برائے تنقید و اصلاح

کون ہے جو جہاں سے اٹھتا ہے؟
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے

ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے

نارِ زردشت ہی کا ایک شرر
شیخ کے ہر بیاں سے اٹھتا ہے

کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
شائبہ یہ گماں سے اٹھتا ہے

وزنِ دنیا و آفتاب و قمر
کب قماشِ مکاں سے اٹھتا ہے؟

یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟

شورِ چنگ و رباب سے دلکش
کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے؟

دودِ گردوں شگاف ابرِ سیاہ
میرے ہی آشیاں سے اٹھتا ہے

اس جزیرے پہ برف کے نابض
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
لطف آیا قریشی صاحب۔ آپ کی اردو شاعری پر فارسی مطالعے کے اثرات عیاں ہیں، تراکیب کے علاوہ یہ مصرع
کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
اس کی روشن مثال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بہت اچھا لگا لیکن صرف اردو خوان قارئین کو " ماورا ز وہم و گماں" کو سمجھنے میں شاید دقت ہو :)

بہرحال، سبحان اللہ​
 
لطف آیا قریشی صاحب۔ آپ کی اردو شاعری پر فارسی مطالعے کے اثرات عیاں ہیں، تراکیب کے علاوہ یہ مصرع
کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
اس کی روشن مثال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بہت اچھا لگا لیکن صرف اردو خوان قارئین کو " ماورا ز وہم و گماں" کو سمجھنے میں شاید دقت ہو :)

بہرحال، سبحان اللہ​
شکرگزار ہوں جناب!
 
بہت خوب ریحان بھائی.
لطف آیا قریشی صاحب۔ آپ کی اردو شاعری پر فارسی مطالعے کے اثرات عیاں ہیں، تراکیب کے علاوہ یہ مصرع
کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
اس کی روشن مثال ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بہت اچھا لگا لیکن صرف اردو خوان قارئین کو " ماورا ز وہم و گماں" کو سمجھنے میں شاید دقت ہو :)

بہرحال، سبحان اللہ​
ویسے زِ کا استعمال تو بہت عام رہا ہے اردو شاعری میں. :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! اچھی غزل ہے ریحان ! بہت خوب !! اچھے مضامین ہین اور کئی اشعار عمدہ ہیں ۔ البتہ ایک بات جو اس غزل مین محسوس ہوئی وہ یہ کہ کئی اشعار مین ابہام کا عنصر گہرا ہے ۔ میں مختصرا ایک دو باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔

کون ہے جو جہاں سے اٹھتا ہے؟
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے

بہت اچھا ہے !!

ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے

یعنی دھویں کو زیاں کہا ہے اور آگ کو سودا ۔ ٹھیک ہے لیکن سودا اور زیاں کا تعلق ؟ بات کچھ بنتی نہیں ہے۔

نارِ زردشت ہی کا ایک شرر
شیخ کے ہر بیاں سے اٹھتا ہے

نارِ زردشت کی ترکیب کے اس طرح استعمال سے لگتا ہے کہ گویا یہ کوئی ایسی معروف اور واضح ترکیب ہےجسے شرح کی حاجت نہیں ۔ زردشت تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن نارِ زردشت سے کیا مراد ہے ۔ شعر میں کوئی اشارہ یا وضاحت نہیں اس کی ۔

کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
شائبہ یہ گماں سے اٹھتا ہے

یہاں اگر ماورائے وہم و گماں کہیں تو زیادہ رواں ہے اور عام مستعمل زبان کے زیادہ قریب ہے ۔ ماورائے کا یائے مجہول بہت آرام سے گرایا جاسکتا ہے اور بالکل برا محسوس نہین ہوگا ۔ ویسے شائبہ اٹھنا آپ کی ایجاد ہے ، فصیح زبان نہیں ہے ۔ :):):)

وزنِ دنیا و آفتاب و قمر
کب قماشِ مکاں سے اٹھتا ہے؟

اچھا مضمون ہے ۔ پہلا مصرع متاثر کن نہیں ۔ وزنِ دنیا عجیب لگ رہا ہے ۔ بارِ دنیا رکھ کر دیکھئے۔

یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟

چاہِ زماں (یعنی زمانے کے کنویں) اور افتادگی میں کیا تعلق ہے ؟ یہاں غلطی سے ہندی لفظ چاہ تو استعمال نہیں کررہے ہیں آپ ؟!

شورِ چنگ و رباب سے دلکش
کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے؟

اچھا مضمون ہے ۔ لیکن اسے سوالیہ کے بجائے کسی اور بہتر طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نیز ’’کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ کی بندش بھی ٹھیک نہیں لگتی ۔ اس سے بہتر ’’ایک نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ ہے ۔ ویسے میں ایک تجویز بطور مثال لکھتا ہوں : شورِ چنگ و رباب میں کیسا ۔ نغمہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے ! مجھے یقین ہے کہ آپ یہ شعر بہتر بناسکتے ہیں ۔

دودِ گردوں شگاف ابرِ سیاہ
میرے ہی آشیاں سے اٹھتا ہے

بہت اچھا ہے !!! دودِگردوں شگاف اور ابرِ سیاہ کے درمیان کومے کی ضرورت ہے ۔

اس جزیرے پہ برف کے نابض
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"

کس چیز کو برف کا جزیرہ کہا جارہا ہے ؟ اس کی وضاحت کے بغیر تو شعر گویا بے معنی ہے یعنی محض ایک بیانیہ ہے ۔ میری رائے میں نابض دھواں ایک دور ازکار اشارہ ہے اس کے بجائے براہِ راست بات کرنا بہتر ابلاغ کا باعث بنے گا ۔ یوں دیکھئے:

دل جزیرے پہ برف کے ریحان
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے !
 
واہ ! اچھی غزل ہے ریحان ! بہت خوب !!
نوازش جناب کی۔
ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے

یعنی دھویں کو زیاں کہا ہے اور آگ کو سودا ۔ ٹھیک ہے لیکن سودا اور زیاں کا تعلق ؟ بات کچھ بنتی نہیں ہے۔


شورِ چنگ و رباب سے دلکش
کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے؟​

اچھا مضمون ہے ۔ لیکن اسے سوالیہ کے بجائے کسی اور بہتر طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نیز ’’کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ کی بندش بھی ٹھیک نہیں لگتی ۔ اس سے بہتر ’’ایک نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے‘‘ ہے ۔ ویسے میں ایک تجویز بطور مثال لکھتا ہوں : شورِ چنگ و رباب میں کیسا ۔ نغمہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے ! مجھے یقین ہے کہ آپ یہ شعر بہتر بناسکتے ہیں ۔​
ان پر ضرور غور کروں گا۔
نارِ زردشت ہی کا ایک شرر
شیخ کے ہر بیاں سے اٹھتا ہے

نارِ زردشت کی ترکیب کے اس طرح استعمال سے لگتا ہے کہ گویا یہ کوئی ایسی معروف اور واضح ترکیب ہےجسے شرح کی حاجت نہیں ۔ زردشت تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن نارِ زردشت سے کیا مراد ہے ۔ شعر میں کوئی اشارہ یا وضاحت نہیں اس کی ۔
نارِ زردشت سے مراد معبودِ زردشت ہے۔
ع
دلم معبودِ زردشت است غالب فاش می گویم

کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
شائبہ یہ گماں سے اٹھتا ہے

یہاں اگر ماورائے وہم و گماں کہیں تو زیادہ رواں ہے اور عام مستعمل زبان کے زیادہ قریب ہے ۔ ماورائے کا یائے مجہول بہت آرام سے گرایا جاسکتا ہے اور بالکل برا محسوس نہین ہوگا ۔ ویسے شائبہ اٹھنا آپ کی ایجاد ہے ، فصیح زبان نہیں ہے ۔ :):):)
آپ کا مشورہ صائب ہے۔
ع
ہم روایت شکن روایت ساز
وزنِ دنیا و آفتاب و قمر
کب قماشِ مکاں سے اٹھتا ہے؟
اچھا مضمون ہے ۔ پہلا مصرع متاثر کن نہیں ۔ وزنِ دنیا عجیب لگ رہا ہے ۔ بارِ دنیا رکھ کر دیکھئے۔
بارِ دنیا یقیناَََ بہتر ہے۔ ایک بار پھر ممنونِ احسان ہوں۔
چاہِ زماں (یعنی زمانے کے کنویں) اور افتادگی میں کیا تعلق ہے ؟ یہاں غلطی سے ہندی لفظ چاہ تو استعمال نہیں کررہے ہیں آپ ؟!
یہ اور پچھلا شعر مسلسل ہیں۔ زمیں دراصل ایک چاہِ زمان و مکان میں پڑی ہے اور ہم بھی۔
اس جزیرے پہ برف کے نابض
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"

کس چیز کو برف کا جزیرہ کہا جارہا ہے ؟ اس کی وضاحت کے بغیر تو شعر گویا بے معنی ہے یعنی محض ایک بیانیہ ہے ۔ میری رائے میں نابض دھواں ایک دور ازکار اشارہ ہے اس کے بجائے براہِ راست بات کرنا بہتر ابلاغ کا باعث بنے گا ۔ یوں دیکھئے:

دل جزیرے پہ برف کے ریحان
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے !
نابض دراصل نیا تخلص ہے۔
برف سے دھواں اٹھنا ایک عام مشاہدہ ہے(حقیقی دھواں نہیں ہوتا مگر کچھ ملتا جلتا ضرور ہوتا ہے) اور برف کے جزیرے یقیناََ دنیا میں موجود ہیں۔
 
آخری تدوین:
پہلے تو اتنے دن بعد کچھ لکھنے پر مبارک باد۔ پھر اچھا لکھنے پر مبارک باد۔ پھر علمِ نافع کے حصول پر مبارک باد۔ کیونکہ میں نافع اس علم کو جانتا ہوں جو خواہ مخواہ زندگی میں منعکس ہو اور عالم اور اس کے متعلقین کو فائدہ پہنچائے بغیر نہ رہے!
کون ہے جو جہاں سے اٹھتا ہے؟
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
بہت خوب صورت مگر قدرے نامکمل۔ آسمان سے شور کیوں اٹھتا ہے یہ تو بیان کر دیا گیا مگر یہ سوال تشنہ رہا کہ کیونکر اٹھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قرینہ اگر اس پر بھی ہوتا کہ مثلاً بجلی کڑکی یا بادل گرجے یا مینہ برسا تو شعر کی تاثیر دونی ہوتی۔
ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے
ایک آتش دخاں سے ہے اٹھتی
ایک سودا زیاں سے اٹھتا ہے

یعنی دھویں کو زیاں کہا ہے اور آگ کو سودا ۔ ٹھیک ہے لیکن سودا اور زیاں کا تعلق ؟ بات کچھ بنتی نہیں ہے۔
غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دھویں میں بھی ایک آگ مچلتی ہے۔ دوسرے مصرعے میں اس کی تعمیم کی ہے کہ گویا اس کاروبارِ سوز میں ہونے والے زیاں سے ایک نیا سودا پیدا ہو گیا۔ یعنی دھواں جو سراسر رائیگانی ہے اس میں سے بھی آگ کا وجود نکل آیا۔
خیال آفرینی کی داد واجب ہے مگر ابلاغ میں مسائل جناب کو بھی وہی ہیں جو غالبؔ کو تھے۔
نارِ زردشت ہی کا ایک شرر
شیخ کے ہر بیاں سے اٹھتا ہے
نارِ زردشت سے مراد معبودِ زردشت ہے۔
ع
دلم معبودِ زردشت است غالب فاش می گویم
دیوان کے پہلے شعر کی تشریح غالبؔ کو بھی یونہی کرنی پڑی تھی۔ اتنی بعید از فہم تلمیحات تو اس زمانے میں بھی لوگوں کو نہ بھائیں جب کلاسیکی علوم کا شیوع زیادہ تھا۔ آج کے زمانے میں آپ کا کیا ہو گا؟
کچھ تو ہے ماورا ز وہم و گماں
شائبہ یہ گماں سے اٹھتا ہے
خیال اور طرزِ ادا پر داد قبول کرو۔ محاورے کے باب میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں مگر گمان سے شائبہ نکالنے کی تعریف لازم ہے۔ ماورائے وہم و گماں کی اصلاح سزاوارِ تعمیل ہے۔
وزنِ دنیا و آفتاب و قمر
کب قماشِ مکاں سے اٹھتا ہے؟
الفاظ شاید مناسب بہم نہیں پہنچ سکے۔ قماش بضمہ یا کسرۂِ اول اسباب، رخت، طرز، روش یا قسم کے معنوں میں آتا ہے۔ نیز دنیا کے ساتھ آفتاب اور قمر کا عطف سائنس کی رو سے تو کوئی عیب نہیں مگر ہمارے ادب کی تراکیب اس نہج پر نہیں تراشی گئیں۔ کار گاہِ ہستی جیسی کسی عمومی ترکیب کا استعمال ممکنہ طور پر یہاں زیادہ لطف دے گا۔
یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟
یوں ہے افتادگی نصیب اپنا
کون چاہِ زماں سے اٹھتا ہے؟

چاہِ زماں (یعنی زمانے کے کنویں) اور افتادگی میں کیا تعلق ہے ؟ یہاں غلطی سے ہندی لفظ چاہ تو استعمال نہیں کررہے ہیں آپ ؟!
زمیں دراصل ایک چاہِ زمان و مکان میں پڑی ہے اور ہم بھی۔
ہائے ری یہ طبیعیات آگہی!
نیوٹن کا لطیفہ یاد آ گیا جو کہا کرتا تھا کہ اے طبیعیات، مجھے ما بعد الطبیعیات سے بچانا۔ تم بھی میرؔ کی طرح رفتہ رفتہ سید ہو ہی جاؤ گے!
معنوی اعتبار سے شعر قابلِ فہم تو ہے مگر کامل نہیں معلوم ہوتا۔ یوں ہے کا ٹکڑا محلِ نظر ہے۔ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ افتادگی اس واسطے ہمارا نصیب ہے کہ زمانے کے گڑھے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔
شورِ چنگ و رباب سے دلکش
کوئی نغمہ کہاں سے اٹھتا ہے؟
یہ غزل کے ان چند شعروں میں سے ایک ہے جن میں ردیف کا درست، بامعنیٰ اور فصیح استعمال ہوا ہے۔ ورنہ زیادہ تر ردیف کو وہ معانی دینے پر مجبور کیا گیا ہے جو محاورے کے مطابق اس کے نہیں۔
کوئی کے بارے میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں۔ یہ حشوِ ملیح تو نہیں مگر اس کے آس پاس کی شے ہے۔ معمولی سے رد و بدل سے شعر بہتر ہونے کا واقعی امکان ہے۔ استفہام کے حوالے سے البتہ مجھے ان سے اختلاف ہے۔ شعر میں مخفی یا ظاہر استفہام اس کے حسن کو ہمیشہ مثبت یا ادعائی اظہار کی نسبت کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
دودِ گردوں شگاف ابرِ سیاہ
میرے ہی آشیاں سے اٹھتا ہے
گردوں شگاف۔۔۔ واہ!
اس جزیرے پہ برف کے نابض
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے"
برف سے دھواں اٹھنا ایک عام مشاہدہ ہے(حقیقی دھواں نہیں ہوتا مگر کچھ ملتا جلتا ضرور ہوتا ہے) اور برف کے جزیرے یقیناََ دنیا میں موجود ہیں۔
شعر مکمل تو ہے مگر تھوڑی دیر لگے گی اس طرح اسے سمجھنے میں۔ اور اس معاملے میں میرا مسلک اب غالبؔ کی بجائے داغؔ والا ہے۔ یعنی خیال کا خنجر بھلے کند ہو، شاعر کا کمال یہ ہے کہ قاری کے ہوش سنبھالنے سے پہلے اس کے سینے میں گھونپ دے۔
---
میں رائے زنی میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے برا نہیں لگا ہو گا۔
دو تین باتیں اور بھی کہنی ضروری ہیں۔ میں نے دو ایک بار تمھاری اور عبداللہ کی نسبت یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ تم لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے زندگی میں شاعری کی پہلی کتاب غالبؔ کی خریدی تھی اور اسے سمجھنے کے جنون نے میری طبیعت اور کلام پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کیے تھے جو آج تم لوگوں میں دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنے شاعرانہ قد اور مستقبل کا علم نہیں مگر اپنی بابت ہر انسان خواب تو دیکھتا ہے۔ اور جب اسے اپنے جیسے دیوانے دو چار اور مل جائیں تو وہ خواب مل کر دیکھے جاتے ہیں اور تقویت پکڑی جاتی ہے۔
اسی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تم پر غالبؔ کے جو اثرات ہیں وہ ذوقِ سلیم کی بدولت تا دیر نہیں رہیں گے۔ مگر انھیں دانستہ دور کرنے کی ضرورت نہیں۔ وقت خود مناسب سبق پڑھائے گا۔ اور جو غالبؔ کا شاگرد رہا ہو اس سے بہتر مستقبل کے ان اسباق کو کون سمجھ سکتا ہے۔ شکر ہے تم عصرِ حاضر کے اکثر نابغوں کی طرح جونؔ کے اسیر نہیں ہوئے۔ ورنہ ناقابلِ علاج ہو جاتے!
تمھاری فکری روش پر تو میں بہت خوش ہوں۔ اسلوب کا معاملہ یہی ہے کہ ابھی تم اس کی قدر کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اردو اور فارسی کے جن نابغوں نے تمھیں متاثر کیا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ تم زبان و بیان کی طرف وہ توجہ ابھی نہیں دو گے جس کے یہ حق دار ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شعور بھی بیدار ہو جائے گا۔ سفر ہے شرط۔۔۔!
میں نے اوپر تمام آرا ایک خاص تناظر میں دی ہیں۔ یعنی یہ کہ میں ریحان کی غزل پر رائے دے رہا ہوں اور یہ کہ میں رائے دے رہا ہوں۔ کسی اور کی غزل ہوتی تو یہ تنقید بالکل مختلف اور شاید زیادہ معروضی ہوتی۔
---
ع
ہم روایت شکن روایت ساز
میں اتنا بڑا شاعر ہو گیا ہوں کہ تم میرا مصرع لکھو؟ اور وہ بھی بغیر حوالے کے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کے مراسلے کا جواب مین کام کے دوران وقفے وقفے سے آف لائن لکھ رہا تھا ۔ اب جو اسے پوسٹ کرنے آیا ہوں تو معلوم ہوا کہ راحیل بھائی نے بہت تفصیل سے کام کی باتین لکھ دی ہیں ۔ لیکن اب چونکہ میں نے لکھ ہی دیا ہے تو اسے پوسٹ کردیتا ہوں ۔ شاید ایک آدھ نکتہ کسی کے کام آجائے ۔

نارِ زردشت سے مراد معبودِ زردشت ہے۔
ع
دلم معبودِ زردشت است غالب فاش می گویم

بھائی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ پھر سیدھا سیدھا نارِ زرتشت ہی کیوں استعمال نہیں کیا ۔ پھر کہوں گا کہ زردشت اردو میں بالکل بھی معروف نہیں ہے ۔ اور پھر شیخ اور نارِ زرتشت ؟ اردو اور فارسی شاعری میں شیخ کا استعارہ خالص مسلمانی پس منظر رکھتا ہے اورکبھی کسی اور مذہب کے پیشوا کے لئے استعمال نہیں ہوا ۔ سو شیخ کے بیان کو نارِ زرتشت سے جوڑنے کے لئے شعر مین کوئی سلیقہ تو موجود ہونا چاہئے ۔ غالب نے تو اپنے دل کو آگ کہنے کے بجائے شاعرانہ تخیل سے کام لیکر معبودِ زرتشت کہہ دیا لیکن شیخ کو نارِ زرتشت سے جوڑنے کے لئے کوئی اشارہ کنایہ لانا ضروری ہے ۔

یہ اور پچھلا شعر مسلسل ہیں۔ زمیں دراصل ایک چاہِ زمان و مکان میں پڑی ہے اور ہم بھی۔

ریحان بھائی وہ شعر کس کام کا کہ جس کے ساتھ تشریحی نوٹ لگانا پڑے ۔ :):):)

نابض دراصل نیا تخلص ہے۔
برف سے دھواں اٹھنا ایک عام مشاہدہ ہے(حقیقی دھواں نہیں ہوتا مگر کچھ ملتا جلتا ضرور ہوتا ہے) اور برف کے جزیرے یقیناََ دنیا میں موجود ہیں۔

اگر نابض نیاتخلص ہے تو پھر اس منفرد تخلص پر مبارکباد ۔ لیکن اس صورت مین تو شعر مزید مبہم ہوجا تا ہے ۔ ’’ اس جزیرے پہ برف کے نابض ۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے" اس جزیرے سے کس جزیرے کی طرف اشارہ ہے ؟ مقصود اگر برف سے اٹھنے والے بخارات کا ذکر ہے تو پھر جزیرے ہی کی تخصیص کیوں ۔ برف تو کہیں بھی ہوسکتی ہے ۔ جب برفباری ہوتی ہے تو ہر طرف برف ہی برف ہوتی ہے زمین پر ۔ ریحان بھائی سمجھنے کی بات یہ ہے کہ شعر میں لفظوں سے تصویر بنانی ہوتی ہے ۔ سو شعر مین آپ جب کوئی لفظ لاتے ہیں تو اس کا کوئی مقصد ہونا چاہئے ۔ ہر لفظ قاری کےذہن میں معنی اور خیال کا کوئی در وا کرتا ہے ۔سو کسی بے ربط لفظ کا استعمال قاری کے ذہن کوکسی اور سمت لےجاسکتا ہے اور شعر کے مطلب کو الجھا سکتا ہے ۔ چھوٹی بحر میں تو خصوصا حشو و زائد کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہوتی ۔ شعر مین تمام الفاظ کا مربوط ہونا اچھے شعر کی علامت اور بہتر ابلاغ کی ضمانت ہوتا ہے ۔ ’’اس جزیرے‘‘ کے ذکر سے تو شعر الجھ گیا ہے۔ اسے دیکھ لیجئے ۔
 

امان زرگر

محفلین
اتنی مدلل و مفصل تنقید و اصلاح پر یقینا طبیعت رشک کر رہی ہے کہ کاش کوئی ہم ناکاروں کی غزلیات پر بھی جنبش انگشت وقف کرتا.
اساتذہ کی توجہ کے حصول پہ یقینا آپ داد کے مستحق ہیں.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اتنی مدلل و مفصل تنقید و اصلاح پر یقینا طبیعت رشک کر رہی ہے کہ کاش کوئی ہم ناکاروں کی غزلیات پر بھی جنبش انگشت وقف کرتا.
اساتذہ کی توجہ کے حصول پہ یقینا آپ داد کے مستحق ہیں.
جناب امان اللہ گنجیال صاحب! محفل میں خوش آمدید !! براہِ کرم آپ ایسا ویسا کوئی خیال دل میں نہ لائیے ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لوگ مصروف ہیں ۔ میں اپنی ذات کی حد تک تو یہ کہوں گا کہ اگر میرا بس چلے تو روز کئی گھنٹے بزمِ سخن میں آیا کروں اور اتنے اچھے خوش بیان شعرائے کرام سے مکالمے کا شرف حاصل کرتا رہوں ۔ لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ اب وہ پہلے زمانے نہیں رہے کہ جب لوگ شعر و ادب ہی کو ’’پیشہ‘‘ بنالیا کرتے تھے ۔ میرے لئے تو یہ محض ایک مشغلہ ہی ہے ۔ زندگی کی ذمہ داریاں جب جب مہلت دیتی ہیں مین آجاتا ہوں اور جو کچھ بھی سامنے آجائے اس کو پڑھ لیتا ہوں اور اپنی ناقص رائے کا اظہار بھی کردیتا ہوں ۔ بعض دفعہ ہفتوں ادھر کا چکر نہین لگا پاتا ۔ اس لئے آپ کوئی منفی خیال قطعی دل میں نہ لائیے ۔ ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی دوست آپ کی نگارشات پر بھی لکھے گا ۔ یہ محفل اہلِ علم و فن سے بھری پڑی ہے ۔
بزمِ سخن مین ایک دفعہ پھر خوش آمدید !!
 

امان زرگر

محفلین
جناب امان اللہ گنجیال صاحب! محفل میں خوش آمدید !! براہِ کرم آپ ایسا ویسا کوئی خیال دل میں نہ لائیے ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ لوگ مصروف ہیں ۔ میں اپنی ذات کی حد تک تو یہ کہوں گا کہ اگر میرا بس چلے تو روز کئی گھنٹے بزمِ سخن میں آیا کروں اور اتنے اچھے خوش بیان شعرائے کرام سے مکالمے کا شرف حاصل کرتا رہوں ۔ لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ اب وہ پہلے زمانے نہیں رہے کہ جب لوگ شعر و ادب ہی کو ’’پیشہ‘‘ بنالیا کرتے تھے ۔ میرے لئے تو یہ محض ایک مشغلہ ہی ہے ۔ زندگی کی ذمہ داریاں جب جب مہلت دیتی ہیں مین آجاتا ہوں اور جو کچھ بھی سامنے آجائے اس کو پڑھ لیتا ہوں اور اپنی ناقص رائے کا اظہار بھی کردیتا ہوں ۔ بعض دفعہ ہفتوں ادھر کا چکر نہین لگا پاتا ۔ اس لئے آپ کوئی منفی خیال قطعی دل میں نہ لائیے ۔ ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی دوست آپ کی نگارشات پر بھی لکھے گا ۔ یہ محفل اہلِ علم و فن سے بھری پڑی ہے ۔
بزمِ سخن مین ایک دفعہ پھر خوش آمدید !!
جزاکم اللہ خیر
 

عاطف ملک

محفلین
پہلے تو اتنے دن بعد کچھ لکھنے پر مبارک باد۔ پھر اچھا لکھنے پر مبارک باد۔ پھر علمِ نافع کے حصول پر مبارک باد۔ کیونکہ میں نافع اس علم کو جانتا ہوں جو خواہ مخواہ زندگی میں منعکس ہو اور عالم اور اس کے متعلقین کو فائدہ پہنچائے بغیر نہ رہے!

بہت خوب صورت مگر قدرے نامکمل۔ آسمان سے شور کیوں اٹھتا ہے یہ تو بیان کر دیا گیا مگر یہ سوال تشنہ رہا کہ کیونکر اٹھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قرینہ اگر اس پر بھی ہوتا کہ مثلاً بجلی کڑکی یا بادل گرجے یا مینہ برسا تو شعر کی تاثیر دونی ہوتی۔


غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دھویں میں بھی ایک آگ مچلتی ہے۔ دوسرے مصرعے میں اس کی تعمیم کی ہے کہ گویا اس کاروبارِ سوز میں ہونے والے زیاں سے ایک نیا سودا پیدا ہو گیا۔ یعنی دھواں جو سراسر رائیگانی ہے اس میں سے بھی آگ کا وجود نکل آیا۔
خیال آفرینی کی داد واجب ہے مگر ابلاغ میں مسائل جناب کو بھی وہی ہیں جو غالبؔ کو تھے۔


دیوان کے پہلے شعر کی تشریح غالبؔ کو بھی یونہی کرنی پڑی تھی۔ اتنی بعید از فہم تلمیحات تو اس زمانے میں بھی لوگوں کو نہ بھائیں جب کلاسیکی علوم کا شیوع زیادہ تھا۔ آج کے زمانے میں آپ کا کیا ہو گا؟

خیال اور طرزِ ادا پر داد قبول کرو۔ محاورے کے باب میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں مگر گمان سے شائبہ نکالنے کی تعریف لازم ہے۔ ماورائے وہم و گماں کی اصلاح سزاوارِ تعمیل ہے۔

الفاظ شاید مناسب بہم نہیں پہنچ سکے۔ قماش بضمہ یا کسرۂِ اول اسباب، رخت، طرز، روش یا قسم کے معنوں میں آتا ہے۔ نیز دنیا کے ساتھ آفتاب اور قمر کا عطف سائنس کی رو سے تو کوئی عیب نہیں مگر ہمارے ادب کی تراکیب اس نہج پر نہیں تراشی گئیں۔ کار گاہِ ہستی جیسی کسی عمومی ترکیب کا استعمال ممکنہ طور پر یہاں زیادہ لطف دے گا۔



ہائے ری یہ طبیعیات آگہی!
نیوٹن کا لطیفہ یاد آ گیا جو کہا کرتا تھا کہ اے طبیعیات، مجھے ما بعد الطبیعیات سے بچانا۔ تم بھی میرؔ کی طرح رفتہ رفتہ سید ہو ہی جاؤ گے!
معنوی اعتبار سے شعر قابلِ فہم تو ہے مگر کامل نہیں معلوم ہوتا۔ یوں ہے کا ٹکڑا محلِ نظر ہے۔ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ افتادگی اس واسطے ہمارا نصیب ہے کہ زمانے کے گڑھے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔

یہ غزل کے ان چند شعروں میں سے ایک ہے جن میں ردیف کا درست، بامعنیٰ اور فصیح استعمال ہوا ہے۔ ورنہ زیادہ تر ردیف کو وہ معانی دینے پر مجبور کیا گیا ہے جو محاورے کے مطابق اس کے نہیں۔
کوئی کے بارے میں ظہیرؔ بھائی درست فرما رہے ہیں۔ یہ حشوِ ملیح تو نہیں مگر اس کے آس پاس کی شے ہے۔ معمولی سے رد و بدل سے شعر بہتر ہونے کا واقعی امکان ہے۔ استفہام کے حوالے سے البتہ مجھے ان سے اختلاف ہے۔ شعر میں مخفی یا ظاہر استفہام اس کے حسن کو ہمیشہ مثبت یا ادعائی اظہار کی نسبت کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

گردوں شگاف۔۔۔ واہ!


شعر مکمل تو ہے مگر تھوڑی دیر لگے گی اس طرح اسے سمجھنے میں۔ اور اس معاملے میں میرا مسلک اب غالبؔ کی بجائے داغؔ والا ہے۔ یعنی خیال کا خنجر بھلے کند ہو، شاعر کا کمال یہ ہے کہ قاری کے ہوش سنبھالنے سے پہلے اس کے سینے میں گھونپ دے۔
---
میں رائے زنی میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں۔ امید ہے برا نہیں لگا ہو گا۔
دو تین باتیں اور بھی کہنی ضروری ہیں۔ میں نے دو ایک بار تمھاری اور عبداللہ کی نسبت یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ تم لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے زندگی میں شاعری کی پہلی کتاب غالبؔ کی خریدی تھی اور اسے سمجھنے کے جنون نے میری طبیعت اور کلام پر کم و بیش وہی اثرات مرتب کیے تھے جو آج تم لوگوں میں دیکھتا ہوں۔ مجھے اپنے شاعرانہ قد اور مستقبل کا علم نہیں مگر اپنی بابت ہر انسان خواب تو دیکھتا ہے۔ اور جب اسے اپنے جیسے دیوانے دو چار اور مل جائیں تو وہ خواب مل کر دیکھے جاتے ہیں اور تقویت پکڑی جاتی ہے۔
اسی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تم پر غالبؔ کے جو اثرات ہیں وہ ذوقِ سلیم کی بدولت تا دیر نہیں رہیں گے۔ مگر انھیں دانستہ دور کرنے کی ضرورت نہیں۔ وقت خود مناسب سبق پڑھائے گا۔ اور جو غالبؔ کا شاگرد رہا ہو اس سے بہتر مستقبل کے ان اسباق کو کون سمجھ سکتا ہے۔ شکر ہے تم عصرِ حاضر کے اکثر نابغوں کی طرح جونؔ کے اسیر نہیں ہوئے۔ ورنہ ناقابلِ علاج ہو جاتے!
تمھاری فکری روش پر تو میں بہت خوش ہوں۔ اسلوب کا معاملہ یہی ہے کہ ابھی تم اس کی قدر کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اردو اور فارسی کے جن نابغوں نے تمھیں متاثر کیا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ تم زبان و بیان کی طرف وہ توجہ ابھی نہیں دو گے جس کے یہ حق دار ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شعور بھی بیدار ہو جائے گا۔ سفر ہے شرط۔۔۔!
میں نے اوپر تمام آرا ایک خاص تناظر میں دی ہیں۔ یعنی یہ کہ میں ریحان کی غزل پر رائے دے رہا ہوں اور یہ کہ میں رائے دے رہا ہوں۔ کسی اور کی غزل ہوتی تو یہ تنقید بالکل مختلف اور شاید زیادہ معروضی ہوتی۔
---

میں اتنا بڑا شاعر ہو گیا ہوں کہ تم میرا مصرع لکھو؟ اور وہ بھی بغیر حوالے کے؟
ابھی ابھی امتحان دے کر آیا تھا تو فورم پر حاضری دی۔
اس غزل پر آپ کی تنقید پڑھ کے میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں :excruciating:
دعا ہے کہ اللہ آپ کے علم میں مزید برکت دے۔۔۔اور ہمیں اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے۔۔
 
Top