بڑی بحر کے شعر

فہد اشرف

محفلین
مضطر خیرآبادی کے ایک شعر کا مصرع

اسے کیوں ہم نے دیا دل، جو ہے بے مہری میں کامل، جسے عادت ہے جفا کی، جسے چڑ مہر و وفا کی، جسے آتا نہیں آنا، غم وحسرت کا مٹانا، جو ستم میں ہے یگانہ، جسے کہتا ہے زمانہ، بت بے مہر و دغاباز، جفا پیشہ فسوں ساز، ستم خانہ برانداز، غضب جس کا ہر اک ناز، نظر فتنہ مژہ تیر، بلا زلف گرہ گیر، غم ورنج کا بانی، قلق ودرد کا موجب، ستم و جور کا استاد، جفاکاری میں ماہر، جو ستم کیش و ستم گر، جو ستم پیشہ ہے دلبر، جسے آتی نہیں الفت، جو سمجھتا نہیں چاہت، جو تسلی کو نہ سمجھے، جو تشفی کو نہ جانے، جو کرے قول نہ پورا، کرے ہر کام ادھورا، یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق اسے چاہا، جو نہ آئے نہ بلائے، نہ کبھی پاس بٹھائے، نہ رخ صاف دکھائے، نہ کوئی بات سنائے، نہ لگی دل کی بجھائے، نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے، نہ رہ و رسم بڑھائے، جو کہو کچھ تو خفا ہو، کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو، جو نہ چاہوگے تو کیا ہے، نہ نباہوگے تو کیا ہے، بہت اتراؤ نہ دل دے کے، یہ کس کام کا دل ہے، غم واندوہ کا مارا، ابھی چاہوں تو میں رکھ دو اسے تلوؤں سے مسل کر، ابھی منہ دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں! ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
پہلا مصرع​
ایک دن باغ میں جا کر ، چشم حیرت ذدہ وا کر، جامہء صبر قبا کر، طائر ہوش اڑا کر، شوق کو راہ نما کر، مرغ نظارہ اڑا کر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی، شکل غنچوں کے دہن کی تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی پری تھی، خوش نسیم سحری تھی ، سرو شمشاد و صنوبر ، سنبل و سوسن و عر عر ، نخل میوے سے رہے بھر، نفس باد معنبر، در و دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوّق، کہیں انگور معلّق ، نالے بلبل کے مدقّق، کہیں غوغائی کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل، غم ہوا کشتہ و بسمل، شادی خاطر سے گئی مل، خرّمی ہو گئی حاصل ، روح بالیدہ ہو آئی، شان قدرت کی دکھائی۔ جان سی جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا۔

دوسرا مصرع​
نا گہاں صحنِ چمن میں، مجمع سرو و سمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں، جیسے خورشید کرن میں، ماہ پروین و پرن میں، دیکھا اک دلبر رعنا و طرح دار جفا کار، دل آزار نمودار، نگہ ہمسرِ مشیر، مژہ تر کشِ پُر تیر، سر زلف گرہ گیر،دل خلق کی زنجیر، جبیں نور کی تصویر، وہ رخِ شمس کی تنویر ، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر ، دہنِ غنچۂ خاموش، سمنِ برگِ سرِ دوش ، سخن بحرِ گہر جوش، بدن سروِ قباپوش ، چھڑی گل کی ہم آغوش ، وفا رحم فراموش ، ہر اک آن ستم کوش ، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا نہ کسی فہم میں آیا ، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھ کو جو آیا، مجھے اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پائوں پہ جھکایا،اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ ’’توہے عاشقِ شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا ، ہووے تجھ پر یہ ہو یدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو نباہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے ، نہ کبھی گل کی طرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر، نہ گلستاں میں گزر کر ، چھوڑدے سب کی مودّت، ہم سے رکھ دل کی محبت ، اس میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نبائیں ، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گریہ مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیرؔ آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا‘‘۔
(نظیر اکبر آبادی)​

یہ تو بحرِ بے کراں ہو گئی!
 

فہد اشرف

محفلین
مضطر خیرآبادی کے ایک شعر کا مصرع

اسے کیوں ہم نے دیا دل، جو ہے بے مہری میں کامل، جسے عادت ہے جفا کی، جسے چڑ مہر و وفا کی، جسے آتا نہیں آنا، غم وحسرت کا مٹانا، جو ستم میں ہے یگانہ، جسے کہتا ہے زمانہ، بت بے مہر و دغاباز، جفا پیشہ فسوں ساز، ستم خانہ برانداز، غضب جس کا ہر اک ناز، نظر فتنہ مژہ تیر، بلا زلف گرہ گیر، غم ورنج کا بانی، قلق ودرد کا موجب، ستم وجور کا استاد، جفاکاری میں ماہر، جو ستم کیش وستم گر، جو ستم پیشہ ہے دلبر، جسے آتی نہیں الفت، جو سمجھتا نہیں چاہت، جو تسلی کو نہ سمجھے، جو تشفی کو نہ جانے، جو کرے قول نہ پورا، کرے ہر کام ادھورا، یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق اسے چاہا، جو نہ آئے نہ بلائے، نہ کبھی پاس بٹھائے، نہ رخ صاف دکھائے، نہ کوئی بات سنائے، نہ لگی دل کی بجھائے، نہ کلی دل کی کھلائے نہ غم و رنج گھٹائے، نہ رہ و رسم بڑھائے، جو کہو کچھ تو خفا ہو، کہے شکوے کی ضرورت جو یہی ہے تو نہ چاہو، جو نہ چاہوگے تو کیا ہے، نہ نبھاؤ گے تو کیا ہے، بہت اتراؤ نہ دل دے کے، یہ کس کام کا دل ہے، غم واندوہ کا مارا، ابھی چاہوں تو میں رکھ دو اسے تلوؤں سے مسل کر، ابھی منہ دیکھتے رہ جاؤ کہ ہیں! ان کو ہوا کیا کہ انہوں نے مرا دل لے کے مرے ہاتھ سے کھویا
پورا شعر ضیا محی الدین کی خوبصورت آواز میں
 

فاخر رضا

محفلین
جنگ صفین کی منظر کشی کرتے ہوئے حضرت عباس علیہ السلام کی اپنی تلوار سے گفتگو کو محسن نقوی نے یوں بیان کیا ہے. صرف پہلا مصرعہ لکھ رہا ہوں. باقی محفل فورم میں موجود ہے

سن کسی کی نہ سن ایک ہی دھن کو بن اور چن چن کہ مغرور سر کاٹ دے
سنسناتی ہوئی سب سروں سے گزر وار سینے پہ کر اور جگر کاٹ دے

مجھے یہ بہر اپنے آپے میں ہونے اور لمبی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی بھی لگی
 

جاسمن

لائبریرین
کس طرح بنائیں ہم اپنا یہ مکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے
جوڑتے انہیں کیسے اور پھر کہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

ایک حسرت تعمیر دل میں جو ذرا سی تھی ڈر تھا جاگ اٹھے گی اور جاگ اٹھی ہے
کان کھول کر سن لو تم مرا بیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

یہ تو جانتے سب ہیں ہم بھی سوچتے اب ہیں جس نگر میں رہتے تھے اس نگر میں رہتے ہیں
ایک ہے زمیں اپنی ایک آسماں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

گھر نہیں اگر اپنا گھر میں جا تو سکتے ہیں در نہیں اگر اپنا در تو کھول سکتے ہیں
آ کے کہہ گیا ہم کو کون درمیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اس مقدمے پر بھی اک مقدمہ ہوگا زور و شور سے ہوگا اور آج ہی ہوگا
کھول کر اگر دیکھیں ان کی ہم دکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

کیا سبق پڑھاتے ہیں شہر کو دیانت کا آ گیا ہے جب اس پر فیصلہ عدالت کا
آپ کیوں پکڑتے ہیں ان کی چوریاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

روز میں بکھرتا ہوں روز ہی بکھرتا ہے میرے گھر کا شیرازہ تم کرو جو اندازہ
کیا سنا گیا کوئی گھر کی داستاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

گھرکیوں کے گاؤں سے ریت اٹھا کے لائے تھے اینٹ شہر سے لی تھی یہ نہ تھا مگر معلوم
جھیلنا پڑیں گی پھر گھر کی گھرکیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اینٹ لے گیا کوئی ریت لے گیا کوئی مجھ کو زندگی بھر کا روگ دے گیا کوئی
روز کہتا پھرتا ہوں میں یہاں وہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اینٹ ریت سے ہم نے اک مکاں بنایا تھا ہم نے ہاں بنایا تھا پر کہاں بنایا تھا
گو کہ جانتے ہیں ہم زیر آسماں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

نون میم راشدؔ سے ہم نبیلؔ پوچھیں گے زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں
کس طرح بنائیں ہم نظم کا جہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

نبیل احمد نبیل
 

فہد اشرف

محفلین
کس طرح بنائیں ہم اپنا یہ مکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے
جوڑتے انہیں کیسے اور پھر کہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

ایک حسرت تعمیر دل میں جو ذرا سی تھی ڈر تھا جاگ اٹھے گی اور جاگ اٹھی ہے
کان کھول کر سن لو تم مرا بیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

یہ تو جانتے سب ہیں ہم بھی سوچتے اب ہیں جس نگر میں رہتے تھے اس نگر میں رہتے ہیں
ایک ہے زمیں اپنی ایک آسماں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

گھر نہیں اگر اپنا گھر میں جا تو سکتے ہیں در نہیں اگر اپنا در تو کھول سکتے ہیں
آ کے کہہ گیا ہم کو کون درمیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اس مقدمے پر بھی اک مقدمہ ہوگا زور و شور سے ہوگا اور آج ہی ہوگا
کھول کر اگر دیکھیں ان کی ہم دکاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

کیا سبق پڑھاتے ہیں شہر کو دیانت کا آ گیا ہے جب اس پر فیصلہ عدالت کا
آپ کیوں پکڑتے ہیں ان کی چوریاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

روز میں بکھرتا ہوں روز ہی بکھرتا ہے میرے گھر کا شیرازہ تم کرو جو اندازہ
کیا سنا گیا کوئی گھر کی داستاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

گھرکیوں کے گاؤں سے ریت اٹھا کے لائے تھے اینٹ شہر سے لی تھی یہ نہ تھا مگر معلوم
جھیلنا پڑیں گی پھر گھر کی گھرکیاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اینٹ لے گیا کوئی ریت لے گیا کوئی مجھ کو زندگی بھر کا روگ دے گیا کوئی
روز کہتا پھرتا ہوں میں یہاں وہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

اینٹ ریت سے ہم نے اک مکاں بنایا تھا ہم نے ہاں بنایا تھا پر کہاں بنایا تھا
گو کہ جانتے ہیں ہم زیر آسماں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

نون میم راشدؔ سے ہم نبیلؔ پوچھیں گے زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں
کس طرح بنائیں ہم نظم کا جہاں یارو ریت اس نگر کی ہے اینٹ اس نگر کی ہے

نبیل احمد نبیل
تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا۔۔۔۔ مرغوب حسین طاہر
 

جاسمن

لائبریرین
غزل: جاوید اختر
شہر کے دکاں دارو کاروبارِ اُلفت میں سُود کیا زِیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقد جاں کتنا ہے تم نہ جان پاؤ گے

کوئی کیسے مِلتا ہے پھول کیسے کھِلتا ہے آنکھ کیسے جھُکتی ہے سانس کیسے رُکتی ہے
کیسے رَاہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے

وصل کا سُکوں کیا ہے ہجر کا جُنوں کیا ہے، حُسن کا فُسوں کیا ہے عشق کے دُروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گُمرہاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے

زخم کیسے پَھلتے ہیں داغ کیسے جَلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے

نامُراد دِل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسےَمرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غم زَدوں کی تنہائی زیست بے اَماں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے


جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیّت سجانے میں اِک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چُنتے ہو صرف لفظ سُنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
 
Top