چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟

زہیر عبّاس

محفلین
انسانی ڈھانچہ

کس طرح انسانی ڈھانچہ حرکت کرتا ہے

human%2BSkeleton.jpg

ڈھانچے کے بغیر ہم زندہ رہنے کے قابل نہ ہوتے۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں شکل و صورت عطا کرتا ہے اور اسی کی موجودگی کی وجہ سے ہم روزمرہ کے کام کرتے ہیں۔ تمام دوسرے جانداروں اور معدوم فقاریوں کے درمیان یہ دل موہ لینے والا ارتقائی ربط بھی ہے۔

انسانی ڈھانچہ ہمارے زندہ رہنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ یہ ہماری صورت کو برقرار رکھتا ہے اور اس سے جڑے پٹھے نہ صرف ہمیں حرکت کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ ہمارے ان اہم اعضاء کی حفاظت بھی کرتے ہیں جو ہمیں زندہ رہنے کے لئے درکار ہیں۔ ہڈیاں گودے کے اندر خون کے خلیات بھی پیدا کرتی اور نمکیات کو ذخیرہ کرتی ہیں اور ہماری روز مرہ کی ضرورت پورا کرنے کے لئے یہیں سے ان کی رسد دی جاتی ہے۔

ایک مکمل بانکے بالغ کے طور پر آپ کے جسم میں لگ بھگ 206 ہڈیاں ہوتی ہیں تاہم آپ کی پیدائش کے وقت یہ 270 سے زائد ہوتی ہیں جو پیدائش کے بعد عورتوں میں 18 برس تک جبکہ مردوں میں 20 برس تک بڑھنا اور مضبوط ہونا جاری رکھتی ہیں۔ انسانی ڈھانچے کی ساخت اصل میں ایک جنس میں بھی متغیر ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک سب سے زیادہ واضح جگہ پیڑو (فقاریوں کے دھڑ کے نچلے حصّے میں ایک تسلے جیسا جوف بڑا استخوانی بیسن نُما کہفَہ جو لا اسمی ہڈیوں اور سیکرم سے بنتا)ہے کیونکہ عورت کو بچہ پیدا کرنے کے قابل ہونا ہوتا ہے لہٰذا ان کے کولہے نسبتاً کم گہرے اور چوڑے ہوتے ہیں۔ کاسہ سر مردوں میں زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے بھاری پٹھے جڑے ہوتے ہیں اور مردوں کی ٹھوڑی اکثر زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ خواتین کے ڈھانچے بحیثیت مجموعی زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ نر و مادہ کی تفریق نوع کے درمیان موجود تغیر کی سطح کی وجہ مشکل ہو سکتی ہے۔

ہڈیاں کئی مختلف اجزاء سے مل کر بنتی ہیں۔ پیٹ میں ڈھانچہ کرکری ہڈی کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر وہ زمانہ حمل کے دوران اور پیدائش کے بعد سخت ہونا اور نشوونما پا نا شروع کر دیتا ہے۔ استخوانی بافتے وہ بنیادی جز ہیں جو ہڈیوں کو بناتے ہیں یہ اصل میں معدنی کیلشیم فاسفیٹ ہوتا ہے تاہم بافتوں کی دوسری صورتیں جیسا کہ گودا، چبنی ہڈی اور خون کی نسیں بھی ڈھانچے میں مجموعی طور پر شامل ہوتی ہیں۔ بہت سے افراد سمجھتے ہیں کہ اصل میں ہڈیاں ٹھوس ہوتی ہیں تاہم اندرونی ہڈیاں مسام دار اور سوراخوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔

ہمارے ساتھ ہماری ہڈیوں کی عمر بھی ڈھلتی ہے۔ اگرچہ خلیات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح سے کوئی بھی خلیہ ہمارے جسم میں 20 برس سے زائد عمر کا نہیں رہتا تاہم ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر نئے خلیات سے تبدیل نہیں ہوتا۔ خلیات کے ڈی این اے میں غلطیاں ہوتی ہیں لہٰذا بالآخر عمر گزرنے کے ساتھ ہماری ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ گٹھیا اور آسٹیوپوروسس (تَصلَب العظام) جیسی صورتحال اکثر بڑھتی عمر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور کمزور ہوتی ہڈیوں اور کم تحریک کی صلاحیت کا باعث بنتی ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
اسٹیم سیلز کی وضاحت اور خلیات کی کلوننگ

اسٹیم سیلز کی نشوونما کیسے کی جاتی ہے؟


کس طرح سے تحقیق کے لئے عطیہ کردہ ایک اسٹیم سیل کو بار آور انسانی جنین میں پرورش کیا جاتا ہے، اس کے اندر کافی سارے اسٹیم سیلز موجود ہوتے ہیں کیونکہ خلیات کو اپنے پورے جوبن پر آنا ہے۔ سائنس دان اس میں سے خلیات کو کشید کرتے ہیں اور ان کو کاشت کرنے والی طشتری پر رکھتے ہیں۔

یہ کاشت کرنے والی طشتری مختلف چیزوں سے لبریز ہوتی ہے جو مختلف غذائی اجزاء کا ملغوبہ ہوتی ہے اس کا کام خلیات کو تقسیم ہونے اور پرورش پانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔ جب خلیات تقسیم ہوتے ہیں تو ان کو متعدد طشتریوں میں رکھا جاتا ہے جس میں ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ ایک جنین اسٹیم سیلز کی قطار کو مکمل کرے۔ جب ایک قطار مکمل ہو جاتی ہے تو پھر اس کو مزید تحقیق و ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اسٹیم سیلز کیا ہوتے ہیں ؟


اس بات کو سمجھیں کہ کس طرح یہ بنیادی اینٹیں نئی زندگی کو وجود میں لاتی ہیں

اسٹیم سیلز (خام یا غیر متشکل خلیہ جس سے مخصوص خلیے تشکیل پاتے ہیں ) اس قدر خاص ہوتے ہیں کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے، ان میں خون کے سرخ ذرّات سے لے کر دماغ کے خلیات تک جسم کے کسی بھی قسم کے خلیے کے بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ حیات اور اس کی نمو کے لئے لازمی یوں ہیں کہ وہ بافتوں کی مرمت اور مردہ خلیات کو تبدیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جلد کی بھرائی مسلسل جلد کے اسٹیم خلیات سے ہوتی رہتی ہے۔

اسٹیم سیلز اپنی حیات کا چکر عمومی، بغیر خاصیت کے خلیہ سے کرتے ہیں جن میں بافتوں سے مخصوص کوئی ساخت نہیں ہوتی مثلاً آکسیجن کو لے جانے کی صلاحیت۔ اسٹیم سیلز تدریجی فرق نامی ایک عمل کے ذریعہ خاص بنتے ہیں۔ اس عمل کی شروعات اندرونی اور بیرونی اشاروں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اندرونی اشارے ڈی این اے کی لڑیوں سے آتے ہیں جن میں خلیات کی ساخت کی اطلاعات ہوتی ہیں جبکہ بیرونی اشاروں میں قریبی خلیات کے کیمیائی مادّے شامل ہیں۔ اسٹیم سیلز اپنے آپ کی کئی مرتبہ نقول بنا لیتے ہیں - جسے ہم نمود کے نام سے جانتے ہیں - جبکہ کچھ دوسرے جیسا کہ عصبی خلیات تقسیم ہی نہیں ہوتے۔ اسٹیم خلیات کی دو اقسام ہیں جیسا کہ آکسفورڈ مارٹن اسکول کے شعبہ آکسفورڈ اسٹیم سیلز انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر پال فیئر چائلڈ کہتے ہیں : "بالغ اسٹیم سیلز کافی با اختیار ہوتے ہیں جس کا مطلب ہوا کہ وہ متعدد قسم کے خلیات پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو ایک طرح سے دیگر سے متعلق ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہڈی کے گودے میں موجود اسٹیم سیلز وہ خلیات بنا سکتے ہیں جو خون کو بناتا ہے، " وہ کہتے ہیں۔ "اس کے برعکس زائد قوی اسٹیم سیلز جو نمو کرتے جنین میں پائے جاتے ہیں وہ تخمینہ لگائے گئے 210 خلیات میں سے کسی ایک کو بھی بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو مل کر انسانی جسم کو بناتا ہے۔ "

تقسیم اور تبدیل ہونے کی یہ حیرت انگیز خوبی اسٹیم سیلز کو طبی تحقیق میں ایک زرخیز ذریعہ بنا دیتی ہے۔ ایک مرتبہ ان کی حقیقی صلاحیت کا فائدہ اٹھانے کے طریقے کو قابو کر لیا جائے تو ان کا استعمال بہت ساری بیماریوں اور معذوریوں کے علاج کے لئے کیا جا سکے گا۔

خلیات کی کلوننگ


سائنس دان خلیات کو اپنا حالیہ کردار بھول کر دوبارہ سے زائد قوی خلیات بنانے کے لئے پروگرام کر سکتے ہیں - جو ابتدائی جنین کے اسٹیم سیلز سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ ان کو آمادہ زائد قوی اسٹیم سیلز (آئی پی ایس سی ایس) کہتے ہیں اور ان کا استعمال جسم کی ان جگہوں پر کیا جا سکتا ہے جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ قریبی خلیات کی خصوصیات حاصل کر لیتے ہیں۔

آئی پی ایس سی اس سے کہیں زیادہ قابل بھروسہ ہیں جتنا کہ کسی جنین کے عطیے سے بنے اسٹیم سیلز کیونکہ جسم اپنے آپ سے بنے اسٹیم سیلز کو زیادہ آسانی سے قبول کرتا ہے۔

آئی پی ایس سی انحطاطی صورتحال کا سدباب کرنے میں استعمال ہو سکتی ہے جیسا کہ لرزنے اور گنج پن کی بیماری جو ان خلیات کے مرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں جن کی بھرائی نہیں کی جاتی۔ آئی پی ایس سی ان کمیوں کو بھر کر جسم کے نظام کو اپنے پہلے کے مقام پر لے آتی ہے۔

پروفیسر فیئر چائلڈ کہتے ہیں کہ آئی پی ایس سی بہت ساری بے مخصوص ضابطگیوں کے علاج کی تلاش میں مدد دے سکتی ہے : "ان افراد سے خلیات حاصل کر کے جو ان نادر صورتحال سے دوچار ہیں ہم تجربہ گاہ میں اس صورتحال کا نمونہ بنا سکتے ہیں اور بیماری پر استعمال ہونے والی نئی ادویات کے اثرات کی چھان بین کر سکتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
درختوں کی زندگی





بیج سے لے کر جنگل کے دیوہیکل باشندہ بننے تک، جائیے کہ کس طرح سے درخت نشوونما حاصل کرتے ہیں اور آیا کیوں آپ ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

جب جنگل کی زمین پر پڑے ہوئے ایک ننھے سے بلوط کے پھل کو آپ دیکھتے ہیں تو یہ تصور کرنا محال ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے بیج میں کس قدر مخفی صلاحیت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر یہ بیج پھوٹ پڑے تو 50 برس کے بعد یہ ایک اونچے درخت میں تبدیل ہو چکا ہو گا اور کئی انسانی نسلوں تک باقی رہنے کی قابلیت حاصل کر چکا ہو گا۔

اور یہ کہ یہ تو صرف ایک چھوٹے سے بلوط کے بیج کی بات ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہمارے سیارے پر لگ بھگ 10,000 انواع کے 3 کھرب کے قریب پودے موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک درخت ہماری آب و ہوا کو ٹھیک کرنے میں اپنا حصّہ ڈالتا ہے اور نہ صرف وہ ہوا پیدا کرتا ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں بلکہ دوسری کافی زیادہ ذمہ داریاں بھی نبھاتا ہے جس کو جان کر آپ حیران ہوں گے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
اس تصویر میں کئی جگہ ایک لفظ "ہیٹرو" لکھا گیا ہے، یہ دراصل "پیڑو" لفظ ہے۔ جسم کے جس حصے کی یہ لفظ نشاندہی کر رہا ہے اُسے پیڑو کہتے ہیں۔ "مشط پائی" بھی میرے خیال میں "مشت پائی" ہونا چاہیے۔

جی نشاندہی کرنے کا بہت شکریہ! یہ الفاظ میں نے دوست کی گولڈن ڈکشنری سے دیکھ کر لکھے تھے۔ میں ان غلطیوں کو درست کرتا ہوں۔ امید ہے مستقبل میں بھی آپ اسی طرح رہنمائی کرتے رہیں گے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
انسانی جوڑ اور ہڈیوں کا ٹوٹنا

ہمارے جسم میں موجود مختلف اقسام کے جوڑوں کی وضاحت



ہڈیوں کا ٹوٹنا

ہڈی چاہے کہ پوری ٹوٹی ہو یا صرف شکستہ ہوئی ہو، دونوں صورتوں میں صحیح طرح سے زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

اگر آپ کی ہڈی میں صرف دراڑ پڑ گئی ہے تو آپ کو اس کو سیدھا رکھنا ہے اور اس پر سے دباؤ ہٹانا ہے تاوقتیکہ یہ ٹھیک نہ ہو جائے۔ تاہم اگر آپ نے ہڈی کو ایک سے زیادہ حصّوں میں توڑ ڈالا ہے تو پھر آپ کو اس کو ٹھیک کرنے کے لئے یا تو دھاتی کیلوں کی ضرورت ہو گی جو ہڈیوں میں گھس کر اس کو سیدھا کر سکیں یا پھر پلیٹس کی ضرورت ہو گی جو ٹوٹی ہوئی جگہ کو ڈھانک کر اس کو صحیح طرح سے ٹھیک ہونے کے لئے چھوڑ دے۔ اس جگہ جہاں پر ہڈی میں دراڑ پڑی ہے یا ہڈی ٹوٹی ہے وہاں نئے خلیات اور ننھی خون کی نسوں کو پیدا کر کے اور ان کے ساتھ دوبارہ مل کر ہڈیاں ٹھیک ہوتی ہیں۔ زیادہ تر ہڈی کے ٹوٹنے اور دراڑ پڑنے کے لئے ہڈی کے ارد گرد بیرونی جسم میں ایک چیز لگا دی جاتی ہے ت کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہڈی پر سے دباؤ ہٹ جائے اور مزید خرابی پیدا نہ ہو اور ٹوٹا ہوا حصّہ صحتیاب ہو جائے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
مستقبل کے پولیس اہلکار

حقیقی زندگی کے روبوٹ نما سپاہی کا ہیڈسیٹ


سنہری آنکھ ایک نیا پہنے والا ایسا ہیڈ سیٹ ہے جو پولیس افسران کو مافوق الفطرت صلاحیتیں مہیا کرے گا۔ سنہری آنکھ پہننے والے کو برق رفتاری ور آسانی سے اہم اطلاعات فراہم کرے گی، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو آواز اور سر کی حرکت سے چلایا جا سکے گا جس سے افسران کے ہاتھ دوسرے کام کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ آس پاس لگے ہوئے دوسرے قریبی سی سی ٹی وی اور دیگر ہیڈ سیٹ سے براہ راست حاصل ہونے والی ویڈیو کی مدد سے یہ اصل وقت میں صورتحال کی معلومات فراہم کرے گی۔

پولیس کے ساتھی اطلاقیہ میں چہرہ کو شناخت کرنے والا سافٹ ویئر بھی موجود ہے جو پولیس کے اندراج میں پہلے سے موجود مجرموں کی شناخت کر سکتا ہے، یہ عمارتوں کے نقشے اور جگہوں کے جی پی ایس محدد بھی حاصل کر سکتا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر کن صلاحیت سرخ زیریں اشعاع کا استعمال کرتے ہوئے دیواروں کے آر پار دیکھنے کی ٹیکنالوجی کی ہے، جب اس کو حرارتی بصارت کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے گا تو یہ چھپے ہوئے ملزموں کی تلاش کے لئے بہترین ہو گی۔

سنہری آنکھ کا ایک 14 میگا پکسل کا کیمرا جمودی طور پر مستحکم ہے جس سے ایک دوڑتا ہوا پولیس افسر جرم کی واضح ویڈیو بنا سکتا ہے۔ سنہری آنکھ کے تھوڑے سے الگ نسخے آتش کش (آگ بجھانے والے) اور معاون کارکنوں کے لئے بھی بنائے گئے ہیں۔

غیر مہلک ڈیزلر لیزر
ڈیزلر مجرموں کوعارضی طور پر اندھا کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتی ہے : یہ ان کو بھاگتے ہوئے روک سکتی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کی وطن کی حفاظت کے شعبے کے لئے انٹیلیجنٹ آپٹیکل سسٹمز انک کا بنایا ہوا یہ فشار نور ہدف کی آنکھ کے فاصلے کی پیمائش کچھ مختلف حساب لگا کر کرتا ہے لہٰذا یہ روشنی کی ضربوں کی طاقت کو موافق کر کے پھینکتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکے کہ ملزم کی آنکھ کو ہمیشہ کے لئے نقصان نہ پہنچ جائے۔ یہ انتہائی روشن روشنی ڈائیوڈز (ایل ای ڈی) کو خارج کرتی ہیں اور کسی بھی شخص کو دو طرح سے بے بس کر دیتی ہیں۔ چمک عارضی اندھا پن پیدا کرتی ہے بعینہ جیسے کہ کوئی بھی تیز روشنی کرتی ہے، تاہم اصل اختراع نفسی طبیعی اثر میں چھپا ہے جو چکرا دینے سے لے کر متلی کی کفیت تک کو پیدا کرتی ہے اور یہ کچھ منٹوں تک باقی رہتی ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
جادوئی دوربینی نگاہ

آپ اپنے آس پاس کی چیزوں کو صرف آنکھ مار کر بڑا کر کے دیکھنے کے قابل ہوں گے



سپرمین کی نگاہ دوربینی تھی جس کی بدولت وہ میلوں تک حالات و واقعات دیکھ سکتا تھا تاہم انسان اس کی اس صلاحیت کی نقل مکمل طور پر ایک الگ مقصد کے لئے کررہے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ داغی بگاڑ (اے ایم ڈی) پوری دنیا میں بوڑھے لوگوں میں اندھے پن کا سب سے بڑا سبب ہے، جس میں آنکھ کی پتلی میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دیکھے جانے والی چیزوں کی نفیس تفصیلات سے نہیں نمٹ سکتی ہے۔

اے ایم ڈی کا شکار ہونے والے افراد کی بصارت کو بہتر بنانے کے لئے سان ڈیاگو اور سوئٹزر لینڈ کے محققین نے ایک ایسا دوربینی کانٹیکٹ لینس بنایا ہے جو آپ کی نگاہ کو 2.8 گنا بہتر کر سکتا ہے۔ یہ غیر لچکدار کانٹیکٹ لینس ایک عام لینس سے بڑا ہوتا ہے تاہم پھر بھی یہ اے ایم ڈی کا شکار افراد کے لئے موجود علاج کے مقابلے میں کافی اچھا ہے جس میں بھاری دوربینی عدسے والے چشمے پہننے پڑتے ہیں۔ اگرچہ خصوصی عینک کانٹیکٹ لینسز کے ساتھ اب بھی پہننے پڑیں گے تاہم یہ سام سنگ کے سہ جہتی چشموں کو تبدیل کر کے حاصل کئے گئے ہیں جس میں کافی جدید ٹیکنالوجی کی خصوصیات شامل ہیں۔

فریم پر لگے حساسئے آپ کو عام اور دوربینی بصارت میں دیکھنے کی اجازت آنکھ مارنے کے ساتھ دیتے ہیں۔ آپ سیدھی آنکھ ماریں گے تو 2.8 گنا اضافہ متحرک ہو جائے گا جبکہ الٹی آنکھ اس کو غیر فعال کر دے گی۔ ایرک ٹریمبلے جو تحقیق کی سربراہی سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کررہے ہیں کہتے ہیں : "اس نقطہ پر یہ اب بھی تحقیق ہی ہے، تاہم ہمیں امید ہے کہ بالاخر یہ اے ایم ڈی کے شکار افراد کی حقیقی پسند ہو گی۔ "​
 

زہیر عبّاس

محفلین
جسم کے بیکار حصّے

آخر کیوں انسانوں اور کچھ دوسرے جانوروں نے ان اعضاء کا استعمال کرنا چھوڑ دیا جو کبھی ان کی بقاء کے لئے انتہائی اہم تھے ؟



چارلس ڈارون تاریخ کے سب سے زیادہ مشہور نیچرلسٹ میں سے ایک ہے۔ 19 ویں صدی میں رہنے والا یہ شخص اپنے نظریہ ارتقاء کی وجہ سے مشہور ہوا۔ نطفے پر کئے جانے والے انواع کے ماخذ کے کام میں اس نے وضاحت کی کہ کس طرح ایک جیسے جانور بجائے بالکل ہی ایک دوسرے سے الگ ہونے کے ایک جیسا مشترکہ اجداد رکھتے ہیں۔ جب بعد کی نسلیں پیدا ہوتی ہیں تو خصلتیں اور خصوصیات جو انواع کے زندہ رہنے کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتیں وہ ختم ہو جاتی ہیں۔ مختصراً یہی نظریہ ارتقاء ہے۔

نتیجتاً جسم میں باقی رہ جانے والے کچھ عضو اور خصلتیں اپنا فعل کھو دیتی ہیں اور مزید استعمال میں نہیں رہتیں۔ اس بات کا اطلاق جتنا دوسری مخلوقات پر ہوتا ہے اتنا ہی انسانوں پر بھی ہوتا ہے ؛ ہمارے کچھ طبیعی اور برتاؤ کے ردعمل جو دوسرے کچھ جانداروں میں تو اب بھی فعال ہیں تاہم ایسا نہیں لگتا کہ ان کا ہمیں اب کوئی فائدہ ہے۔ یہ ارتقائی باقیات جو اب کسی مقصد کی نہیں ہیں یادگاری اعضاء کہلاتی ہیں ۔

ارتقاء نے کچھ موجودہ خصوصیات کو اس طرح ڈھال دیا ہے کہ وہ ہماری اس نئے طریقے سے مدد کرتی ہیں جس کو اکزاپیٹیشن کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر پرندوں کے پر نہ صرف ان کو اڑنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ انہیں گرم بھی رکھتے ہیں۔ افعال میں ایسی تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے میں ہزار ہا برس کا عرصہ لگتا ہے اور کچھ صورتوں میں ان کا اصل کردار بالاخر نئی آنے والی نسلوں میں سے بالکل ختم ہی ہو جاتا ہے۔
1۔ زائدہ دودیہ (اپینڈکس)​


یادگاری اعضاء میں سب سے بہترین عضو ہے، جانوروں میں اپینڈکس( زائدہ دودیہ) گھاس میں پائے جانے والے سیلولوز کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے تاہم انسانوں میں اس کا ابھی تک کوئی واضح مقصد نہیں ہے۔
2۔ دم کی ہڈی​

آپ کی ریڑھ کی ہڈی کے نیچے سخت ہڈی، دمچی، ہمارےارتقائی اجداد کے دم کی باقیات ہے۔ اس کا انسانوں میں کوئی کام نہیں ہے تاہم اگر آپ اوپر سے گریں تو یہ ٹوٹ سکتی ہے۔
3۔ رونگٹوں کا کھڑے ہونا​

جانور جسم کے بالوں کا استعمال سردی سے بچنے کے لئے کرتے ہیں جس میں وہ بالوں کی گرم تہ کو جسم کے گرد لپیٹ لیتے ہیں۔ ان میں سے ہر بال خود سے اس وقت کھڑا ہو سکتا ہے جب اس کا اپنا ننھا پٹھا سکڑے تاہم کیونکہ انسانوں نے اپنے جسم کے زیادہ تر بال ضائع کر دیئے ہیں لہٰذا سردی سے بچنے کے لئے ایک جرسی ہی زیادہ موثر رہے گی۔
4۔ پلیکا سیمیلونارس​

آپ کی آنکھ کے کونے میں پائی جانے والی سرخ سلوٹ اندرونی پپوٹے کے لئے شفاف رہی تھی جو اب بھی رینگنے والے جانوروں اور پرندوں دونوں میں موجود ہے۔
5۔ عقل داڑھ​

یہ دانت مسوڑھوں کے ہر کونے میں ہمارے لڑکپن کے اخیر میں نمودار ہوتا ہے۔ ہمارے اجداد اس کو پودوں کے کثیف حصّوں کو چبانے کے لئے استعمال کرتے تھے تاہم ان کا آج کوئی کام نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت میں تو یہ کافی درد پیدا کرتے ہیں لہٰذا اکثر ان کو نکال دیا جاتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نیوٹن کے حرکت کے تین قوانین کیا ہیں؟



نیوٹن کے حرکت کے قوانین وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح سے چیزیں حرکت اور ایک دوسرے سے تعامل کرتی ہیں۔ پہلا قانون بنیادی طور پر جمود کی وضاحت کرتا ہے، اجسام کا وہ لگاؤ جو ان کی حرکت میں ہونے والی تبدیلی کے خلاف مزاحم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیند فرش پر اس وقت تک نہیں لڑکتی جب تک آپ اس کو لات رسید نہ کریں اور آیا کیوں خلائی جہاز نظام شمسی میں اپنا ایندھن ختم کرنے کے بعد بھی تیرتا رہتا ہے۔ دوسرا قانون وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح سے قوت کسی چیز کو حرکت دینے کے لئے درکار ہوتی ہے اور اس کی نسبت جسم کی کمیت سے ہوتی ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ ہم کیوں بائیک کو کار کے مقابلے میں تیزی سے دھکا دے سکتے ہیں۔ تیسرا اور آخری قانون بتاتا ہے کہ اس وقت کیا ہوتا ہے جب دو اجسام ایک دوسرے سے متعامل ہوتے ہیں۔ جب آپ اپنے پیروں کو زمین پر رکھتے کر زور دیتے ہیں توجواب میں فرش بھی آپ کو دھکیلتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
خصوصی اضافیت اور رفتار کی حتمی حد




19 ویں صدی کے دوران البرٹ آئنسٹائن نے اپنا خصوصی اضافیت کا نظریہ طبیعیات میں موجود بحران سے نمٹنے کے لئے بنایا۔ کیونکہ روشنی کی رفتار کی پیمائش کے طریقے بہتر سے بہتر ہو رہے تھے لہٰذا یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ دوسرے مظاہر کی طرح برتاؤ نہیں کرتی - اس کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہی رہتی ہے قطع نظر کہ اس کے ماخذ اور اس کے شاہد کی اضافی حرکت چاہے جو بھی ہو۔

طبیعیات دانوں نے کافی کوششیں کی کہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے تاہم آئنسٹائن ہی صرف وہ شخص تھا جس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہمت کی۔ اس نے دو اصولوں کی بنیاد پر طبیعیات کے قوانین نئے سرے سے لکھے یعنی روشنی کی ایک معین رفتار اور 'خصوصی اضافیت کا اصول' - یعنی کہ طبیعیات کے قوانین ان تمام مشاہدین کے لئے ایک جیسے ہی رہیں گے جو ایک ' جمودی حوالہ جاتی فریم' میں موجود ہیں (یعنی وہ صورتحال جس میں اسراع یا تخفیف اسراع ملوث نہ ہو)۔

آئنسٹائن نے دکھایا کہ جو اجسام 'اضافی' رفتاروں سے حرکت کرتے ہیں (بہت تیز رفتار جو روشنی کی رفتار سے مماثل ہے ) وہ لامحالہ طور پر اپنی ظاہری کمیت اور لمبائی بلکہ وقت کے بہاؤ میں بھی بگاڑ پیدا کر لیں گے (یہ باہر کھڑے ہوئے مشاہد کے نقطہ نظر سے ہو گا)۔ یہ بگاڑ اس وقت لامحدود ہو جائیں گے جب کوئی جسم روشنی کی رفتار سے حرکت کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے آئنسٹائن قائل ہو گیا کہ روشنی کی رفتار، رفتار کی آخری حد ہے۔ اب آئنسٹائن کے نظریئے کی تصدیق کے لئے ایک صدی کے تجرباتی مشاہدات موجود ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
انسانی جلد اور اس بارے میں اہم حقائق

اپنے جسم کے سب سے بڑے اعضاء کے بارے میں جانئے۔ ۔ ۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟ تمام ممالیہ کی کھال پر بال ہوتے ہیں بشمول ان آبی ممالیوں کے بھی جو بغیر بال کے نظر آتے ہیں۔​



ایک اوسط فرد کی جلد کی سطح لگ بھگ دو مربع میٹر ہوتی ہے۔ انسانی کھال ہمارے کل جسم کے وزن کا 16 فیصد تک ہونے کے ساتھ ہمارے جسم میں سب سے بڑا عضو ہوتی ہے۔ یہ تین مختلف پرتوں - اوپری کھال (epidermis)، اصلی کھال (dermis) اور تحت الجلد (hypodermis)-سے مل کر بنتی ہے۔ ان پرتوں میں سے ہر ایک کا منفرد فعل ہوتا ہے۔ انسان ان کمیاب چیزوں میں سے ایک ہے جو ان منفرد پرتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔


اوپری کھال سب سے اوپر اور آب روک(water proof) ہوتی ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کو درست رکھنے میں مدد دینے کے ساتھ، اوپری کھال ہماری عفونت سے بھی حفاظت کرتی ہے کیونکہ یہ مرض پھیلانے والے جرثوموں کو ہمارے جسم میں داخل ہونے سے روکتی ہے۔ اگرچہ عام طور پر اس کو ایک ہی پرت کہا جاتا ہے تاہم حقیقت میں یہ پانچ تہوں سے مل کر بنتی ہے۔ سب سے اوپر کی پرتیں اصل میں مردہ کیراٹین سے بھرے خلیات ہوتے ہیں جو پانی کو ضائع ہونے سے روکتے اور ماحول سے محفوظ رکھتے ہیں، تاہم نچلی سطح جہاں نئی کھال کے خلیات پیدا ہوتے ہیں ان کی پرورش اصلی جلد کرتی ہے۔ دوسری انواع میں جیسا کہ جل تھلیے ہیں اوپری کھال صرف زندہ کھال کے خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان صورتوں میں جلد عمومی طور پر نفوذ پذیر ہوتی ہے اور اصل میں عمل تنفس کے اہم عضو کے طور پر کام کرتی ہے۔


اصلی کھال کے ربط ساز بافتے اور عصبی اخیر ہوتے ہیں اور یہ بالوں کے غدود، پسینے کے غدود، لعاب اور خون کی شریانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اصلی کھال کی اوپری پرت سلوٹ دار ہوتی ہے اور اوپری کھال سے مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے۔


اگرچہ تحت الجلد کو حقیقی طور پر کھال کا حصّہ نہیں مانا جاتا تاہم اس کا مقصد اوپری جلد کی تہوں کو جسم کے اندر موجود ہڈیوں اور پٹھوں سے ملانا ہوتا ہے۔ خون کی شریانیں اور اعصابی کنارے اس پرت سے گزر کر ہی اصلی جلد تک جاتے ہیں۔ یہ پرت درجہ حرارت کو درست رکھنے کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی صحت مند بالغ کے جسم میں چکنائی کا 50 فیصد تک زیر جلد بافتوں میں رکھتی ہے۔ اس طرح کی پرتیں اکثر دوسری انواع میں نہیں دیکھی جاتیں، انسان ان چند انواع میں سے ایک ہیں جو اپنے کھال میں مختلف پرتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کھال پٹھوں، ہڈیوں اور اندرونی اعضاء کی حفاظت کرتی ہے بلکہ ماحول کے خلاف یہ ہماری محافظ رکاوٹ بھی ہے۔ درجہ حرارت کی درستگی، غیر موصل کاری، پسینے کا اخراج اور حس جلد کے چند کچھ اور افعال بھی ہیں۔

جلد سے متعلق پانچ اہم حقائق

1 جرثومے انسانی جلد پر نمو پاتے رہیں گے۔​

ایک عام انسانی جلد کے ہر مربع انچ پر اوسطاً 3 کروڑ 20 لاکھ جراثیم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ دن میں کتنے مرتبہ حمام جائیں یا نہائیں !
2 آپ ہر روز اپنی کھال اترتے ہیں !​

ہر 24 گھنٹے میں آپ اپنی مردہ کھال کے خلیات کی سب سے اوپری جلد کو کھو دیتے ہیں جو آپ کی کھال کو تروتازہ اور صاف اور سانس لینے کے قابل رکھتی ہے۔
3 جسم میں جلد کی موٹائی بہت تیزی سے تغیر پذیر ہوتی ہے۔​

آپ کی پلکوں پر کھال لگ بھگ 1 ملی میٹر موٹی ہوتی ہے، تاہم آپ کے پیروں پر یہ موٹائی 3 ملی میٹر تک بڑھ جاتی ہے اور یوں آپ کو وہاں زیادہ حفاظت دیتی ہے جہاں ضرورت ہوتی ہے۔
4 جب ہماری عمر بڑھتی ہے تو جلد مہین ہوتی ہے​

جلد وقت گزرنے کے ساتھ مہین اور ڈھیلی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جھریاں پڑتی ہیں اور لوگ بڑھاپے میں پلاسٹک سرجری کرواتے ہیں۔
5 ہمارے پسینے کے ارب ہا غدود ہوتے ہیں​

صحت مند جلد کے ہر مربع انچ میں لگ بھگ 650 پسینے کے غدود ہوتے ہیں جو آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے لازمی ہوتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
مستقبل کے بلند و بالا شہر



بڑے شہروں کو اکثر بطور بے کیف توانائی کے بھوکے سنگی جگہوں کے دیکھا جاتا ہے تاہم مستقبل کے شہر ہر چیز کو بدل دیں گے۔ جب کرۂارض پر ذخیرہ شدہ رکازی ایندھن ختم ہو جائے گا تب ہم اپنے شہروں کو توانائی مہیا کرنے کے لئے قابل تجدید شاندار نئے طریقوں کا استعمال کریں گے۔

عمودی کھیت فلک بوس عمارتوں کو بلند و بالا نباتاتی خانے بنا دیں گے۔ فصلیں منزلوں کے درمیان لگائی جا سکیں گی تاکہ کم سے کم زمینی جگہ کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ سورج کی توانائی کا فائدہ بھی اٹھا لیا جائے۔ان ماحول دوست عمارتوں کے سامنے کے حصّوں میں ضیا وولٹائی اثر کے سولر سیل ہوں گے اور ان کی چھتوں پر ہوائی چکیاں لگی ہوں گی جو ان عمارتوں کو شاندار خود کفیل عمارتیں بنا دیں گے۔

مستقبل کے شہری مراکز بہت مختلف لگیں گے کیونکہ ان کے نیچے شمسی توانائی سے چلنے والے درختوں کے جھنڈ ہوں گے۔ یہ نام نہاد برقی درخت سائے سے کہیں زیادہ چیزیں پیش کریں گے، شمسی پینلوں سے پیدا ہونے والی توانائی ان کو فونز چارج کرنے والی، مفت وائی فائی اور رات کو روشنی مہیا کرنے والی جگہوں میں تبدیل کر دے گی۔ شمسی توانائی ایل سی ڈی اسکرین کو متحرک کریگی جو موسم اور تعلیمی مواد جیسی اطلاعات کو دکھائی گی۔

اونچی عمارتیں زمین پر شہری معاشرتی جگہوں اور روشن درختوں کے لئے کافی جگہ مہیا کریں گی۔ ان میں روشنی کو پیدا کرنے والے مرکبات جو نور زا کے نام سے جانے جاتے ہیں لگے ہوں گے یہ ہریالی کو رات میں مستقبل کے شہروں کو ماحول دوست اور مؤثر بہ لاگت کے طریقوں سے روشن کریں گے۔

خوفناکی سے کہیں دور، جج ڈریڈ اینڈ بلیڈ رنر کے بے روح کے والے جہاں کے برعکس مستقبل کے شہر روشن، کشادہ اور ہریالی سے پر ہونے کی امید دلاتے ہیں جو ہمارے استعمال میں آنے والے پہلے سے قدرتی وسائل کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

ورچوئل فٹنگ رومز

یہ ٹیکنالوجی پہلے ہی سے موجود ہے ! کچھ دکانیں آپ کو اپنے جسم پر لباس کو جانچنے کے لئے ٹیبلٹ یا اسمارٹ فون اطلاقیہ کی صورت میں مجازی موقع بھی دیتی ہیں۔یعنی آپ لباس کو بغیر پہنے ہی کمپیوٹر کے اطلاقیہ سے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ پر کیسا لگے گا۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ضیا برقی اثر

اس مظہر کو سمجھیں جس نے کوانٹم انقلاب کو برپا کرنا شروع کیا تھا


اسم با مسمیٰ ضیا برقی اثر اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب روشنی دھات پر پڑتی ہے اور تھوڑی سی برقی رو کو پیدا کرتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ روشنی میں موجود توانائی دھات کی سطح پر موجود الیکٹرانوں کو جوہروں سے نکال دیتی ہے۔ بہرحال اس مظہر کا انحصار دھات پر پڑنے والی روشنی کے رنگ پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنی شدید سرخ روشنی کو دیکھیں اس سے کوئی بھی الیکٹران نہیں نکلنے والا۔ تاہم بہت ہی ہلکی نیلی روشنی اس اثر کو پیدا کر سکتی ہے۔

روشنی کو اگر موج کی طرح سمجھیں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی: ایک روشن بڑی موج میں بنسبت مدھم چھوٹی موج کے زیادہ توانائی ہونی چاہئے۔ البرٹ آئن سٹائن نے اس تناقض کی وضاحت روشنی کو موج تصور کرنے کے بجائے ذرّہ تصور کر کے کی۔ ہر ذرّے یا فوٹون میں توانائی بنڈل کی صورت میں ہوتی ہے۔ ہر نیلا فوٹون اتنی توانائی رکھتا ہے کہ ایک الیکٹران کو نکال سکے۔ تاہم انفرادی سرخ فوٹون سادہ طور پر اتنی توانائی نہیں رکھتا کہ الیکٹرانوں کو ان کے جوہروں سے منتقل کر سکے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ کتنے زیادہ اس جیسے فوٹون موجود ہوں۔

قائل کر دینے والے ثبوت مہیا کرنے کے بعد کہ روشنی ذرّے کی طرح برتاؤ کرتی ہے آئن سٹائن کی وضاحت نے کوانٹم نظریئے کی شروعات کے لئے چنگاری دکھائی جہاں پر روشنی موج اور ذرّے دونوں کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ آج ضیا برقی اثر شمسی سیلوں کو سورج کی توانائی کو برقی رو میں تبدیل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ روشنی کے مدھم منبع کو ڈھونڈنے میں بھی استعمال ہوتی ہے جہاں اس کا استعمال اندھیرے میں دکھانے والے چشموں سے لے کر خلائی آلات تک میں ہوتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
کیپسول میں موجود جادوئی کیمرہ

جسم کے اندرون کی تصویر حاصل کرنا


ہم کس طرح انسانی عمل انہضام کے نظام کے اندر کی تصاویر حاصل کرتے ہیں ؟


عمل دروں بینی (اینڈو اسکوپی) ایک ایسی چیر پھاڑ ہوتی ہے جس میں انسانی جسم کے اندرون کے افعال کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر ایک دَرون بین (اینڈواسکوپ - جسم کے اندرون کا معائنہ کرنے کا آلہ) نامی آلہ استعمال کیا جاتا ہے تاہم حال ہی میں ان کی جگہ ایسے کیپسول کے اندر لگے ہوئے ننھے کیمروں نے لے لی ہے جس کو ہم نگل سکتے ہیں۔ آنتوں، غذائی نالی، اور معدے کا معائنہ کرنے میں طاق یہ ان جگہوں کی جانچ بھی کر سکتے ہیں جہاں درون بین کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ خاص طور پر یہ چھوٹی آنت کے تین اہم حصّوں کا مطالعہ کرتا ہے : اثنا عشری آنت (duodenum- پیٹ کے بالکُل نیچے کی چھوٹی آنت کا اگلا حِصَّہ جو بارہ اِنچ کے قریب لمبا ہوتا ہے) ، مَعائے صائم (jejunum- چھوٹی آنت کا بالائی حصہ) اور لفائفہ(ileum- چھوٹی آنت کا نِچلا حِصّہ)۔

ایک پونڈ کے سکے کے حجم جتنا یہ کیپسول تصاویر کو باہر موجود ڈیٹا ریکارڈرز تک ارسال کرتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر انہضام کی نالی سے گزرتا ہے اور اس طرح بنایا گیا ہے کہ شدید اسہال، چھوٹی آنت کی سوزش، پیٹ کے درد اور کم انجذاب جیسی بیماریوں کے سبب کی تشخیص کرنے میں مدد دے۔ تصاویر حاصل کرنے کے لئے میکانزم ایل ای ڈی کے ذریعہ معدے کی نالی کی دیوار پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے بعد یہ تصاویر پھر ریڈیائی لہروں کی صورت میں قریبی وصول کنندہ یا مانیٹر پر تجزیے کے لئے ارسال کر دیا جاتیں ہیں۔

اگر کوئی اس کی خامی ہے تو وہ یہ کہ فی الوقت کیمرے کو کسی بھی چیز کا قریبی جائزہ لینے کے لئے روکا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ قدرتی حرکت دوری(peristalsis- نظام کے سکڑنے یا پھیلنے کی خود کار حرکت) کے ذریعہ سفر کرتا ہے۔

اب تک دنیا بھر میں 400,000 کے قریب تجزیات اس کے ذریعہ ادا کئے گئے ہیں اور اس کی جسم میں رہنے کی شرح صرف 0.75 فیصد رہی ہے، لہٰذا یہ امکان کہ یہ محفوظ طریقے سے نہیں گزر پائے گا بہت ہی کم ہے۔ لگ بھگ آٹھ گھنٹے کے اندر کیپسول ناقابل یقین 50,000 کے قریب تصاویر لے سکتا ہے۔

اس کی قیمت لگ بھگ 600 برطانوی پونڈ (1,000 $) ہے، تاہم اس کی نظام انہضام کے حصّوں کی بے مثال مفصل چھان بین کی قابلیت - داخل انداز بیرونی جراحی - کے مقابلے میں انمول ہے۔
کھانے والا کیپسول


کیپسول کیمرے سے کیا جانے والا درون بین بے آزار اور نسبتاً تیز رفتار عمل ہے۔ طریقہ کار کو مؤثر طریقے سے کام کی اجازت دینے کے لئے مریض کے لئے چند اہم اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جانچ سے قبل مریض کو 12 گھنٹے تک نہ تو کچھ کھانا ہے اور نہ ہی کچھ پینا ہے۔ کچھ صورتوں میں عمل کاری سے پہلے مریض کو رفع حاجت کے ذریعے اپنے معدے کو صاف کرنا بھی ہوتا ہے۔ کیپسول کھانے کے بعد آپ اس وقت تک چل پھر سکتے ہیں جب تک کوئی اچانک سے حرکت نہ کریں۔ کیپسول کو استعمال کرنے والی اکثریت کو کسی بھی قسم کی تکلیف یا بے آرامی محسوس نہیں ہوئی۔ آپ کیپسول کھانے کے دو گھنٹے بعد صاف پانی پی سکتے ہیں جبکہ چار گھنٹے بعد کھانا بھی کھا سکتے ہیں۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
ہم پانی کیوں نہیں بنا سکتے؟

پانی کی کیمیائی ساخت بہت سادہ ہے لہٰذا ہم اس کو تجربہ گاہ میں کیوں نہیں بنا سکتے ؟


ہم سب جانتے ہیں پانی صرف دو کیمیائی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے - آکسیجن اور ہائیڈروجن - جن میں سے دونوں زمین کے ماحول میں گیسوں کے طور پر موجود ہیں۔ لہٰذا پانی کو بنانا اتنا سادہ ہونا چاہئے تھا کہ دونوں کو کافی قوت سے آپس میں ٹکرائیں تاکہ ان کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے والی توانائی کو شکست دی جا سکے – ٹھیک ہے نا ایسا ہی ہونا چاہئے نا؟

تاہم یہ عمل توانائی کی زبردست مقدار کو پیدا کرے گا جیسا کہ 1937ء میں ہینڈن برگ تباہی میں دیکھا گیا جب ایک ہائیڈروجن لے جانے والے ہوائی جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ پھٹ گیا۔ اگرچہ یہ ردعمل پانی کو بنا سکتا ہے تاہم پانی بنانے کے لئے ایک ایسی جگہ بنانا جس میں دھماکہ خیز چیز موجود ہو وہ تیکنیکی اور لاگت کے لحاظ سے بہت مشکل ہے۔

نیا پانی بنانے کا ایک متبادل طریقہ یہ ہے کہ ہوا میں پہلے سے موجود H 2 O کو کشید کیا جائے۔ ٹھنڈی دھات کی چادروں کا استعمال کر کے ہوا کا درجہ حرارت تیزی سے گرایا جا سکتا ہے جس سے پانی کے بخارات تکثیف ہو جاتے ہیں۔ وسن ہوائی چکی اسی طرح کی ایک ایجاد ہے جو بس یہی کام کرتی ہے، جب اس کے یخ بلیڈ گھومتے ہیں تو وہ ہر 24 گھنٹے میں 12,000 لیٹر (2,600 گیلن ) پانی بہت ہی کم ماحولیاتی لاگت کا استعمال کرتے ہوئے تکثیف کرتےہیں۔

ایک مزید نقل پذیر حل جو آفت زدہ علاقوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ ایک ٹھنڈے خانے کے ذریعہ ہوا کو کھینچنے کے لئے جنریٹر کا استعمال کرتا ہے اور ایک دن میں پانی کے 545 لیٹر (120 گیلن) بخارات کو تکثیف کر سکتا ہے۔
پانی کی ساخت پر قریب سے ایک نظر


جس طرح سے پانی برتاؤ کرتا ہے اس کی وجہ صرف الیکٹران کے غیر متوازی تقسیم ہے
آکسیجن​

آکسیجن ایک برقی منفی جوہر ہے۔ اس کا مطلب یہ الیکٹرانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے رغبت دلاتی ہے۔
کمزور بند​

ہائیڈروجن کے جوہر کا تھوڑا سا مثبت بار اور آکسیجن کے جوہر کا تھوڑا سا منفی بار متصل پانی کے سالمات میں کمزور بند بناتے ہیں۔
مائع​

پانی کے سالمات کے درمیان ہائیڈروجن کے بندوں کا جال ان کو اسی طرح کے حجم کے دوسرے سالمات کے مقابلے میں آپس میں قریب رکھتا ہے جس کی وجہ سے کمرے کے درجہ حرارت پر اس کو مائع کی شکل ملتی ہے۔
اجتماع ضدین​

آکسیجن ہائیڈروجن کے دونوں جوہروں کو کھینچتا ہے اور نتیجتاً تھوڑا سا منفی بار حاصل کر لیتا ہے اور ہائیڈروجن کو تھوڑا سا مثبت بار کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
برف​

جب پانی منجمد ہوتا ہے تو وہ مسدسی قلمی ساخت اختیار کر لیتا ہے جس کو ہائیڈروجن کے عام بند سہارا دیتے ہیں۔
ہائیڈورجن​

پانی میں سب سے چھوٹا جوہر - ہائیڈروجن - میں صرف ایک ہی الیکٹران ہوتا ہے جو آسانی کے ساتھ آکسیجن کے بھوکے جوہر کے الیکٹران کی طرف کھینچ لیا جاتا ہے۔​
 

زہیر عبّاس

محفلین
نقطہ اعتدال کی وضاحت

کئی ثقافتیں اور مذاہب نقطہ اعتدال کے گرد تعطیلات مناتے ہیں

یہ سال میں دو مرتبہ آتا ہے تاہم نقطہ اعتدال اصل میں ہوتا کیا ہے اور یہ آتا کیوں ہے ؟​


پورے برس زمین کا محور سورج کی طرف یا اس سے دور تھوڑا سا جھکتا رہتا ہے لہٰذا ایک نصف کرہ میں دن دوسرے نصف کرے کی نسبت طویل ہوتے ہیں تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کون سا حصّہ ہمارے ستارے کی طرف زیادہ مائل ہے۔ تاہم ہر مارچ اور ستمبر زمین اپنے مدار کے اندر ایک ایسے نقطہ پر پہنچ جاتی ہے جہاں دونوں میں سے کوئی بھی نصف کرہ سورج کی طرف جھکا ہوا نہیں ہوتا کیونکہ سورج براہ راست خط استواء کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ نتیجتاً دن رات مجازی طور پر برابر - 12 گھنٹے - کے ہوتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ زمین پر کہاں ہیں۔

نقطہ اعتدال کے اصطلاح کے باوجود جو لاطینی زبان میں ' برابر رات' کو کہتے ہیں، دن اور رات عالمگیری طور پر برابر نہیں ہوتے۔ ماحولیاتی درجہ حرارت میں ہونے والے تغیرات اور دباؤ سورج کی روشنی کے عمل انعطاف کی حد تک اثر انداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے سورج 12 گھنٹے سے زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔

تکنیکی طور پر دن کا وقت طویل ہو گا کیونکہ بجائے جیومیٹری مرکز سے طلوع ہونےکے سورج کا طلوع ہونا اس کے اوپری کنارے کی حرکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ غروب آفتاب کے وقت بھی ایسا ہی ہوتا ہے جس کی وضاحت سورج کے اوپری کنارے کی حرکت سے کی جاتی ہے جب وہ افق کے نیچے غائب ہوتا ہے۔​
 
السلام علیکم! سر یہ ترجمہ آپ خود کررہے ہیں ؟ بہت ہی خوبصورت کام ہے۔ علمِ نافع کی عمدہ ترین مثالوں میں اس کام کا نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
وعلیکم السلام
یہ ترجمہ آپ خود کررہے ہیں ؟
جی جناب خودہی کررہا ہوں ۔
بہت ہی خوبصورت کام ہے۔ علمِ نافع کی عمدہ ترین مثالوں میں اس کام کا نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
پسند کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے کا شکریہ !
 
Top