کچھ شرم ہوتی ہے‘ کچھ حیا ہوتی ہے

جھوٹ بالکل جھوٹ! یہ صرف ڈاکٹروں کی بے حسی ہے نہ ایم لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے بقول فطری عمل بلکہ ثنا خوانِ تقدیس مشرق کے مُنہ پر طمانچہ ہے اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی
شقی القلبی کا ایک نمونہ۔
پاکستانی معاشرے میں شرم‘حیا‘ حجاب‘ پردے‘ مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کی تکرار جس تسلسل سے ہوتی ہے کسی دوسرے مسلم معاشرے میں شاید و باید۔ مگر یہ شرم و حیا کا پیکر اور اسلامی و مشرقی اقدار کا پیامبر کیسا معاشرہ ہے جہاں ایک حاملہ خاتون ہسپتال کے احاطے میں سرعام‘ مردوں عورتوں کی راہ گزر پر بچّے کو جنم دیتی ہے اور سب لوگ اسے ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی بے حسّی قرار دے کر رفت گزشت کر دیتے ہیں۔
اگر شرق پور کی ریشماں بی بی کے ہاں بچے کی پیدائش ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہوتی تو یہ اہل خانہ کا قصور قرار پاتا کہ بروقت خاتون کو ہسپتال نہیں لائے۔ مگر یہاں تو معاملہ مختلف ہے۔ شیخو پورہ میں تیس بیڈ کا ہسپتال موجود ہے اور گائنی سپیشلسٹ بھی مگر لیبر روم ندارد ۔ لاہور میں ہر سہولت دستیاب مگر ہسپتال کے عملے اور ڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے انکار کیا‘ مایوس ہو کر یہ خاتون ہسپتال سے نکلی اور سیڑھیوں پر تماشا بن گئی۔ جس انتظامیہ نے بعدازاں اسے لیبر روم شفٹ کیا وہ پہلے کہاں مر گئی تھی؟ کوئی پوچھنے والا نہ بتانے کا روادار۔
سماجی تفریق‘ معاشی عدم مساوات اور حاکم و محکوم‘ طاقتور و کمزور کی تفریق یہاں شقی القلبی کی حدیں پار کر چکی ہے۔ ایک ظالمانہ نظام ہے جس میں کمزور‘ غریب اور ضرورت مند کو توہین و تضحیک ‘ ذلت و رسوائی اور اذیت و پشیمانی کے سوا کچھ میسر نہیں مگر داد دینی چاہیے ان'' باشعور عوام‘‘ کو جویہ سب کچھ سہ کر بے مزہ نہیں ہوتے ۔اس اشرافیہ پر صدقے واری جاتے ہیں جس نے انہیں اس قابل بھی نہیںچھوڑا کہ شرم و حیا کی پیکر خواتین کسی محفوظ ‘ باپردہ اور طبی سہولتوں سے آراستہ مقام پر گائنی ڈاکٹر کے ہاتھوں بچے کو جنم دے سکیں ہر آئے گئے کے سامنے تماشا بنیں نہ زندگی بھر اس احساس جرم کا شکار رہیں کہ معلوم نہیں بیگانوں نے انہیں کس حال میں دیکھا اور کیا سوچا۔
مگر جہاں تین سال کی معصوم کلی کو گھر سے اٹھا کربے دردی سے مسلنے والے ٹھاٹھ سے جیتے اور حسین والا میں جنسی دہشت گردی کا بازار گرم رکھنے والے آٹھ دس سال تک قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہوں‘ وہاںکوئی خاتون کسی وی وی آئی پی کی آمد پر ٹریفک کے دوران زندگی کے اس خوبصورت تجربے سے رکشے میں بیٹھے بیٹھے مکروہ انداز میں گزرے یا فٹ پاتھ اور ہسپتال کی سیڑھیوں پر تڑپ تڑپ کر‘ کس کو پروا ہے۔ پروا ہوتی تو آئے دن اس طرح کے واقعات کیوں پیش آتے اور حکمران صرف نوٹس لینے پر اکتفا کیوں کرتے‘ عملی اقدامات کیوں نہ ہوتے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری ہسپتال بھی عرصہ دراز سے شفا خانے نہیں‘ عقوبت کدے بن چکے ہیں۔ عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں ڈاکٹر ہے تو ڈیوٹی سے غیر حاضر اور نجی کلینک میں سرگرم عمل‘ دوائی خریدی جاتی ہے‘ کسی کو ملتی نہیں‘ لیبارٹری ہے تو مشینیں خراب ہیں اور ایک ایک بیڈ پر چار چار مریض لٹا کر کام چلایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادویات‘ سرنجیں اور دیگر چیزیں بازار میں بکتی ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب سے خیبر پختونخوا بھیجی جانے والی متاثرین زلزلہ کے لیے ادویات افغانستان لے جاتے پکڑی گئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چوروں کی نہیں محکمہ صحت کی واردات تھی۔
سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتالوں کی یہ حالت زار اس بنا پر ہے کہ ہماری بیورو کریسی اور حکمران اشرافیہ کا کوئی مفاد ان اداروں سے وابستہ نہیں۔ اگر حکمران طبقے کو ان اداروں کے لیے مختص فنڈز سے زیادہ کارگزاری سے دلچسپی ہو تو انہیں بحال کرنا مشکل ہے نہ ان کی کارگزاری کو معیاری بنانا ناممکن۔ سب جانتے ہیں کہ ان سرکاری اداروں اور ہسپتالوں کا رخ صرف غریب ‘ بے آسرا اور معاشرے کے کمزور لوگ کرتے ہیں جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حکمران اشرافیہ انہیں زمین کا بوجھ سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ الیکشن کے دنوں میں اے ٹی ایم مشین جس سے ووٹ نکلوانامجبوری ہے۔
1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے وزیر تعلیم کے طور پر کابینہ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ووٹر کی تعلیمی قابلیت مقرر کر دی جائے تاکہ ایک تو ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے دوسرے جو جاگیردار اور وڈیرے آج خواندگی میں اضافے اور تعلیمی اداروں کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں وہ ووٹ کے لالچ میں خود ہی اس کا اہتمام کریں گے۔ کسی نے مان کر نہیں دیا۔ نواب آف کالا باغ مرحوم نے تو ایک بار الطاف گوہر مرحوم کو ڈانٹ دیا اور کہا خواندگی اور تعلیم میں اضافے سے حکومت دبائو کا شکار ہو گی کیونکہ ہر پڑھا لکھا نوجوان روزگار کا طلب گار ہو گا اور زراعت کا شعبہ بھی کسانوں اور کاشتکاروں سے محروم ہو جائے گا۔ آج بھی اگر ہر سطح کے سرکاری ملازمین اور منتخب عوامی نمائندوں کو اس بات کا پابند کر دیا جائے کہ ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے اور ان کا خاندان صرف سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرائے گا تو صرف ایک سال میں تعلیم اور صحت کے شعبے کی حالت سدھر سکتی ہے۔امریکہ‘ برطانیہ اور سعودی عرب کے معیار کے ہسپتال بن سکتے ہیں۔ فلائی اوورز‘ میٹرو بس‘ سندھ فیسٹیول اور دوسرے نمائشی منصوبے پیش کرنے والے بیورو کریٹس خود ہی تعلیمی اور طبی اداروں میں معیاری سہولیات کا اہتمام کریں گے اور وسائل کا رخ خود بخود سوشل سیکٹر کی طرف ہو گا کیونکہ سنگ دل اشرافیہ کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے علاوہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔
جن لوگوں کو چھینک بھی آ جائے تو بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری وسائل دستیاب ہوں‘ جن کے نالائق بچوں کو اندرون و بیرون ملک بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے تک محض دولت کے بل بوتے پر رسائی حاصل ہو‘ وہ سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار پر کیوں توجہ دیں۔ ان کی بلا سے۔
ان بے شرموں کو کیا علم کہ کسی شریف اور عزت دار آدمی کی بیوی‘ بیٹی یا بہو جب رکشے میں یا کسی ہسپتال کی سیڑھیوں پر بچہ جنم دیتی ہے تو پورے خاندان کو کس ذہنی کرب‘ شرمندگی‘ اذیت اور اندیشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔عزت دار ‘ شریف اور غیرت مند آدمی کا تو یہ سوچ کر خون کھول اُٹھتا ہے کہ اس کی بیوی‘ بہو‘ بیٹی درد زہ میں مبتلا کسی راہ گزر پر پڑی بچّے کی پیدائش کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مگر انہیں کیا؟ یہ کون سی ان کی بہو بیٹیاں ہیں‘ وہ تو پاکستان کے اندر اور باہر بہترین طبی سہولتوں سے مستفید ہوتیں اور قومی وسائل سے بنائی ہوئی اپنی جنت میں اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ غریب کی اپنی کون سی عزت ہے کہ کوئی ان کی بہو بیٹیوں کی لاج شرم اور دکھ تکلیف کا احساس کرے۔ بات بات پر جلوس نکالنے‘ دھرنے دینے اور احتجاج کرنے والے کسی طبقے‘ این جی او‘ سیاسی جماعت اور مذہبی تنظیم کو یہ توفیق کبھی ہوئی نہ اب ہو گی کہ ان شرمناک واقعات پر صدائے احتجاج بلند کر سکیں۔
شرق پور کی ریشماں بی بی خوش قسمت ہے‘ سر عام بچہ جنم دینے کی اذیت اور ذلّت تو اُس نے اٹھائی مگر زچہ بچہ دونوں کی جان بچ گئی‘ خادم اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا ہے‘ اگلے بچّے کی پیدائش تک لیڈی ولنگڈن کے علاوہ صوبے بھر کے ہر ہسپتال میں اعلیٰ معیار کی سہولتیںضرور دستیاب ہوں گی۔ صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں۔ پچھلے ساٹھ سال سے قوم وعدوںپر بہل رہی ہے‘ مزید بہلانے اور بہلنے میں کیا حرج ہے۔ غریبوں اور کمزوروں کو بھی کون سمجھائے کہ کچھ قصور ان کا بھی ہے ؎
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
- See more at: http://www.dunya.com.pk/index.php/author/irshad-ahmad-
arif/2015-11-05/13190/58613027#tab2

کاش پاکستان کا سرمایہ فوجی آمر لوٹ کر نہ کھاجاتے ۔ کاش پاکستانیوں کی کمائیوں سے جرنیلز اور ان کی اولاد مزے نہ اڑارہی ہوتی ۔ کاش پاکستان اپنا سرمایہ فوج اور اسلحہ کے بجائے صحت و تعلیم پر خرچ کرے۔ کاش۔ ہماری حکومت سیاسی ہو ۔ فوجی پیچھے سے نہ چلار ہے ہوں
 

اسماء حسن

محفلین
جھوٹ بالکل جھوٹ! یہ صرف ڈاکٹروں کی بے حسی ہے نہ ایم لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے بقول فطری عمل بلکہ ثنا خوانِ تقدیس مشرق کے مُنہ پر طمانچہ ہے اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی
شقی القلبی کا ایک نمونہ۔
پاکستانی معاشرے میں شرم‘حیا‘ حجاب‘ پردے‘ مشرقی اقدار اور اسلامی روایات کی تکرار جس تسلسل سے ہوتی ہے کسی دوسرے مسلم معاشرے میں شاید و باید۔ مگر یہ شرم و حیا کا پیکر اور اسلامی و مشرقی اقدار کا پیامبر کیسا معاشرہ ہے جہاں ایک حاملہ خاتون ہسپتال کے احاطے میں سرعام‘ مردوں عورتوں کی راہ گزر پر بچّے کو جنم دیتی ہے اور سب لوگ اسے ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی بے حسّی قرار دے کر رفت گزشت کر دیتے ہیں۔
اگر شرق پور کی ریشماں بی بی کے ہاں بچے کی پیدائش ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہوتی تو یہ اہل خانہ کا قصور قرار پاتا کہ بروقت خاتون کو ہسپتال نہیں لائے۔ مگر یہاں تو معاملہ مختلف ہے۔ شیخو پورہ میں تیس بیڈ کا ہسپتال موجود ہے اور گائنی سپیشلسٹ بھی مگر لیبر روم ندارد ۔ لاہور میں ہر سہولت دستیاب مگر ہسپتال کے عملے اور ڈاکٹروں نے اسے داخل کرنے سے انکار کیا‘ مایوس ہو کر یہ خاتون ہسپتال سے نکلی اور سیڑھیوں پر تماشا بن گئی۔ جس انتظامیہ نے بعدازاں اسے لیبر روم شفٹ کیا وہ پہلے کہاں مر گئی تھی؟ کوئی پوچھنے والا نہ بتانے کا روادار۔
سماجی تفریق‘ معاشی عدم مساوات اور حاکم و محکوم‘ طاقتور و کمزور کی تفریق یہاں شقی القلبی کی حدیں پار کر چکی ہے۔ ایک ظالمانہ نظام ہے جس میں کمزور‘ غریب اور ضرورت مند کو توہین و تضحیک ‘ ذلت و رسوائی اور اذیت و پشیمانی کے سوا کچھ میسر نہیں مگر داد دینی چاہیے ان'' باشعور عوام‘‘ کو جویہ سب کچھ سہ کر بے مزہ نہیں ہوتے ۔اس اشرافیہ پر صدقے واری جاتے ہیں جس نے انہیں اس قابل بھی نہیںچھوڑا کہ شرم و حیا کی پیکر خواتین کسی محفوظ ‘ باپردہ اور طبی سہولتوں سے آراستہ مقام پر گائنی ڈاکٹر کے ہاتھوں بچے کو جنم دے سکیں ہر آئے گئے کے سامنے تماشا بنیں نہ زندگی بھر اس احساس جرم کا شکار رہیں کہ معلوم نہیں بیگانوں نے انہیں کس حال میں دیکھا اور کیا سوچا۔
مگر جہاں تین سال کی معصوم کلی کو گھر سے اٹھا کربے دردی سے مسلنے والے ٹھاٹھ سے جیتے اور حسین والا میں جنسی دہشت گردی کا بازار گرم رکھنے والے آٹھ دس سال تک قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہوں‘ وہاںکوئی خاتون کسی وی وی آئی پی کی آمد پر ٹریفک کے دوران زندگی کے اس خوبصورت تجربے سے رکشے میں بیٹھے بیٹھے مکروہ انداز میں گزرے یا فٹ پاتھ اور ہسپتال کی سیڑھیوں پر تڑپ تڑپ کر‘ کس کو پروا ہے۔ پروا ہوتی تو آئے دن اس طرح کے واقعات کیوں پیش آتے اور حکمران صرف نوٹس لینے پر اکتفا کیوں کرتے‘ عملی اقدامات کیوں نہ ہوتے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری ہسپتال بھی عرصہ دراز سے شفا خانے نہیں‘ عقوبت کدے بن چکے ہیں۔ عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں ڈاکٹر ہے تو ڈیوٹی سے غیر حاضر اور نجی کلینک میں سرگرم عمل‘ دوائی خریدی جاتی ہے‘ کسی کو ملتی نہیں‘ لیبارٹری ہے تو مشینیں خراب ہیں اور ایک ایک بیڈ پر چار چار مریض لٹا کر کام چلایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادویات‘ سرنجیں اور دیگر چیزیں بازار میں بکتی ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب سے خیبر پختونخوا بھیجی جانے والی متاثرین زلزلہ کے لیے ادویات افغانستان لے جاتے پکڑی گئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چوروں کی نہیں محکمہ صحت کی واردات تھی۔
سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتالوں کی یہ حالت زار اس بنا پر ہے کہ ہماری بیورو کریسی اور حکمران اشرافیہ کا کوئی مفاد ان اداروں سے وابستہ نہیں۔ اگر حکمران طبقے کو ان اداروں کے لیے مختص فنڈز سے زیادہ کارگزاری سے دلچسپی ہو تو انہیں بحال کرنا مشکل ہے نہ ان کی کارگزاری کو معیاری بنانا ناممکن۔ سب جانتے ہیں کہ ان سرکاری اداروں اور ہسپتالوں کا رخ صرف غریب ‘ بے آسرا اور معاشرے کے کمزور لوگ کرتے ہیں جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ حکمران اشرافیہ انہیں زمین کا بوجھ سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ الیکشن کے دنوں میں اے ٹی ایم مشین جس سے ووٹ نکلوانامجبوری ہے۔
1950ء کے عشرے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے وزیر تعلیم کے طور پر کابینہ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ووٹر کی تعلیمی قابلیت مقرر کر دی جائے تاکہ ایک تو ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے دوسرے جو جاگیردار اور وڈیرے آج خواندگی میں اضافے اور تعلیمی اداروں کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں وہ ووٹ کے لالچ میں خود ہی اس کا اہتمام کریں گے۔ کسی نے مان کر نہیں دیا۔ نواب آف کالا باغ مرحوم نے تو ایک بار الطاف گوہر مرحوم کو ڈانٹ دیا اور کہا خواندگی اور تعلیم میں اضافے سے حکومت دبائو کا شکار ہو گی کیونکہ ہر پڑھا لکھا نوجوان روزگار کا طلب گار ہو گا اور زراعت کا شعبہ بھی کسانوں اور کاشتکاروں سے محروم ہو جائے گا۔ آج بھی اگر ہر سطح کے سرکاری ملازمین اور منتخب عوامی نمائندوں کو اس بات کا پابند کر دیا جائے کہ ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے اور ان کا خاندان صرف سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرائے گا تو صرف ایک سال میں تعلیم اور صحت کے شعبے کی حالت سدھر سکتی ہے۔امریکہ‘ برطانیہ اور سعودی عرب کے معیار کے ہسپتال بن سکتے ہیں۔ فلائی اوورز‘ میٹرو بس‘ سندھ فیسٹیول اور دوسرے نمائشی منصوبے پیش کرنے والے بیورو کریٹس خود ہی تعلیمی اور طبی اداروں میں معیاری سہولیات کا اہتمام کریں گے اور وسائل کا رخ خود بخود سوشل سیکٹر کی طرف ہو گا کیونکہ سنگ دل اشرافیہ کو اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کے علاوہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔
جن لوگوں کو چھینک بھی آ جائے تو بیرون ملک علاج کے لیے سرکاری وسائل دستیاب ہوں‘ جن کے نالائق بچوں کو اندرون و بیرون ملک بین الاقوامی معیار کے تعلیمی ادارے تک محض دولت کے بل بوتے پر رسائی حاصل ہو‘ وہ سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار پر کیوں توجہ دیں۔ ان کی بلا سے۔
ان بے شرموں کو کیا علم کہ کسی شریف اور عزت دار آدمی کی بیوی‘ بیٹی یا بہو جب رکشے میں یا کسی ہسپتال کی سیڑھیوں پر بچہ جنم دیتی ہے تو پورے خاندان کو کس ذہنی کرب‘ شرمندگی‘ اذیت اور اندیشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔عزت دار ‘ شریف اور غیرت مند آدمی کا تو یہ سوچ کر خون کھول اُٹھتا ہے کہ اس کی بیوی‘ بہو‘ بیٹی درد زہ میں مبتلا کسی راہ گزر پر پڑی بچّے کی پیدائش کے عمل سے گزر رہی ہے۔ مگر انہیں کیا؟ یہ کون سی ان کی بہو بیٹیاں ہیں‘ وہ تو پاکستان کے اندر اور باہر بہترین طبی سہولتوں سے مستفید ہوتیں اور قومی وسائل سے بنائی ہوئی اپنی جنت میں اٹکھیلیاں کرتی ہیں۔ غریب کی اپنی کون سی عزت ہے کہ کوئی ان کی بہو بیٹیوں کی لاج شرم اور دکھ تکلیف کا احساس کرے۔ بات بات پر جلوس نکالنے‘ دھرنے دینے اور احتجاج کرنے والے کسی طبقے‘ این جی او‘ سیاسی جماعت اور مذہبی تنظیم کو یہ توفیق کبھی ہوئی نہ اب ہو گی کہ ان شرمناک واقعات پر صدائے احتجاج بلند کر سکیں۔
شرق پور کی ریشماں بی بی خوش قسمت ہے‘ سر عام بچہ جنم دینے کی اذیت اور ذلّت تو اُس نے اٹھائی مگر زچہ بچہ دونوں کی جان بچ گئی‘ خادم اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا ہے‘ اگلے بچّے کی پیدائش تک لیڈی ولنگڈن کے علاوہ صوبے بھر کے ہر ہسپتال میں اعلیٰ معیار کی سہولتیںضرور دستیاب ہوں گی۔ صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں۔ پچھلے ساٹھ سال سے قوم وعدوںپر بہل رہی ہے‘ مزید بہلانے اور بہلنے میں کیا حرج ہے۔ غریبوں اور کمزوروں کو بھی کون سمجھائے کہ کچھ قصور ان کا بھی ہے ؎
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
- See more at: http://www.dunya.com.pk/index.php/author/irshad-ahmad-
arif/2015-11-05/13190/58613027#tab2

کاش پاکستان کا سرمایہ فوجی آمر لوٹ کر نہ کھاجاتے ۔ کاش پاکستانیوں کی کمائیوں سے جرنیلز اور ان کی اولاد مزے نہ اڑارہی ہوتی ۔ کاش پاکستان اپنا سرمایہ فوج اور اسلحہ کے بجائے صحت و تعلیم پر خرچ کرے۔ کاش۔ ہماری حکومت سیاسی ہو ۔ فوجی پیچھے سے نہ چلار ہے ہوں
متفق۔۔ جس معاشرے میں ایمان فروشی کا دھندا کیا جانے لگے اس کی اقدار جلد ہی کھوکھلی ہو جاتی ہیں ۔ اور پھر وہ زندہ لاشوں کی مانند سب کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اذہان پربے حسی ڈیرے ڈالے بیٹھی ہوتی ہے ۔ اور الزام سارا بے جان لفظ " معاشرے " پر ۔۔ سوچنے کی بات ہے معاشرہ کس کی پیداوار ہے ؟ ۔ آگے بڑھ کر کچھ کر نہیں سکتے تو زندہ لاشوں ہر ماتم بھی کیوں ۔۔ جو ہوتا ہے اسے سہتے رہیں ۔ جب تک کہ آگ آپ کے گھر کے دیوارو در کو چھو نہ لے
 
Top