بے پر کی

سوال: منشی منقار نے اپنے کام سے مطلب رکھنا کیسے سیکھا؟

جواب: ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔ منشی منقار اپنی چھتری ٹیکتے ہوئے کہیں چلے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک پاگل خانہ تھا، اس کے پاس سے گزرے تو دیوار کے عقب سے کئی پاگلوں کی بیک زبان سولہ، سولہ، سولہ۔۔۔ کی گردان سنائی دی۔ مارے تجسس کے دیوار کی طرف دیکھا تو وہاں دیوار میں ایک سوراخ نظر آیا۔ تجسس کچھ اور بڑھا تو دیوار کی جانب بڑھے اور چھتری ٹیک کر پنجوں کے بل اوپر اٹھ کر سوراخ سے اندر جھانکنے کی کوشش کرنے لگے۔ اچانک سوراخ سے ایک سلائی نکلی، پلک جھپکتے دیوار کے عقب سے سترہ، سترہ، سترہ کی گردان سنائی دینے لگی اور منشی منقار اپنی آنکھ ہتھیلی سے دبائے ہوئے زمین پر اکڑوں بیٹھے نظر آئے۔ :) :) :)
 

ابو یاسر

محفلین
صفحہ ایک اور 9 کے سعود بھائی کے پوسٹ پڑھا واقعی بڑا مزہ آیا
کاش مجھے بھی اتنی ادیبوں والی زبان آتی :(
 
غسل خانے میں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرم پانی کی گھنڈی گھماتے ہی استقبالیہ سرد چھینٹوں نے گویا یخ بستہ کھوپڑی کو تڑخنے پر مجبور کر دیا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کی پپڑیاں غسل خانے میں بکھرنے کی دیر تھی کہ طائر تخیل نے قفس سے آزادی پاتے ہی ماضی میں بیس برس کی اڑان بھر لی۔ اس طائر تخیل نے حالت پرواز میں ہی نیچے جھانک کر دیکھا تو چہار سو کہرے کی چادر تنی ہوئی تھی۔ سطح پرواز کچھ نیچے کرنے پر موسم سرما کی صبح کی دھند میں لپٹے ہوئے مناظر قدرے صاف نظر آنے لگے۔ جا بجا دھوئیں کے مرغوالے اٹھتے نظر آئے جن میں سے کچھ کے مخرج مٹی کے چولہے تھے تو کچھ کا دہانہ الاؤ تاپتے لوگوں کے دائرے میں گھری سلگتی راکھ کی ڈھیر۔ یہ کوئی گاؤں تھا جس کے اطراف دارز قامت درختوں کے جھنڈ، نالیوں کے غلیظ پانی سے بھرا تالاب، شبنم سے بھیگی ٹھٹری ساکت و صامت کھڑی گنے کی فصلیں، خالی میدان، لہسن، دھنیا، پالک، مولی اور آلو کی کیاریاں اور کچھ فصلوں سے عاری کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ایک پگڈنڈی پر کوئی اپنے کندھوں پر ہل رکھے بیلوں کی جوڑی کے ساتھ کھیتوں کی جانب رواں تھا۔ بیلوں کے چلنے سے ان کے گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز صبح کے سکوت کو مرتعش کر رہی تھی۔ گاؤں کو قرب و جوار سے جوڑنے والی پتلی سی پگڈنڈی نما سڑک پر مخالف سمت سے آتی ہوئی بیل گاڑی کو راستہ دینے کے لئے بیلوں کی جوڑی متصل کھیت میں کیا اتری، قریب ہی کوئی کھنکھارتے ہوئے اپنا لوٹا سنبھال کر سبزے کی آڑ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید فصلوں کو روندنے کی پاداش میں ہل لے کر جا رہے کسان کو کسی سمت سے آتی ہوئی گالیاں بھی سنائی دی تھیں لیکن اس نے پلٹ کر جواب دینے کے بجائے اپنا راستہ ناپنے کو ترجیح دی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے بیلوں کے گلے میں بندھے جھنجھنوں اور بیل گاڑی کی چرمراہٹ دونوں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔

طائر تخیل نے کچھ اور فاصلہ طے کیا تو دیکھا کہ گاؤں کے ایک گوشے میں ایک کنواں ہے جس کی طرف ایک چھوٹا سا بچہ رسے کا گچھا کندھوں پر لٹکائے اور ہاتھوں میں لوٹا لئے بڑھا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک مرد پیر ہاتھوں میں بالٹی لٹکائے آتا نظر آیا۔ طائر تخیل کو یہ منظر کچھ دلچسپ سا لگا تو اس نے کنوئیں کے پاس موجود ببول کے پیڑ کی شاخ پر ٹھہرنے کا قصد کیا۔ ابھی پر پھرپھرا کر گردن جھٹک کر شاخ پر پنجوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے توازن بنانے کی کوشش جاری تھی کہ دیکھا تو مرد پیر نے رسی کا ایک سرا بالٹی سے باندھ کر ایک پاؤں کنوئیں کی جگت اور دوسرا پاؤں کنوئیں کے کھلے منہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لکڑی پر جمائے جھکا ڈول کھینچے کی کوشش کر رہا تھا۔ چار پانچ قد آدم گہرائی میں موجود دھرتی کی چھاتی سے نکلے پانی سے بھری بالٹی کی سطح پر یخ سرد موسم میں بھی بھاپ اڑتی نظر آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اس بوڑھے سے چپک کر کھڑا ہو گیا اور پھر ایک ایک لوٹا کر کے پانی دونوں جسموں کو بیک وقت بھگونے لگا۔ بچے نے پوچھا کہ دادا آپ خواہ کتنی ہی سردی ہو، برسات ہو یا گرمی ہو صبح نہاتے ضرور ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھے نے جواب دیا، بیٹا! جانے کتنے برس ہو گئے ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے بغیر نہائے ناشتہ کیا ہو، موسم خواہ کیسا بھی ہو۔

ابھی دوسری بالٹی بھر کر نہانے کے دوسرے دور کی شروعات ہی کی تھی کہ میلی سرخ ساڑی اور نیلے بلاؤز میں لپٹی ایک عورت کمر پر مٹی کا گھڑا ٹکائے ہوئے کنوئیں کی جگت کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ بوڑھے نے بغیر کچھ کہے بالٹی کے ہتھے سے رسہ کھول کر اس عورت کو تھمایا اور بچے کی انگلی پکڑ کر کنوئیں کی جگت سے دور جا کھڑا ہوا۔ عورت جس راستے آئی تھی، گھڑا بھر کر اسی راستے واپس چلی گئی۔ کنوئیں کی پختہ جگت کی طرف واپس آتے ہوئے بچے نے بوڑے سے سوال کیا کہ دادا جان! کوئی پانی بھرنے آتا ہے تو دوسرے لوگ کنوئیں سے دور کیوں چلے جاتے ہیں؟ عمر رسیدہ بزرگ نے جواب دیا کہ بیٹا اس گاؤں میں دو مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوا چھوت مناتے ہیں جس کا لحاظ کرتے ہوئے لوگ اس وقت جگت سے دور جا کھڑے ہوتے ہیں جب دوسرے مذہب کا کوئی پانی بھر رہا ہو۔ بچے نے پھر پوچھا کہ دادا اس گاؤں میں ایک ہی کنواں کیوں ہے؟ دو کنوئیں ہوں تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس پر بوڑھے نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ بچے نے وہ داستان سننے میں شدید دلچسپی کا اظہار کیا۔

تیسری بالٹی بھرتے ہوئے بوڑھے نے گلا کھنکھارتے ہوئے یوں داستان کی شروعات کی۔ کئی برس قبل جب تمہارے ابو چھوٹے سے تھے تب ہمارے گاؤں میں کوئی کنواں نہیں تھا۔ کئی دفعہ کنواں کھودنے کی کوشش کی گئی لیکن دو سے تین قد آدم گہرائی تک کھودنے کے باوجود پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ ہر روز اس گاؤں کی عورتیں سر پر تلے اوپر دو تین گھڑے رکھے قریب کے گاؤں کے کنوئیں سے پانی لاتی تھیں۔ یہ بات کسی طرح بلرام پور کے راجہ کے دربار تک جا پہونچی۔ رانی نے جو یہ سنا کہ ان کی رعایا میں ایک گاؤں ایسا ہے جہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو انھوں نے ٹھان لیا کہ جب تک "امرہوا" گاؤں میں پانی نہیں نکل آتا، وہ اناج کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتاریں گی۔ راجہ کے دربار میں جیسے کہرام مچ گیا، آن کی آن میں "لونیا" (کنواں کھودنے والے) دوڑائے گئے جنھوں نے گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کر کے اس گاؤں میں کنواں کھودنے کا آغاز کیا۔ ان کے ہاتھ پھاوڑے تھامے اس تیزی سے چل رہے تھے جیسے ان کی چہیتی رانی کے کھانے کی تھال مٹی کی تہوں میں کہیں اندر دفن ہے۔ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سبھی لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اس جگہ بھیڑ لگا کر کھڑے ہو گئے اور کوشش کرنے لگے کے سب سے آگے وہ جا نکلیں۔ پورا دن کھدائی کرتے کرتے گذر گیا لیکن کوئی نوید ہاتھ نہ لگا کہ رانی کے "اپواس" (روزہ) کو توڑنے کا سامان ہو سکے۔ کنواں معمول کے کنؤں سے ڈیڑھ دو گنا گہرا کھودا جا چکا تھا۔ جب اندھیرا اس قدر بڑھ گیا کہ چراغ کی روشنی میں بھی کام کرنا ممکن نہ رہا اور کام کرنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے تو انھوں نے کام کو اگلی صبح روشنی ہونے تک کے لئے ملتوی کرنے کا قصد کیا اور کنوئیں سے نکلنے سے قبل بانس کا گز بھر لمبا ٹکڑا نصف لمبائی تک کوئیں کے بیچ میں دھنسا دیا۔ باہر آئے تو دیکھا کہ اکثر تماش بین مایوس ہو کر اور اندھرا پھیل جانے کے باعث اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ گاؤں کے کچھ گھروں سے کنواں کھودنے والوں کے لئے کھانا آیا جسے کھا کر وہ کنوئیں کے قریب ہی ایک جھونپڑی میں سو گئے۔

رات کے کسی پہر اچانک عجیب سی آواز سنائی دی اور ایک شور سا پھیل گیا۔ لوگ ہڑبڑا کر اٹھے تب تک کہیں سے شور اٹھا کہ کنوئیں کا سوتا پھوٹ گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گاؤں اور اطراف میں پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے گڑ لا لا کر کنوئیں میں پھنکنے لگے۔ ادھر راجا کے محل میں خبر بھجوانی بھی ضروری تھی کہ رانی نے اس خبر کے انتظار میں اناج پانی سے ناطہ توڑ رکھا تھا۔ قاصد دوڑائے گئے لیکن ان کے پہونچنے سے پہلے ہی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ہوتے ہوئے یہ خبر محل تک جا پہونچی تھی۔ ہر سو خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ اس روز سے اس کنوئیں کا نام "راجہ کا کنواں" یا "رانی کا کنواں" پڑ گیا۔ اور آج بھی اس گاؤں میں کوئی دوسرا کنواں نہیں ہے کہ اتنی گہرائی تک کھودنا آسان نہیں اور اس پر بھی یہ یقینی نہیں کہ پانی نکل ہی آئے۔

کہرا کچھ کچھ پھٹنے لگا تھا اور سورج کی شعائیں کہرے کی دبیز چادر کو بتدریج سالخوردہ کپڑے کی طرح شفاف بنا رہی تھیں۔ طائر تخیل نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور پر پھرپھرائے۔ اب دونوں غسل سے فارغ ہو چکے تھے اور سوکھے رومال اور تہبند بدن سے لپیٹ لیئے تھے، اس لئے بوڑھے نے ایک بالٹی پانی بھر کر اپنے اور پوتے کے بدن سے اتری میلی بنیان اور گیلے کپڑے سرف ڈال کر کوئیں کی پختہ جگت پر دھونے شروع کیئے۔ اس دوران بچہ اپنے دادا کے کہنے پر لوٹے سے تھوڑا تھوڑا پانی کپڑوں پر گراتا جاتا۔ تبھی اس بچے نے پوچھا کہ دادا جان یہ بلرام پور کے راجہ وہی تھے جو روزآنہ توپیں داغتے تھے؟ نانی جان بتاتی ہیں کہ ہر روز دوپہر بارہ بجے جب بلرام پور کے راجہ کے یہاں توپ داغی جاتی تھی تو سیکڑوں میل کے دائرے میں پھیلے گاؤں کے کھیتوں میں کام کر رہے مزدور دوپہر کی چھٹی کر کے کھانا کھانے گھر جاتے تھے۔ بوڑھے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گویا بچے کی معلومات کی تائید کی اور اس کے علم میں مزید اضافہ کیا کہ بیٹا توپ تو روزآنہ ٹھیک بارہ بجے ہی داغی جاتی تھی لیکن آپ کی نانی کا گاؤں بلرام پور سے اتنا دور ہے کہ وہاں تک توپ کی آواز پہونچتے پہونچتے کئی منٹ گذر چکے ہوتے تھے۔ لیکن تب کسی کے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی تو اسی کا سہارا لے کر مزدور چھٹیاں کرتے تھے اور ظہر کی اذان ہوتی تھی۔ تب گاڑی موٹروں کا اتنا شور نہیں تھا اس لئے آواز بھی کوسوں دور تک پھیلتی تھی۔

بچے نے اپنی معلومات کی تصدیق پر خوش ہوتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا کہ دادا جان! امی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو نانا کے گاؤں کے پاس جو بڑا سا تالاب ہے اس میں دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔ ان دھوبیوں کے گدھے وہیں آس پاس چر رہے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گدھا ایسا تھا جو ٹھیک چار بجے شام کو رینکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ گاؤں کے اسکول میں بلرام پور کے راجہ کی توپ سن کر دوپہر کے کھانے کی چھٹی ہوتی تھی اور اس گدھے کی آواز سن کر اسکول کی چھٹی ہوتی تھی۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے دھلے ہوئے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر پوتے کے ہاتھوں پر لٹکانا شروع کیا۔ پھر خالی بالٹی کو پانی سے بھرا، رسے کا چھلا بنا کر کندھے سے لٹکایا اور پانی بھری بالٹی لے کر دونوں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

طائر تخیل نے آن واحد میں خود کو اپنے قفس دائمی میں مقید پایا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کے ٹکڑے اب اپنی جگہ لے چکے تھے۔ شاور کی گھنڈی کو گھما کر تولیے سے بدن پونچھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ بیس برسوں اور سات سمندر پار ہزاروں میل کا فاصلہ یوں آن کی آن میں طے کر آئے۔ کتنا کچھ بدل گیا ہے! موسم سے مطلق ہمہ وقت سرد و گرم پانی موجود رہتا ہے، انگلی کی ایک جنبش سے گھر روشن ہو جاتا ہے، انگلیاں پھیرنے کی دیر ہے کہ ہزاروں میل فاصلے تک پیغامات پلک جھپکتے فون اور انٹرنیٹ کی مدد سے پہونچ جاتے ہیں۔ دیوار پر، کلائی پر، میز پر، کمپیوٹر میں، فون میں غرض کہ ہر جگہ گھڑیاں ہی گھڑیاں ہیں، الارم ہی الارم ہیں۔ یہ سب کچھ ہے پر کیا اس کنوئیں کے پانی کی لذت اس ٹونٹی سے نکلتے پانی میں موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے کنوئیں سے نکلا ہوا تازہ پانی گائے کی تھن سے نکلے گرم دودھ کی طرح تازگی بھرا ہوتا تھا جبکہ یہ ٹونٹی کا پانی ڈبوں میں بند دودھ جیسا بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ ٹمٹماتے چراغ جو زمین کی گہرائی میں کنواں کھودنے والوں کی مدد کرنے سے قاصر نظر آ رہے تھے وہ رات کو نیست و نابود کرنے میں کوشاں اسٹریٹ لائٹوں سے کہیں زیادہ توانا محسوس ہوتے ہیں۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے راجہ کے کنوئیں سے راجہ کے محل تک گھنٹوں میں پہونچی وہ خبر جدید ترین وسائل پیغام رسانی کو منہ چڑاتی ہوئی لگتی ہے۔ یہ الارم گھڑیاں نہ تو راجہ کے توپ کی طرح دور رس لگتی ہیں نہ ہی اس گدھے کی طرح وقت کی پابند۔

اتنے میں میز پر رکھی الارم گھڑی نے گویا چیخ کر کہا کہ ختم کیجئے یہ بے پر کی اڑان اور ناشتہ کرکے کالج کی طرف بھاگیے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کی پروفیسر کے ساتھ میٹنگ طے ہے۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
سعود بھائی آپ نے اپنی آپ بیتی بہت ہی خوبصورت الفاظ میں لکھی ہے۔ بہت شاندار۔

گاؤں گاؤں ہی ہے، اس کا مقابلہ موجودہ دور کے جدید ترین شہر بھی نہیں کر سکتے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ تو کافی پر دار ہو گئی سعود۔ ویسے بہت اچھی ہے۔ تم کو بھی چاہئے کہ ایسی تحریروں کو کمپائل کر لو، ایک ای بک کے شاندار امکانات ہیں!!
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
شاندار !
بہت خوبصورت بے پر کی ہے بھیا بلکہ الف عین انکل سے متفق ہوں یہ تو پردار ہوگئی ، آپ کے لکھنے کا انداز بھی بہت خوبصورت لگا :)
 

مہ جبین

محفلین
غسل خانے میں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرم پانی کی گھنڈی گھماتے ہی استقبالیہ سرد چھینٹوں نے گویا یخ بستہ کھوپڑی کو تڑخنے پر مجبور کر دیا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کی پپڑیاں غسل خانے میں بکھرنے کی دیر تھی کہ طائر تخیل نے قفس سے آزادی پاتے ہی ماضی میں بیس برس کی اڑان بھر لی۔ اس طائر تخیل نے حالت پرواز میں ہی نیچے جھانک کر دیکھا تو چہار سو کہرے کی چادر تنی ہوئی تھی۔ سطح پرواز کچھ نیچے کرنے پر موسم سرما کی صبح کی دھند میں لپٹے ہوئے مناظر قدرے صاف نظر آنے لگے۔ جا بجا دھوئیں کے مرغوالے اٹھتے نظر آئے جن میں سے کچھ کے مخرج مٹی کے چولہے تھے تو کچھ کا دہانہ الاؤ تاپتے لوگوں کے دائرے میں گھری سلگتی راکھ کی ڈھیر۔ یہ کوئی گاؤں تھا جس کے اطراف دارز قامت درختوں کے جھنڈ، نالیوں کے غلیظ پانی سے بھرا تالاب، شبنم سے بھیگی ٹھٹری ساکت و صامت کھڑی گنے کی فصلیں، خالی میدان، لہسن، دھنیا، پالک، مولی اور آلو کی کیاریاں اور کچھ فصلوں سے عاری کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ایک پگڈنڈی پر کوئی اپنے کندھوں پر ہل رکھے بیلوں کی جوڑی کے ساتھ کھیتوں کی جانب رواں تھا۔ بیلوں کے چلنے سے ان کے گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز صبح کے سکوت کو مرتعش کر رہی تھی۔ گاؤں کو قرب و جوار سے جوڑنے والی پتلی سی پگڈنڈی نما سڑک پر مخالف سمت سے آتی ہوئی بیل گاڑی کو راستہ دینے کے لئے بیلوں کی جوڑی متصل کھیت میں کیا اتری، قریب ہی کوئی کھنکھارتے ہوئے اپنا لوٹا سنبھال کر سبزے کی آڑ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید فصلوں کو روندنے کی پاداش میں ہل لے کر جا رہے کسان کو کسی سمت سے آتی ہوئی گالیاں بھی سنائی دی تھیں لیکن اس نے پلٹ کر جواب دینے کے بجائے اپنا راستہ ناپنے کو ترجیح دی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے بیلوں کے گلے میں بندھے جھنجھنوں اور بیل گاڑی کی چرمراہٹ دونوں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔

طائر تخیل نے کچھ اور فاصلہ طے کیا تو دیکھا کہ گاؤں کے ایک گوشے میں ایک کنواں ہے جس کی طرف ایک چھوٹا سا بچہ رسے کا گچھا کندھوں پر لٹکائے اور ہاتھوں میں لوٹا لئے بڑھا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک مرد پیر ہاتھوں میں بالٹی لٹکائے آتا نظر آیا۔ طائر تخیل کو یہ منظر کچھ دلچسپ سا لگا تو اس نے کنوئیں کے پاس موجود ببول کے پیڑ کی شاخ پر ٹھہرنے کا قصد کیا۔ ابھی پر پھرپھرا کر گردن جھٹک کر شاخ پر پنجوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے توازن بنانے کی کوشش جاری تھی کہ دیکھا تو مرد پیر نے رسی کا ایک سرا بالٹی سے باندھ کر ایک پاؤں کنوئیں کی جگت اور دوسرا پاؤں کنوئیں کے کھلے منہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لکڑی پر جمائے جھکا ڈول کھینچے کی کوشش کر رہا تھا۔ چار پانچ قد آدم گہرائی میں موجود دھرتی کی چھاتی سے نکلے پانی سے بھری بالٹی کی سطح پر یخ سرد موسم میں بھی بھاپ اڑتی نظر آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اس بوڑھے سے چپک کر کھڑا ہو گیا اور پھر ایک ایک لوٹا کر کے پانی دونوں جسموں کو بیک وقت بھگونے لگا۔ بچے نے پوچھا کہ دادا آپ خواہ کتنی ہی سردی ہو، برسات ہو یا گرمی ہو صبح نہاتے ضرور ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھے نے جواب دیا، بیٹا! جانے کتنے برس ہو گئے ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے بغیر نہائے ناشتہ کیا ہو، موسم خواہ کیسا بھی ہو۔

ابھی دوسری بالٹی بھر کر نہانے کے دوسرے دور کی شروعات ہی کی تھی کہ میلی سرخ ساڑی اور نیلے بلاؤز میں لپٹی ایک عورت کمر پر مٹی کا گھڑا ٹکائے ہوئے کنوئیں کی جگت کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ بوڑھے نے بغیر کچھ کہے بالٹی کے ہتھے سے رسہ کھول کر اس عورت کو تھمایا اور بچے کی انگلی پکڑ کر کنوئیں کی جگت سے دور جا کھڑا ہوا۔ عورت جس راستے آئی تھی، گھڑا بھر کر اسی راستے واپس چلی گئی۔ کنوئیں کی پختہ جگت کی طرف واپس آتے ہوئے بچے نے بوڑے سے سوال کیا کہ دادا جان! کوئی پانی بھرنے آتا ہے تو دوسرے لوگ کنوئیں سے دور کیوں چلے جاتے ہیں؟ عمر رسیدہ بزرگ نے جواب دیا کہ بیٹا اس گاؤں میں دو مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوا چھوت مناتے ہیں جس کا لحاظ کرتے ہوئے لوگ اس وقت جگت سے دور جا کھڑے ہوتے ہیں جب دوسرے مذہب کا کوئی پانی بھر رہا ہو۔ بچے نے پھر پوچھا کہ دادا اس گاؤں میں ایک ہی کنواں کیوں ہے؟ دو کنوئیں ہوں تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس پر بوڑھے نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ بچے نے وہ داستان سننے میں شدید دلچسپی کا اظہار کیا۔

تیسری بالٹی بھرتے ہوئے بوڑھے نے گلا کھنکھارتے ہوئے یوں داستان کی شروعات کی۔ کئی برس قبل جب تمہارے ابو چھوٹے سے تھے تب ہمارے گاؤں میں کوئی کنواں نہیں تھا۔ کئی دفعہ کنواں کھودنے کی کوشش کی گئی لیکن دو سے تین قد آدم گہرائی تک کھودنے کے باوجود پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ ہر روز اس گاؤں کی عورتیں سر پر تلے اوپر دو تین گھڑے رکھے قریب کے گاؤں کے کنوئیں سے پانی لاتی تھیں۔ یہ بات کسی طرح بلرام پور کے راجہ کے دربار تک جا پہونچی۔ رانی نے جو یہ سنا کہ ان کی رعایا میں ایک گاؤں ایسا ہے جہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو انھوں نے ٹھان لیا کہ جب تک "امرہوا" گاؤں میں پانی نہیں نکل آتا، وہ اناج کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتاریں گی۔ راجہ کے دربار میں جیسے کہرام مچ گیا، آن کی آن میں "لونیا" (کنواں کھودنے والے) دوڑائے گئے جنھوں نے گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کر کے اس گاؤں میں کنواں کھودنے کا آغاز کیا۔ ان کے ہاتھ پھاوڑے تھامے اس تیزی سے چل رہے تھے جیسے ان کی چہیتی رانی کے کھانے کی تھال مٹی کی تہوں میں کہیں اندر دفن ہے۔ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سبھی لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اس جگہ بھڑ لگا کر کھڑے ہو گئے اور کوشش کرنے لگے کے سب سے آگے وہ جا نکلیں۔ پورا دن کھدائی کرتے کرتے گذر گیا لیکن کوئی نوید ہاتھ نہ لگا کہ رانی کے "اپواس" (روزہ) کو توڑنے کا سامان ہو سکے۔ کنواں معمول کے کنؤں سے ڈیڑھ دو گنا گہرا کھودا جا چکا تھا۔ جب اندھیرا اس قدر بڑھ گیا کہ چراغ کی روشنی میں بھی کام کرنا ممکن نہ رہا اور کام کرنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے تو انھوں نے کام کو اگلی صبح روشنی ہونے تک کے لئے ملتوی کرنے کا قصد کیا اور کنوئیں سے نکلنے سے قبل بانس کا گز بھر لمبا ٹکڑا نصف لمبائی تک کوئیں کے بیچ میں دھنسا دیا۔ باہر آئے تو دیکھا کہ اکثر تماش بین مایوس ہو کر اور اندھرا پھیل جانے کے باعث اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ گاؤں کے کچھ گھروں سے کنواں کھودنے والوں کے لئے کھانا آیا جسے کھا کر وہ کنوئیں کے قریب ہی ایک جھونپڑی میں سو گئے۔

رات کے کسی پہر اچانک عجیب سی آواز سنائی دی اور ایک شور سا پھیل گیا۔ لوگ ہڑبڑا کر اٹھے تب تک کہیں سے شور اٹھا کہ کنوئیں کا سوتا پھوٹ گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گاؤں اور اطراف میں پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے گڑ لا لا کر کنوئیں میں پھنکنے لگے۔ ادھر راجا کے محل میں خبر بھجوانی بھی ضروری تھی کہ رانی نے اس خبر کے انتظار میں اناج پانی سے ناطہ توڑ رکھا تھا۔ قاصد دوڑائے گئے لیکن ان کے پہونچنے سے پہلے ہی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ہوتے ہوئے یہ خبر محل تک جا پہونچی تھی۔ ہر سو خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ اس روز سے اس کنوئیں کا نام "راجہ کا کنواں" یا "رانی کا کنواں" پڑ گیا۔ اور آج بھی اس گاؤں میں کوئی دوسرا کنواں نہیں ہے کہ اتنی گہرائی تک کھودنا آسان نہیں اور اس پر بھی یہ یقینی نہیں کہ پانی نکل ہی آئے۔

کہرا کچھ کچھ پھٹنے لگا تھا اور سورج کی شعائیں کہرے کی دبیز چادر کو بتدریج سالخوردہ کپڑے کی طرح شفاف بنا رہی تھیں۔ طائر تخیل نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور پر پھرپھرائے۔ اب دونوں غسل سے فارغ ہو چکے تھے اور سوکھے رومال اور تہبند بدن سے لپیٹ لیئے تھے، اس لئے بوڑھے نے ایک بالٹی پانی بھر کر اپنے اور پوتے کے بدن سے اتری میلی بنیان اور گیلے کپڑے سرف ڈال کر کوئیں کی پختہ جگت پر دھونے شروع کیئے۔ اس دوران بچہ اپنے دادا کے کہنے پر لوٹے سے تھوڑا تھوڑا پانی کپڑوں پر گراتا جاتا۔ تبھی اس بچے نے پوچھا کہ دادا جان یہ بلرام پور کے راجہ وہی تھے جو روزآنہ توپیں داغتے تھے؟ نانی جان بتاتی ہیں کہ ہر روز دوپہر بارہ بجے جب بلرام پور کے راجہ کے یہاں توپ داغی جاتی تھی تو سیکڑوں میل کے دائرے میں پھیلے گاؤں کے کھیتوں میں کام کر رہے مزدور دوپہر کی چھٹی کر کے کھانا کھانے گھر جاتے تھے۔ بوڑھے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گویا بچے کی معلومات کی تائید کی اور اس کے علم میں مزید اضافہ کیا کہ بیٹا توپ تو روزآنہ ٹھیک بارہ بجے ہی داغی جاتی تھی لیکن آپ کی نانی کا گاؤں بلرام پور سے اتنا دور ہے کہ وہاں تک توپ کی آواز پہونچتے پہونچتے کئی منٹ گذر چکے ہوتے تھے۔ لیکن تب کسی کے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی تو اسی کا سہارا لے کر مزدور چھٹیاں کرتے تھے اور ظہر کی اذان ہوتی تھی۔ تب گاڑی موٹروں کا اتنا شور نہیں تھا اس لئے آواز بھی کوسوں دور تک پھیلتی تھی۔

بچے نے اپنی معلومات کی تصدیق پر خوش ہوتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا کہ دادا جان! امی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو نانا کے گاؤں کے پاس جو بڑا سا تالاب ہے اس میں دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔ ان دھوبیوں کے گدھے وہیں آس پاس چر رہے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گدھا ایسا تھا جو ٹھیک چار بجے شام کو رینکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ گاؤں کے اسکول میں بلرام پور کے راجہ کی توپ سن کر دوپہر کے کھانے کی چھٹی ہوتی تھی اور اس گدھے کی آواز سن کر اسکول کی چھٹی ہوتی تھی۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے دھلے ہوئے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر پوتے کے ہاتھوں پر لٹکانا شروع کیا۔ پھر خالی بالٹی کو پانی سے بھرا، رسے کا چھلا بنا کر کندھے سے لٹکایا اور پانی بھری بالٹی لے کر دونوں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

طائر تخیل نے آن واحد میں خود کو اپنے قفس دائمی میں مقید پایا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کے ٹکڑے اب اپنی جگہ لے چکے تھے۔ شاور کی گھنڈی کو گھما کر تولیے سے بدن پونچھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ بیس برسوں اور سات سمندر پار ہزاروں میل کا فاصلہ یوں آن کی آن میں طے کر آئے۔ کتنا کچھ بدل گیا ہے! موسم سے مطلق ہمہ وقت سرد و گرم پانی موجود رہتا ہے، انگی کی ایک جنبش سے گھر روشن ہو جاتا ہے، انگلیاں پھیرنے کی دیر ہے کہ ہزاروں میل فاصلے تک پیغامات پلک جھپکتے فون اور انٹرنیٹ کی مدد سے پہونچ جاتے ہیں۔ دیوار پر، کلائی پر، میز پر، کمپیوٹر میں، فون میں غرض کہ ہر جگہ گھڑیاں ہی گھڑیاں ہیں، الارم ہی الارم ہیں۔ یہ سب کچھ ہے پر کیا اس کنوئیں کے پانی کی لذت اس ٹونٹی سے نکلتے پانی میں موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے کنوئیں سے نکلا ہوا تازہ پانی گائے کی تھن سے نکلے گرم دودھ کی طرح تازگی بھرا ہوتا تھا جبکہ یہ ٹونٹی کا پانی ڈبوں میں بند دودھ جیسا بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ ٹمٹماتے چراغ جو زمین کی گہرائی میں کنواں کھودنے والوں کی مدد کرنے سے قاصر نظر آ رہے تھے وہ رات کو نیست و نابود کرنے میں کوشاں اسٹریٹ لائٹوں سے کہیں زیادہ توانا محسوس ہوتے ہیں۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے راجہ کے کنوئیں سے راجہ کے محل تک گھنٹوں میں پہونچی وہ خبر جدید ترین وسائل پیغام رسانی کو منہ چڑاتی ہوئی لگتی ہے۔ یہ الارم گھڑیاں نہ تو راجہ کے توپ کی طرح دور رس لگتی ہیں نہ ہی اس گدھے کی طرح وقت کی پابند۔

اتنے میں میز پر رکھی الارم گھڑی نے گویا چیخ کر کہا کہ ختم کیجئے یہ بے پر کی اڑان اور ناشتہ کرکے کالج کی طرف بھاگیے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کی پروفیسر کے ساتھ میٹنگ طے ہے۔ :)

اس طائرِ تخیل نے تو بے پر کی اڑان میں ہمیں بھی اپنے ساتھ شریک کر لیا اور ہم بھی وہ ساری سیر کر کے آگئے ۔۔۔۔۔۔۔زبردست سعود۔۔۔۔بہت عمدہ تحریر ہے پڑھ کر جی خوش ہوگیا
ان سائنسی ایجادات کے مقابلے میں یقیناً پہلے کا دور بہت بہتر تھا کم از کم سچی اور خالص محبتیں تو تھیں جو اب ناپید ہیں، شاید علامہ اقبال اس حقیقت کو بہت سالوں پہلے ہی جان گئے تھے ،
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
 

مہ جبین

محفلین
غسل خانے میں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرم پانی کی گھنڈی گھماتے ہی استقبالیہ سرد چھینٹوں نے گویا یخ بستہ کھوپڑی کو تڑخنے پر مجبور کر دیا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کی پپڑیاں غسل خانے میں بکھرنے کی دیر تھی کہ طائر تخیل نے قفس سے آزادی پاتے ہی ماضی میں بیس برس کی اڑان بھر لی۔ اس طائر تخیل نے حالت پرواز میں ہی نیچے جھانک کر دیکھا تو چہار سو کہرے کی چادر تنی ہوئی تھی۔ سطح پرواز کچھ نیچے کرنے پر موسم سرما کی صبح کی دھند میں لپٹے ہوئے مناظر قدرے صاف نظر آنے لگے۔ جا بجا دھوئیں کے مرغوالے اٹھتے نظر آئے جن میں سے کچھ کے مخرج مٹی کے چولہے تھے تو کچھ کا دہانہ الاؤ تاپتے لوگوں کے دائرے میں گھری سلگتی راکھ کی ڈھیر۔ یہ کوئی گاؤں تھا جس کے اطراف دارز قامت درختوں کے جھنڈ، نالیوں کے غلیظ پانی سے بھرا تالاب، شبنم سے بھیگی ٹھٹری ساکت و صامت کھڑی گنے کی فصلیں، خالی میدان، لہسن، دھنیا، پالک، مولی اور آلو کی کیاریاں اور کچھ فصلوں سے عاری کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ ایک پگڈنڈی پر کوئی اپنے کندھوں پر ہل رکھے بیلوں کی جوڑی کے ساتھ کھیتوں کی جانب رواں تھا۔ بیلوں کے چلنے سے ان کے گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز صبح کے سکوت کو مرتعش کر رہی تھی۔ گاؤں کو قرب و جوار سے جوڑنے والی پتلی سی پگڈنڈی نما سڑک پر مخالف سمت سے آتی ہوئی بیل گاڑی کو راستہ دینے کے لئے بیلوں کی جوڑی متصل کھیت میں کیا اتری، قریب ہی کوئی کھنکھارتے ہوئے اپنا لوٹا سنبھال کر سبزے کی آڑ لینے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید فصلوں کو روندنے کی پاداش میں ہل لے کر جا رہے کسان کو کسی سمت سے آتی ہوئی گالیاں بھی سنائی دی تھیں لیکن اس نے پلٹ کر جواب دینے کے بجائے اپنا راستہ ناپنے کو ترجیح دی۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے بیلوں کے گلے میں بندھے جھنجھنوں اور بیل گاڑی کی چرمراہٹ دونوں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔

طائر تخیل نے کچھ اور فاصلہ طے کیا تو دیکھا کہ گاؤں کے ایک گوشے میں ایک کنواں ہے جس کی طرف ایک چھوٹا سا بچہ رسے کا گچھا کندھوں پر لٹکائے اور ہاتھوں میں لوٹا لئے بڑھا آ رہا ہے اور اس کے پیچھے پیچھے ایک مرد پیر ہاتھوں میں بالٹی لٹکائے آتا نظر آیا۔ طائر تخیل کو یہ منظر کچھ دلچسپ سا لگا تو اس نے کنوئیں کے پاس موجود ببول کے پیڑ کی شاخ پر ٹھہرنے کا قصد کیا۔ ابھی پر پھرپھرا کر گردن جھٹک کر شاخ پر پنجوں کی گرفت مضبوط کرتے ہوئے توازن بنانے کی کوشش جاری تھی کہ دیکھا تو مرد پیر نے رسی کا ایک سرا بالٹی سے باندھ کر ایک پاؤں کنوئیں کی جگت اور دوسرا پاؤں کنوئیں کے کھلے منہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لکڑی پر جمائے جھکا ڈول کھینچے کی کوشش کر رہا تھا۔ چار پانچ قد آدم گہرائی میں موجود دھرتی کی چھاتی سے نکلے پانی سے بھری بالٹی کی سطح پر یخ سرد موسم میں بھی بھاپ اڑتی نظر آ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اس بوڑھے سے چپک کر کھڑا ہو گیا اور پھر ایک ایک لوٹا کر کے پانی دونوں جسموں کو بیک وقت بھگونے لگا۔ بچے نے پوچھا کہ دادا آپ خواہ کتنی ہی سردی ہو، برسات ہو یا گرمی ہو صبح نہاتے ضرور ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھے نے جواب دیا، بیٹا! جانے کتنے برس ہو گئے ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے بغیر نہائے ناشتہ کیا ہو، موسم خواہ کیسا بھی ہو۔

ابھی دوسری بالٹی بھر کر نہانے کے دوسرے دور کی شروعات ہی کی تھی کہ میلی سرخ ساڑی اور نیلے بلاؤز میں لپٹی ایک عورت کمر پر مٹی کا گھڑا ٹکائے ہوئے کنوئیں کی جگت کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ بوڑھے نے بغیر کچھ کہے بالٹی کے ہتھے سے رسہ کھول کر اس عورت کو تھمایا اور بچے کی انگلی پکڑ کر کنوئیں کی جگت سے دور جا کھڑا ہوا۔ عورت جس راستے آئی تھی، گھڑا بھر کر اسی راستے واپس چلی گئی۔ کنوئیں کی پختہ جگت کی طرف واپس آتے ہوئے بچے نے بوڑے سے سوال کیا کہ دادا جان! کوئی پانی بھرنے آتا ہے تو دوسرے لوگ کنوئیں سے دور کیوں چلے جاتے ہیں؟ عمر رسیدہ بزرگ نے جواب دیا کہ بیٹا اس گاؤں میں دو مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوا چھوت مناتے ہیں جس کا لحاظ کرتے ہوئے لوگ اس وقت جگت سے دور جا کھڑے ہوتے ہیں جب دوسرے مذہب کا کوئی پانی بھر رہا ہو۔ بچے نے پھر پوچھا کہ دادا اس گاؤں میں ایک ہی کنواں کیوں ہے؟ دو کنوئیں ہوں تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس پر بوڑھے نے کہا کہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے۔ بچے نے وہ داستان سننے میں شدید دلچسپی کا اظہار کیا۔

تیسری بالٹی بھرتے ہوئے بوڑھے نے گلا کھنکھارتے ہوئے یوں داستان کی شروعات کی۔ کئی برس قبل جب تمہارے ابو چھوٹے سے تھے تب ہمارے گاؤں میں کوئی کنواں نہیں تھا۔ کئی دفعہ کنواں کھودنے کی کوشش کی گئی لیکن دو سے تین قد آدم گہرائی تک کھودنے کے باوجود پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ ہر روز اس گاؤں کی عورتیں سر پر تلے اوپر دو تین گھڑے رکھے قریب کے گاؤں کے کنوئیں سے پانی لاتی تھیں۔ یہ بات کسی طرح بلرام پور کے راجہ کے دربار تک جا پہونچی۔ رانی نے جو یہ سنا کہ ان کی رعایا میں ایک گاؤں ایسا ہے جہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے تو انھوں نے ٹھان لیا کہ جب تک "امرہوا" گاؤں میں پانی نہیں نکل آتا، وہ اناج کا ایک دانہ اور پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتاریں گی۔ راجہ کے دربار میں جیسے کہرام مچ گیا، آن کی آن میں "لونیا" (کنواں کھودنے والے) دوڑائے گئے جنھوں نے گھنٹوں کی مسافت منٹوں میں طے کر کے اس گاؤں میں کنواں کھودنے کا آغاز کیا۔ ان کے ہاتھ پھاوڑے تھامے اس تیزی سے چل رہے تھے جیسے ان کی چہیتی رانی کے کھانے کی تھال مٹی کی تہوں میں کہیں اندر دفن ہے۔ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سبھی لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اس جگہ بھڑ لگا کر کھڑے ہو گئے اور کوشش کرنے لگے کے سب سے آگے وہ جا نکلیں۔ پورا دن کھدائی کرتے کرتے گذر گیا لیکن کوئی نوید ہاتھ نہ لگا کہ رانی کے "اپواس" (روزہ) کو توڑنے کا سامان ہو سکے۔ کنواں معمول کے کنؤں سے ڈیڑھ دو گنا گہرا کھودا جا چکا تھا۔ جب اندھیرا اس قدر بڑھ گیا کہ چراغ کی روشنی میں بھی کام کرنا ممکن نہ رہا اور کام کرنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے تو انھوں نے کام کو اگلی صبح روشنی ہونے تک کے لئے ملتوی کرنے کا قصد کیا اور کنوئیں سے نکلنے سے قبل بانس کا گز بھر لمبا ٹکڑا نصف لمبائی تک کوئیں کے بیچ میں دھنسا دیا۔ باہر آئے تو دیکھا کہ اکثر تماش بین مایوس ہو کر اور اندھرا پھیل جانے کے باعث اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے۔ گاؤں کے کچھ گھروں سے کنواں کھودنے والوں کے لئے کھانا آیا جسے کھا کر وہ کنوئیں کے قریب ہی ایک جھونپڑی میں سو گئے۔

رات کے کسی پہر اچانک عجیب سی آواز سنائی دی اور ایک شور سا پھیل گیا۔ لوگ ہڑبڑا کر اٹھے تب تک کہیں سے شور اٹھا کہ کنوئیں کا سوتا پھوٹ گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے گاؤں اور اطراف میں پھیل گئی۔ لوگ اپنے گھروں سے گڑ لا لا کر کنوئیں میں پھنکنے لگے۔ ادھر راجا کے محل میں خبر بھجوانی بھی ضروری تھی کہ رانی نے اس خبر کے انتظار میں اناج پانی سے ناطہ توڑ رکھا تھا۔ قاصد دوڑائے گئے لیکن ان کے پہونچنے سے پہلے ہی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ہوتے ہوئے یہ خبر محل تک جا پہونچی تھی۔ ہر سو خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ اس روز سے اس کنوئیں کا نام "راجہ کا کنواں" یا "رانی کا کنواں" پڑ گیا۔ اور آج بھی اس گاؤں میں کوئی دوسرا کنواں نہیں ہے کہ اتنی گہرائی تک کھودنا آسان نہیں اور اس پر بھی یہ یقینی نہیں کہ پانی نکل ہی آئے۔

کہرا کچھ کچھ پھٹنے لگا تھا اور سورج کی شعائیں کہرے کی دبیز چادر کو بتدریج سالخوردہ کپڑے کی طرح شفاف بنا رہی تھیں۔ طائر تخیل نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور پر پھرپھرائے۔ اب دونوں غسل سے فارغ ہو چکے تھے اور سوکھے رومال اور تہبند بدن سے لپیٹ لیئے تھے، اس لئے بوڑھے نے ایک بالٹی پانی بھر کر اپنے اور پوتے کے بدن سے اتری میلی بنیان اور گیلے کپڑے سرف ڈال کر کوئیں کی پختہ جگت پر دھونے شروع کیئے۔ اس دوران بچہ اپنے دادا کے کہنے پر لوٹے سے تھوڑا تھوڑا پانی کپڑوں پر گراتا جاتا۔ تبھی اس بچے نے پوچھا کہ دادا جان یہ بلرام پور کے راجہ وہی تھے جو روزآنہ توپیں داغتے تھے؟ نانی جان بتاتی ہیں کہ ہر روز دوپہر بارہ بجے جب بلرام پور کے راجہ کے یہاں توپ داغی جاتی تھی تو سیکڑوں میل کے دائرے میں پھیلے گاؤں کے کھیتوں میں کام کر رہے مزدور دوپہر کی چھٹی کر کے کھانا کھانے گھر جاتے تھے۔ بوڑھے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گویا بچے کی معلومات کی تائید کی اور اس کے علم میں مزید اضافہ کیا کہ بیٹا توپ تو روزآنہ ٹھیک بارہ بجے ہی داغی جاتی تھی لیکن آپ کی نانی کا گاؤں بلرام پور سے اتنا دور ہے کہ وہاں تک توپ کی آواز پہونچتے پہونچتے کئی منٹ گذر چکے ہوتے تھے۔ لیکن تب کسی کے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی تو اسی کا سہارا لے کر مزدور چھٹیاں کرتے تھے اور ظہر کی اذان ہوتی تھی۔ تب گاڑی موٹروں کا اتنا شور نہیں تھا اس لئے آواز بھی کوسوں دور تک پھیلتی تھی۔

بچے نے اپنی معلومات کی تصدیق پر خوش ہوتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا کہ دادا جان! امی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو نانا کے گاؤں کے پاس جو بڑا سا تالاب ہے اس میں دھوبی کپڑے دھویا کرتے تھے۔ ان دھوبیوں کے گدھے وہیں آس پاس چر رہے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گدھا ایسا تھا جو ٹھیک چار بجے شام کو رینکتا تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ گاؤں کے اسکول میں بلرام پور کے راجہ کی توپ سن کر دوپہر کے کھانے کی چھٹی ہوتی تھی اور اس گدھے کی آواز سن کر اسکول کی چھٹی ہوتی تھی۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے دھلے ہوئے کپڑے نچوڑ نچوڑ کر پوتے کے ہاتھوں پر لٹکانا شروع کیا۔ پھر خالی بالٹی کو پانی سے بھرا، رسے کا چھلا بنا کر کندھے سے لٹکایا اور پانی بھری بالٹی لے کر دونوں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔

طائر تخیل نے آن واحد میں خود کو اپنے قفس دائمی میں مقید پایا۔ چٹخی ہوئی کھوپڑی کے ٹکڑے اب اپنی جگہ لے چکے تھے۔ شاور کی گھنڈی کو گھما کر تولیے سے بدن پونچھتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ بیس برسوں اور سات سمندر پار ہزاروں میل کا فاصلہ یوں آن کی آن میں طے کر آئے۔ کتنا کچھ بدل گیا ہے! موسم سے مطلق ہمہ وقت سرد و گرم پانی موجود رہتا ہے، انگی کی ایک جنبش سے گھر روشن ہو جاتا ہے، انگلیاں پھیرنے کی دیر ہے کہ ہزاروں میل فاصلے تک پیغامات پلک جھپکتے فون اور انٹرنیٹ کی مدد سے پہونچ جاتے ہیں۔ دیوار پر، کلائی پر، میز پر، کمپیوٹر میں، فون میں غرض کہ ہر جگہ گھڑیاں ہی گھڑیاں ہیں، الارم ہی الارم ہیں۔ یہ سب کچھ ہے پر کیا اس کنوئیں کے پانی کی لذت اس ٹونٹی سے نکلتے پانی میں موجود ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے کنوئیں سے نکلا ہوا تازہ پانی گائے کی تھن سے نکلے گرم دودھ کی طرح تازگی بھرا ہوتا تھا جبکہ یہ ٹونٹی کا پانی ڈبوں میں بند دودھ جیسا بجھا بجھا سا لگتا ہے۔ ٹمٹماتے چراغ جو زمین کی گہرائی میں کنواں کھودنے والوں کی مدد کرنے سے قاصر نظر آ رہے تھے وہ رات کو نیست و نابود کرنے میں کوشاں اسٹریٹ لائٹوں سے کہیں زیادہ توانا محسوس ہوتے ہیں۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے راجہ کے کنوئیں سے راجہ کے محل تک گھنٹوں میں پہونچی وہ خبر جدید ترین وسائل پیغام رسانی کو منہ چڑاتی ہوئی لگتی ہے۔ یہ الارم گھڑیاں نہ تو راجہ کے توپ کی طرح دور رس لگتی ہیں نہ ہی اس گدھے کی طرح وقت کی پابند۔

اتنے میں میز پر رکھی الارم گھڑی نے گویا چیخ کر کہا کہ ختم کیجئے یہ بے پر کی اڑان اور ناشتہ کرکے کالج کی طرف بھاگیے کہ تھوڑی ہی دیر میں آپ کی پروفیسر کے ساتھ میٹنگ طے ہے۔ :)

ایک بات اور وہ یہ کہ طائرِ تخیل اگر بے پر کی اڑان کے ساتھ اتنے میل کا سفر کرسکتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔اگر پر کے ساتھ اڑتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پوری دنیا کا چکر تو لگا ہی لیتا ۔۔۔۔۔۔۔ہے نا؟؟؟؟؟:laughing3:
 

محمد امین

لائبریرین
بہت خوب سعود ۔۔ کیا ہی زبردست تخیل اور تحریر ہے۔ مجھے اس تحریر میں مختار مسعود کی جھلک نظر آئی :) مگر تم نے تو شاید ان کو پڑھا بھی نہیں۔۔
 
ڈھول بجانا حرام ہے!

خلاف معمول آج منشی منقار کے ہاتھوں میں ان کی سیاہ چھتری نظر نہیں آ رہی تھی جو کہ دھوپ اور بارش کی عدم موجودگی میں لاٹھی کی طرح ٹیکنے کے کام آتی تھی تو کبھی کندھے پر رکھ کر سودہ سلف کا جھولا ٹانگنے کے لئے کھونٹی کا کردار ادا کرتی تھی۔ اور تو اور دکھیا کی بھینس بھی اس چھاتے سے ڈرتی تھی بلکہ یوں کہیں کہ مانوس تھی۔ اور ہو بھی کیوں ناں، منشی منقار کے گھر کے راستے میں اس کا کھونٹا جو تھا اور منشی جی ادھر سے گزرتے ہوئے دور سے ہی چھتری کی نوک سے اس کو کچوکے لگاتے تاکہ دم کی جنبش ان کے بے داغ کپڑے پر تجریدی آرٹ کا نمونہ نہ بنا دے۔ اب تو دکھیا کی بھینس منشی جی کو دیکھتے ہی راستے سے ہٹ کر کھڑی ہو جاتی تھی، کیا خبر وہ چھتری کی نوک سے ڈرنے لگی تھی یا پھر کپڑے دھلتے ہوئے منشیائن کے کوسنے سنتے سنتے اسے منشی جی پر ترس آنے لگا تھا۔ آج بھی جگالی کرتی ہوئی بھینس نے منشی جی کو قریب سے گزرتے دیکھا تو راستے سے ہٹنے لگی لیکن ان کے ہاتھوں میں چھتری مفقود پا کر گھور کر دیکھا کہ کہیں اس کا حافظہ مردم شناسی کسی صدمے کا شکار تو نہیں ہو گیا اور پھر جانے کیا سوچ کر گلپھڑوں کے گوشوں سے جھاگ گرانے کے عمل میں منہمک ہو گئی۔ منشی جی کی شخصیت کے ساتھ ان کی چھتری کچھ ایسی ہی چپک کر رہ گئی تھی کہ برسات کے دنوں میں برساتی کی دکان پر لٹکی ہوئی چھتریاں دیکھ کر ہر کوئی بے ساختہ و بلا ارادہ آس پاس منشی منقار کو ڈھونڈنے لگتا۔ چھتری کے کپڑے میں کتنے پیوند لگائے تھے، اس کی ٹوٹی ہوئی تیلیوں کو کتنی دفعہ تبدیل کیا تھا اور زنگ لگی سلاخ کو کتنی دفعہ ریگ مال سے صاف کر کے اس پر تیل لگایا تھا اس کے اعداد و شمار شاید قصبے کے نکڑ پر بیٹھنے والے موچی کے پاس بھی نہ ہوں۔ گاؤں کے دس بارہ برس کی عمر تک کے بچوں نے ان کو کبھی بغیر چھتری کے نہیں دیکھا تھا۔

بھولا کی کریانے کی دوکان کے پاس پڑے ہوئے لکڑی کے تخت پر بیٹھے فارغ لوگ جو تاش سے شغل فرما رہے تھے انھوں نے دور سے ہی منشی جی کو آتا دیکھ تاش کے پتے سمیٹ دیئے اور ایسے بن گئے جیسے پچھلے کئی دنوں سے کسی عالمی بحران یا سیاسی اتھل پتھل سے پریشان ہو کر حل کی فراق میں مستغرق ہوں۔ بھولا جو اپنی کریانے کی دکان کے سامنے مٹی کے چبوترے پر ایک جانب بھٹی پر چائے اور دوسری طرف لکڑی کے چھوٹے سے تختے پر پانی سے تر سرخ رومال بچھا کر پان کا سامان پھیلائے رکھتا تھا اس نے منشی جی کو دیکھ کر معمول کے مطابق لپک کر ان کے لئے سادہ میٹھا پان لگانا شروع کر دیا۔ پان کی گلوری کو اخبار کے ٹکڑے میں لپیٹ کر اس کے گوشے میں چونا لگایا اور منشی جی کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ قریب پہونچتے ہی لوگوں نے لہک کر منشی جی کو بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دی اور بھولا نے پان کی گلوری ان کی جانب بڑھائی لیکن وہ بغیر کسی کی جانب دیکھے یا جواب دیے آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ سبھی حیران تھے کہ آج منشی جی کو کیا ہوا؟ لوگ چہ می گوئیاں کرنے لگے کہ منشی جی کو تو خوشی سے اچھلنا چاہئے کہ اتنے عرصہ بعد لگاتار تین بیٹیوں پر ایک بیٹے کی نوید آئی ہے۔ منشیائن نے ایک بیٹے کی طلب میں کیا کچھ نہیں کیا۔ کتنی درگاہوں اور مزاروں کے چکر لگائے، کتنی منتیں مانیں اور کتنے ویدوں حکیموں کی کڑوی کسیلی جڑی بوٹیاں جھیلیں۔ اور ایک منشی جی ہیں کہ منھ لٹکائے بغیر کسی سے بات کیے گذر گئے، ضرور منشیائن سے کوئی کہا سنی ہوئی ہوگی۔ بھولا کہنے لگا کہ پچھلے تین برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ منشی جی اس راستے سے باغ کی طرف گئے ہوں اور یہاں سے پان نہ کھایا ہو۔ ہر ماہ کے اخیر میں پورے مہینے کا حساب کرکے اس کے برابر دھان یا گیہوں اپنی چھوٹی بیٹیوں کے ہاتھ بھجوا دیتے ہیں۔

باغ میں آم کے پیڑوں کی شاخوں سے لٹکتے جھولتے بچے دور سے منشی جی کو آتا دیکھ کر بھاگ کر باغ کے ایک گوشے میں رکھی پیال کی ڈھیر کے پیچھے چھپ گئے اور کچھ بچے ایک پیڑ کے اطراف ایستادہ ارہر کے کٹے ہوئے گٹھوں کے اندر گھس کر چھپ گئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد بھی جب بچوں کو منشی جی کی نا نظر آنے والے بچوں پر غائبانہ ڈانٹ پھٹکار کے مانوس الفاظ نہیں سنائی دیے تو بچے بھی بڑے حیران ہوئے۔ ڈرتے ڈرتے باہر نکل کر دیکھا تو منشی جی کو باغ کے ایک سرے پر موجود تالاب کی منڈیر پر بیٹھے پایا۔ جہاں وہ ناخن سے زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر جانے کس فکر میں مستغرق تھے۔

منشی جی کبھی بے چینی میں اٹھ کر تالاب کی منڈیر پر ادھر ادھر بے مقصد چلنے لگتے تو کبھی ایک ٹک تالاب کے گدلے پانی کی تہوں میں کچھ جھانکنے کی کوشش کرنے لگتے۔ کبھی ایسا لگتا کہ ان کی نظریں خلا میں معلق کسی نقطے کا طواف کر رہی ہیں اور اس نقطے کی دوری کا اندازہ لگانے کی لا حاصل کوشش کر رہی ہیں۔ کل جب وہ گھر کے برامدے میں بیٹھے بے چینی سے دائی کے باہر نکلنے کے منتظر تھے اور اس وقت بیٹے کی نوید سن کا ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ کتنی دفعہ انھوں نے چھوٹی بچی کو گود میں اٹھایا تھا، منجھلی کو گلے سے لگایا تھا اور بڑی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیر کر سینے سے لگایا تھا۔ کمرے کی صفائی کے بعد جب پہلی بار بچے کو دیکھنے منشیائن کے پاس گئے تو مبارکباد کے جواب میں جو کچھ منشیائن نے ان سے کہا اس نے ان کے ہوش اڑا دیے۔ چہرے کی رونق کسی سوئی چبھے غبارے کی طرح آن واحد میں ہوا ہو گئی۔ خیر اس وقت تو انھوں نے منشیائن کو کچھ نہ کہا کہ آس پاس محلے کی کچھ دوسری بڑی بوڑھیاں بھی موجود تھیں۔ پوری رات بے چینی کے عالم میں گذری کہ منشیائن کی منت کو کیسے پورا کر سکیں گے۔

دن کسی طرح یوں ہی گھر سے دور رہ کر گاؤں سے باہر باہر گذرا لیکن شام کو جب کھر لوٹے تو یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ کل جمعہ کا دن ہے اور منشیائن کی منت پوری کرنے کا دن بھی۔ رات میں انھوں نے منشیائن کو آڑے ہاتھوں لیا کہ نیک بخت! تجھے منت ہی ماننی تھی تو ایسا شیطانی عمل کیوں چنا اور وہ بھی میرے ہاتھوں! اس پر طرہ یہ کہ جمعہ کے دن؟ نسرین کی امی، ذرا سوچ تو لیا ہوتا کہ جمعہ کی نماز کی امامت کرانے کے بعد مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر پورے گاؤں کے مجمع کے سامنے ڈھول بجاتا ہوا کیسا لگوں گا؟ افسوس تو منشیائن کو بھی تھا، لیکن بیٹے کی آرزو کی ماری ماں کو کب ہوش رہتا ہے۔ منشی جی بھی کچھ سوچ کر رہ گئے کہ اب بات کو لوٹایا تو جا نہیں سکتا۔ پھر کچھ تو بیٹے کی آمد کی خوشی اور کچھ منشیائن کی آنکھوں سے کاجل بہہ جانے کی فکر نے ان کو اس کام کے لئے اس حد تک آمادہ کر دیا کہ صبح اٹھتے ہی منی رام دھوبی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دھوبن اپنی ساڑی کا پلو سنبھالتی ہوئی باہر نکلی تو منشی جی نے کہا کہ ہمیں آج دوپہر تک کے لئے آپ کا ڈھول ادھار چاہئے۔ دھوبن نے منشی جی کو حیرت و استعجاب سے دیکھا لیکن کچھ کہے بغیر اندر سے ڈھولکی لا کر منشی جی کو تھما دی۔ گھر لا کر منشی جی نے ڈھولکی کی رسی کے تانے بانے میں پھنسے لوہے کے چھلوں کو کھسکا کر چمڑے کا تناؤ بڑھایا۔ پھر ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر جمعہ کے خطبہ کی تیاری کرنے لگے۔

بڑی ہمت جٹا کر منشی جی ڈھولکی مسجد تک لے گئے۔ اس سے پہلے ڈھولکی پر پانی کے چھینٹے مار کر اس کو پاک کرنا نہیں بھولے تھے۔ بالآخر اسے لے جا کر مسجد کے دروازے کے پاس صحن سے باہر رکھ دیا۔ جمعہ کا وقت ہوا تو منشی جی منبر پر جا بیٹھے، آج ان کے ہاتھوں میں خطبہ کے دوران ٹیکنے کے لئے ان کی چھتری موجود نہیں تھی۔ مؤذن نے اذان دی اور منشی جی نے منت ماننے کے موضوع پر خطبہ دیا۔ خطبے کے اختتام پر یہ اعلان کیا کہ سبھی لوگ نماز کے بعد مسجد کے باہر کچھ دیر ٹھہر جائیں۔ آج تجسس تو سبھی کو تھا، سب کچھ عجیب جو ہو رہا تھا۔ امامت سے فارغ ہو کر اور چند رکعت سنتیں پڑھ کر جب سبھی لوگ مسجد سے باہر نکل آئے تو منشی جی مسجد کے دروازے پر آ کھڑے ہوئے۔ قریب ہی رکھی ڈھولکی کو گلے میں ڈالا اور ہاتھوں میں چوبی چھڑی سنبھالی۔ خشک ہو رہے گلے کو تھوک نگل کر اتنا تر کیا کہ اس سے آواز نکل سکے اور یوں گویا ہوئے:

گاؤں والو! ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ڈھول بجانا حرام ہے، ڈھول بجانا حرام ہے۔ ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ڈھول دائیں طرف سے بجانا بھی حرام ہے اور۔۔۔ ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ڈھول بائیں جانب سے بجانا بھی حرام ہے۔ ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ڈھول لکڑی سے بجانا بھی حرام ہے اور۔۔۔ ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ڈھول ہاتھوں سے بجانا بھی حرام ہے۔ ڈھم ڈھم ڈھم ڈھم ڈھم ڈھم۔۔۔ ۔۔۔ حرام ہے حرام ہے حرام ہے حرام ہے۔۔۔۔ :) :) :)
 
Top