مکمل ن ۔ م۔ راشد: صوت ومعنی کی کشاکش از شمس الرحمان فاروقی

فرخ منظور

لائبریرین
ن ۔ م۔ راشد: صوت ومعنی کی کشاکش
’’لا= انسان‘‘ کے آئینے میں
شمس الرحمان فاروقی
(ن۔م۔راشد: ۱۹۱۰ تا ۱۹۷۵)
ابناے وطن کی نظروں میں مطعون تو بے چارہ اردو کا نقاد ہے کہ جس شاعر پر قلم اٹھاتا ہے توصیفی کلمات کا انبار لگادیتا ہے۔ یا دشنام طرازیوں کا وہ رنگ دکھاتا ہے کہ ملاح پانی مانگنے لگیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ توصیفی کلمات کے انبار لگانے یا غیر متعین معنی رکھنے والے تعمیمی الفاظ کے دریا بہانے کا فن اس وقت مغربی تنقید نگاروں نے بھی اپنا رکھا ہے۔ Poetry Review کے ایک حالیہ پرچے میں ایک صاحب نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ ٹی۔ ایس۔ الیٹ(T. S. Eliot) کے بعد ڈیوڈ جونز(David Jones) ہمارا عظیم ترین شاعر ہے ۔اب یہ اور بات کہ ان جونز صاحب کا نام ان کی یونیورسٹی کے باہر کوئی نہ جانتا ہوگا۔ اسی شمارے میں ایک اور صاحب نے کہا کہ جارج بارکر(George Barker) ایک عظیم شاعر ہے ۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ بارکر مترجم ضرور بہت اچھا ہے، لیکن ترجمے کے باہر اس کا کچھ خاص کارنامہ نہیں۔ہاں، سنا گیا ہے کہ وہ جھگڑالو بہت ہے۔اور اسی شمارے میں نئے ناراض نوجوانوں کے فلسفی کالن ولسن (Colin Wilson)نے ایک عظیم الدین ٹائپ کے مکتبی شاعر اے۔ایل ۔راؤز (A. L. Rowse)کی تعریف میں کئی صفحے سیاہ کئے ہیں۔ دوسری طرف دیکھئے تو ایک اہم امریکی رسالے میں مضمون نگار نے مشہور ناول اور ڈراما نگار ژاں ژنے(Jean Genet) پر پچاس صفحے کا مقالہ لکھا ہے لیکن ساری مہابھارت پڑھ جانے پر بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کرشن مرد تھے کہ عورت۔ ادھر فرانس میں میشیل بتور (Michel Butor)جیسے سمجھ دار آدمی نے زولا(Emile Zola) پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں عجیب عجیب علامتی معنویتیں تلاش کی گئی ہیں اور روے سخن اس طرف ہے کہ چونکہ زولا نے اہم انسانی مسائل پر لکھا ہے اس لئے وہ اہم ناول نگار بھی تھا۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
محمد حسن عسکری مغربی تنقید کے اس طریق کے مخالف ہیں جس میں کسی تخلیق کا بغور مطالعہ کرکے اور صرف اس تخلیق کے دائرے میں رہ کر اس کے الفاظ کے مفاہیم و نکات سے بحث کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرز تنقید نے منطقی اثبات پرستوں(Logical Positivists) کے (نسبتاً) سطحی اور کم کوش فلسفے سے جنم لیا تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ منطقی اثبات پرستی کی تنگ جبینی جو ابن رشد سے لے کر وٹگنشٹائن(Wittgenstein) تک سب کو اپنی گرفت میں لئے رہی، نقاد کو آفاقی تناظر سے محروم کردیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کم زور یا گھٹیا یا سطحی تنقید کی جو مثالیں میں نے اوپر نقل کیں وہ منطقی اثبات پرستی کے زیر اثر ظہور میں آنے والے مختلف مکاتب نقد سے انکار کا فطری نتیجہ ہیں، کیوں کہ ہیئتی یا لفظی نقاد (چاہے وہ ایمپسن(William Empson) کی طرح انتہاپسند ہو، یا بروکس(Cleanth Brooks) کی طرح محتاط، یا الیٹ (Eliot)کی طرح معلم اخلاق)(۱)کچھ نہ کچھ تو نکال ہی لاتا ہے، لیکن وہ نقاد جوموضوعات اور اقدار یا جذبات یا انکار کے بل بوتے پر شعر کی تعین قدر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاذونادر ہی کارآمد تنقید کرپاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب اس قسم کی تنقید واقعی اچھی ہوتی ہے تو شعر فہمی اور شاعر فہمی کی انوکھی راہیں کھلتی ہیں لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ محض موضوع کے حوالے سے شعر کی تنقید تعمیم اور افراط و تفریط کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بنیادی حیثیت سے تمام شاعری میں چند ہی مخصوص موضوعات ہیں اور ہر شاعر ان کا اعادہ اپنے اپنے تجربے کے حوالے سے کرتا ہے۔
لہٰذا ن۔ م۔ راشد پر لکھتے وقت میرا مقصد یہ ہے کہ میں ان کے یہاں شاعرانہ اظہار کی ان صداقتوں کو ڈھونڈوں جن کے ہی ذریعہ شاعری اور غیر شاعری میں تفریق ہے۔ اسلوب کے سلسلے میں بات کرتے وقت ہمارے نقادوں کی نارسی کا باعث دراصل یہی ہے کہ وہ شاعرانہ اظہار کی صداقتوں کو ڈھونڈنے کے بجاے اپنے موضوعی تعصبات کا انعکاس شاعر میں ڈھونڈتے ہیں۔مثلاً مجتبیٰ حسین کا یہ الزام کہ ن۔م۔ راشد کے یہاں ’’ناسخیت‘‘ پائی جاتی ہے اسلوب شناسی کی ناکامی کی ایک اچھی مثال ہے ’’ناسخیت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اگر عربی فارسی کے بھاری بھاری الفاظ کا استعمال ہی ناسخیت کا مابہ الامتیاز ہے تو یہ ناسخیت، خود ناسخ سے زیادہ غالب اور اقبال میں نظرآتی ہے۔میر بھی اس سے قطعاً مبرا نہیں ہیں (۲)۔ دراصل ناسخ کی کمزوری یہ ہے کہ ان کے یہاں اصلی تجربہ کا فقدان ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہماری شاعری میں رسوم Conventionsکو اتنا دخل رہا ہے کہ حقائق کا تخیلی تجربہ کئے بغیر بھی محض رسوم کے سہارے شاعری ممکن تھی اور ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ محض رسوم کے سہارے کہا ہوا شعر ممکن ہے خاصا کام یاب بھی ٹھہرے لیکن اہم اور معنی خیز نہیں ہوسکتا۔ ناسخ کا حقیقی فقدان اہمیت اورمعنی خیزی کا فقدان ہے۔ ’’نرم‘‘ اور ’’شاعرانہ‘‘ الفاظ کا فقدان نہیں۔
دوسری طرف دیکھئے تو سلیم احمد نے راشد کے یہاں جنسی موضوعات کے برتاوے Treatmentمیں تدریجی ارتقا اور بڑھتے ہوئے بلوغ کی نشان دہی کی ہے۔ میں سلیم احمد کے تجزیہ کی صداقت سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا نقطۂ نظر اصلاً تنقیدی نہیں ہے۔ یہ قطعاًممکن تھا کہ جنسی مسائل و موضوعات کی طرف راشد کے رویہ میں جرأت مندی اور صداقت پرستی کی بتدریج بڑھتی ہوئی آمیزش کے باوجود ان کی شاعری نہایت لچر رہتی۔ میں نارمن میلر(Norman Mailer) کو محض اس بنا پر بڑا ناول نگار تسلیم نہیں کرسکتا کہ اس نے جنسی موضوعات پر جو کچھ لکھا ہے بلا رورعایت لکھا ہے۔ مغرب میں موجود تنقیدی فیشن (جس کا ذکر میں شروع میں کرچکا ہوں) کے مطابق دَ سا د (Marquis de Sade)کے ناول Justine کو محض اس وجہ سے ایک اہم ادبی کارنامہ ٹھہرایا جارہا ہے کہ اس کو پڑھ کر جنسی انحراف اور اس کے نفسیاتی و جسمانی اظہار کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے۔مشہور فحش ناول فینی ہل (Fanny Hill)کی شہرت بھی تقریباً انھیں بنیادوں پر قائم کی گئی ہے۔ حالانکہ اگر یہی سب باتیں کسی تحریر کی عظمت پر دال ہیں تو پھر کنسی رپورٹ Kinsey Report کیا بری ہے۔
ورڈز ورتھ (Wordsworth)کے اس جملے کے متعلق کہ ’’ان نظموں میں جو صورت حال بیان کی گئی ہے وہ اہم نہیں ہے بلکہ وہ محسوسات اہم ہیں جو اس صورت حال سے متعلق ہیں ،‘‘ جان کیسی (John Casey)نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ مابعد کی مغربی تنقید میں غلط خیالیاں دراصل اسی جملے سے شروع ہوتی ہے ۔ اگرچہ ورڈز ورتھ نے یہ بات اپنی نظموں کے حوالے سے کہی تھی جن میں انگریزی شاعری کے روایتی ’’مہذب‘‘ یا ’’پرعظمت‘‘ موضوعات سے احتراز کرکے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات یا معمولی افراد کوموضوع بنایا گیا تھا، لیکن اس کلیہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ شعر میں موضوع اس لئے اہم ہے کہ اس کے ساتھ کسی مخصوص جذبے یا احساس کا الحاق ہوتا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ جس جذبے کا الحاق شاعر نے موضوع کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے تو ہم جھٹ یہ کہہ دیں گے کہ یہ شعر فضول ہے اور چونکہ موضوع ، جذبہ اور اسلوب کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا اس لئے نقاد پر یہ بھی لازم آیا کہ اگر شعر کا اسلوب اس کے گلے سے نہ اترے تو وہ اسے مطعون و مردود قراردے۔ لہٰذا ایک طرف تو انگریزی کے روایتی نقادوں نے ٹی۔ ایس۔ الیٹ کو خوب خوب گالیاں سنائیں، یہاں تک کہ مڈلٹن مری(John Middleton Murry) جیسے ثقہ نقاد نے بھی The Waste Land پر یوں اظہار خیال کیا:
اس نظم کو سمجھنے کی محض کوشش کے دوران قاری اس بات پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایک ذہنی شبہے کا سا رویہ اختیار کرے۔ یہ ذہنی شبہ شاعر کے محسوسات کی ترسیل کو ناممکن بنادیتا ہے۔ یہ نظم اچھی تحریر کے اولین اصول کومجروح کرتی ہے، یعنی یہ کہ اچھی تحریر کا فوری تاثر بالکل واضح اور غیر مبہم ہونا چاہئے۔
اور ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بلومز بری(Bloomsbury) کی زیر زمیں کوٹھریوں میں رہنے والوںکے زیرجامو ںکو، جو ان کی کھڑکیوں پر پڑے سوکھ رہے ہیں، شاعری کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان کے ایک معلم نقاد نے راشد کی نظموں میں ’’بڑھتے ہوئے ابہام‘‘ پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ راشد کی نظمیں اب جو پہلے کی طرح مقبول نہیں رہ گئی ہیں اورلوگوں کو ان کا ایک مصرع بھی یاد نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ راشد کی نظمیںاب زندہ مسائل سے گریز کرکے داخلی اور ذاتی مسائل کی تفتیش ایک انتہائی داخلی اور ذاتی اسلوب میں کرتی ہیں اور اس اسلوب تک رسائی ممکن نہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ ’’ایران میں اجنبی‘‘ اور ’’لا=انسان‘‘ کی نظمیں واقعی ویسی مبہم اور ناقابل فہم ہیں جیسا کہ ہمارے معلم نقاد نے فرض کیا ہے، بنیادی بات یہ ہے کہ اسلوب کی ناپسندیدگی کی بنا پر شاعری کوناکام ٹھہرانا اسی تنقیدی کم فہمی کا مظہر ہے جس کی طرف میں اشارہ کرچکا ہوں اور جس کا ایک نمونہ مری(Murry) کے یہاں ملتا ہے۔ ورنہ مبہم اسلوب کے بارے میں حرف آخر تو رچرڈس (I. A. Richards)نے کہہ ہی دیا ہے۔ مڈلٹن مری کا محولہ بالاقول نقل کرکے وہ کہتا ہے:
سچ تو یہ ہے کہ بہترین شاعری کا زیادہ تر جز اپنے فوری تاثر کے حساب سے غیر واضح اور مبہم ہوتا ہے۔ انتہائی توجہ سے پڑھنے والے اور انتہائی حساس قاری کو بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ نظم کو بار بار پڑھے اور خاصی محنت کرے، تب جاکرنظم صاف صاف اور غیر مبہم طریقے سے اس کے ذہن میں متشکل ہوتی ہے۔ مولک نظم ریاضی کی نئی شاخ کی طرح ہوتی ہے، وہ اسے قبول کرنے والے ذہن کو نمو کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اس میں وقت لگتا ہے جو شخص سوچ سمجھ کر اپنے بارے میں ایک مختلف صورت حال کا اعلان کرتا ہے، یا تو دیوتا ہے یا بے ایمان ، مڈلٹن مری نے غالباً جلدی میں یہ باتیںکہہ دی ہیں۔
خودراشد کے یہاں (غالباً) غیر شعوری طور پر رچرڈس کے اسی نکتے کی آواز بازگشت ملتی ہے، جب وہ ’’لا=انسان ‘‘میں شامل اپنے ایک مصاحبے میں کہتے ہیں:
۔۔۔جن لوگوں کو بعض پیچ درپیچ واردات کے اظہار میں اظہار اورنارسائی کی مشکلات سے سابقہ پڑا ہے۔ وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ ابہام یا نام نہاد ابہام سے شاعر کو مفر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ابہام ایک انسانی اصطلاح ہے۔۔۔ میرے خیال میں ابہام کو کم کرنے کاایک طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے والا یا نقاد اپنے جذباتی جمود کو کم کرے۔ ان کی وسعت کے راستے تلاش کرے۔مشکل کام ہے؟ تو کم از کم اپنے ذہن کو نئی روشنی اور نئی ہوا لگنے دے۔ شعر کو محض لطیفہ یا چٹکلا سمجھنے سے پرہیز کرے۔ میراجی نے بھی ایک دیباچے میں ایسی ہی بات کہی ہے۔
کسی شاعرکے پورے کلام یااس کے کسی مجموعے پر تنقید کرتے وقت ہیئتی اور لفظی طریق کار کی ایک شکل سامنے آتی ہے۔ چونکہ مختلف نظمیں مختلف مطالبہ و مفاہیم کی حامل ہوتی ہیں، اس لیے پوری شاعری پر ایک عمومی حکم کیوں کر لگایا جائے؟ اس کا جواب یوں ہے: جب اسلوب شعر ہی نقد شعر کی اساس ٹھہرا تو ہمیں اسلوب کے وہ خواص ڈھونڈنے چاہئیںجو تمام یا بیش تر نظموں میں مشترک ہوں۔ یہ تلاش اگر کامیاب ہوجائے تو ایک نہایت صحیح تنقید وجود میں آسکتی ہے۔ مثلاً میں اگر یہ کہوں کہ ’’لا=انسان‘‘ میں جنسی موضوعات کے بجاے سیاسی موضوعات کی کثرت ہے اور ذاتی یا عشقیہ نظمیں بھی ایک بے نام رکاؤ سے بوجھل ہیں اور مجموعی حیثیت سے شاعر کا لہجہ ایک پر زور لیکن پرتفکر احتجاج کا ہے، تو کہا جاسکتا ہے یہ عناصر تو راشد کے ہم عصر دوسرے شعرا مثلاً فیض اور سردار جعفری کے یہاں بھی بہ آسانی تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ اگر فرق ہوگا تو لب و لہجہ کا ہوگا۔ لیکن بنیادی حیثیت سے بات وہی رہتی ہے۔ لہٰذا موضوعات کے حوالے سے کی گئی تعلیم چاہے وہ کتنی ہی خوش گوار معلوم ہو، نادرست ہونے کا خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ گم راہ کن بھی ہوسکتی ہے۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
راشد پر ’’ابہام‘‘ کا الزام اکثر لگایا گیا ہے۔ ایک صاحب کا تذکرہ میں اوپر کرچکا ہوں۔ کچھ نئے نقادوں نے اس مبینہ ابہام کو بہ نشاط خاطر قبول کیا ہے۔ معترضین کی نفسیات کووالیری (Paul Valery)نے خوب واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ جن چیزوں کو سمجھ نہیں پاتے ، انھیں نامفہوم کہتے ہیں اور جو چیزیں خود نہیں کرپاتے ان کو ناممکن گردانتے ہیں۔
ہمارے معلم نقاد جن کا کہنا ہے کہ راشد کی حالیہ نظمیں لوگوں کو یاد نہیں رہتیں کیوں کہ وہ مبہم ہیں، والیری کی بیان کردہ حقیقت کی پوری پوری عکاسی کرتے ہیں۔ جو نظمیں وہ نہیں سمجھ پاتے وہ ان کے لیے نامفہوم ہیں۔ اور جو اشعار انھیں یاد نہیں رہ پاتے وہ ان کی نظر میں حافظے کی قید سے آزاد ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کسی عبارت کا یاد نہ رہ جانا اس کے نامفہوم ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ اس کا نامفہوم ہونا حافظے کے لیے ممدومعاون ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا توہم غیر عربی دانوں کے لئے قرآن کا حفظ کرنا شاید بہت مشکل ہوتا۔
بہرحال یہ سب فروعی باتیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی راشد کا کلام اتنا ہی مبہم ہے جتنا کہ ہمارے بعض نقاد فرض کرتے ہیں؟ راشد خود کہتے ہیں کہ نقادوں نے ان کی نظموں میں ابہام کا خیرمقدم استعارے کے حوالے سے کیاہے درحالے کہ ان کے یہاں ابہام کی کارفرمائی کنایہ کی مرہون منت ہے۔ مغربی علم بیان میں کنائے یا اس کے مماثل کسی صفت کا وجود نہیں ہے ۔(اگر کنایہ کو صرف’’ الف‘‘ برابر’’ بے ‘‘کا اشارہ مانا جائے تو اسے تمثیل Allegoryیا آیت Emblemسے تعبیر کرسکتے ہیں جو استعارے سے کم تر درجہ کی چیز ہے۔ مشرقی علم بیان کنائے کو استعارۂ معکوس بتاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ استعارے میں (وجہ جامع کے محذوف ہونے کے علاوہ) لازم سے ملزوم کی طرف ذہن منعطف کیا جاتا ہے ،جب کہ کنایہ کا انسلا کی عمل ملزوم سے لازم کو راہ دیتا ہے۔مثلاً استعارہ:
زید شیر ہے
یہاں شیر کی بہادری (شیر کے) ملزوم کا حکم رکھتی ہے۔ بہادری (ملزوم) کا ذکر نہ کرکے لازم، یعنی شیر کا رشتہ مستعار لہ ٗ سے باندھا گیا ہے۔ کنایہ:
زید جہاں تھا وہاں خون ہی خون تھا
خون کا بہنا اس بات کی علامت ٹھہرسکتا ہے کہ زید نے ازراہ شجاعت دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگادیے اور ہر طرف خون ہی خون بہ نکلا۔ ہر طرف خون ہی خون ہونا ملزوم ہے جس کا ذکر کردیا گیا ہے۔لیکن شجاعت ،جولازم ہے، وہ مقدر چھوڑدی گئی ہے۔ یہاں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر طرف خون ہی خون ہونا زید کی شجاعت کے بجاے اس کے مظلوم یا مقتول ہونے پر دلالت کرسکتا ہے۔ اس صور ت میں بھی کنایہ فی نفسہٖ برقرار رہتا ہے لیکن مفہوم بدل جاتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کنایہ ،یعنی استعارہ ٔ معکوس، اصلی استعارہ کے مقابلہ میں زیادہ مبہم یعنی زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔ مغربی علم بیان استعارے اور کنایہ کے مشرقی امتیاز میں یقین نہیں رکھتا، جب کہ مشرق میں’’ استعارہ بالکنایہ‘‘ کی اصطلاح بھی مستعمل ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ راشد نے کنایہ کی اصطلاح کس مفہوم میں استعمال کی ہے۔ لیکن خود میرا خیال یہ ہے کہ ان کے یہاں نہ تو مغربی استعارہ یعنی استعارہ +کنایہ کی کارفرمائی غیر معمولی حد تک نظرآتی ہے اور نہ مشرقی استعارہ بالکنایہ کی ۔(میں استعارے کی اصطلاح کو مشرق و مغرب دونوں کے مفاہیم پر محیط کرکے استعمال کرتا ہوں۔) میں سمجھتا ہوں کہ استعارے کی ایک بڑی خوبی اس کا ایجاز ہوتی ہے۔ اس کی روشنی میں راشد کا یہ قول اگر سامنے رکھا جائے کہ ان کی بہت سی نظموںمیں کئی مصرعے محض فضا پیدا کرنے کے لیے لائے گئے ہیں تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ راشد کی نظموں کا ڈھانچا استعارے پر تعمیر کیا جاتا ہے۔ آئیے والیری کا سہارا پھر لیا جائے۔ وہ کہتا ہے :
اس حساب سے لکھنا چاہئے کہ اس کا خلاصہ ممکن نہ ہو ۔ ہیئت کا راز یہی ہے۔ وہ چیز جس کا خلاصہ کرنا ممکن ہو مردہ ہے۔
اگرچہ میں والیری کی انتہاپرستانہ حد تک جانا پسند نہ کروںگا لیکن مجھے اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ واقعی مبہم شاعری میں فضا خلق کرنے والے مصرعے از خود حذف ہوجاتے ہیں۔ فضا خلق کرنے کی خاطر لائے گئے مصرعے جو نظم کے داخلی ڈھانچے سے اصلاً مربوط نہیں ہوتے، کم درجہ کے قاری کو تواس دھوکے میں ڈال سکتے ہیں کہ یہ نظم مبہم ہے۔ سنجیدہ اور مشاق قاری ایسے مصرعوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور انہیں شعر فہمی کی راہ میں حائل نہیں پاتا۔
فضا بنانے کی خاطر لائے گئے مصرعے کس قسم کی فضا خلق کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ معنوی فضا تو ہونہیں سکتی، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو نظم سے ان کا فطری اور اصلی ربط ثابت کرنا آسان ہوتا۔ تو کیا پھر یہ کہا جائے کہ راشد نے ایسے مصرعے محض ایک صوتی فضا قائم کرنے کے لیے نظموں میں داخل کئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو صوتی فضا سے کیا مراد ہے؟ میں ایک پچھلے مضمون میں دکھاچکا ہوں کہ کسی مجرد صوتی نظام کی کوئی شاعرانہ قیمت نہیں ہوتی۔ صوتی نظام کی شاعرانہ قیمت اس معنوی نظام کی تابع ہوتی ہے جو الفاظ میں مضمر ہوتا ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں یہ کیوں کر کہا جاسکتا ہے کہ صوتی فضا قائم کرنے کی غرض سے لکھے گئے مصرعوں میں کوئی معنوی حوالہ نہیں ہوتا؟
اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ ایسی نظم دراصل دونظموں کا مرکب ہوتی ہے۔ ایک تو وہ جو معنی کی سطح پرخلق ہوتی ہے اور دوسری وہ جس میں معنی کی سطح صوت و آہنگ کے مقابلہ میں ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ والیری ہزار انتہاپرست سہی لیکن اس نے اس نکتے کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شعر سطح کاغذ پر کوئی وجود نہیں رکھتا۔ وہ صرف دو حالتوں میں اپنا وجود رکھتا ہے :ایک تو شاعر کے ذہن میں خلق ہوتے اور شکل پذیر ہوتے وقت ،اور دوسری جب وہ بہ آواز بلند پڑھا جائے۔ ظاہر ہے کہ صوت و معنی کی یہ تقسیم بہت درست نہیں ہے لیکن اس بات کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے کہ قرأت کے وقت شعر کی حیثیت مکتوبہ شعر سے مختلف ہوتی ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ شعر الصوت کی کوئی شکل اس وقت نمودار ہو جب معنی سازی کی مہم کے شانہ بہ شانہ صوت سازی کی مہم بھی چلائی جائے۔
شعر کے صوتی حسن کے بارے میں رچرڈس اور الیٹ کے خیالات میں دلچسپ مشابہت ملتی ہے۔ ایک ہی نظم میں شعر الصوت اور شعر المعنی کے بہ یک وقت وجود کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ان دونوں سے استفادہ کرنا مفید مطلب ہوگا۔ دونوں کے تصورات پر ایک اور جگہ میں نے مختصراشارے کئے ہیں۔ اب کچھ اور باتیںعرض کرتا ہوں ۔ رچرڈس کہتا ہے:
شعر پڑھتے وقت وہ خیال جومحض الفاظ کا تابع ہے (جسے ان کا ظاہری مفہوم کہا جاسکتا ہے) اولیت رکھتا ہے۔ لیکن دوسرے خیالات بھی کم اہم نہیں ہیں۔ یہ خیالات سامعہ پر اثرانداز ہونے والے لفظی پیکروں کے تابع ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آواز اور معنی کی وحدت والے الفاظ یا تسمیۂ تقلیدی Onomatopoeia بھی ہیں۔۔۔ لیکن مختلف نظمیں بنیادی حیثیت سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس بنا پر کہ (دوسرے خیالات پر مبنی) مزید تشریحات و تاثرات کی ضرورت ان میں کم تر حد تک ہوتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ (مثلاً) سوئن برن (A. C. Swinburne)میں صرف ظاہری مفہوم ہی مکمل ردعمل پیدا کردیتا ہے اور مزید غوروخوض کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہاںسوئن برن کا ایک بند نقل کرکے رچرڈس کہتا ہے:
یہاں (اس بند سے لطف اندوز ہونے اوراس کو سمجھنے کے لئے ) اس بات کا صرف ایک دھند لا تصورکافی ہے کہ یہ الفاظ کن خیالات کی قائم مقامی کرتے ہیں۔ ان الفاظ کو ایک دوسرے سے کسی قابل فہم رشتے میں پرونے کی ضرورت نہیں ہے۔
گویا ایسا شعر خلق کرنا ممکن ہے جس میں معنوی فضا ثانوی حیثیت کی حامل ہو۔ الفاظ کے سطحی مفاہیم کا صرف ایک دھندلا تصور ذہن میں ہو، (بلکہ الفاظ کے کوئی قطعی معنی بھی نہ ہوں۔) اور ان کے ساتھ پیچیدہ انسلا کات و تعبیرا ت کی کوئی دنیا وابستہ نہ ہو۔ جہاں تک سوال میرے اس نظریے کا ہے کہ ایک ہی نظم بہ یک وقت دونوں فضاؤں کی حامل ہوسکتی ہے، رچرڈس نے فوراً بعد ہی کچھ دلچسپ اشارے کئے ہیں۔ ہارڈی (Thomas Hardy)کا ایک بند نقل کرکے وہ کہتا ہے:
ان اور ان کے علاوہ اور بھی زیادہ انتہائی اختلاف کی مثالوں کے مابین صوت، گوظاہری مفہوم اور مزید تشریح و تاثر ،بہ الفاظ دیگر موضوع اور ہیئت کی تناسبی ا ور اضافی اہمیت میں اختلاف کا ہر درجہ ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ نقادوں کو ایک شوق، جس پر کم ہی لوگ قابو پاسکتے ہیں، یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ فرض کرلیں کہ (شعری) تجربہ کے ان مختلف اجزا میں کوئی صحیح تناسب ہوتا ہے اور جن نظموں میں وہ (مفروضہ) تناسب پایا جائے وہ ان نظموں سے عظیم تر یا بہتر ہیں جن میں ان اجزا کا تناسب مختلف ہے۔ [لیکن]ظاہری مفہوم اور صوت کے لئے شعر میں کوئی صحیح (یاعینی) مقام نہیں ہوسکتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی جانور کے لیے ایک اور صرف ایک صحیح اور عینی شکل نہیں ہوسکتی۔
چنانچہ کسی نظم میں صوت ومعنی کس تناسب سے رکھے جائیں، یہ معاملہ بالکل غیر قطعی ہے۔ یہ ہر نظم یا ہر شاعر کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔ اس بیان او رمیرے پچھلے نظریے میں (کہ شعرکی صوتی قیمت اس کی معنوی قیمت کی تابع ہوتی ہے) اصلاً کوئی تضاد نہیں ہے، اس وجہ سے کہ وہ شعر یا نظم میں جس میںصوتی فضا خلق کرنے پر زیادہ توجہ صرف ہوئی ہوگی، اس وقت تک اچھے شعر یا نظم کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اس میں معنی کی سطح کماحقہٗ موجود نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی جگہ معنی کا تناسب زیادہ ہو اور کسی جگہ کم۔ معنی جتنے پیچیدہ اور خوبصورت ہوں گے، آہنگ بھی اتنا ہی خوبصورت اور پیچیدہ ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیںہے کہ پوری نظم میںمعنی کی ایک ہی سطح برقرار رکھی جائے۔ راشد نے اکثر ایسا کیا ہے کہ نسبتاً کم پیچیدہ معنی رکھنے والے (یا رچرڈس کی زبان میں، صرف ظاہری مفہوم رکھنے والے ) الفاظ یا ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جن کے بارے میںہمیں صرف دھندلا سا احساس ہوتا ہے کہ یہ کن خیالات کی قائم مقامی کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ میں یہ مسائل والیری کے اس نظریے کی توسیع و تصدیق میں بیان کررہا ہوں کہ شعر صرف دو حالتوں میں وجود رکھتا ہے اور دوسری حالت وہ ہے جب اس کی بہ آواز بلند قرأت کی جائے۔ راشد کی تمام نظموں اور خاص کر ’’لا=انسان‘‘ کی نظموں پر تنقید اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب یہ نکتہ ذہن میں رکھا جائے ۔ یہاں پر رچرڈس کے اس خیال سے اختلاف کرنا بھی ضروری ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ایسے آہنگ جو نسبتاً کم پیچیدہ ہوں اگر کثرت سے استعمال کئے جائیں تو جس تیزی سے ان کی خوش گوار استعجابیت ختم ہوتی ہے، اسی تیزی سے سامعہ ان سے بیزار ہونے لگتا ہے یا وہ کثرت و تکرار کی وجہ سے بے جان معلوم ہونے لگتے ہیں۔ یا پھر وہ نیم مہذب موسیقی اور مصوری کی طرح خواب آور اور مسکن ہوجاتے ہیں۔ رچرڈس کا یہ خیال اس لئے درست نہیں ہے کہ وہ خود کہہ چکا ہے کہ آہنگ کی پیچیدگی معنی پر منحصرہوتی ہے۔ لہٰذا وہ مشینی ہتھ کنڈے جن کے ذریعہ خوش گوار استعجابیت، توقعاتی فضا اور تکرار کی لذت پیدا کی جاتی ہے، آہنگ کی اعلیٰ سطح پر خود بہ خود بے کار یا غیر ضروری ہوجاتے ہیں۔ اب الیٹ کو سنئے:
میں اس بات کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ شاعری کی موسیقی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کے معنی سے الگ وجود رکھتی ہو۔۔۔ ظاہراً کچھ مستثنیات بھی ہیں ۔ (یعنی) ایسی نظمیں بھی ہیں جن کی موسیقی ہم کو متاثر کرتی ہے اور ان کے مفہوم کا وجود ہم بالیقین فرض کرلیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بہت سی نظموں میں ہم مفہوم کی طرف توجہ دیتے ہیں اور ان کی موسیقی ہمیں خود بہ خود متاثرکرتی رہتی ہے، ہم اسے محسوس بھی نہیں کرتے۔
اس کے بعد ولیم مارس (William Morris)کی ایک نظم کے بارے میں الیٹ کہتا ہے:
یہ ایک مسرت انگیز (یعنی خوبصورت )نظم ہے، اگرچہ میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا مطلب کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ خود مصنف بھی اس کا مفہوم بیان نہ کرسکتا ۔ اس کا اثر ہم پر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے جیسا کہ منتر یا جادوئی کلمات کا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا صریحی مقصد( اور میرا خیال ہے کہ مصنف اس میں کامیاب ہے) یہ ہے کہ ایک خواب کا سا تاثر پیدا کیا جائے۔
دونوں بیانات میں خفیف سا تضاد ہے، یہ خیال رکھئے گا ۔ (ایک طرف تو ولیم مارس کی نظم میں معنی سے انکار، دوسری طرف یہ کہنا کہ موسیقی معنی سے الگ وجود نہیں رکھتی۔) لیکن بنیادی بات صحیح ہے: معنی سے الگ آہنگ کا وجود نہیں ہے، مگر ولیم مارس کی نظم میں معنی ثانوی اہمیت کا مالک ہے اور آہنگ کا پیدا کردہ تاثیر خواب اولین حیثیت رکھتا ہے۔ الیٹ اس بات کو آگے وضاحت سے کہتا ہے:
یہاں (یعنی اس مضمون میں) میرا مقصد اس بات پر اصرارکرنا ہے کہ موسیقیت سے لبریز نظم وہ نظم ہے جس میں صوت کا ایک موسیقیائی Musicalنظام ہو، اور ایک موسیقیائی نظام ان الفاظ کے ثانوی معنی کا ہو جن کی مدد سے وہ نظم بنی ہے اور یہ دونوں لاینفک اور بالکل ایک ہیں۔
آپ نے غور کیاکہ رچرڈس کے چوبیس برس بعد لکھنے والا الیٹ اپنے خیالات میں ذرا زیادہ ادعائی ہے لیکن کچھ ترمیمات کے باوجود الیٹ کا بھی نقطہ نظر اصلاً وہی ہے جو رچرڈس کا تھا۔ شعر کا آہنگ معنی کا تابع ہوتا ہے لیکن شعر الصوت ممکن ہے۔ یعنی ایسا شعر جس میں معنی، آہنگ کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہو۔
اس نسبتاً طویل لیکن شاید ضروری محاکمے کے بعد میں راشد (یعنی ’’لا=انسان‘‘ کے راشد) کی شاعری کے بارے میں ان نتائج کا اعادہ کرتا ہوں جو میں نے شروع میں پیش کئے تھے: راشد کا کلام مبہم نہیں ہے( یعنی مستعمل معنوں میں مبہم نہیں ہے) وہ اس وجہ سے کہ ان کے یہاں اکثر مصرعے فضا سازی کے لیے لائے گئے ہیں۔ فضا سازی کے ذریعہ جس قسم کا ابہام پیدا ہوتا ہے وہ اصلی ابہام نہیں ہے، کیوں کہ اصلی ابہام ایک قسم کا (اگر ارباب شریعت برا نہ مانیں) شاعرانہ مختصر نویسی (Short hand) ہوتا ہے، جس میں کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ سوالات اٹھائے اور (کبھی کبھی) حل کئے جاتے۔ دوسرے یہ کہ راشد کی شاعری اس وقت شعر الصوت اور شعر المعنی کی کشاکش کا نمونہ ہے، یعنی ان کے یہاں نظم بہ یک وقت دوسطحوں پر کام کرتی ہے جنھیں آسانی کے لئے صوت اورمعنی کی سطح میں کہا جاسکتا ہے۔ ان کی نظموں کی کامیابی زیادہ تر اس بات کی مرہون منت ہے کہ صوت کی سطح کس حد تک معنی کی سطح پر حاوی ہوگئی ہے۔ اگر یہ استیلا اس درجہ ہے کہ معنی کی ثانوی حیثیت کا احساس نہیں ہوتا تونظم کامیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن جب یہ استیلا اتنا بھرپور نہیں ہوپاتا تو معنی کی ثانوی اہمیت بالکل سامنے آجاتی ہے اور نظم کی کامیابی میں مختلف ہوتی ہے۔
اس اجمال کی مختصر تفصیل کے لیے میں ’’لا=انسان‘‘ کی دو نظمیں اٹھاتا ہوں: ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ اور ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘۔ اول الذکر میں معنی کی ثانوی اہمیت کا احساس بہت غور وفکر کے بعد ہی ہوسکتا ہے، جب کہ آخر الذکر میں معنی آہنگ کی الگنی پر جھولتا ہوا نظرآتا ہے اور نظم کومجروح کردیتا ہے۔ آخری تجزیے میں دونوں نظمیں متحدہ الموضوع ٹھہرتی ہیں کیوں کہ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں دراصل ایک ہی خواب ہے جو بار بار دیکھا گیا ہے: انسان مجروح و مضروب و مجبور ہے اور آزادی کا متمنی ہے۔ جدید تہذیب، روایت ، مشینی نظام، سیاست، سرمایہ دارانہ استحصال، یہ سب یا ان میں سے کوئی ایک جبرانسان کی تقدیر پر طاری ہے اور شاعر کو آرزو ہے کہ انسان پر سے یہ جبر اٹھ جائیں۔ ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ میں متذکرہ بالا تمام جبرمل کر ایک شکل اختیار کرلیتے ہیں، کبھی ان کو غم کہا گیا ہے اور کبھی آمر۔آمرہی غم ہے یا غم آمر ہے۔ اور خلقت پکارتی ہے کہ کب تک یہ بھاری بادل اس پر سایہ کئے رہے گا۔ اس طرح دونوں نظمیں احتجاج کی نظمیں ہیں ۔ دونوں میں احتجاج کرنے والی ہستی ایک ہی ہے۔ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں اس ہستی کی علامت شاعر ہے اور ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ میں خلقت۔ احتجاج کرنے والی ہستی خود بھی ایک علامت کہی جاسکتی ہے، انسانی ضمیر یا اس درد مند متفکر ذہن کی جو انسانی صورت حال پر غور کرتا ہے اور اسے کہیں بھی امیدکی کرن نظر نہیں آتی۔ جس حقیقت کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے وہ بھی ایک ہی ہے یعنی ایک بے چہرہ جبر جو اول الذکرنظم میں اپنی مختلف نقابوں کے ذریعہ پہچانا گیا ہے اور ثانی الذکر نظم میں اے کالے غم کی آنکھوں، میلے دانتوں اور گرجنے برسنے والے بادل سے استعارہ کیا گیا ہے۔ دونوں نظمیں مروجہ ترقی پسند فارمولے کی نفی کرتی ہیں، کیوں کہ مروجہ فارمولے کے بموجب ایسی نظموں کے وجود کا جواز Raison d'etre اسی وقت ہوسکتا تھا جب ان کا اختتام تمنائی یا دعائیہ یا پرتفکر رنجیدگی آمیز خاموشی یا استفہامیہ نہ ہوکر امید افزا اور ’’تسکین بخش‘‘ ہوتا، جیسا کہ فیض کی نظم میں ہے
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار طلسم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
وغیرہ۔ لہٰذا سطحی مماثلتوں پر زور صرف کرتے ہوئے محض اوصاف نگاری والی تنقید کی جائے جیسی کہ عام طور پر ہوتی آئی ہے تو ان دو نظموں میں سرمو فرق نظر نہیں آتا،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سطحی مماثلتوں کاذکر آیا ہے تو ان ظاہری ہتھ کنڈوں کا بھی ذکر کرلیا جائے جو راشد کی نظموں میںاوپری آرائش کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ یہاں بھی دونوں نظمیں ایک سی نظرآتی ہیں۔ ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ بظاہر ایک آزاد نظم ہے۔ لیکن پہلے مصرعے (اندھیرے میں یوں چمکیںآنکھیں کالے غم کی) کے علاوہ سب مصرعوں میں قافیہ ہے اور ایک استثنا کے علاوہ ہر جگہ تین تین ہم قافیہ مصرعوں کا گروہ ہے۔ پوری نظم میں رائے مہملہ کی کثرت سے تکرار ہے۔ آخری تین مصرعے یوں ہیں:
بستی والے بول اٹھے: ’’اے مالک! اے باری!
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری
کب ہوگا فرماںجاری ۔‘ ‘
قافیے میں پکار کی کیفیت اور آخری مصرعے کا اختصار قابل لحاظ ہیں۔ پہلے مصرعے میںلام (والے بول، مالک) اور تینوں مصرعوں میں کاف عربی (مالک، کب، تک، کا، کب) کی تکرار نے آہنگ میں ایک کھنک اور گونج پیدا کردی ہے۔ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں ہر بند کا تقریباً ہر مصرع قافیے میں بند ھا ہوا ہے۔ کہیں کہیں قافیہ، ردیف کے ساتھ ہے:
کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے
اجڑے ہوئے مذہب کے بناریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے
شیراز کے مجذوب تنک جام کے افکار کے نیچے
تہذیب نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے
زیادہ تر بند غیرمروف ہیں۔ صرف ایک اور بند مردف ہے، لیکن پہلے تین مصرعوں میں جو ردیف و قافیہ ہے وہ اگلے تین سے مختلف ہے۔ گویا تکرار کی یک رنگی کو طرح طرح سے توڑا گیا ہے۔ ’’اے عشق ازل گیر و ابد تاب میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کو کہیں کہیں بندوں کے آغاز میں دہرایا گیا ہے، لیکن کہیں ایک مصرعے کی شکل میں ، کہیں دو مصرعے بناکر۔ رائے مہملہ تو اس کثرت سے دہرائی گئی ہے کہ میر کی بہترین غزلیں بھی مات ہیں۔ اس کے علاوہ کاف عربی، لام ، میم اور نون بھی خوب استعمال ہوئے ہیں۔ نظم کا بنیادی وزن مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے، یعنی نظم کے تمام مصرعوں کی بنیاد اس وزن پر ہے۔ لیکن بہت کم مصرعے اس سانچے پر چڑھائے گئے ہیں۔ اگر زیادہ تر مصرعوں میں ایک یا دو ارکان بڑھاکر آہنگ کوطویل کیا گیا ہے اور لے کاری کی صفت پیدا کی گئی ہے تو کہیں کہیں رکن کم کرکے اچانک جھٹکادیا گیا ہے۔ اس پر بھی بس نہ کرکے کئی جگہ مستزاد کی قسم کے ٹکڑے لگادیے گئے ہیں۔
ان کے علاوہ بعض اور ہنرمندیاں اپنائی گئی ہیں جو اتنی آسانی سے نظر نہیں آتیں۔ مثلاً منقولہ بالا چار مصرعوں کو پھر دیکھئے: پہلے مصرعے میں اجداد، دوسرے میں اوہام، تیسرے میں تنک جام ، چوتھے میں آلام، مصرعوںکے بیچ میں لائے گئے ہیں۔ اصل قافیہ تو ’’اسمار‘‘ ہے اور ردیف ’’کے نیچے‘‘ ہے۔ لیکن اوہام،تنک جام، آلام، مزید قافیے کا حکم رکھتے ہیں۔ ’’مذہب‘‘، ’’شیراز‘‘، ’’مجذوب‘‘ میں ز کی آواز دہرائی گئی ہے۔ ’’مدفون‘‘ کے جواب میں ’’مجذوب‘‘ ہے اور ’’نگوںسار‘‘ کا ’’نگوں‘‘ بھی ایک حد تک اسی دائرے میں ہے۔ پوری نظم میں ایک طرح کا داخلی توازن اورآرائش کارفرما ہے۔ ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ میں بھی یہی سب ترکیبیں ہیں، لیکن یہ نظم چونکہ نسبتاً مختصر ہے اس لئے اس میں اتنی پیچیدگیوں کی گنجائش نہیں مل سکی ہے۔ درجے کے اس تفاوت کے علاوہ فنی ہنرمندی کے ظاہری اظہار میں دونوں نظمیں برابر ہیں۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ شعر الصوت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے اور ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ ناکام رہتی ہے؟ اس سوال کا حل ٹی۔ ایس ۔الیٹ کی زبان میں یوں ہے کہ یہ نظم ایک مخصوص کیفیت خلق کرتی ہے: نارسی، تمنا، امید، بے چارگی، پکار، احتجاج، ان سب کوملاکر ایک ہفت رنگ سی لکیر بنتی ہے جو نظم سے زیادہ خودقاری کو منور کرتی ہے۔ ’’عشق ازل گیر و ابدتاب‘‘ کون ہے؟ ہمیں اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی۔ ’’کالاغم‘‘ کون ہے؟ یہ ہم فوراً پوچھ بیٹھتے ہیں۔ کالے غم کی آنکھ اور میلے دانت جو اندھیرے میں چمک رہے ہیں ،پیکر خلق کرتے ہیں۔ اس لئے فوراً معنی کی طرف ذہن منتقل کرتے ہیں۔ آہنگ کے جس جھولے میں وہ جھول رہے ہیں اس کی پینگ اتنی دور نہیں جاتی کہ ہم پیکر کو بھول جائیں۔’’ ازل گیر و ابدتاب‘‘ عشق پیکر نہیں ہے، نیم استعارہ ہے۔ اس کے مفہوم کی حیثیت ثانوی ہے، اس کے آہنگ کی اہمیت اول ۔ دوسرے الفاظ میں ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں شعر الصوت کی سطح پر نظم اس لئے فوراً متشکل ہوجاتی ہے کہ اس میں صوتی فضا بنانے والے الفاظ اور مصرعے قدم قدم پر ملتے ہیں۔ ان کا ظاہری مفہوم آہنگ کے لیے جھولے کی پینگ کا کام کرتا ہے۔ ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘ صوتی فضا خلق کرنے والے الفاظ اور مصرعوں سے تقریباً عاری ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نظم ایک پابند، تجویز شدہ اسکیم کی طرح شروع اور ختم ہوجاتی ہے، جبکہ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں آہنگ ایک دَوریCyclicشکل اختیار کرلیتا ہے۔ آغاز یوں ہے:
اے عشق ازل گیروابدتاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے
پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
اے عشق ازل گیر و ابدتاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
ایک طرح سے دیکھئے تو نظم یہیں ختم ہوجاتی ہے، اس کے بعد جوکچھ ہے وہ آہنگ کا مد Crescendo اور جزر Diminuendo ہے جو ایک دوسرے میں مدغم ہوتا رہتا ہے۔ اولین مصرع ہی Diminuendoمیں شروع ہوتا ہے، اسی لئے اسے ایک مصرعے کی شکل دے دی گئی ہے ( جس کی وجہ سے آواز اونچی نہیں ہونے پاتی)۔ تیسری سطر سے آہنگ اوپر اٹھتا ہے، لیکن تیسری ، چوتھی اور پانچویں سطروں کو ایک سانس میں پڑھنا ہوتا ہے، ورنہ انھیں موزوں پڑھنا ممکن ہی نہیں۔ اس لئے پانچویں سطر کے ختم ہوتے ہوتے مد اچانک جزر تک جاپہنچتا ہے۔ اس کی تکرار اگلے بند میں یوں ہے:
اے عشق ازل گیر و ابدتاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیںکچھ خواب
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگی مرتبۂ و جاہ سے
آلودگی گرد سر راہ سے معصوم!
جو زیست کی بیہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
تیسری سطر سے مد شروع ہوتا ہے، لیکن اس کے پہلے کہ وہ پوری بلندی تک پھیلے، چوتھے مصرع کو توڑکر دو سطریں بنادیا گیا ہے۔ اور ایک اندرونی قافیہ(مرتبہ و جاہ، گرد سرراہ) مہیا کرکے جزر کی کیفیت شروع کی گئی ہے۔ آخر سطر کا مصرع مستزاد آہنگ کو بیچ ہی میں روک دیتا ہے، کیوں کہ اگلا بند پورا مد میں ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ معلوم ، معصوم، معدوم، تینوں قافیوں میں م۔ و۔ع مشترک ہیں۔ آہنگ سازی کا یہ انداز راشد کا مخصوص حربہ ہے، ورنہ ’’معدوم‘‘ کے بجاے’’ محکوم‘‘ یا ’’موہوم‘‘ کا جواز ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ بہرحال ،مصرع مستزاد کا مقطوع آہنگ اگلے بند کو اٹھاتا ہے، اسی لئے ندائیہ مصرعے کا پہلا ہی حصہ لایا گیا ہے:
اے عشق ازل گیروابدتاب
اے کاہن دانشور وعالی گہروپیر
یہاںاس نکتے کا اعادہ فضول نہ ہوگا کہ معنوی حیثیت سے یہ سارا بند نظم میں بہت کم اضافہ کرتا ہے۔ ازل گیر و ابدتاب کہہ دینے کے بعد کاہن اور دانش ور اورخواب کی تعبیر بتانے والا وغیرہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ سب کہے بغیر ازل گیروابد تاب کا آفاقی آہنگ وہ پراسرار عظمت نہ اختیار کرتا جس کے بغیر اس کو پکارنے کی سعی محض ایک فضول نمائش معلوم ہوتی۔ پوری نظم پیکرو استعارہ سے تقریباً معرا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ راشد پیکر سے تقریباً بالکل کام نہیں لیتے۔ وجہ ظاہر ہے۔ پیکر معنی کو فوراً اپنی طرف کھینچتا اور سمیٹتا ہے اور صورت کی طرف توجہ کو فوری طور پر منعطف نہیں ہونے دیتا۔ اس سلسلے میںاقبال کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ مثال کے طور پر ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ اور’’ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اقبال کی زبان جو عام طور پر پیکر سے مملو تھی ’’محراب گل افغان‘‘ کے حصہ ٔ ہفتم (اپنی خودی پہچان) اور ’’بیاض ‘‘ کے حصۂ اول (اے وادی لولاب) میں پیکر سے اس قدر عاری کیوں ہے؟ ’’محراب‘‘ پر ایک نظر ڈالئے: فوراً ہی یہ جگمگاتے ہوئے مصرعے دکھائی دیتے ہیں:
خاک تری عنبریں ،آب ترا تاب ناک (۱)
کہ اس کازخم ہے درپردہ اہتمام رفو(۲)
کیا چرخ کج رو، کیا مہر، کیا ماہ
سب راہ رو ہیں داماندۂ راہ (۳)
کڑکا سکندر بجلی کی مانند (۴)
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو (۵)
ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو (۶)
لیکن اے شہباز یہ مرغان صحرا کے اچھوت(۷)
ہیں فضاے نیل گوں کے پیچ و خم سے بے خبر (۸)
لیکن ساتوں حصے کا عالم دوسرا ہے:
رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندستان
تو بھی اے فرزند کہستان اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
یہ ساری نظم اسی طرح کے اچھلتے ہوئے آہنگ میں ہے۔ ایک ہی بات بار بار کہی گئی ہے، پیکر اور استعارے کا کہیں پتہ نہیں ہے۔ ’’ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ پیکروں سے اس درجہ معرا نہیں ہے :
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بے تاب
اے وادی لولاب
لیکن یہ پیکر نہایت معمولی اور روایتی ہیں۔ ’’آب ترا تاب ناک‘‘میں’’ آب‘‘ اور ’’تاب‘‘ کے ٹکراؤ نے جو بات پیدا کی ہے وہ ’’تڑپتا ہوا سیماب‘‘ میں کہاں ہے؟ ’’فضاے نیل گوں کے پیچ و خم‘‘ کے مقابلے میں صرف ’’فضاؤں میں ہیں بے تاب‘‘ کا ٹکڑا ہے۔ مرغان سحر کا بے تاب ہونا اس درجہ معنی خیز نہیں ہے جس درجہ خود فضا کا پیچ وخم سے معمو ر ہونا ہے۔ اس پر ’’نیلگوں‘‘ کا حسن مستزاد ہے۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہے کہ ان دو نظموں میں اقبال جس قسم کی شاعری خلق کررہے تھے وہ ان کے مروجہ اور معمور اسلوب سے بالکل مختلف تھی۔ وجہ بالکل صاف ہے ، یہ نظمیں شعر الصوت سے قریب تر ہیں، ان میں معنی کی حیثیت ثانوی ہے اور ثانوی رہتی ہے۔’’ محراب گل‘‘ حصۂ ہفتم میں ندا ہے اور ’’بیاض ‘‘حصہ ٔ اول میں محزوں تفکر، کسی کھوئی ہوئی چیز کو پانے میں ناکامی کارنج ہے ۔اس سے زیادہ معنی جو ہیںسب ثانوی ہیں۔ آہنگ ہی معنی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
راشد کو ان کی فارسیت کی وجہ سے غالب اور اقبال سے متاثر بتایا گیا ہے۔ ممکن ہے شعور کی سطح پر یہ درست ہو، (حالانکہ ایسے بھی صاحب علم موجود ہیں جو صرف مشکل الفاظ کی بنا پر راشد اور غالب دونوں کو مبہم کہہ دیتے ہیں)۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ راشد پر غالب کا اثر گہرا نہیں ہے۔ غالب کی صوت سازی پیکر سے اس درجہ جڑی ہوئی ہے کہ ان کے یہاںپیکر کے بغیر شعر کا تصور نہیں ہوسکتا۔ راشد کی وہ نظمیں بھی جن میں شعرالمعنی کا پلہ بھاری رہا ہے، آہنگ کے اعتبار سے فوری تاثر پیدا کرتی ہیں۔ میں ابھی چند مثالوں سے اپنی بات واضح کردوں گا لیکن فی الوقت اس مضمون کے شروع میں بیان کئے ہوئے دوسرے مفروضے کا محاکمہ مقصود ہے۔
کیا راشدکا کلام مبہم نہیں ہے؟ اب تک جو بحث ہوئی ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ راشد کا کلام نہ تو مستعمل معنی میں مبہم ہے نہ اصطلاحی معنی میں ۔ مستعمل معنی تو یہ ہیں کہ نقاد اور قاری (نقاد زیادہ ، قاری کم) اپنے تعصب اور ذہنی نارسائی کی بنا پر ہر اس کلام کو مبہم کہہ دیتے ہیں جس کی منطق ان کی گرفت میں نہیں آتی۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اکثر نقاد اور قاری اس مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ کلام جس کے الفاظ و علامات کو ریاضی کی علامات کی طرح قطعی معنی نہ پہنائے جاسکیں،یا نظم و غزل کا ہر وہ مصرع یا لفظ جس کا مصرف منطقی اعتبار سے واضح نہ ہوسکے، مبہم ہے۔ ظاہر ہے کہ ابہام کی یہ دونوں تعریفیں ناقص اور گمراہ کن ہیں، اور راشد کا کلام اگر ان تعریفوں کی روشنی میں مبہم ہے بھی، تو تنقید کا فرض ہے کہ ابہام کے اس فریب آمیز تصور کا ابطال کرے۔ لیکن اصطلاحی معنوں میں ابہام کسے کہیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ابہام کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ معنی کو منور کرنے والے سوالات کو راہ دیتا ہے۔ کلام سے جتنے سوال اٹھیں گے، کلام اتنا ہی مبہم ہوگا، بشرطیکہ ان سوالوں کے جواب کلام کو منور کرسکیں، اور زیادہ تاریک اور بعیدالفہم نہ کردیں۔ مبہم شعر اور معمے میں یہی فرق ہے۔ معمے کا حل ایک ہی ہوتا ہے، اس کوڈھونڈنے کے لئے جو سوال اٹھائے جاتے ہیں وہ معمے کو منور نہیں کرتے۔ شعر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے راشدکے یہاں اصطلاحی ابہام (یعنی ابہام ان معنوں میں جو میں نے بیان کئے ہیں) کم کم پایا جاتا ہے، اور اسی حد تک راشد کا کلام کمزور ہے۔ اس کی دو وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو یہی جو میرا موضوع سخن ہے، یعنی شعر الصوت اور شعر المعنی کی کشاکش اور دوسری یہ کہ راشد ’’لا=انسان‘‘ کی منزل تک آتے آتے تجربے کو تجریدی شکل میں دیکھنے لگے ہیں۔ ان کے یہاں تجربے میں وہ فوری ذاتی پن باقی نہیںرہا جو ’’ماورا‘‘ کی بہت سی نظموں کا مابہ الامتیاز تھا، اگرچہ راشد نے بالواسطہ اس حقیقت سے انکار کیا ہے۔ ’’لا=انسان‘‘ میں شامل مصاحبے میں وہ کہتے ہیں:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ (’’ماورا‘‘ کی) نظمیں کسی طرح اس نیاز مند کے سوانح حیات نہیں ہیں، بلکہ مختلف کرداروں کے تشخص میں لکھی گئی ہیں۔
ممکن ہے یہاں غیر شعوری طور پر الیٹ کے اس مشہور نظریے کی بازگشت آگئی ہو جس کی رو سے شاعری کی تین آوازیں ہیں۔ ایک وہ جس میں شاعر خود کو مخاطب کرتا ہے، دوسری وہ جس میں وہ دوسروں سے مخاطب ہوتا ہے اور تیسری وہ جس میں وہ کسی شخص غیر کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ لیکن آگے چل کر انھو ںنے کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں۔
جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ میری شاعری میں ’’روح‘‘ نہیں ، سواے اس کی تردید کے اور کیا کرسکتا ہوں۔ بعض نقادوں نے رسمی اور ریشمی الفاظ اور تراکیب کو ’’روح‘‘ کے ساتھ ملتبس کیا ہے۔
یہاں تک تو بالکل درست ہے۔ راشد کی شاعری میں ’’روح‘‘ کا فقدان ہے، یہ اعتراض صرف اس لئے مہمل نہیں ہے کہ ’’رسمی اور ریشمی الفاظ و تراکیب‘‘کو شاعری کا ’’روحی‘‘ عنصر گرداننا شعر فہمی کی اوائلی منزلوں سے بھی ناواقفیت کی دلیل ہے،بلکہ اس لئے بھی کہ شاعری میں ’’روح‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ’’روح‘‘، ’’لوچ‘‘، ’’گداز‘‘، ’’تڑپ‘‘ ، ’’تھر تھراہٹ‘‘وغیرہ غیر تنقیدی الفاظ نے ہمارے شاعروں اورنقادوں دونوں پر بہت ستم توڑے ہیں۔ میرا جھگڑا راشد سے یہ نہیں ہے کہ ان کے یہاں ’’روح‘‘ کیوں نہیں ہے؟ بلکہ یہ ہے کہ انھوںنے اپنی شاعری کی سمت ذاتی سے غیر ذاتی کی طرف کیوں مقرر کی ہے؟ وہ کہتے ہیں:
میری نظموں میں ’’شبیہ سازی‘‘ کی عیاشی بھی نہیں۔ میرے نزدیک محض ’’شبیہ سازی‘‘ درآں حالے کہ شاعر کے پاس افکار اور جذبات کی کمی ہو، ذہنی اور عقلی انحطاط کی دلیل ہے۔ انحطاط پرست شاعروں میں اس کی فراوانی ملتی ہے۔۔۔ لہجے کی بلند آہنگی میرے نزدیک بہ ذات خود کوئی عیب نہیں۔۔۔ آہنگ کا تعلق محض الفاظ سے نہیں بلکہ معانی سے بھی ہے۔
یہ بات تو سبھی مانتے ہیں کہ الفاظ کا آہنگ ان کے معانی سے الگ نہیں ہوسکتا۔ میں بھی یہی کہتا آیا ہوں۔ لیکن ’’شبیہ سازی‘‘ (یعنی پیکر) سے انکار اور اسے انحطاط پرست شاعروں کا خاصہ بتانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اب راشد اپنے تجربے کو واقعی، ٹھوس، اور چھونے ، ذائقہ لینے کی سطح پر حاصل کرنے سے بالکل انکار کرتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تجربے کے اظہار میں وہ پیچیدگی اور کثیر المفہومی نہیں پیدا ہونے پاتی جو ذاتی اظہار کا خاصہ ہے۔ ایک طرف وہ خود کہتے ہیں کہ :
جدید شاعری کا بنیادی تصوریہ ہے کہ جب تک شاعر خواب نہ دیکھ سکے وہ خود کو یا اپنے پڑھنے والوں کوحقیقت کے بند وسلاسل سے نجات نہیں دلاسکتا۔
اور دوسری طرف پیکر سے انکار کرکے تجربے کو تجریدی اور معروضی سطح پر ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ؎
میرہو،مر زا ہو، میرا جی ہو
(اپنی ہی ذات کی غربال میں چھن جاتے ہیں!)
یہ کہنے کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ شعری تجربہ جب ذات کی چھلنی سے چھن کر کاغذ پر آئے تو اس میں بوے آدم زاد نہ ہو۔ خواب دیکھنے کا عمل صرف ذاتی پیچیدگیوں، الجھاوؤں اور فریب شکستگی کے تجربات کوپیکروں کی شکل میں دیکھنے کا نام ہے۔ پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ شاعری میں شبیہ سازی کی عیاشی نہ ہو؟ حقیقت دراصل یہ ہے کہ راشد کی فکر یہاں بھی ایک ثنویت کی آئینہ دار ہے جو ان کے کلام میں آہنگ اور معنی کی دو سطحوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ کسی پیچیدہ اور غیر شعوری داخلی اجتناب نے انھیں ’’ماورا‘‘ کے شدید ذاتی اظہار سے گریز کرنے کی تعلیم دی ہے۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج اس گریز کو آسانی سے انگیز نہیں کرتا۔ چنانچہ ان کے شعوری نظریات میں ایک تضاد کی کارفرمائی ہے لیکن ان کی موجودہ شاعری میں وہ تضاد مٹ چکا ہے۔
مختصراً میرا مطلب یہ ہے کہ راشد نے پیکر یعنی ذاتی اظہار سے گریز کرکے اپنی شاعری سے اس ابہام کا اخراج کردیا ہے جو میری نظر میں اصل ابہام ہے۔ اس کی جگہ یا تومروجہ معنی والے ابہام نے لے لی ہے (بلکہ وہ تو پہلے بھی موجود تھا) یا فضا سازی کے ذریعہ لائے ہوئے ابہام نے ۔ لیکن ایک تیسری طرح کا ابہام بھی اب ان کی نظموں میں داخل ہوگیا ہے۔ اسے میں تکنیک کا ابہام کہتا ہوں۔ نظم میں غزل کا استعمال، قوسین کی کثرت، شاعرانہ توجہ کے نقطۂ ارتکازکا جلد جلد بدلنا، یہ سب تکنیکی ترکیبیں، یا Devicesاردو میں راشد ہی نے عام کی ہیں۔ ان کا استعمال ’’ماورا‘‘ سے لے کر اب تک انھوںنے مسلسل کیا ہے، اگرچہ’’ لا=انسان‘‘ میں ان کا صرف معمول سے زیادہ ہے۔ مجموعی حیثیت سے یہ تمام سطحیں (مروجہ معنی والا ابہام، فضا سازی والا ابہام، تکنیک کا ابہام) مل ملاکر ایک خاصی توجہ انگیز مبہم ہیئت کی تخلیق میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ صرف یہی کمی رہ جاتی ہے کہ ذات اتنی دبیز نقاب کے پیچھے نہ چھپی ہوتی۔ یا اگر نقاب ہوتی توییٹس (W. B. Yeats) کی طرح بدلتے ہوئے استعارے اور علامت کی نقاب ہوتی اور معنی کے کئی دروازے کھولنے کی سعی کا لطف کماحقہ حاصل ہوتا۔
میکس بیربوم (Max Beerbohm)کے بارے میں آسکروائلڈ (Oscar Wilde)نے دلچسپ جملہ کہا تھا:’’کیا وہ کبھی اپنا چہرہ اتارکرتمھیں اپنی نقاب دکھاتا ہے؟‘‘ قول محال کے غیر متوقع لطف سے قطع نظر اس میں نکتہ یہ تھا کہ میکس اپنی پبلک زندگی میں جس حزم و احتیاط اور رکھ رکھاؤ کا اظہار کرتا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی ایک اور شخصیت ہو جو بذات خود کسی نقاب میں پوشیدہ ہو۔ اس کا چہرہ یعنی پبلک زندگی ، اس کی اصل شخصیت کا آئینہ دار نہ تھا۔ اصل شخصیت کی آئینہ داری تو نقاب ہی کرسکتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ ان پر اعتراض ہے کہ وہ خارجی مسائل پر زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں۔ راشد نے کہا ہے:
بے شک میں نے خارجی مسائل کی طرف توجہ دی ہے ۔ لیکن ان میں سے اکثر ایسے مسائل ہیں جن کا انسان کی تقدیر کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جنگ ، استعمار، رنگ و نسل کی تمیز، آزادی فکر و اظہار وغیرہ ، اخباری حادثات نہیں ہیں ۔بلکہ ان کا تعلق انسان کے اخلاق یا عدم اخلاق کے ساتھ ہے۔
اس بیان کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اپنی تمام شعری زندگی میں عموماً اور موجودہ مجموعے میں خصوصاً، راشد نے انسان کے ان بڑے مسائل پر اپنی شاعرانہ توجہ صرف کرکے غیر معمولی حقیقت پسندی ، دردمندی اوراخلاقی جرأت کا ثبوت دیا ہے لیکن ان سے یہ سوال غلط طور پر کیا گیا تھا۔ خارجی مسائل پر توجہ دینا یا نہ دینا اتنا اہم سوال نہیں ہے جتنا خارجی مسائل پر خارجی (یعنی غیرداخلی) اسلوب کی شاعری کرنا اہم سوال ہے۔’’ لا=انسان ‘‘کی بعض نظموں میں غیر داخلی اسلوب ایک طرح رزمیہ یا Epic جیسالہجہ اختیار کرگیا ہے (’’آئینہ حس و خبر سے عاری‘‘؛ ’’آرزو راہبہ ہے‘‘؛ ’’تسلسل کے صحرا میں‘‘؛ ’’گردباد‘‘) اور ان میں پیکرکی کارفرمائی بھی نسبتاً زیادہ ہے۔ لیکن وہ نظمیں جن میں غیرداخلی اسلوب ایک رسومیاتی اور جامد بلند آہنگی کا شکار ہوگیا ہے (’’بے مہری کے تابستانوں میں‘‘؛’’ دیوار‘‘؛ ’’نئی تمثیل ‘‘وغیرہ) بار بار اس تمنا کو راہ دیتی ہیں کہ شاعر نے خود کو کچھ اورآزاد چھوڑدیا ہوتا۔ ملحوظ رہے کہ صرف واحد متکلم یا جمع متکلم کا استعمال کسی نظم کو داخلی اسلوب نہیں بخش دیتا۔ اگر ایسا ہوتا تو الیٹ کی نظم ’’جیرو نٹِیَن ‘‘(Gerontion) [’’مرد پیر‘‘]ذاتی اظہار کا عظیم ترین کارنامہ ہوتی (یہ اور بات ہے کہ Gerontionبھی راشد کی متذکرہ اچھی نظموں کی طرح رزمیہ نما اسلوب کے دھیمے وقار سے بھرپور ہے۔ فرق صرف درجے کا ہے نوع کا نہیں)۔’’ لا=انسان‘‘ کی بیشتر نظموں میں واحد یا جمع متکلم نظرآتا ہے لیکن عام طور پر اس کی شکل کا صرف ایک دھندلا نقش بن پاتا ہے۔ صرف وہ نظمیں جن میں واحد متکلم نے نقاب اتاردی ہے (یا اوڑھ لی ہے)، مثلاً ’’حسن کوزہ گر‘‘؛ ’’پیرو‘‘؛’’ چلا آرہا ہوں سمندروں کے وصال سے’’ ، داخلی اظہار کے ذیل میں آتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی وہ نظمیں ہیں جن میں ’’خارجی مسائل‘‘ کا انعکاس بالکل نہیں یا بہت کم نظرآتا ہے۔
ان صفحات معترضہ کے بعد میں اپنے اس بیان پر واپس آتا ہوں کہ راشد کی وہ نظمیں بھی جن میں ’’میرے بھی ہیںکچھ خواب‘‘ یا ’’وہی کشف ذات کی آرزو‘‘ کے برعکس آہنگ اور معنی کی سطحیں الگ الگ نہیں ہیں (یعنی وہ نظمیں جن میں معنی ، یعنی رچرڈس کی زبان میں Thought، نظم کی ہیئت خلق کرنے میں آہنگ سے زیادہ حصہ لیتا ہے) اپنے آہنگ کے اعتبار سے فوری تاثر پیدا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیکر یا معنوی ابہام کے نہ ہوتے ہوئے بھی راشد کی کوئی نظم ’’غوروفکر کی ایک فضا‘‘ قائم کئے بغیر ختم نہیں ہوتی۔ (خود راشد کے الفاظ میں یہی شعر کا مقصد ہے۔) یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اگر راشد کے یہاں آہنگ میں اتنا تنوع اور ان کے کان اتنے سریع الحس نہ ہوتے تو’’ تعارف‘‘؛ ’’گداگر‘‘؛ ’’آنکھیں کالے غم کی‘‘؛ ’’زندگی سے ڈرتے ہو‘‘، جیسی نظمیں کتنی مشکل سے ہضم ہوتیں۔
’’تسلسل کے صحرا میں‘‘ اس کلیے کی مثال ہے کہ راشد کی بعض نظموں میں معنی کی پیچیدگی کے باوجود آہنگ کا عمل اتنا منفرد اور ممتاز ہے کہ آہنگ تقریباً ایک علٰحدہ اکائی بن جاتا ہے۔ یہ صورت اقبال کے یہاں بہت کم ہے۔ غالب کے یہاں تو ہرگز نہیں۔ میں اسے راشد کا مخصوص کارنامہ سمجھتا ہوں۔ بہ ظاہر یہ نظم اس خیال پر تعمیر کی گئی ہے کہ وقت ایک اٹوٹ بہائوہے۔ وقت ایک صحراے تسلسل ہے۔ یہ بنیادی حقیقت نظم کے عنوان ہی کے ذریعہ پیش کی گئی ہے ۔لیکن وقت ایک صحراے تغیر بھی ہے ۔جو تغیر ہے وہی تسلسل ہے۔ بلکہ دراصل وقت کا صحرا ریت گھڑی سے گذرتی ہوئی ریت کی طرح ذرہ ذرہ منقسم ہے اور یہ غیرمنقسم بھی ہے۔ اور ان منقسم ذروں کو وحدت کے رشتے میں پرونے والی شے کبھی تو پاؤں کی چاپ ہے، کبھی کسی طائر شب کی لرزش، کبھی پہاڑ سے اترتی ہوئی پانی کی لکیر۔ لیکن یہ سب بھی ظاہری شکلیں ہیں۔ درصل یہ ساری ریگ و ہوا اور سمت وصدا کی آویزش اور بہم پیچیدگی محبت کی جلوہ گری ہے۔ محبت تغیرہے، تغیر تسلسل ہے، تسلسل وقت ہے۔
وہ سمت و صدا جو سفر کا نشاں تھیں
وہی منتہاے سفر بن گئیں!
تسلسل کے صحرا میں ریگ وہوا، پاؤں کی چاپ سمت و صدا
تسلسل کا راز نہاں، تغیر کا تنہا نشاں
محبت کا تنہا نشاں
اس طرح نظم میں کئی علامتیں استعارے مختلف سمتوں میں لے جاتے ہیں۔تسلسل کا احساس ہوتا ہے ، لیکن خود اس کا وجود ایسا بوقلموں ہے کہ کبھی علت بن جاتا ہے،کبھی معلول ۔ یہ سب سطحیں پڑھنے والے پر اپنا تاثر بہ یک وقت پیدا کرتی ہیں۔ وہ استعاروں کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا عمل بہت بعد میں شروع کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظم کا آہنگ ایک مسلسل، لیکن سست رو، تقریباً غیر محسوس اور خواب ناک بہاؤ کی ہیئت خلق کرتا ہے۔ غیر محسوس اور خواب ناک بہاؤ کی یہ ہیئت سب سے پہلے متشکل ہوتی ہے اور معنی تک فوراً رسائی کردیتی ہے۔اس کے بعد ہی ان پیچیدہ ابعاد کی طرف ذہن متشکل ہوتا ہے جنھیں انسلاک اور تلازمے اور استعارے کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ اس طرح بظاہر مختلف ہونے کے باوجود یہ نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ سے اصلاً مختلف نہیں ہے ، کیوں کہ دونوں نظموں میں ہماری رہ نمائی آہنگ ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ میں معنی کو تلاش کرنے کے لئے بہت دور نہیں جانا پڑتا۔
ان خارجی ترکیبوں کا تجزیہ کیجئے جن کے ذریعہ خواب ناک بہاؤ کی ہیئت خلق ہوئی ہے تو وہی سب ہاتھ آتاہے (طویل مصوتے، اندرونی قافیے، رائے مہملہ کی کثرت وغیرہ) جو ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے مطالعے سے حاصل ہوا تھا لیکن یہاں ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے مقابلے میں وقفے زیادہ ہیں اور ساری نظم جزر کے آہنگ میں ہے۔ زیادہ تر سطریں الف ممدودہ یایاے مجہول پر ختم ہوئی ہیں۔ یا اگر آخر میں کوئی مصمتہ بھی ہے تو اس کے فوراً پہلے الف ممدودہ یایاے مجہول ہے، جس کی وجہ سے آہنگ میں طوالت یا لے کاری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے:
(۱) تسلسل کے صحراے جاں سوختہ میں
صدائیں،بدلتے مہ وسال
ہوائیں، گذرتے خدوخال
تنہا نشان فراق ووصال
(۲) صبا ہو کہ صرصر کہ بادنسیم
درختوں کی ژولیدہ زلفوں میں بازی کناں
اور درختوں کے تپتے ہوئے سرخ ہونٹوں سے
بوسہ ربا
(۳) پہاڑوں سے پانی کے باریک دھارے
فرازوں سے اترے ، بہت دور تک دشت ودر
میں مچلتے رہے، پھر سمندر کی جانب بڑھے اور طوفاں بنے
ان کی تاریک راتیں سحر بن گئیں
یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے کہ اس نظم میں جو مختلف استعارے یا اشارے استعمال ہوئے ہیں، وہ سب ایک دوسرے سے بالکل غیر مربوط ہیں(ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ، سمت و صدا، ریت کا ٹیلہ، جاں بہ لب طائر شب وغیرہ) ان کو مربوط کرنے والا یہی آہنگ ہے جو شروع سے آخر تک یکساں ہے۔ گویایہ آہنگ خود اس تغیر یا تسلسل کی علامت بن گیا ہے جو ذرہ ذرہ گذرتے ہوئے لمحوں کو وحدت بخشتا ہے۔
اب اگر آپ یہ پوچھیں کہ اتنی تفصیلی گفتگو کے باوجود میں نے سیاسی مسائل کی طرف راشد کے رویے، مذہب، سیاست اور عشق (علی الخصوص مذہب اور سیاست) سے ان کی دلچسپی،انسان دوستی، استعمار اور جبر (چاہے وہ وقت کا ہوچاہے انسان) کے خلاف ان کے احتجاج، ان کے مفکرانہ ، خطیبانہ ، پیمبرانہ لہجے کی جلالت وغیرہ کوکیوں نظرانداز کردیا؟ تو میں یہی کہوں گا کہ میری نظر میں راشد کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انھوںنے اپنی شاعری کو اپنے انتہائی بیدار سماجی اور سیاسی شعور کے ہاتھوں اونے پونے نہ بیچ کر شاعرانہ آہنگ کے پاس رہن رکھ دیا۔ یہ ایسی ٹیڑھی منزل ہے جسے ہر شاعر خوش اسلوبی سے سر نہیں کرسکتا۔ باقی رہا سماجی اور سیاسی شعور ، تو وہ ہردکان پر ملتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top