تاوان از آصف رضا بلوچ

kalmkar

محفلین
’’چٹاخ …………حرامزادی ……اور پھر ایک زور دار دھڑام کی آواز کے ساتھ ہی اس کی ماں اڑتی ہوئی دروازے سے باہر آگری ۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی کمرے سے ا سکے والد نمودار ہوئے ان کے ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا تھا جو انہوں نے شاید اس کی ماں کو پیٹنے کیلئے لا کر رکھا تھا۔ باپ کو دیکھتے ہی وہ بھاگ کر حسب معمول صحن میں لگی موتیا کے پودے کے پیچھے جا کر چھپ گئی ۔اسکا باپ تو پھر جیسے اس کی ماں پر پل پڑا ۔ اس نے نہیں دیکھا کہ کہاں مار رہا ہے اور اس کی ماں کو کہاں چوٹ لگ رہی ہے ۔ تھوڑی دیر میں اس کے باپ نے اس کی ماں کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا تھا اور اس کی ماں تھی کہ چلا بھی رہی تھی تو اتنا اونچا کہ اس تک بھی بمشکل آواز پہنچ رہی تھی ۔ اس کا باپ غالباً ابھی تھک گیا تھا اس لئے اس نے ڈنڈا ادھر اس کی ماں کے پاس پھینکا اور دروازے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ موتیا کے پھولوں بھینی بھینی خوشبو اس کے حواس معطل کر رہی تھی ۔اس نے دیکھا کہ موتیاکے پھولوں کو کسی نے بڑی بے دردی سے نوچا تھا کہ آدھ ٹوٹے ہوئے پھول ابھی تک ڈالی پراٹکے ہوئے تھے۔ مگر ابھی اس کی توجہ ان پھولوں پر نہیں اپنی ماں پر تھی ۔ جیسے ہی اس کا باپ وہاں سے گیا وہ ڈرتے ڈرتے باہر نکلی اور ماں کے پاس آئی۔ اس نے ماں کا کندھا پکڑا تو اس کی ماں نے اس کی طرف آنسوؤں بھری آنکھوں سے دیکھا۔ ماں کا چہرہ دیکھ کر اس کی سسکاری نکل گئی اور وہ بے اختیار روتے ہوئے ماں سے لپٹ گئی۔ ’’امی…………امی……‘‘ اس کی ماں کا چہرے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ایک آنکھ سوج کر کپا ہو رہی تھی ۔ ہونٹ پھٹ گئے تھے اور ایک گال پر ایک لمباسا زخم ہو گیا تھا جس سے زخم رس رہا تھا۔ اس کی ماں نے اسے کندھے سے لگا لیا اور پھر دونوں سسکنے لگیں۔ اچانک گھر کا بیرونی دروازہ ایک دھماکے سے کھلا اور اسے اس کے باپ کی آواز سنائی دی ۔’’تم…………‘‘ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی اس نے چیخ مارنے کیلئے منہ کھولا مگر جیسے چیخ اس کے اندر ہی کہیں گم ہو گئی تھی۔ اس نے بڑی بے بسی کے ساتھ ماں کو اٹھانا چاہا اور اس کو ایک جھٹکا دیا۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی ۔ اس کی ماں سامنے واشنگ مشین پر اس کے کالج کی یونیفارم دھو رہی تھی اور ساتھ ساتھ میں منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا بھی رہی تھیں۔ صحن میں دھوپ اتر رہی ھی ۔ چڑیاں چہچانا بند ہو گئی تھیں۔ سامنے کچن میں چولہے پر رکھے ہوئی کیتلی میں گرم چائے کی بھاپ کی خوشبو اسے محسوس ہوئی تو اس نے ایک دم اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ اکثر وہ بیشتر اس کو یہ خواب دکھائی دیتا تھا۔ نفسیات کہتی ہے کہ اگر انسان کسی مخصوص ماحو ل میں مخصوص حالات کے تحت ایک مخصوص ردعمل پر مجبور ہو جاتا ہے اور اس طریق کو بار بار دہرانے پر ہم اس کی پیشن گوئی کر سکتے ہیں۔ اب وہ بھی یہ پیشن گوئی کر سکتی تھی کہ چونکہ اس کا بچپن اسی طرح کے ماحول میں گزرا تھا تو اس طرح کے خواب دیکھنا کوئی اچھنپنے کی بات نہ تھی ۔
اس کا نام غزالہ تھا۔ اپنی عمر کی اٹھارویں منزل کو طے کرنے کے بعد وہ اب انیسویں سال میں قدم رکھ رہی تھی اس لئے اس کی ماں کو اس کی پڑھائی سے زیادہ اس کی شادی کی فکر تھی ۔ اس کے پچپن سے ہی وہ اپنے والد کو اسکی ماں کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے والد اس کی ماں کے رشتے میں ماموں کے بیٹے تھے۔ اس کی نانی کی ناگہانی وفات کی وجہ سے اس کی والدہ کو اس کے ماموں نے پالا تھا اور انہوں نے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ اس کی والدہ کی شادی کر دی تھی جس کے نیتجے میں وہ اس دنیا میں وارد ہوئی تھی۔ مگر اس دنیا میں آنے کے بعد اس کو یاد نہیں تھا کہ اس کے والد نے کبھی اسے پیار کیا ہو یا اس کے ساتھ کوئی اچھے طریقے سے بات کی ہو۔ غصہ تو ہر وقت اس کے باپ کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔ وہ رات کوکام سے واپس آتے تھے تو وہ بستر میں یوں دبک کے سوئی ہوتی تھی جیسے اگر اس نے سر باہر نکالا و کوئی دیو اسے کھا جائے گا۔ اس کی ماں کو آئے روز بات بات پر پیٹنا ان کا معمول تھا پتہ نہیں اس کی ماں نے کون سا ایسا جرم کیا تھا کہ وہ ان کو اتنا مارتے تھے ۔ کبھی کبھی وہ اپنے باپ کے مرنے کی دعا کرتی تھی اور سوچتی تھی کہ جس دن میرا باپ مرے گا اس دن میری ماں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو گی ۔ مگر یہاں تو الٹا ہی ہوا۔ دعا اس کی قبول تو ہوئی اور اس کا باپ اس دنیا سے کوچ کرگیا۔ مگر اس کی موت پر سب سے زیادہ واویلا مچانے والی اس کی ماں تھی۔ وہ بات اسکو اس طرح یاد تھی جیسے ابھی کی بات ہو۔ اس کی ماں بین کر رہی تھی اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک ظالم شخص سے نجات مل گئی۔ باپ کے انتقال کے بعد اس کی ماں نے ایک آفس میں جاب کر لی جس سے اتنا وہ کما لیتی کہ وہ دونوں ماں بیٹی ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی۔ یہ گھر اس کی ماں کے ماموں نے اس کی والدہ کے نام کر دیا تھا۔اس طرح ان کو سر چھپانے کا ٹھکانہ تو مل گیا تھا اور انہوں نے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھ لیا تھا اور یوں ان کی زندگی اچھے طریقے سے گزر رہی تھی۔
’’غزالہ ……غزالہ بیٹا ……چلو ناشتہ تیار ہو گیا ہے ……اگر آج کالج سے چھٹی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سارا دن تم سوتی رہو۔ …………‘‘ اس کی ماں نے واشنگ مشین کے ڈرائیر سے کپڑے نکالتے ہوئے کہا ۔ ’’ سو کہاں رہی تھی ماں ……میں توخواب دیکھ رہی تھی……‘‘اس نے چارپائی سے نیچے اترتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘کس کے خواب دیکھ رہی تھی ……‘‘اس کی ماں نے کپڑے تار پر پھیلاتے ہوئے کہا۔ ’’ ارے ماں ……ابو کو دیکھ رہی تھی ……پھر ……بہت پیٹ رہے تھے تم کو ……پتہ نہیں انہیں کیا غصہ ہے ابھی تک کہ اوپر جا کر بھی تمہیں پیٹنے سے بعض نہیں آئے ہیں۔ ……‘‘ اس نے چارپائی کے نیچے سے اپنی چپل کا دوسرا پاؤں ڈھونڈتے ہوئے کہاتو اس کی ماں کے ہاتھ رک گئے ۔ اور وہ چپل کا دوسرا پاؤں ڈھونڈے میں کامیاب ہو گئی تھی پاؤں میں ڈالتی ہوئی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
وہ فریش ہو کر باہر آئی تو اس کی ماں ناشتے کی ٹیبل پر اس کے پراٹھے پر مکھن لگا رہی تھیں۔ مگر صاف لگ رہا تھا کہ ان کا دھیان پراٹھے اور مکھن کی بجائے کہیں دوسری جگہ ہے ۔ کیونکہ وہ پراٹھے کے باہر پلیٹ پر بھی بڑی لگن سے مکھن کو لگا رہی تھیں’’ امی ……‘‘ اس نے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اپنی ماں کو مخاطب کیا۔ ’’ ہوں…………‘‘ اس کی ماں نے کھوئے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ اچھا امی ……سوری ……مجھے آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہے تھا۔……‘‘ اس نے اپنی ماں کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا۔ ’’ اوکے ……‘‘ اس کی ماں نے روکھا سا جواب دیا۔ ’’اچھا امی سوری ……اس نے پھر زور سے کہا ……پلیز ……اچھا آئندہ نہیں کروں گی ……‘‘ اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ ’’ یہ تم نے پچھلے مرتبہ بھی کہا تھا ……‘‘اس کی ماں نے غصے سے کہا ……’’ نہیں ……اس بار پکا ……سوری ……‘‘ اس نے جلدی سے کہا تو اس کی ماں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ ’’چلو ٹھیک ہے ڈرامے باز کہیں کی ……یہ لو ناشتہ کر لو‘‘اس کی ماں نے مسکرا کر مکھن لگا ہوا پراٹھا اس کے سامنے رکھ دیا۔ ’’ امی ……ایک بات پوچھوں‘‘ ۔ ’’ پوچھو ……‘‘اس کی ماں نے پانی کے جگ میں سے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔ ’’ امی ……ابو ہم سے اتنی نفرت کیوں کرتے تھے……‘‘اس نے چائے کا ایک بڑا سا گھونٹ بھر کر پوچھاتو اس کی ماں کے چہرے پر ایک پرچھائیں سی گزر گئی ۔ ’’ امی اگر ماموں نے آپ کو پالا تھا تو کوئی احسان تو نہیں کیا تھا ……اگر نانی فوت ہو گئی تھیں تو آپکے ماموں آ پ کو کیوں لائے تھے ……چلو پھر آپ کو پالا تھا تو آپ نے سارا گھر تو سنبھالا تھا ……اگر ابو نے اپنے والد اورآپ کے ماموں کے کہنے پر آپ سے شادی کی تھی تو پھر اس میں برائی کیا تھا……امی ابو ہم سے اتنی نفرت کیوں کرتے تھے……کیوں……اگر اتنی ہی نفرت کرتے تھے تو تو پھر ہمیں مار کیوں نہیں ڈالا۔ روز روز مرنے سے تو بہتر تھا کہ انسان ایک بار ہی مر جائے۔ٹھیک ہے کہ انہوں نے آج تک اپنی ذمہ داریاں پوری کی تھیں۔ مگر ذمہ داریوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف پیسہ ہے ساری ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔ ایک پیار کا بول تو ہمیں مل نہیں سکا آج تک ۔ ہم نے ایسا کیا گناہ کیا تھا جس کی سزا ابھی تک مل رہی ہے …………‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی اور اس کی ماں سر جھکائے سنتی رہی پھر جب اس کی ماں نے کچھ کہنے کیلئے سر اٹھایا تو اس کو اپنی ماں کے آنکھوں میں درد کا سمندر ہلکورے لیتا ہوا نظر آیا۔ مگر دوسرے لمحے ہی اس کی ماں نے آنکھیں جھکا لیں’’ شاید بیٹا ہم ہی گناہ گار ہیں …… میں ان نفرتوں کی حقدار ہوں ……مجھے اس مار اور اس نفرت سے محبت تھی۔ میں اس نفرت کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہی نفرت ہی میری محبت کا اعجاز تھا ……‘‘ اس کی ماں نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا ۔اس کے بعد ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی ۔ ایک بے اُداس اور بے نام سی خاموشی جس میں دونوں اپنے اپنے دکھوں کا بوجھ اٹھانے میں مصروف تھے۔ ’’چلو تم اپنا ناشتہ ختم کر لو میں باقی کے کپڑے بھی دھو لوں……پھر دوپہر کا کھانا پکاتی ہوں۔ تمہاری پسند کی حیدرآبادی بریانی بنا رہی ہوں……‘ اس کی ماں نے اچانک اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے اس کے گال پر تھپکی تھی ۔جس کا مطلب تھا کہ اب اس موضوع پر مزید بات نہیں ہوگی۔
دوپہر کے کھانے پر اس کی ماں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی ۔ ’’ میں سوچ رہی ہوں ……کہ تو اپنے گھر کی ہو جائے تو پھر میری زندگی میں کوئی سکون آجائے ……‘‘ اس کی ماں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی۔ وہ جو بڑی بے تابی سے حیدرآبادی بریانی کا مزہ لے رہی تھی ایک دم ساکت ہو گئی ۔ ’’کیا ……نہیں ماں……میں شادی نہیں کروں گی …… اب تم چاہتی ہو کہ میں ساری زندگی تمہاری طرح نفرتیں دیکھوں ……مار کھاؤں ……‘‘ اس نے منہ بگاڑا ۔ ’’ ارے پگلی ……تیری شادی میں اس سے ہی گروں گی جو تجھے پیار کرتا ہو گا ……تجھے محبت دے گا……مان دے گا ……عزت دے گا ……‘‘ اس کی ماں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ ہونہہ……مان ……عزت……محبت ……، ماں یہ ساری باتیں کتابوں اور کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں۔ حقیقت میں یہ محبت اور پیار افسانوی باتیں ہیں اور صرف باتیں ہی تو ہیں۔ جتنی مرضی کرتے جاؤ ، جتنی مرضی ہانکتے جاؤ……‘‘ اس نے دلیل دی ۔ ’’اچھا ……وہ کیسے ؟‘‘ اس کی ماں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔’’ اچھا تم مجھے بتاؤکہ وہ جو خالدہ سعیدہ کی بیٹی ساجدہ سے جس نے محبت کی شادی کی تھی اس کا انجام کیا ہوا ……چہرے پر تیزاب ڈال دیا !!……مرتے مرتے بچی اور اب ساری زندگی اپنی ماں کے در پر بیٹھ کر مانگ کر کھا رہی ہے ……،خالہ نجو کو ہی دیکھ لو …… اس نے جس چاؤ سے اپنی بیٹی بیاہی تھی کہ اس کا داماد بڑا پڑھا لکھا ہوا ہے ……اچھی نوکری ہے ……کیا ہوا۔دماد جی نے مار مار کر حلیہ بگاڑ دیا ۔ چار مہینے بعد طلاق ہو گئی……، گلی نمبر 25کی انکل رضوی کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ دماد صاحب فارن میں رہتے ہیں۔ بیٹی باہر چلی جائے گی ۔ کیا ہوا ……؟دھکا دے دیا چھت سے دونوں ٹانگیں تڑوا کر ہسپتال میں پڑی ہے ……اور تو اور تم کومزدلفہ یاد نہیں ہے ۔ محبت کے چکر میں گھر سے بھاگ گئی تھی ۔ کیا کیا اس کے شوہر نے ……سلنڈر پھٹنے کا ڈرامہ کر کے اس بچاری کو مار ہی ڈالا۔ خود ہی تو گئیں تھیں تم اس کا منہ دیکھنے …………‘‘ اس کے پاس تو دلائل کا انبار لگا ہوا تھا۔ ’’غزالہ ……یہ تم ہر وقت منفی باتیں کیوں کرتی رہتی ہو ……یہ اور یہ ساری باتیں تمہیں بتاتا کون ہے ……ببلی ……میں آج تیرا موبائل بھی توڑتی ہوں اور تیرا واٹس ایپ بھی بند کرتی ہوں۔ پتہ نہیں کیا الا بلا سوچتی رہتی ہے اور بکتی رہتی ہے ۔ میں کل جا کر ببلی کے کان بھی کھینچتی ہوں ۔ اس لئے کہتی ہوں کہ یہ ناولز اور ٹی وی ڈرامے ذرا کم دیکھا کرو……دماغ تمہارا ٹھکانے رہے گا……‘‘ اس کی ماں نے غصے سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ امی ……یہ سب سچی باتیں ہیں ……میں کونسا فرضی باتیں کر رہی ہوں ……بتائیں ……ا ن میں سے کون سی بات جھوٹی ہے ……میں جانتی ہوں امی کہ مرد اور محبت کبھی ایک جگہ ہو ہی نہیں سکتے ……فلموں اور ڈراموں کی حد تک میں نہیں کہہ رہی مگر حقیقت میں یہ بات بالکل سچ اور کھری ہے کہ مرد کبھی محبت نہیں کر سکتا ……اس کو کیا پتہ کہ محبت کیا ہو تی ہے ……صرف اور صرف عورت جانتی ہے ۔ کیونکہ اس کے اندر خدا نے محبت کا مادہ رکھ چھوڑا ہے ۔ ……دیکھو ناں ……تم ابو سے محبت کرتی ہو ……چاہے وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں ……تمہیں پروا نہیں ……تم عورت ہو ناں اس لئے ……عورت ماں ہو……بیوی ہو……بہن ہو ……یا بیٹی ……وہ محبت کرنا بھی جانتی ہے اور محبت کرتی بھی ہے ۔ مردوں کا کیا محبت سے لینا دینا۔ ان کو کیا معلو م عورت کا مقام اور عورت کی جگہ اور عورت کی عزت اور عورت کی محبت کیا ہوتی ہے …………اس لئے کہتی ہوں کہ میں شادی ……بالکل نہیں کروں گی ……‘‘ اس نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا ۔
اگلے دن کالج میں پہنچی تو ببلی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ ببلی اس کی کلاس فیلو ، اس کی محلے داراور اسکی رازداراوراس کی اچھی دوست بھی تھی ۔ ببلی کا اصل نام تومسرت تھا مگر سب اسے ببلی ببلی بلاتے تھے ۔ ’’غزالہ ……کیسی ہو ……‘‘ ببلی نے اس دیکھتے ہی ہاتھ بڑھا کر کہا۔ ’’ ٹھیک ہوں ……تم کیسی ہو ……‘‘ اس نے بھی ہاتھ ملا کر جواب دیا ۔ ’’ ارے میں کیا بتاؤں ……کل سے بھیا تمہارا پوچھ رہے ہیں کیا بات ہے تم دونوں میں کچھ لڑائی ہو ہو گئی ہے ……‘‘ ببلی نے رازدارانہ لہجے میں پوچھا۔ ’’نہیں تو ……‘‘ اس نے روکے لہجے میں جواب دیا ۔ ارے……اتنا غصہ ……چلو میرے بھائی کو معاف کردو……تم جانتی ہو کہ صبح صبح سویا بھی نہیں تھا اور مجھے اٹھا کر بولا کہ تم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگو اور بولو کہ آئندہ جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہو گا……‘‘ببلی نے اس کے سامنے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر کہاتو وہ مسکرا اٹھی ۔ اس کی میں فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر ببلی نے بھی ایک لمبی سانس لی ۔ ’’چلوشکر ہے ……تمہاری صلح تو ہوئی ……‘‘ ببلی بولی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔’’ تم میرے بھائی کے ساتھ جھگڑا مت کیا کرو……کتنا سیدھا سا ہے میرا بھائی ……ایک تمہاری تو ہی بات مانتا ہے ……ورنہ وہ اتنا ضدی اور اکڑو ہے کہ بس نہ پوچھو……‘‘ ببلی نے اپنے بھائی کی طرفداری کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا ……ابھی سے ……ابھی سے ……تم اپنے بھائی کی وکالت شروع کر دی ہے ……‘‘ اس نے مصنوعی غصے سے کہا تو ببلی نے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے ۔ ’’ ٹھیک ہے بابا ……مجھے معاف کرو ……تم جلدی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامو اور مجھے چھٹی دو ……میں تمہارا میسجنر بن کر بہت نقصان میں رہتی ہوں ……کبھی اس طرف لڑائی ہے تو کبھی اُس طرف ناراضگی ……کبھی اس کو مناؤ تو کبھی اس کا پھولا ہوا منہ دیکھو ……‘‘ وہ ہنس پڑی ’’ ابھی کہاں ……ابھی تو سفر شروع ہو ا ہے ……ابھی تو محبت کے امتحان اور بھی ہیں ……‘‘ اس نے ایک ناز سے کہا تو ببلی نے سر پکڑ لیا ۔’’بھئی تم دونوں سے کوئی نہیں جیت سکتا ہے ……بس ……‘‘ وہ دونوں اکٹھے ہنس پڑی اور کلاس روم کی طرف بڑھ گئیں۔ ’’ کل امی کے ساتھ بازار گئی تھی دو نئے سوٹ لے کر آئی ہوں پلچھی کے ہیں اورساتھ میں میچنگ چوڑیاں بھی ہیں ……تمہارے لئے بھی لائی ہوں……شام کو آرہی ہو ناں……‘‘ ببلی نے اسے جوش سے بتایا۔ مگر اس کا دماغ تو شاذل میں اٹکا ہوا تھا اور وہ اپنی اگلی چال کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔
’’شاذل …………‘‘ ببلی کا بڑا بھائی جو اس سے محبت کا دعوے دار تھا۔ یوں تو وہ کافی عرصے سے ببلی کے گھر آتی جاتی رہتی تھی مگر ایک دن جب ببلی نے اسے اپنے بھائی شاذل کا پیغام دیا تو پہلے تو اسکی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ دوسری لڑکیوں کی مانند خوش ہو ……محبت کا دعوے دار ملنے کی خوشی میں سجدے کرے یا پھر محبت کرنے والے کی پوجا کرے۔ مگر اس نے تو ان تینوں میں سے کوئی رستہ نہیں چنا۔اس نے اپنا رستہ چنا۔ قدم بہ قدم دھیرے دھیرے اور آہستہ آہستہ ۔
اور پھر وہ اپنے رستے پر چل نکلی۔ اکیلی اور تنہا۔ شاذل اس سے دل و جان سے محبت کرتا تھا۔ دونوں کے درمیان بات چیت شرو ع ہو چکی تھی۔ اس دوران وہ وقفے وقفے سے ببلی کے گھر بھی جاتی تو شاذل خوشی سے نہال ہو جاتا تھا۔ شاذل میں وہ تمام خوبیاں موجود تھی جو ایک لڑکی کی پسند ہوتی ہیں۔ پڑھا لکھا، سلجھا ، اونچا قد، گورا رنگ، تھوڑا موٹا سا تھا مگر کیوٹ ، اس کے چہرے پر گھنی مونچھیں اسے بہت جچتی تھیں۔ ایک آئی ٹی کمپنی میں اچھی پوسٹ پر اور کیا چاہیے تھا ۔ اس کیلئے تو لڑکیوں کی لائن لگی ہوئی تھی ،مگر وہ تھا کہ صرف غزالہ کو اپنا ہمسفر بنانا چاہتا تھا۔ اس کیلئے انہوں نے کتنے خواب بنے تھے ۔ کتنے وعدے کئے تھے ۔ کتنے محبتوں کے محل تعمیر کئے تھے ۔ اس کے دل میں صرف اور صرف غزالہ بستی تھی اور بس ۔ دن بدن اس محبت میں نہ صرف شدت آرہی تھی اور یہ بات اسکو بخوبی معلوم تھی کہ جلد بدیر وہ اپنی ماں کو اس کے گھر اس کے رشتے کیلئے بھیجنے والا تھا اور اس لمحے کا ہی اسے انتظار تھا۔
شام کو وہ وہ اپنی امی کے ساتھ ببلی کے گھر گئی ۔ دستک دینے پر شاذل نے دروازہ کھولا۔ ’’ ارے آنٹی ……السلام علیکم ……آئیں ……آئیں آنٹی آپ نے فون کر دیا ہوتا تو میں آپ کو بائیک پر لینے آجاتا ۔ اتنی گرمی میں آپ پیدل آئی ہیں ……‘‘ شاذل نے بڑے احترام سے کہا۔ ’’ وعلیکم السلام ……ارے نہیں بیٹا اب ایسی بھی کیا بات…… ایک گلی کا تو فاصلہ ہے اس میں کیا تم کو تکلیف دیتی……‘‘ اس کی ماں نے جواب دیا اور اندر داخل ہو گئیں۔ ’’ ارے ببلی …………باہر آؤ تمہاری سہیلی آئی ہے ……‘‘ شاذل نے اونچی آواز میں کہا۔ ’’آنٹی آپ بیٹھیں ……امی اور ببلی آتی ہیں ……‘‘شاذل نے اسکی والدہ کو مخاطب کر کے کہا۔ اس دوران اس نے کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس نے اس کے چہرے کو لال ہوتے ہوئے دیکھامگر وہ اپنی امی کے ساتھ ڈرائننگ روم میں آبیٹھی۔ ڈرائننگ روم کے ساتھ ہی شاذل کا کمرہ تھا جہاں سے نصرت کی خوبصورت آواز میں قوالی کی آواز آرہی تھی ’’تمہیں دل لگی بھول جانے پڑے گی ، محبت کی راہ میں آکر تو دیکھو……‘‘اسی دوران میں ببلی بھاگتی ہوئی آئی ۔ چلو غزالہ میں تمہیں اپنے کپڑے دکھاتے ہوں اور میں تمہاری لئے چوڑیاں بھی لائی ہوں ۔ ببلی نے آتے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر کھننچنا شروع کر دیا۔ ’’ مسرت ……تیری آنٹی بیٹی ہیں ……کوئی سلام دعا نہیں ……بس اپنی سہیلی کی فکر ہے ……‘‘ ببلی کی ماں نے پیچھے سے آکر جواب دیا۔ ’’ السلام علیکم آنٹی ……‘‘ ببلی نے فورا سے پہلے غزالہ کی ماں کو سلام کیا اور اسے تقریباً کھینچتی ہوئی باہر لے گئی ۔ ’’ دیکھ لو ……کتنی بدتمیز ہے ……کیا کروں میں اسکا ……‘‘ ببلی کی ماں نے غزالہ کی ماں کے قریب براجمان ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ ارے بہن ……ابھی تو بچی ہے ……وقت کے ساتھ ساتھ سنبھل جائے گی ……‘‘ غزالہ کی ماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ اﷲ کرے ……‘‘ ببلی کی ماں نے ایک گہری سانس لی ۔ خیر تم بتاؤ بہن ……‘‘ وہ اپنی گفتگو میں مگن ہو گئیں۔
ببلی ، شاذل اور غزالہ چھت پر کھڑے ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے تھے ۔ غزالو ……اب تو میری بن جاؤ ……صرف میری ……صرف میری ……‘‘ شاذل نے سرگوشی کی۔ ’’ابھی نہیں شاذل ……ابھی میری پڑھائی جاری ہے ……پڑھائی ختم ہو جائے پھر دیکھتے ہیں ……تمہیں کیا جلدی ہے ……‘‘ غزالہ نے اس کی طرف دیکھ کر مسکراہتے ہوئے کہا۔ ’’ مجھے لگتا ہے کہ تمہیں بہت مزہ آتا ہے مجھے تڑپتا دیکھ کر ……تم یہ سب جان بوجھ کر کر رہی ہو……‘‘ شاذل نے اس سے پوچھا۔ ’’ وہ کیسے ……‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے شاذل کی طرف دیکھا۔ ’’غزالہ ……مجھے بعض اوقات تمہاری آنکھیں دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے …… مجھے تمہاری آنکھوں میں ایک عجیب سے پراسراریت محسوس ہوتی ہے ……‘‘ شاذل نے الجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا تو وہ چونک اٹھی اور اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے ۔ جیسے وہ اپنی پراسراریت کو چھپانا چاہا رہی ہو۔ مگر دوسرے لمحے ہی اس نے ہاتھ ہٹا کر پوچھا ……نہیں مجھے تو کچھ نہیں دکھائی دے رہا ہے ……اس نے حیرانگی سے شاذل کی طرف سے دیکھ کر پوچھا۔ ’’ مجھے تمہاری یہ ادائیں ……یہ انداز ہی مار دیتا ہے ……دل تو میرا یوں کر رہا ہے کہ میں تمہیں ابھی گلے سے لگا لوں اور آنکھوں میں چھپا لوں ……‘‘ اس نے آگے بڑھ کر اسے باہنوں میں لینا چاہا تو ببلی جو ان سے کچھ دور کھڑی تھی زور سے کھانسنے لگی ۔ وہ ببلی کو دیکھ کر چھنپ کیا اور رک گیا۔ ’’ رک کیوں گئے ……‘‘ غزالہ نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔ ’’ بس ……کیا بتاؤں ……مجبور ہیں اف اﷲ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ……‘‘ شاذل نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔ ’غزالو ……دیکھو ……یہ ڈوبتا سورج ……ایک دن آئے گا کہ اسی ڈوبتے سورج کا ہم نظارہ اکٹھے کریں گے اور اس دن تم صرف اور صرف میری ہو گی ……صرف میری ……‘‘ شاذل جیسے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا تھا۔ شاذل نے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ کچھ بولنے لگا مگر غزالہ نے ببلی کو اشارہ کیا اور وہ چپکے سے چھت سے نیچے اتر کر کمرے میں چلی گئیں۔ کافی دیر بعد شاذل کی سیڑھیاں اترتے ہوئے آواز آئی اور وہ سیدھا ببلی کے کمرے کی طرف آیا، دروازہ بجا کر اس نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ اور ببلی اس کی شکل دیکھ کر ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ ’’ سنا ہے آجکل جناب سورج ،چاند ستاروں اور رات کے پرندوں سے بات چیت کا شغل سیکھ رہے ہیں ……‘‘ ببلی نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔ ’’ میں تم دونوں سے نپٹ لوں گا ……انشا اﷲ اور تم دونوں کو رات کو جاگنے والے پرندے بنا دوں گا ……‘‘ شاذل نے ہوا میں مکا بنا کر لہرایا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
وقت کاپرندہ تیز رفتاری سے اڑتا جا رہا تھا۔ اس کی گریجویشن کے امتحانات قریب تھے ۔ ببلی اور اس نے مل کر اکٹھے پڑھنے کا پلان بنایا۔شام کو اس کی ماں اس کو ببلی کے پاس چھوڑ کر چلی جاتی اور وہ بیٹھ کر خوب جان لڑا کر امتحانات کی تیاری کرتے اور خوب ہلہ گلہ بھی کرتے۔ ’’ ببلی ……اﷲ کرے کہ تم دونوں امتحانات میں فیل ہو جاؤ ……تاکہ تم پھر امتحانات کی تیاری اکٹھی کرو ……شاذل نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھ کر کہا……’’ ارے بھیا ……آپ بھی کمال کرتے ہیں ……اگر میں فیل ہو گئی تو آپ کیلئے بھابھی کا بندوبست کون کرے گا……اور ویسے آپ بھی نرے بودے ہیں ……یعنی آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی ہونے والی بیگم آپ کے ہر وقت پاس رہے ……آپ اس کو فیل کروا کر ایک سال مزید انتظار کرنا چاہتے ہیں ……واہ کیا کہنے ہیں آپ کی عقل شریف کے ……‘‘ ببلی نے اس کے لتے لے لئے ۔ ’’ ارے یار ……ببلی تو تو بہت سیانی ہو گئی ہے ……واقعی یار مجھے تو اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا……‘‘ شاذل نے منہ بنا کر کہا۔ چلو ایک کام کرتا ہوں کہ میں کالج والوں کو رشوت دے کرتم کو پاس پاس کروا دیتا ہوں ……‘‘ شاذ ل نے ایک اور مضحکہ خیز تجویز دی ……’’ لو……ارے اس طرح تو لوگوں کو زیادہ شک ہو جائے گا کہ آپ یہ کام کس ’’خاص‘‘ کیلئے کر رہے ہیں……کیوں اپنی محبت کا مذاق بنانا چاہ رہے ہیں۔ تھوڑا صبر کریں ……‘‘ ببلی نے سمجھانے کے انداز میں بھائی اس کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھ کر کہا۔’’ شاذل نے پھر یوں سر ہلا یا کہ جیسے ببلی کی بات اس کے پلے پڑ گئی ہے ۔ ’’ شاذل نے ایک بار پھر موبائل پر نصرت کی آواز جگا دی ’’ تمہیں دل لگی بھول جانے پڑے گی ، محبت کی راہ میں آکر تو دیکھو……تڑپنے پہ میرے نہ پھر تم ہنسو گے ، کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھو‘‘
پھر رات گئے اس کی ماں اسے لینے آتی اور شاذل ان کو ان کے گھر چھوڑ جاتا۔
کہتے ہیں کہ عشق اور مشق چھپائے نہیں چھپتے ۔ جلد ہی اس کی ماں کو محسوس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔ ایک دن شا م کو اس نے اپنی ماں سے اس کے ساتھ ببلی کے گھر جانے کا کہا تو اس کی ماں نے پوچھ لیا ’’ یہ شاذل تجھ سے محبت کرتا ہے یا پھر ویسے ہی ٹائم پاس کر رہا ہے ……‘‘ وہ اپنی جگہ ساکت ہو گئی ۔ ’’ وہ ……وہ ……‘‘ اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔’’ تم اس کے بارے میں کیا سوچتی ہو ……تمہیں بھی وہ اچھا لگتا ہے پسند ہے تمہیں کیا ……‘‘ اس کی ماں نے دوسرا ایسا سوال کر دیا تھا جس کا بھی جواب اس کے پاس نہ تھا۔ ’’ غزالہ ……میں تو سے کچھ پوچھ رہی ہوں ……‘‘ اس کی ماں نے اس سے پھر پوچھا تو اس نے سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔

اس کی ماں نے اس کیلئے رشتے ڈھونڈنے شروع کر دیئے تھے ۔ مگر وہ ہر بار ہر رشتے میں کوئی نہ کوئی خامی نکال لیتی تھی اور اس کی ماں چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس رشتے کو کینسل کر دیتی۔ وہ ایک نرم گرم صبح تھی اس کی ماں کچن میں دوپہر کا کھانا پکا رہی تھی اور وہ ٹی وی پر اپنی پسند کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ’’یہ کون آگیا ہے……‘‘ اس نے منہ میں بڑبڑایا اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل کر صحن میں دروازے کی طرف بڑھی ۔ ’’کون ہے ……‘‘ اس نے دروازے کے قریب جا کر کہا ۔ ’’ غزالہ ……میں ہوں ببلی ……‘‘ ببلی کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھول دیا ۔ ببلی اور اس کی امی کو دیکھ کر اس نے جلدی سے دوپٹہ سر پر کیا اور سلام کیا ۔ببلی اور وہ دونوں ایک دوسرے کو لپٹ گئیں۔وہ دونوں کو لے کر وہ ڈرائنگ روم میں لے کر آئی ۔ان کے پیچھے پیچھے اس کی ماں بھی اندر آگئی۔
’’ السلام علیکم ……صادقہ بہن ……آج سورج کدھر سے نکل آیا ہے ……‘‘ اس کی امی نے ببلی کی امی سے ملتے ہوئے کہا۔ ’’ بہن جب سے ان دونوں کے امتحانات ختم ہوئے ہیں تم نے آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے ……ببلی ضد کر رہی تھی مجھے غزالہ سے ملنا ہے اور مجھے بھی تم سے ایک ضروری کام تھا تو میں نے سوچا آج تھوڑا وقت ہے تو جا کر مل آؤ ……‘‘ ببلی کی ماں نے ببلی اور غزالہ کی طرف اشارہ کر کے جواب دیا ۔ ’’ جی جی ضرور …………‘‘ غزالہ جاؤں پہلے اپنی سہیلی کے پینے کو کچھ لے آؤ پھر بیٹھ کر باتیں کرو ۔ اس کی امی نے اسے ٹوکا اور وہ جو ببلی کے ساتھ کھی کھی کر رہی تھی ۔ فوراً اٹھا کر کچن کی طرف بڑھ گئی ۔ ببلی بھی اس کے ساتھ چل پڑی ۔ فٹا فٹ دو گلاس ملک شیک کے بنا کر جب وہ اور ببلی ڈرائننگ روم میں پہنچے تو اس کی امی ببلی کی امی سے کچھ بات کر رہی تھیں مگر انہیں دیکھ کر وہ خاموش ہو گئیں۔ اس نے ٹیبل پر گلاس رکھے ۔ ببلی نے توجھٹ سے اپنا گلاس اٹھا لیا۔ ’’ غزالہ تم ببلی کو اپنے کمرے میں لے جاؤ ہم نے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں ۔ ……‘‘ اس کی ماں نے اسے کہا ۔ ’’ چلو یار …… ‘‘ ببلی نے اسے پکڑ کر کہا۔ ’’ چلو چلو ……‘‘ اس نے ببلی کے ساتھ چلتے ہوئے کہا مگر اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ جیسے دال میں کچھ کالا ہو۔ مگر اس نے اسے اپنا وہم سمجھا اور ببلی کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں آگئی ۔ وہ دنوں اپنے بیتے دنوں کو یاد کر رہی تھیں اور کالج کی باتیں یاد کرکر کے ہنس رہی تھیں۔ دونوں کو امید تھی کہ دونوں امتحانات میں ضرور کامیاب ہو جائیں گی کیونکہ دونوں کے امتحانات بہت اچھے ہوئے تھے ۔ اس لئے وہ بے فکری سے کھل کر ہنس رہی تھیں۔
’’تمہیں پتہ ہے کہ میں آج یہاں کیوں آئی ہوں ……‘‘ ببلی نے اچانک اس سے پوچھا۔ ’’ارے بھئی تم مجھ سے ملنے آئی ہو اور کس لئے ……‘‘ اس نے مصنوعی حیرانگی سے ببلی کی طرف دیکھ کر کہا۔ جبکہ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ لوگ کس کام سے آئے ہیں۔ ’’ غلط ……بالکل غلط ……‘‘ میں تو آج تمہارا رشتہ مانگنے آئی ہوں ……‘‘ ببلی نے اس کے سر پر دھماکہ کر دیا ۔ ’’اچھا …………‘‘ اس نے مصنوعی حیرانگی کا ڈرامہ جاری رکھا تو ببلی کی ہنسی رک گئی ۔’’ اچھا تو تم اب میرے ساتھ بھی مذاق کر رہی ہوں۔ سیدھی طرح بولو کہ تم کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہم کس کام سے آئے ہیں…………‘‘ببلی نے بھی مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہا۔ مگر اس نے فوراً ہی ببلی کو منا لیا اور وہ دوسری باتوں میں مصروف ہو گئیں۔ مگر وہ کچھ اور سوچوں میں گم تھی۔
حسب توقع ببلی اور اس کی ماں شاذل کیلئے غزالہ کا رشتہ مانگنے آئے تھے ۔ اس کی ماں نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن ان کو کنفرم بھی نہیں کیا اور کہا کہ میں ایک ہفتے میں اپنی بیٹی کی مرضی معلوم کر لوں تو پھر بتاؤں گی اور پھر جب اس کی ماں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ رشتہ قبول ہے ۔ تو اس نے جواب دینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا۔ ’’ نہیں امی ……مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے ……‘‘ اس نے اپنی ماں کے سر پر ایٹم بم کا دھماکہ کر دیا۔ ’’ کیا مطلب ……تم نے تو بتایا تھا کہ تم اور شاذل ایک دوسرے کو چاہتے ہو……‘‘ ا سکی ماں پر حیرت کا دورہ شدید تھا۔ ’’ امی چاہت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان شادی بھی کر لے ……شاذل اچھا دوست ہے اور اچھا دوست ہے گا اور کچھ نہیں ……‘‘ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ میں زندگی میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔ میں اپنی زندگی خود جینا چاہتی ہوں ……‘‘ اس کا لہجہ اور فیصلہ اٹل تھا۔ ’’ غزالہ بیٹا ……تم اکثر پوچھتی ہو کہ ہمارا جرم کیا تھا کہ تمہارا باپ مجھے بہت مارتا تھا ساری زندگی انہوں نے مجھ سے نفرت کیوں کی……آج میں تم کو اس کا جواب دیتی ہوں……‘‘ تمہارے والد ایک اچھے اور خوبصورت دل کے مالک تھے ۔ وہ اپنی خالہ کی بیٹی سے محبت کرتے تھے اور وہ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے……مگر ماموں نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ میرے ساتھ شادی کر لیں کیونکہ میرا کوئی بھی نہیں تھا ۔تمہارے والد میرے پاس آئے انہوں نے مجھے ساری بات بتائی اور کہا کہ میں فیصلہ کروں …… ، اگر میں ناں کر دیتی یا ماموں کو بولتی کہ میں نے آپ کے بیٹے سے شادی نہیں کرنی ہے تو یقینا ان دونوں کی شادی ہو جاتی اور وہ ایک دوسرے کی محبت کو پا لیتے ۔ مگر میں ڈرتی رہی اور ماموں کے سامنے زبان نہ کھول سکی ……نتیجہ یہ ہوا کہ میری شادی تمہارے باپ سے کر دی گئی ۔ اس صدمے سے تمہارے باپ کی خالہ کی بیٹی نے زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا……‘‘ اس کی ماں خاموش ہو گئی۔ ’’ بیٹا ……محبت ایک ایسا درد ہے جس کا احساس صرف اسی کو ہوتا ہے جو اس کو محسوس کر سکتا ہے ……اگر شاذل تم سے محبت کرتا ہے تو اس کو اتنا بڑا درد مت دو……اس کو بہتر ہے زہر دے دو کیونکہ وہ دن رات تم کو دیکھے گا اور پھر پاگل ہو جائے گا۔ وہ نہیں برداشت کر پائے گا ……‘‘ ’’تجھے آج نہیں تو کل تو کہیں نہ کہیں شادی کرنی ہو گی ناں ……تب وہ کیا کرے گا ……کیا وہ بھی زہر کھا لے گا ……‘‘ محبت کی موت کا گناہ اتنا بھاری ہے کہ پوری زندگی اس آگ میں جلتا رہتا ہے ناں اسے سکون ملتا ہے اور نہ ہی سکون کی موت ملتی ہے……‘‘ اس کی ماں نے بات رکھی۔ ’’ امی ……میں نے بتایا ہے کہ میں نے شادی نہیں کرنی ہے ……ویسے بھی مجھے باہر نوکری مل رہی ہے میں جا رہی ہوں لندن ……میں وہی رہوں گی اور وہی کام کروں گی اور اپنی زندگی جیوں گی ……میں اپنی زندگی کسی بے اعتبار مرد کے حوالے نہیں کر سکتی ۔ جو غلطی آپ کر چکی ہیں وہ میں نہیں کرسکتی ……امی اب وہ دور نہیں رہا کہ جس طرح آپ نے ڈر کے مارے اپنے ماموں کے سامنے زبان نہیں کھول سکی تھیں اب ویسا نہیں ہو گا……‘‘ میں نے اگر شادی نہیں کرنی ہے تو نہیں کرنی ہے چاہیے وہ شاذل ہو یا کوئی اور۔ اس کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی اور وہ پیر پٹخا کر کمرے میں چلی گئی ۔
شاذل پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ ’’ ببلی ……تم مذاق کر رہی ہو ناں ……‘‘ شاذل کی آواز کہیں کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ’’ نہیں بھائی ……یہ سچ ہے ……ایک حقیقی سچ ……اس نے کبھی آپ سے محبت ہی نہیں کی وہ تو صرف آپ کے ساتھ وقت گزاری کیلئے کرر ہی تھی ۔ وہ ایک دھوکہ تھا جس کو آپ حقیقت سمجھ بیٹھے……‘‘ ببلی کے لہجے میں غصہ اور نفرت بھرے ہوئے تھے۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس نے فون اٹھایا تو دوسری طرف شاذل تھا۔ ’’ غزالو……تم کہیں میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہی ہو ……‘‘ شاذل کی آواز رندھی ہوئی تھی ۔ ’’ مذاق ……شاذل یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں اور موقع بھی نہیں ہے……مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ تم میرے اچھے دوست تھے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ اگر کوئی پیار سے ہنسی مذاق بھی کر لیا اور کچھ محبت پیار کی باتیں بھی کر لیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں تمہارے ساتھ شادی کر لوں۔ ‘‘ اس نے تیز آواز میں جواب دیا۔ ’’ غزالہ ……اگر تم یہ سب ڈرامہ کرنا ہی تھا تو میرے ساتھ ہی کیوں کیا ……تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں تم سے سچے دل سے محبت کرتا ہوں ……باوجود اس کے کہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا ……وہ تمہارا ظرف ہے جو تم نے کیا مگر میں آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں اور کل اور مرتے دم تک تم سے محبت کرتا رہوں گا……‘‘ شاذل کی آواز کپکپا رہی تھی۔ ’’ شاذل تم میرے اچھے دوست ہو اور رہو گے ……مگر میرے ساتھ شادی کرنے کا خیال دل سے نکال دو ……دوسری بات یہ کہ تم یہ مرنے ورنے کی باتیں اب مت کیا کرو……ہم کوئی سسی پنوں ، ہیر رانجھا کے دور میں نہیں رہ رہے ہیں۔ پریکٹکل لائف ہے کوئی لوجیکل بات کرو……‘‘ تم کوئی اچھی لڑکی دیکھو اپنا گھر بساؤ میں دعوے سے کہتی ہوں کہ تم کو تیسرے مہینے اس سے بھی محبت ہو جائے گی ۔ محبت چیز ہی ایسی ہے ۔ ‘‘ اس نے شاذل کو سمجھایا۔شاذل کو اذیت میں محسوس کر کے اس کے دل کو بہت اطمینان محسوس ہوا ۔ اس کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ شاذل سے نہیں دنیا کے سارے مردوں سے انتقام لے رہی ہے جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ وہ بتانا چاہ رہی تھی کہ مرد بھی عورت کے پاؤں کی جوتی سے زیادہ اوقات نہیں رکھتے ہیں۔ ’’تو تمہارا مطلب ہے کہ وہ تمہارے سب وعدے ……سب باتیں ……ساری قسمیں جھوٹی تھیں……‘‘ شاذل کی آواز بھرا گئی۔ ’’ شاذل بی پریکٹیکل ……پلیز ……بس کر دو ……یہ باتیں……ہوش میں آجاؤ ……میں تم سے شادی نہیں کر سکتی ۔ بس ختم ہو گئی بات ‘‘ اس نے بات ختم کرنی چاہی۔ ’’اسے محسوس ہوا کہ شاذل رو رہا تھا۔ ’’ اوکے ……کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد شاذل کی آواز سنائی دی …………مگر میری ایک بات یاد رکھنا ……شاذل مرتے دم تک تمہارا انتظار کرے گا اور تم مجھ سے میری محبت اور میری وفا نہیں چھین سکتی۔ میں تمہیں بدعا نہیں دوں گا مگر میں دعا کروں گا کہ ایک دن خدا تمہارے دل میں میری محبت کی سچائی ڈال دے اور تم میرے پاس واپس آؤ……‘‘ شاذل نے فون منقطع کر دیا۔ ’’ تو کیا واقعی شاذل اس سے سچی محبت کرتا ہے ……‘‘ اس کے دل نے اس سے سوال کیا۔ ’’ ہونہہ ……سچی محبت ……آج کے دور میں بھی بھلا کوئی کسی کیلئے پچاس سال انتظار کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ سال بس اس کے بعد اس کی یاد بھی دل سے اتر جاتی ہے ……‘‘ اس کے دل نے جواب دیا۔ ’’تو کیا میں نے ٹھیک کیا ہے ……‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ’’ بالکل ٹھیک کیا ہے ……میں نے اپنی ماں اور دنیا کی ان ساری عورتوں کا انتقام یوں لیا ہے کہ میں نے ایک مرد کو جواب دیا کہ ہے اس کی محبت دوکوڑی ، بے کار اور ڈھونگ ہے اور عورت کے پاس بھی اتنی طاقت ہے کہ وہ مردوں کو بھی ناں بول سکتی ہیں۔ اس کے دماغ نے انتقامی لہجے میں جواب دیا۔ مگر اس کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں کوئی ہلکی سی بے چینی تھی جسے اس نے شاذل سے بات کرنے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے لائق توجہ نہیں جانا تھا۔
وقت اپنی رفتار سے بڑھتا رہا۔ اس کا لندن کا ویزا مل گیا تھااور ایک اچھی کمپنی میں اسے ایڈمینسٹریشن کی جاب مل گئی تھی اور جلد ہی وہ لندن روانہ ہو گئی تھی۔ ببلی اور ان کے گھروالوں سے تو ملاقات رشتہ کے انکار کے بعد سے بند تھی ۔ لندن پہنچنے کے بعد وہ اپنی روزمرہ لائف میں اتنی بزی ہو گئی کہ وہ کبھی کبھی اپنی ماں کو بھی فون کرنا بھول جاتی تھی۔ اسکی ماں نے بتایا کہ ببلی کی شادی ہو گئی ہے ۔ ببلی کی ماں فوت ہو گئیں ہیں اور پھر ببلی کا باپ بھی نہیں رہا۔ مگر شاذل نے شادی نہیں کی ہے ۔ وہ اس خبر کا انتظار کرتی رہی کہ ایک دن اس کی ماں اس کو شاذل کی شادی کا بھی بتائے گی ۔ مگر اس کی نوبت نہ آسکی اور اس کی ماں بھی اﷲ کو پیاری ہو گئی ۔وہ اس وقت امریکہ میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شریک تھی۔ اس کو اس وقت پتہ چلا جب وہ واپس آئی۔ مگر اب اس کے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اپنی ماں کو آخری دیدار بھی نہ کر سکی تھی وہ ۔یہی ایک غم تھا جو اس کی زندگی میں تھا۔ اس کے علاوہ اس کے پاس سب کچھ تھا ۔ دنیا کی ہر آسائش، گھر ، گاڑی ، پیسہ ، کاروبار اور بہت اطمینان کہ اس کی زندگی میں ان سب چیزوں پر حق جتلانے والا کوئی نہ تھا۔ اس کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے سب کچھ کیلئے کیا۔ اپنے آپ کو سیلف میڈ کہلوا کر وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ مگر یہ سب کچھ پانے تک اس کے چہرے پر جھریاں نمودار ہو گئیں تھیں۔ بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی، جسم کی کھال ڈھیلی پڑ گئی تھی، پہلے اس میں بہت سے مرد دلچسپی لیتے تھے اور وہ انہیں دھتکار کر بہت سکون محسوس کرتی تھی شاید کہ اس کا جذبہ انتقام سرد نہیں ہوا تھا یا پھر وہ نفرت جو اسے گھر سے ملی تھی وہ ابھی تک کہیں باقی تھی۔کبھی کبھی وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بے چینی سے ٹہلنے لگتی تھی جیسے کوئی چیز اسے اندر اندر سے کھا رہی تھی مگر اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہے۔ تیس دنوں کو تیس سالوں میں بدلتے ہوئے کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔
ایک رات کو وہ گھر واپس آئی۔ کار پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ لفٹ کے ذریعے اپنے فلیٹ کی طرف جا رہی تھی کہ اسے اچانک ایک زور دار چکر آیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ پھر وہ اپنے حواس کھو بیٹھی۔ جب اس کو ہوش آیا تو وہ ہوسپٹل میں پڑی تھی۔اس کو ہوش میں آتا دیکھ کر نرس نے اس کا چارٹ دیکھا اور ٹھک ٹھک کرتی باہر چلی گئی ۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی تو ایک انڈین ڈاکٹر بھی اس کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا ۔ اس کا بلڈ پریشر دیکھا اور دیگر چارٹس کا معائنہ کرنے کے بعد بولا’’مس غزالہ ……میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ ایک مہینہ تک بالکل آرام کریں۔ آپ کا بلڈ پریشر بہت ہائی ہے ……کام کرنے کی وجہ سے ڈپریشن ہے……میں تو کہتا ہوں کہ ایک مہینہ تک آپ اپنے کنٹری فیملی کے پاس چلی جائیں۔ اس سے آپ کا دل بہل جائے گا اور آپ کی طبعیت بھی ٹھیک ہو جائے گی ۔ ‘‘ ڈاکٹر کی بات سن کر جیسے لاشعور میں دبی ہوئی کوئی چنگاری سامنے آگئی اور پھر اس چنگاری کو آگ بنتے ہوئے زیادہ وقت نہ لگا۔
ایک ہفتے بعد وہ اپنے ملک اپنے گھر کے سامنے کھڑی تھی ۔ اکیلی ، تنہا ۔ دیواروں اور گھر کی حالت بتا رہی تھی جیسے اس میں رہنے والے مکین کب سے اس کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ دیواروں کا پینٹ اکھڑ کر بھدا ہو چکا تھا۔ دیوار کے کھڑے ہوئے درختوں کے نیچے سوکھے پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔دروازہ کا پینٹ جو کبھی بلیو کلر تھا سورج کی تپش سے یا زمانے کی گردش کی وجہ سے جل کر کالا ہو چکا تھا۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ دروازے پر کوئی تالا نہیں تھا۔ سردی کی وجہ سے ہلکی ہلکی دھند تھی۔ سورج نکل آیا تھا مگر ابھی دھوپ میں تمازت نہیں تھی ۔ وہ کتنی ہی دیر اس گھر کو دیکھتی رہی ۔ اس کے صحن میں جہاں وہ موتیا کے پودے تھے اور ان کے پیچھے چھپ کر وہ اپنی ماں کو پیٹتے ہوئے دیکھا کرتے تھی۔ اس گھر کے صحن میں اس کی ماں اس کیلئے سب کچھ کرتی تھی اور اس گھر کے دروازے سے گزر کر ہی وہ کئی بار شاذل اور ببلی کے گھر گئی تھی۔ ایک لمحے کیلئے اسے یوں لگا جیسے وہ دنیا اور اب کی دنیا میں بہت فرق ہے ۔ گلی میں گزرتے ہوئے دو تین لوگ اور ایک دودھ والا موٹر سائیکل پر دودھ کے ڈرم لٹکائے وہاں سے گزرا تو وہی اسی طرح ساکت تھی جیسے وہ اپنے ماضی کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہو۔ وہ اپنے ماضی میں گم تھی کہ دروازے کے کواڑ ہلے اور وہاں کوئی حرکت ہوئی ۔ دوسرے لمحے اس کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ یک لخت سردی کے موسم سے نکل کر کوئی جھسلتے ہوئے صحرا میں پہنچ گئی ہے ۔ جہاں کوئی سایہ نہیں ہے اور پیاس کی شدت سے اس کے حلق کانٹے پڑ چکے ہیں مگر دور دور تک کوئی صحرا نہیں ہے ۔ مگر پھر یک لخت اس کو محسوس ہوا کہ وہ کسی برف زار میں گم ہو گئی ہے ۔ جہاں چاروں طرف برف کے پہاڑ ہیں اور سردی کی وجہ سے اس کی ہڈیاں اور خون جم گئی ہیں اور وہ شاید مر چکی ہے مگر اس کے احساس زندہ تھے اور وہ احساس صرف اس کی آنکھیں تھیں کیونکہ وہ صرف ابھی دیکھ رہی تھی بس ۔ اس کی نظر دروازہ کھولنے والے پر تھیں۔ گو کے زمانے نے اس کو بھی بدل دیا تھا مگر وہ اتنا بھی نہیں بدلا تھا کہ وہ پہچان نہ پاتے اور یہی حال اس کا بھی تھا۔ دنیا تھم گئی تھی ۔ وقت ساکت ہو گیا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو حیرت سے ایسے دیکھ رہے تھے اور ایسے گم تھے کہ ان کو محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ پیچھے لوگ ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہے ہیں اور آوازیں کس رہے ہیں۔ دوسرے لمحے ایک بار پھر اس کے حواس جواب دینے لگے ۔ وہ لڑکھڑا کر گرنے والی تھی کہ شاذل آگے بڑھا اور اس نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔ وہ شاذل کی بازوؤں میں ڈھے سی گئی۔ ’’ چلو ……چلو ……اندر چلو ……‘‘ شاذل نے سہارا دیا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی ۔ شاذل نے دروازے کی دہلیز پر اسے چھوڑا اور باہر اس کا بیگ لینے گیا ۔ اتنی دیر میں وہ سنبھل گئی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ موتیا کے پودے اب دو نہیں بلکہ پوری ایک قطار میں قریباً دس کے قریب پودے تھے اور سب پھولوں سے لدے ہوئے تھے ۔ صحن میں موتیا کے پھولوں کی مدہوش خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ صحن میں نیم کا
چھوٹا درخت اب بہت گھنا ہو چکا تھا اس کے نیچے ایک چارپائی پڑی تھی ۔ کچن میں لائٹ جل رہی تھی اور اس کے کمرے پر تالا پڑا ہوا تھا دوسرے کمرے میں بھی لائٹ جل رہی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس گھر میں کوئی آباد ہے ۔
وہ بے اختیار اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ مگر دروازے پر تالا دیکھ کر رک گئی ۔ اسی اثنا میں پیچھے سے شاذل آگیا اس کے ہاتھ میں چابیاں تھیں اس نے بڑی پھرتی کے ساتھ دروازے کا تالا کھول کر اس کی کنڈی گرا دی اور دروازہ کھول دیا۔ کئی برسوں سے بند ہوا کی باس اس کے نتھوں سے ٹکرائی اور وہ بے اختیار اپنے کمرے میں داخل ہو گئی۔ ہر چیز ویسے ہی تھی ۔ کمرہ ایک ترتیب میں تھا مگر سب اس کی چیزیں ۔ اس کے کپڑے اس کی الماری ، اس کا ٹی وی اور اس کی کتابیں سب چیزیں اپنی اپنی جگہ موجود تھیں۔ ’’تمہاری یادوں کو بہت سنبھال کر رکھا ہے ……میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ میں تمہارا انتظار کروں گا مرتے دم تک ……اور مجھے یقین تھا کہ تم ایک دن واپس ضرور آؤ گی ……تم دیکھ لو کہ تم نہیں تھیں مگر میں نے تمہاری ہر چیز کو ہر یاد اپنے سینے سے لگا کر رکھا ہے ۔ دیکھ لو تمہاری ایک ایک چیز ویسے ہی جیسے تم چھوڑ کر گئیں تھیں۔ آنٹی نے یہ مکان مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ جب غزالہ واپس آجائے تو یہ اس کو دے دینا…… اور یہ لو چابیاں ……‘‘ شاذل نے چابیاں اس کے سامنے کر دی اس نے بہت آہستگی سے چابیاں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔ شاذل ایک جھٹکے سے واپس مڑا اور جانے لگا۔ ’’ تم کہاں جا رہے ہو ……‘‘ اس کی آواز اسے خود بھی اجنبی محسوس ہوئی۔’’میں ……‘‘ شاذل نے کہا اور پھر سوچ میں پڑ گیا ……’’ وہیں ……اپنے ویران گھر میں ……اپنی اجاڑ دنیا میں جہاں صرف اور صرف میں اور میری محبت اور وفا کی یادیں ہیں……، اب تک تو میں یہاں پر آنٹی کی وجہ سے تھا اور اب تمہاری امانت تم کو لوٹا دی ہے تو اپنی دنیا میں واپس جا رہا ہوں ……‘‘شاذل نے جواب دیا تو اس کے لہجے کا کرب تک پہنچنے کیلئے اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
’’ یقین نہیں آتا کہ تم اب تک وہی شاذل ہو ……تم ابھی تک میرے لئے انتظار کر رہے تھے ……‘‘بے اختیار یہ سوال اس کے ہونٹوں پر آہی گیا۔ ’’ غزالہ ……میں نے محبت کی ہے اور میں وفا کرنا بھی جانتا ہوں ……محبت کوئی تعویز نہیں ہے کہ کوئی کسی کو گھول کر پلا دے یا کوئی دو کا پہاڑہ نہیں کہ ہر کوئی اسے الاپتا پھرے۔ محبت تو ایک عرفان ہے ، ایک اعجاز ہے اور حقیقت ہے۔ جسے تم تسلیم نہیں کرتی ……‘‘ میں نے کبھی تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم بھی مجھ سے محبت کرو……تم نہیں کرتی مت کرو……میں تو تم سے محبت کرتا ہوں اور تم اس سے مجھے منع نہیں کر سکتیں……‘‘شاذل نے اسی لہجے میں جواب دیا۔ تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی ہو گئی اور شاذل کے گہرے سانسوں کی آوازیں وہ بخوبی سن رہی تھی۔ ’’ تمہاری نفرت ، تمہاری انا میں نے تم نے جو چاہا کیا ……تم نے یہ سمجھ لیا کہ اگر تمہارا باپ آنٹی کو محبت نہیں دے سکے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا کے تمام مرد بے وفا ، ظالم اور مغرور ہوتے ہیں ، کس نے تم سے کہا کہ مرد محبت نہیں کر سکتا۔ تم نے خود ہی سوچا ، خود فیصلہ کیا اور خود ہی اس پر عمل کیا۔ نہ صرف عمل کیا بلکہ میری وفا ، میری محبت کو بھی اپنی انا ، اپنی نفرت اور انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ تمہاری اس نفرت، اس انااور اس خودسر فیصلہ کا تاوان میں ادا کر رہا ہے ۔ میری وفا اور میری محبت اتار رہی ہے ۔ تاکہ دنیا دیکھ لے اور جان لے کہ مرد صرف کرختگی کا نام نہیں ہے ۔ مرد کا مطلب ظالم نہیں ہے ۔ مرد کا مطلب انا پرست نہیں ہے ۔ مرد بھی محبت کرتا ہے ، وفا بھی کرتا ہے اور نبھاتا بھی ہے ……‘‘شاذل کے لہجے کو سن کو وہ سرتاپا کانپ گئی تھی ۔ میری محبت اور وفا تمہارا انتظار آج بھی کر رہی ہے اور شاید مرتے دم تک انتظار ہی کرے گی ……‘‘ شاذل نے بڑے اٹل لہجے میں کہا۔
شاذل کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی مانند اس کی انا کی بلند فصیل کو توڑتے جا رہے تھے اور وہ ریت کے ذروں کی طرح بکھرتی جا رہی تھی۔ ’’شاذل …………‘‘وہ کسی شکست خوردہ لہجے میں پکاری ۔ چاہیے اس نے جو فیصلہ کیا تھا اس نے جس طرح بھی اس پر عمل کیا تھا۔ چاہیے اپنے غلط فیصلے کیلئے شاذل کو تیس سال تک انتظار کروایا تھا مگر اس کی ایک سسکاری شاذل کے دل پر گرے وہ تڑپ کر مڑا ۔ غزالہ گھنٹوں کے بل بیٹھی تھی اور اس کا سر جھکا ہوا تھا ۔ اس کی آنکھیں زاروقطار بارش برسا رہی تھیں۔ شاذل نے آگے بڑھ کر اس کو کندھوں سے تھام لیا اور اوپر اٹھایا۔ شاذل کے ہاتھ لگتے ہی وہ بلکنے لگی۔ اتنے عرصے بعد اس کے دل میں جو ایک چنگاری کہیں دفن تھی وہ آج باہر آگئی تھی۔ اس کے دل نے آواز دی کہ دنیا میں محبت اور محبت ہی سب کچھ ہے باقی کچھ بھی نہیں ہے ……شاذل نے نہ صرف ثابت کر دیا تھا کہ اس اس دنیا میں محبت، وفا بھی ہے اور مردبھی اس چیز کی لطافت کو جانتے بھی ہیں اور نبھانا بھی جانتے ہیں۔’’شاذل میں تمہاری مجرم ہوں ……میں تمہاری وفاؤں کی مجرم ہوں ……تمہاری محبت کی مجرم ہوں……میں ڈر گئی تھی ……جب میں دیکھتی تھی اپنے باپ کو جب میں دیکھتی تھی دوسری لڑکیوں کو جن کے ساتھ محبت کے نام پر کیا کچھ ہو گیا تھا ……میں بہت ڈر گئی تھی ……‘‘ اس نے اپنا دل کھول کر شاذل کے سامنے رکھ دیا۔ ’’ ڈرنا کیسا ……محبت میں ڈر نہیں ہوتا ہے ……محبت میں تو مرضی اپنی نہیں ہوتی ہے ……صرف محبوب کی مرضی ہوتی ہے ……’’مرضیا ں عشق میں نہیں ہوتی ……جس طرح یار کہے بسم اﷲ ‘‘ شاذل نے جواب دیا۔ ’’تو پھر چلیں اپنے گھر ……اپنی وفا اور محبت ی دنیا کو ّباد کرنے……بہت سال ہو گئے ہیں ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے ……‘‘شاذل نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر کر کے کہا تو اس نے ہاں میں صرف سر ہلا دیا۔ شاذل خوشی سے سر شارہو گیا اس نے غزالہ کا ہاتھ تھاما اور وہ کمرے سے باہر نکل آئے ۔ غزالہ صحن میں آئی تو دیکھا کہ موتیا کے پودوں کے پھول اپنے جوبن پر تھے اور ان کی خوشبو مزید بڑھ گئی تھی ۔ شاید یہ اس کا وہم تھا یا پھر اسے محبت کا عرفان مل گیا تھا۔
 
شاذل میں وہ تمام خوبیاں موجود تھی جو ایک لڑکی کی پسند ہوتی ہیں۔ پڑھا لکھا، سلجھا ، اونچا قد، گورا رنگ، تھوڑا موٹا سا تھا مگر کیوٹ ، اس کے چہرے پر گھنی مونچھیں اسے بہت جچتی تھیں۔ ایک آئی ٹی کمپنی میں اچھی پوسٹ پر اور کیا چاہیے تھا ۔
محمد وارث عمر سیف محمدظہیر
میرا خیال ہےاب بس آئی ٹی کمپنی میں جاب ڈھونڈنی رہ جائے گی :cool2:
 
kalmkar صاحب
اچھا افسانہ ہے۔
املاء کی کافی غلطیاں ہیں، نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پھر ……بہت پیٹ رہے تھے تم کو ……پتہ نہیں انہیں کیا غصہ ہے ابھی تک کہ اوپر جا کر بھی تمہیں پیٹنے سے بعض نہیں آئے ہیں
کیا ……نہیں ماں……میں شادی نہیں کروں گی …… اب تم چاہتی ہو کہ میں ساری زندگی تمہاری طرح نفرتیں دیکھوں ……مار کھاؤں
کیا ماں کو مخاطب کرنے کا یہ انداز مناسب ہے ؟
 

kalmkar

محفلین
محترم عبد القیوم چوہدری صاحب !
نشاندہی کےلئے بہت ہی شکریہ ۔ بہت سی کجی اور کوتاہیاں ہیں ۔ آپ کا بڑا پن ہے کہ افسانے کو اچھا قرار دیا ہے ۔ کیا ان اغلاط کو اس مراسلے میں ہی تدوین کر دوں یا پھر اگلی بار کےلئے چھوڑ رکھوں
 
Top