ضیاءالقمر

محفلین
ز دیوانگی تاکی اے شور بخت
نہی در گزر گاہ سیلاب رخت
غالبؔ
اے بد نصیب ،تم کب تک دیوانے پن سے۔سیلاب کی راہ میں اپنا سامان رکھتے رہو گے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
ہست در کوئے تو ہر ساعت تماشائے دگر
مردن آنجا بہ کہ بودن زندہ در جائے دگر


کاتبی نیشاپوری

تیرے کوچے میں ہر دم ایک دوسرا ہی نظارہ ہوتا ہے، (لہذا) وہاں مرنا، کسی دوسری جگہ زندہ رہنے سے (بہت) بہتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
روزِ عمر است به شام آمده و من چو شفق
غرقِ خونم که شبِ غم به سحر می‌نرسد
(خاقانی شروانی)

[میری] عمر کے روز کی شام ہو گئی ہے، اور میں شفق کی مانند خون میں غرق ہوں کہ [میری] شبِ غم کی سحر نہیں ہوتی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قاصد رسید و نامه رسید و خبر رسید
در حیرتم که جان به کدامین کنم نثار
(نامعلوم)

قاصد پہنچا، نامہ پہنچا اور خبر پہنچی۔۔۔ میں حیران ہوں کہ جان کس پر نثار کروں؟

× لغت نامۂ دہخدا میں اِس شعر کی یہ شکل درج ہے:
نامه رسید و مژده رسید و خبر رسید
در حیرتم که جان به کدامین فدا کنم

نامہ پہنچا، مُژدہ پہنچا اور خبر پہنچی۔۔۔ میں حیران ہوں کہ جان کس پر فدا کروں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
رفت عمرم در غریبی بر بساطِ روزگار
گرچہ ہمچوں مہرۂ شطرنج دارم خانہ ہا


غنی کاشمیری

اِس دنیا کی بساط پر میری ساری زندگی بے وطنی میں گزر گئی، اگرچہ شطرنج کے مہروں کی طرح میں کئی ایک گھر رکھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آپ حضرات نے تو کمال ہی کر دیا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کے لئے فارسی شاعری کا ایسا ذخیرہ ترجمے کے ساتھ فراہم کر دیا ہے کہ دل سے دعایئں نکل رہی ہیں۔ میں نے یہ تمام صفحات دیکھےہیں۔ ایک غزل تلاش کرتا رہا نظر نہیں آئی۔ ہو سکتا ہے میری کوتاہی ہو۔ رودکی کی غزل ۔ بوئے جوئے مولیاں آید ہمے۔ یاد یار مہرباں آید ہمے۔ اگر کوئی محترم دوست اس غزل کو ترجمے کے ساتھ لگا دیں تو بہت مشکور ہوں گا۔
بوی جوی مولیان آید همی
یاد یار مهربان آید همی
ریگ آموی و درشتی راه او
زیر پایم پرنیان آید همی
آب جیحون از نشاط روی دوست
خِنگ ما را تا میان آید همی
ای بخارا شاد باش و دیر زی
میر زی تو شادمان آید همی
میر ماه است و بخارا آسمان
ماه سوی آسمان آید همی
میر سرو است و بخارا آسمان
سرو سوی بوستان آید همی
(رودکی سمرقندی)


ترجمہ:
جُوئے مولیاں کی بوئے خوش آ رہی ہے؛ یارِ مہرباں کی یاد آ رہی ہے۔
دریائے آمو کی ریگ اور اُس کی راہ کی سختی و ناہمواری میرے پاؤں کے زیر میں حریر کی طرح نرم و لطیف محسوس ہوتی ہے۔
چہرۂ یار کے دیدار کی خوشی میں آبِ دریائے جیحون ہمارے اسپ کی کمر تک بالا آ رہا ہے۔
اے بخارا! شاد رہو اور دیر تک جیو؛ امیر تمہاری جانب شادمان آ رہا ہے۔
امیر ماہ ہے اور بخارا بوستان؛ ماہ آسمان کی جانب آ رہا ہے۔
میر سَرو ہے اور بخارا بوستان؛ سَرو بوستان کی جانب آ رہا ہے۔


× 'مُولیان' کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ در اصل 'مَوْلیان' تھا جو خود 'موالیان' کی مُحرَّف عامیانہ شکل تھی۔ یہ شہرِ بخارا کے خارج میں ایک خوش آب و ہوا مقام پر واقع ایک محلہ تھا جسے امیر اسماعیل سامانی نے اپنے موالی، یعنی آزاد کردہ غلاموں کے اختیار میں دے دیا تھا اور اُس محلّے کے جوار میں شہر کے دیگر اشراف کے بھی خانے، باغات اور قصر تھے۔ یہ محلّہ اپنی خوش آب و ہوائی کے باعث مشہور تھا۔ یہ بھی خواننے (پڑھنے) میں آیا ہے کہ 'جُوئے مولیان' سے کسی جُو و نہر کی جانب اشارہ نہیں ہے، بلکہ یہ اُس محلّے ہی کا نام تھا۔ واللہ اعلم!
× خِنْگ = اسپِ سفید
× 'آمو' اور 'جیحون' ایک ہی دریا کے دو نام ہیں۔
× 'درشتی راه او' کی بجائے 'درشتی‌های او' بھی ملتا ہے۔
 
آخری تدوین:

ضیاءالقمر

محفلین
اے دل از گلبن امید نشانے بمن آر
نیست گر تازہ گلے برگ خزانے بمن آر

٭٭٭
غالبؔ
لغت: "گلبن="پھولوں کی کیاری ۔چمن۔
اے دل! گلبن امید کی کچھ تو نشاندہی کر۔اگر باغ امید سے کوئی تازہ پھول میسر نہیں آتا تو کوئی خزاں زدہ پتا ہی اُٹھا لا۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
تو آنی آنکہ نشانی بجاے رضوانم
مرا کہ محو خیالم ز کارو بار چہ حظ
٭٭٭
غالبؔ
تیری ذات وہ ہے کہ جو مجھے رضوان کی جگہ پر بھی بٹھا سکتی ہے لیکن میری یہ حالت ہے کہ میں اپنے خیالات میں محو ہوں مجھے اس کاروبارِ بے معنی سے کیا فائدہ۔
رضوان باغ جنت کے پاسبان فرشتے کو کہتے ہیں۔جہاں وہ نیک لوگوں کو فردوس میں جانے کی اجازت دیتا ہےلیکن ایک ایسا انسان جو ان تمام امور سے بے نیاز ہو اُسے اس بلند مرتبے سے کیا غرض ۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
بیار جام اناالحق شراب منصوری
در این زمان که چو منصور زیر دار توام
(مولانا رومی)

اس وقت میں جب کہ میں منصور بن حلاج کی مانند تیرے دار (پھانسی کا پھندا) کے نیچے ہوں ، اناالحق کا جام اور شرابِ منصوری لا!
 

محمد وارث

لائبریرین
بکنجِ قناعت گرت راہ نیست
ز دیوانگاں رہنمائی طلب


عبید زاکانی

اگر تجھے قناعت کے گوشے کی راہ نہیں ملتی اور وہاں تک تیری رسائی نہیں ہے تو پھر دیوانوں سے رہنمائی لے لے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
ہمرھاں در منزل آرامیدہ وغالب ز ضعف
پا بروں نا رفتہ از نقش کفِ پایم ہنوز

٭٭٭
غالبؔ
میرے ہمراہ چلنے والے تو منزل پر پہنچ کر آرام کر رہے ہیں اور غالب! میرا پاؤں ضعف کی وجہ سے ابھی نقش سے الگ نہیں ہوا (باہر نہیں آیا)۔لوگ منزل پر پہنچ گئے اور میں نے ابھی پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا۔
نقش پا جن کے سہارے آگے بڑھنا تھا انہی پر پاؤں دھرے کھڑا راستے کو دیکھتا ہوا رہ گیا ہوں۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
حفظِ اسباب عالَمِ اسباب را باشد ضرور
بی‌عصایی سرنگون در چاه آرَد کور را
(حاجی حُسین کنگُورتی)

عالَمِ اسباب کے لیے اسباب کی حفاظت ضروری ہے؛ بے عصائی شخصِ نابینا کو چاہ میں سرنِگوں گرا دیتی ہے۔
× عالَمِ اسباب = دنیا و مافیہا
× چاہ = کنواں
 
بیار جام اناالحق شراب منصوری
در این زمان که چو منصور زیر دار توام
(مولانا رومی)

اس وقت میں جب کہ میں منصور بن حلاج کی مانند تیرے دار (پھانسی کا پھندا) کے نیچے ہوں ، اناالحق کا جام اور شرابِ منصوری لا!
کہ اضافی لگ رہا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کہ اضافی لگ رہا ہے۔
'کہ' سے مصرعے کے معنی میں ذرا سی تبدیلی آئی ہے۔ 'در این زمان چو منصور زیرِ دارِ توام' کا ترجمہ ہو گا: میں اِس وقت منصور کی طرح تمہارے دار کے نیچے ہوں۔ لیکن 'کہ' کا اضافہ کرنے کے بعد 'در این زمان که چو منصور زیرِ دارِ توام' کا ترجمہ یہ ہے: اِس وقت کہ جب میں منصور کی طرح تمہارے دار کے نیچے ہوں۔

پہلی صورت میں شعر کا مفہوم یہ ہو گا:
میرے لیے اناالحق کا جام اور منصوری شراب لے آؤ؛ میں اِس وقت منصور کی طرح تمہارے دار کے نیچے ہوں۔
اِس صورت میں دونوں مصرعے متوازی ہوں گے۔

دوسری صورت میں شعر کا مفہوم یہ ہے:
میرے لیے اِس وقت اناالحق کا جام اور منصوری شراب لے آؤ۔۔۔۔ اِس مذکورہ وقت میں یہ ہو رہا ہے کہ میں منصور کی طرح تمہارے دار کے نیچے ہوں۔
اِس صورت میں دونوں مصرعوں کے درمیان ارتباط میں افزونی آ جاتی ہے، کیونکہ شاعر 'اِس وقت' جامِ اناالحق اور شرابِ منصوری لانے کی درخواست کر رہا ہے۔ شاعر نے مصرعِ اول میں دونوں چیزیں مانگی ہیں، جبکہ مصرعِ ثانی کی ابتداء میں وہ زمانہ بتایا ہے جب وہ یہ چیزیں چاہ رہا ہے۔

وزن سے قطعِ نظر، دونوں صورتیں اور اُن کے مفاہیم درست ہیں۔ 'کہ' کے استعمال سے صرف ذرا سی باریک معنائی تبدیلی آ جاتی ہے، جسے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شنیده‌ام به تو می‌گفت دوش بدخواهی
که خوب نیست که مظهر در انجمن باشد
(میرزا مظهر جانِ جانان دهلوی)

میں نے سنا ہے کہ گذشتہ شب ایک بدخواہ تم سے کہہ رہا تھا کہ مظہر کا [تمہاری] انجمن میں ہونا خوب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلش به ما عجمی‌زادگان بُوَد مایل
اگرچه لیلیِ صحرانشینِ ما عربی‌ست
(صائب تبریزی)

اگرچہ ہماری صحرانشیں لیلیٰ عربی ہے، [لیکن] اُس کا دل ہم عجمی زادوں پر مائل ہے۔
 
تو تنها می توانی آخرین درمانِ من باشی
و بی شک دیگران بیهوده می جویند تسکینم
(محمد علی بهمنی)

تو میرا تنہاآخری درمان بن سکتا ہے اور بےشک باقی لوگ بےفائدہ میری (وجہء) تسکین تلاش کررہے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز مے ایں مایہ مستی ہا نمی آید مگر شبلی
نگاہِ مستِ ساقی ریخت چیزے در قدح ما را


علامہ شبلی نعمانی

اے شبلی، صرف مے سے اس قدر زیادہ مستیاں نہیں آتیں یقیناً ساقی کی مست نظروں نے ہمارے لیے ہمارے جام میں کوئی چیز ملا دی تھی۔
 
Top