’افغان زلزلہ براعظموں کے کونوں کے ٹکرانے کا نتیجہ‘

arifkarim

معطل
’افغان زلزلہ براعظموں کے کونوں کے ٹکرانے کا نتیجہ‘
151027054124_afghanistan_hindu_kush_quake_640x360_getty.jpg

یہ وہ علاقہ ہے جس کے نیچے 200 کلو میٹر سے بھی زیادہ گہرائی میں پیر کو زلزلہ آیا تھا
افغانستان میں آنے والے زلزلے کی جانچ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ بہت وسیع تھا لیکن خیریت یہ ہے کہ یہ بہت گہرا تھا۔

پہلے اس زلزلے کی شدت امریکی جیولوجیکل سروے نے 7.7 بتائی تھی لیکن بعد میں اسے 7.5 کے زمرے میں رکھا گيا ہے۔

اس نظر ثانی تخمینے کے باوجود پیر کو آنے والا یہ زلزلہ انتہائی شدید تھا اور پوری دنیا میں ہر سال 7.0 یا اس سے زیادہ شدت کے صرف 20 زلزلے آتے ہیں۔


رواں سال نیپال میں اپریل میں آنے والے 7.8 شدت کے تباہ کن زلزلے کے مقابلے یہ 200 کلو میٹر سے بھی زیادہ گہرائی میں وقوع پزیر ہوا تھا۔ نیپال والا زلزلہ صرف آٹھ کلو میٹر گہرائی میں واقع ہوا تھا اور اس کے بہت سے آفٹر شاک آئے تھے جن میں سے ایک مئي کے اوائل میں 7.3 شدت کا تھا۔

اسی طرح 10 سال قبل کشمیر میں آنے والا زلزلہ 7.6 شدت کا تھا اور یہ زمین کے 26 کلومیٹر اندر واقع ہوا تھا۔

151027050231_kohat_quake_640x360_afp_nocredit.jpg
I
زلزلے کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان میں شدید جانی مالی نقصانات ہوئے ہیں
پیر کو آنے والے زلزلے کے زیادہ گہرائی میں ہونے کی وجہ سے زمین نسبتا کم ہلی لیکن اس کے اثرات زیادہ وسیع علاقے تک محسوس کیے گئے۔

سعودی عرب میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی میں زلزلے کے ماہر سائنسدان پروفیسر مارٹن مائی کا کہنا ہے کہ ’اس کے انشقاق (پھٹنے) کی جہات اسی طرح کی ہیں لیکن چونکہ یہ زمین کی سطح سے بہت زیادہ نیچے برپا ہوا ہے اس لیے قوت تو اس کی وہی ہوتی ہے لیکن کم گہرائی میں برپا ہونے والے زلزلے کے مقابلے اس کی شدت کم ہوتی ہے۔‘

پیر کو آنے والا زلزلہ اپریل اور مئی میں نیپال میں آنے والے زلزلے کا مجموعی نیتجہ ہے اور بھارتی علاقوں کا شمال میں یوریشیا کے براعظم سے ٹکرانے کا سست عمل ہے۔ لیکن یہ براہ راست منسلک نہیں ہے۔

اوپن یونیورسٹی کے ماہر ارضیات پروفیسر ڈیوڈ روتھیری نے کہا ’اس سے نیپال کے زلزلے براہ راست منسلک نہیں ہیں اور یہ اس کے سلسلے کا حصہ نہیں ہیں۔‘

151027054226_afghanistan_hindu_kush_quake_624x351_getty.jpg
I
ہندو کش کے بعض علاقوں میں پہاڑوں سے مٹی کے تودے گرے
ہندو کش کے پہاڑی سلسلے بھارت کے کونے پر ہیں نہ کہ برا اعظموں کے ٹکرانے کی فرنٹ لائن میں جہاں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ کھڑا ہے اور جس کی وجہ سے بھارت ہر سال 40 سے 50 میلی میٹر چھوٹا ہو رہا ہے۔

’یہ وہ علاقہ ہے جہاں بھارت اور افغانستان کے کونے ملتے ہیں اور ہمالیہ کی ’فالٹ لائن‘ ہے۔ یہاں بہت چھوٹی چھوٹی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی فالٹ لائنز ہیں جو مختلف سمت میں ایک دوسرے کو دھکا دیتی رہتی ہیں۔‘

پروفیسر مائی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت پیچیدہ علاقہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں لاکھوں سال کے دوران بہت سی (ٹکٹونک) پلیٹیں ٹکرائی ہیں اور یہ پیچیدہ خطہ اس طرح بنا ہے۔

151027045524_kpk-quake-3.jpg

ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے
بہت سی فالٹ لائنوں کی میپنگ کی گئي ہے لیکن اب ان میں سے بہت سی بے حرکت ہیں لیکن اس قسم کے زلزلوں سے ان میں سے کوئی کبھی بھی حرکت میں آسکتی ہے۔‘

خوش قسمتی یہ ہے کہ جس علاقے میں پیر کو زلزلہ آیا وہاں عموما زلزلے کا مرکز گہرائی میں ہوتا ہے۔

پروفیسر مائی نے کہا: ’یہ وہ علاقے ہیں جہاں عام طور پر 100 سے 200 کلومیٹر کی گہرائی میں ہی زلزلے آتے ہیں جبکہ سنہ 2005 کا زلزلہ اس علاقے سے 300 کلومیٹر جنوب مشرق میں آیا تھا اس لیے وہ زیادہ گہرا نہیں تھا۔‘
بحوالہ بی بی سی اردو
زیک سید ذیشان محمد سعد

نوٹ: زلزلے سے متعلق تمام مذہبی توجیہات اور دعائیہ کلمات متعلقہ سیکشن میں پوسٹ کریں
 

آصف اثر

معطل
زلزلے سے متعلق تمام مذہبی توجیہات اور دعائیہ کلمات متعلقہ سیکشن میں پوسٹ کریں
چوں کہ اسلامی اور سائنسی توجیہات میں میں کوئی فرق نہیں۔لہذا یہاں اس پوسٹ پر آپ کو اعتراض نہیں ہوگا۔ جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیق جب بالغ ہوجاتی ہے تو اسلامی توجیہ کے مساوی ٹھہرتی ہے۔اسلام آپ سے کہتا ہے تحقیق کریں ، تجربات کریں، غور وفکر کریں لیکن اس کے ذریعے اپنے خالق کو پہچاننے کی کوشش کریں جس کے عطاکردہ عقل سے آپ اس تحقیق اور نتائج کو اخذ کرنے کے قابل ہوئے۔
اگرچہ آپ کے سائنس کی توجیہات مختلف ہوسکتی ہیں۔:)
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
چوں کہ اسلامی اور سائنسی توجیہات میں میں کوئی فرق نہیں
بقول سائنس زلزلے زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بعد وجود میں آتے ہیں جبکہ اسلام کے مطابق یہ لوگوں کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟
 

ربیع م

محفلین
بقول سائنس زلزلے زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بعد وجود میں آتے ہیں

سائنس بے چاری تو ہر چند سال بعد اپنے سابقہ نظریات سے تائب ہو کر نئے نظریات اپناتی ہے سائنس کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔

جبکہ اسلام کے مطابق یہ لوگوں کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں۔

لوگوں کی بد اعمالیوں کی سزا دینا اس کائنات کے مالک کے اختیار میں ہے اب وہ خالق کائنات چاہے تو کسی چیز کو سبب بنا کر زلزلہ بپا کر دے اور چاہے تو زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بغیر ہی ایسا زلزلہ بپا کردے جو نہ کسی نے دیکھا ہو نہ سنا ہو۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟


جناب یہ مالک کائنات کے اختیارات کےسامنے بہت معمولی چیز ہے کہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہوں کے بغیر ہی زلزلے لے آئے اس رب کائنات کیلئے یہ انتہائی آسان ہے ہماری محدود سوچ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟

اللہ رب العزت کے عذاب کیلئے محض زلزلہ ہی نہیں ، یہ ہماری کم فہمی یا تجاہل عارفانہ کا نتیجہ ہے اللہ رب العزت کے عذاب کی کئی شکلیں جو مختلف اوقات میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں چاہے وہ زلزلہ ہو ، سونامی طوفان ، سیلاب ، وبائیں قدرتی آفات یادیگر

سابقہ اقوام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ قوم عاد ، ثمود قوم لوط قوم شعیب آل فرعون کو کن کن عذابوں سے دوچار کیا گیا۔

اور جو بصیرت کی نگاہ سے سائنس کا مطالعہ کرے اسے بخوبی انسان کی عاجزی و کمزوری اور رب کائنات کی قوت کا ادراک ہو جائے گا ، محض بصیرت کی ضرورت ہے۔
 

ربیع م

محفلین
بقول سائنس زلزلے زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بعد وجود میں آتے ہیں

سائنس بے چاری تو ہر چند سال بعد اپنے سابقہ نظریات سے تائب ہو کر نئے نظریات اپناتی ہے سائنس کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔

جبکہ اسلام کے مطابق یہ لوگوں کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں۔

لوگوں کی بد اعمالیوں کی سزا دینا اس کائنات کے مالک کے اختیار میں ہے اب وہ خالق کائنات چاہے تو کسی چیز کو سبب بنا کر زلزلہ بپا کر دے اور چاہے تو زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بغیر ہی ایسا زلزلہ بپا کردے جو نہ کسی نے دیکھا ہو نہ سنا ہو۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟


جناب یہ مالک کائنات کے اختیارات کےسامنے بہت معمولی چیز ہے کہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہوں کے بغیر ہی زلزلے لے آئے اس رب کائنات کیلئے یہ انتہائی آسان ہے ہماری محدود سوچ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟

اللہ رب العزت کے عذاب کیلئے محض زلزلہ ہی نہیں ، یہ ہماری کم فہمی یا تجاہل عارفانہ کا نتیجہ ہے اللہ رب العزت کے عذاب کی کئی شکلیں جو مختلف اوقات میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں چاہے وہ زلزلہ ہو ، سونامی طوفان ، سیلاب ، وبائیں قدرتی آفات یادیگر

سابقہ اقوام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ قوم عاد ، ثمود قوم لوط قوم شعیب آل فرعون کو کن کن عذابوں سے دوچار کیا گیا۔

اور جو بصیرت کی نگاہ سے سائنس کا مطالعہ کرے اسے بخوبی انسان کی عاجزی و کمزوری اور رب کائنات کی قوت کا ادراک ہو جائے گا ، محض بصیرت کی ضرورت ہے۔
 

آصف اثر

معطل
بقول سائنس زلزلے زیر زمین تہوں کے قدرتی ٹکراؤ کے بعد وجود میں آتے ہیں جبکہ اسلام کے مطابق یہ لوگوں کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں۔
یہ ” بقولِ سائنس“ کیا بات ہوئی؟اسلام کے مقابل ”بقولِ سائنس“کہنا کتنا مضحکہ خیز ہے۔!
کیا اسلام ہمیں مشاہدے سے منع کرتا ہے؟ شریعت نے غور وفکر کرنے کو جتنی اہمیت دی ہے اتنی اہمیت کسی اور مذہب نے نہیں دی۔ (یاد رہے کہ الحاد بھی ایک مذہب ہے) ۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے سائنس کو اپنے محدود سوچ سے ملحد بنا دیا ہے۔
جبکہ اسلام کے مطابق یہ لوگوں کے بد اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ زیر زمین ٹکراؤ پیدا کرنے والی تہیں موجود نہیں، جنکی وجہ سے وہاں زلزلے نہیں آتے، کیا ان علاقوں میں رہنے والے لوگ فرشتے ہیں؟
پہلی بات کہ کیا بد اعمالیوں کی سزا صرف ”زلزلے “ ہی کی صورت میں دی جاسکتی ہے؟قوم عاد اور ثمود سمیت کئی مثالیں موجود ہیں۔
دوسری بات یہ کہ میں اپنے شہر کی بات کروں تو یہاں ہزاروں گناہ گار موجود ہیں۔ ہر طرح کے گناہ ہورہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس یہ شہر اللہ کے لاکھوں نیک بندوں سے پُر ہے۔ یہاں امیر عیاشوں سے زیادہ خدا کے غریب مخلوق زندگی بسر کررہی ہے۔ جو صبح و شام اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ان کے گھر اتنے کمزور اور کچے ہیں کہ صرف مون سونی بارشوں سے ان کی نظام زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ یہاں شیطان کے پُجاری ہیں تو اللہ کے سپاہی شب وروز اللہ کی وحدانیت کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ اور بھی کئی وجوہات ہیں جن کے سبب اللہ اس طرح کے آفات کو ٹال دیتے ہیں۔ فی الحال وقت کی کمیابی کے باعث تمام اسباب بیان نہیں ہوسکتے ۔

آخر میں ایک سوال کہ جب تک یہ بات معلوم نہیں ہوئی تھی کہ زلزلہ ٹیکٹونیک پلیٹوں کے ٹکراؤ یا حرکت سے پیدا ہوتا ہے تب سائنس کی رُو سے زلزلے کی کیا تعریف تھی؟
:biggrin:نابالغ!
 

x boy

محفلین
زلزلوں میں غریب لوگوں کی اموات زیادہ ہوتی ہے وجہ یہ ہے کہ غریب لوگ ہی کچے پکے مکانوں میں رہتے ہیں گنجان آبادی میں رہتے ہیں
آج کل کے زلزلے موسم کی بدلتی صورت کے نتیجے میں ہوتے ہیں گلوبل وامنگ کی وجہ سے پہاڑوں کا پانی جلد سمندر میں آجاتا ہے برفانی سمندری تودے، آئس برق سب پگلتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے پانی کی سطح بلند ہورہی ہے زمین کٹتی جارہی ہے یہ زمین کا نظام بھی اللہ کا نظام ہے اللہ نے مقررہ وقت کے لئے حکم صادر کردیا ہے اور انسان کے لئے زمین کو بچھونا بنایا ہے انسان کے لئے زمیں کی ہر چیز کو حکم ہے کہ انسان جیسا چاہے اس کو استعمال کرے،، یہ سارے سیلاب ، زلزلے ، طوفان انسان کی غلط حرکات کا نتیجہ ہے زمین سے اڑنے والے سارے کلوروفلورا کاربن یا اوزون کو پھاڑ رہے ہیں یا موسم کو گرم کررہے ہیں اس لئے اب انسان کے ذہن میں آیا کہ وہ تمام چیزیں بند ہوجانی چاہئے جو انسانوں کی آرام کی جگہہ جو صرف زمین ہے اس کو ہرا بھرا رکھیں،، یاد رہے کہ انسان زمین چھوڑ کر کدھر بھی نہیں جاسکتا ہے اگر خلاء میں چلا بھی جاتا ہے اگر موت ہوجاتی ہے تو اس کی لاش کو زمین میں ہی آخری رسومات کرنے کے لئے لایا جاتا ہے۔۔۔۔
زلزلے انسان کی لاپرواہی کا نتیجہ۔ اںتھی۔
 

آصف اثر

معطل
جب تک یہ بات معلوم نہیں ہوئی تھی کہ زلزلہ ٹیکٹونیک پلیٹوں کے ٹکراؤ یا حرکت سے پیدا ہوتا ہے تب سائنس کی رُو سے زلزلے کی کیا تعریف تھی؟

جواب نہیں آیا۔ علم کی تشنگی باقی ہے۔
 

arifkarim

معطل
چوں کہ اسلامی اور سائنسی توجیہات میں میں کوئی فرق نہیں۔
بہت فرق ہے۔ کبھی سائنس کو بغیر تعصب کے پڑھا ہو تو پتا چلے!

سائنس بے چاری تو ہر چند سال بعد اپنے سابقہ نظریات سے تائب ہو کر نئے نظریات اپناتی ہے سائنس کوئی آسمانی صحیفہ نہیں۔
تائب نہیں ہوتی بلکہ نئے علوم کے اضافے کے بعد سابقہ علوم کو پرکھتے ہوئے انہیں بہتر یا درست کرتی ہے۔

سابقہ اقوام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ قوم عاد ، ثمود قوم لوط قوم شعیب آل فرعون کو کن کن عذابوں سے دوچار کیا گیا۔
مطلب امت مسلمہ پر آجکل زلزلوں اور سیلابوں کا عذاب الٰہی آیا ہوا ہے؟ یہ تشریح کس نے کی؟

آخر میں ایک سوال کہ جب تک یہ بات معلوم نہیں ہوئی تھی کہ زلزلہ ٹیکٹونیک پلیٹوں کے ٹکراؤ یا حرکت سے پیدا ہوتا ہے تب سائنس کی رُو سے زلزلے کی کیا تعریف تھی؟
اسوقت جدید سائنس کا کوئی وجودنہیں تھا اور لوگ عموماً زلزلوں کو خدا کا عذاب تصور کرتے تھے۔ یہاں مغرب میں بھی یہی حال تھا۔ پھر ان لوگوں نے ترقی کر لی اور ہم لوگ وہیں کے وہیں ہیں۔

اور مزید یہ کہ کل کلاں کوئی نئی تحقیق سامنے آئی تو اس نظرئیے کو کس ٹوکری میں پھینکیں گے؟
اسی ٹوکری میں جس میں کسی غیرمرئی طاقت کو اسکا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ او کوئی جواب بھی نہیں بے چاروں کے پاس تو کیا کریں؟
جواب تو اوپر دے دیا ہے۔ باقی آپکی مرضی۔
 
Top