قصہ حاتم طائی جدید

ٹھیک ہے جی لیکن ویلنٹائین کا قصہ بھی آنا چاہیے۔
اتفاقات تو اشارے ہے پردہ غیب سے!

قصہ حاتم جدید کی اقساط تو ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہورہی ہیں جبکہ ویلنٹائن کی جدید ترین قسط تو بالکل ہی فلاپ ثابت ہوئی :(
 
عرب کا سرمہ سرگودھا میں بیچنے کی کوشش کی
:D
جس شخص کو "مالٹے اور کھجور" کا طبیعاتی فرق معلوم نہ ہو اسے مولوی کیا مالی بھی نہیں ہونا چاہیے۔
:rollingonthefloor:
اے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں، معاشرہ جس حال پہ راضی ہو، یہ مذہب کو اسی رنگ میں ڈھال کر مال سے غرض رکھتے ہیں، انہیں عوامی مولوی کہا جاتا ہے۔

دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا 'کافر' اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے گھسّن مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انہیں ضِدّی مولوی کہا جاتا ہے۔

تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں صالحین کہا جاتا ہے مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔
معلوماتی وغیرہ
۔ مولوی مقصود کا اس پر انگوٹھا لگوایا
حالانکہ انگو ٹھا کاٹ کر بھی لایا جا سکتا تھا کہ شہزادی حُسن بانو سے عقد کے وقت جہاں ضرورت پڑتی وہاں لگایا جا سکتا :wink:
 
حاتم پیر ودھائ اڈّے پر سر پکڑے بیٹھا تھا کہ “ھاتف” نے صدا دی
“وے سب توں سوھنیاں

ہائے وے من موہنیاں
میں تیری ھووووووووو
اس نے جھٹ جیب سے موبیل نکالا- دوسری طرف شہزادی کا پرسنل سیکرٹری “استاد بشیر ” تھا
” پہلے سوال دا جواب مینوں ای میل کر تے دوجے دی تیّاری پھڑ
حاتم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
“آپ کے ملائے ہوئے صارف نے اپنا موبیل بند کر رکھا ہے ، براہ کرم کچھ دیر بعد رابطہ کریں
وجہء بے فکری کچھ یوں تھی کہ ہفتہ پہلے ہی شہزادی نے دوسرا سوال حاتم کو ٹویٹ کر دیا تھا اور اب وہی سوال کالے مچھر کی طرح اسکے کانوں میں بھنبھنا رہا تھا
“اس شخص کا “اسٹیٹس” بیان کرو جو کہتا ہے
“شادی کر دریا میں ڈال”
اس مختصر مگر جامع گُتھی کو سلجھانے کےلئے وہ ستلج تا بیاس ، ہر اس کھائ میں گھس چکا تھا جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے
اوپر سے پیرِ فرتوت بھی غائب تھے
کسی متبادل بزرگ کی تلاش میں وہ بے شمار “النّ” قسم کے فقیروں سے ملا ، اور جی بھر کے مایوس ہوا- کوئ گُرگِ باراں دیدہ اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہ تھا جسے شادی سمجھ کر دریا میں پھینکنا تھا
ایک بنی گالوی قسم کے بزرگ تو سوال سنتے ہی بھڑک اٹھے ، فرمایا
” نا اھل حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ دریاؤں کا بیڑا بھی غرق کر رکھا ہے ، اوّل تو بہتے نہیں اور بہنے پہ اتر آئیں تو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں- جملہ یوں ہونا چاھئے

شادی کر تندُور میں ڈال
حاتم نے پوچھا
یا للعجب وہ کیسے ؟؟
وہ گویا ہوئے
” اگر شادی کو دریا میں پھینکا گیا تو یہ سیلابی پانی میں ناچتی ہوئ دوبارہ آبادی میں آن گھُسے گی- اس پھٹیچر کو تندور میں پھینکنا چاھئے … نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
نالہ لئ والے سرخ پوش نے نقطہ اٹھایا کہ جملے کی ترکیبِ نحوی میں “شادی کر” حرفِ اضافی ہے- اگر بدمست حکومت دریا میں کچھ نہ کچھ ڈالنے پر بضد ہی ہے تو دو چار منسٹر ہی پھینک دے … کم از کم خشک سالی تو دور ہو گی
حاتم ان جعلی درویشوں سے بچتا بچاتا رجانہ سے کمالیہ پہنچا اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی
گھنٹہ بھر دھول مٹی اڑانے کے بعد وہ بمشکل دوسرے کنارے پر آن لگا
اس نے ایک سبزپوش کو دیکھا جو بیری کے پتے جسم پر لپیٹ کر چت سویا پڑا تھا اور کووّں کا ایک غول اس کے اوپر منڈلاتا تھا
حاتم نے پاس آ کر سلام کیا اور کہا
” اے سبز پوش ، اگر آپ فوت ہو چکے ہیں تو کوّوں کو اطلاع کر دوں ؟؟
اس پر وہ پیر مرد پانسا پرت کے بولا
” مرا نہیں ، فی الحال اکڑا ہوں ، اور یہ اکڑ دائمی نہیں ، سردی کی وجہ سے ہے
حاتم نے کہا
” خدا آپ کو حیات خضر عطا کرے ، مجھے تو طائران لاہوتی کی پرواز سے بدگمانی ہوئ جو آپ کے سراقدس پر برابر منڈلا رہے ہیں
بزرگ نے کہا
“یہ دیسی کوّے ہیں ، سرکاری نہیں جو زندہ مردہ میں تمیز نہ کر سکیں
اس کے بعد وہ بزرگ ایک طویل جماہی لیکر بولے
” ٹائم کی ہویا”
حاتم نے کہا ” وہی جو کل اس وقت ہوا تھا ….. اے بزرگِ نیک طینت !!! قصّہ یہ ہے کہ بھائ پھیرو کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد کی شہزادی
بزرگ بات کاٹ کے بولے
” بس کرو … سن چکا ہوں یہ بیکار قصّہ پہلے میری کہانی سنو … کوئ زمانے کی بات ہے کہ ایک کوّا پیاسا تھا … اس نے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ
حاتم بات کاٹ کر بولا
“اے سخن ور !! میں بھی یہ گھٹیا کہانی بارہا سن چکا ہوں ، کچھ تازہ ہو تو ارشاد فرمائیے
اس پر وہ بزرگ دیر تک کھانسے ، پھر یکایک بریک لگا کر بولے
بے شک کم فہموں کے نزدیک یہ بیکار کا قصہ ہے ، مگر دور اندیش حکمرانوں کےلئے اس میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں- چنانچہ جس نگری سے انہیں اپنا امیدوار ہارتا نظر آئے ، وہاں راتوں رات ایک ٹرک کنکریوں کا پھینکوا دیتے ہیں- پکی سڑک کے آثار دیکھ کر عوام کی ذھنی سطح بلند ہو جاتی ہے ، اور نا اھل امیدوار ووٹ لیکر کائیں کائیں کرتا اڑ جاتا ہے
 

La Alma

لائبریرین
حاتم پیر ودھائ اڈّے پر سر پکڑے بیٹھا تھا کہ “ھاتف” نے صدا دی
“وے سب توں سوھنیاں
ہائے وے من موہنیاں
میں تیری ھووووووووو
اس نے جھٹ جیب سے موبیل نکالا- دوسری طرف شہزادی کا پرسنل سیکرٹری “استاد بشیر ” تھا
” پہلے سوال دا جواب مینوں ای میل کر تے دوجے دی تیّاری پھڑ
حاتم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
“آپ کے ملائے ہوئے صارف نے اپنا موبیل بند کر رکھا ہے ، براہ کرم کچھ دیر بعد رابطہ کریں
وجہء بے فکری کچھ یوں تھی کہ ہفتہ پہلے ہی شہزادی نے دوسرا سوال حاتم کو ٹویٹ کر دیا تھا اور اب وہی سوال کالے مچھر کی طرح اسکے کانوں میں بھنبھنا رہا تھا
“اس شخص کا “اسٹیٹس” بیان کرو جو کہتا ہے
“شادی کر دریا میں ڈال”
اس مختصر مگر جامع گُتھی کو سلجھانے کےلئے وہ ستلج تا بیاس ، ہر اس کھائ میں گھس چکا تھا جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے
اوپر سے پیرِ فرتوت بھی غائب تھے
کسی متبادل بزرگ کی تلاش میں وہ بے شمار “النّ” قسم کے فقیروں سے ملا ، اور جی بھر کے مایوس ہوا- کوئ گُرگِ باراں دیدہ اس گتھی کو سلجھانے پر قادر نہ تھا جسے شادی سمجھ کر دریا میں پھینکنا تھا
ایک بنی گالوی قسم کے بزرگ تو سوال سنتے ہی بھڑک اٹھے ، فرمایا
” نا اھل حکومت نے عوام کے ساتھ ساتھ دریاؤں کا بیڑا بھی غرق کر رکھا ہے ، اوّل تو بہتے نہیں اور بہنے پہ اتر آئیں تو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں- جملہ یوں ہونا چاھئے
شادی کر تندُور میں ڈال
حاتم نے پوچھا
یا للعجب وہ کیسے ؟؟
وہ گویا ہوئے
” اگر شادی کو دریا میں پھینکا گیا تو یہ سیلابی پانی میں ناچتی ہوئ دوبارہ آبادی میں آن گھُسے گی- اس پھٹیچر کو تندور میں پھینکنا چاھئے … نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
نالہ لئ والے سرخ پوش نے نقطہ اٹھایا کہ جملے کی ترکیبِ نحوی میں “شادی کر” حرفِ اضافی ہے- اگر بدمست حکومت دریا میں کچھ نہ کچھ ڈالنے پر بضد ہی ہے تو دو چار منسٹر ہی پھینک دے … کم از کم خشک سالی تو دور ہو گی
حاتم ان جعلی درویشوں سے بچتا بچاتا رجانہ سے کمالیہ پہنچا اور ناک کی سیدھ میں چلتے چلتے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی
گھنٹہ بھر دھول مٹی اڑانے کے بعد وہ بمشکل دوسرے کنارے پر آن لگا
اس نے ایک سبزپوش کو دیکھا جو بیری کے پتے جسم پر لپیٹ کر چت سویا پڑا تھا اور کووّں کا ایک غول اس کے اوپر منڈلاتا تھا
حاتم نے پاس آ کر سلام کیا اور کہا
” اے سبز پوش ، اگر آپ فوت ہو چکے ہیں تو کوّوں کو اطلاع کر دوں ؟؟
اس پر وہ پیر مرد پانسا پرت کے بولا
” مرا نہیں ، فی الحال اکڑا ہوں ، اور یہ اکڑ دائمی نہیں ، سردی کی وجہ سے ہے
حاتم نے کہا
” خدا آپ کو حیات خضر عطا کرے ، مجھے تو طائران لاہوتی کی پرواز سے بدگمانی ہوئ جو آپ کے سراقدس پر برابر منڈلا رہے ہیں
بزرگ نے کہا
“یہ دیسی کوّے ہیں ، سرکاری نہیں جو زندہ مردہ میں تمیز نہ کر سکیں
اس کے بعد وہ بزرگ ایک طویل جماہی لیکر بولے
” ٹائم کی ہویا”
حاتم نے کہا ” وہی جو کل اس وقت ہوا تھا ….. اے بزرگِ نیک طینت !!! قصّہ یہ ہے کہ بھائ پھیرو کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد کی شہزادی
بزرگ بات کاٹ کے بولے
” بس کرو … سن چکا ہوں یہ بیکار قصّہ پہلے میری کہانی سنو … کوئ زمانے کی بات ہے کہ ایک کوّا پیاسا تھا … اس نے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ
حاتم بات کاٹ کر بولا
“اے سخن ور !! میں بھی یہ گھٹیا کہانی بارہا سن چکا ہوں ، کچھ تازہ ہو تو ارشاد فرمائیے
اس پر وہ بزرگ دیر تک کھانسے ، پھر یکایک بریک لگا کر بولے
بے شک کم فہموں کے نزدیک یہ بیکار کا قصہ ہے ، مگر دور اندیش حکمرانوں کےلئے اس میں حکمت کے موتی پنہاں ہیں- چنانچہ جس نگری سے انہیں اپنا امیدوار ہارتا نظر آئے ، وہاں راتوں رات ایک ٹرک کنکریوں کا پھینکوا دیتے ہیں- پکی سڑک کے آثار دیکھ کر عوام کی ذھنی سطح بلند ہو جاتی ہے ، اور نا اھل امیدوار ووٹ لیکر کائیں کائیں کرتا اڑ جاتا ہے
نہایت پر لطف اور پر مزاح ...
 
حاتم نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اس بزرگ کی خدمت شروع کر دی- کئ روز کی مشقت کے بعد ایک روز وہ بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا
” اے سعادت مند !!! صد افسوس کہ جس ٹانگ کو تو آج تک دباتا رہا ، وہ اصلی نہیں لکڑی کی تھی
حاتم نے کہا
“اے درویش !!! کوئ بات نہیں- پوری قوم آج کل لکڑی کی ٹانگیں ہی دبا رہی ہے ، اور بزرگان اس دیس کے لمبی تان کے سوئے ہوئے ہیں- بہرحال آئیندہ راء احتیاط … اب ہمیشہ ٹینٹوا ہی دباؤں گا
اس پر بزرگ خوشی سے نڈھال ہوئے اور کہا
” سن اے حاتم …. یہاں سے ناک کی سیدھ میں چل …. کوئ سو دو سو کوس کی مسافت پر چیچہ وطنی کے جنگلات ہیں …. وہیں گوہر مقصود ہاتھ آوے گا
حاتم اس درویش سے رخصت ہوا اور منزلیں مارنی شروع کر دیں- ابھی پانچ سات منزلیں ہی ماری تھیں کہ آثار ایک بستی کے نظر آئے- وہ ایک قہوہ خانے میں جا نکلا اور دودھ پتّی کڑک کا آرڈر دیکر بیٹھ گیا
کوئ نصف گھنٹہ بعد ایک پیر مرد چاندی کے کٹورے میں فنجان شائ لئے حاضر ہوئے
حاتم نے کہا
“اے درویش ایدھر ویکھ … چائے میں مکھی تیرتی ہے
اس پر وہ پیرمرد جزباتی ہو کر بولا
” قسم دانیال عزیز کی … اس پیالے سے مینڈک ، مچھلی یا سانپ تو برامد ہو سکتا ہے ، مکھی ہرگز نہیں ، کیونکہ مکھیاں یہاں سے مونہہ لپیٹ کر گزرتی ہیں
حاتم نے بڑے ادب سے فنجان شائ کو اٹھایا اور بڑی تمکنت سے اس بزرگ کے سر پر مارتے ہوئے کہا

” قسم خواجے کی ، آئندہ میں بھی یہاں سے مونہہ لپیٹ کر ہی گزروں گا
اس کے بعد ایک بار پھر وہ ناک کی سیدھ میں چلنے لگا- رستے میں وہ کئ لوگوں کے کام آیا- مثلاً ایک شخص دودھ میں پانی ڈال رہا تھا ، حاتم نے دستی نلکا چلا کر اس کا ہاتھ بٹایا- ایک پرائمری اسکول کا اتالیق نونہالانِ وطن کو مرغانِ چمن بنا کر لتروڑ کر رہا تھا ، حاتم نے جھٹ اپنا جوتا پیش کر کے کہا ” خواجہ اسے آزماؤ … پشاوری چپل ہے

یوں منزلیں مارتا مارتا وہ ایک بار پھر دریائے راوی کے کنارے جا نکلا
ناگاہ اس کی نظر ایک زبوں حال ، مفلس فقیر پر پڑی ، جو برلبِ دریا پکارتا پھرتا تھا
“شادی کر …… دریا میں ڈال

ظفر اقبال محمّد
 

سید رافع

محفلین
قسم ان طہارت پسند پادشاہوں کی جو مانجھ مانجھ کر سرکاری خزانے کی صفائی کرتے ہیں
:laugh1::ROFLMAO:

تم نے سر اٹھا کر دیکھا تو فضاؤں میں اڑتے ہوئے شاہین بھی مالٹے کھا رہے تھے۔
قبلہ ظفر صاحب نے ایک کو نہ چھوڑا۔۔۔ نہ زمین نہ ہی آسمان۔۔
:ROFLMAO:

بہرحال تین دن اور تین رات کی مسافت کے بعد لوکل بس ایک شہر میں داخل ہوئی جہاں ہر طرف یہ صدا تھی۔ "سٹھ روپئے درجن سٹھ روپئے درجن !!!"
ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ہے۔
:ROFLMAO:

حاتم سسک کر بولا۔۔چرخ و فلک اس فراڈ پر قہقہہ فغاں ہیں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہے۔
جواب آیا۔۔۔ غم نہ کر بیٹا ۔۔۔ فراڈ جمہوریت کا حسن ہے اور اسی میں قوم خوش رہتی ہے، بتا کیا مسئلہ ہے ؟؟
حاتم کی جمہوری سسک مزہ دے گئی۔
:ROFLMAO:


حاتم خدا کا نام لیکر اٹھ کھڑا ہوا، ابھی نو قدم ہی چلا تھا کہ اسے ایک مرغ اصیل ابیض دکھائی دیا۔۔۔ ادھر حاتم نے آستین چڑھائی ادھر اس کُکّڑ نے دوڑ لگائی۔ ابھی دونوں نو کوس ہی بھاگے تھے کہ اچانک مرغ نے بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر گویا ہوا۔۔۔
اے حرص و ہوّس کے پجاری، اگر تیرا مقصود محض ایک انڈہ ہے، تو کسی مرغی کا دروازہ کھٹکٹا، کیوں میرے پیچھے خوار ہوتا ہے؟؟
:ROFLMAO:

عقدِ ثانی کے نقد ارادے فرما لیے۔
مولوی مقصود کے گھر تشکیل کر کے جو آئے تھے۔

اس پر وہ زوجہ پرست بولا
ہاہاہا
:ROFLMAO:

لیکن وہ احمق بھی میرے ہی تربیت یافتہ تھے میری ہی گھڑی ہوئی دلیلیں مجھ پر چسپاں کرنے لگے ، کہنے لگے رزق دینے والی ذاتِ بابرکت اللہ تعالی کی ہے، حوصلہ رکھیے
مولوی گلے تے لبیئا گیا۔
:ROFLMAO:

اگلے دن ظہر کی نماز پڑھا کر نکلا تو بے ساختہ قدم شاد بی بی کے محلّے کی طرف اٹھ گئے، سوچا کہ یتیموں اور بیواؤں کی خبرگیری حکم خداوندی ہے، اور جو ایسا نہ کرے، نرا سنگ دل ہے۔
ظفر اقبال صاحب مسلمان رہے یا نہیں۔
:ROFLMAO:

:ROFLMAO:

شعلہ بیان خطیبوں نے مجھے معاف رکھا البتہ میرے مسلک کو دھو دھو کر نچوڑا اور سکھا سکھا کر دھویا
مجھ لگ رہا ہے ظفر اقبال صاحب بریلوی ہیں۔
:ROFLMAO:

مانا گرمیء شوق دستارِ فضیلت سے اونچی ہو گئی ہے
مولوی صاحب کی زوجہ درس نظامی پڑھی نہ ہو لیکن پابندی سے جلسہ دستار بندی میں شرکت کرتی تھی۔ ظفر اقبال صاحب دیو بندی ہیں۔
:ROFLMAO:

اے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں، معاشرہ جس حال پہ راضی ہو، یہ مذہب کو اسی رنگ میں ڈھال کر مال سے غرض رکھتے ہیں، انہیں عوامی مولوی کہا جاتا ہے۔

دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا 'کافر' اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے گھسّن مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انہیں ضِدّی مولوی کہا جاتا ہے۔

تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے۔ بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں۔ انہیں صالحین کہا جاتا ہے مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔

ظفر اقبال صاحب عام معصوم پاکستانی ہیں۔۔۔ جو اب بھی سمجھتے ہیں کہ صالحین خال خال ملتے ہیں!
 
مجھ لگ رہا ہے ظفر اقبال صاحب بریلوی ہیں۔
مولوی صاحب کی زوجہ درس نظامی پڑھی نہ ہو لیکن پابندی سے جلسہ دستار بندی میں شرکت کرتی تھی۔ ظفر اقبال صاحب دیو بندی ہیں۔
مسلک کا ذکر نا کرنا ہی بہتر تھا لیکن ملک صاحب سلفی یا اہلحدیث ہیں۔
 
قصّہ حاتم طائ جدید - 10

حاتم دبے پاؤں چلتا ہوا اس فقیر کے پاس آیا اور پھر اچانک سامنے آ کر زور سے " ہاؤ" کی-
فقیر کے ہاتھ سے چاندی کا پیالہ ریت پر گر کر چکنا چور ہو گیا- اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور کہا:
" فقیر کی آخری پونجی برباد کر دی ظالم ... اس پیالے میں بھنگ تھی !!"
حاتم نے کہا:
بے فکر ہو جا ... جب تک اس ملک میں جمہوریت کا کھیت سلامت ہے بھنگ اگتی رہے گی .... مجھے اپنی کہانی سنا دے ... بدلے میں بھنگ کا پورا ٹرک بھجوا دونگا-
فقیر گویا ہوا:
" سُن اے حاتم .... !!!
یہاں سے بہت دور ، راوی کنارے " مُلاں پور" نامی ایک قصبہ ہے یہ گاؤں حکومتی غفلت سے ہر سال سیلاب کی نظر ہو جاتا ہے اور حکومتی غفلت سے دوبارہ آباد بھی ہو جاتا ہے- وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں کے لوگ پرلے درجے کے اناڑی اور خطرناک حد تک پٹواری ہیں"
حاتم نے کہا:
"اے دِیدہ ور ... حکومتی وعدوں اور ساون بھادوں " پر اعتبار کر کے بندہ اپنا ہی تکّیہ بھگوتا ہے اور جو سرکاری امداد پہ تکیہ کر لے ، وہ انسان نہیں ، کھوتا ہے !!!"
فقیر نے کہا:
" ہفت اقلیم کی پادشاھی اس قوم پر قربان جو برسات میں ڈوب جائے اور گرمی میں سوکھ جائے ، پھر بھی زندہ باد کے نعرے لگائے ، خیر کھسماں نوں کھائے .... میرا نام صلاح الدین ہے- ذات کا کمھار ہوں-
بچپن ہی سے لمبے اور بے ڈھنگے قد اور گھنگریالی زلفوں کے سب"سائیں صلّو" کے نام سے چہاردانگ شہرت پائ-
ماں باپ پیدائش سے پہلے ہی دغا دے چکے تھے ، بس دور پار کے ایک چچا تھے جنہوں نے روکھی سوکھی کھلا کر کفالت کا بیڑا غرق کیا-
اوائل عمری سی ہی مجھے پیراکی کا شوق تھا- ڈبکی ایسی لگاتا کہ راوی کی مچھلیاں تک ورطہء حیرت میں ڈوب جاتیں- کنارے سے لوگ چونیاں اٹھنیاں پھینکتے اور میں غوطے مار مار کے انہیں نکالتا رہتا- بڑے بوڑھے خوب داد دیتے اور کہتے "شاوا ڈڈو دیا پُترا ..." اور یہ فقیر خوشی سے پھولے نہ سماتا-
بڑے ہو کر قصد کاروبار کا کیا- کمالیہ سے ٹوبہ جانیوالی لاریوں میں جس جس نے بھی سفر کیا ، سائیں کا سرمہ ضرور خریدا- کمال کا سُرمہ تھا ، ایک "خوراک" لیتے ہی آنکھیں سائیں سائیں کرنے لگتی تھیں- فقیر تو کچھ روز یہ دھندا کر کے واپس گاؤں لوٹ آیا مگر کمالیہ والے ابھی تک آنکھوں کے "ککرے" صاف کرتے ہیں-
گاؤں آکر "لکڑی کا کاروبار" شروع کیا- دن بھر کیکر کی مسکواکیں لئے "چِٹّی مسیت" کے سامنے کھڑا رہتا ، مگر دال کھانے والی قوم نے مسواک کا کیا کرنا تھا ، سو یہ دھندہ بھی چوپٹ ہوا-
کچھ روز مسجد کے سامنے ٹوپیاں ، تسبیحاں بھی سجائیں مگر مسیت میں پڑا "کھجّی ٹوپیوں والا ڈبّہ" کاروبار میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہا-
سال بعد مسجد کے ساتھ والا "اسلامی کیسٹ ھاؤس" خالی ہوا تو میری قسمت نے یاوری کی-
ملاں پور" میں 5 مساجد تھیں اور چھٹّی زیر تعمیر - ہر طرف چندے اور بندے اکٹھے کرنے کا رجعان تھا- جمعہ کے دن یہاں کان پڑی آواز سنائ نہ دیتی- اس کے باوجود ہر مولوی کو شُبہ تھا کہ آوازِ حق ، خلقِ خُدا تک پہنچنے سے پہلے ہی فرقہء باطلہ کا لاؤڈ اسپیکر لے اڑتا ہے-
میری مذھبی تعلیم اگرچہ صفر تھی مگر اسلامی کیسٹوں کا کاروبار خوب راس آیا- باتونی شروع سے ہی تھا- کاروباری نزاکتوں کے پیش نظر داڑھی بھی رکھ لی ، انداز بھی خطیبانہ سا ہو گیا اور مجمع لگانے میں لطف آنے لگا-
دور سے ہی گاہک کے فرقے کا اندازہ لگانا ، شیلف سے جھاڑ پھونک کر مطلوبہ کیسٹ اُٹھانا اور خطیب کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا-
جاری ہے ..
 
قصہ حاتم طائ --11--ظفرجی
اس روز اگر میں کیسٹوں کی بوری لینے کمالیہ نہ جاتا ، اور رستے میں بس خراب نہ ہوتی تو "عالیہ" سے میری کبھی ملاقات نہ ہوتی- لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا کہ آج میں راوی کنارے یہ آوازہ نہ لگا رہا ہوتا کہ "شادی کر دریا میں ڈال !!!
ہوا یوں کہ " اڈّہ موٹی کیکر" پر بس ایک چیخ مار کے رکی اور گھنٹہ بھر رکی رہی- ڈریور ، کنڈکٹر ، ہیلپر اور سواریاں ملکر بس کی بیماری ڈھونڈنے میں مگن ہو گئے- اسی لمحے ایک گوری چِٹّی ماہ رُخ ہمراہ ایک قبول رُخ امّاں کے ، بس میں سوار ہوئ اور کپڑوں سے بھری گٹھڑی میری گود میں آن پھینکی- میں جو تین والی سیٹ پر پھیل کر بیٹھا ہوا تھا استغفار پڑھ کر سمٹا ، پھر جو پھیلنا شروع ہوا تو ماں بیٹی نے استغفار پڑھنی شروع کر دی-
کمالیہ تک "اکھ مٹکّا" جاری رہا- جودھرہ اسٹاپ پر میں نے ادھ پاؤ سیو بیر خریدے اور امّاں کے حضور نذر پیش کی- رجانہ آیا تو مجھے مرُنڈے کی خیرات پیش کی گئ- کچھ سفر کے بعد وہ لوگ " پنڈ دھوبیاں" اترنے لگے تو پیچھے پیچھے میں بھی اتر گیا-
امّاں نے پوچھا پُتّر کتھے جانڑاں
میں نے کہا امّاں جہاں جانا تھا پہنچ چکا ہوں- بزرگوں کی خدمت میرا شعار ہے اور اسی میں دوجہاں کی کامیابی ہے- پھر یہ کہانی گھڑی کہ ایک پرانے بیلی سے ملاقات کےلئے "پنڈ دھوبیاں" کی نیت باندھی تھی- راستہ معلوم نہیں- خدا نے سبب کیا ، صد شکر کہ قافلہ میسر آیا-
یوں میں گٹھڑی سر پہ اٹھائے برابر دو کلومیٹر چلتا رہا- وہ لوگ گاؤں کو چیرتے ہوئے اپنے محلہ کے گھاٹ پر جا رکے- ماہ رُخ نے کپڑوں کی گٹھڑی میرے سر سے اتاری مگر پیار والی پنڈ ہمیشہ کےلیے رکھ دی-
چنانچہ دکان کو تالہ پڑا- ہر روز مونہہ اندھیرے مشکی صابن سے نہاتا ، تیل سرسوں سر پر جماتا ، اور کپڑوں پہ عطر پھلیل چھڑکاتا سیدھا " پنڈ دھوبیاں" پہنچ جاتا- پنڈ والے بھی حیران تھے کہ "دھوبیاں" میں کون سا ختم شریف ہو رہا ہے جو سائیں روز بھاگا چلا جاتا ہے- کسی کو میرے عشق کی خبر نہ تھی ، سوائے صادق سیکلوں والے " کے-
اڈہ پِنڈ دھوبیاں پر سائیکلوں کی دکان میرا پکّا "ٹھیّا" بن گئ- میں سارا دن صادق کے پاس بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا-ایک آنکھ سے کانا صادق دور اندیش بندہ تھا- اس نے میری حالتِ زار پر رحم کھایا اور مذکورہ گھرانے میں میرے رشتے کا پیغام بھجوایا- وہ لوگ بھی شاید کسی اچھّے جوائ کے انتظار میں ہی دُبلے ہو رہے تھے- چنانچہ جند جاننے والوں میں چھوارے بٹّے اور میں "شادی شدڑہ" ہو کر واپس ملاں پور آگیا-
گاؤں آتے ہی چچّا نے جائداد سے عاق کر دیا کہ ذات کا کمہار اور دھوبیوں سے رشتے- ویسے بھی جائیداد میں ایک معمولی احاطے ، مٹی کے بھانڈے بنانے والی ایک بھٹّی اور ایک مریل کھوتے کے سوا تھا ہی کیا-
مسجد سے ملحقہ ایک کوارٹر کرائے پر خالی تھا- مولوی صاحب نے عنایتاً مجھے بخش دیا- دکان کا تالہ کھُل گیا- یوں دن عید اور رات شبرات کی طرح گزرنے لگے- میرا ایک پاؤں کیسٹوں والی دکان میں ہوتا اور دوسرا زنان خانے میں- عالیہ بھی جی جان سے میری خدمت کرتی- اور یوں زندگی بڑے مزے سے کٹنے لگی-
پانچ چھ ماہ بعد ایک روز میں کیسٹوں کا نیا اسٹاک لینے کمالیہ گیا تو واپسی پر تاخیر ہو گئ- رات گئے میں ملاں پور پہنچا- ابھی گھر سے کچھ دور ہی تھا کہ مجھے ایک انسانی ھیولہ دکھائ دیا- میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیولہ میرے گھر سے باہر نکلا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا-
میں ٹھٹھک کر وہیں رک گیا-
 
Top