در میانِ آتش و خون، ای وطن، من با توام - ایرانی گلوکارہ رُزیتا یوسفی (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
متن:
در میانِ آتش و خون، ای وطن، من با توام
ور بباید گفت ترکِ جان و تن، من با توام
گر بهارستانِ شوقی یا خَزانستانِ غم
مصلحت‌جویی نمی‌آید ز من، من با توام
ذکرِ پیدا و نهانم داستانِ مِهرِ توست
تا جهان داند که در سِِرّ و عَلَن من با توام
گر بر اوجِ آسمانم یا حضیضِ خاک‌دان
هر کجا بینی درین دیرِ کهن، من با توام

نالهٔ مرغ اسیر این همه بهرِ وطن است
مسلکِ مرغِ گرفتارِ قفس همچو من است

ترکِ مادر کَی تواند گفت فرزندِ شریف
ای گرامی مادرِ من، ای وطن، من با توام


شاعران: یدالله بهزاد کرمانشاهی؛ 'نالهٔ مرغِ اسیر' والا شعر عارف قزوینی کا ہے۔

ترجمہ:
آتش و خون کے درمیان، اے وطن، میں تمہارے ساتھ ہوں؛ اور اگر جان و تن کو بھی ترک کرنا لازم ہو تو بھی میں تمہارے ساتھ ہوں۔
خواہ تم بہارستانِ شوق ہو یا خزانستانِ غم۔۔۔ مجھ سے فائدہ جوئی نہیں ہوتی، میں تمہارے ساتھ ہوں۔
میرا ذکرِ پیدا و نہاں تمہاری محبت کی داستان ہے، تاکہ دنیا جان لے کہ میں پنہاں و آشکارا میں تمہارے ساتھ ہوں۔
خواہ میں اوجِ آسمان پر ہوؤں، یا پستیِ خاک دان پر۔۔۔ اِس دیرِ کہن میں جہاں بھی دیکھو گے، میں تمہارے ساتھ ہوں۔

مرغِ اسیر کے یہ تمام نالے وطن کی خاطر ہیں؛ مرغِ گرفتارِ قفس میرا ہم مسلک ہے۔

فرزندِ شریف [اپنی] مادر کو کب تَرک کہہ سکتا ہے؟ اے گرامی مادرِ من، اے وطن، میں تمہارے ساتھ ہوں۔



× گلوکارہ نے دورانِ‌ خوانِش دو شعروں کے مصرعوں کو خلط ملط کر دیا ہے۔ میں نے متن میں اصلی شکل کو برقرار رکھا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top