غزل برائے اصلاح ۔ مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

اساتذہ اکرام کی توجہ درکار ہے

مرے سوالوں کا تُُو کبھی تو کوئی تو سیدھا جواب دیدے
جو ہجر میں تیرے کاٹیں ہیں راتیں، کچھ تو ان کا حساب دیدے

تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
تو اپنی آنکھوں میں بہتے دریا کی چند بوندیں شراب دیدے

ترے یہ در پہ کھڑے ہیں ہم سب، سنو ہماری بھی آہ تم اب
ہمیں تو دو گے نہیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دیدے

یہ میری دولت، یہ میری شہرت، جو کچھ بھی لینا ہے، لے لو سب کچھ
مجھے تو بس میری مد بھری نیندیں اور کچھ ٹوٹے خواب دیدے

ترے یہ بندے ازل سے تیرے ہیں، جیسے جو چاہے آزمالے
نہیں ہٹیں گے یہ حق پرستی سے، چاند یا آفتاب دیدے

میں روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں، اور کتنی سزا ملے گی
کہ چھوڑ دے اب تو پیچھا میرا یا ذندگی سے حجاب دیدے

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کرے گے یہ التجائیں
مرے وہ بچھڑے اَحِبّا دیدے! مرا وہ واپس شباب دیدے!

تماشے لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، تجھے وہ نور الکتاب دیدے​
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
اچھے اشعار کہیں ہیں . عمدہ کاوش ہے .
تری محبت کے جام اب اس میکدے جو ہیں نہیں میسر
یہ مصرع خارج از بحر ہے .
میری دولت، یہ میری شہرت، جو کچھ بھی لینا ہے، لے لو سب کچھ
مجھے تو بس میری مد بھری نیندیں اور کچھ ٹوٹے خواب دیدے
نیندیں محض نیند تقطیع ہو رہا ہے .
دولت ، شہرت اور ہر شے کے عوض مد بھری نیندیں تو ٹھیک ہیں لیکن خواب ٹوٹے کیوں ؟ سہانے خواب کہیں تو بات بنے .
جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کرے گے یہ التجائیں
مرے وہ بچھڑے اَحِبّا دیدے! مرا وہ واپس شباب دیدے!
پہلے مصرع میں بات "سبھی " کی یعنی صیغہ جمع میں ہو رہی ہے سو دوسرے مصرع میں " ہمارا یا ان کا " لائیں
جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
ملا دے بچھڑے عزیز ان سے ، کہ ان کا واپس شباب دیدے
تماشے لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، تجھے وہ نور الکتاب
عمدہ شعر ہے . لیکن مجھے تماشے کے بجائے سراب یا اس طرح کا کچھ اور موزوں لگ رہا ہے .

سراب لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھوگیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، تجھے وہ نور الکتاب دیدے

امید ہے آپ اس رائے کا برا نہیں منائیں گے .
 
مید ہے آپ اس رائے کا برا نہیں منائیں گے .
نہ جانے کیوں آپ کو یہ گمان ہوا کہ میں برا منا‌ؤ‎ں گا- یہ پیش ہی اس لیے کی تھی کہ پوسٹ مارٹم کیا جا‏ئے- بہت ممنون ہوں آپ سب کا کہ یہاں بےلوث خدمت کی جاتی ہے-

عمدہ شعر ہے . لیکن مجھے تماشے کے بجائے سراب یا اس طرح کا کچھ اور موزوں لگ رہا ہے .

سراب لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھوگیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، تجھے وہ نور الکتاب دیدے

متفق

پہلے مصرع میں بات "سبھی " کی یعنی صیغہ جمع میں ہو رہی ہے سو دوسرے مصرع میں " ہمارا یا ان کا " لائیں
جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
ملا دے بچھڑے عزیز ان سے ، کہ ان کا واپس شباب دیدے

پہلے مصرع میں کچھ تبدیلی کی ہے - توجہ درکار ہے

جزا کے دن تو خدا کے آگے کرے گا ہر کوئی التجائیں
مرے وہ بچھڑے اَحِبّا دیدے! مرا وہ واپس شباب دیدے!

نیندیں محض نیند تقطیع ہو رہا ہے .

تکینی لحاظ سے اگر قبول ہے تو درخواست ہے کہ درگزر کردیں (n)

دولت ، شہرت اور ہر شے کے عوض مد بھری نیندیں تو ٹھیک ہیں لیکن خواب ٹوٹے کیوں ؟ سہانے خواب کہیں تو بات بنے .

شاید کہنے والا اچھا کاروباری نہیں ہے ۔ یا زیادہ مشکل میں ہے اور ٹوٹے خوابوں کے عوض سب کچھ دینے کو تیار ہے - درگزر فرمائے :notworthy:

یہ مصرع خارج از بحر ہے .

متفق - ٹائپ کرنے میں خطا ہوگئی - اب دیکھیے -

تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر​


 

الف عین

لائبریرین
پہلے بحر درست کر کے ہوسٹ کریں تب دیکھی جائے یہ غزل۔ ورنہ دوسری اغلاط سدھارنے میں مزید بحر و عروض کی اغلاط ہو سکتی ہیں۔
 
پہلے بحر درست کر کے ہوسٹ کریں تب دیکھی جائے یہ غزل۔ ورنہ دوسری اغلاط سدھارنے میں مزید بحر و عروض کی اغلاط ہو سکتی ہیں۔
سر - تدوین کر دی ہے - ‎‎شاید کوئی اور ا‌‎‏غلاط ہونگی - ان کی نشان دیہی کا انتظار ہیں
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
و ہجر میں تیرے کاٹیں ہیں راتیں، کچھ تو ان کا حساب دیدے
بحر میں لانے کے لیے "کاٹیں اور راتیں " بالترتیب کاٹ اور رات پڑھا جا رہا ہے .
ترے یہ بندے ازل سے تیرے ہیں، جیسے جو چاہے آزمالے
" ہیں جیسے " بھی ہ جیسے پڑھنا پڑھ رہا ہے .
تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
یہ اب بھی بحر میں نہیں
تماشے لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
جگہ کا درست تلفظ بر وزن فاع ہے .
 
میں المیٰ صاحبہ کے اعتراضات سے متفق نہیں۔ کاٹیں اور راتیں فاع پر باندھنا تکنیکی طور پر درست ہے۔ ہیں کو بھی یک حرفی باندھنا درست۔

تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
یہ مصرع بھی درست ہے۔

جگہ کا درست وزن فعَل ہی ہے۔
؎
حضرتِ داغ یہ ہے کوچہء قاتل اٹھیے
جس جگہ بیٹھتے ہیں آپ تو جم جاتے ہیں
(داغ)
؎
اب شیشہء ساعت کی طرح خشکی کے باعث
گریہ کی جگہ ریت نکلتی ہے گلو سے
(مصحفی)
 

La Alma

لائبریرین
میں المیٰ صاحبہ کے اعتراضات سے متفق نہیں۔ کاٹیں اور راتیں فاع پر باندھنا تکنیکی طور پر درست ہے۔ ہیں کو بھی یک حرفی باندھنا درست۔

تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
یہ مصرع بھی درست ہے۔

جگہ کا درست وزن فعَل ہی ہے۔
؎
حضرتِ داغ یہ ہے کوچہء قاتل اٹھیے
جس جگہ بیٹھتے ہیں آپ تو جم جاتے ہیں
(داغ)
؎
اب شیشہء ساعت کی طرح خشکی کے باعث
گریہ کی جگہ ریت نکلتی ہے گلو سے
(مصحفی)
روانی متاثر ہو رہی تھی اس لیے تجویز دی . گو تکنیکی طور پر درست سہی .
 

الف عین

لائبریرین
+بہ&زیادہ تر اغلاط روانی کی کمی کی ہیں جو بشست بدلنے سے درست ہو سکتی ہیں
مرے سوالوں کا تُُو کبھی تو کوئی تو سیدھا جواب دیدے
جو ہجر میں تیرے کاٹیں ہیں راتیں، کچھ تو ان کا حساب دیدے
÷÷پہلی بات، ’دیدے‘ نملا کر نہیں، ’دے دے‘ لکھنا تھا، تاکہ دیدہ میں کوئی کنفیوژن بھی نہ ہو، اسور درست بھی ہو املا۔ اسی طرح ’کاٹی ہیں‘ درست ہے، ’کاٹیں ہیں‘ نہیں،
پہلے مصرع میں ’تو کبھی تو کوئی تو‘ روانی کو متاثر کر رہا ہے
دوم میں، درست ہونے پر بھی، لا المیٰ سے م،تفق ہوں کہ روانی متاثر ہے۔

تری محبت کے جام اب اس میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
تو اپنی آنکھوں میں بہتے دریا کی چند بوندیں شراب دیدے
۔۔اول بحر میں درست ہے، لیکن ’جامبس‘ اچھا نہیں لگتا۔
دوم میں شراب کا ماخذ سمجھ میں نہیں آتا۔ یوں کہیں تو بہتر ہو جائے گا۔
تو اپنی آنکھوں میں بہتے دریا سے چند بوندیں شراب دیدے

ترے یہ در پہ کھڑے ہیں ہم سب، سنو ہماری بھی آہ تم اب
ہمیں تو دو گے نہیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دیدے
÷÷ترے یہ در؟ سننے کی گذارش کے ساتھ آہ کیوں؟
دوسرے مصرع میں شتر گربہ ہے، دو گے اور دے دے میں۔ خطاب کس سے ہے، محمد صلعم سے، یا اللہ سے؟

یہ میری دولت، یہ میری شہرت، جو کچھ بھی لینا ہے، لے لو سب کچھ
مجھے تو بس میری مد بھری نیندیں اور کچھ ٹوٹے خواب دیدے
۔۔وہی شتر گربہ

ترے یہ بندے ازل سے تیرے ہیں، جیسے جو چاہے آزمالے
نہیں ہٹیں گے یہ حق پرستی سے، چاند یا آفتاب دیدے
۔۔۔جیسے جو چاہے؟ جو اضافی نہیں؟

میں روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں، اور کتنی سزا ملے گی
کہ چھوڑ دے اب تو پیچھا میرا یا ذندگی سے حجاب دیدے
۔۔زندگی سے حجاب دینا سمجھ میں نہیں آیا۔

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کرے گے یہ التجائیں
مرے وہ بچھڑے اَحِبّا دیدے! مرا وہ واپس شباب دیدے!
÷÷ لا المیٰ کی بات سے متفق نہیں۔ دوسرا مصرع در اصل سب کی التجا کے الفاظ ہیں۔ انہیں واوین میں رکھنا کافی ہو گا۔ ’سبھی کریں گے‘ ہونا چاہیے اسے۔
احبا دے دے کا ’احب، ب پر شد‘ اچھا نہیں لگتا۔رفیق یا حبیب بہتر ہو گا یہاں۔ اور ’وہ میرا واپس‘ زیادہ بہتر ہو گا۔

تماشے لفظوں کے ہر جگہ ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، تجھے وہ نور الکتاب دیدے
۔۔ جگہ تو درست ہے لیکن جگہ سے زیادہ بہتر ’طرف‘ رہے گا۔
سراب‘ لے مشورے سے متفق ہوں، اچھا لفدظ ہے۔
لیکن نور الکتاب سے مراد؟
 
استاد محترم، تدوین شدہ اشعار حاضر ہیں ۔ ( زندگی سے حجاب کے معنی ”موت“ لے رہا ہوں اور نور الکتاب کے معنی "عِلم)

مرے سوالوں کا تُو ذرا سا کبھی تو سیدھا جواب دے دے
جو بن ترے سب کٹی ہیں راتیں مجھے تُو اُن کا حساب دے دے

یہ تیری الفت کے جام اب میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
تو اپنی آنکھوں میں بہتے دریا سے چند بوندیں شراب دے دے

ترے جو در پہ کھڑے ہیں ہم سب، ہماری سن لے دعا بھی تُو اب
نہیں دے گا تُو ہمیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے دے

یہ میری دولت، یہ میری شہرت، جو کچھ بھی لینا ہے، لے لے سب کچھ
مجھے تو بس میری مد بھری نیندیں اور کچھ ٹوٹے خواب دے دے

ترے یہ بندے ازل سے تیرے ہیں، جیسے بھی چاہے آزمالے
نہیں ہٹیں گے یہ حق پرستی سے، چاند یا آفتاب دے دے

میں روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں، اور کتنی سزا ملے گی
کہ چھوڑ دے اب تو پیچھا میرا یا ذندگی سے حجاب دےدے

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجایں
وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے! وہ میرا واپس شباب دے دے!

سراب لفظوں کے ہر طرف ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، اسے وہ نور الکتاب دے دے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ر ہیںبس طویل بحر کی وجہ سے بھرتی کے الفاظ کی بھرمار ہے۔ اس وجہ سے روانی متاثر ہے جو بہتر ہو سکتی ہے۔
کچھ مشورے اور تبدیلیاں جو زیادہ وقت لگائے بغیر سمجھ میں آتی ہیں:

مرے سوالوں کا تُو ذرا سا کبھی تو سیدھا جواب دے دے
جو بن ترے سب کٹی ہیں راتیں مجھے تُو اُن کا حساب دے دے
۔۔۔۔ مرے سوالات سیدھے سادے ہیں، ان کا سیدھا جواب دے دے
جو تنہا تنہا کٹی ہیں راتیں، بس ان کا مجھ کو حساب دے دے

یہ تیری الفت کے جام اب میکدے میں جو ہیں نہیں میسر
تو اپنی آنکھوں میں بہتے دریا سے چند بوندیں شراب دے دے
۔۔۔۔تری محبت کے جام و مینا نہیں میسر ہیں مے کدے میں
تو اپنی آنکھوں ۔۔۔۔

ترے جو در پہ کھڑے ہیں ہم سب، ہماری سن لے دعا بھی تُو اب
نہیں دے گا تُو ہمیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے دے
۔۔۔۔ اس شعر کو نکال ہی دو میرےخیال میں۔ مفہوم کے اعتبار سے عجیب و غریب شعر ہے۔
ویسے اس شکل می ’دے گا‘ کا ’ے‘ کا اسقاط غلط ہے۔

یہ میری دولت، یہ میری شہرت، جو کچھ بھی لینا ہے، لے لے سب کچھ
مجھے تو بس میری مد بھری نیندیں اور کچھ ٹوٹے خواب دے دے
۔۔۔۔۔ دوسرا مصرع
۔۔۔۔ مجھے تو لوٹا دے میری نیندیں، وہ پھر مرے ٹوٹے خواب دے دے

ترے یہ بندے ازل سے تیرے ہیں، جیسے بھی چاہے آزمالے
نہیں ہٹیں گے یہ حق پرستی سے، چاند یا آفتاب دے دے
۔۔درست

میں روز مرتا ہوں، روز جیتا ہوں، اور کتنی سزا ملے گی
کہ چھوڑ دے اب تو پیچھا میرا یا ذندگی سے حجاب دےدے
÷÷یہ شعر مجھے پسند نہیں آ رہا۔

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے! وہ میرا واپس شباب دے دے!
۔۔ واوین کا اضافہ ضروری ہے۔ دوسرے مصرع میں

سراب لفظوں کے ہر طرف ہیں کہ ان میں منصور کھو گیا ہے
مری تو رب سے یہی دعا ہے، اسے وہ نور الکتاب دے دے
۔۔۔ یہ ٹھیک ہے۔ لیکن پہلے مصرع میں منصور کا ذکر ہے صیغہ غائب میں، Third person، لیکن پھر دعا کرنے والا’میں‘ کون ہے؟
 
ترے جو در پہ کھڑے ہیں ہم سب، ہماری سن لے دعا بھی تُو اب
نہیں دے گا تُو ہمیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے دے
۔۔۔۔ اس شعر کو نکال ہی دو میرےخیال میں۔ مفہوم کے اعتبار سے عجیب و غریب شعر ہے۔
ویسے اس شکل می ’دے گا‘ کا ’ے‘ کا اسقاط غلط ہے۔

یہاں مسیحا مانگا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالی پیغمر نہیں بھیجے گا - اس کا نکالنے کا ذرا جی نہیں کررہا :unsure:

جو اب تودے گا نہیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے دے
جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے! وہ میرا واپس شباب دے دے!
۔۔ واوین کا اضافہ ضروری ہے۔ دوسرے مصرع میں

سر مجھ کم عقل کو واوین کی سمجھ نہیں آرہی -

وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے اور میرا واپس شباب دے دے ؟؟
۔۔ یہ ٹھیک ہے۔ لیکن پہلے مصرع میں منصور کا ذکر ہے صیغہ غائب میں، Third person، لیکن پھر دعا کرنے والا’میں‘ کون ہے؟

کہ اب تو رب سے یہی دعا ہے، اسے وہ نور الکتاب دے دے​

 

La Alma

لائبریرین
واوین کی سمجھ نہیں آرہی -
واوین یعنی Inverted Commas, واوین لگانے سے آپ کو دوسرے مصرع میں "سبھی " کی مناسبت سے دوسرا صیغہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی . آپ کا مصرع ایسے بھی چل جائے گا . جیسے انگریزی میں Direct and indirect speech میں ہوتا ہے .

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
"وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے! وہ میرا واپس شباب دے دے!"
 
واوین یعنی Inverted Commas, واوین لگانے سے آپ کو دوسرے مصرع میں "سبھی " کی مناسبت سے دوسرا صیغہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی . آپ کا مصرع ایسے بھی چل جائے گا . جیسے انگریزی میں Direct and indirect speech میں ہوتا ہے .

جزا کے دن تو خدا کے آگے سبھی کریں گے یہ التجائیں
"وہ میرے بچھڑے حبیب دے دے! وہ میرا واپس شباب دے دے!"
شکریہ آپ کا - (y)
 

الف عین

لائبریرین
گگ
یہاں مسیحا مانگا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تعالی پیغمر نہیں بھیجے گا - اس کا نکالنے کا ذرا جی نہیں کررہا :unsure:

جو اب تودے گا نہیں محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے دے
جو۔ اب دو الفاظ یا جواب بمعنی Reply ایک ہی لفظ؟ حالانہ جو۔ اب سے تقطیع درست ہے، لیکن پڑھنے والا غلط بھی پڑھ سکتا ہے۔ پہلا مصرع بھی روانی کے لحاظ سے سخت معیوب ہے
اگر مصر ہی ہو تو یوں کہہ کے دیکھو۔
جو تیرے در پر کھڑے ہوئے ہیں ، وہ مانگتے ہیں یہی دعائیں
نہ دے سکے تُو اگر محمد، تو پھر ہمیں بو تراب دے
 
Top