نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات

انسان کا ڈیزائین کسی بھی دوسرے جاندار کی طرح ہی ہے۔ مذہبی نکتہ نظر سے بھی اور اس کے بغیر بھی یہ صاف نظر آتا ہے کہ انسانوں میں ہی لوگ ارتقاء کے مختلف مراحل میں ہیں۔ بہت سے لوگ، و کچھ سوچ ہی نہیں پاتے جو دوسرے لوگ زمانوں سے کرر ہے ہیں۔ بہت سے لوگ وہ کچھ سمجھ ہی نہیں پاتے جو دوسرے لوگوں کے لئے سامنے کی بات ہے۔ لہذا سوچوں کو منجمد حالت میں رکھنا، اور غیر منطقی باتوں پر یقین کرنا گویا علم کے حصول سے کنارہ کشی کے مترادف ہے۔ ایسی ذہنی خود کشی ، کسی طور زیب نہیں دیتی۔ سمجھدار انسان کی بات سننا ، اور کم از کم اس پر غور کرنا بہت ہی ضروری ہے ۔

مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ۔ کئی دوسری کتب سے بھی ارتقاء کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ چونکہ یہاں زیادہ تر مسلمان ہیں اور اللہ کے وجود پر یقین رکھتے ہیں تو یہ بہت ہی آسان ہے کہ ان سے پوچھا جائے کہ رب خلیہ سے انسان تک کے بارے میں کیا ٹائم لائین رکھتا ہے؟ کیا یہ خلیہ سے انسان تک کا ارتقاء صرف ماں کے پیٹ میں ہوا تھا یا پھر آزادانہ نیچر میں؟ اگر آزادانہ نیچر میں یہ سب کچھ ہوا تھا تو پھر کیا یہ خلئے سے انسان تک کا ارتقاء تھا؟

یہی نہیں بلکہ ایک حقیر نطفے سے انسان تک کا ارتقا تو خود الہامی کتب کا حصہ ہے پھر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ کوئی ارتقا نہیں ہوا، سب کچھ جادوئی چھڑی سے ہوا
سورة الْمُؤْمِنُونَ - آیت 12 تا 16
وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَ۔ٰنَ مِن سُلَ۔ٰلَةٍ۬ مِّن طِينٍ۬
ثُمَّ جَعَلۡنَ۔ٰهُ نُطۡفَةً۬ فِى قَرَارٍ۬ مَّكِينٍ۬
ثُمَّ خَلَقۡنَا ٱلنُّطۡفَةَ عَلَقَةً۬ فَخَلَقۡنَا ٱلۡعَلَقَةَ مُضۡغَةً۬ فَخَلَقۡنَا ٱلۡمُضۡغَةَ عِظَ۔ٰمً۬ا فَكَسَوۡنَا ٱلۡعِظَ۔ٰمَ لَحۡمً۬ا ثُمَّ أَنشَأۡنَ۔ٰهُ خَلۡقًا ءَاخَرَ‌ۚ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ أَحۡسَنُ ٱلۡخَ۔ٰلِقِينَ
ثُمَّ إِنَّكُم بَعۡدَ ذَٲلِكَ لَمَيِّتُونَ
ثُمَّ إِنَّكُمۡ يَوۡمَ ٱلۡقِيَ۔ٰمَةِ تُبۡعَثُونَ
سورة التین
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
(یہ اس لیے نہیں کہا تھا کہ بعد میں انسان جانوروں کو اپنا جد مان کرخود اپنی تذلیل پر لگ جائے۔)

سورة یس

إِنَّمَآ أَمۡرُهُ ۥۤ إِذَآ أَرَادَ شَيۡ۔ٴً۬۔ا أَن يَقُولَ لَهُ ۥ كُن فَيَكُونُ
ترجمہ اور تفسیر پڑھیے خود سمجھیے اگر واقعی طلب ہے۔
بھائیوں مباحثے میں حصہ لینے کو مجھے شوق نہیں، بات ہی ایسی کی گئی تھی اس لیے رہا نہیں گیا۔ مزید سوال و جواب سے میں عاجز ہوں۔ جتنا وقت آپ حضرات سائنس پڑھنے میں لگاتے ہیں اس سے تھوڑا وقت نکال کر قرآن کریم کو پڑھیے اور سمجھیے انشاءاللہ سارے اشکالات دور ہوجائیں گے۔ اللہ تعالی مجھے اور ہم سب کو سمجھ نصیب فرمائے۔
 
آخری تدوین:
ٓیہ ایک عام صورت حال ہے کہ نظریہ ارتقاء کو مذہب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ٓسوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہے؟ ہم مذہب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور اپنے ماہرین کو ایک پراجیکٹ دیتے ہیں کہ آپ ایک ایسا سسٹم ڈیزائین کیجئے جو شروع میں ایک امیبا ہو ، سنگل سیل ہو اور کچھ اینزائیم سے بنا ہو۔ اور اس سیل میں یہ سارا ڈیزائین موجود ہو کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے ایک مکمل انسان بن جائے گا ، اب اس پراسیس میں ایک دن لگے یا 10 ملین سال۔ چلئے صاحب محمد عظیم الدین صاحب کے پاس اتنا علم اور صلاحیت ہے کہ جناب ٓنے فرمایا --- "ہوجا" اور "ہوگیا" اور اب یہ خلیہ خود بخود اپنے اندر کے ڈیزائین کے باعث مختلف لائف فارم کے مراحل سے گذرنے لگا۔ بننا اس نے انسان ہی ہے ٓ، چاہے ایک سیکنڈ میں بنے یا 10 ملین سال میں ۔ اب صاحب پیدائش کے اس عمل میں کہیں کوئی ڈیفیکٹ آیا اور کوئی پیدائش ایسی ہوئی کے وہ زمین پر چل پھر سکتی تھی۔ اور کچھ مچھلی بن گئی ، تو کچھ ڈیفیکٹ ایسے ہوئے کہ وہ بندر بن گئے۔ اب اس ضمنی ارتقاء کی بنیاد تو وہی خلیہ ہے جو کہ ہمارے دوست عظیم الدین صاحب نے ڈیزائین کیا تھا۔ ٓتو کیا ہم اس ضمنی ارتقاء جو کہ دوسرے جانوروں کی صورت میں بنیادی خلئے سے بنا ہے ، عظیم الدین صاحب کا ڈیزائین ماننے سے انکار کردیں گے؟

انسان خود ایک خلئے سے بنا یا اس خلئے کو کسی سپریم آرکیٹیکٹ نے بنایا ۔ اس کا ارتقاء ایک حقیقت ہے۔ یہ بیان ہم کو صرف ایک مذہبی کتاب میں ہی نہیں بلٓکہ دوسری مذہبی کتب میں بھی ملتا ہے۔ لہذا ارتقاء کو مذہب سے جدا کرنےکا کوئی جواز بنتا نہیں۔ ٓ

قرآن حکیم کے متن کے بارے میں میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ۔ اس کا لکھنے والآ -- علم رکھتا ہے ۔۔ ذہن میں رکھئے کہ ہم مذہب کو ایک طرف رکھ کر بات کررہے ہیں۔ میرا ایمان اپنی جگہ قائم ہے۔

آئیے، ایک ایٓت دیکھتے ہیں ، یہ آیت خاص طور پر ان لوگوں کے لئے قابل غور ہے جو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان ڈائریکٹلی یعنٓی براہ راست بنا دیا تھا۔ ذرا غور سے اس آیت کو دیکھٓئے۔

4:1
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جاندار خلیہ سے پیدا کیا اور اسی ٓجاندار خلیہ سے اس (خلیہ ) کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (جاندار خلیہ اور اس کے جوڑے ) ٓ سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو بے شک الله تم پر نگرانی کر رہا ہے
ٓ

اس آیت میں اللہ تعالی صاف صاف فرما رہے ہیں کہ وہ ذات جس نے تم کو ایک واحد جاندار خلیہ سے تحلیق کیآ، اسی خلئے سے اس کا جوڑا بنایا، اور پھر اس سے پھیلائے ، بہت سارے مرد اور عورتیں۔ یہ سنگل لونگ سٓیل کی تخلیق ، پھر اس سنگل لونگ سیل کے جوڑے (پئر) کی تخلیق ، لیکن انسان کی تخلیق کی تخلیق کے لئے پھیلٓانے کے الفاظ استعمال کئے۔

اب ہمارے پاس دو چوائس ہیں۔ یہلی یہ کہ ہم اس سب صاف صاف الفاظ سے انکار کردیں یا پھر مان لیں کہ جس ارتقاء کو ہم آٓج نوٹس کررہے ہیں، اس ارتقاء کا وجود یقینی طور پر ہے۔ اب اس کو کسی سپریم آرکیٹکٹ نے ڈیزائین کیا یا یہ فطری قوتوں اور ان قوتوں کے اصولوں کی وجہ سے خود سے وجود میں آگیآ ؟ اور اس کے بعد اس خلئے کا ارتقاء ہوا۔

میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے رب، اللہ تعالی نے صاف صاف بیان کردیا ہے کہ وہ اس نفس واحدۃ کا خالق ہے جس سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ جو مانتا ہے مان لے ، جو نہیں مانتا اس کو فطری قوتوں اور ان قوتوں کی وجہ سے وجود میں آنا سمجھ لے۔ یا پھر انتظار کرے کہ جب کوئی یہ کلیم ٓلے کر آئے کہ وہ اس سنگل لونگ سیل کا خلق ہے۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ارتقا، ایک حقیقت ہے۔ یہ سنگل لونگ سیل سے شروعٓ ہوا اور یہ جاری ہے ۔ اس کی انتہا کیا ہے ، ہم کو نہیں معلوم

والسلام
 
Top