نئی واردات

ہاہاہاہا ۔۔ حد ہے ویسے ۔:D
اس سارے ڈرامے کے دوران موٹر سائیکل کا مالک کہاں تھا ؟؟ کہیں وہ بھی تماشے میں اتنا مگن تو نہیں ہو گیا تھا کہ حضرت کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کاروائی اسی کی بائیک کے آلے دوالے ہو رہی ہے :LOL:


کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، میں گهر کے نزدیک ہی ایک چوک میں سائیکل پر گیا۔ سائیکل ایک جگہ کهڑی کی، کچھ دکانوں ریڑهیوں سے ایک دو اشئیا خریدیں اور پهر وہاں سے پیدل گهر آ گیا۔

اگلی صبح ابا جی نے کہیں جانے کے لیے سائیکل لے جانی چاہی تو نا پا کر مجهے پوچها کہ کوئی لیکر تو نہیں گیا اورمجهے تب یاد آیا کہ سائیکل میں لیکر گیا تها اور چوک میں ہی چهوڑ آیا ہوں۔ :sad2:

اسی وقت چوک پر گیا تو ایک گلگتی بابا جو فروٹ کی دوکان لگاتا تها نے بتایا کہ ایک سائیکل کل کوئی یہاں چهوڑ گیا تها۔ شام گئے تمهارے ابا جی بهی ادهرہی تهے انهوں نے ہی مشورہ دیا کہ دکان بڑهانے تک اگر کوئی نا آیا تو رات گهر لے جانا اور چوکیدار کو بتا جانا، کوئی نا کوئی پوچهنے ضرور آئے گا۔
اس روز چنگی عزت افزائی ہوئی پهر۔:(:confused:
 
اپنی طرز کے اس مشاقانہ طریقۂ واردات کی روئیداد عجیب کوملاحظہ کرکے مابدولت ناصرف بحرحیرت میں غوطہ زن ہیں بلکہ ایک غیرمحفوظیت کی کیفیت جانگسل سے نبردآزما ہیں!:):)
یاز
صرف آپ ہی یہاں واحد ماہر محمد امین صدیق ہیں۔ دسو ہاں ۔۔ پائین ہوراں نے کی لکھیا اے ؟:unsure:
 

Khuram Shahzad

محفلین
یارا۔۔۔۔ خانہ جنگی 'دیکھنے' کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بندہ انجوائے ہی کر رہا ہو۔ :cool2:
اچھا تو جناب اس خانہ جنگی میں کسی بریکنگ نیوز کا انتظار کر رہے تھے..... :thinking:جو کہ بعد میں برآمد بھی ہوئی...... واہ رے ..... آپ کےتو کافی بڑے بڑے پونچھے ہیں.... میرا مطلب ہے کہ آپ تو کافی پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں..... :thumbsup:
 

یاز

محفلین
میرا ایک عزیز ایک گاؤں کے سکول میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے سکول کا ہی ایک اور ملازم موٹرسائیکل پہ آیا کرتا تھا اور سکول کے اندر مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سکول کے باہر موجود بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑی کرتا تھا۔ احتیاط کے طور پر وہ ایک موٹی زنجیر موٹرسائیکل کے اگلے ٹائر میں سے گزار کر کھمبے کے ساتھ تالا لگا کر محفوظ کیا کرتا تھا۔
ایک دن وہ چھٹی کے بعد باہر آیا تو کھمبے کے ساتھ صرف ایک عدد ٹائر بذریعہ زنجیر ٹنگا ہوا تھا۔
 

Khuram Shahzad

محفلین
ایک موٹر سائیکل کی واردات کے لیے گینگ اتنے بندے افورڈ نہیں کر سکتی فی بندا پانچ سو روپے آیا ہو گا موٹر سائیکل بیچنے کے بعد :laughing:
ہنر مند افراد کی کمی، معاشی نا انصافی اور کاروباری نقصانات پر بھی بات کر لیں گے پہلے تفتیش تو پوری کریں۔:heehee:
 
میرا ایک عزیز ایک گاؤں کے سکول میں ملازمت کرتا ہے۔ اس کے سکول کا ہی ایک اور ملازم موٹرسائیکل پہ آیا کرتا تھا اور سکول کے اندر مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سکول کے باہر موجود بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑی کرتا تھا۔ احتیاط کے طور پر وہ ایک موٹی زنجیر موٹرسائیکل کے اگلے ٹائر میں سے گزار کر کھمبے کے ساتھ تالا لگا کر محفوظ کیا کرتا تھا۔
ایک دن وہ چھٹی کے بعد باہر آیا تو کھمبے کے ساتھ صرف ایک عدد ٹائر بذریعہ زنجیر ٹنگا ہوا تھا۔
اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ طارق عزیز صاحب نے نیلام گھر میں سنایا تھا۔ کوئی چور ان کے دوست کی گاڑی کے رم کور اتار کر لے گیا۔ جس روز انھوں نے نئے لگوائے، پھر کوئی اتار کر لے گیا۔ جب تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو انھوں نے چوتھی بار رم کور لگوانے کے بعد ان پر ایک تحریر لکھ کر لگا دی ' بھائی صاحب کچھ خیال کریں چوتھی بار لگوا رہا ہوں، رم کور بہت مہنگے ہیں ' ۔ اس بار چور نے کمال مہربانی کی اور کورز پر اس تحریر کا جواب لکھ دیا
'آپ کی بات مانتے ہوئے رم کور چھوڑ رہا ہوں، امید ہے اگلی :auto: پر فٹ آ جائیں گے' ۔:hatoff:
:cool2::cool2::cool2:
 

یاز

محفلین
میرا ایک دوست شام کے قریب راولپنڈی صدر بازار گیا۔ وہ اپنی گاڑی میں اکیلا تھا اور موبائل فون ساتھ والی سیٹ کے اوپر رکھا تھا۔ شام کے وقت صدر کی بینک روڈ پہ ہمیشہ ہی ٹریفک جام کی صورتحال ہوتی ہے اور گاڑیاں بمپر ٹو بمپر چل رہی ہوتی ہیں۔ وہ بھی اسی طرح ٹریفک کی لائن میں لگ کے رکا ہوا تھا۔ اچانک ایک لڑکے نے بائیں جانب سے آ کر شیشہ کھٹکھٹایا اور گاڑی کے اگلے ٹائر کی جانب اشارہ کیا۔ اس نے بٹن دبا کے شیشہ نیچے کیا تا کہ اس کی بات سن سکے۔ ابھی شیشہ تقریباً ایک فٹ تک ہی نیچے ہوا ہو گا کہ اچانک دائیں سائیڈ سے پیچھے کسی کے ڈگی سے ٹکرانے کی آواز آئی۔ غیر ارادی طور پہ دوست نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا کہ نقصان کا اندازہ لگا سکے۔ تاہم اس وقت تک جو بھی گاڑی سے ٹکرایا تھا (یا ٹکرانے کی آواز پیدا کی تھی)، وہ گاڑی کے پیچھے سے گزر چکا تھا۔ اس غریب نے جونہی سیدھا ہو کر دیکھا تو ساتھ والی سیٹ سے موبائل بھی غائب ہو چکا تھا۔ یعنی کہ ہاتھ ہو چکا تھا۔

اس کاروائی میں ٹائمنگ کم از کم ویرات کوہلی والی چاہئے۔
 

یاز

محفلین
ایک اور جاننے والے کے ہاں چند دن پہلے ایک چور گاڑی چرانے آ پہنچا۔ اتفاق سے اس گھر میں بھی کوئی ہم جیسا رات کے تین چار بجے جاگ رہا تھا۔ گیراج میں کچھ آواز آنے پہ اس نے لائٹ جلائی تو چور دیوار پھلانگ کے بھاگ گیا۔ بعد میں انہوں نے جائزہ لیا تو چور اپنا نوے فیصد کام مکمل کر چکا تھا، اور اب بس گاڑی نکالنا ہی باقی تھا۔
میں نے خاصی حیرانی سے ان سے پوچھا کہ آپ کی گاڑی میں تو اِم موبائلائزر immobilizer بھی ہے تو وہ کیسے چوری ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اِم موبلائزر والی چابی اگنیشن میں نہ لگائی جائے تو گاڑی کا ای سی یو یعنی الیکٹرانک کنٹرول موڈیول گاڑی کو سٹارٹ ہی نہیں ہونے دیتا۔ یعنی ہر ای سی یو کے ساتھ الگ اور مختلف چابی ہوتی ہے، جس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔
اس پہ اس بندے نے بتایا کہ اس واردات کے بعد ہی ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ چور نے جو گاڑی چرانی ہوتی ہے، وہ اس ماڈل کا ایک ای سی یو بھی ساتھ لے کر آتے ہیں۔ گاڑی کا بونٹ کھول کر پہلے اس کا ای سی یو تبدیل کرتے ہیں، جس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ پھر اپنی چابی سے گاڑی سٹارٹ کر کے یہ جا ، وہ جا۔
 
Top