زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
اردو میں لفظ "بلند" میں ب مرفوع بولا جاتا ہے، تاجیکی فارسی (اور شاید ایرانی فارسی) میں ب منصوب جبکہ افغان فارسی میں ب مکسور بولا جاتا ہے۔
ادبی تاجکستانی فارسی میں بلند کا معیاری تلفظ بَلَنْدْ ہے۔
جبکہ ایران میں معیاری تلفظ بُلَنْدْ ہے۔
افغان فارسی میں اِس لفظ کا معیاری تلفظ مجھے معلوم نہیں ہے۔

میں شخصاً اردو اور فارسی میں 'بُلند' ہی استعمال کرتا ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو میں لفظ "بلند" میں ب مرفوع بولا جاتا ہے، تاجیکی فارسی (اور شاید ایرانی فارسی) میں ب منصوب جبکہ افغان فارسی میں ب مکسور بولا جاتا ہے۔
رفع ،نصب اور جر عرب کی قواعد کےمطابق کلام کے عناصر کی مخصوص حالتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ زیر زبر پیش ہی سے ظہور پذیر ہوں ،ان احوال کے اور طرح کے بھی مظاہر ہیں (مثلاً نون کا ظاہر یا ثابت ہونا یا حذف ہونا اور حروف علت کا احوال و استعمال کے مطابق بدلنا وغیرہ)۔ اردو فارسی میں رفع و نصب کا کوئی تصور نہیں ۔نیز یہ کہ کہ اعراب کے عوامل کلمات کے اواخر میں عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ لفظ یا کلمے کے شروع میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
اس طرح حرکات کو مضموم ، مفتوح یا مکسور کہا جائے تا شاید بہتر ہو۔۔۔ یہ محض ایک رائے ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یعنی از بمعنی بر استعمال ہوا ہے؟؟
جی، یہ کہا جا سکتا ہے۔ فرہنگِ عمید میں 'از' کے قدیمی معنوں کے طور پر 'بر' اور 'به' بھی درج ہیں۔

'حیف از چیزی' کا یہ ترجمہ کرنا بھی ممکن ہے: کسی چیز کے سبب حیف۔۔۔۔
اِس معنی میں بھی 'از' کا استعمال ہوتا ہے۔

ویسے، فارسی میں 'حیف از۔۔۔' کی کئی مثالیں نظر آئی ہیں:
"حیف از آن عمری که اندر معصیت بی‌جا گذشت"
"حیف از آن سرمه که در دیدهٔ نابینا رفت"
"حیف از این عمر که بی یادِ خدا می‌گذرد"
"حیف از آن عمری که صرفِ لاله‌رخساری نشد"
"صد حیف از این بساط که برچیده می‌شود"
"حیف از این مادر، که رفت از دستِ ما، ای روزگار"
"حیف از اوقاتِ شریفم که چنین می‌گذرد"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُنفُوان (عربی)
اولِ هر چیز؛ عُنفُوانِ شباب اولِ جوانی؛ دورهٔ جوانی.

از اوایلِ صِبا تا عنفوانِ شباب شرایطِ اخلاص به تقدیم رسانیده بود.
(عوفی)

منم آن، که در عنفوانِ شباب
شدم آسمانی پر از آفتاب
(شاهین)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ دوم، صفحه ۳۹۲]

× صِبا/صِبیٰ = کودکی، بچّگی، طفلی

× شاهین = شمس‌الدین مخدوم شاهین

ابتدا؛ آغاز؛ اولِ (جوانی).
[فرهنگِ روزِ سخن، صفحه ۸۳۷]

۱- اولِ جوانی. ۲- اولِ هر چیز.
[فرهنگِ معین]

۱- اولِ جوانی. ۲- اولِ هر چیز. ۳- اولِ خوبیِ چیزی
[فرهنگِ عمید]
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میر انیس کی طرح مرزا دبیر نے بھی فارسی ادب کے بے نظیر حِماسی شاہکار 'شاہنامۂ فردوسی' کا بغور مطالعہ کیا ہوا تھا۔ اِس کا اندازہ اِس مندرجۂ ذیل بند سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اُنہوں نے شاہنامے کے مختلف کرداروں کا ذکر کیا ہے:

رُوکش ہے اِس اک تن کا نہ بہمن نہ تَہَمتَن

سہراب و نریمان و پَشَن، بے سر و بے تن
قاروں کی طرح تحتِ زمیں غرق ہے قارَن
ہر عاشقِ دنیا کو ہے دنیا چہِ بیژن
سب بھول گئے اپنا حسب اور نسب آج
آتا ہے جگر گوشۂ قتّالِ عرب آج


× تہمتن = رستم کا لقب
× چہِ بیژن = شاہِ توران افراسیاب نے اپنی دختر منیژہ سے عشق کے جرم میں بیژن کو ایک چاہ میں قید کر دیا تھا، جہاں سے اُسے رستم نے آزاد کرایا تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۱۹۱۲ء میں طباعت کا آغاز کرنے والے وسطی ایشیا کے اولین فارسی نشریے 'بخارائے شریف' نے اپنے شمارۂ پانزدہم میں فارسی کو 'مردمِ ترکستان و ماوراءالنہر کی ملّی و اسلامی زبان' کہہ کر یاد کیا تھا:
"۔۔۔۔امارتِ بخارا دارای سه میلیون نفوس است، تا اکنون اهالیِ ترکستان و ماوراءالنهر یک روزنامه به زبانِ ملی و اسلامیِ خود نداشتند. حالا از غیرت و همتِ ملت‌پسندانهٔ چند نفر معارف‌پرور و ترقی‌خواهانِ بخارای شریف این رونامهٔ مسمّیٰ به 'بخارای شریف' به زبانِ فارسی، که زبانِ رسمیِ بخارا هست، تأسیس شده و از عدم به وجود آمده و به طبع و نشرِ آن اقدام نموده شد. حالا برای ۹-۱۰ میلیون نفوسِ اسلامیهٔ ترکستان و ماوراءالنهر همین یک روزنامه است و فقط."
ترجمہ: "۔۔۔۔۔امارت بخارا کی آبادی تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، [لیکن] تا حال مردمِ ترکستان و ماوراءالنہر کا اپنی ملی و اسلامی زبان میں کوئی روزنامہ نہیں تھا۔ اب شہرِ بخارائے شریف کے چند معارف پرور و ترقی خواہ نفور کی ملت پسندانہ غیرت اور کوشش سے یہ 'بخارائے شریف' نامی روزنامہ فارسی زبان میں، کہ بخارا کی رسمی زبان ہے، تأسیس ہوا ہے اور عدم سے وجود میں آیا ہے اور اِس کے طبع و نشر کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ حالا ترکستان و ماوراءالنہر کے ۹۰-۱۰۰ لاکھ نفوسِ اسلامیہ کے برائے یہی ایک روزنامہ ہے اور بس۔"

ماخذ

سلام بر تو، ای زبانِ من!
سلام بر تو، ای شهرِ بخارای شریف!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به کَرّات
چندین بار؛ بارها؛ به دفعاتِ بسیار؛ مکرر
[فرهنگِ روزِ سخن]

باربار و دفعه‌های بسیار و پی در پی
[فرهنگِ ناظم‌الاطبّاء]

مکرر. به دفعات. بارها
[لغت‌نامهٔ دهخدا]

مثالیں:
"خاقانی در آثارش عمر فرزند عثمان را که به نام کافی‌الدین شهرت یافته بود بارها ستوده و زحماتی را که در حقش مبذول داشته به کرّات خاطرنشان ساخته‌است."
خاقانی نے اپنے آثار میں عمر بن عثمان کی، کہ کافی الدین کے نام سے مشہور تھے، بارہا ستایش کی ہے اور اُنہوں نے اُس کے حق میں جو زحمتیں اٹھائیں تھیں اُن کی مکرّر یادآوری کی ہے۔
"ذکر این شب در سورهٔ قدر به کرّات آمده‌است."
سورۂ قدر میں اِس شب کا ذکر بار بار آیا ہے۔
"همهٔ ما به کرّات این جمله را گفته‌ایم و یا شنیده‌ایم: قلبم شکست..."
ہم سب نے بارہا یہ جملہ کہا یا سنا ہے: میرا دل ٹوٹ گیا۔۔۔
"از کابل و کابلستان در شاهنامهٔ فردوسی به کرّات نام برده شده‌است..."
شاہنامۂ فردوسی میں کابل و کابلستان کا نام بارہا ذکر ہوا ہے۔۔۔

× کرّات، 'کرّة/کرّت' کی جمع ہے، جس کا معنی 'دفعہ، بار' ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیٹ گردی سے معلوم ہوا ہے کہ عالمِ دین مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اپنے اردو رسالے 'اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والاٰل والاصحاب' (۱۲۹۸ه) میں ایک جگہ ترکیبِ 'بہ کرّات' کا استعمال کیا ہے:
"اور فی الواقع اس مسئلہ کو جیسا حق مآبِ مرتضوی نے صاف صاف واشگاف بہ کّرات و مرّات جَلَوات و خَلَوات و مَشاہدِ عامہ و مساجدِ جامعہ میں ارشاد فرمایا، دوسروں سے واقع نہیں ہوا۔"
رسالے کے مرتِّب محمد خلیل خاں قادری البرکاتی المارہری نے توضیحی قوسین میں 'بہ کرّات و مرّات' کے یہ معانی درج کیے ہیں: بار بار موقع بہ موقع۔


فارسی میں یہ ترکیب عام ہے، لیکن اردو میں مَیں نے امروز اولین بار اِس ترکیب کو کہیں مستعمَل دیکھا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به کَرّات و مَرّات
فارسی میں 'به کرّات و مرّات' بھی استعمال ہوتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

"این روزها آهنگ تازه‌ای از فرهاد دریا هنرمند پرآوازهٔ افغانستان بر سر زبان‌ها است و بسیاری از رسانه‌های تصویری و صوتی به کرات و مرات این آهنگ را به نشر می‌سپارند."
افغانستان کے مشہور ہنرمند فرہاد دریا کا ایک تازہ نغمہ اِن روزوں زبانوں پر ہے اور کئی تصویری و آوازی ذرائعِ ابلاغ بار بار اِس نغمے کو نشر کر رہے ہیں۔
"سلاح‌های کیمیایی مثل فاسفورس سفید به کرات و مرات در افغانستان و عراق استفاده شده‌است۔"
افغانستان اور عراق میں سفید فاسفورس جیسے کیمیائی اسلحے بارہا استعمال ہوئے ہیں۔
"...برای رسیدن به بلندا و قُلّهٔ آن، همت و شرافتی خاص و تفضلی ویژه لازم می‌آید چنانچه عرفا و بزرگان به کرات و مرات اشارت فرموده‌اند."
۔۔۔اُس کی بلندی اور اوج تک پہنچنے کے لیے ایک خاص ہمت و شرافت و تفضّل لازم ہیں، جیسا کہ عارفوں اور بزرگوں نے مکرّر اشارہ فرمایا ہے۔

اِسی طرح 'به مرّات و کرّات' کی بھی چند ایک مثالیں مل گئی ہیں۔ ایک مثال دیکھیے:
"این جنایت حکایت دارد که آمریکا برای رسیدن به منافع خود به هر جنایت ضد بشری دست می‌زند گرچه امروز این امر برای دنیا به مرات و کرات ثابت شده."
یہ جرم اِس بات کا حاکی ہے کہ امریکا اپنے مفادات تک رسائی کے لیے ہر انسانیت مخالف جرم کا ارتکاب کر جاتا ہے، اگرچہ امروز یہ امر دنیا پر بارہا ثابت ہو چکا ہے۔

لیکن، 'به مرّات و کرّات' کا استعمال بسیار کم ہے۔ لہٰذا اگر کبھی یہ تراکیب استعمال کرنے کی حاجت ہو تو 'به کرّات' اور 'به کرّات و مرّات' ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"میر انیس اور ان کی تقلید میں میر مونس کے یہاں جنگِ کربلا کا نقشہ بیشتر ایرانی زمین پر کھچتا اور شاہنامہ ان دونوں حضرات کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ اس لیے جب تک فردوسی کا کلام ماحضر نہ ہو ان بزرگواروں کے مرثیے کیا مزہ دے سکتے ہیں۔"
============
"شاہنامہ جس نے نہیں پڑھا اُس نے پڑھا کیا۔ اور جس نے فردوسی کو نہ سمجھا وہ سمجھا کیا۔ ہر کلام کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس مقصد کو سمجھ کر کلام پرکھا جاتا ہے۔ مقصد جتنا ارفع ہو گا، کلام اتنا ہی عالی سمجھا جائے گا۔ انسان کی خلقت کا بھی کوئی مقصد ہے۔ اور اس میں بڑا مقصد اُس کی حیات ہے جس کے بغیر یہ کارگاہِ عالم قائم نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمت و مردانگی کی بدولت زندہ رہتا ہے۔ اس لیے جو کلام ہم کو باہمت بنائے وہ اصلی کلام ہے۔ اور جو بیان ہم کو کم ہمت بنائے، پستی کی طرف لے جائے اور مُردوں میں ہمارا شمار کرائے وہ کلام نہیں کچھ اور ہے! شاہنامہ کا ہر بیان اور اُس کی بیشتر داستان ایک سبق دیتی اور ہمارے خون میں تحریک و جوش پیدا کر کے ہم کو قبل از وقت مرنے سے روکے رہتی ہے!"

[داستانِ عجم: یعنی تبصرہ بر شاہنامۂ فردوسی، ۱۹۳۴ء، نواب نصیر حسین خیال عظیم آبادی]
 

حسان خان

لائبریرین
خارِ ناچیزم مرا در بوستاں مقدار نیست
اشکِ بے قدرم ز چشمِ آشنا افتادہ ام


رھی معیری

میں ناچیز کانٹا ہوں، گلستان میں میری کوئی قدر و قیمت و منزلت و مرتبہ نہیں ہے، میں بے قدر اشک ہوں اور آشنا کی آنکھ سے گرا ہوا ہوں۔

جناب میں بھی آج کل تھوڑی بہت فارسی سیکھ رہا ہوں میرے حساب سے تو پہلے مصرعے کا ترجمہ ایسے ہونا چاہیے
میں ناچیز خار ہوں مجھ کو گلستاں میں کوئی قیمت نہیں ہے جو کہ کوئی معنی نہیں دیتا۔ کیا مرا میرا یا میری کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے؟

میرا نہیں خیال کہ "را" کا ترجمہ ہر جگہ "کو" ہی ہو۔ یہ کثیر المعنی ہے کسی قواعد کی کتاب میں صحیح تفصیل ملے گی آپ کو۔ فی الحال یہ ربط دیکھیے۔

اس شعر میں 'رائے مفعولی' نہیں، بلکہ 'رائے فکِّ اضافہ' استعمال ہوا ہے۔ :)
یعنی یہاں لفظِ 'را' کوئی مفعول بیان نہیں کر رہا، بلکہ ترکیبِ اضافی کا کام انجام دے رہا ہے۔ یہ 'را' جب استعمال ہوتا ہے تو اضافی ترکیب کے اجزا یعنی مضاف اور مضافٌ‌ الیہ کی جگہ مقلوب ہو جاتی ہے اور یہ 'را' اُن دونوں اجزا کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے۔ مثال دے کر بات واضح کرتا ہوں:
'میدانِ حرص' ایک اضافی ترکیب ہے جس میں مُضاف 'میدان' ہے، جبکہ مضافٌ‌ الیہ 'حرص'۔ اور دونوں کو علامتِ اضافت یعنی زیر نے آپس میں جوڑا ہوا ہے۔
جس طرح اردو میں مندرجۂ بالا ترکیب کو 'حرص کا میدان' میں بدلا جا سکتا ہے، اُسی طرح فارسی میں بھی اس ترکیب کو 'رائے فکِّ اضافہ' یعنی علامتِ اضافت کو حذف کر دینے والے را کی مدد سے 'حرص را میدان' میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں 'حرص' کوئی مفعول نہیں، بلکہ مضافٌ‌ الیہ ہے۔ اردو میں اس ترکیب کا سادہ و مناسب ترجمہ 'حرص کا میدان' ہو گا۔
"بس فراخ است حرص را میدان"
(حرص کا میدان بہت فراخ ہے۔)
حرص را میدان = میدانِ حرص
لہٰذا وارث صاحب کے درج کردہ شعر میں مرا مقدار (= من را مقدار) در حقیقت 'مقدارِ من' کا ہم معنی ہے۔
رودکی سمرقندی کی اِس بیت میں بھی 'رائے فکِّ اضافہ' کا استعمال ہوا ہے:
ز عدلِ تُست به هم باز و صعوه را پرواز
ز حکمِ تُست شب و روز را به هم پیوند

ترجمہ: تمہارے عدل سے باز اور چڑیا کی باہم پرواز ہے؛ تمہارے حکم سے شب و روز کا باہم پیوند ہے۔
باز و صعوه را پرواز = باز و صعوہ کی پرواز
شب و روز را پیوند = شب و روز کا پیوند
 

حسان خان

لائبریرین
لایَعْقِل (عربی)

۱. بی‌عقل.

بس بگشتم، که بپرسم سببِ دردِ فراق،
مفتیِ عقل در این مسئله لایعقل بود.
(حافظ)

۲. بی‌هوش؛ مستِ لایعقل مستِ از هوش و از عقل رفته، سخت مست.

چون به آن جا رسیدند، محافظان را مستِ لایعقل یافتند.
(روضة‌الصفا)

هر دو مدهوش و مستِ لایعقل،
از جهان و جهانیان غافل.
(مشفقی)
[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۶۰۷]

[عربی: لایعقِلُ = خِرَد ‌نمی‌ورزد] (صفت) ۱. نادان؛ بی‌خرد؛ بی عقل. ۲. (قید) در حالی ‌که چیزی ‌نمی‌فهمد؛ در حالتِ بی‌خودی و ناهوشیاری: مست و لایعقل راه می‌رفت.
[فرهنگِ روزِ سخن، صفحه ۱۰۵۰]


بی‌عقل، بی‌خرد؛ مستِ لایعقل مستی، که از عقل بیگانه شده‌است، مستِ بی‌هوش، مستِ الست.
[فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی، جلدِ اول، صفحه ۷۶۱]


نادان، بی‌خرد.
[فرهنگِ معین]

(صفت) [عربی: لایعقلُ (= نمی‌اندیشد)] بی‌عقل؛ بی‌خرد.
[فرهنگِ عمید]
 

حسان خان

لائبریرین
صد ہزاران صورت است اما ہمہ تمثال دوست
غیرِ یک صورت نسازد خامہ تصویرِ ما


صد ہزار صورتیں ہیں لیکن تمام تمثالِ دوست۔ ہمارا خامہ ایک صورت کے سوا کچھ نہیں بناتا۔

عرفی شیرازی

میرے خیال میں ما کی اضافت تصویر کی طرف راجع ہے یعنی ہماری تصویر اور خامہ کے ساتھ بھی اضافت ہے یعنی خامہء، سو دوسرے مصرعے کا مطلب ہو سکتا ہے کہ کچھ یوں ہو کہ "کوئی بھی خامہ ہماری تصویر ایک ہی صورت کے سوا کچھ نہیں بناتا"۔ :)

ایسی صورت میں خامہ ای نہیں لکھا جائے گا خامہء کی جگہ؟

میرے خیال میں یہ صرف املا کا فرق ہوگا، قدیم املا میں ہمزہ کے ساتھ لکھتے تھے جدید ایرانی املا میں ی کے ساتھ لکھتے ہیں۔ یہ شعر تو مجھے نہیں ملا، لیکن اس سے ملتی جلتی ایک غزل عرفی کے دیوان میں ہے۔ قدیم مطبوعہ میں ساری اس طرح کی اضافتیں ہمزہ کے ساتھ ہیں اور گنجور پر ی کے ساتھ۔
وارث بھائی کی بات درست ہے کہ یہاں 'خامہ' پر بھی اضافت ہے (خامهٔ)، لیکن یہاں اِس اضافتِ تخصیصی نے 'خامہ' کو 'تصویر' سے پیوستہ کیا ہے یعنی تصویر بنانے والا خامہ۔ یہ علامتِ نکرہ نہیں ہے، اور ریحان بھائی کا گفتہ درست ہے کہ جو مفہوم اِس مصرعے کا وارث بھائی نے بیان کیا ہے، اُس کے لیے 'خامہ' کے ساتھ علامتِ نکرہ آنی چاہیے تھی (خامه‌ای)۔
میری رائے میں مصرعِ ثانی کا مفہوم یہ ہے:
ہمارا خامۂ تصویر ایک [یار کی] صورت کے سوا کچھ نہیں بناتا۔


قدیم املاء میں یہ روش تھی کہ ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے والے الفاظ کو نکرہ بنانے کے لیے بھی اُن کے 'ہا' پر کوچک ہمزہ ڈال دیتے تھے۔ علاوہ بریں، ماضیِ قریب کے صیغۂ حاضر واحد کو لکھنے کا بھی یہی طریقہ معمول تھا (کرده‌ای = کردهٔ)۔ لیکن فارسی گو ملکوں میں یہ طرز نوشتار مدتِ مدید سے متروک ہے، اور کم از کم گذشتہ ایک صدی سے معاصر معیاری املاء کے قواعد ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ نیٹ پر یہ قدیم املائی روش قطعاً کہیں استعمال نہیں ہوتی، اور ہر جگہ علامتِ نکرہ کے لیے 'ی/ای' ہی کا استعمال ہوتا ہے، اور ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ اگر نیٹ پر کہیں 'خامهٔ' نظر آ رہا ہے تو وہاں اضافت ہی ہو گی، علامتِ نکرہ نہیں۔

وارث بھائی نے جو عرفی شیرازی کی غزل کا ربط دیا ہے، اُس میں 'سینه' اور 'گوشه' کے بعد میں جو 'ی' ہے وہ علامتِ اضافت ہی ہے۔ اِس کی توضیح یہ ہے کہ ہائے غیر ملفوظہ کا تلفظ ایرانی فارسی میں 'e' ہے، اور 'سینه' کا وہاں تلفظ 'sine' کیا جاتا یے۔ جب ایسے الفاظ پر اضافت آتی ہو تو چونکہ ایرانی فارسی میں اضافت کا تلفظ بھی 'e' ہے، اِس لیے اِن دونوں مصوتوں کے درمیان تلفظ میں آسانی کے لیے 'یائے میانجی' در آتی ہے۔ یعنی 'سینهٔ افکار' کو ایران میں 'sine-ye afkâr' پڑھا جاتا ہے۔ لہٰذا، موجودہ زمانے میں کئی ایرانی نویسندوں کی روش یہ ہے، اور فرہنگستانِ زبان و ادبیاتِ فارسی کے مرتب کردہ معیاری قواعدِ املاء میں بھی اِسی کو بہتر کہا گیا ہے، کہ وہ ہائے غیر ملفوظہ پر ختم ہونے الفاظ کے بعد علامتِ اضافت ظاہر کرنے کے لیے 'ی' کا استعمال کرتے ہیں یعنی 'سینه‌ی افکار'۔ فی الحال، ایران میں دونوں صورتوں 'سینه‌ی افکار/سینهٔ افکار' کا استعمال ہوتا ہے، لیکن اول الذکر کو وہاں مرجّح اور معیاری، جبکہ ثانی الذکر صورت کو وہاں قدیمی سمجھا جانے لگا ہے۔
افغانستان اور تاجکستان میں شائع ہونے والی بیشتر کتب اور تحریروں میں یہ روش عام نہیں ہے، اور یہ اُن کے لہجے سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔ لیکن انٹرنیٹ کی آمد کے بعد سے وہاں پر ایرانی فارسی کے ہمہ گیر اثر میں بسیار اضافہ ہوا ہے، اِس لیے کیا معلوم کہ وہاں بھی فردا اِسی ایرانی طرزِ املاء کو معیاری مان لیا جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی مصادر کی فہرست کے لیے یہ کتاب بھی دیکھیے:
فرهنگِ مصدری: مصدرهایِ فارسی و مُشتقّاتِ آن

کتابِ ہٰذا سے ایک اقتباس:

آراستن


بُنِ ماضی: آراست
بُنِ مضارع: آرا(ی)
اسمِ مصدر: آرایش
حاصلِ مصدر: آراستگی
صفتِ فاعلی: آراینده
صفتِ مفعولی: آراسته
صفتِ لیاقت: آراستنی
صفتِ شُغلی: آرایش‌گر
اسمِ مکان: آرایش‌گاه
نوع: متعدی، خاص

پسوند: انجمن‌آرا، جهان‌آرا، عالم‌آرا، چمن‌آرا، صف‌آرا
ماضیِ ساده: آراستم، آراستی، آراست، آراستیم، آراستید، آراستند.
مضارعِ ساده: آرایم، آرایی، آراید، آراییم، آرایید، آرایند.
مستقبل: خواهم آراست، خواهی آراست، خواهد آراست، خواهیم آراست، خواهید آراست، خواهند آراست.
امر: بیارا(ی)، بیارایید.
نهی: میارا(ی)، میارایید.

شاهد:
همه شب همی لشکر آراستند
سنان و سپرها بپیراستند
(فردوسی)

هر گلِ نو که شد چمن‌آرای
ز اثرِ رنگ و بویِ صحبتِ اوست
(حافظ)

تو گر خواهی که جاویدان جهان یکسر بیارایی
صبا را گو که بردارد زمانی برقع از رویت
(حافظ)


ز اثرِ رنگ و بویِ صحبتِ اوست
اِس مصرعے میں 'ز اثرِ' کو 'زَثَرِ' خوانا (پڑھا) جائے گا۔ اِس بارے میں مَیں قبلاً وضاحت کر چکا ہوں:
فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت 'از' کے مخفف 'ز' اور مصوِّت سے شروع ہونے والے الفاظ کے درمیان ادغام بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً مندرجۂ ذیل شعروں میں وزن برقرار رکھنے کے لیے 'ز الحانش' اور 'ز آتش' کو بالترتیب 'زِلحانش' اور 'زاتش' پڑھا جائے گا۔ فارسی میں یہ چیز جائز ہے۔
مشو قانع به صوت و حرف، کسبِ فیضِ معنی کن
که داود از نبوت می‌کند دعوی نه ز الحانش
(محمد فضولی بغدادی)
دل و می هر دو روشن شد، ‌نمی‌دانم که تابِ می
زد آتش‌ها به دل، یا تابِ می شد ز آتشِ دل‌ها
(امیر علی‌شیر نوایی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ابھی ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی ہے کہ افغان فارسی میں لفظِ 'تخلّص' نامِ خانوادگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

وارسا، لہستان میں موجود سفارت خانۂ افغانستان کی ویب گاہ سے ایک مثال:
"کسانیکه خواهان تغییر تخلص خویش در پاسپورت جدید میباشند مدارک ضروری چون نکاح خط را با خود داشته باشند."
ترجمہ: جو اشخاص نئے گذرنامے میں اپنے خاندانی نام کی تبدیلی کے خواہاں ہیں، اُن کے پاس نکاح نامے جیسے ضروری کاغذات ہونے چاہییں۔

× لَہِستان = پولینڈ
× نکاح‌خط = نکاح نامہ (یہ لفظ افغانستان میں استعمال ہوتا ہے۔)
× گُذَرنامہ = پاسپورٹ (ایران میں 'گذرنامہ' ہی مستعمل ہے۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لَهِستان
جب عثمانیوں کا ارتباط سرزمینِ 'پولینڈ' سے ہوا تھا تو اُنہیں وہاں 'لخ' یا 'لہ' کہلائے جانے والے مردم ملے تھے، اِس لیے اُنہوں نے اپنی زبان میں اِس منطقے کا نام 'لہستان' رکھ دیا تھا، جو پس ازاں عثمانی ترکی سے فارسی میں بھی منتقل ہو گیا تھا۔ اب فارسی میں 'پولینڈ' اور 'پولینڈی' کے لیے بالترتیب 'لهستان' اور 'لهستانی' ہی مستعمَل ہیں۔

اردو کے صاحبِ طرز و نوپرداز شاعر ن م راشد نے اپنی نظم 'دستِ ستمگر' میں لفظِ 'لہستان' کا بارہا استعمال کیا ہے۔ اُس میں سے ایک مثال دیکھیے:
"کہاں بھول سکتا ہوں، اے عندلیبِ لہستاں
وہ نغمے، لہستاں کے دہقانی نغمے
جو فوجی سرائے کی بے کار شاموں میں
تیری زباں سے سنے ہیں ۔۔"

ن م راشد نے کئی سال ایران میں گذارے تھے، اور اُن کی زبان اور شاعری پر جدید ایرانی فارسی زبان و ادب کا بسیار اثر تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بوئے مروّتے نہ شمیدم ز ہیچ کس
مردم گرفتہ اند ہمہ رنگِ روزگار


واقف لاہوری

کسی بھی انسان سے مجھے مروت کی خوشبو نہیں آتی، یعنی سارے کے سارے انسان سراسر زمانے کے رنگ میں رنگے گئے ہیں۔

شَمِیدن ۱

۱. رمیدن، ترسیدن؛ بی‌هوش شدن.

گر آهویی، بُتا و کَنارِ مَنَت شَمَر،
آرام گیر با من و از من چنین مَشَم!
(خفّاف)

سپاهِ جادُوَان از تو رمیده،
نگارِ چینیان از تو شمیده.
(فخرالدین گُرگانی)

۲. آشفتن.

شمید و دلش موج برزد ز جوش،
ز دل هوش و از جان رمیده خروش.
(عُنصُری)

شَمِیدن ۲

بوییدن، بوی کردن.

نافهٔ مُشک نشد داغِ جگر،
بویِ زلفِ تو شمیدیم عبث.
(خاقانی)

این آن مرد است، که ما بویِ وی شمیده بودیم.
(نَفَحات‌الاُنس)

هر مرتبه‌ای، که بو کشیدم،
از خاکِ تو بویِ جان شمیدم.
(شاهین)


[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ دوم، صفحه ۵۶۳]

× یہ دونوں 'شمیدن' دو مختلف مصادر ہیں۔ وارث بھائی کے انتخاب کردہ شعر میں شمیدنِ ثانی استعمال ہوا ہے۔
× شمیدنِ ثانی کی اصل کے بارے میں دو آراء نظر آئی ہیں: یا تو یہ رقصیدن اور فہمیدن کی طرح ایک مصدرِ جعلی ہے اور عربی کے 'شم' کے ساتھ مصدرساز لاحقے 'یدن' کو پیوستہ کر کے وضع کیا گیا ہے۔ یا پھر یہ 'شنیدن' کی تحریف شدہ شکل ہے اور فارسی الاصل ہے، کیونکہ 'شنیدن' کا بھی ایک ضمنی معنی 'بو کرنا' ہے۔ میری نظر میں پہلی رائے بہتر ہے۔


گر آهویی، بُتا و کَنارِ مَنَت شَمَر،
آرام گیر با من و از من چنین مَشَم!
(خفّاف)
شَمَر = آبگیر، تالاب؛ حوضِ کوچک [فرهنگِ عمید]
مندرجۂ بالا شعر کا یہ ترجمہ ہے: اے بُت! اگر تم آہو ہو اور میرے کنارے تمہارا تالاب ہے تو میرے ساتھ آسودہ و مانوس ہو جاؤ اور مجھ سے یوں مت گریزاں ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میں دو روز قبل ایک مقالہ 'واژه‌هایِ فریب‌کار در فارسیِ افغانستانی' خوان (پڑھ) رہا تھا جس میں مصنف نے ایسے بعض فارسی الفاظ کی فہرست فراہم کی ہے جو ایران اور افغانستان میں مختلف مفاہیم میں استعمال ہوتے ہیں۔ دلچسپ چیز یہ لگی کہ بیشتر موارد میں افغان فارسی کا استعمال اردو کے استعمال سے مطابقت رکھتا ہے۔ مقالۂ مذکور میں سے چند نمونے ذیل میں پیش ہیں:

افغانستان میں 'اخبار' روزنامے کو کہتے ہیں، جبکہ ایران میں یہ 'خبر' کی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

معاصر ایرانی فارسی میں 'ادویه' غذاؤں کے مصالحہ جات کے برائے (لیے) استعمال ہوتا ہے، جبکہ افغانستان میں یہ لفظ 'دوا' کی جمع کے طور پر مستعمل ہے۔

معاصر ایرانی فارسی میں 'آفتاب' نورِ خورشید کو کہتے ہیں، جبکہ افغانستان میں یہ لفظ خورشید کے برائے کام میں لایا جاتا ہے۔ کہنہ ادبی فارسی میں بھی یہ لفظ اکثراً خورشید کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔

افغانستان میں 'بارش' باران کو کہتے ہیں، جبکہ ایران میں ہر برسنے والے چیز کے برائے اِس کا استعمال ہوتا ہے، لہذا وہاں 'بارشِ برف' جیسی تراکیب بھی مستعمل ہیں۔

افغانستان میں 'بازار' ہر اُس جا کو کہتے ہیں جہاں چند دکانیں موجود ہوں۔ ایران میں یہ لفظ شہر کے بازارِ بزرگ کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

جس بچے کے اَخلاق خوب نہ ہوں، اُسے افغانستان میں 'بچهٔ خراب' کہتے ہیں۔ ایران میں اِس کی بجائے 'بچهٔ بد' استعمال ہوتا ہے، اور 'خراب' وہاں ویران کا معنی رکھتا ہے۔

افغانستان میں 'برداشت' تحمّل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

معاصر ایرانی فارسی میں 'تردُّد' پے در پے آمد و رفت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ افغانستان میں یہ لفظ دو دلی و تذبذب کے معنوں میں رائج ہے۔ ایران میں اِس مفہوم کو بیان کرنے کے برائے 'تردید' کا استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'تکلیف' بیماری و ناراحتی کو کہتے ہیں، جبکہ ایران میں یہ لفظ ذمہ داری، فریضہ، مسئولیت وغیرہ کے معنوں میں مستعمل ہے۔

ایران میں 'تنظیم' کسی چیز کو نظم دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ افغانستان میں یہ کسی ادارے یا کسی تنظیم اور کسی منظم گروہ یا دستے کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

ایران میں 'تنگ‌نظر' خسیس و بخیل شخص کو کہتے ہیں، لیکن افغانستان میں یہ لفظ اُس شخص کے برائے استعمال ہوتا ہے جو وسعتِ نظر نہ رکھتا ہو۔

معاصر ایران میں 'جنگندہ' جنگی طیارے کے برائے استعمال ہونے لگا ہے، لیکن افغانستان میں یہ جنگ کرنے والے کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'جوان شدن' کا مفہوم سنِ جوانی میں قدم رکھنا ہے۔ ایران میں یہ فعل دوبارہ جوان ہونے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

ایران میں 'چاق' فربہ کے برائے استعمال ہوتا ہے۔ افغانستان میں یہ تندرست کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

معاصر ایرانی فارسی میں 'حفظ کردن' زیادہ تر 'حفاظت کرنا' جبکہ افغانستان میں 'یاد کرنا' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں بھی 'خط' نامے کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'خفہ' ناراحت و اندوہ زدہ کے برائے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی افغان کہے 'خفه شدی؟' تو اِس کا مفہوم یہ ہے کہ 'کیا ناراحت ہو گئے؟' ایران میں یہ لفظ اُس شخص کے برائے استعمال ہوتا ہے جو تنگیِ نَفَس کا شکار ہو یا جس کا گلو دبایا جا رہا ہو۔
میرا گمان ہے کہ اردو کا لفظ 'خفا' بھی افغان فارسی لفظ 'خفہ' سے پیوند رکھتا ہے۔

کہنہ ادبی فارسی کی طرح افغان فارسی میں بھی 'درآمدن' کا معنی داخل ہونا ہے۔ لیکن ایران میں اِس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے اور اب وہاں یہ لفظ بیرون آنے کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'درکار' لازم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایران میں یہ لفظ رائج نہیں ہے۔

افغان فارسی میں 'دروازہ' ہر قسم کے در کو کہتے ہیں۔ ایران میں یہ لفظ صرف 'درِ بزرگ' کے برائے مستعمل ہے۔

ایران میں 'دریا' بحر کو کہتے ہیں، جبکہ افغانستان میں یہ لفظ رُود یا نہر کے معنی میں رائج ہے۔

افغان فارسی میں 'مذاق' شوخی کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ ایران میں یہ لفظ ذائقہ، مزہ، ذوق، محلِ قوتِ ذائقہ وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں بھی کسی مرد کو محترمانہ خطاب کرنے کے برائے اُس کے نام کے بعد 'صاحِب' لگاتے ہیں۔ ایران میں یہ لفظ مالک کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'طلائی' زر سے ساختہ چیز کو کہتے ہیں، جبکہ ایران میں یہ لفظ طلائی رنگ کی چیز کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

ایران میں 'غریب' بیگانہ کے برائے استعمال ہوتا ہے، جبکہ افغانستان میں کسی شخصِ مستمند و بے نوا کے برائے یہ لفظ کام میں لایا جاتا ہے۔

افغانستان میں 'قبض' شکم کی بیماری کے برائے جبکہ ایران میں یہ لفظ 'رسید' کے برائے استعمال ہوتا ہے۔ اردو اور افغان فارسی والے 'قبض' کے برائے ایران میں 'یُبُوسَت' رائج ہے۔

افغانستان میں 'کشیدگی' کشمکش و سختی و ناراحتی کے معنوں میں مستعمل ہے۔ ایران میں یہ لفظ کسی چیز کا کھنچا ہوا ہونا یا طوالت و درازی کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'مزدوری کردن' اردو والے معنوں میں رائج ہے۔ لیکن ایران میں یہ فعل کسی سے اجرت لے کر کوئی منفی کام، مثلاً ملک سے غداری وغیرہ، کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

معاصر ایرانی فارسی میں 'مستحق' اکثراً اُس فقیر کو کہتے ہیں جو اعانت کا مستحق ہو، لیکن افغانستان میں یہ کسی چیز کا استحقاق رکھنے والے شخص کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'مستی کردن' شیطانی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر بچے سے کہا جائے 'مستی نکن!' تو اِس کا مفہوم ہو گا: شیطانی مت کرو!

ایران میں 'مولوی' مولانا جلال الدین رومی کے برائے استعمال ہوتا ہے۔ افغانستان میں ہر اہلِ سنت دینی پیشوا کو 'مولوی' کہا جاتا ہے۔

ایران میں 'نقره‌ای' نقرئی رنگ کی چیز کو کہتے ہیں۔ جبکہ افغانستان میں یہ لفظ سِیم (چاندی) سے بنی چیز کے برائے استعمال ہوتا ہے۔

افغانستان میں 'یادداشت کردن' اپنے ذہن میں کسی چیز کو محفوظ کرنے کے برائے استعمال ہوتا ہے۔ ایران میں یہ فعل کاغذ پر کسی چیز کو یادداشت کی غرَض سے ثبت کرنے کے برائے مستعمل ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"افغانستان میں 'اَک' کا لاحقہ تصغیر کی بجائے تحبیب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ برائے مثال، وہاں 'مادرک' کا معنی 'مادرِ کوچک' نہیں، بلکہ 'مادر جان' ہے۔ نیز، بعض افراد، خصوصاً اہلِ کابل، اِسے تکیہ کلام کے طور پر اپنے کئی الفاظ کے آخر میں چپکاتے ہیں اور اِس کے استعمال سے اُن کی نظر میں کوئی خاص معنی نہیں ہوتا۔ تصغیر کے لیے بھی کبھی کبھار استعمال ہوتا ہے۔"
==================
"افغانستان میں لفظِ 'تاجیک' عموماً افغان تاجکوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ کمتر ہی تاجکستانی شہریوں کے لیے کام لایا جاتا ہے۔ اُنہیں وہاں معمولاً 'تاجیکی' کہتے ہیں۔"
(ماخذ: واژه‌های فریب‌کار در فارسی افغانستانی، امیرحسین اکبری شالچی)
 
آخری تدوین:
Top