شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

سُورج اور تارے


نئے خورشید سے یُوں ڈُوبتے تاروں نے کہا !
ہم بہت چمکے، مگر تیری ضیا کم نہ ہُوئی

ہم نے مِل جُل کے بہت زور لگایا ، لیکن
زُلفِ پُرنُور تِری ، ہم سے تو برہم نہ ہُوئی

مُسکراتے ہُوئے ، سُورج نے دِیا اُن کو جَواب !


جنگ مجھ سے نہ کرو، میرے مُقابِل نہ تنو
دَورِ پُرنُور میں جِینے کی تمنّا ہے، اگر !
میرے انوار میں گُم ہو کے، مِرا جُزو بَنو

جگن ناتھ آزاؔد
 

طارق شاہ

محفلین

اب تو ، وہ حسرت سے آہ و نالہ کرنا بھی گیا !
کوئی دَم ہونٹوں تک آجاتا ہے گاہے سرد سرد

مِیر تقی مِیؔر
 

طارق شاہ

محفلین

اُٹھ نہیں سکتا تِرے در سے، شکایت کیا مِری !
حال میں اپنے ہُوں عاجِز مَیں، مجھے مقدُور کیا

لُطف کے حرف و سُخن پہلے جو تھے بہرِ فریب !
مُدَّتیں جاتی ہیں، اُن باتوں کا اب مذکُور کیا

مِیر تقی مِیؔر
 

طارق شاہ

محفلین
تجھ سے دیکھا سب کو اور تجھ کو نہ دیکھا جُوں نِگاہ
تُو رہا آنکھوں میں اور آنکھوں سے پنہاں ہی رہا

شیخ ابراہیم ذوقؔ
 

طارق شاہ

محفلین

ہر طرف وسوسوں کے خیمے ہیں
ہر طرف واہموں کا ڈیرا ہے

سانس تک کُھل کے لی نہیں جاتی
وا دَرِیفا! وہ گُھپ اندھیرا ہے

اِس دیارِ جنُوں سے ، حضرتِ جوؔش !
بھاگ چلیے ابھی سویرا ہے


جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین
ادائے برق و شرر میں یہ سرکشی کیسی ؟
قُوائے ارض و سما میں یہ خُود سَرِی کیا ہے ؟

کبھی وبائیں، کبھی زَلزَلے، کبھی طُوفان
یہی نظامِ قضا ہے ، تو ابتری کیا ہے ؟

جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

کہتے ہیں مہِ نَو جسے، ابرُو نے وہ تیرے
کی آئینۂ چرخ میں ہے جلوہ نُمائی

شاہا! تِرے جلوے سے ہے یہ عِید کو رونق
عالَم نے ، تجھے دیکھ کے، ہے عِید منائی

شیخ ابراہیم ذوقؔ
 

طارق شاہ

محفلین

مرنے کے بعد قبر میں گڑتا ہے آدمی
مَیں دَورِ زندگی ہی میں، خاک آرمِیدہ ہُوں

مَیں کثرتِ ظہوُر سے ، نادِیدنی ہُوں جوشؔ !
مَیں شِدَّتِ وُجود سے نا آفرِیدہ ہُوں

جوشؔ ملیح آبادی
 
Top