مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
لینن گراڈ کا گورستان

سرد سِلوں پر
زرد سِلوں پر
تازہ گرم لہو کی صورت
گلدستوں کے چھینٹے ہیں
کتبے سب بے نام ہیں لیکن
ہر اک پھول پہ نام لکھا ہے
غافل سونے والے کا
یاد میں رونے والے کا
اپنے فرض سے فارغ ہو کر
اپنے لہو کی تان کے چادر
سارے بیٹے خواب میں ہیں
اپنے غموں کا ہار پرو کر
امّاں اکیلی جاگ رہی ہے

لینن گراڈ 1976ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا

غمِ جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دستِ عدو
سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ قہرِ طوفاں بھی
سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا

خوشا کہ آج ہر اک مُدّعی کے لب پر ہے
وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا

وہ حیلہ گر جو وفا جُو بھی ہے جفا خُو بھی
کِیا بھی فیضؔ تو کس بُت سے دوستانہ کیا

1976ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام اُلجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

1976ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
درِ اُمید کے دریوزہ گر

پھر پھُرَیرے بن کے میرے تن بدن کی دھجّیاں
شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں
پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذَم کی قمچیاں
میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں

پھر نکل آئے ہوَسناکوں کے رقصاں طائفے
درد مندِ عشق پر ٹھٹھّے لگانے کے لیے
پھر دُہل کرنے لگے تشہیرِ اخلاص و وفا
کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے

ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمّید کے دریوزہ گر
یہ گھڑی گُزری تو پھر دستِ طلب پھیلائیں گے
کوچہ و بازار سے پھر چُن کے ریزہ ریزہ خواب
ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے

مارچ 1977ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

(1)
آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی
دل نشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی
حرفِ اُلفت کوئی دلدارِ نظر ہو جیسے
جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت
اتنا روشن کہ سرِ موجۂ زر ہو جیسے
صحبتِ یار میں آغازِ طرب کی صورت
حرفِ نفرت کوئی شمشیرِ غضب ہو جیسے
تا ابَد شہرِ ستم جس سے تبہ ہو جائیں
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے
لب پہ لاؤں تو مِرے ہونٹ سیہ ہو جائیں

(2)
آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

جولائی 1977ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیِ دل کا
کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا​

آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانیِ دل کا​

دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانیِ دل کا​

پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانیِ دل کا​

دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیِ دل کا​

اُترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانیِ دل کا​
 

فرخ منظور

لائبریرین
اشعار
وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا​

جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے
وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا​

جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی
سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و صفا گیا​
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
مرثیۂ امام​
رات آئی ہے شبیّر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے​
دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے​
اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے​
کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا​
الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو​
پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا​
پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے​
فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے​
سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے​
طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے​
تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا​
کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا​
1964ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
مدح​
حسین شہید سہروردی مرحوم نے راولپنڈی "سازش" کیس ملزموں کی جانب سے وکالت کی تھی۔ مقدمے کے خاتمے پر انھیں یہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔​
(1)
کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂ تقریر
گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر
وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا
واں سینۂ اغیار میں پیوست ہُوئے تیر
گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں بھی
تاثیر کا کیا کہیے، ہے تاثیر سی تاثیر
اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر
اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ
ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہُوئی تشہیر
روشن ہوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے
پیشانیٔ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر​
(2)
حرّیتِ آدم کی رہِ سخت کے رہگیر
خاطر میں نہیں لاتے خیالِ دمِ تعزیر
کچھ ننگ نہیں رنجِ اسیری کہ پُرانا
مردانِ صفا کیش سے ہے رشتۂ زنجیر
کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے
ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر
معلوم ہے ان کو کہ رہا ہوگی کسی دن
ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر
آخر کو سرافراز ہُوا کرتے ہیں احرار
آخر کو گرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر
ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا
ہر عہد میں دیوارِ ستم ہوتی ہے تسخیر
ہر دَور میں ملعون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قربانیِ شبّیر​
(3)
کرتا ہے قلم اپنے لب و نطق کی تطہیر
پہنچی ہے سرِ حرفِ دعا اب مری تحریر
ہر کام میں برکت ہو ہر اک قول میں قوّت
ہر گام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گیر
ہر لحظہ ترا طالعِ اقبال سوا ہو
ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر
ہر بات ہو مقبول، ہر اک بول ہو بالا
کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شعلۂ تقریر
ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ​
 

فرخ منظور

لائبریرین
گیت
منزلیں، منزلیں
شوقِ دیدار کی منزلیں
حُسنِ دلدار کی منزلیں، پیار کی منزلیں
پیار کی بے پنہ رات کی منزلیں
کہکشانوں کی بارات کی منزلیں
سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی
جوشِ پرواز کی منزلیں
راز کی منزلیں
زندگی کی کٹھن راہ کی منزلیں
سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی منزلیں
جوشِ پرواز کی منزلیں
راز کی منزلیں
آن ملنے کے دن
پھول کھلنے کے دن
وقت کے گھور ساگر میں صبح کی
شام کی منزلیں
چاہ کی منزلیں
آس کی، پیاس کی
حسرتِ یار کی
پیار کی منزلیں
منزلیں حسنِ عالم کے گلزار کی
منزلیں، منزلیں
موج در موج ڈھلتی ہوئی رات کے درد کی منزلیں
چاند تاروں کے ویران سنسار کی منزلیں
اپنی دھرتی کے آباد بازار کی منزلیں
حق کے عرفان کی
نور انوار کی منزلیں
وصلِ دلدار کی منزلیں
قول و اقرار کی منزلیں
منزلیں، منزلیں

(فلم، "قسم اُس وقت کی")
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
گیت

اب کیا دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
تھم گئے آنسو
تھک گئیں اکھّیاں
گزر گئی برسات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو
چھوڑو غم کی بات
کب سے آس لگی درشن کی
کوئی نہ جانے بات
کوئی نہ جانے بات
بیت چلی ہے رات
چھوڑو غم کی بات
تم آؤ تو من میں اترے
پھولوں کی بارات
بیت چلی ہے رات
اب کیا دیکھیں راہ تمھاری
بیت چلی ہے رات

(فلم "جاگو ہوا سویرا")
 

فرخ منظور

لائبریرین
گیت

ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر
سب چاہتیں بھلا کر
کتنے اداس آئے
ہم تیرے پاس جا کر
کیا کیا نہ دل دکھا ہے
کیا کیا بہی ہیں اکھیاں
کیا کیا نہ ہم پہ بیتی
کیا کیا ہوئے پریشاں
ہم تجھ سے دل لگا کر
تجھ سے نظر ملا کر
کتنے فریب کھائے
اپنا تجھے بنا کر

ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر
تھی آس آج ہم پر کچھ ہوگی مہربانی
ہلکا کریں گے جی کو سب حالِ دل زبانی
تجھ کو سنا سنا کر
آنسو بہا بہا کر
کتنے اداس آئے
ہم تیرے پاس جا کر
ہم تیرے پاس آئے
سارے بھرم مٹا کر

(فلم "سُکھ کا سپنا")
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
اُمّیدِ سحر کی بات سنو

جگر دریدہ ہوں چاکِ جگر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں دامانِ تر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں زخمِ گلو سے حرف کرو
شکستہ پا ہوں ملالِ سفر کی بات سنو
مسافرِ رہِ صحرائے ظلمتِ شب سے
اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو
سحر کی بات، امّیدِ سحر کی بات سنو

 

فرخ منظور

لائبریرین
حیراں ہے جبیں آج کِدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند سرِ عرش خدا ہے

کب تک اسے سینچو گے تمنّائے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے

ملتا ہے خراج اس کو تری نانِ جویں سے
ہر بادشہِ وقت ترے در کا گدا ہے

ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر
وہ رنج جو نا کردہ گناہوں کی سزا ہے

احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کے
کیا کیجیے دل کا، نہ جلا ہے نہ بجھا ہے

اکتوبر 77ء
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
لمّی رات سی درد فراق والی
تیرے قول تے اساں وساہ کر کے
کَوڑا گُھٹ کیتی مٹھڑے یار میرے
مٹھڑے یار میرے، جانی یار میرے
تیرے قول تے اساں وساہ کر کے
جھانجراں وانگ، زنجیراں چھنکائیاں نیں
کدی کنّیں مندراں پائیاں نیں
کدی پیریں بیڑیاں چائیاں نیں
تیری تاہنگ وِچ پَٹ دا ماس دے کے
اساں کاگ سدّے، اساں سنیہہ گھلّے
رات مُکدی اے، یار آوندا اے
اسیں تک دے رہے ہزار ولّے
کوئی آیا نہ بِناں خُنامیاں دے
کوئی پُجّا نہ سوا اُلاہمیاں دے
اَج لاہ اُلاہمے مٹھڑے یار میرے
اَج آ ویہڑے وِچھڑے یار میرے
فجر ہووے تے آکھیے بسم اللہ
اَج دولتاں ساڈے گھر آئیاں نیں
جیہدے قول تے اساں وساہ کیتا
اوہنے اوڑک توڑ نبھائیاں نیں

1971ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
گیت

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں
کاگ اُڈاواں، شگن مناواں
وگدی وا دے ترلے پاواں
تری یاد پوے تے روواں
ترا ذکر کراں تاں ہسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں

درد نہ دسّاں گُھلدی جاواں
راز نہ کھولاں مُکدی جاواں
کس نوں دل دے داغ وِکھاواں
کس در اَگّے جھولی ڈھاواں
وے میں کس دا دامن کھسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں

شام اُڈیکاں، فجر اُڈیکاں
آکھیں تے ساری عمر اُڈیکاں
آنڈ گوانڈی دیوے بلدے
ربّا ساڈا چانن گَھلدے
جگ وَسدائے میں وی وَسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
کدھرے نہ پیندیاں دسّاں
وے پردیسیا تیریاں

1971ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
میری ڈولی شوہ دریا

(74ء کے سیلاب زدوں کے امدادی فنڈ کے لیے لکھئ گئی)

کل تائیں سانوں بابلا
تو رکھّیا ہِک نال لا
سَت خیراں ساڈیاں منگیاں
جد جُھلّی تتّی وا
اَج کیکن ویہڑیوں ٹوریا
کویں لاہے نی میرے چاء
میرے گہنے نیل ہتھ پیر دے
میری ڈولی شوہ دریا
اَج لتھّے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
نال رُہڑدیاں رُڑھ گیاں سدّھراں
نال روندیاں رُل گئے نیر
نال ہُونج ہُونج کے لَے گئے
میرے ہتھ دی لیکھ لکیر
میری چُنّی بک سواہ دی
میرا چولا لِیر و لِیر
لج پالن بَوہڑے بھین دی
کوئی کرماں والے وِیر
میرے کرماں والے وِیر
میرا چولا لِیر و لِیر
میرے لتّھے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
سسّی مر کے جنتن ہوگئی
میں تر کے اَوتر حال
سُن ہاڑے اِس مسکین دے
ربّا پورا کر سوال
میری جھوک وَسّے، میرا ویر وَسّے
فیر تیری رحمت نال
کوئی پُورا کرے سوال ربّا
تیری رحمت نال
میرے لتّھے سارے چاء
میری ڈولی شوہ دریا
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
ربّا سچّیا

ربّا سچّیا توں تے آکھیا سی
جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں
ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں توں
ایس لارے تے ٹور کد پُچھیا ای
کِیہہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں
کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں
کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے
کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری
جیویں پھاہی چ کُونج کُرلاوندی اے
چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں
پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے
مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے
میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں
مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماڑیاں دی
میں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں
میری مَنّیں تے تیریاں مَیں منّاں
تیری سَونہہ جے اِک وی گلّ موڑاں
جے ایہہ مانگ نئیں پُجدی تیں ربّا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
1974ء
 
Top