رویت ہلال اور اسلامی مہینوں کے ایک مستقل کلینڈر کی تشکیل اور اسکی قباحت سے متعلق ایک علمی مکالمہ !

رویت ہلال اور اسلامی مہینوں کے ایک مستقل کلینڈر کی تشکیل اور اسکی قباحت سے متعلق ایک علمی مکالمہ !
سوال یہ ہے کہ اسلامی مہینوں کے تعین میں قمری تقویم پر ہی کیوں اعتبار کیا گیا ہے شمشی تقویم پر کیوں نہیں جبکہ روزے سے فائق عبادت نماز جو ہر روز پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اسکیلئے شمسی تقویم پر ہی اعتبار کیا گیا .......
پھر یہ تو وہ امر تھا کہ جس کے تعین کیلئے آپ کی جدید ترین ٹیکنولوجی سے بھی صحیح ذریعہ وحی کا تھا یعنی الله کے رسول کو وحی کے ذریعے خبر دے دی جاتی کہ فلاں تاریخ سے رمضان محرم صفر یا کوئی بھی اسلامی مہینہ شروع ہوگا تو کیا کوئی الله کے رسول صل الله علیہ وسلم سے سوال کرتا پھر غور کیجئے اگر الله کے رسول علیہ سلام یہ کہ دیتے کہ ہر مہینہ تیس دن کا ہوگا اور سال ٣٦٠ دن کا یا ہر مہینہ ٢٩ دن کا ہوگا اور سال ٣٤٨ دن کا تو کیا صحابہ رض احتجاجی کمیٹی بٹھا دیتے ......
کیا اسکا آپ کے پاس کوئی جواب ہے کہ جس چیز کا تعین الله کے رسول آسانی سے فرما سکتے تھے بغیر کسی جدید ترین ٹیکنولوجی کے استعمال کے تو کیوں نہیں فرمایا .....
آج آپ یہ کر سکتے ہیں نہ کہ سال میں فلاں فلاں دن چاند اپنی پیدائش کے اعتبار سے فلاں فلاں مقام پر ہوگا سو اسلامی مہینے فلاں فلاں تاریخوں میں شروع اور فلاں فلاں میں ختم ہونگے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے تو کیا مشکل تھا رسول خدا کیلئے کہ وہ فلاں اور فلاں مقرر کر دیتے اور امت انکے سامنے چوں بھی بول سکتی یا الله رب العزت آسمان سے ہی کوئی تقویم اتار دیتے تو کیا مشکل تھا جب حضرت مسیح علیہ سلام کی قوم کیلئے مائدہ اتار دیا تھا کہ نشانی ہو تو محمّد عربی صل الله علیہ وسلم کی قوم کیلئے ایک جنتری نہیں اتاری جا سکتی تھی .....
اسلامی مہینوں کا مدار قمری تقویم پر رکھنے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم دینی مسائل میں بنیاد ہے جسکی تشریح حدیث رسول صل الله علیہ وسلم سے ہوتی ہے اسلامی امور کا بنیادی منبع یہی دو نصوص ہیں یعنی قرآن و سنت ..........
لیکن امت مسلمہ کو تفقہ اور اجتہاد کی نعمت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ہجری سن کی ابتداء ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف سفہاء نہیں تھے بلکہ صاحبان عقل تھے ...
کچھ تفصیل ہجری سن کی :
ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ”ﺍﻟﻔﺎﺭﻭﻕ“ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺭﻗﻢ ﻃﺮﺍﺯ ﮨﯿﮟ
211 ﮨﺠﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﭘﯿﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﻟﻔﻆ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "ﯾﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻣﻮﺟﻮﺩﮦ؟
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﻠﺲ ﺷﻮﺭﯼٰ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ
ﺍﻭﺭ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﭘﮩﻠﻮ ﺯﯾﺮ ﺑﺤﺚ ﺁﺋﮯ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﭘﮩﻠﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﺳﻨﮧ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮨﻮ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ 8 ﺭﺑﯿﻊ ﺍﻻﻭﻝ ﮐﻮ ﮨﺠﺮﺕ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻝ ﻣﺤﺮﻡ ﺳﮯﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺩﻭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺁﭨﮫ ﺩﻥ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺳﻨﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ
ﺳﻦ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻗﺎﺿﯽ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﭘﻮﺭﯼ، ﻋﻼﻣﮧ ﺷﺒﻠﯽ ﻧﻌﻤﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺧﺘﻼﻓﺎﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ”ﺭﺣﻤﺔ ﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ“ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
”ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮧﮨﺠﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮﺍ،
ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ 30ﺟﻤﺎﺩﯼ ﺍﻟﺜﺎﻧﯽ 17 ﮨﺠﺮﯼ: ﻣﻄﺎﺑﻖ 9/12 ﺟﻮﻻﺋﯽ 638ﺀ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻡ ﮐﻮ ﺣﺴﺐ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﭘﮩﻼ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﺠﺮﺕ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ )ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺑﻦ ﻋﺴﺎﮐﺮ ﺟﻠﺪ ﺍﻭﻝ ﺭﺳﺎﻟﮧ ﺍﻟﺘﺎﺭﯾﺦ ﻟﻠﺴﯿﻮﻃﯽ ﺑﺤﻮﺍﻟﮧ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ(
ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﻗﺮﯾﻨﮧ ﻗﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﻤﺮﯼ ﮐﯿﻠﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺗﮭﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﺳﻨﯿﻦ ﮐﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﭼﻞ ﻧﮑﻼ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻋﮩﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﺗﮏ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﺮﺍﺳﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﻤﻞ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺭﺍﺝ ﻻﺯﻣﯽ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺩﻓﺘﺮﯼ ﺧﺎﻣﯽ ﺳﮯ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﺎﻣﯽ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽﺍﻟﻠﮧﻋﻨﮧ ﻧﮯ
ﻣﺠﻠﺲ ﺷﻮﺭﯼٰ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺣﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
تقویم کی تحقیق اوراس کی ضرورت
گزشتہ زمانے کے واقعات وحادثات وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ، معاملات وغیرہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے کیلنڈر کی نہایت ضرورت ہے، کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے، نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
تقویم کی اقسام
واضح ہو کہ دنیا میں کئی قسم کی تقاویم چلتی ہیں، جن کا دار ومدار تین چیزیں ہیں ۔ سورج، چاند ، ستارے۔ اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں ۔ شمسی، قمری، نجومی۔ پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عیسوی ،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں دوم بکرمی جس کو ہندی بھی کہتے ہیں، سوم تاریخ فصلی۔ ان کے علاوہ او ربھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ رومی ، تاریخ الہٰی۔
تاریخ عیسوی
تاریخ عیسوی ( جس کو تاریخ انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں) شمسی ہے۔ یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے رائج ہے یا نصاری کے بزعم باطل حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے شروع ہوتی ہے، اس کی ابتدا جنوری او رانتہا دسمبر پر ہوتی ہے۔
تاریخ ہندی
ہندی سال کو بسنت کہتے ہیں۔ اس تاریخ کا دوسرا نام بکرمی ہے۔ مہینے یہ ہیں ، چیت، بیساکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگہن، پوس، ماگھ، پھاگن۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سن ہجری سے تقریباً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں رائج تھی۔
تاریخ فصلی بنیادی طور پر سال شمسی ہے، یہ سن اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری کی وصولیابی اور دوسرے دفتری انتظامات کے لیے وضع کیا گیا تھا۔
نجومی جنتری شاکھا کے نام سے مشہور ہے ، مہینے یہ ہیں: حمل، ثور، جوزا، سرطان ،اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔
تاریخ رومی، تاریخ اسکندری اور تاریخ الہیٰ
تاریخ رومی اسکندر کے عہدسے مروج ہے، جس پر1975ء میں 22866ء سال شمسی گزر چکے ہیں، اس کا دوسرا نام تاریخ اسکندری ہے یہ 282 قبل المسیح سے شروع ہوتی ہے ۔
تاریخ رومی کے مہینے ( جن کی ابتداء مہرجان یعنی کا تک سے ہوتی ہے) یہ ہیں: تشرین اول، تشرین آخر، کانون اول، کانون آخر، شباط ، اذار، نیسان، ابار، حزیران، تموز، اب، ایلول۔ رومیوں کا سال 1-4-365 دن کا ہوتا ہے۔ تشرین آخر، نیسان، حزیران، ایلول یہ چار مہینے 30 دن کے باقی سب 31 کے ہوتے ہیں، سوائے شباط کے، جو28 دن کا ہوتا ہے اور ہر چوتھے سال 29 دن کا ہوتا ہے ۔
تاریخ الہیٰ کے مہینے یہ ہیں : فروردین ، اردی، بہشت ،خورداد، تیر،ا مرداد، شہر پو،مہر، آبان ذے، بہمن، اسفندار۔یہ سن جلال الدین اکبر بادشاہ کے جلوس کی تاریخ ( یعنی3 ربیع الثانی992ھ) سے شروع ہوا، اس میں حقیقی شمسی سال ہوتے ہیں۔
تاریخ قمری
تاریخ قمری کی ابتدا محرم الحرام سے ہوتی ہے، یہ اسلامی تاریخ ہے ،جو دیگر تقاویم سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے۔
سنہ شمسی اور قمری میں فرق
جاننا چاہیے کہ سنہ شمسی تین سو پینسٹھ دن او رربع یوم کا ہوتا ہے ، چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہو کر ہر چوتھے سال 366 دن کا سال ہو جائے گا۔ سنہ قمری سے سنہ شمسی میں دس دن اکیس گھنٹے زائد ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ہُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیآءً وَّالْقَمَرَ نُوْراً وَّقَدَّرَہ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ“ (یونس:۵۵)< /div> ترجمہ:۔”وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو (بھی) نورانی بنایا اور اس (کی چال) کے لئے منزلیں مقرر کیں (کہ ہر روز ایک منزل قطع کرتا ہے) تاکہ (ان اجرام کے ذریعے) تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو“۔(معارف القرآن)
یہاں سورج اور چاند کو سال کے دنوں کے تعین کا مدار بتایا جا رہا ہے
پہلی اقوام میں مصریوں نے شمسی حسابات پر اپنی تقویم کی بنیاد رکھی، اس میں قمری مہینوں کے بجائے نئے مہینوں کا تعین کیا جاتاہے اور یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مہینوں سے موسموں کی مکمل نشاندہی ہو، اس سے متأثر ہوکر رومی بادشاہ جولیس نے شمسی کیلنڈر کو اپنایا۔اس وقت رومی کیلنڈر کا برا حال تھا، کسی وقت میں یہ بالکل ایک قمری کیلنڈر تھا اور اس میں دس مہینے تھے اور اس کی ابتداء مارچ سے ہوتی تھی ، بعد ازاں اس میں دو مہینے اور شامل کئے گئے اور اس کی ابتداء مارچ کے بجائے جنوری سے کی گئی، نیز دن کی ابتداء مغرب کے بجائے رات کے نصف سے ہونے لگی، غالباًیہ پہلی باقاعدہ کوشش تھی کہ مہینوں میں موسموں کا خیال رکھا جائے۔ جولیس نے مصریوں سے متأثر ہوکر اس کیلنڈر کو بالکل ایک شمسی کیلنڈربناکر اس کا ناطہ چاند سے بالکل توڑ دیا، اس نے مہینوں کی تعداد بارہ رہنے دی اور ان میں دنوں کی تعداد ایسی رکھی کہ سب کا مجموعہ ۳۶۵ یا ۳۶۶ بنے، اس میں ایک دن کا فرق لیپ کے سال کے لئے ہے۔ جولیس نے ساتویں مہینے کو اپنے نام سے موسوم کرکے جولائی بنادیا، اس کے بعد آنے والے بادشاہ نے آٹھویں مہینے کو اپنے نام سے منسوب کرکے اگست بنادیا… عام لوگ اس کو عیسائی کیلنڈر سمجھتے ہیں، اگرچہ عیسائی بھی اس کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ رومی کیلنڈر تھا… نہ تو ا س کی ابتداء کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کے مہینوں سے اس کا کچھ اظہار ہوتا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا، بحوالہ فہم الفلکیات)
اب اسلام چاند کو بنیاد تصور کرتا ہے یہ ایک بنیادی اصول ہے
پہلی چیز ہے مہینوں کی تعداد کا تعین سو قرآن کہتا ہے
”ان عدة الشھور عند اللّٰہ اثنا عشر شھرافی کتاب اللّٰہ یو م خلق السمٰوات والا رض منھا اربعة حرم۔ذلک الدین القیم۔ (التوبہ:۳۶)
ترجمہ:۔” بلا شبہ، مہینوں کا شمار اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جس دن کہ پید اکیا تھا (اللہ نے) آسمانوں اور زمین کو، ان (بارہ) میں سے چار حرام ہیں (جن میں جنگ کرنے کی ممانعت ہے) یہ درست دین ہے۔“
یعنی مہینے بارہ ہی ہیں لیکن اسلامی سال کے دنوں کی تعداد رومی یا عیسوی تقویم کی طرح ٣٦٥ نہیں اسلامی سال عام طور پر ٣٥٥ یا ٣٥٤ دنوں کا ہوتا ہے جیسے کہ پہلے بھی عرض کی کہ اگر تمام اسلامی سال ٢٩ دنوں کے مہینوں پر مشتمل ہو تو ٣٤٨ دن کا سال ہوگا اور اگر تیس دنوں پر مشتمل ہو تو ٣٦٠ دن کا سال ہوگا اب آپ اسلامی کلینڈر کو کیسے تشکیل دینگے یعنی ہر مہینہ ٢٩ کا ہو یا ہر مہینہ ٣٠ کا ہو یا پھر ہر دو مہینے ٢٩ کے اور پھر دو تیس کے ہوں ..........
معاملہ یہ ہے کہ قمری تقویم میں ایسا کرنا ممکن ہی نہیں ہے اگر آپ کو سال کا کوئی کلینڈر تشکیل ہی دینا ہے تو پھر شمسی تقویم اختیار کیجئے قمری تقویم سے ہاتھ اٹھا لیجئے لیکن یہ امر نصوص یعنی قرآن و سنت کے مخالف ہوگا......
”یسألونک عن الا ھلة، قل ھی مواقیت للناس والحج“(البقرة:۱۸۹)
ترجمہ:۔” وہ آپ سے ہلا لوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے وہ لوگوں کے لئے مقررہ اوقات(کے پیما نے) ہیں اور حج کے لئے۔“
لیجئے قرآن وضاحت کر رہا ہے کہ اسلامی سال کے مہینوں کی ابتداء و انتہاء کا تعین چاند پر ہوگا ناکہ سورج پر ......
فواد بھائی کے پیش کردہ نکات کی روشنی میں چند چیزوں کی وضاحت کر دوں....
پیش نظر مسلے کا تعلق ایمانیات سے نہیں ہے جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی کمنٹ میں کہا " دیکھئے دین یا مذہب کچھ بنیادیں رکھتا ہے اور انہی بنیادوں پر اس دین کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اب ان بنیادوں کو اگر جدت یا دنیوی تبدیلیوں کی وجہ سے تغیر پذیر کر دیا جاوے تو دین کی شکل ہی تبدیل ہو جاوے گی .....
دین کی بنیاد عقائد پر ہے پھر عبادات ہیں پھر معاشرت ، معیشت ، عدالت ، سیاست اور اخلاقیات کا نمبر آتا ہے اب دنیا چاہے کتنی ہی ترقی کر جاوے ایمانیات یا عقائد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے اگر لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے اور اب جہاز میں اڑتے پھرتے ہیں تو کیا اس سے عقیدہ توحید ، رسالت یا پھر ختم نبوت پر کوئی فرق پڑے گا .....
یہی معاملہ عبادات کا ہے کیا دنیوی ترقی کی وجہ سے نمازوں کی تعداد کو پانچ سے تین کر دیں یا روزے تیس سے پندرہ کر دیں یا پھر نماز میں رکوع و سجود کی ترتیب تبدیل کر دی جاوے ......
اب اس مسلے کو دیکھتے ہیں کہ یہ کہاں فال کرتا ہے
چونکہ یہ عقائد کا معاملہ نہیں اسلئے ایمانیات میں سے نہیں یہ معاملہ عبادات کا ہے اور یہ لازمی امر ہے کہ عبادات کا کوئی نہ کوئی طریق تو سنت میں مذکور ہوگا جو تبدیل نہیں ہو سکتا .....
دوسری طرف یہ معاملہ انتظامی بھی ہے اور اسکو جانچنا پرکھنا اور اسکی تنظیم کرنا ریاست کی مقتدر قوتوں کی ذمے داری ہے اب اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے
اب ہر دو مقدمات کو الگ سمجھتے ہیں
١ طریق عبادت
٢٢ انتظامی اسٹرکچر
پہلی چیز چونکہ طریق عبادت منصوص ہے تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اب کچھ نماز والی مثال کی وضاحت چونکہ نماز کے اوقات کا معلوم کرنا انتظامی امر ہے سو اس میں کسی بھی جدید ترین ذریعے کا استعمال طریق عبادت میں مخل نہیں ہوگا یعنی رکوع و سجود کی ھیت یا پڑھے جانے والے اذکار کی نوعیت وغیرہ ........
اسکو مزید یوں سمجھیں آپ مساجد کی تعمیر جیسے چاہیں کریں اسلام اس میں مخل نہیں ہوتا لیکن کیا نمازیوں کو نماز کیلئے بلانے کا طریق تبدیل کیا جا سکتا آپ یہ کہیں کہ چونکہ اب جدید دور ہے سو اذان نہ دی جائے بلکہ اسکی جگہ ہارن بجا دیا جاوے یا نمازیوں کے موبائلز پر ایس ایم ایس الرٹ موصول ہو جاوے .....
اذان کے ذریعے نماز کیلئے بلانا منصوص ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ہاں اذان دی کیسے جائے یعنی اسکیلئے کون سا آلہ استعمال ہو یہ منصوص نہیں انتظامی امر ہے ..........
اب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی مہینوں کی ابتداء یا انتہاء کا منصوص طریقہ کیا ہے اور اس میں انتظامی امور کون سے ہیں ......
اس کی منصوص بنیاد ہلال کی رویت بصری ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے
عن ابی ہریرة رض قال: قال رسول اللہ ا صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غم علیکم فصوموا ثلاثین یوما“۔ (۴)
حضرت ابوہریرة رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تو افطار کرو......
اسکی مزید وضاحت دوسری روایت میں ہوتی ہے
فلاتصوموا حتی تروہ پس روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو
آگے اور وضاحت ہوتی ہے
”عن ابن عباس رض قال جاء اعرابی الی النبی ا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ قال یا بلال! اذن فی الناس ان یصوموا غداً“۔ (۱۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ا کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاند دیکھا یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے‘ حضور ا نے فرمایا: تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں‘ اس نے جواب دیا ”جی ہاں“ پھر فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے جواب دیا جی ہاں! حضورا نے فرمایا: اے بلال رض !لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں
ہر جگہ صراحت ہے کہ بنیاد چاند کا دیکھ لینا ہے یعنی صاف اور صریح رویت بصری ......
پیش کی گئی آخری روایت پر غور کیجئے اس میں دو امور ہیں ایک احکامی اور دوسرا انتظامی جو احکامی ہے وہ امر لازم ہے اور جو انتظامی ہے اسپر کوئی شدت نہیں کی گئی......
اب دو امور کو الگ الگ سمجھئیں پہلا ہے چاند کا موجود ہونا یا چاند کا (visible height) پر موجود ہونا دوسرا ہے چاند کا آنکھوں سے دیکھ لیا جانا یعنی (sighting of moon )
اسلام نے مدار (sighting of moonn ) کو بنایا ہے ناکہ اسکے موجود ہونے کو آپ لوگوں کی پوری بحث کا مدار چاند کی پیدائش پر ہے سو یہ اسلام کا مسلہ ہی نہیں پہلی اسٹیج پر اسلام کا مسلہ ہے چاند کے دیکھ لیے جانے پر .......
یعنی چاند (visible height) پر موجود ہے لیکن (weather cloudy ) ہے سو چاند کو دیکھا نہیں جا سکتا تو اسلام اس پر حکم نہیں لگائے گا اب سائنس یہ تو بتا سکتی ہے کہ چاند موجود ہے لیکن اسلامی احکامات کے مطابق جب تک لوگ اسے دیکھ نہ لیں اسلامی مہینہ شروع یا ختم نہیں ہوگا .....
اس بنیادی اصول کو اور آسان کرتا ہوں
" اسلامی عبادات کے لئے اوقات اور ایام کے تعین میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے‘ مگر اس میں فرق یہ ہے کہ اوقات کا تعین سورج کی گردش کے حوالہ سے ہوتا ہے اور ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتاہے‘ مثلا: روزے کے دن کا تعین قمری ماہ کے طور پر رویت ہلال کے ذریعہ ہوتا ہے‘ مگر روزے کے روز مرہ دورانیہ کا تعین سورج کی گردش کے مطابق کیا جاتاہے۔ اسی طرح حج کے ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے ہوتاہے‘ مگر حج کے ارکان وافعال مثلا: عرفات‘ مزدلفہ‘ منیٰ کے وقوف اور اوقات کا تعین سورج کی گردش کے مطابق ہوتا ہے "
پوری اسلامی تاریخ میں جب وسائل آج کی طرح موجود نہیں تھے چاند پر کبھی جھگڑا کھڑا نہیں ہوا اور آج بھی دنیا اسلام میں یہ مسلہ ہمارے ملک پاکستان کا ہے اس معاملے میں اسلام کی تعلیمات اتنی واضح اور سادہ ہیں کہ کسی ابہام کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں .....
صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ ایک سادہ صاف اور واضح کلیہ جو دین نے مقرر کر دیا ہے چاند دیکھ کر رمضان کی ابتداء کرو چاند دیکھ کر انتہاء کرو چاند اپنی پیدائش کے بعد ویکسنگ فیز میں کب آتا اور کب وہ وزیبل ہائٹ پر موجود ہوتا ہے اس سے اسلام گفتگو ہی نہیں کرتا .......
اب اگر آپ کلینڈر مقرر بھی کر دیجئے تو اسکو تسلیم کتنے لوگ کرینگے اور کیا اختلاف کرنے والے اپنی روش سے رک جائینگے جناب من یہ مسلہ حقیقت میں انتظامی کمزوری اور سیاسی اختلافت اور پھر سب سے بڑھ کر مناصب کے حصول کا ہے ....
اب ہم لیتے ہیں مسلے کے انتظامی پہلو کو ....
١ اس ادارے کا موجود ہونا جو حکومت وقت کی طرف سے (moon sighting) کرے .
٢ گواہیوں کے ادارے تک پہنچنے کا انتظام
٣ گواہیوں کی جانچ پڑتال (Scrutiny)
٤ ادارے کے ممبران
٥٥ فیصلے کا عوام تک پہنچایا جانا
یہ تمام امور انتظامی ہیں اور آپ آزاد ہیں ان میں جدید ترین آلات استعمال کیجئے اسلام ایسی تمام کاوشوں کو خوش آمدید کہے گا.....
یہاں حدیث کے دوسرے حصے کو لیتے ہیں اور انتظامی امور کے تیسرے نکتے کو دیکھتے ہیں جو ٹکنالوجی کے استعمال کے اعتبار اہم ترین ہے یعنی گواہیوں کی جانچ پڑتال (Scrutiny)...
”عن ابن عباس رض قال جاء اعرابی الی النبی ا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ قال یا بلال! اذن فی الناس ان یصوموا غداً“۔ (۱۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ا کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاند دیکھا یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے‘ حضور ا نے فرمایا: تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں‘ اس نے جواب دیا ”جی ہاں“ پھر فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے جواب دیا جی ہاں! حضورا نے فرمایا: اے بلال رض !لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں....
الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے گواہ کی حیثیت کو پرکھا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ یہ ایک انتظامی امر تھا چونکہ عرب ایک صحرائی علاقہ ہے اسلئے چند کا دیکھ لیا جانا مشکل نہیں تھا لیکن پھر بھی اس سے پوچھا گیا تاکہ اسکے سچ اور جھوٹ کی تصدیق ہو سکے .......
اب ایک صاحب سرحد کے کسی دور دراز گاؤں سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے چاند دیکھ لیا ہے لیکن علم فلکیات کے اعتبار سے چاند ابھی (visible height ) پر موجود ہی نہیں یا اسکی (naked eye) سے (visibility) ممکن ہی نہیں سو ہم علم فلکیات کی رو سے حق الیقین پر کھڑے ہیں کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے سو اسکی گواہی مردود ہوگی ......
اب آپ ایک منصوص کلیے کے ساتھ انتظامی امر کے جدید ترین طریقوں کو منسلک کر دیجئے تو ایک شفاف ترین نظام وجود میں آ جائے گا ....
جناب من یہ نہیں کہا چاند نظر آ گیا بلکہ یہ کہا چاند دیکھ کر دونوں میں بہت فرق ہے جیسا کہ عرض کی اس معاملے کو رویت سے جوڑا گیا ہے چاند کی پیدائش (new moon ) سے نہیں ...
دونوں معاملات میں بنیادی فرق ہے نمازوں کے اوقات کی پابندی کا حکم ہے وہ جیسے بھی معلوم ہوں یہ ایک انتظامی امر ہے یہاں چاند کی رویت بصری کا حکم ہے جو ایک انتظامی معاملہ نہیں ......
اذان والی مثال بہت واضح ہے اصل حکم نماز ہے اور اسکی طرف بلانے کا منصوص طریقہ اذان ہے ایسا ہی اصل حکم روزہ ہے اور اسکی ابتداء کو معلوم کرنے کا منصوص طریقہ چاند کی رویت بصری ہے ....
کچھ امور کے معلوم کرنے کا طریقہ منصوص ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے اور اگر طریقہ منصوص نہ ہو تو پابندی ضروری نہیں ...


حسیب احمد حسیب
 

رانا

محفلین
کسی طرح فانٹ فارمیٹنگ ختم کردیا کریں کہ اس طرح نسخ میں تو دو تین سطور سے زیادہ پڑھنے کی طرف طبیعت ہی مائل نہیں ہوتی۔
 

دوست

محفلین
چاند کی پیدائش اور چاند دیکھنے کے طریقوں کو الگ الگ قرار دینا آپ کا فہم ہے۔ امت میں سبھی اس مؤقف کے قائل نہیں ہیں۔ جب چاند کی پیدائش کا یقین کرنا ممکن نہیں تھا تو ننگی آنکھ سے دیکھنا مناسب تھا، اب جبکہ اس کی پیدائش کا حساب کتاب سیکنڈز تک ممکن ہو چکا ہے تو کیلنڈر بنانا اور اس پر عمل کرنا بھی ممکن ہے۔ ترکی، آسٹریلیا، جاپان (؟) اور امریکہ کی بڑی مسلم تنظیمیں یہی طریقہ کار اپنا چکی ہیں اور بڑی کامیابی سے اس پر عمل پیرا ہیں۔
 
چاند کی پیدائش اور چاند دیکھنے کے طریقوں کو الگ الگ قرار دینا آپ کا فہم ہے۔ امت میں سبھی اس مؤقف کے قائل نہیں ہیں۔ جب چاند کی پیدائش کا یقین کرنا ممکن نہیں تھا تو ننگی آنکھ سے دیکھنا مناسب تھا، اب جبکہ اس کی پیدائش کا حساب کتاب سیکنڈز تک ممکن ہو چکا ہے تو کیلنڈر بنانا اور اس پر عمل کرنا بھی ممکن ہے۔ ترکی، آسٹریلیا، جاپان (؟) اور امریکہ کی بڑی مسلم تنظیمیں یہی طریقہ کار اپنا چکی ہیں اور بڑی کامیابی سے اس پر عمل پیرا ہیں۔


موقف مختلف ہو سکتا ہے
 
Top