غزل برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
سایہء غربت مرے ہمراہ جب رہنے لگا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا

گر چکا اس دور میں معیارِ انسانی بہت
آج کے انساں کو انسانوں سے ڈر لگنے لگا

خونِ آدم کس قدر ارزاں ہوا ہے کیا کہیں
مثل پانی کے لہو انسان کا بہنے لگا

ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی کھلنے لگا

گمرہی ہاتھ آئی تیرے مجھ کو کچھ حیرت نہیں
راہبر کو چھوڑ کر کیوں راستہ چلنے لگا؟

حق بیانی کی تو سب شدت پسند کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں ہر کوئی سننے لگا

حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِ نیزہ مرا رہنے لگا

شک نہیں کوئی منافق لوگ ہیں مسند نشیں
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر چڑھنے لگا

تیری کیا اوقات فائق کیوں کریں تجھ پر یقیں
صاحبِ دستار زر کی چاہ میں بکنے لگا​
 
مدیر کی آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
بہت خوب . بہت اچھے اشعار کہے ہیں .​
اس مصرع کو دوبارہ دیکھ لیں .
راہبر کو چھوڑ کر کیوں راستہ چلنے لگا؟
راہی چلتا ہے راستہ نہیں چلتا . یا پھر راستے پر چلا جاتا ہے .
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
الفاظ کی نشست و برخاست پر دوبارہ غور کریں .
 
اچھے اشعار ہیں۔
تاہم قوافی سارے غلط ہیں۔ نے ہر قافیے میں مشترک ہے اس لیے وہ ردیف کا حصہ قرار پائے گا۔ اصل قوافی رہ ، لگ ، بک وغیرہ ہیں جو کہ ہم قافیہ نہیں۔
حق بیانی کی تو سب شدت پسند کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں ہر کوئی سننے لگا​
پسند بر وزنِ فعول درست ہے۔ آپ نے بر وزنِ فعَل باندھا ہے۔
 

محمد فائق

محفلین
اچھے اشعار ہیں۔
تاہم قوافی سارے غلط ہیں۔ نے ہر قافیے میں مشترک ہے اس لیے وہ ردیف کا حصہ قرار پائے گا۔ اصل قوافی رہ ، لگ ، بک وغیرہ ہیں جو کہ ہم قافیہ نہیں۔

پسند بر وزنِ فعول درست ہے۔ آپ نے بر وزنِ فعَل باندھا ہے۔

رہنمائی کا بہت شکریہ بھائی
درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 

La Alma

لائبریرین
اگر آپ ردیف کو ختم کر دیں اور قوافی کو ردیف کی جگہ اس صورت میں لے آئیں جیسے ، رہا ، لگا ، بہا، کھلا ، چلا ، سنا ، بکا وغیرہ وغیرہ ، تو دوسرے مصرع میں معمولی ردوبدل سے آپ کی غزل اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے۔ آپ کو نئے سرے سے محنت نہیں کرنی پڑے گی .
مثال کے طور پر :
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی کھلنے لگا
ہے رہ ِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی اب تک کھلا

حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِ نیزہ مرا رہنے لگا
حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِنیزہ مرا ہر دم رہا
 

محمد فائق

محفلین
اگر آپ ردیف کو ختم کر دیں اور قوافی کو ردیف کی جگہ اس صورت میں لے آئیں جیسے ، رہا ، لگا ، بہا، کھلا ، چلا ، سنا ، بکا وغیرہ وغیرہ ، تو دوسرے مصرع میں معمولی ردوبدل سے آپ کی غزل اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے۔ آپ کو نئے سرے سے محنت نہیں کرنی پڑے گی .
مثال کے طور پر :

ہے رہ ِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل سرِ صحرا کوئی اب تک کھلا


حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِنیزہ مرا ہر دم رہا
بہت شکریہ
 

محمد فائق

محفلین
سایہء غربت ہوا ہے جب سے میرا ہمنوا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا

لگ رہا ہے آج کے انساں کو انسانوں سے ڈر
سوچیے تو کس قدر معیارِ انساں گرچکا


خونِ آدم ہوگیا ارزاں بہت اس دور میں
بہے رہا ہے مثل پانی کے لہو انسان کا


ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے پھول کوئی برسرِ صحرا کھلا

گمرہی ہاتھ آئی تیرے مجھ کو کچھ حیرت نہیں
ترک تونے کیوں کیا ہے راہبر کا راستہ

حق بیانی کی مجھے سب تند خو کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں شوق سے سب نے سنا
حق بیانی کا نتیجہ جانتا ہوں اس لیے
سر تصور میں سرِ نیزہ مرا ہر دم رہا


شک نہیں کوئی منافق لوگ ہیں مسند نشیں
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر پر چڑھ گیا

تیری کیا اوقات فائق کیا بھروسہ ہے ترا
صاحب دستار دولت کی ہوس میں بک چکا
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
بہت خوب .
حق بیانی کی مجھے سب تند خو کہنے لگے
مصلحت برتی بیاں میں شوق سے سب نے سن
تند خو کی بجائے اگر آپ "ترش رو " کہیں تو ؟
حق بیانی والے دونوں شعروں میں بھی مناسب وقفہ لے آئیں .

شک نہیں کوئی منافق لوگ ہیں مسند نشیں
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر پر چڑھ گیا
تاج سر پر سجایا جاتا ہے چڑھایا نہیں .
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر پر سج گیا
تیری کیا اوقات فائق کیا بھروسہ ہے ترا
صاحب دستار دولت کی حوس میں بک چکا
ابلاغ تو ہو رہا ہے لیکن دوسرا مصرع مزید بہتری کا متقاضی ہے .
ہوس کا ٹائپو بھی درست کر لیں .
 

محمد فائق

محفلین
OTE="La Alma, post: 1870647, member: 12908"]بہت خوب .

تند خو کی بجائے اگر آپ "ترش رو " کہیں تو ؟
حق بیانی والے دونوں شعروں میں بھی مناسب وقفہ لے آئیں .


تاج سر پر سجایا جاتا ہے چڑھایا نہیں .
تاج سچ کا دیکھیے جھوٹوں کے سر پر سج گیا

ابلاغ تو ہو رہا ہے لیکن دوسرا مصرع مزید بہتری کا متقاضی ہے .
ہوس کا ٹائپو بھی درست کر لیں .[/QUOTE]
پھر سے ایک بار آپ کا بہت بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
اب تک میں نے یہاں اظہار نہیں کیا تھا کہ میری ہی بات کو کوئی نہ کوئی اور کہہ جاتا تھا۔
باقی اشعار تو درست ہیں، محض دو اشعار کی طرف اشارہ کروں گا۔

سایہء غربت ہوا ہے جب سے میرا ہمنوا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا
اس کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ سایہ غربت ہم نوا کس طرح ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی ’خود اپنے میں‘ سمجھ میں نہیں آتا۔شہر میں والے تکڑے کی ضرورت ہو تو کچھ بات واضح ہونی چاہیے۔
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے پھول کوئی برسرِ صحرا کھلا
اس کو حسن مطلع بنایا جا سکتا ہے اوپر منتقل کر کے۔ ’بر سر صحرا‘ البتہ غلط لگ رہا ہے۔ محض سرِ صحرا کہو تو بہتر ہے۔
 

محمد فائق

محفلین
اب تکہوگا نے یہاں اظہار نہیں کیا تھا کہ میری ہی بات کو کوئی نہ کوئی اور کہہ جاتا تھا۔
باقی اشعار تو درست ہیں، محض دو اشعار کی طرف اشارہ کروں گا۔

سایہء غربت ہوا ہے جب سے میرا ہمنوا
شہر میں خود اپنے ہی میں اجنبی لگنے لگا
اس کا بیانیہ پسند نہیں آیا۔ سایہ غربت ہم نوا کس طرح ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی ’خود اپنے میں‘ سمجھ میں نہیں آتا۔شہر میں والے تکڑے کی ضرورت ہو تو کچھ بات واضح ہونی چاہیے۔
ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے پھول کوئی برسرِ صحرا کھلا
اس کو حسن مطلع بنایا جا سکتا ہے اوپر منتقل کر کے۔ ’بر سر صحرا‘ البتہ غلط لگ رہا ہے۔ محض سرِ صحرا کہو تو بہتر ہے۔
بہت بہت شکریہ سر
اگر مطلع یوں کہا جائے تو درست ہوگا

زندگی میں مفلسی کا بول بالا کیا ہوا
درمیاں اپنوں کے ہی میں اجنبی لگنے لگا

ہے رہِ ذلت پہ اور کرتا ہے عزت کی دعا
کیا سنا ہے گل کوئی اب تک سرِ صحرا کھلا
 
Top