی شاہ مٹیا برج میں محبوس ہوئے تو اس گئی گزری حالت میں بھی اس کے پاس چوبیس ہزار سے زیادہ کبوتر تھے، جن کی دیکھ ریکھ پر سیکڑوں کبوتر باز مامور تھے۔“

عرض کیا، “ اس کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ سلطنت پر زوال کیوں آیا۔ تیغوں کے سائے میں پلنے والوں کے سروں پر جب کبوتر منڈلانے لگیں تو پھر سواری بادِ بہاری مٹیا برج اور رنگون جا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کبوتر خانے اور واجد علی شاہ نے پری خانے اور کبوتر خانے پر جتنی رقم اور توجہ صرف کی، اس کا دسواں حصہ بھی اپنے توپ خانے پر صرف کرتے تو فوجِ ظفر موج بلکہ کبوتر موج کی یہ دُرگت نہ بنتی کہ ڈٹ کر لڑنا تو درکنار اس کے پاس تو ہتھیار ڈالنے کے لیے بھی ہتھیار نہ نکلے۔ ہائے !

وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے

بگڑ گئے “ تو گویا سلطنتِ مغلیہ کا زوال کبوتروں کے سبب ہوا۔ یہ بات تو جادو ناتھ سرکار تک نے نہیں کہی۔ مسٹر چتر ویدی کہہ رہے تھے کہ انگلستان میں پچھتر لاکھ پالتو کُتے ہیں، فرانس میں سوا تین کروڑ Pets (پالتو جانور) ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انگلستان میں ہر تیسرا بچہ ولد الزنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں گزشہ دس سال میں پچیس لاکھ اسقاط کرئے گئے۔ جیسے اپنے ہاں آدمی کثیر الاولاد ہوتا ہے، ویسے ہی ان کے ہاں بچہ کثیر الولدیت ہوتا ہے۔ آخر ان پر زوال کیوں نہیں آتا؟“
 

شمشاد

لائبریرین
چریا

چریا

مُلا عاصی کے کھٹ مٹھے مزاج کا اندازہ ایک واقعے سے لگائیے جو ایک صاحب نے مجھے سنایا۔ ان کے پڑوسی نے کئی مرتبہ شکایت کی “ آپ کے کرایہ دار نے ایک نئی کھڑکی نکال لی ہے جو میرے دالان میں کھلتی ہے۔ مستورات کی بےپردگی ہوتی ہے۔“ انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا تو ایک دن دھمکی دی “ آپ نے کھڑکی نہ چنوائی تو ٹھیک نہ ہو گا، نالش کر دوں گا۔ اگر گھر کے سامنے قرقی کا ڈھول نہ بجوا دوں تو میرا نام نہیں۔ سارا بدھ ازم دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔“ یہ بچارے خود کرائے دار کے ستائے ہوئے تھے۔ کیا کر سکتے تھے۔ البتہ پردے کے نقصانات ضرور بیان کر دیئے۔ جس سے وہ اور مشتعل ہو گیا۔ دو تین دن بعد اس نے یکم نومبر کو ان کو قانونی نوٹس دے دیا کہ اگر ایک مہینے کے اندر اندر آپ نے کھڑکی بند نہ کروائی تو آپ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے نوٹس پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس کی میعاد تیس نومبر کو ختم ہوتی تھی۔ یکم دسمبر کو صبح پانچ بجے انہوں نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی۔ وہ ہڑبڑا کر آنکھیں ملتا ہوا ننگے پیر باہر آیا تو کہنے لگے “حضور، گستاخی معاف۔ میں نے کچی نیند سے اُٹھا دیا۔ میں صرف یہ یاد دہانی کرانے آیا ہوں کہ آج آپ کو میرے خلاف مقدمہ دائر کرنا ہے۔ آداب۔“

ہم کراچی والوں کی اصطلاح میں “ چریا “ تو وہ سدا کے تھے، مگر اب اصلاح اور برداشت کی حد سے گزر گئے ہیں۔ آٹھویں جماعت سے لے کر بی اے تک کورس کی تمام کتابیں جو انہوں نے پڑھی تھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نہیں پڑھی تھیں۔ ایک الماری میں سجا رکھی ہیں۔ امتحان کے پرچوں کی ایک علیحدا فائل ہے۔ ان کی رسمِ بسم اللہ پر جس چاندی کی پیالی میں زعفران گھولا گیا اور مسلمانیوں کی تقریب میں زردوزی کے کام کی جو ٹوپی انہیں پہنائی گئی، اور اسی قسم کے اور بہت سے تبرکات دوسری الماری میں محفوظ ہیں۔ وہ تو غنیمت ہوا کہ پیدائش کے وقت اپنا کام آپ کرنے سے بوجوہ معذور تھے۔ ورنہ اپنا نال بھی منجملہ دیگر یادگار اشیا کے منگوا کر رکھ لیتے۔ ان کی تفصیل کے یہ صفحات متحمل نہیں ہو سکتے۔ مختصرا یوں سمجھیے کہ عام طور پر مورخ یا ریسرچ کرنے والے کو بڑے آدمیوں کی زندگی کے بارے میں باریک تفصیلات کھود کھود کر نکالنے میں جو مشقت اٹھانی پڑتی ہے وہ انہوں نے اپنا تمام خام مواد اس کی ہتھیلی پر رکھ کے آسان کر دی ہے۔ واللہ، میں نے ایسا آدمی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز ڈسکارڈ (ترک) نہیں کر سکتے۔ بجز اپنے عقائد کے۔ اپنے کوڑے کو بھی “ این ٹیک “ بنا دیتے ہیں۔ کمرہ کاہے کو ہے یادوں کا ملبہ ہے جسے بیلچوں سے کھودیں تو آخری تہ کے نیچے سے خود موصوف برآمد ہوں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زوجہ کوچک کے نام

زوجہ کوچک کے نام

اسی طرح گزشہ تیس چالیس برسوں میں انہیں جتنے خطوط احباب و اعزہ نے لکھے، وہ سب کے سب کھڑے سوؤں میں تاریخ وار پروئے ہوئے محفوظ ہیں۔ بیشتر پوسٹ کارڈ ہیں۔ اس زمانے میں پچانوے فیصد خطوط پوسٹ کارڈ پر ہی لکھے جاتے تھے۔ اس کا ایک کونہ ذرا سا کاٹ دیا جاتا تو یہ الارم ہوتا تھا کہ کسی کے مرنے کی خبر آئی ہے۔ صرف کٹا ہوا کونا دیکھ کر ہی آن پڑھ گھرانوں کی عورتیں نامعلوم مردے کے فرضی اوصاف بیان کر کر کے رونا پیٹنا شروع کر دیتی تھیں۔ اس اثنا میں کوئی پڑوسی خط پڑھ دیتا تو بین میں مرحوم کے نام کا اضافہ اور اوصاف میں کمی کر دی جاتی۔ پوسٹ کارڈ پر ایک طرف تیس تیس سطریں تو میں نے لکھی دیکھی ہیں جنہیں غالبا گھڑی سازوں والی یک چشمی خوردبین لگا کر ہی لکھا اور اسی طرح پڑھا جا سکتا تھا۔ میں ایک چمڑے کے بیوپاری شیخ عطا محمد کو جانتا تھا تھا جو مال بک کرانے کلکتے جاتا تو اپنی نوخیز و خوبرو زوجہ کوچک کو (جسے محلے والے پیار میں صرف کوچک کہتے تھے) بہ نظرِ کفایت پوسٹ کارڈ پر خط لکھتا، لیکن نجی جذبات کے اظہار میں‌کفایت شعاری سے بالکل کام نہیں لیتا تھا۔ دوسروں کے خط پڑھنے کا لپکا اس زمانے میں بہت عام تھا۔ پوسٹ مین ہمیں یعنی مجھے، میاں تجمل حسین اور ملا عاصی کو وہ پوسٹ کارڈ پڑھوا دیتا تھا۔ ہم اسے ہرن کے کوفتے کھلاتے تھے۔ صاحب، زبان کا چٹخارا بری بلا ہے۔ میں جب اٹاوہ کے اسکول میں تعینات ہو کر گیا تو اس نے میرا خط جو میں نے شادی کے کچھ دن بعد آپ کی بھابھی کو لکھا تھا، مُلا عاصی اور میاں تجمل کو پڑھوا دیا۔ خط کا مضمون سارے شہر میں ہیضے کی طرح پھیل گیا۔ میں نے کئی بیقرار فقرے اور جملے کے جملے چمڑے کے بیوپاری کے پوسٹ‌ کارڈوں سے اڑائے تھے۔ ہر چند کہ وہ چمڑا بیچتا تھا اور انشا پردازی اس کے پیشہ ورانہ فرائض اور شوہرانہ وظائف میں داخل نہ تھی، لیکن چودھری محمد علی ردولوی نے بیوی کے نام مثالی خط کی جو تعریف کی ہے اس پر شیخ عطا محمد کے خطوط پورے اُترتے تھے۔ یعنی ایسا ہو کہ مکتوب الیہ کسی کو دکھا نہ سکے۔ کسی متفنی نے شیخ عطا محمد کو میرے خط کا مضمون سنا دیا۔ کہنے لگا کہ اگر کوئی میرے انتہائی نجی جذبات اپنی ذاتی زوجہ تک پہنچانا چاہتا ہے تو میری عین خوش نصیبی ہے۔ شدہ شدہ آپ کی بھابھی تک جب اس سرقے کی خبر پہنچی تو انہیں مدتوں میرے انتہائی اوریجنل مکاتیب سے بھی چمڑے کی بُو آتی رہی۔ عجیب گھپلا تھا۔ وہ اور کوچک ایک دوسرے کو اپنی سوکن سمجھنے لگیں جو ہم دونوں مردوں کے لیے باعثِ شرم تھا۔ دسمبر کی تعطیلات میں جب میں کانپور گیا تو اس حرمزدگی پر پوسٹ مین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اور دھمکی دی کہ ابھی پوسٹ ماسٹر کو رپورٹ کر کے تجھے ڈسمس کرا دوں گا۔ غصے سے میں پاگل ہو رہا تھا۔ میں نے چیخ کر کہا “ بے ایمان، اب تجھے وہ دونوں ہرن کے کوفتے کھلا رہے ہیں۔“ وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا “ قسم قرآن کی، جب سے آپ گئے ہیں، ہرن کے کوفتے کھائے ہوں تو سؤر کھایا ہو۔“ میں جوتا لے کے پیچھے دوڑا تو بدمعاش قبولا کہ نیل گائے کے کھائے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بلیک باکس

بلیک باکس

ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟ سوؤں میں پروئے ہوئے خطوں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہر سُوئے پر پانچ پانچ سال کی مراسلت کو سُولی دی ہے۔ لکٹری کے گول پیندے میں ٹھکے ہوئے یہ سُوئے اس زمانے میں فائلوں اور فائلنگ کیبنٹ کی جگہ استعمال ہوتے تھے۔ سیاہ پیندے کا ایک سُوا مرحومین کے لیے وقف ہے۔ کہنے لگے کہ جب کسی کے انتقال کی خبر آتی ہے تو اس کے تمام خطوط مختلف سُوؤں سے نکال کر اس میں‌ لگا دیتا ہوں۔ اور یہ بلیک بکس بہت ہی اہم اور نجی کاغذات کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ میں نے وصیت کر دی ہے کہ مرنے کے فورا بعد نذرِ آتش کر دیا جائے۔ میرا مطلب ہے کاغذات کو۔

پلنگ کے نیچے رکھے ہوئے جس سیاہ صندوق کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا، وہ دراصل ایک کیش بکس تھا۔ اس کے والد کے دوالے اور اس کے نتیچے میں انتقال کے بعد بس یہی اثاثہ ان کو ترکے میں ملا۔ اب بھی اکثر فرماتے ہیں کہ اس میں ایک لاکھ نقدی کی گنجائش ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بکس میں اس کی وصیت رکھی ہے جس میں واضح ہدایات ہیں کہ ان کی میت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی طرح دفن کیا جائے یا پارسیوں کی طرح لاش چیل کوؤں کو کھلا دی جائے۔ یا بدھ رسوم کے مطابق ٹھکانے لگائی جائے۔ جہاں عقائد میں اتنا گھپلا ہو وہاں یہ وضاحت از بس ضروری ہے۔ غالب کو اس کی “ گلیوں میں میری لاش کو کھینچے پھرو کہ میں ۔۔۔۔“ والی خواہش کے برعکس اس کے سُنی عقیدت مند سُنی طریقے سے گاڑ آئے۔ جب کہ اس غریب کا مسلک امامیہ تھا۔ احب، اس پر یاد آیا۔ غالب نے کیسی ظالم بات کہی ہے۔ حیف کافر مُردن و آدخ مسلما زیستن۔ یعنی پروردگار مجھے کافروں کی طرح مرنے اور مسلمانوں کی طرح جینے سے بچا۔ سب کچھ سات لفظوں کے ایک مصرعے میں سمو دیا۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) (Black Box) وہ مضبوط فائر، واٹر اور شاک پروف باکس جس کے اندر بند آلات سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ہوائی جہاز کے گر کر تباہ ہونے اور مسافروں کے ہلاک ہونے کی وجہ کیا تھی۔ یعنی بقول مخدومی ماجد علی صاحب کے مسافر گر کر مرے یا مر کر گرے تھے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
حرفِ حق کہ بعد از مرگ یاد آید۔۔۔

حرفِ حق کہ بعد از مرگ یاد آید۔۔۔

ان کے ایک قریبی دوست سید حمید الدین کا بیان ہے کہ وصیت میں یہ رقم فرمایا ہے کہ میں مسلمان تھا، مسلمان ہی مرا۔ باقی سب ڈھونگ تھا جو مسلمانوں کو چڑانے کے لیے رچانا پڑا۔ گویا ان کا کفر درحقیقت مکاری تھی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ میری وصیت ٹھیک اسی دن کھولی جائے جس دن مولانا ابو الکلام آزاد کی کتاب کے غیر مطبوعہ حصے بینک کے سیف ڈپازٹ لاکر سے نکالے جائیں۔ اس پر ایک دل جلے نے یہ نیم چڑھایا کہ وصیت میں مُلا عاصی نے مولانا آزاد کے بارے میں اپنی بے نقط رائے لکھ دی ہے جس کا اظہار وہ اپنی زندگی میں خوفِ فسادِ خلق سے نہیں کر سکتے تھے۔ مگر سوچیے تو سہی۔ مُلا عاصی نے آخر کون سے توپ چلائی ہو گی۔ بدترین سے بدترین گمان یہی ہو سکتا ہے کہ سچ بولا ہو گا۔ لیکن صاحب، وہ کلمہ حق کس کام کا جس کے اعلا کی جیتے جی جرات نہ ہوئی۔ ہر لمحے کی اپنی سچائی اور اپنی صلیب اور اپنا تاج ہوتا ہے۔ اس سچائی کا اعلان و ابلاغ بھی صرف اسی لمحے واجب ہوتا ہے۔ سو جو چپ رہا اس نے اس لمحے سےاور اپنے آپ سے کیسی دغا کی۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، تمام عمر دروغ مصلحت آمیز کے ساتھ ہنسی خوشی گزارا کرنے کے بعد قبر میں پہنچ کر اور کفن پھاڑ کر سچ بولنے اور منھ چڑانے کی کوشش کرنا مردوں ہی کو نہیں، مُردوں کو بھی زیب نہیں دیتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
پریم پتر اور گوتم بدھ کے دانت

پریم پتر اور گوتم بدھ کے دانت

شہر میں یہ بھی مشہور ہے کہ بکس میں اس پنجابی شرنارتھی لڑکی کے خطوط اور فوٹو ہیں جسے وہ ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ واللہ اعلم۔ یہ قبل از بدھ ازم کی بات ہے۔ میں تو اس زمانے میں کراچی آ چکا تھا۔ سب اس کی ٹوہ میں ہیں۔ مگر بکس میں پیتل کا سیر بھر کا تالا پڑا ہے جس کی چابی وہ اپنے کمربند میں باندھے پھرتے ہیں۔ خلقِ خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ کسی نے کہا، لڑکی نے بلیڈ سے کلائی کی رگ کاٹ کے آتم ہتیا (خود کشی) کی۔ کسی نے اس کی ایک ناگفتہ بہ وجہ بتائی۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ لڑکی کو ایک دوسرا ٹیوٹر بھی پڑھاتا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شمشان تک ارتھی سے جیتا جیتا خون ٹپکتا گیا۔ اسی رات اس کا باپ نیند کی تیس چالیس گولیاں کھا کر ایسا سویا کہ پھر صبح ارتھی ہی اٹھی۔ لیکن دیکھا جائے تو نہ لڑکی مری، نہ اس کا باپ۔ موت تو اس بیوہ اور چھ بچوں کی واقع ہوئی جو اس نے چھوڑے۔ تین چار دن بعد گلی کے موڑ پر کسی نے مُلا عاصی کے پیٹ میں چُھرا گھونپ دیا۔ آنتیں کٹ کر باہر نکل پڑیں۔ چار مہینے گمنامی کی موت اور بدنامی کی زندگی کی کشمکش میں اسپتال میں پڑے رہے۔ سنا ہے جس دن ڈسچارج ہوئے، اسی دن سے جوگ لے لیا مگر صاحب، جوگی تو وہ جنم جنم کے تھے۔ ایک مثل ہے کہ جوگی کا لڑکا کھیلے گا تو سانپ سے۔ سو یہ ناگن نہ بھی ہوتی تو کسی اور گزندے سے خود کو ڈسوا لیتے۔ ارے صاحب، جب کشتی غرقابی ٹھہری تو، اور تو اور، خود خواجہ خضر پیندے میں سوراخ کر دیتے ہیں۔

اللہ جانے مذاق میں کہا یا سچ ہی ہو، انعام اللہ برملائی کہنے لگے کہ بلیک بکس میں مُلا عاصی کے چار ٹوٹے دانت محفوظ ہیں جو وہ اپنے عقیدت مندوں اور آئندہ جسلوں کے لیے بطور relic چھوڑ کر مرنا چاہتے ہیں۔ آخر مہاتما بدھ کے بھی تو کم از کم سو دانت مختلف مقدس مقامات پر زیارت کے لیے بھاری حفاظتی پہرے میں رکھے ہیں۔

کمرے میں صرف ایک چیز واقعی نئی دیکھی۔ رسالہ “ عرفان “ کا تازہ شمارہ۔ اللہ جانے کسی نے ڈاک سے بھیجا یا کوئی شرارتا چھوڑ گیا۔ جہاں تہاں سے پڑھا۔ صاحب، وضع داری اس رسالے پر ختم ہے۔ نصف صدی پہلے اور آج کے “ عرفان “ میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ وہی ترتیب، وہی چھپائی اور گیٹ اپ جو پچاس برس پہلے تھا، الحمد للہ آج بھی ہے۔ مجھے تو چھاپا خانہ اور کاتب بھی وہی معلوم ہوتا ہے۔ موضوعات اور مسائل بھی بعینہ وہی ہیں جو سرسید اور شبلی کے زمانے میں تھے۔ کاش یہ شمارہ ستر اسی سال قبل چھپا ہوتا تو بالکل “ اپ ٹو ڈیٹ “ معلوم ہوتا۔ مولانا شبلی نعمانی اور شمس العلما ڈپٹی نذیر آحمد ایل ایل ڈی اسے دیکھ کر کیسے خوش ہوتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سانبھر کا سینگ

سانبھر کا سینگ

کمرے میں سانبھر کا سر ابھی تک وہیں ٹنگا ہوا ہے۔ اس بیت الحزن میں صرف یہی Life-Like دکھلائی دیتا ہے۔ لگتا ہے ابھی دیوار سے چھلانگ لگا کر جنگل کی راہ لے گا۔ اس کے نیچے ان کے دادا کی سیپیا رنگ کی بیضوی تصویر ہے۔ صاحب، اس زمانے میں سبھی کے داداؤں کا حلیہ ایک جیسا ہوتا تھا۔ بھرواں داڑھی، پگڑ باندھے، پھولدار اچکن پہنے، ایک ہاتھ میں پھول، دوسرے میں تلوار پکڑے کھڑے ہیں۔ 1857ء کے بعد، بلکہ اس سے بہت پہلے، شرفا تلوار کو واکنگ اسٹک کے طور پر اور شعرا بطور استعارہ یعنی ناکردہ وصل کی حسرت کے الزام میں خود کو معشوق کے ہاتھوں قتل کروانے کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ برصغیر میں یہ انحطاط و طوائف الملوکی کو وہ دور تھا جب رجز خوانوں کے دف ڈفلی بن چکے تھے اور طبلِ جنگ کی جگہ طبلے نے لے لی تھی۔ قومی عظمت کے ثبوت میں لوگ صرف عالیشان کھنڈر پیش کرتے تھے۔

سانبھر ستر اسی سال کا تو ہو گا۔ دادا نے نیپال کی ترائی میں گرایا تھا۔ رفاہ عام بلکہ شفائے عام کے لیے ایک سینگ آدھا کاٹ کر رکھ لیا ہے۔ گھس کر لگانے سے دردِ گُردہ میں آرام آ جاتا ہے۔ دور دور سے لوگ مانگ کر لے جاتے ہیں۔ ایک بے ایمان مریض نے ایک انچ کاٹ کر لوٹایا۔ اسکے دونوں گُردوں میں درد رہتا تھا۔ مُلا عاصی اب سینگ کو اپنی ذاتی نگرانی میں کرنڈ کی سِلی پر گِھسواتے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی تک یہ جاہلوں کے ٹوٹکے خوب چلتے ہیں۔ وہ اس کے لیپ کی تعریفیں کرنے لگے تو میں چٹکی لی “ مگر مُلا گردہ تو بہت اندر ہوتا ہے“ بولے ہاں تمھارے والد نے بھی پاکستان جانے سے پہلے تین چار دفعہ لیپ لگایا تھا۔ ایک سینگ کاٹ کر ہمراہ لے جانا چاہتے تھے۔ میں نے منع کر دیا۔ میں نے کہا، قبلہ، بارہ سنگھوں کے رمنے میں اس گھسے گھسائے سینگ سے کام نہیں چلنے کا۔“
 

شمشاد

لائبریرین
نٹ راج اور مردار تیتر

نٹ راج اور مردار تیتر

مُلا عاصی نے ایک اور یادگار فوٹو دکھایا جس میں میاں تجمل حسین نٹ راج کا سا فاتحانہ پوز بنائے، یعنی نیل گائے کے سر پر اپنا پیر اور 12 بور کا کندہ رکھے، کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ اور میں گلے میں جست کی نمدہ چڑھی چھاگل اور دونوں ہاتھوں میں ایک ایک میلرڈ (نیل سر) مرغابی اور اپنا منھ لٹکائے کھڑا ہوں۔ میاں تجمل کا دعوا تھا کہ تھوتھنی سے دُم کی نوک تک نیل گائے کی لمبائی وہی ہے جو بڑے سے بڑے آدم خور بنگال ٹائیگر کی ہوتی ہے۔ نیل گائے کا شکار ایک مدت تک انڈیا میں ممنوع رہا۔ اب کُھل گیا ہے۔ جب سے وہ فصلیں کی فصلیں صاف کرنے لگیں، نیل گایوں کو گھوڑا کہہ کر مارنے کی اجازت مل گئی ہے۔ جیسے انگلینڈ میں اب کالوں اور سانولوں کو بلیک نہیں کہتے ethnic کہہ کر ٹھکانے لگاتے ہیں۔

یہ فوٹو چوہدری گلزار محمد فوٹو گرافر نے منٹ کیمرے سے میاں تجمل حسین کے گھر کے احاطے میں کھینچا تھا۔ فوٹو کھنچوانے کے لیے اتنی دیر سانس روکنا پڑتا تھا کہ صورت کچھ سے کچھ ہو جاتی تھی۔ چنانچہ صرف مُردہ گائے کا فوٹو اصل کے مطابق تھا۔ گلزار محمد اکثر شکار میں ساتھ لگ لیتا تھا۔ شکار سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ میرا مطلب شکار کرنے سے ہے، کھانے سے نہیں۔ بس میاں تجمل حسین ہمہ وقت اپنی اردلی میں رکھتے تھے۔ خدانخواستہ وہ دوزخ میں بھیجے گئے تو مجھے یقین ہے تنہا ہرگز نہیں جائیں گے۔ پیشوائی PR کے لیے پہلے مجھے روانہ کر دیں گے۔ شہر سے سات آٹھ میل پر شکار ہی شکار تھا۔ عموما تانگے میں جاتے تھے۔ گھوڑا اپنی ہی ہم وزن، ہم شکل اور ہم رنگ نیل گائے ڈھو کر لاتا تھا۔ شکار کے تمام فرائض و انتظامات اس ناچیز کے ذمے تھے۔ سوائے بندوق چلانے کے۔ مثلا نہ صرف ٹھسا ٹھس پھرا ہوا ٹفن کیریئر اٹھائے اٹھائے پھرنا، بلکہ اپنے گھر سے صبح چار بجے تازہ ترتراتے پراٹھے اور کباب بنوا کر اس میں ٹھسا ٹھس بھر کر لانا اور سب کو ٹھسانا۔ دسمبر کر کڑکڑاتے جاڑے میں تالاب میں اتر کی چھرا کھائی ہوئی مرغابی کا تعاقب کرنا، ہرن پر نشانہ خطا ہو جائے، جو کہ اکثر و بیشتر ہوتا رہتا تھا، تو میاں تجمل حسین کو قسمیں کھا کھا کے یقین دلانا کہ گولی برابر لگی ہے۔ ہرن بری طرح لنگڑاتا ہوا گیا ہے۔ زخم ذرا ٹھنڈا ہو گا تو بے حیا وہیں پچھاڑ کھا کے ڈھیر ہو جائے گا۔ تیتر ذبح ہونے سے پہلے دم توڑ دے تو اس کے گلے پر کسی حلال شدہ تیتر کا خون لگانا بھی میرے گناہ منصبی میں داخل تھا۔ اس لیے کہ شکار اگر چھری پھیرنے سے پہلے مردار ہو جائے تو وہ مجھے ہفتوں برا بھلا کہتے تھے۔ لٰہذا چھرا یا گولی لگنے کے بعد میں زخمی جانور کی درازی عمر کی دعا مانگتا تھا تا کہ اسے زندہ حالت میں حلال کر سکوں۔ مردار تیتر اور مرغابیاں وہ سر آرتھرانس کپ کے بنگلے پر بھجوا دیتے تھے۔ بھجوا کیا دیتے تھے، یوں کہیے مجھی کو سائیکل پر لاع کے لے جانا پڑتا تھا۔ پیچھے کیریئر پر وہ خود شکار کو اپنی گود میں لے کر بیٹھتے تاکہ سائیکل پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کا اپنا وزن (نہار منھ) 230 پونڈ تھا۔ اس کے باوجود میں بہت تیز سائیکل چلاتا تھا۔ ورنہ شکار کی بُو پر لپکتے کتے فورا آ لیتے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ بندوق میری، کارتوس میرے، نشانہ میرا، شکار میرا، چھری میری، سائیکل میری، حد یہ کہ سائیکل میں ہوا بھی میں نے ہی بھری۔ اب اگر اسے چلاؤں بھی میں ہی تو آپ کیا کریں گے؟

وفا بھی حُسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟

ملاحظہ فرمایا آپ نے۔ بس کیا عرض کروں، اس یاری میں کیسی کیسی خواری ہوئی ہے۔ یہ تو کیسے کہوں کہ میاں تجمل حسین نے ساری عمر میرے کندھے پر رکھ کے بندوق چلائی ہے۔ ارے صاحب، کندھا خالی ہی کہاں تھا کہ بندوق رکھتے۔ کندھے پر تو وہ خود مع بندوق کے سوار رہتے تھے۔ بخدا ساری عمر ان کے غمزے ہیں نہیں literally (لفظا) خود انہیں بھی اُٹھایا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اونٹ کی مستی کی سزا بھی مجھی کو ملی

اونٹ کی مستی کی سزا بھی مجھی کو ملی

یہ تو غالبا پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ بڑے حاجی صاحب یعنی تجمل کے والد، تانگا اور موٹر کار رکھنے کو تکبر اور کاہلی کی علامت سمجھتے تھے۔ سائیکل اور اونٹ کی سواری پر البتہ تعرض نہ کرتے۔ اس لیے کہ ان کا شمار وہ آلات نفس کشی میں کرتے تھے۔ اکثر فرماتے کہ “ میں پچیس سال کا ہو گیا، اس وقت تک میں نے ہیجڑوں کے ناچ کے سوا کوئی ناچ نہیں دیکھا تھا۔ وہ بھی تجمل (یعنی اپنے بیٹے) کی پیدائش پر۔ چھبیسویں سال میں لائل پور میں چوری چھپے ایک شادی میں مجرا دیکھ لیا تو والد صاحب نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ عاق کرنے کی دھمکی دی۔ حالانکہ ورثے میں مجھے سوائے ان کے قرضوں کے اور کچھ ملنے والا نہیں تھا۔ کہنے لگے کہ لونڈا بدچلن ہو گیا۔ چنیوٹ برادری میں، میں پہلا باپ ہوں جس کی ناک فرزند کے ہاتھوں کٹی۔ چنانچہ بطور سزا اور سرزش مجھے ادھار کپاس خریدنے چنیوٹ سے جھنگ ایک مستی پر آئے ہوئے اونٹ پر بھیجا، جس کے ماتھے سے بودار مد رِس رہا تھا۔ چلتا کم، بلبلاتا زیادہ تھا۔ ڈوبتے سورج کی روشنی میں جھنگ کے درختوں کے جُھنڈ اور جوہ (پنجابی - گاؤں کی سرحد) نظر آنے لگی تو وہ یکایک بدک گیا۔ اسے ایک اونٹنی نظر آ گئی۔ اس کے تعاقب میں جھنگ پار کر کے مجھے اپنے کوہان پر ہاتھ ہاتھ بھر اُچھالتا پانچ میل آگے نکل گیا۔ مجھے تو ایک میل بعد ہی اونٹنی نظر آنی بند ہو گئی۔ اس لیے کہ میں اونٹ نہیں تھا۔ لیکن وہ مادہ کی بُو پہ لپکا جا رہا تھا۔ میں ایک مست بھونچال پہ سوار تھا۔ بالآخر اونٹ انتہائی جوش کے علام میں ایک دلدل میں مجھ سمیت گھس گیا۔ اور تیزی سے دھنسنے لگا۔ میں نہ اوپر بیٹھا رہ سکتا تھا، نہ نیچے کود سکتا تھا۔ گاؤں والے رسے، نسینی (سیڑھی) اور قبر کھودنے والے کو ساتھ لے کر آئے تو جان بچی۔ کجاوہ گز بھر چوڑا تھا۔ ایک ہفتے تک میری ٹانگیں ایک دکھتی غلیل کیطرح چری کی چری رہ گئیں۔ اس طرح چلنے لگا جیسے خطرناک قیدی ڈنڈا بیڑی پہن کر چلتے ہیں۔ یا لڑکے ختنوں کے بعد۔ مہتر سے کہہ کر قدمچے ایک ایک گز کے فاصلے پر رکھوائے۔ اونٹ کی مستی کی سزا تھی مجھی کو ملی۔“

قبلہ کا ہی خیال تھا کہ بیٹے کی چال دیکھ کر اونٹ نے بھی عبرت پکڑی ہو گی۔


علی گڑھ کٹ پاجامہ اور ارہر کی دال
حاجی صاحب قبلہ نے کانپور میں ایک ہندو سیٹھ کے ہاں 1907ء میں چار روپے ماہوار کی نوکری سے ابتدا کی۔ انتہائی دیانت دار، دبنگ، قدآور اور ڈیل ڈول کے مضبوط تھے۔ سیٹھ نے سوچا ہوگا اُگاہی میں آسانی رہے گی۔دوسری جنگ کے بعد حاجی صاحب کروڑ پتی ہوگئے۔ مگر وضع داری میں ذرا جو فرق آیا ہو۔ مطلب یہ کہ ان کی خودآزاری تک پہنچی ہوئی جُزرسی، وضع قطع، انکسار اور اندازِ گفتگو سے یہی لگتا تھا کہ اب بھی چار روپے ہی ملتے ہیں۔ گاڑھی ململ کا کُرتہ اور ٹُخنے سے اونچی چوخانے کی لنگی باندھتے۔ شلوار صرف کسی فوجداری مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت میں جانے اور جنازے میں شرکت کے موقعے پر پہنتے تھے۔ گاگلز لگانے اور پتلون اور چوڑی دار پاجامہ پہننے والے کو کبھی اُدھار مال نہیں دیتے تھے۔ کچھ نہیں تو چالیس پنتالیس برس تو یوپی میں ضرور رہے ہوں گے، مگر لگی ہوئی فیرنی، نہاری اور ارہر کی دال دوبارہ نہیں کھائی۔ نہ کبھی دوپلّی ٹوپی اور پاجامہ پہنا۔ البتہ 1938ء میں آپریشن ہوا تو نرسوں نے حالتِ بے ہوشی میں پاجامہ پہنا دیا تھا جو انہوں نے ہوش میں آتے ہی اتار پھینکا۔ بقول شاعر
بے ہوش ہی اچھا تھا ناحق مجھے ہوش آیا​
اکثر فرماتے کہ اگر چمٹے کو کسی شرعی تقاضے کے تحت یا پھکنی کے پھُسلاوے سے کچھ پہننا پڑے تو اس کے لیے علی گڑھ کٹ پاجامے سے زیادہ موزوں کوئی پہناوا نہیں۔ پنجابی میں یہ فقرہ بڑا مزہ دیتا تھا۔ ہم سب فرمائش کر کے سنتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نیل گائے اور پری چہرہ نسیم

نیل گائے اور پری چہرہ نسیم

میں نے مُلا عاصی کو چھیڑا “ اب بھی شکار پر جاتے ہو؟“ کہنے لگے “ اب نہ فرصت، نہ شوق، نہ گوارا۔ ہرن اب صرف چڑیا گھر میں نظر آتے ہیں۔ میں تو اب مرغابی کے پروں کا تکیہ تک استعمال نہیں کرتا۔“ پھر انہوں نے الگنی پر سے ایک لیر لیر بنیان اتارا۔ اسے سونگھا اور اس سے لکڑی کے ایک فریم کو کچھ دیر رگڑا تو ثانی الذکر کے نیچے سے ایک شیشہ اور شیشے کے نیچے سے فوٹو برآمد ہوا۔ یہ فوٹو چودھری گلزار محمد نے جنگل میں شکار کے دوران کھینچا تھا۔ اس میں یہ عاجز اور ایک چمار کالے ہرن کو ڈنڈا ڈولی کر کے تانگے تک لے جا رہے ہیں۔ غنیمت ہے اس میں وہ چیل کؤے نظر نہیں آ رہے ہیں جو ہم تینوں کے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ کیا بتاؤں صاحب، ہمارے یار نے ہم سے کیا کیا بیگار لی ہے۔ مگر سب گوارا تھا۔ فرشتوں کو کنویں جھنکوا دیے اس عشق ظالم نے۔ بڑا خوبصورت اور کڑیل ہرن تھا وہ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں بہت اداس تھیں۔ مجھے یاد ہے۔ اسے ذبح کرتے وقت میں نے منھ پھیر لیا تھا۔ اچھے شکاری عام طور پر کالا نہیں مارتے۔ ساری ڈار بے آسرا، بے سری ہو جاتی ہے۔ آپ نے وہ کہاوت سُنی ہو گی۔ کالا ہرن مت ماریو ستر ہو جائیں گی رانڈ۔ چودھری گلزار محمد پنڈی بھٹیاں کا رہنے والا، پندرہ بیس سال سے کانپور میں آباد و ناشاد تھا۔ اپنے اسٹوڈیو میں تاج محل اور قطب مینار کے فوٹو بھی (جو اس نے خود کھینچے تھے) بیچتا تھا۔ اپنے مکان کی دیواروں کو پنڈی بھٹیاں کے مناظر سے سجا رکھا تھا۔ اس میں اس کا پھوس کے چھپر والا گھر بھی شامل تھا جس پر ترئی کی بیل چڑھی تھی۔ دروازے کے سامنے ایک جھلنگے پر نورانی صورت ایک بزرگ حقہ پی رہے تھے۔ قریب ہی ایک کھونٹے سے غبارہ تھنوں والی بکری بندھی تھی۔ ہر منظر مثل لیلٰی کے تھا۔ جسے صرف مجنوں کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔ وہ دیگچی کو دیچگی اور تمغہ کو تغمہ (1) کہتا تو ہم سب اس پر ہنستے تھے۔ لحیم شحیم آدمی تھا۔ بڑی سے بڑی ہڈی توڑنے کے لیےبغدا صرف ایک دفعہ مارتا تھا۔ چار من وزنی نیل گائے کی کھال آدھ گھنٹے میں اتار، تکا بوٹی کر کے رکھ دیتا۔ کباب لاجواب بناتا تھا۔ ہر وقت بمبئی کے خواب دیکھتا رہتا۔ کھال اتارتے وقت اکثر کہتا کہ کانپور میں نیل گائے کے سوا اور کیا دھرا ہے؟ دیکھ لینا ایک نہ ایک دن منروا مووی ٹون میں کیمرا مین بنوں گا۔ اور مادھوری اور مہتاب کے کلوز اب لے کے تمہیں بھیجوں گا۔ پھر خود ہی نرت کر کے سیکسی پوز بناتا اور خود ہی کالے کپڑے کی بجائے اپنے سر پر خون آلود جھاڑن ڈال کر فرضی کیمرے سے خود کو کلوز اپ لیتا ہوا imagine کرتا۔ ایک دفعہ اسی طرح پری چہرہ نسیم کا کلوز اپ لیتے لیتے اس کی چھری بہت کر نیل گائے کی کھال میں گھس گئی۔ میاں تجمل چیخے کہ “ پری چہرہ گئی بھاڑ میں - یہ تیسرا چرکہ ہے۔ تیرا دھیان کدھر ہے؟ کھال داغدار ہوئی جا رہی ہے۔“ کانپور میں ایک لاجواب taxidermist تھا۔ شیر کا سر البتہ بنگلور بھیجنا پڑتا تھا۔ رئیسوں کر فرش پر شیر کی اور مڈل کلاس گھرانوں میں ہرن کی کھال بچھی ہوتی تھی۔ غریبوں کے گھروں میں عورتیں گوبر کی لپائی کے کچے فرش پر پکے رنگوں سے قالین کے سے ڈیزائن بنا لیتی تھیں۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) (صوبہ سرحد اور پنجاب میں جب لوگ تمغہ کو تغمہ کہتے ہیں تو عام طور پر اسے تلفظ کی غلطی پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ کہ صحیح لفظ تغمہ ہی ہے جو ترکی الاصل ہے۔ اور صحیح املا تغما ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
قصہ ایک مرگ چھالے کا

قصہ ایک مرگ چھالے کا

مُلا عاصی کے کمرے میں دری پر ابھی تک نثار احمد خان کی ماری ہوئی ہرنی کی کھال بچھی ہے۔ خاں صاحب کے چہرے، مزاج اور لہجے میں خشونت تھی۔ وہابی مشہور تھے۔ واللہ اعلم۔ شکار کے دھنی، مجھ پر بہت مہربان تھے۔ میاں تجمل کہتے تھے کہ وجہ پسندیدگی تمہارا منڈا ہوا سر اور ٹخنے سے اونچا پاجامہ ہے۔ گراب جہاں لگا تھا، اس کا سوراخ کھال پر جوں کا توں موجود ہے۔ اس کے پیٹ سے پورے دنوں کا بچہ نکلا۔ کسی نے گوشت نہیں کھایا۔ خود نثار احمد دو راتیں نہیں سوئے۔ اتنا اثر تو ان کے قلب پر اس وقت بھی نہیں ہوا تھا جب تیتر کے شکار میں ان کے فیر کے چھروں سے جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک کسان کی دونوں آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ دو سو روپے میں معاملہ رفع دفع ہوا۔ ہرنی والے واقعے کے تین مہینے کے اندر اندر ان کا اکلوتا جوان بیٹا جو بی اے میں پڑھ رہا تھا، زخمی مرغابی کو پکڑنے کی کوشش میں تالاب میں ڈوب کر مر گیا۔ کہنے والوں نے کہا، گیابھن، گربھ وتی کا سراب لگ گیا۔ جنازہ دالان میں لا کے رکھا تو زنانے میں کہرام مچ گیا۔ پھر ایک بھنچی بھنچی سے چیخ کہ سننے والوں کی چھاتی پھٹ جائے۔ نثار احمد خان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا “ بیوی، صبر، صبر، صبر۔ اونچی آواز سے رونے سے اللہ کے رسول نے منع کیا ہے۔“ وہ بی بی خاموش ہو گئی۔ پھر کھڑکی کے جنگلے سے سر ٹکرا ٹکرا کے لہو لہان کر لیا۔ مانگ خون سے بھر گئی۔ میت لحد میں اتارنے کے بعد جب لوگ قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو باپ دونوں سے اپنے سفید سر پر مٹھی بھر بھر کے خاک ڈالنے لگا۔ لوگوں نے بڑھ کر ہاتھ پکڑے۔ مشکل سے چھ مہینے گزرے ہوں گے کہ بیوی کو صبر کی تلقین کرنے والا تھی کفن اوڑھ کے خاک میں جا سویا۔ وصیت کے مطابق قبر بیٹے کے پہلو میں بنائی گئی۔ ان کی پائینتی بیوی کی قبر ہے۔ فاتحہ پڑھنے قبرستان گیا۔ بڑی مشکل سے قبر ملی۔ شہر تو پھر بھی پہچانا جاتا ہے۔ قبرستان تو بالکل ہی بدل گیا ہے۔ پہلے ہر قبر کو سارا شہر پہچانتا تھا کہ ہر ایک کا مرنے والے سے جنم جنم کا ناتا تھا۔ صاحب، قبرستان بھی جائے عبرت ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو ہر قبر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جس اس میں میت اُتری ہو گی، کیسا کہرام مچا ہو گا۔ رونے والے کیسے بلک بلک کے تڑپ کے روئے ہوں گے۔ پھر خود یہی رونے والے دوسروں کو رلا کے یہیں باری باری پیوندِ خاک ہوتے چلے گئے۔ صاحب، جب یہی کچھ ہونا ہے تو پھر کیسا سوگ، کس کا ماتم، کاہے کا رونا۔

ماسٹر فاخر حسین کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھی۔ کچھ نہ پوچھیے، دل کو کیسی کیسی باتیں یاد آ کے رہ گئیں۔ لوحِ مزار گِر گئی ہے۔ اس پر وہی شعر کندہ ہے جو وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔ حروف کی سیاہی کو تیس پینتیس برس کی بارشیں بہا کے لے گئیں۔

بعد از وفات تُربتِ مادر زمیں مجو
در سینہ ہائے مردم عارف مزار ماست (1)

تحت اللفظ، شرمائے شرمائے ترنم اور کھرج کی آمیزش بلکہ آویزش سے شعر پڑھنے کی ایک مخصوس طرزِ فاخری ایجاد کی تھی جو انہیں پر ختم ہو گئی۔ پڑھنے سے پہلے شیروانی کا تیسرا بٹن کھول دیتے۔ پرھ چکتے تو بغیر پُھندنے والی تُرکی ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دیتے۔ ہر شعر ایک ہی لے اور ایک ہی بحر میں پرھنے کے سبب درمیان میں جو جھٹکے اور سکتے پڑتے۔ انہیں واہ، ارے ہاں، حضور، یا فقط باوزن کھانسی سے دور کر دیتے۔ مندرجہ بالا شعر میں سینہ ہائے عارف ادا کرتے تو انگشتِ شہادت سے تین چار دفعہ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے۔ البتہ مزار ماست پڑھتے وقت ہم نالائق شاگردوں کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی قبر کی نشان دہی کرتے۔

دیکھیے، یادوں کی بھول بھلیوں میں کہاں آ نکلا۔ جبھی تو بچارے ساحر نے کہا تھا، یا ممکن ہے کسی اور نے کہا ہو :

یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

بات دراصل مرگ چھالے سے نکلی۔ ایک دفعہ میں نے لاپروائی سے ہولڈر جھٹک دیا تھا۔ روشنائی کے چھینٹے ابھی تک کھال پر موجود ہیں۔ میں نے دیکھا کہ عاصی کھال پر پاؤں نہیں رکھتے۔ سارے کمرے میں یہی سب سے قیمتی چیز ہے۔ قیاس کن زگلستانِ من - دیکھیے زبان پر پھر وہی کم بخت “ الخ “ آتے آتے رہ گیا۔ آپ نے بھی تو کسی بزنس ایگزیکٹیو کا ذکر کیا تھا جن کے اٹالین ماربل فلور پر ہر سائز کے نایاب ایرانی قالین بچھے ہیں۔ کمرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانا ہو تو وہ ان پر قدم نہیں رکھتے۔ ان سے بچ بچ کے ننگی راہداریوں پر اس طرح قدم رکھتے زگ زیگ جاتے ہیں جیسے وہ خود اسنیکس اینڈ لیڈرس کی گوٹ ہوں۔ ارے صاحب، میں بھی ایک بزنس مین کو جانتا ہوں۔ ان کے گھر میں قالینوں کے لیے فرش پر جگہ نہ رہی تو دیواروں پر لٹکا دیے۔ قالین ہٹا ہٹا کر مجھے دکھاتے رہے کہ ان کے نیچے قیمتی رنگین ماربل ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) میرے مرنے کے بعد میری قبر رُوئے زمین پر تلاش نہ کرو۔ میرا مزار تو عارفوں کے سینے میں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شہر دو قصہ

شہر دو قصہ

وہ منحوس بندوق نثار احمد خان نے مُلا عاصی کو بخش دی کہ وہ ان کے بیٹے کے جگری دوست تھے۔ ہنگاموں میں پولیس نے سارے محلے کے ہتھیار تھانے میں جمع کروائے تو یہ بندوق بھی مال خانے پہنچ گئی۔ پھر اس کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ فقط مہر شدہ رسید ہاتھ میں رہ گئی۔ پیروی تو بہت کی۔ ایک وکیل بھی کیا۔ مگر تھانے دار نے کہلا بھیجا کہ “ ڈی آئی جی کو پسند آ گئی ہے۔“ زیادہ غوغا کرو گے تو بندوق تو مل جائے گی مگر پولیس تمہارے گھر سے شراب کشید کرنے کی بھٹی برآمد کروائے گی۔ تمہارے ساتھ رہنے والے سارے رشتے دار پاکستان جا چکے ہیں۔ تمہارا مکان بھی Evacuaee Property (متروکہ املاک) قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوچ لو۔“ چنانچہ انہوں نے سوچا اور چپ ہو رہے۔ اللہ، اللہ، ایک زمانہ تھا کہ شہرِ کوتوال ان کے باوا سے ملنے تیسرے چوتھے آتا تھا۔ پرڈی کی بڑی نایاب بندوق تھی۔ آج کل چھ لاکھ قیمت بتائی جاتی ہے۔ مگر صاحب، مجھ سے پوچھیے تو چھ لاکھ کی بندوق سے آدم خور شیر یا مردم آزار بادشاہ - یا خود - سے کچھ کم مارنا اتنی قیمتی بندوق کی توہین ہے۔ مُلا عاصی ابھی تک ہر ایک کو ضبط شدہ بندوق کی مہر شدہ رسید اور لائسنس دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدھ میل دور سے اس کا گراب اچٹتا ہوا بھی لگ جائے تو کالا (ہرن) پانی نہ مانگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خلاف وضع فطری موت

خلاف وضع فطری موت

پرانے دوست جب مدتوں بعد ملتے ہیں تو کبھی کبھی باتوں میں اچانک ایک تکلیف دو وقفہ سکوت آ جاتا ہے۔ کہنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ کچھ بھی تو نہیں کہا جاتا۔ ہزار باتیں ہجوم کر آتی ہیں۔ اور کہنی مار مار کے کندھے پکڑ پکڑ کے، ایک دوسرے کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ پہلے میں، پہلے میں، تو صاحب، میں ایک ایسے ہی وقفے میں ان کی مفلوک الحالی اور عُسرت پر دل ہی دل میں ترس کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ پاکستان آ گئے ہوتے تو سارے دلدر دور ہو جاتے۔ انہوں نے یکبارگی سکوت توڑا۔ کہنے لگے، تم واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ تمھارے ہارٹ اٹیک کی جس دن خبر آئی تو یہاں صفِ ماتم بچھ گئی۔ تمہیں یہ راج روگ، یہ رئیسوں کی بیماری کیسے لگی۔ سنا ہے میڈیکل سائنس کو ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوئی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسی خوردبین ضرور ایجاد ہو گی جو اس مرض کے جراثیم کرنسی نوٹوں میں ٹریس کر لے گی۔ بندہ خدا، تم پاکستان کاہے کو چلے گئے؟ یہاں کس چیز کی کمی ہےِ دیکھو، وہاں تمہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ میاں تجمل حسین کو ہوا۔ منیر احمد کا “ بائی پاس “ ہوا۔ ظہیر صدیقی کے “ پیس میکر “ لگا۔ منظور عالم کے دل میں سوراخ نکلا۔ مگر مجھے یقین ہے یہ پاکستان میں ہی ہوا ہو گا۔ یہاں سے تو صحیح سالم گئے تھے۔ خالد علی لندن میں انجیو گرافی کے دوران میز پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میت می ممی ساگوان کے شاندار بکس میں کراچی فلائی کی گئی۔ اور تو اور دبلے سوکھے چھوہارا، بھیا احتشام بھی لاہوط میں ہارٹ اٹیک میں گئے۔ سبطین اور انسپکٹر ملک غلام رسول لنگڑیال کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ مولانا ماہر القادری کو ہوا۔ یون کہو، کس کو نہیں ہوا۔ بھائی میرے، یہاں ذہنی سکون ہے۔ قناعت ہے۔ توکل ہے۔ یہاں کسی کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔ اہلِ ہنود میں البتہ cases ہوتے رہتے ہیں۔

گویا سارا زور کس پر ہوا؟ اس پر کہ کانپور میں ہر شخص اپنی طبعی موت مرتا ہے۔ ہارٹ اٹیک سے بے موت نہیں مرتا۔ ارے صاحب، میرے ہارٹ اٹیک کو تو انہوں نے گویا کھونٹی بنا لیا جس پر جان پہچان کے گڑے مُردے اُکھاڑ اُکھاڑ کر ٹانگتے چلے گئے۔ مجھے تو سب نام یاد بھی نہیں رہے۔ دوسرے ہارٹ اٹیک کے بعد میں نے دوسروں کی رائے سے اختلاف کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب اپنی رائے کو ہمیشہ غلط سمجھتا ہوں۔ سب خوش رہتے ہیں۔ لٰہذا چپکا بیٹھا سنتا رہا۔ اور وہ ان خوش نصیب مرحومین کے نام گنواتے رہے جو ہارٹ اٹیک میں نہیں مرے، کسی اور مرض میں مرے۔ “ اپنے مولوی محتشم ٹی بی میں مرے، حمید اللہ سینئر کلرک نبیرہ خان بہادر عظمت اللہ خان کا گلے کے کینسر میں انتقال ہوا۔ شہناز کے میاں عابد حسین وکیل ہندو مسلم فساد میں شہید ہوئے۔ قائم گنج والے عبدالوہاب خاں پورے پچیس دن ٹائیفائڈ میں مبتلا رہے۔ حکیم کی کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ بقائمی ہوش و حواس و حافظہ جاں بحق تسلیم ہوئے۔ مرنے سے دو منٹ پہلے حکیم کا پورا نام لے کر گالی دی۔ منشی فیض محمد ہیضے میں ایک دن میں چٹ پٹ ہو گئے۔ حافظ فخرالدین فالج میں گئے۔ مگر الحمدللہ، ہارٹ اٹیک کسی کو نہیں ہوا۔ کوئی بھی خلافِ وضع فطری موت نہیں مرا۔ پاکستان میں میری جان پہچان کا کوئی متمول شخص ایسا نہیں جس کے دل کا بائی پاس نہ ہوا ہو۔ چندے یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب خوش حال گھرانوں میں ختنے اور بائی پاس ایک ساتھ ہوا کریں گے۔

پھر وہ آواگون اور نروان کے فلسفے پر لیکچر دینے لگے۔ بیچ لیکچر کے انہیں اچانک ایک اور مثال یاد آ گئی۔ اپنا ہی قطع کلام کرتے ہوئے اور بھگوان بدھ کو بودھی پیڑ کے نیچے اکیلا اونگھتا چھوڑ کر کہنے لگے “ حد یہ کہ خواجہ فہیم الدین کا ہارٹ فیل نہیں ہوا۔ بیوی کے مرنے کے بعد دونوں بیٹیاں ہی سب کچھ تھیں۔ انہی میں مگن تھے۔ ایک دن اچانک پیشاب بند ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا ہے۔ فوراُ ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا جو بگڑ گیا۔ مگر تین چار مہینے میں لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو گئے۔ لیکن بڑی بیٹی نے ناگہاں ایک ہندو وکیل اور چھوٹی نے سکھ ٹھیکے دار سے شادی کر لی تو جانو کمر ٹوٹ گئی۔ پرانی چال، پرانے خیال کے آدمی ہیں۔ اٹواٹی کھٹواٹی لے کے پڑ گئے۔ اور اس وقت تک پڑے رہے جب تک اس کرسچین نرس سے شادی نہ کر لی جس نے پروسٹیٹ کے آپریشن کے دوران ان کا گومُوت کیا تھا۔ وہ حرافہ تو گویا اشارے کی منتظر بیٹھی تھی۔ بس انہیں کی طرف سے ہچر مچر تھی :

اے مردِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے؟

باپ کے سہرے کے پھول کھلنے کی خبر سنی تو دونوں عاق شدہ بیٹیوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ایسے باپ کا منھ دیکھیں تو بد جانور کا منھ دیکھیں۔ وہ چیختے ہی رہ گئے کہ بد بختو میں نے کم از کم یہ کام تو شرع شریف کے عین مطابق کیا ہے۔ میاں یہ سب کچھ ہوا۔ مگر ہارٹ اٹیک خواجہ فہیم الدین کو بھی نہیں ہوا۔ تمھارے ہارٹ اٹیک کی خبر سنی تو دیر تک افسوس کرتے رہے۔ کہنے لگے، یہاں کیوں نہیں آ جاتے؟

صاحب، مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کہا پروسٹیٹ بڑھ گیا تو میں بھی آ جاؤں گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top