گوگل ہوم اسسٹنٹ اب 6 الگ الگ آوازیں شناخت کرسکتا ہے

نیویارک: آواز سن کر ہدایات پر عمل کرنے والے خودکار گھریلو معاون ’’گوگل ہوم اسسٹنٹ‘‘ کو اب اس قابل بنالیا گیا ہے کہ یہ 6 افراد تک کی آوازیں پہچان کر ان کے احکامات کی تعمیل کرسکتا ہے۔
نومبر 2016 میں پہلی بار پیش کیا گیا یہ آلہ مختلف آن لائن سہولیات اور ذہین گھریلو آلات سے رابطے میں رہتے ہوئے اپنے مالک کے صوتی احکامات بجا لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثلاً مالک کی ایک آواز پر یہ گوگل کے آن لائن اسٹور میں کوئی خاص نغمہ تلاش کرسکتا ہے، کسی موضوع کے بارے میں خبریں اور وکی پیڈیا کا کوئی مضمون بھی بہ آوازِ بلند پڑھ کر سکتا ہے، شہر کے موسم اور ٹریفک وغیرہ کی تازہ ترین صورتِ حال وغیرہ کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے۔

ان تمام خوبیوں کے باوجود اب تک یہ اپنے مالک کی آواز کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا یعنی اسے ’’اوکے گوگل‘‘ کہنے والا کوئی بھی شخص اس سے اپنا حکم منوا سکتا ہے۔ اس خامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک امریکی کمپنی نے اپنے اشتہار میں ’’اوکے گوگل‘‘ کی عبارت شامل کردی جسے سن کر یہ آلہ بیوقوف بن گیا اور انٹرنیٹ پر موجود اس کمپنی کا تشہیری مواد پڑھ کر سنانے لگا۔
لیکن اب گوگل نے یہ خامی بھی دور کردی ہے اور اپنے ہوم اسسٹنٹ کو اس قابل بنالیا ہے کہ وہ ایک دو نہیں بلکہ پورے 6 افراد کی آوازوں کو الگ الگ پہچان سکتا ہے اور صرف ان ہی کے دیئے گئے احکامات کی تعمیل کرسکتا ہے، مطلب یہ کہ اب ہر کوئی ایرا غیرا اس پر حکم نہیں چلا سکتا۔

البتہ مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے باوجود گوگل ہوم اسسٹنٹ میں فی الحال ایک وقت میں صرف ایک ہی فرد کی آواز پہچان کر حکم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت ہے۔ یعنی اگر ایک ہی وقت میں اس کے سارے مالکان اس پر حکم چلانا شروع ہوجائیں تو یہ ان میں سے صرف اس ایک آواز کو پہچانے گا جو ان میں سب سے نمایاں ہوگی اور اسی کے احکامات کی تعمیل بھی کرے گا۔

واضح رہے کہ ڈیجیٹل ہوم اسسٹنٹ اور اسمارٹ ہوم اسسٹنٹ جیسے آلات مستقبل کے ذہین گھروں کا جزوِ لازم ہوں گے کیونکہ یہ مشین ہوتے ہوئے بھی فرمانبردار غلاموں کی طرح نہ صرف اپنے آقا کی ہر بات سمجھیں گے بلکہ اپنی استعداد کے مطابق ان احکامات پر بھی خودکار انداز میں عمل کریں گے یعنی انہیں یہ بتانے کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہوگی کہ کونسا کام کیسے کرنا ہے۔
ماخذ
 
Top