قلبی راحت

ہمارے خانیوال کے علاقے میں خانقاہ کے احاطے میں قائم وہ وسیع و عریض مسجد میں جو قلبی راحت میسر آتی تھی ویسا سرور آج تک کہیں بھی نہیں ملا۔سورج ڈھلنے کو تھا مسجد کے لامبے ستونوںوں کے سائے اور بھی لمبے ہو چکے تھے آسمان پر گہرا نیلگوں رنگ نمایاں موسم کی شفافیت کو واضح کر رہا تھا۔اس خانقاہ میں ہزاروں لوگ اپنی منتیں مرادیں لیئے آتے ہیں اور مرادیں پاکر لوٹتے ہیں۔
جو اللہ اور اسکے پسندیدہ بندوں سے لو لگا لیتے ہیں ان کی منزلیں آسان ہوجاتی ہیں اور کسی کی جھولی خالی نہیں رہتی۔
میری حاضری یہاں اکثر ہوتی رہتی تھی پہلے پہل نانا ابو کیساتھ آنا ہوتا پھراب اکیلے چلا آتا ہوں۔اس قدر لگاو پیدا ہوچکا ہے کہ ذاتی مصروفیات کے باعث وقت نہ نکال پاوں تو دل میں کچوکے سے لگتے رہتے ہیں اور سکون کی تلاش میں پھر آ ادھر کھڑے ہوتے ہیں۔
انسان فطرتا ہے ہی لالچی۔ میں بھی یہاں کچھ مانگنے ہی آتا ہوں اور ہمیشہ بامراد ہی لوٹا۔آج بھی میں نماز عصر کے وقت یہاں پہنچ گیا اور نماز ادا کرکے مسجد کے ہی احاطے میں قائم ایک قوی ہیکل ستون سے ٹیک لگائے تسبیح کرنے بیٹھ گیا۔یہاں جو اطمینانیت اور سکون کا سا ماحول ہوتا ہے وہ شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔
میری نظر دائیں جانب کونے میں بیٹھے ایک ادھیڑ عمر خوشحال شکل اور خوش پوش شخص پر پڑی جو اپنی سوچوں میں غرق آسمان میں نگاہیں جمائے بیٹھا تھا۔معلوم نہیں پڑتا تھا کہ وہ سانس تک بھی لے رہا ہے کہ نہیں۔
میں اسے چند منٹ بغور دیکھتا رہا مگر وہ شخص مجھے حوش وحواس سے عاری نظر آیا۔میری طبیعیت شروع ہی سے پرتجسس ہے لہذا میں اس شخص بارے جاننے کے لئےبیتاب ہو گیا۔میں ادھر سے سرک کر اس کے قریب والے ستون کے ساتھ جا لگا اب ہمارا درمیانی فاصلہ چند ہی ہاتھ رہ گیا تھا۔ اسکے جسم میں ذرا سی جنبش ہوئ جس سے اسکے زندہ ہونے کا ثبوت ملا۔
میں اتنا قریب تھا کہ میری آواز باآسانی وہ سن سکتا تھا میں نے "محترم" کے الفاظ ادا کرکے اسے مخاطب کیا مگر ادھر ساکت اور بے جان بت تھا جو دنیا و مافیہا سے بے خبر۔اسکی آنکھوں میں ویرانیں اور اجاڑ تھی۔دل بے آب و گیاہ لگ رہا تھا جسے کبھی روحانیت کی سیرابی میسر نہ ہوئ ہو۔کیونکہ ایسی حالت تبھی ہوتی ہے جب اندر کھوکھلہ ہو اور دل ریگستان کی طرح خشک اور پیاسا ہو۔
میں نے اپنے تئیں اسکی آنکھوں کو پڑھنا چاہا مگر وہاں سوائے ایک انوکھی ناقابل بیاں تحریرکے کچھ نہیں تھا۔شاید وہ سب کچھ دل میں چھپائ بیٹھا تھا جسکا اظہار اس ذات باری تعالی سےہی کرنے کا خواہاں تھا جہاں سے اس کے قلب کے خشک ریگستان کو سیرابی میسر آتی۔اور دلوں کے بھید تو اللہ کی ذات ہی جانتی ہے۔۔۔
آخر کار میں سرک کر اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اب میں نے سیدھا سوال کیا؛ " آپ کون ہیں؟"
"گنہگار بندہ انتہائ گنہگار"۔۔۔وہ شخص یک لخت گویا ہوا۔
"گنہگار" میں نے کہا
وہ شخص تاحال سکتے کی حالت میں آسمان کو گھوری جارہا تھا۔
میں نے پھر پوچھا " آپ چاہتے کیا ہیں؟"
"سکون" وہ بولا
"آپ کیا کرتے ہیں؟" میرے سوالوں کا سلسلہ جاری تھا
"میں بہت گنہگار ہوں۔میں ان راہوں پر چلتے چلتے تھک گیا ہوں" وہ سسکنے لگا۔اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
"کس چیز کی کمی تھی میرے پاس ہر چیز ہے میرے پاس بس سکون نہیں" وہ زور زور سے سسکنے لگا تھا جیسے دل کی بھڑاس نکال رہا ہو۔
"تم سے کیا گناہ سرزد ہوا جس نے تمہارا سکون چھین لیا" میں نے پوچھا۔
"ایک نہیں مجھ سے ہزاروں گناہ سرزد ہوئے ہیں میں گناہوں میں لت پت ہوں ہزاروں غریبوں کا بوجھ ہے مجھ پر" وہ روتے ہوئے بولتا جارہا تھا۔
وہ بتانے لگاکہ؛ میں ایک بہت بڑے سرکاری عہدے پر تھا اللہ نے مجھے بہت طاقت دی میرے حکم سے سب کام چلتے تھے۔میں طاقت کے نشے میں غرق ہوگیا اور ہوتا چلا گیا۔میرے دفتر میں کوئ غریب سائل آتا تو میں اس کو دھتکار دیتا اور جو مجھے رشوت کی مد میں روپے دیتا اسکا کام کردیتا۔مجھے ہر لمحہ یہی خیال رہنے لگا کہ میرے اکاونٹ میں پڑی رقم میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے۔مجھے ایک دن بھی اللہ کی یاد نہیں آئ نماز کا خیال تک میرے دل میں نہیں آیا۔میں دولت مند ہی نہیں بلکہ ظالم بھی بن چکا تھا۔میں تمام رشتہ داروں سے آنکھیں پھیر لیں تھیں۔وہ بتاتا جا رہا تھا اور سسکتا جاتا۔
میں دولتمند ہونے کی خواہش میں سکون لٹاتا گیا۔اب وہ گڑگڑا کر رونے لگا تھا۔آنسوئوں سے اسکا چہرہ تر ہوگیا تھا۔
اب میں اپنے گناہ کی تلافی کرنا چاہتا ہوں اور سکون واپس لانا چاہتا ہوں مگر مجھے سکون میسر نہیں آرہا۔مجھے روپوں سے نفرت ہونے لگی ہے۔
میں گویا ہوا " آپ اپنا آپ سونپ دینا چاہتے ہیں اور سب کچھ لٹا دینا چاہتے ہیں تو آجائیں لوٹ آئیں مشکل راہ کیطرف سے آسان راہ کیطرف۔بھاگنا چھوڑ دیں اور چھوڑ دیں اپنے آپ کو کاغذ کی ناو کی طرح بے آسرا اسکے آسرے پہ۔ لے جائے جدھر لیجاتا ہے وہ۔
"مگر مجھے وہ سکون" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ میں نے کہا " سکون تلاش کر زندوں کی خدمت میں اپنوں کی محبت میں۔۔۔اللہ باری تعالی کی یاد میں۔
چلیں اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا۔سورج غروب ہوچکا تھا۔مغرب کی اذان ہورہی تھی۔ستون خالی پڑا تھا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
"مگر مجھے وہ سکون" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ میں نے کہا " سکون تلاش کر زندوں کی خدمت میں اپنوں کی محبت میں۔۔۔اللہ باری تعالی کی یاد میں۔

بلا شک ۔۔۔۔۔۔۔سکون تو انسانیت کی خدمت میں ۔ انسانی جسم میں کوئی چیز کم یا زیادہ ہو جائے تو بس جناب جسم خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے اس لیے خود کار طریقے سے توازن قائم کیے رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی سکون روح سے اور خوشی مادے سے جڑی ہے ۔۔۔۔۔
روح سکون کے بعد دنیا کی طرف بھاگتی ہے
اور زیادہ مال و دولت بے سکونی پیدا کرتا ہے
خوب کہانی ہے مجھے لگا کہ انسان انسا ن سے کلام کر رہا ہے یا خود کلامی ہے

لکھتے رہیں یونہی ،،،،،،،،،،خوب لکھا ہے
 
بلا شک ۔۔۔۔۔۔۔سکون تو انسانیت کی خدمت میں ۔ انسانی جسم میں کوئی چیز کم یا زیادہ ہو جائے تو بس جناب جسم خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے اس لیے خود کار طریقے سے توازن قائم کیے رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے ہی سکون روح سے اور خوشی مادے سے جڑی ہے ۔۔۔۔۔
روح سکون کے بعد دنیا کی طرف بھاگتی ہے
اور زیادہ مال و دولت بے سکونی پیدا کرتا ہے
خوب کہانی ہے مجھے لگا کہ انسان انسا ن سے کلام کر رہا ہے یا خود کلامی ہے

لکھتے رہیں یونہی ،،،،،،،،،،خوب لکھا ہے

آجکل کے دور میں ایسا سکوں اور راحت کے متلاشی مارے مارے پھرتے ہیں۔
انتہائ مشکور ہوں۔۔۔۔
 
Top