سورۂ نصر ایک عظیم قرآنی معجزہ


سورۂ نصر ایک عظیم قرآنی معجزہ
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے بہت سے اہتمام کیے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور نمایاں سلسلۂ نبوت و رسالت ہے۔اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے، جن کے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔تاہم انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا ہے کہ آپ کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی شکل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے تاکہ جب کبھی کوئی پاکیزہ روح حق کی تلاش میں نکلے تو اسے سورج سے زیادہ روشن اس رہنمائی کو تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آئے اور قیامت کے دن تک حق کے سچے طالب، اس آفتاب کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کے بعد مزید یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ ہر دور میں ایسے اہل علم پیدا کیے جو اسلام، پیغمبراسلام اور قرآن پاک کی حقانیت کے نئے نئے پہلو اور دلائل لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں عام مسلمانوں کا نہ صرف اپنے دین پر اعتماد بڑھتا ہے، بلکہ انسانیت کے سامنے بھی اسلام کا روشن چہرہ مزید نکھرکر سامنے آتا ہے۔
دور جدید میں یہ خدمت اللہ تعالیٰ نے جن اہل علم سے لی ہے، ان میں امام فراہی اور ان کے تلامذہ کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان اہل علم کے تحقیقی کام نے اسلام کی سچائی اور پیغمبر اسلام کی حقانیت کو دور جدید میں بالکل مبرہن کردیا ہے۔انھوں نے دین کو دور جدید کے علمی تقاضوں کے معیار پر پیش کرنے کے علاوہ اسلامی تعلیمات پر پیدا ہونے والے ان علمی اور عقلی سوالات کا جواب بھی دیا ہے جو معاندین کی طرف سے اکثر اٹھائے جاتے ہیں۔
ان اہل علم کے کام کے بہت سے پہلووں میں سے ایک بنیادی پہلو قرآن کریم پر گہرا غور و فکر ہے، جس کے نتیجے میں دین اسلام اور قرآن پاک کی صداقت کے متعدد پہلو لوگوں کے سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی سورۂ نصر کی وہ شرح و وضاحت ہے جس کے نتیجے میں یہ قرآن پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت بن کر سامنے آتی ہے، مگر بعض وجوہات کی بنا پر، جن کا تفصیلی ذکر آگے آرہا ہے ، یہ آج کے دن تک حضور کی وفات کا ایک اعلان بنی رہی ہے۔
عام مفسرین کے نزدیک سورۂ نصر کی خصوصیت صرف اتنی ہے کہ یہ قرآن کریم کی نازل ہونے والی آخری سورت ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔جہاں تک اس سورت کے مفہوم و مدعا کا تعلق ہے تو اس حوالے سے خاص بات یہی ہے کہ اشارتاً اس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوجانے کی اطلاع دی گئی ہے۔اس رائے کی بنیاد وہ آثار ہیں جو حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام سے منقول ہیں۔ان روایات کی تفصیل ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں سورۂ نصر کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔
استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے اس سورت کو ایک بالکل مختلف پس منظر سے دیکھا اور اس کے بعد اس سورت کا وہ مفہوم و مدعا بیان کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا ایک بالکل واضح اور بین ثبوت بن کر سامنے آتی ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق یہ سورت ایک عظیم پیش گوئی کا بیان ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی دعوت کی قبولیت اور عرب پر غلبے کی تفصیل سے اس وقت آگاہ کردیا جب مسلمان مکہ میں مغلوبیت کی حالت میں تھے۔آنے والے برسو ں میں دنیا نے دیکھا اور تاریخ نے اس کو ایک حقیقت کے طور پر محفوظ کرلیا کہ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور ایک ایک کرکے وہ سارے واقعات ظہور پذیر ہوتے چلے گئے جن کا اس سورت میں ذکر کیاگیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ کی مدداوروہ فتح جب آجائے،(اے پیغمبر،جس کاوعدہ ہم نے تم سے کیاہے)،اورتم لوگوں کوجوق درجوق اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لوتواپنے پروردگارکی تسبیح کرو، اُس کی حمدکے ساتھ، اور اُس سے معافی چاہو۔ (اِس لیے کہ) وہ بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔ ‘‘ (النصر۱۱۰: ۱۔۳)
استاذ گرامی کے نزدیک اس سورت کا اسلوب اور قرآن کریم میں اس کا مقام اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ سورت جن واقعات کو بیان کرتی ہے، وہ ماضی کی داستان نہیں، بلکہ اس غلبے کی اہم ترین منازل کا بیان ہے جو آنے والے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مقدر کردیا تھا۔ ذیل میں ہم ان دونوں دلائل، یعنی سورت کااسلوب اور قرآن میں اس کا مقام ،دونوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔
پہلے اس سورت کے اسلوب کو لیجیے۔جیسا کہ اردو ترجمے سے ظاہر ہے، اس سورت میں مستقبل کے کچھ واقعات کی خبر دی گئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی گئی کہ جب یہ واقعات ظہور پذیر ہوجائیں تو تم اپنے رب کے نام کی تسبیح اس کی تعریف کے ساتھ کرنا اور اس کے حضور استغفار کرنا۔استاذ گرامی کا کیا ہوا ترجمہ عربی زبان و بیان کے مسلمہ اسالیب کے مطابق ہے۔یہ عربی زبان کا عام اسلوب ہے کہ حرف ’اذا‘ ماضی کے ساتھ آکرشرط اور مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ اس سورت میں جن متعین واقعات کے ساتھ یہ اسلوب استعمال ہوا ہے، وہاں تو اس بات کی کوئی گنجایش ہی نہیں کہ ماضی یا حال کے کوئی معنی نکالے جائیں۔اسی بات کو امام اللغہ زمخشری نے اس طرح بیان کیا ہے:

(اِذَاجَآءَ) منصوب بسبح، و ھو لما یستقبل. والاعلام بذلک قبل کونہ من اعلام النبوۃ.(الکشاف۴/ ۸۱۰)
’’(اِذَا جَآءَ) ’سَبِّحْ‘ سے منصوب ہے اور یہ مستقبل کے لیے استعمال ہوا ہے۔مستقبل کے رونما ہونے سے پہلے اس کی خبر دینا نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔‘‘
دیگر مترجمین جو زبان کی رعایت سے ترجمہ کرتے ہیں، ان کا ترجمہ بھی جاوید صاحب کے ترجمے سے مختلف نہیں ، مگر جب تفسیر کا موقع آتا ہے تو روایت کی بنیاد پر وہ اس سورت کو قرآن کی آخری سورت قرار دے دیتے ہیں، جس کا کم سے کم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سورت میں کوئی پیش گوئی باقی نہیں رہتی۔ جبکہ غور وفکر کرنے والے اذہان میں ایک سوال فوراًپیدا ہوجاتا ہے۔وہ یہ کہ جب سورت میں بیان کردہ واقعات پہلے ہی رونما ہوچکے تو مستقبل کے اسلوب میں ان کو بیان کرنے کے کیا معنی ؟مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اس ہدایت کا کیا مطلب کہ جب یہ ہوجائے تو پھر ہماری تسبیح کرنا ؟اس لیے کہ سب کچھ تو پہلے ہی ہوگیا۔
اس با ت کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ اگرآج کوئی یہ کہے کہ جب پاکستان بن جائے تو لوگوں کو اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے تو یہ درست انداز بیان نہیں ہوگا۔پاکستان بننے سے پہلے اگر کسی نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک ہے۔ اس زمانے کا کوئی قول اگر آج نقل کیا جائے تو یہ بھی غلط نہیں ، لیکن پاکستان بننے کے بعد اس اسلوب میں پاکستان کی ترقی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دینا آخر زبان کے کس قاعدے ،کس اسلوب کی رو سے درست ہے؟
یہی سبب ہے کہ جن مفسرین کی نظر اس پہلو پر گئی، انھوں نے مذکورہ بالا روایات کے ہوتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ اس سور ت کا نزول فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے۔اوپر زمخشری کی بات ہم بیان کرچکے ہیں جبکہ جدید مفسرین میں مفتی شفیع صاحب اور امین احسن اصلاحی صاحب کی یہی رائے ہے۔مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:
’’اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ سورۃ فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں، لفظ ’اِذَا جَآءَ‘ سے بظا ہر فتح سے پہلے نازل ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اور ’’روح المعانی‘‘ میں ’’بحر محیط‘‘ سے ایک روایت بھی اس کے موافق نقل کی ہے جس میں اس سورۃ کا نزول غزوۂ خیبر سے لوٹنے کے وقت بیان کیا گیا اور خیبر کی فتح فتح مکہ سے مقدم ہونامعلوم و معروف ہے اور ’’روح المعانی‘‘ میں بسندعبدابن حمید حضرت قتادہ کایہ قول نقل کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سورۃ کے نزول کے بعددوسال زندہ رہے۔‘‘(معارف القرآن۸/۸۳۶)
اصلاحی صاحب بھی ’’تدبر قرآن‘‘ میں اسی رائے کے قائل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس سورہ کے زمانۂ نزول سے متعلق دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ فتح مکہ کے بعد نازل ہونے والی سورتوں میں یہ سب سے آخری سورہ ہے۔ دوسرا یہ کہ فتح مکہ سے پہلے اس کی بشارت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اسی دوسرے قول کو ترجیح حاصل ہے۔‘‘(۹/۶۱۵۔۶۱۶)
استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کے نزدیک اس سورت کا زمانۂ نزول ہجرت سے قبل مکہ کا آخری زمانہ ہے، کیونکہ اس سورت میں دو نہیں تین واقعات بیان ہوئے ہیں اور ان میں سے پہلا واقعہ وہ ہے جو فتح مکہ سے بہت قبل ہجرت کے فوراً بعد پیش آیا تھا، یعنی انصار کا قبول اسلام۔ یہ اس بات کی تفصیل ہے کہ اس سورۂ مبارکہ میں مستقبل کے جن واقعات کا بیان ہے، ان میں سے دو تو ایسے ہیں جو دیگر مفسرین بھی تاریخ کی روشنی میں بیان کر دیتے ہیں، یعنی ’الفتح‘سے مراد فتح مکہ اور گروہ در گروہ دین میں لوگوں کے داخلے سے فتح مکہ کے بعد کا وہ وقت ہے جب پورے عرب نے اسلام قبول کرلیا تھا اور لوگ قبیلہ در قبیلہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔اسی بنیاد پر وہ اس سورت کا نزول فتح مکہ سے پہلے مانتے ہیں۔تاہم یہ لوگ اللہ کی نصرت کو کوئی الگ واقعہ خیال نہیں کرتے اور اس کو فتح مکہ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔
تاہم ہمارے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ اس سورت میں ’الفتح‘ سے قبل مستقل بالذات ایک اور واقعے کی خبر دی گئی ہے، یعنی اللہ کی مدد کے آنے کی اور یہ مدد انصار کا وہ قبول اسلام تھا ، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سے نجات مل گئی اور یثرب کا وہ دار الہجرت میسر ہواجہاں مسلمانوں کا اقتدار باقاعدہ قائم ہوگیا۔قرآن پاک میں انصار کو مدد کرنے والے اور مدینہ کی ریاست کو اقتدار کی نصرت خود اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ.(الانفال۸:۷۴)
’’اورجولوگ ایمان لائے اوروطن سے ہجرت کر گئے اورخداکی راہ میں لڑائیاں کرتے رہے۔ اور جنھوں نے (ہجرت کرنے والوں کو)جگہ دی اوران کی مدد کی، یہی لوگ سچے مسلمان ہیں،ان کے لیے (خدا کے ہاں) بخشش اورعزت کی روزی ہے۔ ‘


سورۂ بنی اسرائیل میں ہجرت سے قبل نازل ہونے والی آیات میں فرمایا :
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا.(بنی اسرائیل۱۷:۸۰)
’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھے تو جہاں بھی لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔‘‘
قرآن کریم کی یہ تصریحات واضح کرتی ہیں کہ سورۂ نصر میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے مراد یہی انصار کی شکل میں ملنے والی مدد اور مدینہ میں ملنے والا اقتدار ہے۔ تاہم یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ قرآن میں تو کئی مواقع پر اللہ کی مدد کا ذکر ہے، ہم صرف اسی واقعے کو اس سورت کی بیان کردہ خبر کا مصداق کیوں قرار دے رہے ہیں ۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار پر بہت سی فتوحات حاصل ہوئیں، لیکن ’الفتح ‘ کا اطلاق فتح مکہ ہی پر کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ وہ فیصلہ کن فتح تھی جس نے پورے عرب پر غلبے کا راستہ کھول دیا تھا۔اسی طرح اللہ کی مدد کا ظہور مختلف مواقع پر ہوتا رہا۔ یہ ظہور ہجرت کے راستے میں غار ثور میں بھی ہوا (التوبہ۹: ۴۰)، جنگ بدر (الانفال۸: ۹۔۱۰)، احد (آل عمران۳:۱۲۴۔۱۲۶)، خندق (الاحزاب۳۳:۹)، صلح حدیبیہ (الفتح۴۸:۱۔۳)، فتح مکہ (الصف ۶۱: ۱۳)، حنین (التوبہ۹:۲۵) اور پھر آخری دارو گیر کے موقع پر بھی ہوا (التوبہ۹:۱۴)۔ تاہم انصار مدینہ کا قبول اسلام اور اس کے نتیجے میں امن، اقتدار اور آزادی کا ملنا ہی مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑاواقعہ ہے۔ ہجرت مدینہ کا واقعہ ایک فیصلہ کن واقعہ تھا جس نے حالات کا دھارا موڑ دیا۔ یہ اتنا اہم واقعہ ہے کہ سیدنا عمر کے دور میں ہجری کیلنڈر کا آغاز فتح مکہ یا اعلان نبوت سے نہیں،بلکہ ہجرت سے کیا گیا۔
پھر اس موقع پر اوس و خزرج کے لوگوں کا قبول اسلام اس طرح مہاجرین کی مدد کا سبب بنا کہ تاریخ میں ان کا لقب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انصار پڑ گیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ انصار کا یہ قبول اسلام جن حالات میں ہوا، وہ آخری درجہ کے مایوس کن حالات تھے۔مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی تحفظ آپ کے چچا ابوطالب کی وفات کے بعد ختم ہوچکا تھا۔ مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے تھے۔ قریش کے خوف سے کوئی قبیلہ مسلمانوں کو تحفظ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ نوبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازشوں تک پہنچ رہی تھی۔ادھر اوس و خزر ج باہمی جنگوں اور افتراق کا شکار تھے۔ ایسے میں اچانک حالات نے پلٹا کھایا۔اللہ تعالیٰ نے ان میں باہمی محبت و الفت پیدا کردی اور ان کے دل اسلام کے لیے کھول دیے۔ ان کا اسلام خد اکی وہ مدد بن کر ظاہر ہوا، جس نے مسلمانوں کو وہ سب کچھ دے دیا جس کی اُس وقت انھیں ضرورت تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس احسان کو بہ صراحت اپنی مدد و نصرت کہا ہے:

ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ. وَاَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِہِمْ لَوْ اَنفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْْنَہُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ. (الانفال۸:۶۲۔۶۳ )
’’وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے آپ کی تائید و نصرت کی ۔ اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑدیے۔آپ روے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کرڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے، مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے۔ یقیناً وہ بڑا زبردست اور داناہے۔‘‘

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَن یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ. (الانفال۸:۲۶)
’’یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے، زمین میں تم کو کمزور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تمھیں جاے پناہ مہیا کر دی اور اپنی مدد سے تمھیں مستحکم کردیا اور تمھیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ ‘‘
قرآن کے یہ صریح بیانات اور تاریخی شواہد یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہیں کہ سورۂ نصر میں جس نصرت الٰہی کی خبر دی گئی تھی، اس کا مصداق ہجرت کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔اس بات کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس سورت کا نزول ہجرت سے پہلے مانا جائے۔
استاذگرامی نے سورت کے داخلی بیان کے علاوہ بھی قرآن کریم میں مقرر کی گئی سورتوں کی ترتیب سے اس سورت کا زمانۂ نزول ہجرت سے قبل ہی کا متعین کیا ہے۔ سورتوں کی ترتیب کے اس اصول کی تفصیلات استاذ گرامی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کی ہے۔ جو لوگ تفصیل کے ساتھ اسے سمجھنا چاہیں، وہ اس کتاب کے باب، ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ کی بحث کے ذیل میں ’سبع مثانی ‘ کے عنوان کے تحت اسے دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں ہم اختصار کے ساتھ ان کا نقطۂ نظر بیان کیے دیتے ہیں۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ حفظ، قراء ت اور معنوی اعتبار سے لوگوں نے قرآن پاک کئی طرح سے تقسیم کیا ہے۔ یہ تقسیم سپاروں، منازل اور رکوعات کی شکل میں ہر مصحف میں دیکھی جاسکتی ہے۔امام فراہی اور ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی اور استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق قرآن پاک کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قرآن کریم کی سورتیں اللہ تعالیٰ نے الل ٹپ طریقے پر نہیں، بلکہ ایک بامقصد اور حکیمانہ طریقے پر ایک خاص نظام کے تحت جمع کی ہیں جس کے نتیجے میں ایک تقسیم اور ترتیب وجود میں آتی ہے۔یہ ابواب کی ترتیب ہے۔ہر باب متصل سورتوں کا مجموعہ ہے، جس میں ایک متعین موضوع زیر بحث آتا ہے۔ اس طرح قرآن پاک معنوی طور پر سات ابواب میں تقسیم ہے ۔
ہر باب ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوکر ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر ختم ہوتا ہے۔کسی باب میں ایسا نہیں ہوتا کہ مکی سورتوں کے بیچ میں کوئی مدنی سورت آجائے یا مدنی سورتوں کے بیچ میں کوئی مکی سورت آجائے۔ قرآن کریم کے تمام ابواب کی طرح آخری باب جو سورۂ ملک سے سورۂ ناس تک ہے، اس میں بھی یہ ترتیب پائی جاتی ہے۔اس باب میں سورۂ نصر جس مقام پر آئی ہے وہاں اس کے آگے پیچھے مکی سورتیں آتی ہیں۔ کوئی ایسا قرینہ نہیں جس کی بنا پر کسی مدنی سورت کو قرآن کے عام ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، وہاں موجود ہونا چاہیے۔اور جیسا کہ ہم نے اوپر تفصیلی تجزیہ کرکے یہ بتایا کہ سورت کا مضمون یہی گواہی دیتا ہے۔
اس سورت کے ذریعے سے قرآن کی ایک عظیم پیش گوئی سامنے آنے کے علاوہ قرآن کے فہم کا درست طریقہ بھی سامنے آتا ہے۔ جن لوگوں نے چند روایات کو اس سورت کی تفسیر کا معیار بنایا اور سورت کے اپنے مفہوم و مدعا کو بالکل نظر انداز کردیا ، ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معمولی سورت کتنی غیر موثر ہوکر رہ گئی۔یہی امام فراہی اور ان کے تلامذہ کا دین کو سمجھنے کا طریقہ ہے۔وہ قرآن کریم کے فہم میں اس کی اپنی زبان، اپنے بیان اور اپنے اسلوب کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ پھر اس کی روشنی میں روایات و اخبار کا جائزہ لیتے ہیں۔چنانچہ روایات کا موقع و محل بھی اپنی جگہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ جیسے اس سورت سے متعلق آنے والی روایات کو سورت کے اپنے بیان کردہ مفہوم کی روشنی میں جب دیکھا جاتا ہے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے دوبارہ پڑھی۔ یہ گویا اس بات کی یاددہانی اور شکرانے کا ایک اظہا رتھاکہ کس طرح تن تنہا اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے آپ کے ساتھ پورے کیے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی کے موقع پر جو دعا کی اس میں بھی سورۂ نصر کے الفاظ مستعار لے کر اسی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے (مسلم،رقم۱۲۱۸)۔ ان روایات کی جو تاویل ہم کررہے ہیں، کم و بیش یہی تاویل مفتی شفیع صاحب نے بھی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جن روایا ت میں اس کا نزول فتح مکہ یا حجۃ الوداع میں نازل ہونا بیان کیا گیا ہے، ان کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھی ہوگی جس سے لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ ابھی نازل ہوئی ہے۔‘‘(معارف القرآن۸/ ۸۳۶)
بہرحال سورت کے اس مفہوم کے سامنے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک اور ثبوت دنیا کے سامنے آتا ہے۔کوئی عام مفکر، داعی اور مصلح کتنا ہی ذہین اور گہری نظر رکھنے والا ہو، مستقبل کی اس طرح پیش گوئی نہیں کرسکتا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کی ہے۔یہ سورت بلاشبہ اپنے نزول کے وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے لیے تسلی و بشارت کا غیر معمولی سامان لیے ہوئے تھی اور آج بھی مسلمانوں کے ایمان کی پختگی کا ایک ذریعہ ہے۔اس سب سے بڑھ کر آج کے دور میں جب دین کی دعوت دنیا کے سامنے پیش کرنا ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے، یہ سورت قرآن کا سب سے بڑا معجزہ اور سب سے بڑی پیش گوئی ہے، جسے قرآن پاک کی صداقت کی ایک روشن دلیل کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/Sura-e-Nasr
 
Top