ایک غزل - برائے اصلاح

جناب محترم الف عین صاحب آپ سے اصلاح کی گذارش ہے۔

فعولن فعولن فعولن فعولن
محبت کی مجھ کو سزا دینے والے
وفاؤں کے بدلے جفا دینے والے
تمنا ہے دل کی سدا خوش رہے تو
دعا دے رہا ہوں دغا دینے والے
مجھے بھی کیا تو نے دنیا میں رسوا
زمانے کو درسِ وفا دینے والے
سدا تیری خاطر بچھائیں ہیں پلکیں
نگاہوں سے مجھ کو گرا دینے والے
تجھی سے کہوں گا ترا ہی تو غم ہے
مرے دردِ دل کی دوا دینے والے
بدل ہی گیا تو کبھی میری خاطر
وہ اشکوں کے دریا بہا دینے والے
رقیبوں سے اچھا نہیں تیرا ملنا
وہ ہیں رنجشوں کو ہوا دینے والے
ترے غم نے ہی تو سخن ور بنایا
نوازش ہنر کو جلا دینے والے
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل۔ اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے ایک دو اشعار میں ہی دم ہے۔ کوئی فاش غلطی بھی نہیں ہے۔ بہتر روانی کے لیے الفاظ کی نشست بدل کر خود ہی دیکھیں ممکن ہے کوئی بہتر متبادل مل جائے۔ مثلاً مقطع میں ’ہی تو‘ میں تو کا کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا ہے، متبادل مل جائیں گے، جیسے
ترے غم نے مجھ کو سخنور بنایا
 
درست ہے غزل۔ اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے ایک دو اشعار میں ہی دم ہے۔ کوئی فاش غلطی بھی نہیں ہے۔ بہتر روانی کے لیے الفاظ کی نشست بدل کر خود ہی دیکھیں ممکن ہے کوئی بہتر متبادل مل جائے۔ مثلاً مقطع میں ’ہی تو‘ میں تو کا کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا ہے، متبادل مل جائیں گے، جیسے
ترے غم نے مجھ کو سخنور بنایا
جناب محترم الف عین صاحب بہت شکریہ ۔ جیسا آپ نے فرمایا بہتری کے لیے کوشش کرتا ہوں۔
 
محترم الف عین صاحب، اپنے تئیں کوشش تو کی ہے، آپ فرمائیے مناسب ہے اب

محبت کی مجھ کو سزا دینے والے
وفاؤں کے بدلے جفا دینے والے
تمنا ہے دل کی سدا خوش رہے تو
دعا لے جا مجھ سے دغا دینے والے
مجھے تو نے رسوا کیا ہے جہاں میں
زمانے کو درسِ وفا دینے والے
وہ راہوں میں تیری بچھائیں تھی پلکیں
نگاہوں سے مجھ کو گرا دینے والے
یہ غم بھی ترا ہے تو ہی ہے مسیحا
مرے دردِ دل کی دوا دینے والے
تجھے آگیا ہے یوں اب مسکرانا
وہ اشکوں کے دریا بہا دینے والے
مناسب نہیں ہے رقیبوں سے ملنا
وہ ہیں رنجشوں کو ہوا دینے والے
ترے غم نے مجھ کو سخنور بنایا
نوازش ہنر کو جلا دینے والے
 
Top