حسان خان

لائبریرین
خوش آن عاشق که شیدایِ تو باشد
بُوَد رسوا و رسوایِ تو باشد
(علی نقی کَمَره‌ای)
خوشا وہ عاشق جو تمہارا شیدا ہو!۔۔۔ جو رُسوا ہو اور تمہارا رُسوا ہو!
 
خرمی چون باشد اندر کوی دین کز بهر حق
خون روان گشتست از حلق حسین در کربلا
(سنایی غزنوی)

دین کے کوچے میں شادمانی کیوں ہو جب حق کے برائے کربلا میں حضرت حسین(علیہ سلام) کے حلق سے خون رواں ہوا ہے۔
 
گر بلائی آید از عشق شهید کربلا
عاشقانه آن بلا را مرحبا باید زدن
(نعمت اللہ شاہ ولی)

اگر شہیدِ کربلا (حضرت حسین علیہ سلام) کے عشق کی وجہ سے (بالفرضِ محال) کوئی بلا آئے بھی تو اس بلا کو عاشقانہ طور پر مرحبا کہنا چاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر سال تازہ می شَوَد ایں دردِ سینہ سوز
سوزے کہ کم نگردد و دردے کہ بے دواست


اوحدی مراغہ ای

ہر سال یہ دردِ سینہ سوز تازہ ہو جاتا ہے، سوز کہ جو کم ہی نہیں ہوتا اور درد کہ جس کی کوئی دوا ہی نہیں ہے۔

(یکم محرم الحرام 1439ھ)
 

محمد وارث

لائبریرین
چوں کسے را تابِ دیدارِ تو نیست
از جمالت اے مۂ تاباں چہ حظ


فیض کاشانی

جب کسی کو بھی تیرے دیدار کی تاب نہیں ہے تو پھر اے مۂ تاباں تیرے جمال سے کیا لطف و مسرت؟
 

الف نظامی

لائبریرین
بیدل کسے بعرشِ حقیقت نمی رسید
تا خاکِ پائے احمد مرسل نمی شود
(بیدل)
بیدل وہ کیسے عرشِ حقیقت کو پائے گا
جو خاکِ پائے احمد مرسل نہیں ہوا
(سید شاکر القادری)
 

محمد وارث

لائبریرین
دیدۂ بے خواب جامی گشت از آں رُخ بہرہ مند
از فروغِ مہ بجز شب زندہ داراں را چہ حظ


مولانا عبدالرحمٰن جامیؒ

اے جامی صرف جاگنے والی آنکھیں ہی اُس چہرے کے دیدار سے بہرہ مند ہوئیں کہ رات رات بھر جاگنے والوں‌ کے علاوہ کسی اور کو فروغِ ماہ سے کیا حظ؟
 

محمد وارث

لائبریرین
عُشاق را ز سرو و گُل و ارغواں چہ حظ
بے جلوۂ جمالِ تو از گلستاں چہ حظ


شیخ علی حزیں لاھیجی

عاشقوں کو سرو اور پھولوں اور ارغواں (سرخ پھولوں والے درخت) سے کیا حظ؟ تیرے جمال کے جلوے کے بغیر گلستاں سے کیا حظ؟
 

حسان خان

لائبریرین
مرَضِ عشق نشد بر تو مُشخّص، ناصح!
گرچه عُمری‌ست طبیبِ دلِ بیمارِ منی
(محمد فضولی بغدادی)
اے ناصح! اگرچہ ایک عُمر سے تم میرے دلِ بیمار کے طبیب ہو، [لیکن پھر بھی] تمہیں مرَضِ عشق کی تشخیص نہ ہو پائی۔
 

حسان خان

لائبریرین
خبر از سوزِ پنهانم کسی دارد که همچون من
بُوَد در سینه‌اش داغی ز دردِ لاله‌رُخساری

(محمد فضولی بغدادی)

میرے سوزِ پِنہاں کی خبر [فقط] اُس شخص کو [ہو سکتی] ہے کہ جس کے سینے میں میری طرح کسی [یارِ] لالہ رُخسار کے دردِ [عشق] کے باعث کوئی داغ ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بهرِ نجات بر همه چون طاعتِ خدا
فرض است احترامِ تو یا مرتضا علی!
(محمد فضولی بغدادی)

اے علیِ مرتضیٰ! نجات کے لیے طاعتِ خدا کی مانند سب پر آپ کا احترام فرض ہے۔

(یعنی جس طرح نجات کے لیے خدا کی اطاعت فرض ہے، اُسی طرح آپ کا احترام بھی فرض ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ساقیا! مَی دِه که پندِ ناصحم مجروح کرد
خواهدم کُشت این جراحت گر نباشد مرهمی
(محمد فضولی بغدادی)
اے ساقی! شراب دو کہ ناصح کی نصیحت نے مجھے زخمی کر دیا [ہے]؛ اگر کوئی مرہم [موجود] نہ ہو تو یہ زخم مجھے قتل کر ڈالے گا۔

× 'ساقیا' کی بجائے 'زاهدا' بھی نظر آیا ہے، لیکن ثانی الذکر نُسخہ بدل بیت کے مضمون سے مناسبت نہیں رکھتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اگر تو خندہ کنی، از گُل و شراب چہ حظ
وگر تو زہر دہی، تشنہ را ز آب چہ حظ


عرفی شیرازی

اگر تُو مسکرا دے تو پھر پھولوں‌ اور شراب سے کیا حظ؟ اور اگر تُو زہر دے تو پھر پیاسے کو پانی سے کیا حظ؟
 

حسان خان

لائبریرین
به شامِ هجر مَیِ روشنم دِه، ای فانی
که در سوادِ شب این شعله شمعِ راهِ من است
(امیر علی‌شیر نوایی 'فانی')

اے فانی! شامِ ہجر میں مجھے شرابِ روشن دو، کہ تاریکیِ شب میں یہ شعلہ میری شمعِ راہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از زندگیِ سرد و خموش گشته‌ام ملول
دنیایِ گرم و آتشِ سوزانم آرزوست

(دستگیر پنجشیری)
میں سرد و خاموش زندگی سے ملول ہو گیا ہوں؛ مجھے دنیائے گرم و آتشِ سوزاں کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از خروشِ رودِ جیحون سرکشی آموختم
احتیاجی نیست ما را مستیِ صهبایِ ما
(دستگیر پنجشیری)
میں نے دریائے جیحون کے [جوش و] خروش سے سرکَشی سیکھی ہے۔۔۔ ہمیں اپنی شراب کی مستی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
× دریائے جیحون/آمو = افغانستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمنستان کی سرحدوں کے نزدیک بہنے والے دریا کا نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شاد بادا تاجیکستانِ جوان و شادمان
باغ و راغش سبز و خُرّم کوه‌سارش بی‌خزان
(دستگیر پنجشیری)

تاجکستانِ جوان و شادمان شاد رہے! اُس کے باغ و مرغزار سبز و خُرّم اور اُس کے کوہسار بے خزاں رہیں!


× شاعر کا تعلق افغانستان سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
افغان اشتراکی شاعر دستگیر پنجشیری اپنی ۱۹۸۱ء میں کہی گئی نظم 'تاجیکستانِ جوان' میں ایک جا کہتے ہیں:
"چشمهٔ فرهنگِ افغانان و تاجیکان یک است"

(دستگیر پنجشیری)
افغانوں اور تاجکوں (مردُمِ تاجکستان) کی ثقافت کا سرچشمہ ایک ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغان اشتراکی شاعر دستگیر پنجشیری اپنی ۱۹۸۴ء میں کہی گئی نظم 'دولتِ آوارگان' میں ایک جا کہتے ہیں:
"باز با سرکوبِ خونینِ فلسطینی کند

دشمنانِ انقلاب و چاکرانِ زور و زر
جویبارِ خون روان
در میانِ آسیابِ دشمنِ صیهونیان
باز "بیروت" این عروسِ شهرهایِ مردُمِ خاورزمین
این دلِ "شرقِ" مسلمانانِ ما
با تفنگ و تانک‌ها
بهرِ شادیِ سلاطینِ طلا
از برایِ نفت‌خوارانِ جهان
غرقه می‌گردد به خونِ گرمِ صدها بی‌گناه"
(دستگیر پنجشیری)
"فلسطینیوں کی خونیں سرکوبی کے ساتھ دوبارہ
دشمنانِ انقلاب اور چاکرانِ زور و زر
جُوئے خوں رواں کر رہے ہیں
صیہونی دشمنوں کی چکّی کے درمیان۔۔۔
دوبارہ 'بیروت' - مردُمِ مشرق زمیں کے شہروں کی یہ عروس
ہمارے مسلمانوں کے 'مشرق' کا یہ دل -
تفنگوں اور ٹینکوں کے ذریعے
سلاطینِ زر کی شادمانی کے لیے
دنیا کے نفت خوروں کے برائے
صدہا بے گناہوں کے خونِ گرم میں غرق ہو رہا ہے"

× نَفْت = تیل
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تیغِ حِلم از تیغِ آهن تیزتر
بل ز صد لشکر ظفرانگیزتر
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تیغِ بُردباری، تیغِ آہن سے زیادہ تیز ہے؛ بلکہ صد لشکروں سے زیادہ فتح انگیز ہے۔
 
Top