Living Among Giants by Michael Carroll - اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پیش لفظ - حصّہ اوّل


1 by Zonnee, on Flickr
خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟

بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟


اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔


مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
Percival-Lowell-Artificial-Canals-on-Mars by Zonnee, on Flickr
ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے۔

ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژنفار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"


اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔


Terraforming by Zonnee, on Flickr
مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے۔

آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔


اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔


republic_cruiser_by_radojavor-dqqw6n by Zonnee, on Flickr
سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔

[1]۔ لوئل نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ ٹام بو (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پیش لفظ - آخری حصّہ



منطقی طور پر مریخ ہمارا اگلا ٹھکانہ لگتا ہے۔ تاہم مریخ نے سیاروی کھوج کا ایک بڑا حصّہ ہضم کیا ہوا ہے اور کافی لوگ اب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی توجہ اور ذرائع مزید آگے لگانے چاہیں۔ "زہرہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟" کچھ سوال کرتے ہیں۔ بہرحال کچھ بھی ہو یہ دوزخی سیارہ زمین کا جڑواں ،فاصلے کے لحاظ سے ہم سے قریب ترین، اور ارضیاتی اور ماحولیاتی دونوں اطوار میں پیچیدہ بھی ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں زہرہ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے سہارے انسانوں کے بسنے کی جگہ نہیں بن سکتا۔ جو کوئی بھی اس کی سطح پر اترنے کی کوشش کرے گا وہ اس کی سطح کے ٩٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت میں صرف ایک ہی گھنٹے میں دب جائے گا بلکہ ہماری حالیہ دور کی جدید انجینئرنگ کے شہکار بھی یہاں پر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن تک ٹھر پائیں گے۔ وحشی دباؤ الیکٹرانکس کو بھنبھوڑ دیں گے اور تیزاب حاجز کو کھا جائیں گے جبکہ سخت ترین گرمی سے بچنے کے لئے توانائی کی ضرورت انتہا کی ہوگی جس کو کہیں اور بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ سفر کرنے کے لئے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔


wallpaper-1573437 by Zonnee, on Flickr
مریخ کی خلائی مخلوق - کہانی نگاروں کی نظر میں۔

بہرحال اگر ہم دوسری سمت میں مریخ سے پرے دیکھیں تو حیرت انگیز طور پر ہمیں امید افزا اور تنوع سے بھرے ذرائع دکھائی دیں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ بیرونی نظام شمسی تاریک اور حد درجے سرد ہے۔ فاصلے، سفر اور ابلاغ کو حد درجہ مشکل بنا دیتے ہیں ۔ لیکن خارجی جہاں ، گیس اور برف کے جسیم اجسام، برفیلے اور چٹانی مہتابوں کی صورت میں مصاحبین رکھتے ہیں جن میں پانی، معدنیات، اور ہائیڈرو کاربن موجود ہیں اور یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم نیا مستقبل تلاش کر سکتے ہیں۔

آرتھر سی کلارک اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ خارجی سیاروں کی سلطنت انسانیت کی قدرتی منزل ہے۔ اس نے کہا تھا، "ہمیں یہاں سوکھی زمین پر جہاں ہم پیدا ہوئے زمینی سمندروں اور خلاء کے سمندر جہاں تاریخ اپنے گل کھلا رہی ہے، کے درمیان جلا وطن کر دیا گیا ہے۔"

مریخ پر بستی بسانے کے حامی رابرٹ زبرین (Robert Zubrin)تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ضرور جانا چاہئے۔ "ہوائی جزیرہ جب سمندر سے نمودار ہو گیا تو اس کے اوپر سے اڑنے والے پرندوں نے بیج پھینک کر اس زمین پر حیات کو شروع کیا۔ ہوا میں آکسیجن موجود ہے کیونکہ حیات وہاں پر ہے۔ فرش پر مٹی ہے کیونکہ حیات نے اسے وہاں رکھا ہے۔ ہم بھی یہی کام کرتے ہیں۔ یہ بات غیر قدرتی ہوگی کہ اگر انسان بطور پرندہ جس کو قدرت نے خلاء میں حیات کو پھیلانے کے لئے بنایا ہے، حیات کے بیج کو کائنات کی بے کراں گہرائیوں میں موجود صحرائی جزیروں میں نہ ڈالیں۔"

اگر کلارک اور زبرین جیسے لوگ درست ہوئے، تو مریخ وہ پہلا قدم ہوگا جو ہمیں دور دراز جگہوں پر جانے کے لئے اٹھانا ہوگا۔ اس سے پرے موجود جہاں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ جما دینے والی ٹھنڈی تاریکی ، وافر مقدار میں قدرتی ذرائع کو سمیٹے اور وہ گہرے راز جو بالآخر ہمیں ہمارے سیاروی نظام کی بنیاد کو سمجھانے کے لئے موجود ہیں۔ کیرولن پورکو (Carolyn Porco)جو کیسینی سیٹرن او ربٹر امیجنگ ٹیم کی محقق اعلیٰ ہیں اس بات کو یوں کہتی ہیں :" آپ اس کو کسی بھی طرح سے ناپ لیں، چاہئے آپ اجسام کی تعداد کو گن لیں، چاہئے آپ کمیت کو جمع کر لیں، اور چاہئے آپ اس مقدار کو لے لیں جو ان اجسام کے مداروں نے لی ہوئی ہیں، ہمارے نظام شمسی کی زیادہ تر تعداد سیارچوں کے مدار سے پرے کے علاقے میں موجود ہے۔ اندرونی حصّے میں تو بس غرق شدہ تھوڑی سی چیز ہی ہے۔ ساری چیزیں تو بیرونی نظام شمسی میں موجود ہیں۔"

Outer-Solar-System by Zonnee, on Flickr
نظام شمسی کا بڑا حصّہ بیرونی طرف موجود ہے۔

مزید براں برف اور گیس کے دیوہیکل سیاروں کی سلطنت کی جانب جاتے ہوئے مستقبل کے مسافروں کا سامنا ایسے جلیل القدر اور شاندار نظروں سے ہوگا جن کا تجربہ انہوں نے اس سے پہلے نہیں کیا ہوگا۔ عملی سائنسی اور ٹیکنالوجی کے فائدے کو حاصل کرنے کے علاوہ ، برفیلی چوٹیوں ، گرجتے فواروں ، دہکتے آتش فشاؤں اور چکر کھاتے طوفانوں کا سفر تحریک بھی پیدا کرے گا۔ جیسا کہ مصور/ کھوجی فریڈریک چرچ(Frederick Church) نے ایک مرتبہ کہا تھا، "کھوج روح کی تسکین کے لئے اچھی چیز ہے۔" ہینری ڈیوڈ تھوریو(Henry David Thoreau) نے نصیحت کی تھی : "ہمیں خود سری کے معجون کی ضرورت ہے۔۔۔ بیک وقت ہم کھوجنے کے لئے کوشاں اور تمام چیزوں کو سیکھنے کے لئے سرگرداں ہیں، ہمیں تمام چیزیں پراسرار اور چھپی ہوئی درکار ہیں، یعنی کہ زمین اور سمندر غیر محدود طور پر خود سر ، بغیر سروے کے اور ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہوں۔۔۔۔۔" ہرچند کے ہم نے زمین کے نقشے مصنوعی سیارچوں اور زمینی سروے سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر بنا لئے ہیں ، لیکن ہمارے جہانوں کے نقشے سے پرے کافی ایسے علاقے موجود ہیں جن کے اوپر خطرناک اور غیر دریافت شدہ کا لیبل لگا ہوا ہے۔ کائنات ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم ان کو کھوجیں۔ ہم وہاں اپنے روبوٹوں کے ساتھ گئے ہیں ، ہماری خلائی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جہاں بھی ہمارے روبوٹ گئے ہیں ان کے پیچھے انسانوں کے قدم بھی پہنچ گئے ہیں۔


مائیکل کیرول

لٹل ٹن ، کو ، یو ایس اے



مصنف کے بارے میں

michaelcarroll01[1] by Zonnee, on Flickr

اسپرنگر مصنف/ مصّور مائیکل کیرول (Michael Carroll) نے٢٠١٢ء میں سیاروی سائنس کے فیچر مضمون پر اے اے ایس ڈویژن آف پلانیٹری سائنس کا جوناتھن ایبر ہارٹ ایوارڈ حاصل کیا ۔ یہ وہ مضمون ہے جس کا ماخذ ان کی اپنی اسپرنگر کتاب "اجنبی ہواؤں میں اڑان" (Drifting on Alien Winds)تھی۔ وہ اپنی مختلف کتب سے متعلق کافی جامع لیکچر ز دیتے ہیں۔ ان کو اکثر سائنسی عجائب گھروں میں، ہوائی کمپنیوں کے کارخانوں میں اور ناسا کے مرکز میں مدعو کیا جاتا ہے ۔ ان کا دو عشروں پر محیط بطور سائنسی صحافی کے تجربے نے ان کو سائنسی صحافت کی دنیا میں کافی جانی پہچانی شخصیت بنا دیا ہے ۔ وہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار دی آسٹرونومیکل آرٹس کے سینئر رکن ہیں اور انہوں نے خلاء سے لے کرآثار قدیمہ کے موضوعات پر کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے مضامین پاپولر سائنس، آسٹرونومی، اسکائی اینڈ ٹیلیسکوپ ، آسٹرونومی ناؤ (یو کے) اور مختلف بچوں کے رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ انہوں نے "ساتواں نزول" (اسپرنگر ٢٠٠٩ء)، "اجنبی ہواؤں میں اڑان" (اسپرنگر ٢٠١١ء) بھی لکھی ہے۔ ان کی حالیہ کتاب کا نام جو انھوں نے اشتراک میں لکھی ہے، اسپرنگر کی اجنبی سمندر: خلائی سمندر (٢٠١٣ء) ہے۔



کیرول نے ناسا ، دی جیٹ پروپلشن لیبارٹری اور دنیا کے سینکڑوں رسالوں کی جانب سے سپرد کیا گیا مصوری کا کام بھی کیا ہے۔ ان رسالوں میں نیشنل جیوگرافک، ٹائم، سمتھ سونین ، آسٹرونومی اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی ایک تصویر مریخ کی سطح پر - ڈیجیٹل شکل میں - فینکس لینڈر کے پہلو میں بھی موجود ہے۔ کیرول کو ٢٠٠٦ء میں لو سییان روڈ اکس ایوارڈ اور فلکیاتی فن میں تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 1



ابتدائی خیال


1.1 by Zonnee, on Flickr
خاکہ1.1 فلینڈری مصوّرگیرٹ ڈو (Garrit Dou)نے اس شاہکار کو بنایا جس میں ایک فلکیات دان موم بتی کی روشنی میں کام کر رہا ہے۔ عالم کے اوزاروں میں ایک مائع سے بھرا بیکر ، ایک ریت گھڑی، ایک ضخیم کتاب اور ایک سماوی کرہ شامل ہیں جس میں رات کے آسمان میں نظر آنے والے مجموع النجوم دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہرچند کہ دوربین سترویں صدی کے آغاز میں ایجاد ہو چکی تھی، لیکن زیادہ تر قدیم ماہرین فلکیات تک اس کی رسائی نہیں تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی اشیاء ان کی تجارت کے اوزار تھے۔ دن کے اختتام پر آسمان کے یہ قدیمی طالب صرف اس بات کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے جس کو مسافر وہاں جا کر دریافت کر سکتا تھا۔ (تصویر از گیرٹ ڈو ، سی اے،۱۶۵۸ء)

پہلی صدی بعد مسیح میں صدیوں پر محیط یونانی ہیلینیائی اور ثقافت پوری مغربی دنیا میں جاری رہی۔ جب لمبے عرصے چلنے والی مایائی تہذیب کا ظہور ہو چکا تھا، چین کی ہین سلطنت نے باضابطہ طور پر کنفیوشیس کو اختیار کر لیا تھا، اور یہودی ربی مشرقی وسطی میں شورش بھڑکانے میں مصروف تھے اس وقت سموستا کا لوشین خاموشی سے چاند پر سفر کرنے کی کہانی لکھ رہا تھا ۔ جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے، اس نے اپنے تخیلاتی خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے بجائے اس دور کی ادبی ثقافت پر تبصرہ اور ہجویہ نظم کہنے پر اکتفا کیا۔ لوشین کے پاس پہلی صدی میں کچھ زیادہ سائنسی معلومات نہیں تھیں۔


Lucian by Zonnee, on Flickr
لوشین کا ناول "سچی تاریخ" چاند کے سفر کی روداد بیان کرتی ہے۔

لوشین کی "سچی تاریخ" ایک ایسے بحری سفر کو بیان کرتی ہے جس میں ایک جل بگولہ سفر میں دخل در معقولات کر دیتا ہے۔ ایک تیز ہوا کے اندوہناک ہفتے کے بعد، راوی اور اس کا نڈر عملہ اپنے آپ کو چاند پر پاتے ہیں۔ لوشین اس سفر کو اس طرح سے بیان کرتا ہے :

آٹھویں دن ہم نے اس میں ایک عظیم ملک دیکھا، جو ایک جزیرے نما تھا، روشن، گول اور ضو فشاں ۔ وہاں پر لنگر انداز ہو کر ہم ساحل پر اتر گئے، اور تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ زمین آباد ہے۔ دن کے وقت تک تو کچھ نہیں دکھائی دیا، لیکن جیسے ہی رات شروع ہوئی ہم نے جزیرے کے کافی رہائشیوں کو دیکھا ، ان میں سے کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے تھے اور ان کی رنگت آگ جیسی تھی۔ ہم نے اس کے نیچے بھی ایک ملک دیکھا جہاں شہر، دریا، سمندر ، جنگل اور پہاڑ بھی موجود تھے۔ تب ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ تو ہماری اپنی دنیا تھی۔[1]

لوشین کی کہانی لگ بھگ انیس صدیوں پہلے لکھی گئی تھی، اس میں خلاء کے سفر کی آمیزش ، مسافروں کا خلائی مخلوق سے واسطہ، مصنوعی کرہ فضائی بھی شامل تھا بلکہ اس میں ہمیں کھوجنے اور دریافت کرنے کی سائنسی خواہش بھی ملتی ہے۔ آنے والی کئی صدیوں تک کائناتی اندازوں کا محور چاند نے بننا تھا۔

Johannes_Kepler_1610 by Zonnee, on Flickr
جرمن ماہر فلکیات اور ریاضی دان جوہانس کیپلر

ستمبر۱۶۱۰ء میں جرمن ماہر فلکیات اور ریاضی دان جوہانس کیپلر نے ایک مختصر سا مضمون لکھا جس میں اس نے گلیلیو کے دریافت کردہ مشتری کے چار بڑے مہتابوں کی تصدیق کی۔ اس نے اس کو یہ نام دیا "مشتری کے چار ہرزہ گرد سیارچوں کا مشاہداتی جائزہ۔" اس پمفلٹ میں پہلی دفعہ کسی دوسرے سیارے کے مہتابوں کو "سیارچوں" کا نام دیا گیا تھا۔ کیپلر کے دماغ میں شاید مشتری کا مقام سیاروں میں ایک بادشاہ جیسا تھا۔ کیپلر کے دور میں ، ریاست کا سربراہ اور اس کے اہم مصاحب حفاظت کی غرض سے سپاہیوں میں گھرے رہتے تھے۔ یہ قدیم معروف شخصیات لاطینی لفظ بمعنی مصاحب سے جانے جاتے تھے ۔ (کیپلر نے اصطلاح گلیلیو کو لکھے ہوئے خط میں بھی استعمال کی تھی۔)

کیپلر نے اپنے آپ کو صرف سائنسی رسالوں تک لکھنے میں محدود نہیں کر لیا تھا۔ بیس برس پر محیط عرصے میں اس نے اپنے۱۶۰۸ طالبعلموں کو اس طرح سے ڈھالا تھا کہ ان میں سے اکثر کو جدید سائنسی قصص لکھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ سومنیم کہلانے والی کہانی اصل میں کیپلر کی موت کے بعد۱۶۳۰ء میں شایع ہوئی۔ کیپلر کا راوی شروع وہاں سے کرتا ہے جب وہ ایک جادوگر کی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے۔ وہ کتاب پڑھتے ہوئے سو جاتا ہے (جادوگر کی کتاب زیادہ دلچسپ نہیں ہوتی) اور خواب میں ایک آئس لینڈ کے لڑکے کو چاند پر جاتا دیکھتا ہے جس کو ایک نیک روح لے کر جا رہی ہوتی ہے ۔ چاند پر رہنے والے اس کو لیوینیا کہتے تھے۔

کیپلر کی کہانی کافی سائنسی مسائل کے بارے میں اندازے لگاتی ہے مثلاً کرۂ فضائی (اس کے مسافروں کو لازمی طور پر سانس لینے کے لئے ناک پر گیلا سپنج رکھنا ہوتا تھا)، خلاء کی ٹھنڈ (مسافروں کو اپنے آپ کو کمبل میں لپیٹنا ہوتا تھا)، اور زمین اور چاند کے درمیان موجود عظیم فاصلے۔ کسی بھی معیاری سائنسی کہانی کے طور پر کیپلر کی کہانی میں اپنے دور کی سائنسی فکر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ چاند سے زمین کو لگنے والے گرہن کے بارے میں بیان کرتی ہے؛ یہ سیاروں کی حجم میں تبدیلی کو بھی بتاتی ہے جس کی وجہ زمین سے چاند کا فاصلہ ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ یہ چاند کے حجم کا قیاس بھی کرتی نظر آتی ہے اور چاند کی مدو جذر قید ([lunar tidal lock]اس مظہر کے بارے میں جس کی وجہ سے چاند کا ایک حصّہ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے)کے اثرات بھی بیان کرتی ہے ۔ افسوس کہ کیپلر چاند پر اترنے کی اچھی اور لطیف جگہوں اور چاند کی سطح پر پائے جانے والے مادّے کے بارے میں ہمارے جاننے سے پہلے باخبر تھا۔


christine huygens by Zonnee, on Flickr
ولندیزی ریاضی دان کرسچین ہائی گنز

دور دراز کے جہانوں کو کھوجنے کی بابت تو چھوڑ دیجئے ، صرف بیرونی نظام شمسی کی نوعیت کو جاننے میں ہی مصنفین کو عشرے لگ گئے۔ ولندیزی ریاضی دان کرسچین ہائی گنز بنیادی آلات اور لمبے فاصلوں کو کسی خاطر میں نہیں لایا ۔ ہائی گنز نے کائنات کی تحقیق اپنی دوربین سے کی، جس کے ذریعہ اس نے زحل کے چاند ٹائٹن کو دریافت کیا، مریخ کے دن کی طوالت ناپی، اور اورائن اور دوسرے سحابیوں کے تفصیلات کو قلم بند کیا۔ اپنی۱۶۹۸ء میں لکھی گئی کتاب "سماوی جہانوں کی دریافت: یا متوطن کی رہائش کے بارے میں، منصوبے اور سیاروں میں جہانوں کی پیداوار،" میں ہائی گنز نے بیرونی سیاروں کی نوعیت باالخصوص وہاں پر بادلوں اور پانی کے بارے میں جانچ کی:

مشتری کی سطح پر موجود کچھ حصّہ اس کے دوسرے حصّوں کی نسبت زیادہ گہرے ہیں، وہ ہمہ وقت تبدیل ہونے کی وجہ سے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ بادل ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین اور مشتری میں پانی اور بادل موجود ہیں ، لہٰذا کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ دوسرے سیارے ان کے بغیر ہوں۔۔۔ ہمارا یہ پانی مشتری اور زحل میں فی الفور طور پر سورج سے وسیع فاصلوں کی وجہ سے منجمد ہو جائے گا۔ پس ہر سیارے میں پانی اس سیارے کی حرارت کی راست نسبت کی مناسبت سے موجود ہوگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 2


پر معنی طور پر ہائی گنز نے تو دوسرے سیاروں کے مہتابوں کے بارے میں بھی رائے قائم کر لی تھی ۔

مشتری اور زحل کے تمام مصاحب ہمارے چاند کی نوعیت کے ہیں ، جو ان کے گرد چکر لگاتے ہیں ، اور جس طرح ہمارا چاند زمین کے ساتھ رہتا ہوا سورج کے گرد چکر لگاتا ہے ویسے وہ ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی مطابقت دوسری چیزوں میں بھی ویسی ہے ۔۔۔ ہم اپنی چاند سے متعلق جو معقول بات یا کہانی گھڑیں ( اور ہم نے اس بارے میں کافی کم بات کی ہے)وہ بات کم و بیش ویسے ہی مشتری اور زحل کے محافظوں منطبق ہو گئی کیونکہ ایسے نہ کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔


'From_the_Earth_to_the_Moon'_by_Henri_de_Montaut_39 by Zonnee, on Flickr
جولیس ورن نے۱۸۶۵ءمیں "زمین سے چاند کا سفر" کے نام سے ناول لکھا

اس خیال۱۹۶۰ء کے عشرے میں کافی زور پکڑا کہ مشتری اور زحل کے چاند ہمارے چاند جیسے ہی ہیں۔ آنے والے برسوں میں، ادبی کرداروں نے ہمارے چاند کا سفر کیا[2]، مشتری پر ڈائنوسارس دیکھے[3]، گینی میڈ پر موجود بستیوں میں قیام کیا[4]، دم دار ستارے پر سواری کرتے ہوئے زحل کو پار کیا[5] اور نیپچون جانے کا پہلا انسانی سفر ہو والٹر (Hugh Walter)کے۱۹۶۸ء کے ناول "نیپچون کے قریب" میں کیا۔


Victory Unintentional by Zonnee, on Flickr
آئزک ایسی موف کے۱۹۴۲ء کے ناول "وکٹری انٹرنیشنل" میں گینی میڈ پر انسانی بستیوں کے قیام کا ذکر ہے.

مریخ بین سیاروی سفر کی کہانیوں کا محرک بنا رہا جہاں پرسیول لوئل بغیر کسی مغالطے کے ان کہانیوں کا بادشاہ تھا۔ اپنی مشہور اور قیاسی طور پر ادبی تصنیف "مریخ بطور حیاتی اینٹ"[6] میں لویل لکھتا ہے :

پس نہ صرف ان مشاہدات کی رو سے جنھیں ہم نے جانچا ہے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس لمحے مریخ نہ صرف آباد ہے، بلکہ وہ ہمیں مزید آگے جانے کے لئے جگہ بھی مہیا کرے گا، یہاں کے باشندوں سے واقفیت کی کافی اہمیت ہوگی۔


1.2 web by Zonnee, on Flickr
خاکہ 1.2زحل اور اس کے حلقوں کی تصویر از کرسچین ہائی گنز۱۶۵۹ء۔ سیدھے جانب اس کا موازنہ زمین سے کیا گیا ہے۔

ناول نگار ایڈگر رائس بروز جو اپنی ٹارزن کی کہانیوں سے کافی مشہور ہے ، اس نے لویل کے مریخ سے متعلق خیالات کو بخوشی قبول کرتے ہوئے کہانیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں چھ ٹانگوں والا چیتے جیسے ٹھوٹس ، سبز رنگ کے چار ہاتھوں والا مریخی انسان نما کیڑا اور خوبصورت شہزادی ڈیجہ تھورس بھی تھی۔[7]

بروز نے ڈیجہ تھورس اور مریخی تہذیب کو اس شکل کو پیش کیا جس میں وہ مریخ کی مرتی ہوئی فضا کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، یہ لویل کا ایک متاثر کر دینے والا مشاہدہ تھا۔ درج ذیل میں وہ وحشی سبز مریخی نوع کو ان کی ناسمجھی پر لعنت ملامت کرتی ہے :

جو کام ہم کر رہے ہیں اس کا اتنا ہی فائدہ تم کو ہوگا جتنا کہ ہم کو ، تم لوگوں کی اطلاع کے لئے یہ ہمارے مزدوروں کے لئے نہیں ہے اور ہماری سائنسی خدمات کا ثمر اتنا نہ ہوگا کہ مریخ پر ہوا اور پانی ایک انسان کو سہارا دینے کے لئے موجود ہو۔ برسوں تک ہم نے ہوا اور پانی کو عملی طور پر بغیر کسی نقصان کے ایک سطح پر رکھا ہوا ہے اور یہ سارا کام ہم نے تم وحشی اور جاہل دخل در معقولات کرنے والے سبز باشندوں کی موجودگی میں ہی کیا ہے۔ وائے ہوں تم پر ۔ تم لوگ آخر اس بات کو سیکھ کیوں نہیں لیتے کہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ رہو؟

بروز نے جو لکھا اس کی بنیاد معلومات تھی، لیکن ایچ جی ویلز اپنے دور کی سائنس میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ جہاں بروز کے جان کارٹر نے مریخ پر جانے کا سادہ سا خواب سجایا تھا، وہیں ویلز کی کتابوں میں خلائی جہاز اور خلاء میں سفر کی کافی جزئیات ملتی ہیں۔ اس نے مریخی تشریح کافی مفصل بیان کی ہے جو مریخ کے ماحول کے بارے میں جدید معلومات کی روشنی سے میل کھاتی ہے۔


Martians of Ray Bradbury by Zonnee, on Flickr
رے بریڈ بری کے مریخی

ایچ جی ویلز کے مریخی "ہمارے خلاف منصوبے بنا چکے تھے"، لیکن۳۰ برس بعد، جب اصل سرد جنگ زمین پر شروع ہوئی، رے بریڈ بری(Ray Bradbury) کے مریخی زیادہ حلیم اور صوفیانہ ہو گئے تھے:

ان کا ہیروں کے ستونوں والا گھر جو ایک خالی سمندر کے کنارے سیارہ مریخ پر تھا ۔۔۔ میاں بیوی اس بحیرہ مردار میں بیس برس سے مقیم تھے، اور ان کے آباؤ اجداد بھی اسی گھر میں رہ رہے تھے، جو پچھلی دس صدیوں سے سورج مکھی کی طرح گھومتے ہوئے سورج کی طرف منہ کیے رہتا تھا ۔ ان کی جلد صاف گندمی اصلی مریخیوں جیسی تھی، پیلی سکے جیسی آنکھیں، اور مترنم آواز ۔


Micromegas by Zonnee, on Flickr
وولٹیئر کی کہانی میکرو میگس کا ایک کردار

ہرچند کہ ادب اپنے دور کے سائنسی خیالات کا عکاس تھا ، لیکن بیرونی سیاروں کے پاس کچھ ایسا نہیں تھا جو مصنفین کی بھوک کو مٹا سکتا۔ دور دراز جہاں کو آنے والی صدیوں میں اپنے کئی راز افشاں کرنے تھے۔ ان تمام باتوں کے باوجود مصنفین نظام شمسی کے اس بیرونی جہنم کے بارے میں خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے۔ فرانسیسی روشن خیال فلسفی وولٹائر نے ۱۷۵۲ء میں شایع ہونے والی کہانی میکرومیگس لکھی۔ اس کی کہانی ایک خلائی مخلوق کی تھی جو دور دراز ستارے سے سفر کرتا ہوا ہمارے نظام شمسی میں دم دار تارے اور سورج کی کرنوں کی مدد سے پہنچتا ہے۔ خلائی مخلوق چوبیس میل طویل ہوتی ہے اس کے ہمراہ زحل کی ایک میل لمبی ، دم توڑتی مخلوق مٹر گشت کرتی ہے۔ وولٹیئر(Voltaire) اس کے بعد ان دونوں مسافروں کی مہم جوئی کو بیان کرتا ہے: " وہ سب سے پہلے زحل کے حلقے سے چھلانگ لگاتے ہیں، جو کافی چپٹے ہوتے ہیں، جس کو ہماری چھوٹی سی زمین پر رہنے والے عزت مآب بہت ہی چالاکی کے ساتھ قیاس کر سکتے ہیں۔۔۔ وہ مشتری کے مہتابوں سے ہوتے ہوئے آتے ہیں۔ وہ مشتری پر اتر جاتے ہیں۔۔۔"

وولٹیئر کی جدید سائنس پر کافی مضبوط گرفت تھی۔ اس کا " ہماری چھوٹی سی زمین پر رہنے والے عزت مآب " کا طنز کرسچین ہائی گنز کے لئے تھا ، جو ایک ماہر فلکیات تھا اور جس نے صرف ایک عشرے پہلے زحل کے حلقوں سے متعلق اپنا مقالہ پیش کیا تھا اور اس کا سب سے بڑا چاند ٹائٹن دریافت کیا تھا۔

میکرومیگس کے تین دہائیوں بعد ایک مصنف جو ویوینائر(Vivenair) کے قلمی نام سے لکھتا تھا اس نے ایک مختصر کہانی بعنوان " ہوائی کرہ میں بذریعہ ہوا کے ایک سفر۔۔۔ ایک نئے دریافت شدہ سیارے جیورجئم سائیڈس "لکھی۔ جیورجئم سائیڈس(Georgium Sidus)، یورینس کا اس کی دریافت کے بعد پہلا غیر سرکاری نام تھا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
یوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 3



Off on a comet by Zonnee, on Flickr
جولیس ورن کا ناول "دم دار ستارے کے دوش پر" پر سائنسی بنیادوں پر لکھا گیا پہلا ناول ہے.

اگلی صدی میں جولیس ورن اپنے قارئین کو مشتری اور زحل کے سفر پر اپنی کتاب "دم دار ستارے کے دوش پر" میں لے گیا۔ اس کا یہ شاہکار سائنسی بنیادوں پر لکھی گئی کہانی کی پہلی کوشش تھی جس میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا تھا کہ انسان کا واسطہ بیرونی نظام شمسی میں کس طرح سے پڑ سکتا ہے ۔ کچھ سائنس تو ہمیں شیخ چلی کی خیالی پلاؤ کی طرح سے لگ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ دور دراز کے سیارے ، اندرونی سیاروں کی نسبت زیادہ قدیم ہیں۔ ورن اس بات کو اپنے قارئین سے ایسے بیان کرتا ہے۔

نیپچون کا سورج سے فاصلہ 2,746,271,000 میل کا ہے، یہ شمسی سحابئے سے کروڑ ہا صدیوں پہلے وجود میں آیا۔۔۔ مشتری ، دیوہیکل سیارہ، جو 475,693,000 میل دور چکر لگا رہا ہے وہ سات کروڑ صدیوں پہلے وجود میں آیا ۔۔۔ اور عطارد جو سب سے قریب ہے اور ان سب میں سب سے نوجوان بھی وہی ہے ، وہ سورج سے 35,393,000 میل کے فاصلے پر خلاء میں ایک کروڑ برس سے چکر لگا رہا ہے – یہ وہی وقت ہے جب چاند زمین سے ٹوٹ کر بن رہا تھا۔

جب ورن کا مسافر مشتری تک پہنچتا ہے، تو اس کو نہ صرف سیارے کے بادل واضح طور پر نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے مہتابوں کی سطح کی جزئیات بھی دکھائی دینے لگتی ہیں:

مشتری کی ایک ایسی صورت نظر آنے لگتی ہے جو اجڈ جاہل اور بے حس شاہد کے تحیر کو بھی برانگیختہ کر سکتی ہے ۔ اس کے چیدہ علاقے نئی طریقوں سے منور اور شعاع افگن تھے، اور اس کی قرص سے منعکس ہو کر نکلنے والی شمسی شعاعیں شدت و نرمی کے امتزاج کے ساتھ دمک رہی تھیں۔ اور اس کے مہتابوں سے متعلق شروع ہوتی ہوئی دلچسپی کی کیا بات ہے! وہ ننگی آنکھ سے نظر آرہے تھے! کیا یہ سائنس کے میدانوں میں ایک نئی بات نہیں ہے؟

۔۔۔ بالآخر یہاں ۔۔۔ ہر کوئی اب تک ایک دوسرے سے اتنا مختلف ہے کہ ان کو رنگوں سے بیان کیا جاتا ہے ۔ پہلا تو بے رونق سفید رنگ ہے؛ دوسرا نیلا ہے؛ تیسرا روشن سفید ہے؛ چھوٹا نارنجی ہے، جو اکثر سرخی مائل بھی ہو جاتا ہے۔ مزید یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ مشتری بذات خود ضو فشانی سے خالی ہے۔

ورن کی کہانی راوی کو اس قابل کرتی ہے کہ وہ زحل کی سطح (جس کو بادلوں کی چوٹی بھی پڑھا جا سکتا ہے) سے اس کے حلقوں کو دیکھنے کا منظر بیان کر سکے:

کوئی بھی شاہد جو سیارے پر خط استواء کے کسی بھی جانب۴۵ درجے ارض بلد پر موجود ہو تو اس کو یہ حیرت انگیز حلقے ایک عجیب مظہر کی صورت میں نظر آئیں گے۔ کبھی وہ کسی تاباں کمان کی طرح دکھائی دیں گے جس پر زحل کا سایہ اس طرح پڑھ رہا ہوگا جیسا کہ گھڑی میں گھنٹے کی سوئی ہوتی ہے ؛ جبکہ کبھی وہ نیم نورانی تاج کی طرح نظر آئیں گے ۔ کئی برسوں تک تو اکثر اوقات ان تین حلقوں کی مداخلت کی وجہ سے روزانہ سورج گرہن ضرور ہوتا ہوگا۔۔۔ سچ میں ہمہ وقت مہتابوں کے طلوع و غروب ، جس میں کسی کی قرص مکمل طور پر روشن دکھائی دیتی ہے تو دوسرے چاندی جیسے ہلالی نظر آتے ہیں ، اور ساتھ میں حلقے ان کے گرد موجود ہوتے ہیں ، زحل کی سطح سے فلک کو دیکھنے کا منظر جتنا نفیس ہوتا اتنا ہی اثر انگیز بھی ہوگا۔

جولیس ورن کے تصوّر نے ہمیں پہلی مرتبہ واضح طور پر انسانی تجربے کو نظام شمسی کے دیو ہیکل سیاروں کے درمیان رہتے ہوئے بیان کیا۔ لیکن اس کا وسیلہ سفر ایک ایسی چیز ہے جس کی بس خواہش ہی کی جا سکتی ہے۔

The Extraordinary Adventures of a Russian by Zonnee, on Flickr
" روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم " میں جیٹ اور دوشاخہ انجن کا خاکہ پیش کیا گیا.

لگ بھگ اسی دور میں مصنف راول مارکوئس (Raoul Marquis) جو قلمی ناموں جی لی فوری(G. Le Faure) اور ہنری ڈی گرافیگنی(Henri de Graffigny) کے نام سے لکھتا تھا اس نے چار جلدیں اپنے ناول کی شایع کیں جس کا نام " روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم " تھا[8]۔ ماہر فلکیات کیملی فلاماریون (Camille Flammarion)نے تعارف لکھا تھا۔ کتاب میں مختلف نوع کے خلائی جہاز کے خاکوں کے خیالات کو پیش کیا گیا تھا۔ اس میں ایک ایسے جہاز بھی بیان کیا گیا تھا جو مریخ سے مشتری کے سفر کے لئے بنایا گیا تھا ۔ خلائی جہاز سلنڈر کی شکل کا پانچ میٹر چوڑا اور سات میٹر لمبا تھا۔ اس کے اندر لگا ہوا دھکیلو پنکھا بین السیاروی مادّے کو کھینچ کر ایک پائپ میں ڈال کر اس کو دوبارہ باہر پھینکتا تھا، ایک ایسا خاکہ جو جیٹ انجن اور دو شاخہ (Ramjet)خلائی انجن کے پاور پلانٹ کے بارے میں لگتا ہے۔

A Journey Into Other Worlds by Zonnee, on Flickr
۱۸۹۴ء میں جان جیکب ایسٹور کا ناول "دوسرے جہانوں کا سفر" شایع ہوا۔

مقابلے کی دوڑ اس وقت شروع ہو گئی جب قارئین اس بات سے آگاہ ہو گئے کہ بیرونی سیارے ایک ایسی جگہ ہیں جن کی انسان کھوج بھی کر سکتا ہے اور وہاں رہ بھی سکتا ہے۔ ۱۸۹۴ء میں جان جیکب ایسٹور کا ناول "دوسرے جہانوں کا سفر" شایع ہوا۔ کہانی۲۰۰۰ء میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب ضد قوّت ثقل خلائی جہاز مشتری اور زحل کی طرف رخت سفر باندھتا ہے۔۱۹۳۰ء کے عشرے میں مصنف اسٹینلے جی وائن بوم (Stanley G. Weinbaum)نے بیرونی سیارے اپنی مختصر کہانی "ٹائٹن کی سفر" میں بیان کیے۔[9] وائن بوم کے کام میں اس دور کے مقبول عام سائنس نظریات نظر آتے ہیں جب یہ مانا جاتا تھا کہ نظام شمسی ایک قریبی ستارے کے ساتھ تصادم کے بعد پیدا ہوا تھا، اس کے نتیجے میں گیسی دیوہیکل سیارے بنے تھے جو اس قدر گرم تھے کہ مشتری کے مہتابوں آئی او اور یوروپا اور زحل کے چاند ٹائٹن پر بلکہ یورینس پر بھی زمین جیسا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ اصل میں تو وائن بوم نے۱۹۳۵ء میں ایک کتاب لکھی جو سبز سیارے پرتھی۔ اس نے اس کا نام "مشتبہ سیارہ" دیا۔

1.3a by Zonnee, on Flickr
خاکہ 1.3 الف پہلے خلائی مسافر کے اترنے کا منظر!

۱۹۰۲ء میں تو انسانی خلاء کی کھوج کی کہانی متحرک تصویر کی صورت میں اس وقت سامنے آئی جب جارجس میلیس (Georges Méliès) کی فلم (چاند کا سفر) بنائی گئی۔ فلم میں پانچ ماہر فلکیات اور جوتشیوں نے مل کر ایک گولی کی صورت کا کیپسول بنایا اور اس پر سفر کیا تھا ۔ توپ سے اس کیپسول کو داغنے کے بعد ، ان کی ملاقات کیڑے جیسے سیلیننائٹ، چاند کے بادشاہ ، فیبی ، چاند کی دیوی سے ہوئی جس نے انھیں گانا بھی سنایا۔ افسوس کہ آواز کے ساتھ فلموں کا دور اب بھی کئی دہائیوں دور تھا۔

1.3b by Zonnee, on Flickr
خاکہ 1.3ب جارجس میلیس کی۱۹۰۲ء کی فلم "چاند کا سفر" کا منظر۔

شاید میلیس کی کامیابی کا فائدہ اٹھانے کے لئے اسپینش ہدایات کار سیگنڈو ڈی کمون (Segundo de Chomon)نے ایک فلم "سیارہ مشتری کا سفر " بنائی۔ اس کے کائناتی مسافر - زمین کے بادشاہ – نے مشتری کا خواب میں سفر کیا۔ مشتری بادلوں کے امتزاج کا اور ان دیوتاؤں کا گھر نکلا جو بجلی پھینکتے تھے ۔ ورن کی سائنس کے بعد ڈی کمون کا کام تخیلاتی لگا، لیکن بہرحال یہ سائنسی فلم بنانے کی دنیا کا ایک عظیم تجربہ تھا۔

1.3c by Zonnee, on Flickr
خاکہ 1.3ج دائیں جانب: زمین کا بادشاہ فلکی سیڑھی پر چڑھا مشتری جاتے ہوئے زحل کو پاس کر رہا ہے، ڈی کومون کی خوابی فلم " سیارے مشتری کا سفر"

ہالی وڈ سائنسی فلموں کی دنیا میں عشروں سے مصروف تھا، لیکن۱۹۶۸ء میں جب ہو والٹر کا ناول آیا، تو تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک نئی فلم کی نقشہ کشی کی گئی – جو مشتری کے جانب انسان کے سفر کی سب سے زیادہ صحیح صورت بیان کرتی تھی۔ فلم کا نام۲۰۰۱ء: خلاء کا کٹھن سفر ، تھا جو آرتھر سی کلارک کے ناول سین ٹینل سے ماخوذ تھا۔ فلم میں مشتری کی جانب بھیجا جانے والا جہاز دکھایا جاتا ہے جس کے انجن کو دھکیل کی قوّت نیوکلیائی قوّت سے ملتی تھی۔ خلائی جہاز کے نقشے میں ایک اندرونی حصّہ بھی تھا جس میں گھماؤ کے ذریعہ مصنوعی قوّت ثقل پیدا کی جاتی تھی اور عملے کی تنویم کے لئے کچھ خول بھی موجود تھے۔ اس کے جز مابعد حصّے جس کا نام۲۰۱۰ء: کٹھن سفر دوم تھا۔ اس فلم کو بنانے کے لئے اس وقت کے بھیجے گئے وائیجر سے حاصل کردہ تازہ مواد کی مدد لی گئی تھی جو اس وقت مشتری کے پاس موجود تھا۔

silent running ship by Zonnee, on Flickr
ایک مصّور کی تخیل کی پرواز جس میں درخت ایک ایسے گنبد نما خلائی جہاز میں موجود ہیں جو پڑوسی سیارے زحل پر موجود ہے۔

۱۹۷۲ء کے عشرے کی "خاموشی جاری" نے ایک ایسے مستقبل کو پیش کیا جہاں زمین پر موجود تمام درخت ایک ایسے گنبد نما خلائی جہاز میں موجود ہیں جو پڑوسی سیارے زحل پر موجود ہے۔۱۹۸۱ء میں پرانے مغربی دیہاتیوں پر مشتمل فلم "اجنبی" مشتری کے چاند آئی او پر بنتی ہوئی دکھائی دی۔ اس میں اس دور کے کچھ سائنسی حقائق کو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیا گیا تھا۔

1.4 web by Zonnee, on Flickr
خاکہ 1.4ء ۲۰۱۳ءکی فلم یوروپا رپورٹ کا ایک منظر۔ سطح پر موجود برف، مشتری اور لباس کی ٹیکنالوجی کی حقیقی منظر کشی پر غور کریں، فلم میں متواتر حقیقت پسندی موجود ہے۔

اب تک کی سب سے زیادہ حقیقت سے قریب فلم جس میں کسی سیارے کا سفر کیا گیا ہے وہ سبیسچن کورڈیرو (Sebastian Cordero)کی "یوروپا کی رپورٹ" ہے۔ فلم میں ایک نجی طور پر بنائی گئی مہم کو دکھایا گیا ہے جس کا مقصد مشتری کے سمندری برفیلے چاند پر حیات کی تلاش کرنا ہوتا ہے۔ جے پی ایل سائنس دان اسٹیو ونس(Steve Vance) اور کیون ہینڈ(Kevin Hand) نے تیکنیکی اور سائنسی معاونت مہیا کی ہے۔

سومنیم سے لے کر یوروپا رپورٹ تک ، ذرائع ابلاغ نے بیرونی سیاروں کی کھوج کو دکھانے کا ایک طویل سفر کیا ہے، اور اس میں کی گئی تصویر کشی میں مریخ کے بعد موجود وسیع نظام شمسی سے متعلق ہماری ثقافتی فہم و ادراک میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ بیرونی نظام بنیادی سطح پر عطارد، زہرہ، زمین ، چاند اور مریخ سے مختلف ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 4

چٹانی سیارے


اندرونی سیارے ارضی یا چٹانی سیارے بھی کہلاتے ہیں کیونکہ وہ زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ بیرونی دیو ہیکل جہانوں کے برعکس ، تمام ارضی سیاروں کی سطح ٹھوس ہوتی ہے۔ اندرونی سیارے بنیادی طور پر گیسی اور برفیلے دیو سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں بیرونی سیاروں کے مہتابوں میں کچھ مشابہت اندرونی سیاروں سے ملتی نظر آتی ہے۔ گرم چٹانی دنیاؤں کی جانکاری ہمیں ہمارے بیرونی پتھر اور برف کی حتمی منزل کے جہانوں کے بارے میں کافی کچھ سمجھ بوجھ عطا کر سکتی ہے۔


بظاہر ٹھوس اور متوازن نظر آنے والی زمین کی سطح ، تواتر کے ساتھ ہونے والے حملوں کے نتیجے میں ہونے والی خستہ حالی اور داغوں کو آج بھی دکھا رہی ہے۔ ان حملوں کے نشانوں میں سب سے اہم باقیات ارضی سختائے ہوئے حصّے(tectonics) ہیں۔ زمین کا قشر سالم ایک حصّہ نہیں ہے۔ براعظم ان پتریوں پر رکھے ہوئے ہیں جو تیر رہی ہیں اور انسانی ناخن کے بڑھنے کی رفتار کی شرح سے گھوم بھی رہی ہیں۔


Alfred Wegener by Zonnee, on Flickr
جرمن سائنس دان الفریڈ ویگنر

ہرچند کافی ماہرین ارضیات اس حقیقت پر تبصرہ کر چکے ہیں کہ براعظم وقت کے ساتھ اپنی جگہ بدلتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ارضی سختائے ہوئے حصّوں کے جدید نظریات کے پیچھے اصل میں جرمن سائنس دان الفریڈ ویگنر (Alfred Wigner)ہیں۔ جب جنگ عظیم دوم میں گردن پر لگے زخم سے جانبر ہو گئے تو ویگنر نے یہ تصوّر پیش کیا کہ افریقہ اور جنوبی امریکا نے ماضی میں دنیا کے تمام براعظموں کے ساتھ مل کر ایک عظیم فوق براعظم (supercontinent)بنایا تھا جس کو اس نے "کل ارض" یا پنگیا کا نام دیا (پین کا مطلب "کل" اور گیا کا مطلب "ارض" ہے )۔ اس نے اپنے پیش کردہ نمونے کے ثبوت حاصل کرنے کے لئے دنیا کی خاک چھانی۔ اس نے جنوبی افریقہ اور ارجنٹائنا کے پہاڑی سلسلوں کے خاکوں کو ملایا ۔ اس نے برازیل میں موجود سطح مرتفع کو افریقہ میں موجود آئیوری کوسٹ کے دوسرے سطح مرتفع سے ملایا۔ اس نے ارضیاتی گلوسوٹیرس بیج (رکازی فرنز جو بالائی کاربنی دور اور زیریں پر میان دور میں یخ بستہ ہوئیں) کے رکاز میں تعلق کا مظاہرہ کیا۔ اس کا محل وقوع ایک دم صحیح طور پر ان دونوں براعظموں کے ساحلوں سے میل کھا گیا۔ ویگنر لکھتا ہے کہ ،" یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ہم اخبار کے پھٹے ہوئے ٹکڑوں کو ان کے کونے دیکھتے ہوئے ملائیں اور پھر یہ دیکھیں کہ ان پر شایع ہوئی سطریں ہموار ہر جگہ ایک جیسی ہی ہیں۔۔۔ ہم اس کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکالیں گے کہ یہ ٹکڑے اصل میں ملے ہوئے تھے۔۔۔"

ویگنر کے منتقل ہوتے ہوئے براعظم ایسے ہی تھے جیسا کہ کوپرنیکس نے زمین کو کائنات کے محور سے ہٹا دیا تھا ؛ اس کا خیال ہماری تفہیم کے خلاف تھا۔ اس کے ثبوتوں کے باوجود لوگ متشکک تھے۔ جب پہلی مرتبہ اس خیال کوپیش کیا گیا تو ہر سطح پراس کا مذاق اڑایا گیا۔ سائنسی دنیا میں ویگنر کے مہیا کردہ ثبوتوں کو تفصیل میں دیکھا گیا۔ اس کی کتاب پر تبصرہ کرنے والے نے یوں کہا، " اگر ہم ویگنر کے مفروضے کو مان لیں تو ہمیں وہ تمام چیزیں بھولنا ہوں گی جو ہم نے پچھلے ستر برسوں میں سیکھی ہیں اور ہمیں دوبارہ سے شروع کرنا ہوگا۔" جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ ناقدین بالکل درست تھے۔ لیکن مسئلہ اس سائنسی علم کا تھا جو پچھلے ستر برس میں حاصل کیا تھا۔


Terrestrial Planets by Zonnee, on Flickr
اندرونی نظام شمسی میں موجود چار ارضی یا چٹانی سیارے

۱۹۶۰ء کے عشرے تک سائنسی سماج نے سمندر کی تہ کی تصویر کشی کرنی شروع کردی تھی۔ ایک لمبے عرصے تک حیات سے محروم سمجھے جانی والی سمندر کی تہ میں موجود لپٹی ہوئی سطح اور کچھ سمندری پہاڑ (پانی کے اندر موجود پہاڑ)، یکایک روایتی پہاڑوں اور صحراؤں کے برعکس عجیب دنیا لئے طرح نمودار ہو گئے۔ وسطی بحر اوقیانوس کی کھائیوں کے سونار سے بنائے ہوئے نقشوں سے معلوم ہوا کہ زیر سمندر پہاڑوں کے ایسے سلسلے موجود ہیں جن کو کبھی دیکھا نہیں گیا۔ سب سے لمبی چوٹی سمندر کی تہ سے چھ سے دس ہزار فٹ اونچی تھی اور اس پر ایک گہرا شگاف یا وادی بھی موجود تھی۔ براعظموں میں موجود پہاڑوں کے برخلاف ، جو ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے زمین نے سکڑتے ہوئے انھیں اٹھایا ہو، یہ بل کھاتے ہوئے پہاڑ اس کے ساتھ کھینچے جانے کا واضح ثبوت ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات ان پہاڑی چوٹیوں کا زمین کے سمندری طاس میں بکھرا ہوا ہونا ہے؛ اکثر اوقات ان کا سلسلہ خشکی پر بھی کچھ جگہوں پر چلا جاتا ہے مثلاً افریقہ کی عظیم شگافی وادی اور آئس لینڈ میں تھنگ ویلیر ۔ دوسری جگہوں پر دھنسی ہوئی چوٹیوں کا سلسلہ امریکا کے ساحلوں پر مغرب کی جانب اور افریقہ میں مشرق کی جانب دراز ہوا ہے۔ دنیا کیسے سکڑ اور کھینچ سکتی ہے؟

اس کا جواب زمین کی قشری پرتوں کی ہمہ وقت تبدیلی میں چھپا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ارضیاتی اشکال جنم لیتی ہیں۔ کچھ حصّوں میں ، پرتیں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور نتیجہ ہمالیہ جیسے پہاڑوں کے سلسلے کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری طرف وہ ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی ہیں، جس کا نتیجہ رخنوں ، زلزلوں اور آتش فشانوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اب بھی کچھ علاقے ( جیسا کہ وسطی بحر اوقیانوس کی چوٹی)ایک دوسرے سے الگ ہیں ، جہاں وہ ایک اور قسم کی دلدلی ساختمانی ، تحتی تداخل(subduction) کو حاصل کر رہے ہیں، جہاں ایک پرت دوسری پرت میں اندر گھس رہی ہے۔ زمینی آڑے کٹے معمے جیسی پرتیں تو نظام شمسی میں اپنی مثال آپ ہیں ، لیکن سطح سے اوپر تمام ارضی سیاروں میں کچھ چیزیں قابل مشترک ہیں، ان تمام میں کسی بھی قسم کے کرہ فضائی کے نہ موجود ہونے سے لے کر مہین کرہ فضائی تک موجود ہے۔ سب سے زیادہ کثیف کرۂ فضائی رکھنے والا زہرہ ہے، جس کی سطح پر موجود ہوا کا دباؤ ہمارے سمندروں کی تہ میں موجود پانی کے دباؤ جتنا ہے۔ اس کے بعد زمین کی فضا کثیف ہے۔ جبکہ مریخ کی کرہ فضائی کثافت میں تیسرے نمبر پر ہے۔(مریخ کی سطح کا دباؤ زمین کے ایک لاکھ فٹ ارتفاع پر موجود دباؤ کے برابر ہے۔) اندرونی جہاں کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کا غلبہ ہے، اور اس کے ساتھ کچھ نائٹروجن اور آکسیجن جو صرف زمین کے کرۂ میں ہی پائی جاتی ہیں۔ عطارد کی فضا ہمارے چاند کے مقابلے کی ہے۔


1.5 web by Zonnee, on Flickr
خاکہ1.5 آئس لینڈ کی تھنگ ویلیر وادی، اس عظیم چوٹی کی توسیع ہے جو وسطی بحر اوقیانوس چوٹی کے ابھار کے ساتھ چل رہی ہے۔ دونوں پرتیں وادی کی دیواروں کو ایک دوسرے سے دور۷ ملی میٹر فی برس کی شرح سے کر رہی ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 5


نوجوان سورج کی شمسی ہواؤں نے ابتدائی کرہ فضائی کو تو اڑا کر رکھ دیا ہوگا، لیکن کافی بڑے سیاروں - جن کی قوّت ثقل کافی تھی – انہوں نے آتش فشانوں اور دوسرے عملوں کے دوران نکلنے والی ہوا کو قابو کرکے قید کر لیا تھا۔ یہ نئی کرۂ فضائی کیمیائی اور حیاتیاتی عمل کے ذریعہ نہ بدلنے والی اس شکل میں ڈھل گئی جو آج ہمیں نظر آتی ہے۔[10]

چاروں اندرونی سیارے ایک ایسے دور سے گزرے ہیں جہاں ان کی سطح پر سمندر بہتے تھے، لیکن وہ سمندر پانی کے نہیں بلکہ پگھلی ہوئی چٹانوں کے تھے۔ چاند کا وہ تاریک سمندر جس کو رات میں پریمی (یا بھیڑیا نما شخص) دیکھتے ہیں ، کسی زمانے میں ضو فشاں لاوے کے سمندر تھے جو آتش فشانوں یا چاند پر برستے ہوئے سیارچوں اور شہابیوں کی وجہ سے نکلتے تھے کیونکہ وہ قشر میں موجود چٹان کو توڑ ڈالتے تھے۔ اصل میں اس متشدد دور کی باقیات ولے داغ اور مابعد وقت ایک محقق کو یہ بتاتا ہے کہ ارضیاتی طور پر سطح کس قدر نوجوان ہے۔[11] جتنے زیادہ گڑھے ہوں گے ، سطح بننے کے بعد اتنے ہی کم تغیر سے گزری ہوگی۔ گڑھوں کی تعداد کا معلوم کرنا کسی بھی سیارے یا چاند کے ماضی کی رمز کشائی کرنے کا ایک انتہائی اہم اوزار ہے۔ گڑھوں کی تعداد ہمیں سیارے کی کرہ فضائی کے بارے میں بھی کچھ آگاہی فراہم کرتی ہے۔

کرۂ فضائی آنے والے شہابیوں اور سیارچوں کو روکتا ہے۔ ہوا کی رگڑ اس کی سطح کو بھاپ بنا دیتی ہے ، اس طرح سے صرف کوئی بڑا ٹکڑا ہی اس میں سے گزر سکتا ہے۔ زہرہ کی سطح پر بہت ہی کم تعداد میں گڑھے موجود ہیں۔ اس کے کرۂ فضائی پر جہاں شہابیے پھٹتے ہیں وہاں اس کی سطح پر مختلف رنگ اس جگہ بکھر جاتے ہیں ۔ صرف چند بڑے گڑھے جو بچے تھے وہ زہرہ کے آتش فشانوں اور ہواؤں کی وجہ سے کافی حد تک ختم اور بدل چکے ہیں ۔ مریخ کے کچھ حصّے گڑھوں سے مکمل طور پر محروم ہیں، جبکہ دوسری جگہوں کی سطح مار کھائی ہوئی اور قدیمی لگتی ہے۔ اس کی مہین فضا تمام ٹکرانے والے ٹکڑوں کو نہیں روک سکتی لیکن اس کی ہوا کام کرتی ہے اور ان گڑھوں کو وقت گزرنے کے ساتھ صاف کر دیتی ہے۔

گڑھوں کو کئی قسم کے عمل نیست و نابود کر سکتے ہیں۔ ویگنر کی پرتوں نے گزرے وقت کے ساتھ ان گنت تصادموں کے نشانوں کو ختم کیا ہوگا ۔ آتش فشاں پھٹتے ہیں، اور کافی علاقوں کو راکھ اور لاوے سے پاٹ دیتے ہیں۔ برفانی تودے (لمبے عرصے کی برف بری کا نتیجہ) اور سیلاب وسیع اراضی کو رگڑ ڈالتے ہیں۔

زمین کا موسم اس کی سطح کو ڈھالنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بارش اور برف باری ٹھوس چٹان کو توڑ ڈالتی ہے۔ ہوا سے مٹا ڈالنا بتدریج لمبے عرصے میں اپنا جادو جگاتا ہے۔ گرمی اور سردی پتھر اور کنکروں کو توڑ دیتے ہیں۔ سمندری طوفان پوری ساحلی پٹی کو بدل دیتے ہیں۔

زہرہ کا موسم کافی تدریجی دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا شوربے کی طرح کا کرۂ فضائی عظیم موجوں کی صورت میں حرکت کرتا ہے ، لیکن اس کی سطح پر موجود ہوائیں کافی دھیمی ہیں۔ گندھک کا تیزاب اور کلورین اس کی سیاہ مرمریں چٹانوں کو کھا جاتے ہیں۔ کچھ علاقے تو دھاتی شکل میں پہاڑوں کی ڈھلانوں پر۹۰۰ فارن ہائیٹ دیار میں منجمد ہو گئے ہیں۔

مریخی موسم اپنی طرح کا شدید ہے۔ ہرچند کی سطح پر چلنے والی ہواؤں کے جھکڑ۶۰میل فی گھنٹہ کی رفتار سے وائکنگ کے اترنے کی جگہ پر چلتی ہیں، لیکن پاتھ فائنڈر خلائی کھوجی نے وہاں پر عام طور سے چلنے والی ہواؤں کو۱۸میل فی گھنٹہ کی رفتار سے درج کیا ہے۔ مہین ہوا، ہوائی عمل کو لگاتار تیزی سے بہنے سے روکتی ہے۔ تب بھی ہوا، سطح کی کٹائی کی ایک اہم قوّت ہے، کیونکہ سرخ سیارے نے شاید ارب ہا برس سے بارش کی صورت نہیں دیکھی ہے۔ آج مریخ پر دیکھی واحد بارش کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کی برف سے بنی قطبین پر گرنے والی شبنم ہے۔

کچھ سیاروں نے کرہ فضائی کا کچھ زیادہ حصّہ بچائے رکھا، جس کی وجہ مقناطیسی بلبلہ یا مقناطیسی کرہ تھا جو اسے مسلسل بہنے والے شمسی ذرّات سے بچا کر رکھتا ہے۔ مقناطیسی کرہ پگھلی ہوئی دھاتوں کے ٹھوس قلب کے گرد بہنے والے سمندر اور اس کے گھماؤ سے پیدا ہوتا ہے۔ برقی ایصالی مائع دھات توانائی کے میدانوں کو بعینہ مقناطیسی بار کے نکالتی ہے۔ لیکن تمام سیاروں کے پاس برقی ڈھال نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ ہر سیارے کی نمود اور حجم پر منحصر ہے۔

نظام شمسی کی ابتداء میں نوزائیدہ سورج کے گرد چکر لگانے والے گرد و غبار اندرونی سیاروں پر گرتے رہے ، ان کی بڑھوتری کے ساتھ بھاری مادّے قلب میں ڈوب گئے جبکہ ہلکے مادّوں نے قشر کو بنا دیا۔ تشکیل کے اس دور میں ، ارضیاتی تکثیف سے پیدا ہونے والی اندرونی حرارت نے ریڈیائی مادّے سے پیدا ہوئی حرارت کے ساتھ مل کر قلب کو اس قدر گرما دیا کہ دھات پگھل گئی اور سیارے کے مرکز میں مرتکز ہو گئی۔ جتنا بڑا سیارہ تھا اتنی ہی زیادہ تابکاری سے پیدا ہوئی حرارت زیادہ وقوع پذیر ہوئی۔ لہٰذا زمین اور زہرہ کے پاس زیادہ، جبکہ ہمارے چاند کے پاس کم، اور مریخ اور عطارد کے پاس ان دونوں کے بیچ میں کہیں حرارت پیدا ہوئی۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 6


تابکاری سے پیدا ہوئی حرارت زمین اور زہرہ پر آج بھی جاری ہے لیکن یہ نہیں معلوم کہ آیا یہ مریخ پر کوئی اہم کردار ادا کر رہی ہے، جو ارضیاتی طور پر غیر متحرک ہے۔ عطارد کے گرد کمزور مقناطیسی قوّت موجود ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کے اندر موجود پگھلی ہوئی دھاتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، جو شاید مادّے کے اندر ہونے والی متواتر انحطاط کے وجہ سے جاری و ساری ہے۔


1.6a by Zonnee, on Flickr
خاکہ6.1الف مریخ کی ہوا کو ناپنے کا نظام: وائکنگ کھوجی کا موسمیاتی بادبان۔

خلائی جہاز جب سیاروں اور ان کے مہتابوں کے قریب سے گزرتے ہیں تو ان میں لگے ہوئے سراغ رساں مقناطیسیت کا پتا لگا لیتے ہیں۔ مقناطیسی میدان اندرونی حرکت کے متعلق ناقابل اعتماد اشارے فراہم کرتے ہیں کیونکہ اس پر کافی چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔ زمین کے متحرک مقناطیسی میدان ہیں، جو ہمیں سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتے ہیں ۔ زہرہ حجم میں زمین جتنا ہے لیکن اس کے مقناطیسی میدان نہیں ہیں۔ بلاشبہ اس کے پاس اس قدر تابکاری سے پیدا ہونے والی حرارت موجود ہوگی جو اس کے پگھلے ہوئے قلب کو بچا کر رکھ سکے، لیکن پھر کیا ہوا؟ مائع دھاتی قلب کو صحت مند مقناطیسی میدان پیدا کرنے کے لئے گھومنا بھی ہوگا۔ زمین اور مریخ دونوں لگ بھگ۲۴ گھنٹے میں اپنے محور کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتے ہیں، زہرہ گھومنے میں کافی وقت لیتا ہے، وہ اپنا ایک چکر زمین کے۲۴۳ دنوں میں آرام سے پورا کرتا ہے۔ عطارد بھی کافی آہستہ گھومتا ہے لیکن، اس نے کمزور مقناطیسی میدان بچا کر رکھے ہوئے ہیں۔ کم از کم آج کے دن میں تو چاند اور مریخ دونوں میں کسی بھی قسم کے کوئی مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں۔


1.6b by Zonnee, on Flickr
خاکہ6.1 ب مریخ کی ہوا کو ناپنے کا نظام: ہوائی موزہ جو پاتھ فائنڈر کھوجی پر نصب ہے.

سیارے کا قلب ہی مقناطیسی میدان بنانے کا ایک ذریعہ نہیں ہے۔ مائع پانی خصوصاً نمکین پانی بھی تھوڑا سا مختلف قسم کے مقناطیسی میدان کو پیدا کر سکتا ہے۔ معاملے کو اور پیچیدہ بنانے کے لئے ہم یہ بتاتے چلیں کہ کافی عرصے پہلے ختم ہوئے مقناطیسی میدان مقناطیسیت کے نمونے قدیمی چٹانوں میں چھوڑ دیتے ہیں جو ہمیں واپس ویگنر اور اس کی پرتوں کی جانب لے آتے ہیں ۔ اس کے موت کے بعد ویگنر کے متحرک پرتوں کے نظریئے کے ثبوت ایک غیر متوقع ذریعہ سے حاصل ہوئے یعنی کہ قدیم مقناطیسیت کی سائنس سے (چٹانوں میں موجود قدیم مقناطیسیت کا مطالعہ )۔ یہ ثبوت ایک اور دوسری غیر متوقع ذرائع سے بھی حاصل ہوا یعنی کہ سمندر کی تہ سے۔

1.6c by Zonnee, on Flickr
خاکہ6.1 ج مریخ کی ہوا کو ناپنے کا نظام : ہوا کا احساس کرنے والا آلہ جو فینکس کھوجی موسمیاتی بادبان کے اوپر نصب ہے۔

۱۹۶۰ءاور۱۹۷۰ء کی دہائی میں سائنس دان زمین کے مقناطیسی میدانوں میں ہونے والی تبدیلی کو درج کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی تحقیق میں دنیا جہاں سے لائے ہوئے چٹانی نمونے شامل تھے جن کا تجزیہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ زمین کے مقناطیسی میدانوں نے کئی مرتبہ الٹا چکر لگایا ہے۔ ہرچند سائنس دان اپنا رخ تو بدل لیتے ہیں لیکن کوئی پتھر ایسا کرے ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ جیسا کے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ سیاروی مقناطیسی میدان بتدریج توانائی کو زائل کرتے ہیں ، اس کے برعکس اب ایسا لگتا ہے کہ میدان الٹ پھیر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔


1.7a by Zonnee, on Flickr
خاکہ1.7الف: مریخ پر ایک نیا گڑھا جس کو مارس ریکو نائزنس اوربٹر نے ڈھونڈا ہے۔

اسی دوران ایچ ایم ایس اوین پر سوار محققین بحر اوقیانوس میں کہیں پانی کے اندر آلات کی مدد سے سمندر کی تہ میں مقناطیسی پٹیوں کی نقشہ کشی کر رہے تھے۔ جب انہوں نے حاصل کردہ مواد کی جانچ کی ، تو سمندر کی تہ میں موجود چٹانوں کی مہین پرتوں کو انہوں نے زبردست مقناطیسی پایا، جبکہ ان کے درمیان موجود کوئی چٹانی پٹی کمزور تھی یا پھر اس پر مخالف مقناطیسی اثر تھا۔ محققین زمین کے مقناطیسی میدانوں کا عرصے پر محیط قدرتی ریکارڈ دیکھ رہے تھے ۔ جب چٹانیں پگھلتی تھیں، تو ان کے اندر موجود مقناطیسی قلمیں آزاد ہو جاتی تھیں۔ بہنے والی قلمیں اپنے آپ کو زمین کے مقناطیسی میدان کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتی تھیں۔ جب چٹان دوبارہ ٹھوس شکل اختیار کرتی تھی، تو مقناطیسی قلمیں دوبارہ ان میں مقید ہو جاتی تھیں اور اپنا رخ اس وقت کے مقناطیسی میدان کی جانب کر لیتی تھیں جب چٹان پگھلی ہوئی ہوتی تھی۔ بعد میں جب مزید پگھلی ہوئی چٹانیں اوپر آتی تھیں تو اگر مقناطیسی میدان تبدیل ہوتا تھا تو وہ اپنے آپ کو اس تبدیل ہوتے ہوئے مقناطیسی میدان سے ہم آہنگ کر لیتی تھیں۔


1.7b by Zonnee, on
Flickr
خاکہ1.7 ب: آئس لینڈ کے سمندر کی تہ میں موجود مقناطیسی پٹیاں پھیلتی ہوئی چوٹی کے دونوں جانب کا ایک جیسی تصویر پیش کرتی ہیں۔


اہم ثبوت کا سراغ اس وقت ملا جب سائنس دانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ سمندری چٹانیں تو وسطی بحر اوقیانوس کی چوٹی کی کسی بھی رخ کی نقل ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے سمندری تہ پھیل رہی ہے اور چوٹی کے دونوں جانب ایک جیسا ریکارڈ چھوڑ رہی ہے ، جس میں ایک طرف دوسری طرف کی نقل ہی ہے۔ پوری دنیا میں بر اعظمی پھیلاؤ کا ریکارڈ مقناطیسی صورت میں چٹانوں میں لکھا ہوا ہے۔


1.7c by Zonnee, on Flickr
خاکہ1.7 ج: کچھ محقق تجویز دیتے ہیں کہ مریخ کی سطح پر موجود مقناطیسی میدان کے نمونے ممکنہ طور پر ماضی میں پرتوں کی حرکت کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

اب سائنس دانوں کے پاس ایک اور سیارہ موجود ہے جس سے وہ اس مظاہر کا تقابل یا موازنہ کر سکتے ہیں۔ مارس گلوبل سرویر اوربٹر نے بھی اسی طرح کی مقناطیسی پٹیاں مریخی سطح پر نقشہ بند کی ہیں ۔ دھند لاتی مقناطیسی پٹیوں کے نمونے ایک دوسرے کی نقل لگتے ہیں۔ ہرچند کہ مریخ میں دور حاضر کی زمین جیسی متحرک پرتیں موجود نہیں ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ایسا عمل وہاں پر بھی جاری رہا ہو۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول

پہلا باب - 7 (آخری حصّہ)

دیوہیکل سیارے


بیرونی سیاروں کا بچپن اپنے ارضی بہن بھائیوں سے بالکل مختلف رہا ہے۔ جب نوجوان سورج اندرونی سیاروں کے کرۂ فضائی کو اتارنے میں مصروف تھا ، مشتری ، زحل، یورینس اور نیپچون اپنے آپ کو اس سے فاصلے پر رکھا ہوا تھا۔ ٹھنڈے نظام میں ، وہ اس کرۂ فضائی کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو گئے جو سورج کے گرد قدیمی بادلوں کے جیسا تھا۔ ان کے ماحول میں ہائیڈروجن (جو باقی تمام گیسوں کی بنیاد ہے)اور ہیلیئم کا غلبہ ہے۔ ان اہم گیسوں کے علاوہ مشتری اور زحل میں وسیع مقدار میں امونیا جبکہ یورینس اور نیپچون کے آسمانوں میں میتھین کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ یہ زہریلی گیسیں ان کے کثیف قلب کے اوپر موجود ہیں، لیکن دیوہیکل سیاروں کی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہے۔ وہ موسموں، آندھی و طوفان کے کرے ، جھکڑ اور بارش کے جہاں ہیں۔


giant_gallery by Zonnee, on Flickr
بیرونی نظام شمسی میں چار دیوہیکل سیارے موجود ہیں.

گیسی دیو مشتری اور زحل اتنے بڑے ہیں کہ ان کے قلب دوسرے دو جسیم سیاروں سے کافی الگ ہیں۔ ان کے قلب میں دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہائیڈروجن برقی مائع دھات بن جاتی ہے۔ ان قوی ہیکلوں کے نچلے حصّوں میں کثافت اتنی عظیم ہو جاتی ہے کہ ان کا تجربہ گاہ میں مطالعہ کرنا عملی طور پر ناممکن ہو جاتا ہے۔[12]دوسرے دونوں دیو ہیکل سیارے یعنی کہ یورینس اور نیپچون کے قلب میں کم دباؤ ہے اور وہ بنیادی طور پر پانی کی برف سے بنے ہیں(لہٰذا ان کو برفیلے دیو کہتے ہیں)۔ ان بیرونی جہانوں کے قلب زبردست شدت کے مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں جو اندرونی نظام شمسی میں پائے جانے والے مقناطیسی میدانوں سے بالکل ہی الگ ہوتے ہیں۔

ہرچند کہ دیو ہیکل سیارے بہت لبھانے والے ہیں، اس کے باوجود انسانی کھوج بلاشبہ ان کے گرد درجنوں چکر لگانے والے مہتابوں تک ہی مرتکز رہے گی۔ ان میں سے کافی مہتابوں میں اتنی ہی پیچیدہ ارضیات موجود ہے جتنی کہ ارضی سیاروں میں ، لیکن ان کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں جو ارضی جہانوں کی زمین سے کافی مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سیاروں کے حجم جتنے ہیں اور ان میں سے ایک میں تو زمین سے بھی زیادہ کثیف کرۂ فضائی موجود ہے۔ یہ "نیا" نظام شمسی سیارہ عطارد اور اس سے کم حجم کے سیاروں سے بھرا ہوا ہے اور ہم سے سوال کر رہا ہے : وہاں پر موجود ان مہتابوں پر حیات کے امکان کے بارے میں کیا خیال ہے؟۱۹۶۰ء کے عشرے میں سیاروی زمین کافی حد تک ممنوع تھی جیسا کہ پیٹرک مور(Patrick Moore) بیان کرتے ہیں :


خلاصہ: نظام شمسی میں، زمین کو چھوڑ کر صرف دو سیارہ ایسے ہیں جو حیات کو سہارا دے سکتے ہیں۔ مریخ پر سبزہ روئیدگی ہوتے دکھائی دیتی ہے لیکن ذی شعور حیات کا امکان نہیں ہے ۔( چاہئے مریخی تہذیب وجود رکھتی ہو اور اب ختم ہو گئی ہو ، ہم نہیں جانتے، لیکن ثبوت اس کے خلاف ہیں۔) زہرہ تو کسی کے لئے بھی مناسب نہیں لگتا سوائے بہت ہی پست یک خلیہ آبی مخلوق کے لئے۔ کیا دوسرے ستاروں کے گرد سیاروی نظام چکر لگا سکتے ہیں؟ فلکیات کی تصویری تاریخ از پیٹرک مور ( گروسیٹ اینڈ ڈنلپ۱۹۶۱ء)


microbes_h by Zonnee, on Flickr
شدت شناس یا ایکسٹریموفائلز ایسے جرثومے ہیں جو ہر قسم کے شدید ماحول میں زمین پر زندہ رہتے ہیں

اس وقت تک مور اور اس کے رفقائے کاروں نے بیرونی نظام شمسی پر غور نہیں کیا تھا۔ زمین کے شدت کے ماحول میں شدت آشنا (extremophiles)کی دریافت اور اس کے ساتھ بیرونی سیاروں کے کئی مہتابوں میں زیر زمین سمندروں کے سراغ نے کھیل کو تبدیل کر دیا ہے۔( ملاحظہ کیجئے پانچواں اور چھٹا باب)۔


Hanging city by Zonnee, on Flickr
۱۷۲۶ء کی ہجویہ نظم "گلیور کے سفر" میں جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift) نے ایک تیرتے ہوئے شہر لاپوتا کو بیان کیا ہے۔

کیا انسانی کھوج صرف بیرونی جہانوں کے سیارچوں کے گرد ہی محدود رہے گی۔ شاید ایسا نہ ہو۔ بیرونی سیارے بذات خود ہماری تیکنیکی صلاحیتوں کی پہنچ سے دور ہیں کہ ہم ان کو انسان بردار خلائی جہازوں کی مدد سے کھوجیں ، لیکن آخر کار ان کے آسمان انسانی آباد کاری کے نئے جہاں بن سکتے ہیں۔ بادلوں پر تیرتے ہوئے شہروں کا خیال کوئی نیا نہیں ہے۔ ۱۷۲۶ء کی ہجویہ نظم "گلیور کے سفر" میں جوناتھن سوئفٹ(Jonathan Swift) نے ایک تیرتے ہوئے شہر لاپوتا کو بیان کیا ہے۔ اس کا جزیرہ نما شہر مقناطیسیت کے بل بوتے پر تیرتا تھا۔ دو صدیوں بعد ماہر تعمیرات بکمنسٹر فلر (Buckminster Fuller)نے ایک میل نصف قطر کی زمینی قرصی کرے کی تجویز پیش کی جو اچھال کو سورج کی حرارتی گرمی سے قائم رکھ سکتا تھا۔

CloudsOfSaturn by Zonnee, on Flickr
۔ مائیکل مک کولم(Michael McCollum) کا سائنسی فکشن کا ناول "زحل کے بادل" نے ایسے شہروں کو بیان کیا ہے جو حلقے والے سیارے کے بادلوں میں لٹکے ہوئے تھے.


مشتری تیرتی ہوئی یا کسی بھی دوسری قسم کے شہروں کو قائم کرنے کے لئے ایک خطرناک جگہ ہوگی۔ کیونکہ اس کی زبردست قوّت ثقل اور تابکاری سے نمٹنا کافی مشکل ہوگا۔ لیکن زحل، یورینس اور نیپچون کے ماحول کچھ مانوس ہو سکتے ہیں۔ برطانوی سیاروی سوسائٹی کی۱۹۷۸ء میں کی گئی ایک بین النجمی کھوجی تحقیق جس کا نام "پروجیکٹ ڈائڈالس" تھا، اس میں خود مختار ہیلیئم - ۳ کے ایندھن کے کارخانوں کی مشتری کے کرہ فضائی میں تیرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی جو سیاروں کی جانب بھیجنے والے جسیم خلائی جہاز کے لئے وہاں سے ایندھن نکالتے۔ مائیکل مک کولم(Michael McCollum) کا سائنسی فکشن کا ناول "زحل کے بادل" نے ایسے شہروں کو بیان کیا ہے جو حلقے والے سیارے کے بادلوں میں لٹکے ہوئے تھے اور ان کو ہائیڈروجن کی گداختی حرارت سے بھرے غباروں نے روکا ہوا تھا۔

Venuscloudcity by Zonnee, on Flickr
زہرہ کے بادلوں میں تیرتے ہوئے شہر - ایک تخیلاتی تصویر


ایک مزید تیکنیکی ناسا گلین سینٹر کی تحقیق۲۰۰۳ء میں پیش کی گئی جس نے زہرہ کی فضاؤں میں تیرتی ہوئی چوکیوں کا نقشہ پیش کیا۔ اس میں موجود کافی تصوّرات باہری گیسی دیو پر لاگو ہوتے ہیں۔ مصنف جیفری لنڈس(Geoffrey Landis) )کہتے ہیں کہ اگرچہ زہرہ کی بھون دینے والی۴۶۸ ڈگری درجہ حرارت کی سطح زمین کے سمندری سطح پر موجود فضائی دباؤ سے۹۰ گنا زیادہ ہے ، لیکن ۵۰ کلومیٹر ارض بلد پر اس کا ماحول کچھ زمین جیسا ہی ہے۔ یہاں پر ایک تیرتی ہوئی مشاہداتی رصد گاہ بنائی جا سکتی ہے جو دور بیٹھ کر روبوٹ کھوجیوں کی مدد سے زہرہ کی سطح پر تلاش شروع کر سکتی ہے۔ آخر میں شہر جتنے حجم کی ساختیں ہمارے پڑوسی جہنمی سیارے کی فضا میں معلق کی جا سکتی ہیں ۔ فضا میں معلق کرنے کے لئے استعمال میں لائی جانے والی گیسیں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ گیسی سیاروں میں بھی ایک دن اس قسم کی بستیاں بسانے میں کام آسکتی ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے چوتھا باب)۔

آخر گیسی دیو کس طرح سے اس قدر عظیم الجثہ بن گئے؟ یہ اس جگہ پر کیسے آئے جہاں آج یہ موجود ہیں؟ کہانی اتنی بھی سیدھی نہیں ہے جتنی دکھائی دیتی ہے۔






[1]۔ انٹرنیٹ جائز متنی دستاویزاتی ترجمہ، عوامی جاگیر http://www.sacred-texts.com

[2]۔ مثال کے طور پر ، زمین سے چاند تک(۱۸۶۵ء) از جولیس ورن ۔

[3]۔ دوسرے جہانوں کا ایک سفر(۱۸۹۴ء) از جان جیکب ایسٹور چہارم ۔

[4]۔ نادانستہ فتح(۱۹۴۲ء) از آئزک ایسی موف۔

[5]۔دم دار ستارے کے دوش پر (۱۸۷۷ء) از جولیس ورن ۔

[6]۔ مریخ بطور حیاتی اینٹ از پرسیول لوئل (مک میلن کمپنی۱۹۰۹ء)۔

[7]۔ اصلی میں ایک رسالے – تمام کہانیاں - میں بطور سلسلے وار کہانی کے ۱۹۱۲ء میں شروع ہوئی۔

[8]۔ روسی سائنس دان کی غیر معمولی مہم از جی لی فوری اور ہینری ڈی گرافیگنی ۱۸۸۹ء۔

[9]۔ ایسٹاؤ نڈنگ میگزین ، جنوری ۱۹۳۵ء۔

[10]۔کم از کم زمین کی صورت میں تو ایسا ہی ہے۔ ہماری آکسیجن / نائٹروجن پر مشتمل کرہ فضائی حیاتیاتی عمل کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہم دوسرے کسی بھی چٹانی سیارے میں اس طرح آزاد آکسیجن کو نہیں دیکھتے۔

[11]۔نظام شمسی کے ابتدائی دنوں میں پہاڑوں جتنے باقی بچے ہوئے ٹکڑے متواتر سیاروں کی سطح سے ٹکڑا رہے تھے جس کے نتیجے میں ان کی سطح پر داغ پڑ رہے تھے۔ یہ بھاری سماوی اجسام کی بارش آج سے تین ارب اسی کروڑ برس پہلے بتدریج کم ہونا شروع ہوئی، لیکن فلکی گرد نے سیاروں اور مہتابوں پر ایک ثابت قدم رفتار سے برسنا جاری رکھا۔ صرف روسی لوگوں سے معلوم کریں۔ جدید دور میں دو مشہور شہابی مداخلت کار ٹنگسکا اور چلیا بنسک کے آسمان میں نمودار ہوئے تھے، موخّرالذکر تو کیمرے کی زد میں بھی آگیا تھا۔ مدار میں گھومنے والے مثلاً ای ایس اے کا مارس ایکسپریس اور ناسا کا مارس گلوبل سرویر اور مارس ریکونائی سینس نے مریخ کی سطح پر ہر برس۲۰۰تصادم درج کیے ہیں۔ زمین کے کثیف کرہ فضائی کے باوجود۵سے لے کر۳۰۰ ٹن تک کی فلکیاتی مٹی زمین پر ہر روز گرتی رہتی ہے۔

[12]۔ نیو میکسیکو میں واقع سانڈیا لیبارٹریز نے اپنے مشہور زمانہ زی مشین جو ایک۱۳۰ فٹ نصف قطر کی ایکس ریز پیدا کرنے والی مشین ہے ، کو اس ہولناک ماحول کو پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا، لیکن مشین نے صرف ایک سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی دباؤ کو برداشت کیا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول


دوسرا باب - 1

دیوہیکل سیارے بیرونی نظام شمسی میں کیسے پہنچے


2.1 by Zonnee, on Flickr

خاکہ2.1 سیاروی ہجرت کے نظریئے کے مطابق نظام شمسی کے ابتدائی دنوں میں پھیلے ہوئے قدیمی حلقے زحل اور نیپچون کے گرد موجود تھے ۔ ایک نظریئے "نائس" کے مطابق، نیپچون کا واسطہ کئی مرتبہ زحل و مشتری سے پڑا۔ اس عمل کے دوران آوارہ گردی کرتے ہوئے سیارچے مثلاً زحل کا چاند فیبی اس کا قیدی بن گیا۔ بلکہ یہاں تک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک سیارے کے چاند کو دوسرے سیارے نے آپس میں بدل لیا ۔ قید کرنے کا یہ عمل کافی متشدد رہا ہوگا ، جس کی وجہ سے اندرونی دباؤ نے آتش فشانوں ، تفاوت اور سطح کے منہدم ہونے کے عمل کو پیدا کیا ہوگا۔

سائنس کی بھی اپنی طلسمی کہانیاں ہوتی ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گرد و گیس کی ایک قرص تھی جس کا نام شمسی سحابیہ تھا۔ اس پن چکی جیسے گول سے کرّوی بادل کے درمیان، قوانین حر حرکیات اور قوّت ثقل نے مادّہ کو خود سے اپنے آپ میں منہدم ہونے پر مجبور کیا۔ جوں جوں پھیلتی ہوئی مرکزی کمیت بھاری ہوتی گئی، اس کے جوہر خود کو برقرار نہیں رکھ پائے، اور ضو فشاں چرخ میں نیوکلیائی گداخت کا عمل شروع ہو گیا۔ سورج کی آمد ہو گئی تھی۔

نوخیز ستارچہ بڑھ رہا تھا اور اپنی تجاذبی قوّت کی بڑھوتری کے ساتھ مزید مادّے کو کھینچ رہا تھا۔ جس طرح سے برف پر اسکیٹنگ کرنے والا تیزی سے چکر کھانے کے لئے اپنے بازو اندر کی جانب موڑ لیتا ہے بالکل ایسے ہی وہاں ہو رہا تھا۔ گیس و گرد ، بے قاعدہ شکل و صورت کے سیارچوں ، دم دار تاروں اور سیاروں میں ڈھلتے چلے گئے۔ چٹانی ارضی سیاروں نے اپنے آپ کو سورج کے نزدیک کرلیا تھا۔ ان کے قابل تبخیر مختلف قسم کے مادّے تو سورج کی شمسی ہواؤں میں اڑ گئے تھے۔ نوزائیدہ سورج سے دور جہاں ٹھنڈ اور سکون تھا، وہاں مشتری اور زحل نے شمسی سحابیہ سے ہائیڈروجن اور ہیلیئم کھینچنے شروع کردی تھی۔ ان سے دور یورینس اور نیپچون نے پانی کو زیادہ قابو کیا، جس کے نتیجے میں وہ آج نظر آنے والے برفیلی دیو بن گئے۔ قصہ مختصر سیارے وہاں بنے جہاں آج ہم انھیں دیکھتے ہیں ۔ اس منظر نامے کو معیاری نمونہ کہتے ہیں۔ یہ کافی اچھی کہانی بیان کرتا ہے۔

بہرصورت سائنس میں نظریات بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں اور بہت سارے محقق اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا نظام ہائے سیارگان اپنے تشکیلی ایّام میں اتنا پرسکون نہیں تھا کہ جتنا ہم سمجھتے تھے۔ ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ان بولڈر ، کولوراڈو کے ہال لیویزن ہمارے نظام شمسی کی اس طلسمی کہانی کے پیچھے تاک میں رہتے ہیں۔

معیاری نمونے کا سامنا دو طرح کے اہم مسائل سے ہے۔ پہلا مسئلہ وہ ہے جس کو لیویزن میٹر کی حد کہتے ہیں۔ "تیرتے ہوئے مٹی کے ذرّات کا تصوّر کریں؛ یہ آپس میں چپک کر روئی کے گالوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ ایک سے لے کر دس کلومیٹرکے کسی بھی جسم میں اگر یہ دھیمے سے ٹکرائیں تو یہ قوّت ثقل کی وجہ سے اس سے چپک جائیں گے۔ لیکن ان کے درمیان مسئلہ ہے۔" لیویزن اپنی میز پر رکھے دو کافی کی پیالیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ "اگر میں یہ دونوں پیالیاں آپس میں ٹکراؤں ، تو میں چاہئے جتنی بھی کوشش کرکے ان کو آہستہ سے ٹکراؤں یہ جڑیں گی نہیں۔ کوئی بھی ایسی قوّت نہیں ہے جو ایک میٹر کی چیز میں ایک ڈیسی میٹر کو ٹکر مار کر جوڑ دے۔ ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس ذرّے پر ہوائی حرکی رگڑ بھی ہوگی۔ وہ اس گیس کی قوّت کو بھی باد مخالف (headwind)کی طرح محسوس کریں گے جس میں سے وہ گزر رہے ہوں گے۔ بعد مخالف انھیں چکر دیتے ہوئے سورج میں جھونک دے گی۔"

بہت ہی چھوٹے ذرّات تو قدیم شمسی سحابیہ میں ہی ٹھر جاتے۔ بڑے اجسام پر رگڑ کی قوّت ان کی کمیت کی وجہ سے کچھ زیادہ اثر نہیں دکھا پاتی۔ لیکن وہ جسم جو ان کے درمیان میٹر کی رینج میں ہوتے وہ بڑا ہونے سے پہلے ہی سورج کی طرف ہجرت کر لیتے اور یوں سیارے بن ہی نہ پاتے۔ یہ معمہ ماہرین کو اس وقت سے تنگ کئے ہوئے تھا جب سے اسے ١٩٧٠ء کی دہائی میں متعارف کروایا ہے۔

کچھ محقق اس نظریئے کو پیش کرتے ہیں کہ شمسی سحابیہ میں ہونے والی اتھل پتھل نے میٹر جتنے اجسام کو گرداب کی صورت میں مرتکز کر دیا تھا۔ سورج کی قرص نے شاید ان بٹوں جتنے چٹانی پتھروں کے ہجوم کو بھنور کی سمت میں ہانک کر بتدریج منہدم کرتے ہوئے بڑے اجسام میں بدل دیا تھا۔ شاید۔

02-solar-system-nice-model-990x743 by Zonnee, on Flickr
نائس نمونہ مصّور کی نگاہ میں

سیاروی ارتقاء کے بارے میں ایک دوسری کافی مختلف رائے جو کہ کافی بہتر طور پر بنائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دیوہیکل سیارے اس جگہ نہیں بنے جہاں آج ہم انھیں دیکھتے ہیں۔ "یورینس اور نیپچون وہاں نہیں بن سکتے جہاں آج یہ ہیں۔"لیویزن کہتے ہیں۔" ان کو لازمی طور پر اندرونی طرف ہونا چاہئے تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر زمین جیسے حجم کے سیاروں کو اس علاقے میں رکھ دیا جائے تو وہ ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائیں گے۔ قوّت ثقل بکھر کر ایک دوسرے کو مشتری کے مدار کے پاس پھینک دے گی، اور وہاں سے مشتری ان کو اٹھا کر نظام شمسی سے باہر روانہ کر دے گا۔ ان اجسام کو صرف اس علاقے (یورینس اور نیپچون کی حالیہ علاقے) میں نہیں بنایا جا سکتا۔"

Kuiper belt orbits by Zonnee, on Flickr
کائیپر پٹی میں زیادہ تر اجسام کے مدار کافی جھکاؤ کے حامل ہیں.

ہمارے سیاروی نظام کے باہری کونے پر ، برفیلی کائیپر پٹی ایک اور اسرار دبائے بیٹھی ہے۔ بیرونی نظام شمسی میں پلوٹو جیسے برفیلے بونے سیارے بلند جھکاؤ اور زیادہ بے قاعدہ گمگ کے ساتھ یورینس اور نیپچون کے محوری تعلق میں چکر لگاتا ہے۔ لیکن جس طرح سے سیارے پیدا ہوتے ہیں اس کے مطابق انھیں دائروی، کم جھکاؤ اور کم سمتی رفتار والے مدار میں ہونا چاہئے تھا۔[1] صرف یہی ایک طریقہ ہے جس میں سیارے بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود مشاہدہ کرنے والا کائیپر کی پٹی میں مختلف صورتحال کو دیکھتا ہے۔ کائیپر پٹی کے اجسام زیادہ بیضوی مداروں کی طرف جھکاؤ رکھ کر تیر رہے ہیں۔ کائیپر پٹی کے اجسام کی کافی اکثریت غلط قسم کے مادّے سے بنی ہوئی لگتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے میں گھس گئے ہیں۔ سیارے اپنی حالیہ ہئیت میں اس طرح نہیں بن سکتے جہاں وہ اب موجود ہیں۔ کوئی ایسی چیز تھی جس نے ہمارے نظام شمسی کی ساخت کو بدلا تھا۔ کافی ماہرین تو اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دیوہیکل سیاروں نے شروع دبے ہوئے اجسام سے کی تھی اور پھر انہوں نے وہاں سے ہجرت کر لی۔ یہ منظر نامہ اس اچھے نمونے کا دل ہے۔ اس نظریئے کا نام "نائس " اس لئے پڑا کہ لیویزن اور تین دوسرے سائنس دان جنہوں نے سب سے پہلے اس نظریئے کو ملا کر بنایا تھا ان کا تعلق فرانس کے ساحلی گاؤں "نائس" سے تھا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 2

دیوہیکل سیارے بیرونی نظام شمسی میں کیسے پہنچے



2.2 by Zonnee, on Flickr
خاکہ2.2 نائس نمونہ۔ بائیں: باہری سیارے اور سیارچوں کی پٹی کا اس وقت کا منظر جب مشتری اور زحل نے ٢ اور ١ کی نسبت سے گمگ حاصل نہیں کی تھی۔ درمیان: نیپچون (گہرا نیلا) اور یورینس (نیلا –ہرا) نے جب جگہیں بدلیں، تو انہوں نے سیارچوں کو اندرونی نظام شمسی کی طرف ہنکا دیا ۔ دائیں: سیارے اپنے حالیہ مدار میں، جب انہوں نے سیارچوں کو نظام شمسی سے باہر نکال دیا۔


نائس نمونہ ، معیاری نمونے کے شدید خلاف دو متبادل پیش کرتا ہے۔ ایک منظر نامے میں تو بہت ہی سکون کی ہجرت ہے جہاں یورینس اور نیپچون شمسی سحابیہ میں سے گزر کر آرام کے ساتھ مرغولے نما چکر کھاتے ہوئے اس جگہ پہنچے ہیں۔ دوسرے خیال میں چار دیو ہیکل سیارے (اور یا شاید پانچ جس میں سے ایک کو نظام شمسی سے باہر نکال دیا گیا) آپس میں قریب آتے رہے یہاں تک کہ وسیع غیر پائیداری نے یورینس اور نیپچون کو ہڑبونگ میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔(خاکہ2.2 کو ملاحظہ کیجئے)۔نمونہ بتاتا ہے کہ دونوں کے مدار ایک دوسرے سے گزرتے تھے بلکہ شاید مشتری اور زحل کے مداروں میں سے بھی گزر ہوتا تھا۔ دو گیسی دیوہیکل سیاروں کی قوّت ثقل نے یورینس اور نیپچون کو بوریا بستر گول کرکے انہوں چھوٹے سیارچوں کی قرص کی جانب روانہ کر دیا تھا ۔ یہ ایک ایسے دور دراز کی سیارچوں کی پٹی تھی جو اب وجود نہیں رکھتی ہے۔ باہری سیارچوں اور دم دار ستاروں کے اس ہجوم نے بالآخر کائیپر کی پٹی کو جنم دیا ۔ لیویزن کے الفاظ میں یہ ، "ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمین جیسی کمیت کے ہزاروں اجسام مثلاً پلوٹو نمو پا سکتے تھے۔" یہ ان قوی ہیکل سیاروں کی ہجرت تھی جس نے ان کو بننے سے روک دیا تھا۔ لیکن قرص کی کمیت اور سورج سے قریبی جہانوں کے باہمی تعامل نے سیاروں کو بالآخر باقی رکھا اور انھیں نظام شمسی سے خارج ہونے سے باز رکھا۔


2.3 web by Zonnee, on Flickr

خاکہ2.3: "تپتے ہوئے مشتری" کی دریافت، ماورائے شمس سیارے قریبی ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ سیاروی تشکیل میں ان کا کردار کس قدر اہم ہے ۔

نائس نمونے کے خیال کی اعانت نہ صرف ہمارے اپنے نظام شمسی کے مشاہدے سے ہوتی ہے بلکہ ماورائے شمس سیاروں کے مطالعے سے بھی اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ان بولڈر، کولوراڈو کے اعلیٰ سائنس دان ڈان دردا (Dan Durda)کہتے ہیں۔"ہماری تفہیم میں کافی کچھ بہتری دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے ان تپتے ہوئے مشتریوں کے مشاہدے سے ہوئی ہے۔ یہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، 'او ، رکو ایک منٹ، قرص میں بنتے سیاروں کی ہماری تصویر اس میں پوری نہیں اترتی کیونکہ کیسے مشتری اتنا قریب آ سکتا ہے؟' یہ لوگوں کو اس بات کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اس وقت قرص میں کیا ہوتا ہے جب بڑا مشتری وہاں بننا شروع کرتا ہے، اور بل وارڈ اور اس جیسے دوسرے لوگ اس بات کا احساس کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ صرف سیاروں اور قرص کے درمیان ہونے والے باہمی تعاملات کا نتیجہ ہے۔"

محققین سمجھتے ہیں کہ جب سیارہ ،قرص میں بننا شروع ہوتا ہے تو وہ دراڑ اور موجیں پیدا کرتے ہیں اور یہ کمیتی موجیں اور درزیں سیارے پر بذات خود مروڑیاں پیدا کرتے ہیں۔ جب سیارے بن جاتے ہیں اور درز صاف ہو جاتی ہے ، تو یہ درز یا شگاف سیارے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اندر کی جانب حرکت کرے، دردا کہتے ہیں۔ "قرص کے اندر ہونے والے عمل کی وجہ سے پورا ایک عشرہ سوچ و بچار اور دوبارہ سے سمجھنے اور سیکھنے میں لگا ۔ اس نے ہمیں پیچھے بھیجا تاکہ ہم اپنے نظام شمسی میں ہونے والی کافی چیزوں کو وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھ سکیں، اور اسی وجہ سے گیس/قرص/سیاروی تعاملات کے مختلف تصوّر ابھرے۔ یہ واقعی میں ہماری تفہیم میں کافی بڑی تبدیلی ہے، اور ماورائے شمسی سیاروں نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔"

ہماری تفہیم میں دوسرا بڑا اہم کردار زحل کے حلقوں کی ساخت کو سمجھنے کے عمل نے ادا کیا۔ کیسینی مہم نے اس پیچیدہ ، وسیع مادّے کے میدانوں کے بارے میں ہمیں جس قدر مفصل معلومات بہم کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس نے سائنس دانوں کو حقیقی ابتدائی سیاروی نمونہ قرص کی شبیہ پیش کی ہے۔ حلقوں کے درمیان شگاف ان جگہوں پر بن جاتے ہیں جہاں ذرّات اس کے بڑے مہتابوں کے ساتھ ثقلی گمگ بناتے ہیں ۔ کمیت کی مرغولہ نما موجیں پورے نظام میں حرکت کرتی ہیں۔ چھوٹے چاند اکثر حلقوں میں ہی پیوستہ ہو جاتے ہیں اور نفیس موجوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ، جو دوڑ کے ٹریک جیسے برفیلے ذرّات سے بنے جتھوں کے ساتھ ہزار ہا میل تک ہلکورے کھاتی ہیں۔ جبکہ ایک دو میل "V کی شکل کا مادّہ"(chevron of materials)" ب حلقوں"(B rings) کے کونے سے پیچھے کو نکلتا ہے۔ "زحل کے حلقوں کا نظام قرص کی حرکت کو دیکھنے کے لئے شاید قدرت کی سب سے بہترین تجربہ گاہ ہے،" دردا کہتے ہیں۔

2.4Daphnis_edge_wave_shadows by Zonnee, on Flickr
خاکہ 2.4 زحل کے حلقے ابتدائی سیاروی نمونہ قرص کے اندر ہونے والی حرکات کو دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ کیسینی خلائی جہاز سے لئے ہوئے اس منظر میں، ننھا چاند ڈیف نس (Daphnis)کیلر درز (Keeler gap)کے اندر مدار میں چکر لگانے کے دوران حلقوں میں موجود مادّے کو سامنے اور پیچھے سے موجوں اور بل دار صورت میں ڈھال رہا ہے۔

بہرحال ہر کسی نے نائس نمونے کو قبول نہیں کیا۔ اس کی کچھ پیش گوئیاں کچھ مشاہدات سے میل نہیں کھاتیں۔ ناقدین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نائس نمونہ زمین کے چاند کے طاس پر موجود تصادموں کے نشانات اور گڑھوں کی تعداد سے میل نہیں کھاتا( جو نائس کے حساب سے کافی کم ہیں )۔ چاند سے حاصل کردہ نمونے کے اجزاء سیارچوں سے تصادم کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ، جبکہ نائس اس کی سطح پر دم دار ستاروں کی ٹکروں کو زیادہ بیان کرتا ہے۔ نائس نمونہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ جب سیارے ہجرت کرتے ہیں، ان کی قوّت ثقل سیارچوں کو مخصوص قسم کے خاندان میں پھیلا دیتی ہے جو فی الوقت ہم سیارچوں میں نہیں دیکھتے۔ یہ انتشار بیرونی سیاروں کے برفیلے سیارچوں پر وہ ضربیں لگاتیں ہیں کہ وہ اپنی برف کی زیادہ تر قشر کو کھو دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوا۔

کمپیوٹر کی مدد سے کی گئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ مشتری اور زحل کی ہجرت ارضی سیاروں کے مدار کی حالیہ قدر کو بڑھا کر ان کو اور زیادہ بیضوی مدار میں دھکیل دیتی، اور ہجرت کے بعد نتیجتاً سیارچوں کی پٹی میں بلند اور پست جھکاؤ کے مداروں میں بہت زیادہ فرق ہوتا۔ اصل نائس نمونے میں مشتری اور زحل کو باہمی ٢ اور ١ کی نسبتی گمگ میں بتدریج پہنچنے میں یہ ضروری تھا کہ یہ اس دور میں ہوتی جب ماضی بعید کی بھاری بمباری وقوع پذیر ہوتی تھی ، اور اس کے نتیجے میں مریخ نظام شمسی سے باہر نکل کر اندرونی حصّے کو غیر مستحکم کر دیتا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 2

دیوہیکل سیارے بیرونی نظام شمسی میں کیسے پہنچے


مشتری اور زحل کے مداروں کی جدائی کی وجہ ایک برفیلے دیو کا قریبی ٹکراؤ ہے جس کو "مشتری کی چھلانگ کا منظر نامہ" کہتے ہیں۔ اس نظریئے کو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن اکثر اس میں بھی برفیلے دیو کو نظام شمسی سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ اس بات کی تجویز پیش کرتے ہیں کہ ابتدائی نظام شمسی میں پانچ برفیلے دیو ہیکل سیارے تھے، جن میں سے ایک اس غیر مستحکم دور میں باہر نکل گیا تھا۔

محققین مسلسل نمونے میں تبدیلیاں کر رہے ہیں اور نائس منظر نامے کے پیرامیٹر ز میں نئی دریافتوں کو شامل کرکے بہتر سے بہتر کر رہے ہیں۔ لیویزن کہتے ہیں، "کسی نے بھی ایسا نمونہ نہیں بنایا جو اس کے متبادل کے قریب بھی ہو۔"


نائس دور سے پہلے - ایک جملہ معترضہ

اٹھارویں صدی کے سائنس دانوں کے پاس سیاروں کی تشکیل کے بارے میں دو سراغ تھے۔ پہلا سراغ یہ کہ ستارہ گھومتا ہے ( جیسا کہ ہم اپنے سورج میں اس کے داغوں کو دیکھتے ہیں اور دور دراز ستاروں کی روشنی میں ہونے والی باقاعدہ تبدیلی کو بھی محسوس کرتے ہیں)۔ دوسرا سراغ بتاتا تھا کہ تمام سیارے قریباً دائروی مداروں اور ایک ہی سمت میں اپنے مرکزی ستارے کے گرد سفر کرتے ہیں۔ اس مظہر سے اس جانب غور کرنے کا موقع ملا کہ سورج اور سیارے جس مادّے کی قرص سے بنے ہیں وہ گھوم رہی تھی۔ اب ہم اس قرص کو شمسی سحابیہ کہتے ہیں۔

ایمانوئیل کانٹ جو ایک پروشیائی فلسفی اور مصنف تھا اس نے ١٧٥٥ء میں سب سے پہلے شمسی سحابیہ کا تصوّر پیش کیا تھا[2] (اور خود مختار طور پر ١٧٩٦ء میں اس تصوّر کو فرانسیسی ماہر فلکیات پیئری سائمن لا پلاس نے پیش کیا )۔ کانٹ نے کہا کہ کائنات میں تیرتے ہوئے گیس کے بادل غیر مستحکم ہو کر قوّت ثقل کے زیر اثر جمع ہونے شروع ہو گئے تھے۔ جب یہ کائناتی بادل منہدم ہوئے تو ان میں گھماؤ پیدا ہوا ہوگا، کانٹ نے خیال کیا۔ اس گھماؤ نے بادلوں کو چکر دے کر چپٹا کر دیا ہوگا ، اس طرح سے سیارے ایک مرکزی ستارے کے گرد گھومتے ہوئے پیدا ہو گئے ہوں گے۔

دوسروں نے کچھ الگ تصوّر پیش کیے۔ ١٩٠٥ء میں ماہر ارضیات تھامس چمبرلین (Thomas Chamberlin)اور ماہر فلکیات فارسٹ مولٹن (Forest Moulton)کے خیال کے مطابق ایک ستارہ نوزائیدہ سورج کے قریب سے گزرا تھا اور اس کے نتیجے میں سورج سے مادّہ باہر نکالا جس نے اس کے مرغولہ نما بازو بنا دیئے تھے۔ یہ بازو بعد میں تکثیف ہو کر سیاروں میں ڈھال گئے۔ اس نظریئے کا فائدہ یہ ہے کہ بازو کے موٹے حصّے مرکز کے قریب رہیں گے، جہاں پر برفیلے گیسی دیو ہیں، جبکہ پتلے حصّے کے ایک کنارے پر چھوٹے چٹانی سیارے بچ جاتے ہیں جبکہ دوسرے دور والے حصّے پر دم دار ستارے اور سیارچے رہ جاتے ہیں۔ اس وقت مرغولہ نما کہکشاؤں کو ستارہ سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک پھرکی کی طرح ہوتی تھی لہٰذا فرض کیا جاتا تھا کہ ان کے درمیان میں ستارہ جبکہ بازوں میں مادّہ ہوتا ہے ، اور ان کہکشاؤں کو اس نظریہ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ تین دہائیوں بعد روسی ماہر فلکیات اوٹو شمڈت (Otto Schmidt)نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جب سورج بین النجمی گیس کے کثیف بادل میں تیرا تو پیچھے بچے ہوئے گرد و غبار سے نظام شمسی بنا۔


2.5 web by Zonnee, on Flickr
خاکہ 2.5 اورائن سحابیہ میں ابتدائی سیاروی نمونے کی قرص جو پرو پلیڈ کہلاتی ہے ، یہ ایما نیول کانٹ کے نظام شمسی کے تشکیل کے نظریئے کی تصدیق کرتی ہے۔

دوسرے نظریات بھی عود آئے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایمانوئل کانٹ درست تھا، لیکن ریڈیائی دوربین کی ایجاد تک کسی نے بھی ستارے کے قریب قرص کو نہیں دیکھا تھا ، جو غیر شفاف تاریک بادلوں کے اندر جھانک سکتی تھی۔ حالیہ دور میں ہبل خلائی دوربین اور اسپٹزر دوربین نے ستاروں کے گرد موجود درجنوں سیاروی قرصوں کو دیکھا ہے جو کانٹ کے اصل نظریئے کی تصدیق کرتی ہیں۔

برف کے خط کے پار

سورج سے قریب علاقہ پانی یا گیس کو برف میں تبدیل کرنے کے لئے کافی گرم تھا۔ یہاں پر سیارے سلیکیٹ اور چٹانی اجسام میں تبدیل ہو گئے تھے۔ نظام شمسی کا گرم اندروں ایسی دھند سے بنے گرم ننھے کرہ میں تیر رہا تھا جس کو کنڈرول (chondrules)کہتے ہیں ۔ کنڈرول کافی سارے قدیمی سیارچوں میں پایا جاتا ہے، یہ قدیمی غرقابہ کافی بلند درجہ حرارت (١٥٠٠-١٩٠٠ کیلون) پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ کنڈرول آپس میں الجھ گئے اور انہوں نے چٹانی سیارے بنائے۔ شمسی سحابیہ کی عظیم قرص سے کافی دور، درجہ حرارت اتنا کم تھا کہ برف جم سکتی تھی۔ ان دو علاقوں کے درمیان موجود خط کو "برفیلا خط"(snow line) کہتے ہیں۔ اس خط کے بعد، چھوٹے اجسام نے اپنے آپ کو برف اور چٹان کی گیندوں میں ڈھال لیا تھا۔ گیسی دیو نے اپنی زبردست قوّت ثقل کے ساتھ سحابیہ کے قریب موجود ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو کھینچ لیا تھا۔ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ قوّت ثقل کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہے، یا انہوں نے اس مادّے کی لہر کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جو بادل میں ہونے والی ثقلی اتھل پتھل کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ ان دونوں میں سے کسی بھی طرح گیسی دیو ہائیڈروجن، ہیلیئم اور امونیا اور دھاتی قلب کے ساتھ ضخیم کرہ بن گئے۔


2.6 webAllende_chondrule_AMNH_round_5 by Zonnee, on Flickr
خاکہ 2.6 کروی کنڈرول بنیادی طور پر سلیکٹ معدن مثلاً اولیوائن اور پروکسینی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے شہابیوں میں پایا جاتا ہے، اور ابتدائی نظام شمسی کے بننے کے وقت کی جانب سراغ فراہم کرتا ہے۔

چاہئے نائس نمونہ درست ہو یا نہیں ہماتنا ضرور جانتے ہیں کہ یورینس اور نیپچون برف کے خط سے دور بنے ہیں۔ ہرچند کہ مشتری اور زحل نے کافی تعداد میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو جمع کرلیا تھا، لیکن ان برفیلے دیو میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس کم ہے ، جبکہ وہ گیسیں جو منجمد پانی اور نامیاتی مادّوں کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں مثلاً آکسیجن، نائٹروجن، کاربن اور میتھین وہ کافی تعداد میں ہیں۔

جب وہ بن رہے تھے تو تمام چکر کھاتی ہوئی گیس اور برفیلے دیو ہیکل سیاروں نے خود کے گرد قرص کی شکل کے بادل کے خول کو جمع کرلیا تھا۔ نوزائیدہ سورج کے اندرونی نظام کی طرح گیسی دیو کو بنانے والا مرکزی بادل گرم تھا اور جمع ہوتی توانائی سے حرارت حاصل کر رہا تھا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
دوسرا باب - 4

دیوہیکل سیارے بیرونی نظام شمسی میں کیسے پہنچے


جب مشتری اور زحل ٹھنڈے ہوئے تو سکڑ گئے اور اپنے پیچھے ٹھنڈا گیس، برف اور گرد کا بادل چھوڑ گئے۔ ان چھوٹی قرصوں میں سے ان کے حلقوں کے نظام بنے اور قرص میں دور ان کے چاند تکثیف ہوئے۔ مشتری کے چار مہتاب جن کو گلیلیو کے چاند کہتے ہیں اس کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ مشتری سے قریب آئی او اور یوروپا بڑی کثیف چٹانی قلب والے کروں میں منہدم ہوئے، اور یوروپا میں تو ایک نسبتاً پتلی پانی کی قشر بھی بنی ۔ یہ مشتری کے اپنے ارضیاتی سیارے ہیں۔ مشتری کے باہری بادل میں جہاں زیادہ پانی تھا گینی میڈ اورکیلسٹو بڑے کثیف جہانوں کی صورت میں بنے جن کا قلب چھوٹے چٹانی پتھر ہیں اور برف کی گہری قشر ہے۔ برفیلے دیو (عجیب بات یہ ہے کہ برفیلے دیو نیپچون کے مہتاب اس قسم کے منظم نمونے پر عمل پیرا نظر نہیں آتے جس میں کمیت بڑھتے فاصلے کی نسبت سے کم ہوتی ہے، شاید اس کی وجہ بے جا مداخلت کرنے والا بڑا ٹرائٹن ہے جو اس نظام کے باہر سے آیا ہے۔)

جب گیسی یا برفیلے دیو کی تشکیل ہو چکی تب بھی ان سیاروں نے شمسی سحابیہ یعنی سورج کے اطراف میں موجود گرد و گیس کے بادلوں سے گیس، چٹان اور برف کو جمع کرنا جاری رکھا۔ دیوہیکل سیارے کے گرد چکر لگاتی ہوئی مادّے کی قرص اپنے خط استواء کے میدان میں گھٹنا شروع ہو گئی اور بالکل ایسے گرداب میں بہنے لگی جس طرح سورج کے ابتدائی بادل نے سیاروں کو بنانے کے لئے چکر دیا تھا۔ نئے تحقیقات [3]کے مطابق ابتدائی سیارچوی بادلوں نے مرکزی سیارے کے گرد تکثیف ہونا شروع کیا اور اس سے ان کے مہتاب بنے، نئے بننے والے مہتابوں کی قوّت ثقل نے بادل کو بے کل کرکے مرغولہ نما لہریں پیدا کر دیں۔ جب مہتاب بڑھنا شروع ہوئے، تو یہ اثر اور بڑھ گیا اور مہتابوں کے مدار ستارے کی جانب چکر کھاتے ہوئے قریب ہونا شروع ہو گئے۔ جتنا زیادہ مادّہ بادلوں میں آنا شروع ہوا، اندرونی مہتاب اتنا ہی قریب سیارے کی جانب حرکت کرتے رہے جبکہ گیسی قرص میں باہر کی جانب دوسرے چاند بنتے رہے۔

ڈان دردا مشتری کے ابتدائی وسیع سیارچوں کے نظام کے ارتقاء کو بیان کرتے ہیں:" اشارہ یہ ہے کہ چار گلیلیو کے مہتابوں کا نظام جس کو ہم دیکھتے ہیں یہ سیارچوں کو بنانے والے کارخانے کے آخری باقی بچے ہوئے چاند ہیں ، شروع کے بننے والے مہتابوں کو ان سیاروں نے اس قرص میں سے سفر کرتے ہوئے نگل لیا تھا۔" جب نوزائیدہ سورج جوان ہوا، دردا توجیح پیش کرتے ہیں ، تو اس نے ایک ٹی-ٹوری مرحلے(T-tauri phase) کو برداشت کرلیا تھا، ایک ایسا متحرک مرحلہ جس میں شمسی ہواؤں نے سیاروی نظام سے زیادہ تر گیس اور گرد کو جھاڑ دیا تھا۔" جس چیز نے اس قرص کو بند کیا وہ ٹی-ٹوری مرحلہ تھا جب سورج نے آگے بڑھ کر قرص کی صفائی کی – نہ صرف ابتدائی سیاروی قرص کی صفائی ہوئی بلکہ مشتری کے گرد موجود ابتدائی سیارچوی قرص کی بھی ۔ اس طرح سے اس کی اس گیس کی قرص سے جان چھٹی اور یہ عمل بند ہوا۔"

مہتابوں کے اس تباہی اور پیدائش کے کارخانے میں مہتابوں کی کل کمیت مستقل ایک ہی رہی۔ مشتری ، زحل اور یورینس کے مہتابوں کا نظام ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے۔ مشتری کے چار گلیلیو کے چاند حجم میں قریباً ایک جیسے ہی ہیں، جبکہ زحل کا ایک دیوہیکل چاند دوسرے کئی چھوٹے اور درمیانی حجم کے مہتابوں کے ساتھ موجود ہے۔ یورینس کے مہتاب کچھ حد تک ترتیب میں مشتری کے مقابلے کے ہیں۔ یہاں تک کہ محققین اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مشتری، زحل اور یورینس کی اپنی سیاروی کمیت اور ان کے تمام مہتابوں کے نظام کی کمیت کی ایک دوسرے سے نسبت ایک ہی جیسی ہے۔ یعنی کہ کل سیارچے مل کر اپنے مرکزی سیارے کی کل کمیت کے ایک فیصد کا سوواں حصّہ ہوتے ہیں۔

بیرونی نظام شمسی بالآخر اس طرح منظم ہو گیا جو آج ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ یہ حد درجے ٹھنڈ، سن کر دینے والی تفرید ، اور تاریکی سے بھری تنہائی کی سلطنت ہے۔ لیکن نظام شمسی کا دور دراز سیاروی علاقہ کچھ سب سے شاندار، خوبصورت اور عجیب ان مظاہر کا گھر ہے جو انسانیت نے شاید کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ یہ ہمارا انتظار کر رہا ہے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم وہاں ٹھنڈے اور حیرت انگیز جہاں پر قدم رنجا فرمائی کریں، روبوٹوں کو وہاں بھیجنا چاہئے۔ کچھ تو وہاں پہلے سے ہی موجود ہیں۔









[1]۔ جھکاؤ اس کو کہتے ہیں کہ کس طرح سے مدار نظام شمسی کے خط استواء پر جھکا ہوا ہے۔

[2]۔ کانٹ اپنے پیش رو ایما نیول سویڈن بورگ کے کام سے متاثر تھا ۔

[3]۔مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے: www.swri.org/9what/releases/2006/canup.htm
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 1

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے




خاکہ3.1 گلیلیو خلائی جہاز، اپنے دبے ہوئے اہم انٹینا کے ساتھ جب حتمی طور پر ١٩٩٧ء میں مشتری پر پہنچا۔ جب یہ برجیسی نظام تک پہنچا تو جہاز آتش فشانی چاند آئی او کے انتہائی قریب سے گزرا تھا۔


ہمارا نظام شمسی عجیب طریقہ سے ترتیب دیا ہوا ہے۔ اندرونی سیارے سورج کی طرف سمٹے ہوئے ہیں، اپنے تنگ مداروں میں اس طرح تیزی سے چکر لگاتے ہیں جیسے گدھ مردار کے گرد۔ لیکن مریخ کے بعد ہر چیز پھیل جاتی ہے۔ اگر ہمارا سورج پن کے سرے جتنا ہوتا تو چاروں اندرونی سیارے اس سے ٢٢ انچ کے اندر کے علاقے میں چکر لگا رہے ہوتے۔ لیکن اس حجم پر مشتری کا مدار ٦٦ انچ پر ہوتا اور نیپچون اس پن کے سرے جیسے سورج سے ٣٩ فٹ دور چکر لگا رہا ہوتا۔ بیرونی سیاروں کے یہ فاصلے ابتدائی خلائی جہازوں کو بنانے والوں کے لئے عظیم کھائی جیسے تھے۔ صرف مریخ ہی قابل پہنچ تھا؛ تیز رفتاری سے چھ ماہ میں سرخ سیارے پر جایا جا سکتا تھا۔ لیکن مشتری تک کھوجی کو خالی خلاء کے نامساعد ماحول میں کافی برس گزارنے تھے، اور نیپچون تک کا سفر تو ایک عشرے پر محیط ڈرا دینے والی صعوبتوں سے لبریز تھا۔

فاصلے اور وقت کی مشکلات ہی وہ مسائل نہیں تھے جن سے نمٹا جانا تھا۔ ایک ڈونٹ ساخت کا وسیع بادل مریخ کے مدار کے بعد سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔ ١٩٦١ء تک مشاہدہ کرنے والوں نے دو ہزار برفیلی گیندیں اور چٹانوں کی فہرست مرتب کر لی تھی جس میں سیریز (٩٥٠ کلومیٹر قطر پر مشتمل) سے لے کر چھوٹے سیارچے تک موجود ہیں۔ جلد ہی وہاں پر مزید ہزاروں دریافت ہونے والے تھے۔ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو ہماری دوربینوں کی پہنچ سے دور وہاں پر گھات لگا کر بیٹھے ہیں؟ کیا یہ اڑتے ہوئے پتھر اور دھاتوں کے پہاڑ بیرونی نظام شمسی تک پہنچنے والے کسی بھی جہاز کے سامنے مستقل قسم کی مہلک رکاوٹ بن سکتے ہیں؟

تجربات سے ہوائی انجنیئرز یہ بات جان گئے ہیں کہ صرف ریت کا ایک ذرّہ بھی خلائی جہاز کو ناکارہ کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔٤ اگست ١٩٦٩ء، مرینیر ہفتم خلائی جہاز مریخ کے پاس گیا۔ یہ ایک طے ملاقات کا وقت تھا جس کو چھوٹے روبوٹ نے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے گروہ کے دوسرے جہاز مرینیر ششم، کو چند دن پہلے ہی خط استواء کی جانب اڑان کے لئے بھیجا گیا تھا، جولائی ٣٠ کے دن مرینیر ہفتم کو جنوبی قطبی علاقے کا معائنہ کرنا تھا۔ اس سے پہلے صرف مرینیر چہارم ہی کامیابی کے ساتھ مریخ کی تصاویر کو زمین تک بھیج سکا تھا اور سائنس دان بے صبری سے مزید تصاویر کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن مریخ سے صرف ٥ دن اور مرینیر ششم سے ٧ گھنٹوں کی مسافت پر، ناسا کے جوہانسبرگ میں واقع ڈیپ اسپیس ٹریکنگ ا سٹیشن کا رابطہ مرینیر ہفتم سے منقطع ہو گیا۔ ہوائی ٹیم نے کسی بڑے انٹینا کی ایمرجنسی میں تلاش شروع کی تاکہ گم ہوئے جہاز کے اشاروں کو پکڑا جاسکے۔ صرف چند منٹ پہلے جب مرینیر ششم سرخ سیارے کے پاس سے گزرا، تو کیلی فورنیا کے گولڈ اسٹون ٹریکنگ اسٹیشن نے مرینیر ہفتم سے آتے ہوئے کمزور اشاروں کا پکڑا۔ کنٹرولر نے گم ہوئے جہاز کو حکم دیا کہ وہ اپنے انٹینے کو چوڑی کرنوں پر تبدیل کر دے اور اس طرح سے ہوائی انجینیروں نے خلائی جہاز پر عین اس وقت پر دوبارہ سے قابو حاصل کیا جب اس کو قطبی معائنہ کرنا تھا۔ لیکن وہ رپورٹ جو انہوں نے خلائی جہاز سے حاصل کی وہ پریشان کر دینے والی تھی۔ روبوٹ کی چھتری اسٹار ٹریکر نے اسٹار سے بندھن توڑ لیا تھا نتیجے میں خلائی جہاز کا رخ زمین سے دور ہو گیا تھا۔ بظاہر کوئی چیز خلائی جہاز سے آکر ٹکرائی تھی اور یہ کوئی ہلکی ٹکر نہیں تھی۔ ٢٠ سے ٩٠ ٹیلی میٹری چینل خراب ہو گئے تھے اور مرینیر ہفتم کی سمتی رفتار بدل گئی تھی۔ اس کے ٹینکوں میں سے ایک میں سے گیس باہر نکلتی ہوئی لگ رہی تھی۔ یہ ممکن تھا کہ کھوجی کا کوئی ٹینک پھٹ گیا تھا لیکن شواہد اس جانب اشارہ کر رہے تھے کہ کوئی مائیکرو شہابیہ ٹکرا گیا تھا۔ اس واقعہ نے خلائی جہاز کے ڈیزائنر کو سکتے میں ڈال دیا تھا۔ کیونکہ اگر خلائی جہاز مریخ کی طرف جاتے ہوئے ایک چھوٹے سے شہابیے سے خراب ہو سکتا ہے تو سیارچوں کی پٹی کے بعد کیا ہوگا؟ اس واقعہ نے آنے والے برسوں میں ڈیزائنر کو خوف زدہ کیا رکھا۔



خاکہ 3.2 مریخ بھیجے جانے والے مرینیر ہفتم حادثاتی تجربہ ایسا تھا کہ وہ اس میں کا لگ بھگ گم ہی ہو گیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 2

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

پائینیر

١٩٧٢ء اور ١٩٧٣ء میں پائینیر دہم اوریازدہم نے مشتری جانے کے لئے زمین سے اڑان بھری۔ اس سے پہلے آسمانوں پر بھیجی جانے والی کسی ایسی چیز کی نظیر نہیں ملتی۔ شمسی پینلوں اور انٹینے کو ٹانگنے کے ہینگر کے بجائے خلائی جہاز پر بڑے لمبے فاصلے پر رابطہ قائم کرنے والے انٹینے کا غلبہ تھا۔ آج کے معیار کے مطابق، کھوجی چھوٹا اور سادہ تھا۔ وزن میں صرف ٢٥٨ کلوگرام، اس کی اہم باڈی کی کمیت مشتری پر اگلی مہم پر بھیجے جانے والے (وائیجر ) سے آدھے سے بھی کم تھی۔ اگر ہم اس کا جدید وائیجر سے موازنہ کریں جس کا انٹینا 3.7میٹر پر پھیلا ہوا تھا تو اس کا اہم انٹینا 2.7 میٹر سے بھی کم گھیرے کا تھا۔

پائینیر میں وضع انداز کو چھوٹے تھرسٹر سے قابو کرنے کے بجائے ہمہ وقت گھماؤ والا رکھا گیا تھا، خلائی جہاز لٹو کی طرح گھومتا رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس میں موجود تمام آلات، بشمول تصاویر لینے والے نظام کے، بھی مستقل حرکت میں رہتے۔ پائینیر کیمرے لے کر جانے کے بجائے "تصویری فوٹو پولی میٹرز" لے کر گیا تھا جس کی مدد سے دھندلی تصاویر کو بھی دوبارہ بنایا جا سکتا تھا۔ اصل وجہ سادہ تھی: ایک چکر کھاتے ہوئی خلائی جہاز کو ایندھن کی کم ضرورت ہوتی اور اتنے فاصلے پر اس سے پہلے کوئی مہم نہیں شروع کی تھی۔ پائینیر پہلا خلائی جہاز تھا جس نے نیوکلیائی قوّت کا استعمال کیا تھا۔

مفصل چھان پھٹک کرنے کے بجائے مہم کا اصل مقصد وہاں تک خیریت سے پہنچنا تھا۔ سبق جے پی ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈ اسٹون کو یاد ہے۔ "پائینیر دہم اور یاز دہم کے دو اہم مقاصد تھے۔ ایک تو یہ بات معلوم کرنی تھی کہ آیا ہم سیارچوں کی پٹی میں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسرے چیز اس بات کا پتا لگانا تھا کہ مشتری کے گرد موجود تابکاری کس حد تک خطرناک ہے؟ اس مہم کو ترتیب دیتے ہوئے یہ دونوں مقاصد ہمارے زیر نظر تھے۔" اس کے باوجود، روبوٹ نےبین السیاروی مقناطیسی میدان اور مشتری اور زحل کے کرہ فضائی کے ١١ اس دور کے جدید ترین تجربات بھی ادا کیے۔ انہوں نے شمسی ہواؤں کی نقشہ بندی اور سیاروں کے ساتھ ان کے برتاؤ کو بھی درج کیا، گیسی دیو اور ان کے کچھ بڑے مہتابوں کے ماحول کے درجہ حرارت کو ناپا۔ سیاروں اور بڑے مہتابوں کے چکر کھاتی تقطیع کے ساتھ تصاویر کو اتارا۔

شاید سب سے اہم بات جو مستقبل کی کھوج کے لئے روبوٹ بردار اور انسان بردار دونوں خلائی جہازوں کے لئے تھی وہ یہ کہ انہوں نے ہر سیارے کے گرد موجود تابکاری کو جھیل لیا تھا۔ سیارے کے گرد فعال میدان اور ذرّات ایک طرح سے مقناطیسی بلبلہ یا ڈھال بنا لیتے ہیں۔ مقناطیسی میدان کے یہ بلبلے مقناطیسی کرہ کہلاتے ہیں اور سیارے کو سورج کی شمسی ہواؤں سے نا صرف بچاتے ہیں بلکہ وہ مہلک اشعاع کی ڈھال بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہرچند کے گھومتا ہوا خلائی جہاز تصاویر اتارنے کے لئے کوئی مثالی نہیں تھا تاہم یہ سیارے کی پیچیدہ مقناطیسی کرہ کی ساخت کی تقطیع کرنے کے لئے بہت بہترین تھا۔

ایڈ اسٹون کا تجربہ سیاروں کے مقناطیسی کرہ میں ہے۔ "مجھے یاد ہے کہ جب پائینیر دہم مشتری کے قریب پہنچ رہا تھا تو میں حیرت زدہ تھا کیونکہ ہم نے زمین سے رہتے ہوئے اس کے مقناطیسی کرے کو ناپ لیا تھا۔ یہ اندر سے مقناطیسی کرہ اور باہر موجود شمسی ہواؤں کے درمیان متوازن دباؤ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شمسی ہوائیں کیا ہوتی ہیں ہم نے انہیں ناپا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم زمین پر موجود ریڈیائی مشاہدات کی بدولت جانتے تھے کہ مقناطیسی میدان کیا ہیں اور یہ ہمیں بتاتے تھے کہ مقناطیسی کرہ کو ٤٠ برجیسی نصف قطر جتنا ہونا چاہئے تھا ( زمین کی صورت میں، اس کو ١٠ زمینی نصف قطر جتنا ہونا چاہئے)۔ جب پائینیر دہم نے پہلی مرتبہ مقناطیسی کرہ کا سراغ لگایا تو وہ ٤٠ برجیسی نصف قطر جتنا تھا۔"




خاکہ 3.3 پائینیر دہم اور یاز دہم ایسے سائنسی آلات سے لدے ہوئے تھے جن کی توانائی ریڈیائی ہم جاؤں کے حر برقی جنریٹر پیدا کرکے مہیا کر رہے تھے۔

دونوں پائینیر نے یقین نہ آنے والی کامیابی کو سمیٹا۔ انہوں نے پہلے مشتری کے قریب سے لئے گئے اور اس کے پہلے اچھے قطبی علاقوں کی تصاویر کو زمین پر بھیجا۔ دونوں جہازوں نے مشتری کے گلیلیو کےمہتابوں کی تصاویر لیں، اور پائینیر یاز دہم کو زحل اور اس کے چاند ٹائٹن کی مہم کے لئے روانہ کیا۔ خلائی جہاز کی چکر کھاتی ہوئی نوعیت کی وجہ سے تصاویر پتلی پٹیوں پر بنائی گئیں جن کی تقطیع اس وقت کی جاتی جب جہاز گھومتا۔کیونکہ ایک روایتی تصویر تقطیع کے لئے تیس منٹ لیتی،[1] اس لئے تصویر کو دوبارہ بناتے ہوئے کافی ساری اطلاعات ضائع ہو جاتی تھیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود جڑواں جہازوں نے ہمیں دیوہیکل دنیاؤں کے مہتابوں کے ہئیت کے بارے میں ابتدائی اشارے دیئے۔ (ملاحظہ کیجئے پانچواں باب خاکہ5.5)









خاکہ3.4 جڑواں پائینیر کے تقطیعی کیمروں نے مشتری (اوپر) اور زحل کے قطبین کا اتنی تفصیل سے جائزہ لیا جو پہلے کبھی نہیں لیا گیا تھا۔

پائینیر نے پہلی مرتبہ برمحل خرد شہابیوں کی نپائی مریخ کے بعد بین السیاروی خلاء میں کی، یہ بات اس لئے کافی اہم ہے کہ کسی بھی خلائی جہاز نے سیارچوں کی پٹی سے گزرنے کی جرات نہیں کی اور کچھ کا اندازہ تھا کہ خرد شہابیے کسی بھی گزرنے والے خلائی جہاز کو اس قدر نقصان پہنچائیں گے کہ وہ بچ نہیں سکے گا۔ دونوں جڑواں خلائی جہازوں نے پہلی مرتبہ دیوہیکل گیسی جہانوں کے گرد موجود اشعاعی میدان کی پیمائش کی (ملاحظہ کیجئے چوتھا اور پانچواں باب)۔ پائینیر کے ذریعہ پہلی مرتبہ دریافت کی گئی کافی چیزوں میں سے ایک زحل کے مشہور ایف حلقے بھی تھے۔[2]

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 3

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

وائیجر منصوبہ

چھوٹے پائینیر خلائی جہازوں کے آلات کی خوشبو نے سیاروی سائنسی سماج کی بھوک کو اشتہا دے دی تھی۔ سیارچوں کی پٹی کو شیر دلی سے پار کرنے کے بعد، ناسا نے فیصلہ کیا کہ دو بڑے مزید جدید جہاز بیرونی نظام شمسی کی جانب روانہ کئے جائیں گے۔ مہم کو بھیجنے کے لئے اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا تھا۔١٩٧٠ء کی دہائی کے آخر میں، بیرونی سیارے ایک نادر ترتیب میں آ گئے تھے۔ مشتری کے محل وقوع نے اس بات کا موقع فراہم کیا تھا کہ اس کو بطور ثقلی غلیل کے استعمال کرتے ہوئے بیرونی نظام شمسی کے دوسرے سیاروں تک جایا جاسکے، نتیجے میں سفر کے کئی برس کم ہوسکتے تھے۔ یہ ترتیب اگلے ١٧٥ برسوں سے پہلے دوبارہ نہیں ہونے والی تھی۔

ناسا عظیم سفر کے لئے پیچیدہ خلائی جہازوں کی فنڈنگ کے لئے تگ و دود میں لگا ہوا تھا جن کو اس نے حر برقی بیرونی سیاروی خلائی جہاز کا نام دیا تھا۔ نیوکلیائی قوّت سے چلنے والے ان خلائی جہازوں کا وزن ایک ٹن سے زیادہ ہونا تھا۔ مختلف فضائی کھوجیوں سے لبریز خلائی جہازوں کو ان کھوجیوں کو تمام چاروں جناتی جہانوں میں چھوڑنا تھا۔پہلے جہاز کو مشتری کی طرف چھوڑنا تھا جو زحل سے ہوتا ہوا پلوٹو کی طرف جاتا۔دوسرے جہاز کو دیو ہیکل سیارے کی ابتدائی جانچ کرنے کے لئے مشتری کا چکر لگا کر اس کی قوّت ثقل سے توانائی حاصل کرکے یورینس اور نیپچون تک جانے تھا۔ ان خلائی جہازوں کو اب تک کے ان جدید آلات سے لیس ہونا تھا جو پیسے سے بنائے جاسکتے تھے۔ بس مسئلہ یہیں سے شروع ہو گیا۔ کانگریس نے اس پر ہونے والے خرچ کی وجہ سے اعتراض کیا۔ ناسا نے اس منصوبے کے بجائے اپنے انتہائی کامیاب مرینیر خلائی جہازوں کی دوبارہ سے آلات سازی کی جس میں بڑے جسیم انٹینوں کے ساتھ جڑواں ریڈیائی ہم جاؤں حر برقی جنریٹر بھی نصب کئے۔ چھوٹے خلائی جہاز کرسچین وائیجر پر آنے والی لاگت ان خلائی جہازوں کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔

انجینیروں نے دو وائیجر خلائی جہاز بنائے۔ وائیجر اوّل اس خط پرواز کی جانب روانہ کیا گیا جس کے ذریعہ وہ پہلے مشتری اور پھر زحل کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کو پلوٹو کی طرف بھیجنے کے بجائے زحل کے چاند ٹائٹن کے قریب رہتے ہوئے اس کی تحقیق پر زور رکھا گیا۔ کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ پلوٹو پہنچنے سے پہلے ہی ناکام ہو جائے گا۔ اگر پہلا خلائی جہاز بچ نکلا، تو وائیجر دوم کو عظیم سفر کے چھوٹے سلسلے پر بھیجا جاتا جس میں وہ مشتری اور زحل کو پار کرتا ہوا یورینس اور نیپچون کی جانب ایک عشرے پر محیط عرصے کے سفر میں پہنچتا۔

جڑواں وائیجر اس وقت بننے کے عمل سے گزر رہے تھے جب پائینیر کا واسطہ مشتری سے پڑ رہا تھا۔ ایڈ اسٹون کے مطابق یہ خوش قسمتی ہی تھی۔ " ہمیں پائینیر کی وجہ سے کافی فائدہ ہوا،کیونکہ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ اشعاعی ماحول اس سے کہیں زیادہ برا تھا جتنا کہ نمونے نے تجویز کیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے ١٩٧٤ء کی ابتدا میں ہی نو مہینے اور لے لئے تھے تاکہ سرکٹ کو دوبارہ سے بناکر پرزوں کو بدل لیں کیونکہ ہمیں اس بات کا خطرہ تھا کہ ہم مشتری کے پاس پہنچ کر بچ نہیں سکیں گے۔"





خاکہ 3.5 اوپر: وائیجر کو تین پلوٹونیم کی بیٹریوں(ریڈیائی ہم جاؤں حر برقیات جنریٹر) سے توانائی فراہم کی گئی، ان کو سفید دھاتی خول کے پیچھے دیکھا جا سکتا ہے۔خلائی جہاز کے اوپر لگے ہوئے بڑے سفید انٹینا پر بھی غور کریں۔ نیچے : وائیجر کا تقطیع پلیٹ فارم بائیں فریم کے نیچے، جس پر کافی سارے آلات لگے ہوئے ہیں جس میں دوربینی کیمرے بھی شامل ہیں۔

بہتر حفاظتی ڈھالوں سے مسلح اور جدید الیکٹرانکس سے لبریز خلائی جہاز نہ صرف بچ گیا بلکہ اس نے اپنا سفر بھی شاندار انداز سے مکمل کیا۔ مہم کی پہلی دریافت اس گندے مقناطیسی میدان کی تھی جس سے ہوائی انجنیئر کافی زیادہ سہمے ہوئے تھے۔ ایڈ اسٹون کے مشاہدے کے مطابق "کچھ بھی ہماری سوچ کے مطابق نہیں تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہے۔ اور پھر سب کچھ ہو گیا! پھر وہ واپس آیا، کیونکہ مشتری کا مقناطیسی خط استواء جھکا ہوا ہے، لہٰذا جب مشتری گھومتا ہے تو یہ میدان اوپر جاتا ہے اور پھر واپس نیچے آتا ہے، کسی بڑی قرص کی طرح۔ یہ کافی چپٹی قرص ہے جو مشتری کے گھومنے کے ساتھ ڈگمگاتی ہے، اور یکدم یہ وہاں پر نہیں تھی اور پھر اچانک وہاں پر موجود تھی۔ اور یہ دریافت ان دریافتوں کی پیش رو تھی جس کو وائیجر نے ایک کے بعد ایک آگے کھوجنا تھا۔ یکایک چیزوں نے آپ کے دیکھنے کے نظریئے کو بدل دیا تھا۔ ہمارا ارضیاتی نقطہ نظر بس ایسا ہی تھا یہ ان چیزوں پر انحصار کرتا ہے جس کی بنیاد زمین کے متعلق ہماری معلومات پر ہوتی ہے،اور اس کی بنیاد پر ہم قیاس کرتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ارضیاتی نقطہ نگاہ کے مقابلے میں جس کی ہم نے تیاری کی تھی اس سے کہیں زیادہ وسیع چیزیں وہاں موجود ہیں۔"

وائیجر کی بہترین حفاظتی ڈھال کے باوجود خلائی جہاز بمشکل ہی اشعاعی موسم کو جھیل پایا، جانس ہوپکنس یونیورسٹی اپلائڈ لیبارٹری کے خلائی شعبے کے اعلی سائنس دان رالف مک نٹ کہتے ہیں۔"جس بات کو لوگ نہیں سمجھتے وہ یہ ہے کہ وائیجر اوّل نے حقیقت میں مشتری کے نظام کی طرف جاتے ہوئے اپنی سطح پر اصلی ضربوں کو برداشت کیا ہے۔ نزدیک پہنچنے پر طاقتور الیکٹران کے مین کنٹرول اور کمانڈ کمپیوٹر سے ٹکرانے کی وجہ سے کچھ بیس مرتبہ اہم کمپیوٹر کھل بند ہوا ہے۔ ہم جانتے تھے کہ وہاں پر الیکٹران کی کافی زیادہ آمد ہوگی اور نتیجتاً انہوں نے تانبے کی اضافی موتی تہ الیکٹرانک ڈبے کے گرد لگا دی تاکہ کچھ تابکاری سے بچا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید وائیجر کی کے کچھ مشاہدے کافی اچھے ہیں کیونکہ اس میں اضافی حفاظتی ڈھال لگی ہوئی تھی۔ وائیجرز کے ساتھ بالآخر ہم نے وہاں موجود خراب تابکار ماحول سے نمٹنا جان لیا۔"

پائینیر کے برعکس وائیجر تین محور پر پرسکون تھا اور اس کام کے لئے سہ جہتی خلاء میں مخصوص ستاروں کی رہنمائی حاصل کی گئی تھی۔ اس کی بدولت وہ کیمروں اور آلات کو انتہائی درستگی کے ساتھ تقطیع کے وقت استعمال کرسکا۔

خلائی جہاز لمبے کھلے ہوئے عرصے تک کی تصاویر لے سکتا تھا۔ دونوں وائیجر نے مشتری اور زحل کے نظام کے شاندار نظارے زمین پر بھیجے۔ ایڈ اسٹون اس نئی آنے والی معلومات کے سمندر سے باخبر رہنے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ "روزانہ کچھ نہ کچھ دریافت ہوتا تھا، ایسی دریافتیں ہو رہی تھیں جس کا ہم نے تصّور بھی نہیں کیا تھا۔ اسی چیز نے جہاز کو دریافتوں کو کھوجنے کی مہم بنا دیا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ ہم نئی چیزیں سیکھیں گے، لیکن ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ نظام اس قدر متنوع فیہ ہوگا، اور ہم اس قدر دلچسپ اور مختلف چیزوں کو دیکھیں گے۔ ہر مہتاب مختلف ہے۔ وہ سب ایک جیسے ہوسکتے تھے، سب کی سطح قدیمی گہرے گڑھوں سے بھری ہوئی ہوسکتی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ویسے ہی تھے جیسا کہ انہوں نے ہونا تھا۔ یکایک وہ اصل جہاں بن گئے جس میں سے ہر ایک الگ اور منفرد تھا۔"

وائیجر کی دریافتوں میں مشتری کے حلقے، زحل کے نئے حلقے، کافی چھوٹے چاند، آئی او پر آتش فشاں، یوروپا کی سطح کے نیچے ممکنہ سمندر، کافی برفیلے مہتابوں بشمول یوروپا، انسیلیڈس اور ڈائیونی پر ہونے والی ممکنہ ارضیاتی تحریک، اور زحل کے جسیم چاند ٹائٹن پر موجود پیچیدہ کرہ فضائی شامل تھیں۔ مہتابوں پر عجیب ارضیاتی مظاہر مدوجزر کی گرمی سے پیدا ہوتے نظر آئے، مدوجزر قدرت کی ایک ایسی طاقت ہے جس کو وائیجر کے سفر سے پہلے کافی غیر اہم سمجھا جاتا تھا۔ برفیلے چاند کے ماہر ولیم مک کینن تبصرہ کرتے ہیں،" مدوجزر حرارتی پیش گوئیاں اور ان کی طاقت کا اندازہ تو پہلے سے ہی تھا، لیکن ہم نے اس سے پہلے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی، اور کوئی بھی اس کی اصل طاقت کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔ یہاں تک کہ ننھے جہاں بھی یہ بہت زیادہ متحرک ہیں۔"

"وائیجر سے پہلے معلوم متحرک آتش فشاں صرف زمین پر موجود تھے۔" ایڈ اسٹون اضافہ کرتے ہیں۔"اور پھر جب ہم نے آئی اوکی جانب پرواز کی تو وہاں زمین سے دس گنا زیادہ آتش فشانی حرکت دیکھی۔ معلوم مائع پانی کے سمندر ؟ یہاں زمین پر موجود ہیں۔ پھر ہم یوروپا سے گزرے۔ معلوم نائٹروجن کا فضائی کرہ ؟ صرف زمین پر موجود ہے۔ پھر ہم ٹائٹن سے گزرے۔ ایک کے بعد بار بار ایسا ہوا کہ ہم جس چیز کو سمجھتے تھے کہ اسے اچھی طرح سے جانتے ہیں وہ ویسی نہیں تھی۔ سیارے کے مقناطیسی میدان کو سیارے کی گردش کے ساتھ ملا ہوا ہونا چاہئے۔ اندازہ لگائیں کہ یورینس پر کیا ہوا؟ یہ اس کے خط استواء سے زیادہ ملا ہوا تھا۔ اور نیپچون میں بھی ایسا ہی تھا۔ لہٰذا ایک کے بعد ایک دریافت نے بتایا کہ ہمارا ارضیاتی نقطہ نظر اتنا وسیع نہیں ہے کہ وہ ہمارے نظام شمسی کا احاطہ کر سکے۔"

یہ رجحان مہم کے آگے بھی جاری رہا۔ وائیجر اوّل کو زحل سے آگے نہ جانے کی قربانی زحل کے چاند ٹائٹن کی وجہ سے دینی پڑ گئی، لیکن وائیجر دوم نے اس عظیم سفر کو جاری رکھا اور ١٩٨٦ء میں یورینس کے نظام میں پہنچا۔ جہاز نے یورینس کے کالے چاند اور حلقوں کی تصاویر اتاریں، لطیف طوفانوں اور بادلوں کی پٹیوں کی نقشہ کسی کی اور اس کے عجیب متوازن مقناطیسی میدانوں کا نقشہ بنایا۔

یورینس پر پایا جانے والا ماحول توقعات سے کہیں کم سرگرم ملا۔ پٹیاں اور علاقے جو مشتری اور زحل میں کافی زیادہ شناسا تھے وہ یورینس کی ہری کہر میں لگ بھگ غیر مرئی ہو گئے تھے، صرف چند ہی طوفان تصاویر میں نظر آرہے تھے، بیرونی سیاروں کے ماہر ہیڈی ہیمل کہتے ہیں :

یورینس کے پاس سے گزرنے کا وقت بہت ہی مختصرسا تھا، اور سفر کو یورینس کے پاس سے مخصوص مختصر وقت میں ہونا تھا۔ یہ وہاں جنوبی راس السرطان (گرمیوں میں رات اور دن کے برابر ہونے) کے وقت پہنچا۔ یورینس جھکا ہوا ہے؛ یہ اپنے اطراف میں لیٹا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس کے موسمی تغیر کافی شدید ہوں گے: راس السرطان کے وقت ایک قطب روشن جبکہ دوسرا گہری تاریکی میں ڈوبا ہوگا۔ لہٰذا جب وائیجر وہاں سے گزرا، تو اتفاق کی بات تھی کہ جنوبی قطب کی سمت لگ بھگ سورج کے براہ راست سامنے تھی۔ سیارہ جتنا بھی گھوم لیتا آپ اس کے قطب کو دیکھتے رہتے۔ اس وقت وائیجر کو کچھ زیادہ مختلف بادل نظر نہیں آئے۔ اس نے صرف دس چھوٹے خصائص دیکھے۔یورینس کا کرۂ فضائی کثیف بادلوں سے بھرا تھا لیکن یہ یکساں تھا۔ لہٰذا آپ کے پاس یہ ہرے رنگ کی ٹھوس گیند تھی جس میں اکا دکا دھندلے سے نشان تھے جن کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اور یہ سب اس کے جنوبی نصف کرہ کی طرف تھا کیونکہ وہی روشن تھا۔ لہٰذا مشتری کے خوبصورت گھومتی ہوئی پٹیوں اور علاقوں کے مقابلے میں یہ کوئی زیادہ دلچسپ نہ تھا۔



خاکہ 3.6 خلائی جہاز وائیجر کے پیچھے کا منظر جب وہ یورینس اور اس کے چھوٹے چاند مرانڈا کے پاس سے گزر رہا ہے۔ اس وقت کھوجیوں کو امید تھی کہ وہ منفرد دیوہیکل کی مختلف پٹیاں دیکھیں گے۔

ہرے دیوہیکل کی یہ بوریت برسوں بعد زمین پر موجود دوربینوں کی مدد سے لی گئی ہوئی تصاویر سے دور ہو گئی (ملاحظہ کیجئے چوتھا باب)۔




خاکہ 3.7 جے پی ایل کنٹرول سینٹر برائے وائیجر خلائی جہاز، جب اس کا سامنا زحل سے ہوا۔

وائیجر دوم نے سائنسی دنیا کے آگے برفیلے مہتابوں کی سلطنت کو کھول دیا۔ یورینس کے چاند زحل نظام کے درمیانے مہتابوں جتنے ہی ہیں۔ وائیجر نے زحل کے کئی مہتابوں بشمول انسیلیڈس اورڈائیونی میں ماضی میں ہونے والی ارضیاتی سرگرمیوں کا عندیہ دیا۔ وائیجر دوم نے یورینس پر ماضی میں جاری رہنے والی سرگرمیوں کی بھی نشاندہی کی۔ بالخصوص مرانڈا کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ اندرونی اور بیرونی قوّتوں نے اسے اوپر اٹھا کر موڑ دیا، جبکہ ایریل اور ٹائٹن دونوں سے ان پر ماضی میں جاری رہنے والی برفیلے آتش فشانوں کی سرگرمیوں کا سراغ بھی ملا (ملاحظہ کیجئے آٹھواں باب)۔ یورینس پر روشنی کی سطح کافی کم ہے - زمین کے مقابلے میں ایک بٹا چارسو – اور یہ خلائی جہاز گولی کی رفتار سے دس گنا زیادہ تیز سفر کر رہا تھا۔ اس کام کو اور دشوار بنانے کے لئے اڑیل تقطیع پلیٹ فارم بھی موجود تھا۔ وائیجر پر موجود نشانہ لگانے والا نظام زحل کی طرف اڑان بھرتے ہوئے ایک سمت میں پھنس گیا تھا، لہٰذا کیمرے کو حرکت دینے کے بجائے پوری خلائی گاڑی کو گھمانا پڑا تاکہ ہدف پر لمبے عرصے تک کیمرے کی نظریں جمی رہیں اور تصویر میں آنے والے دھبوں سے بچا جا سکے۔ ہوائی انجینیروں نے سب سے مشکل حالات میں کافی شاندار کام کیا تھا۔ یہ تین برس بعد آنے والی مہمات کے لئے ایک اچھی مشق تھی۔ نیپچون انتظار میں تھا۔

جب وائیجر آخری برفیلے دیو کے پاس پہنچا، تو اس وقت سیاروی ماہرین موسمیات سنجیدگی کے ساتھ اپنا سر کھجانے لگے۔ یہاں ہونے والی تمام تر حرکات کیا تھیں؟ کچھ بھی ہو نیپچون سورج سے کسی بھی دوسرے دیوہیکل سیارے کی بہ نسبت سب سے زیادہ دور ہے، اور سب سے کم توانائی حاصل کرتا ہے۔ اس کو تو سب سے زیادہ خاموش ہونا چاہئے تھا؟

جب تصاویر کافی واضح ہوئیں، سیاروی موسمی نظریات ایک کے بعد ایک ڈھیر ہونے لگے۔ نیپچون میں نظام شمسی میں موجود کسی بھی جہاں سے زیادہ خطرناک ہوائیں چل رہی تھیں۔ کوبالٹ کی پھواروں کی دھاریں جن کے اوپر تاج کی طرح دمکتے ہوئے سفید میتھین کے بیل سوت (ریشے دار) بادل موجود تھے۔ ایک عظیم نیلا طوفان، جو مشتری کے عظیم سرخ دھبے کی طرح تھا گھومتے ہوئے سامنے آگیا۔ گھومتا ہوا طوفان اس قدر عظیم تھا کہ پوری زمین کو نگل سکتا تھا۔ یورینس کے مہتابوں کی طرح نیپچون کا ابھرتا ستارہ ایک عظیم چاند ٹرائیٹن تھا۔

ایڈ اسٹون ایک عشرے پر محیط لمبی سیاروی مہم کا خلاصہ کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں:"میں سیاروی مرحلوں کو ترتیب میں رکھتا ہوں۔ آئی او پہلا تھا جو اپنے آتش فشانوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ ٹائٹن اور دوسروں کے ساتھ دریافتوں کا ایک مکمل سلسلہ موجود تھا جو ان کے ساتھ آیا تھا۔ دوسرا سیاروی مرحلہ ٹرائیٹن کے ساتھ شروع ہوا جس کا درجہ حرارت مطلق صفر سے ٤٠ ڈگری اوپر تھا یہاں پر چشمے اس کے قطب سے نکل رہے تھے۔ لہٰذا یہ مرحلہ کافی اچھا تھا۔ ان چیزوں کے درمیان آپس میں جس قسم کی حرکات ہو رہی تھیں آپ اس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔"





خاکہ 3.8 ایڈ اسٹون کے وائیجر مہم کی "ترتیبات" آئی او (اوپر) اور ٹرائیٹن۔

وائیجر نظام شمسی کے بالکل کونے پر پہنچ کر بھی اشاروں کو نشر کرتا رہے گا۔ اس کتاب کو لکھتے وقت، وائیجر اوّل سورج کے آخری کونے کو بھی پار کرتا نظر آتا ہے یعنی کہ شمسی کرہ اور وہ واقعی میں بین النجمی خلاء میں سفر کر رہا ہوگا۔ لیکن ان سیاروی اڑانوں کے بعد اگلا منطقی مرحلہ سیاروں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے روبوٹوں کو بھیجنے کا ہے۔ مشتری کے لئے یہ کام گلیلیو مدار گرد اور کرہ فضائی کھوجی کرے گا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 4

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

گلیلیو مدار گرد / کھوجی


گیسی اور برفیلے دیوہیکل پیچیدہ وائیجر کی اڑانوں کے بعد، بیرونی نظام شمسی کا سروے مکمل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ صرف سروے ہی ہے۔ ان دیوہیکل جہانوں اور ان کے مصاحبوں کی تفصیلی چھان پھٹک کے لئے محققین کو ایک لمبا عرصہ درکار ہے اور یہ کام ایک مدار گرد ہی کر سکتا ہے۔

١٩٩٥ ء میں ضخیم گلیلیو مدار گرد مشتری پر پہنچا۔ یہ پائینیر اور وائیجر دونوں کی بہترین کاوشوں کا نچوڑ تھا، اس میں گھومتے ہوئے حصّے میدان اور ذرّات کی تحقیق کی غرض سے بھی موجود تھے، اور دوسرے حصّے بھی موجود تھے جن کا کام مشتری کے حلقوں اور بادلوں، گلیلائی مہتابوں اور دوسرے چاندوں کی چھان پھٹک کرنی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ جہاز وہاں پہنچتا بحران آگیا۔

اہم انٹینا جس کو چھتری کی طرح کھلنے کے لئے بنایا گیا تھا، اس نے کھلنے سے انکار کر دیا۔ مسئلہ گرم اندرونی نظام شمسی میں منصوبے سے زیادہ لمبے عرصہ چلنے والے خلائی جہاز کا تھا۔ گلیلیو خلائی جہاز کو مشتری تک جانے کے لئے کافی تیز رفتار بنایا تھا، لیکن ١٩٨٦ء میں چیلنجر خلائی جہاز کے حادثے کے بعد گلیلیو کا طاقتور مائع ایندھن جو اوپری مرحلے کے لئے بنایا گیا تھا اس کا استعمال کرنا خلائی جہاز کے لئے خطرناک سمجھا گیا۔ اس کے بجائے ہوائی ڈیزائنروں نے ایک محفوظ لیکن کم طاقتور ٹھوس ایندھن کا استعمال کیا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہو گیا کہ خلائی جہاز کو ٦ برس تک زہرہ کے گرد حلقے میں چکر لگوایا جائے اور دو مرتبہ زمین سے گزارا جائے تاکہ اس کو اتنی رفتار مل سکے کہ وہ برجیسی نظام تک پہنچ سکے۔




خاکہ 3.9 گلیلیو مدار گرد اور کھوجی نے اپنا لمبا سفر بیرونی نظام شمسی کی جانب شروع کیا، اس کو اسپیس شٹل اٹلانٹس کے ذریعہ ١٨ اکتوبر ١٩٨٩ء کو چھوڑا گیا۔

راستے میں جاتے ہوئے خلائی جہاز کا سامنا پہلی مرتبہ سیارچے ٩٥١ گیسپرا اور ایک دوسرے سیارچے ٢٤٣ آئیڈا سے ہوا جہاں اس کے چھوٹے چاند ڈیکٹائل کی دریافت ہوئی۔ اس دوران انٹینے کے کونے پر موجود گریس اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور یہ جام ہو گیا۔ اس وقت تک جب جسیم مدار گرد مشتری کے گرد پہنچتا، اس کا 4.8 میٹر کا انٹینا ناکارہ اور خراب ہو گیا تھے، اور اطلاعات کا خزانہ جس کو زمین کی جانب روانہ کرنا تھا اس کو ایک ننھے سے کافی کین کے حجم کے انٹینے کے ذریعہ بھیجا گیا۔ لیکن پروگرامر اور انجینیروں نے اپنی مخصوص اختراعی تخیل کا استعمال کیا اور اس للکار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور نا صرف خلائی جہاز کو یہ سیکھایا کہ کس طرح سے اطلاعات کو دبا کر ارسال کرنی ہیں بلکہ اس کو یہ بھی سیکھایا کہ اطلاعات کو کس طرح سے حاصل کرکے تجزیہ کرنا ہے۔ زمین پر بھی وصول کنندہ اسٹیشنوں میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ مہم کم از کم اصل منصوبے کا قابل ذکر ٧٠ فیصد تک حاصل کرسکے۔ جہانوں کے بادشاہ کے گرد مدار میں چکر لگانے سے پانچ مہینے پہلے، اس نے گلیلیو خلائی کھوجی کو چھوڑا، جس کا مقصد مشتری کے کرہ فضائی میں داخل ہونا تھا۔ مدار گرد کو جلدی چھوڑنے کی وجہ سے اس کو اتنا موقع مل گیا کہ وہ حفاظت کے ساتھ کھوجی سے الگ ہو کر مشتری کے مدار میں جاسکے۔ کھوجی نظام کو صرف ایک سادے سے ٹائمر سے قابو رکھا گیا تھا اور اس کو داخل ہونے سے صرف ٦ گھنٹے پہلے جگایا گیا۔ ٧ دسمبر ١٩٩٥ء کو گلیلیو کھوجی 106,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حفاظت کے ساتھ داخل ہو گیا، وہاں پر درجہ حرارت سورج کی سطح سے دوگنا تھا اور تخفیف اسراع کی قوّت زمین کی قوّت ثقل کے مقابلے میں ٢٣٠ گنا زیادہ تک تھی۔ داخل ہوتے وقت کھوجی جس رفتار سے چل رہا تھا اس رفتار پر وہ لاس اینجلس سے سان فرانسسکو میں لگ بھگ دس سیکنڈ میں پہنچ جاتا۔








خاکہ 3.10 گلیلیو خلائی جہاز بالواسطہ طور پر دو سیارچوں کے قریب سے گزرا۔ خلائی جہاز کا پہلی مرتبہ سامنا اکتوبر ١٩٩١ء میں گسپرا (اوپر) اور آئیڈا کا اگست ١٩٩٣ء میں سامنا ہوا۔ آئیڈا کے چھوٹے چاند پر غور کریں جو صرف 1.4 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

نیچے گرمی میں اترنے کے بعد ایک بادبانی پیراشوٹ کھولا گیا، جس نے کھوجی سے پچھلا خول اتارا اور خاص پیراشوٹ کو باہر نکالا۔ دس سیکنڈ بعد گلیلیو نے گرمی سے بچنے کے لئےاپنی حفاظتی کی ڈھال کو کھول دیا۔ صرف ڈیڑھ سیکنڈ کے بعد، جب حرارتی ڈھال ٢٧ میٹر دور تھی، باضابطہ مہم شروع ہو گئی اور گلیلیو نے مشتری کے پٹیوں والے آسمانوں کی کھوج شروع کردی۔ اس نے حاصل شدہ اطلاعات کو اپنے سے ٥٧ منٹ کی دوری پر موجود گلیلیو مدار گرد کو 209,215 کلومیٹر دور بھیجنا شروع کردیا۔ مدار گرد کے اہم انٹینا کی ناکامی کی وجہ سے براہ راست حاصل کردہ اطلاعات کو بعد میں استعمال کیا جانا تھا۔









خاکہ 3.11 اوپ: گلیلیو خلائی کھوجی کی حرارت سے بچاؤ کی ڈھال آدھی سے زیادہ تو مشتری کے ماحول میں تیز رفتاری سے داخل ہونے کی وجہ سے اڑ گئی تھی۔ درمیان: کھوجی خود سے اپنے تمام تر سائنسی آلات کے ساتھ حرارتی ڈھال کے ساتھ ایک پیراشوٹ کے ذریعہ الگ ہو گیا تھا۔ نیچے: ہوائی سرنگ میں گلیلیو کھوجی کے پیراشوٹ کا امتحان۔

حاصل ہونے والے انجینئرنگ کے اعداد و شمار اس بات کی طرف عندیہ دے رہے تھے کہ کھوجی کا اترنا کچھ زیادہ ہموار نہیں تھا۔ گلیلیو نے تاروں میں ہونے والے مسئلے کی وجہ سے اطلاعات کو ٥٣ سیکنڈ دیر سے بھیجنا شروع کیا۔ کھوجی ہر پانچ سیکنڈ کے بعد پیراشوٹ کے نیچے گھوم جاتا تھا، اور بظاہر ٢٠ سے ٢٥ سیکنڈ میں ایک پورا چکر گھوم کر مکمل کر لیتا تھا۔ ٤٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والے ہواؤں نے اس تنہا ایلچی کو برجیسی بادلوں میں سے گرتے ہوئے مکے مار مار کر برا حال کر دیا تھا۔ اس کا پیراشوٹ شاید تباہ ہو گیا تھا، کیونکہ اترنے والی رفتار امید سے کہیں زیادہ تھی، اور پیراشوٹ کھولنے کے لئے بنائے گئے اسراع پیما کو خوش قسمتی سے پیچھے کی جانب رکھا گیا تھا، اس وجہ سے پیراشوٹ کا کھلنا خالص طور پر قسمت کی یاوری تھی۔[3] کھوجی نے اترتے ہوئے بجلی کی چمک کو دیکھا، وہ حیرت انگیز طور پر نایاب چیز تھی۔ مزید براں پانی اور دوسرے اجزاء کے علاوہ، گلیلیو نے امونیا کو بھی دیکھا جو عامل حصّوں میں ہوا کے اوپر کی طرف بہنے والی جگہ میں تھی۔

بہرحال گلیلیو گرتے ہوئے مرفی کے کائناتی قانون کا شکار بن گیا (یعنی کہ جو غلط ہو سکتا ہے وہ غلط ہی ہوگا)۔ ہرچند کے مہماتی منصوبہ ساز اس بات کی امید کر رہے تھے کہ وہ مشتری کی اوسط جگہ کا نمونہ حاصل کر لیں گے، کھوجی بدقسمتی سے ایک غیر معمولی گرم حصے میں گر گیا، جہاں پر تمام اہم بادل نایاب تھے۔ کھوجی بادلوں کو ناپنے والے آلات سے لیس تھا لیکن وہ آلات قریباً بھوکے ہی رہے۔ کھوجی نے کچھ اونچے عرض البلد پر امونیا کے بادلوں اور اس سے کچھ کم پانی کے بادلوں کو بھی دیکھا۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ جیسے نظام شمسی کی ارتقاء کے تمام نظریات غلط تھے۔

اے پی ایل کے رالف مک نٹ خبردار کرتے ہیں کہ کرۂ فضائی کی جانچ کرنے والے کھوجیوں کی ایک حد ہوتی ہے۔ "ہم نے گلیلیو کھوجی کو چھوڑا، اور کچھ عرصے کے لئے ہمارے پاس اطلاعات بھی آئیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اس پانی کا کیا ہوا، اور خیال کرتے ہیں کہ شاید ہم غلط جگہ چلے گئے جو کہ گرائے جانے والے کھوجیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ کام کرنا سب سے آسان ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت ہی زیادہ محدود علاقائی جگہ کو دیکھتے ہیں، لہٰذا آپ کو اس کو اچھی طرح معلوم نہیں ہوتا کہ پورے سیارے پر کیا چل رہا ہے۔"

جب تک کھوجی نے قیمتی اطلاعات کو حاصل کرنا جاری رکھا، اس وقت تک اندرونی درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ تیکنیکی عملہ سمجھتا ہے کہ کھوجی کی دھماکے دار آمد کے دوران گرم گیس اس کے گرد موجود خول میں شاید سیل کو توڑ کر داخل ہو گئی تھی۔ تجربات کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ وہ مخصوص درجہ حرارت میں ادا کئے جا سکیں اور کھوجی کا درجہ حرارت تیزی سے اس درجہ حرارت سے بڑھ گیا تھا۔ اس صورتحال نے ان سائنس دانوں کے سامنے ایک چیلنج رکھ دیا تھا جو مشتری سے آنے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کر رہے تھے۔ چند دن تک تو سائنس دان اس جدوجہد میں لگے رہے کہ آخر ہوا کیا تھا۔ بڑی جدوجہد کے بعد بالآخر تجزیہ کاروں نے اعداد و شمار کی گتھی سلجھانی شروع کی تاہم فضائی کھوجی کا ورثہ ابھی تک ہمارے لئے سیاروی ماحول اور موسموں کو جاننے کا اہم موڑ بنا ہوا ہے۔

گلیلیو مدار گرد نے مشتری کے گرد ٣٥ چکر آٹھ برسوں کے دوران لگائے۔ ہر چکر ایک طرح سے وائیجر کے چھوٹے سے چکر کو دہرانے جیسا تھا جس میں اس کا واسطہ شاندار مشتری اور اس کے درجنوں مہتابوں سے ہوتا تھا، اس میں وہ ہمہ وقت مقناطیسی کرہ کی ساخت اور بین السیاروی خلاء کا مطالعہ بھی کرتا رہتا تھا۔ اپنے اس طویل مہم کے اختتام پر کنٹرولر نے خلائی جہاز کو مشتری سے ٹکرانے کی ہدایت کی، جبکہ اس خلائی جہاز سے ہونے والی تباہی سے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ وہ یوروپا یا کسی بھی دوسرے چاند جو حیات کے لئے اصلاً موجود ہیں ان پر کوئی اثر نہ ہو۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 5

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

کیسینی اور ہائی گنز

٢٠٠٤ء میں اب زحل کے مدار میں چکر لگانے کی باری تھی۔ گلیلیو کی طرح بین الاقوامی کیسینی خلائی جہاز ایک مدار گرد اور فضائی کھوجی پر مشتمل تھا، لیکن اس کا کھوجی اس طرح بنایا گیا تھا کہ وہ زحل کے سیارے جتنے حجم کے چاند ٹائٹن کی چھان بین کر سکے۔

چھ میٹرک ٹن کا کیسینی مدار گرد اپنے انجن کو ٩٦ منٹ تک چلانے کے بعد زحل کے مدار میں جا کر بیٹھ گیا۔ صرف ١٥٠ دن پہلے، کیسینی نے آہستگی کے ساتھ یورپین اسپیس ایجنسی کے ہائی گنز خلائی کھوجی کو مختلف سے راستے پر چھوڑا جس نے آگے جا کر ٹائٹن کے راستے کو کاٹنا تھا۔ اس علیحدگی کی وجہ سے کیسینی اس قابل ہوتا کہ وہ کھوجی سے حاصل کردہ اطلاعات کو زمین تک براہ راست اس وقت پہنچا سکے جب کھوجی ٹائٹن کے کثیف فضائی کرہ میں سے گزرتا۔

اسکول بس کے حجم جتنا کیسینی اب تک اڑان بھرنے والا سب سے پیچیدہ خلائی کھوجی ہے۔ اس کے انتہائی جدید آلات زحل کے مقناطیسی میدانوں سے نکلنے والی موسیقی کو سنتے، چاند کی سطح اور حلقوں کی مختلف تصاویر حاصل کرتے اور زحل کی قطبی روشنیوں کو درج کرتے ہیں۔

ہرچند کے جہاز نے زحل کے نظام کے کافی پہلوؤں پر غور کیا، تاہم اس کا بنیادی مقصد دو مرحلوں کو عبور کرنا تھا، زحل اور اس کے سیارے کے حجم والے چاند ٹائٹن کی تحقیق کرنا۔ زحل کے گرد چکر لگاتے ہوئے زیادہ تر کیسینی ٹائٹن سے قریب ہو جاتا تھا۔ جب وہ اس کے قریب سے گزرتا تھا تو کچھ آلات کہر میں سے گھس کر سطح کی تصاویر لے لیتے تھے، جبکہ اس کے تمام تجربات کے پشتے فضائی کہر کی پرتوں، بادلوں اور سطح کے خدوخال کا مطالعہ کرتے۔ کیسینی نے ریڈار کی شعاعوں کو بھی کرہ فضائی کے اندر چھوڑا تاکہ سطح کی مفصل نقشہ بندی کر سکے بعینہ جیسے مجیلن نے زہرہ پر ١٩٩٠ء کی دہائی میں کیا تھا۔ زمین کی جانب دیکھنے سے جب کیسینی چاند کو پار کرکے اس کے پیچھے پہنچا، تب محققین نے اس سے آنے والے اشاروں کی تبدیلیوں کو کرۂ فضائی کی ساخت کی نقشہ بندی کرنے کے لئے درج کرنا شروع کیا۔ یہ کام زحل کے لئے بھی کیا گیا اور یہی تیکنیک کمیاب ماحول رکھنے والے دوسرے مہتابوں کے لئے اور حلقوں کے نظاموں کی کثافت کی نقشہ کشی کرنے کے لئے بھی اختیار کی گئی۔



خاکہ 3.12 کیسینی مدار گرد ای ایس اے کا ہائی گنز ٹائٹن کی کھوج کے لئے چھوڑ رہا ہے۔ایک مصوّر کی نظر میں اصل مہم سے پہلے کی تصویر۔

کیسینی کا قیمتی ساتھی ہائی گنز ١٤ جنوری ٢٠٠٥ء کو ٹائٹن کی فضاؤں میں اترا۔ کھوجی کو ٩ قطر کی حرارتی ڈھال میں لپیٹا ہوا تھا۔ ٹائٹن کی کم قوّت ثقل (زمین کے مقابلے میں دس گنا کم) اور کثیف ماحول میں کھوجی کو گلیلیو کے مقابلے میں کافی کم حفاظت درکار تھی۔ ٹائٹن کی کم قوّت ثقل اور اضافی کرہ فضائی نے اس کو سطح پر اترنے میں امید سے زیادہ مدد دی۔ انجینیروں کے اندازے کے مطابق ہائی گنز کو ماحول میں ١٣ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے داخل ہونا تھا، جس کے نتیجے میں ١٢ جی کی تخفیف اسراع کی قوّت لگنی تھی (جبکہ ہم اس کا موازنہ گلیلیو سے کریں تو اس پر ٣٥٠ جی کی قوّت لگی تھی)۔

ہائی گنز ایک شاندار کامیابی تھی۔ کھوجی کے اترنے کی ابتداء میں ہی ایک بڑے پیراشوٹ کے ذریعہ اس کی رفتار کو کم کیا گیا، لیکن بعد میں اس کو ایک چھوٹے پیراشوٹ کے ذریعہ اتارا گیا جس کی وجہ سے وہ نچلے کرۂ فضائی میں تیزی سے اترا تاکہ مدار میں موجود مدار گرد سے رابطہ قائم رکھ سکے۔ ہائی گنز کو گھومنے کے لئے بنایا تھا، لہٰذا اس سے حاصل ہونے والی تصاویر جو ڈی آئی ایس آر تصویری نظام - جو ایک جھری دار کیمرہ ہوتا ہے – سے لی گئیں تھیں سے ٣٦٠ درجے کی تصویر بنائی جا سکتی تھی۔

ہائی گنز نے نہ صرف بلند ارض بلد سے لی ہوئی شاندار تصاویر بھیجیں بلکہ با حفاظت اترنے کے بعد سطح کی بھی متحیر کر دینے والی تصاویر کو زمین پر روانہ کیا۔ "شروعات میں بھیجی جانے والی سطح کی تصاویر کے وقت میں جرمن میں ان قریبی لوگوں کے حلقے میں موجود تھا جنہوں نے وہ تصاویر دیکھی تھیں۔" منصوبے کے سائنس دان پیٹر اسمتھ کہتے ہیں، جن کو کافی سیاروی مہمات کا تجربہ ہے۔ "وہ شاندار تھیں۔ وہ اطالوی ساحلوں کا کوئی منظر لگ رہا تھا: راستہ پہاڑی سے نیچے اس جگہ آ رہا تھا جو سوکھی ہوئی جھیل لگ رہی تھی، اور منتقل ہوئی رخنی خط جیسے چیز دکھائی دے رہی تھی۔ بلاشبہ ہم جانتے تھے کہ بارش میتھین کی ہے اور چٹانیں پانی کی برف کی اور تمام جگہ پر ہائیڈرو کاربن موجود تھے، اس کے باوجود سطح کی شکل شناسا سی لگ رہی تھی۔ یہ میرے لئے کافی حیرت کی بات تھی۔"





خاکہ 3.13 ہائی گنز کھوجی کی ایک تصوراتی تصویر جس میں وہ ٹائٹن کی سطح پر اپنی حتمی منزل پر کھڑا ہے۔ اس کے پیچھے موجود سطح پر چھینٹوں کے نشان دیکھیں۔اسراع پیما سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ کھوجی اچھل کر گیلی مٹی پر پھسلا ہوگا۔

ہائی گنز کی اس شاندار کامیابی کے بعد، کیسینی نے انتہائی شاندار دریافتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ جس میں ڈائیونی اورٹیتھیس کی عجیب ٹیکٹونک، ششدر کر دینے والے آیاپیٹس کی استوائی ڈھلوانیں، انسیلیڈس کے برفیلے آتش فشاں، کئی موجیں، میخیں، اور حلقوں میں موجود دوسرے مظاہر اور پچھلے نہ جانے جانے والے چاندوں کا بھنڈار شامل تھا۔ ٹائٹن کے اس کے مطالعہ نے ہائی گنز کا ساتھ دیا، وسیع ریت کے سمندروں کی نقشہ سازی کی اور میتھین کے طوفان باراں، دریائی وادیوں، سنگلاخ پہاڑیوں اور قطبی علاقوں کے عظیم سمندروں کو بھی درج کیا۔ یہ سب کام خلائی جہاز کی لچک اور ہوائی انجینیروں کے ہنر کا کمال تھا، یہ مہم انسیلیڈس کے مشاہدے کی بھی تجربہ گاہ بن گئی تھی، اور اس نے اس ہیجان انگیز چھوٹے برفیلے چاند کے گرد بھی دوران اڑان کئی چکر لگائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
تیسرا باب - 6

ہم دیوہیکل سیاروں کے دیس میں کیسے پہنچے

مستقبل کے منصوبے


گلیلیو اور کیسینی سے ہمیں کافی زیادہ چیزیں معلوم ہوئی ہیں جو ہمیں اس بات کے لئے راضی کر رہی ہیں کہ گیسی دیو کے طرف مزید مہموں کو بھیجا جانا چاہئے۔ لیکن یورینس اور نیپچون بھی ہمیں بلا رہے ہیں۔ ہم نے مشتری کے گرد ایک چکر لگانے والے کو بھیجا۔ ہم نے زحل کے گرد ایک چکر لگانے والے کو بھیجا۔ ہم نے ان نظاموں کے بارے میں کافی باتیں سیکھیں، اور وہ ناقابل تصوّر طور پر زرخیز ہیں۔ برفیلے دیو بھی اتنے ہی زرخیز اور منفرد ہوں گے۔ ہم وہ چیزیں سیکھ سکتے ہیں جو ہم نے ابھی تک نہیں سوچی ہیں۔ کافی ایسی وجوہات موجود ہیں جس کی بنا پر ہم میں سے کئی نیپچون کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ ہمیں عامل ماحول کی ضمانت چاہئے۔ اور دوسرے یہ ہے کہ ٹرائیٹن کافی قائل کرنے والا ہے۔"


کیسینی امیجنگ ٹیم کی اعلیٰ تفتیش کار کیرولن پورکو اس بات پر راضی ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ بیرونی نظام شمسی کے بہت ہی کم نمونوں کو جانچ گیا ہے۔ مہمات کافی مہنگی تھیں کیونکہ ہدف کافی دور تھے اور ان کی جانچ کرنے میں کافی لمبا عرصہ درکار تھا۔ ارضی سیاروں کو سمجھنے کے لئے کافی دلچسپی موجود تھی کیونکہ ہم ان میں سے ایک پر رہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ فلکیاتی عمل کو جاننا چاہتے ہیں، تو آپ کو اندرونی نظام شمسی کے سیاروں کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے؛ آپ کو بیرونی نظام شمسی کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ سیارے جیسے نیپچون اور یورینس اس طرح سے ہیں کہ ان کے مقناطیسی میدان ان کے گھماؤ کے ساتھ قطار میں نہیں ہیں، بلکہ یہ تو سیارے کے مرکز سے بھی کافی دور ہٹے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر نیپچون تو تیسری قسم کا[بالکل ہی الگ] ہے۔ یہ نرالا ہے۔ اس کی وجہ ان کی تشکیل میں چھپی ہے۔ وہاں کافی چیزیں سیکھنی ہیں۔ لہٰذا میں اگر کائنات کی ملکہ ہوتی، تو میں کیسینی قسم کے مدار گرد یورینس اور نیپچون کے گرد رکھتی۔

اصل میں کافی برسوں پہلے سیاروی دہائی سروے نے یورینس پر مہم بھیجنے کو سر فہرست رکھا تھا۔

بہرصورت حیات کا مستقبل یا حیات سے ماقبل حالت دوسرے محققین کو زیادہ اہم لگتی ہے۔ کچھ ڈیزائنر ایک ایسے خلائی جہاز کا تصوّر کرتے ہیں جو مشتری کے گرد مدار میں چکر لگاتا ہوا یوروپا کا باقاعدہ نقشہ بناتا، اس کے اندرون کا عمومی مطالعہ کرتا اور اس کے گرد اڑان کے سلسلے کے دوران سطح کی خصوصیات بھی دیکھتا ہے۔ جدید کھوجیوں کو شاید اس کام پر بھی بھیجا جا سکتا ہے کہ وہ وہاں پر اتر کر برف کو کھودیں اور حیات کے اشاروں کو تلاش کریں۔

وائیجر کے وقت یوروپا فلکی ماہرین حیاتیات کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی۔ سمندر میں اترنے والی ایک برفیلی بوٹ اور ایک سب میرین کھوجی کا خیال کافی لبھانے والا ہے۔ لیکن اس مہتاب سے نمٹنے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ حیات کی میزبانی کرنے کے لئے کسی بھی سمندر کو سو کلومیٹر موٹی برف کی تہ کے نیچے موجود ہونا تھا۔ اس قشر میں سے گزرنا خوف ناک ہے۔ انٹارکٹکا میں واقع منجمد جھیلوں کے اندر تجربات کو کھوجی نمونوں کی مدد سے ادا کیا گیا جس میں حرارتی آلات کو برف پگھلانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا لیکن رابطے کی تار جو کئی میٹر سے لے کر کلومیٹر تک لمبی تھی وہ اس وقت پھنس جاتی جب اس کے اوپر موجود برف جم جاتی تھی۔ ایک اور برفیلا روبوٹ ہنی بی روبوٹکس نے بنایا [4]جس نے جھولتے ہوئے کھدائی کے تصوّر کو پیش کیا، ایک متحرک بل جیسا آلہ جس کو ایک بہت ہی بڑھیا رسی کے ساتھ لٹکایا جائے گا اور وہ اپنا راستہ کھودتا ہوا نیچے سمندر میں اتر جائے گا۔ ای ایس اے نے اس سے کہیں سادہ تداخل سوچا ہے جو مدار سے تیز رفتاری سے گرتے ہوئے خود کو براہ راست برف میں پیوست کر لے گا اس کو اتار نے کے نظام کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ کھوجی کے سامنے والے حصّے سے ٹکرانے والی برف کا تجزیہ اس کے اندرونی محفوظ حصّے میں لگے ہوئے آلات کر سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یوروپا کی سطح نیچے موجود سمندر کی چورا یا ریت کی طرح پھیلی ہوئی برف ہو، لیکن مشتری کی تابکاری فوری طور پر حیات کے ثبوتوں کو ختم کر دے گی۔

زحل پر ٹائٹن پر بھیجے جانے والے آتشی غباروں، چھوٹے ہوائی جہاز، ڈرون اور اجنبی چاند کی میتھین کی جھیلوں پر تیرتی ہوئی کھوجی کشتیوں پر بھی تحقیق کی گئی، ایک ایسی ہی مہم کا نام ٹائٹن مئیر ایکسپلورر (ٹائم) تھی جو ہفتوں یا مہینوں تک ٹائٹن کے میتھین کے دوسرے بڑے سمندر لیجیہ مئیر کی سطح پر تیر سکتی تھی۔ تحقیق نے بتایا کہ جھیل کی قدرتی رو کھوجی کو سمندر کے گرد مکمل چکر لگوا سکتی گی اور یوں وہ کافی علاقوں کے ماحولیاتی نمونے حاصل کر سکے گی۔

ایک اور اہم ہدف زحل کا چاند انسیلیڈس ہے۔ کیسینی نے اس کے چشموں سے براہ راست نمونے اڑنے کے دوران لئے اور جس میں اسے نامیاتی مادّے اور نمک ملا، جو زیر زمین سمندر میں ہونے والی ایک لمبے عرصے تک ہونے والی سرگرمی کی گواہی دے رہے تھے۔ کیرولن پورکو یوروپا کے مقابلے انسیلیڈس کو زیادہ پسند کرتیں جس کے ماحول میں تابکاری بھی کم ہے۔ "آپ کو اپنے خلائی جہاز کو دو فٹ سیسے کی حفاظتی ڈھال سے نہیں ڈھانپنا بڑے گا۔ صرف ایک مناسب آلات سے لیس خلائی جہاز لیں اور بڑے سالمات کی جانچ اور تشاکل کو ڈھونڈھیں۔ تشاکل حیات کی جانچ کا امتحان ہے۔ کسی دھوئیں کے اوپر سے گزریں اور ٹھوس اور بخارات کو لیں۔" پورکو یہ بھی کہتی ہیں کہ یوروپا پر کی جانے والی کھدائی انسیلیڈس پر کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ "جو بھی اس کے زیر زمین سمندر میں موجود ہے وہ ہمیں پکار رہا ہے۔ یہ قابل رسائی ہے۔ صرف آپ کو اتنا کرنا ہے سطح پر اترنا ہے، دیکھنا ہے اور اپنی زبان کو نکلنا ہے۔ عام طور پر ٩٠ فیصد ٹھوس اوپر جانے کے بعد ہی نیچے آتے ہیں۔"






خاکہ 3.14 یورپین اسپیس ایجنسی گینی میڈ مدار گرد کی مہم کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کا نام مشتری کے برفیلے چاندوں کا کھوجی یا جوس ہے۔ اس کو ٢٠٢٢ء میں خلاء میں بھیجا جائے گا، یہ مشتری میں ٢٠٣٠ءتک پہنچے گا اور اس کا دورانیہ تین سال کا ہوگا۔ رشیا انسٹیٹیوٹ فار اسپیس ریسرچ (ایکی) ایک گینی میڈ پر اترنے والے ممکنہ خلائی جہاز پر تحقیق کر رہا ہے۔

سیاسی مشقت اور مالی تعطل کے باوجود، بیرونی دنیا کی کھوج جاری رہے گی۔ پچھلی کئی دہائیوں میں ہونے والے انکشافات نے نے ثقافت، ٹیکنالوجی اور علم میں کافی ڈرامائی تبدیلی کی ہے جو سیاروی سائنس کی دریافت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اعلیٰ سیاروی سائنس دان جان سپینسر کہتے ہیں،" کسی بھی پچھلی نسل کے پاس اتنا کچھ کرنے کو نہیں تھا، لہٰذا ہم اس بات کی شکایات نہیں کرسکتے۔ ہم نظام شمسی کی کھوج کو پچھلے ٥٠ برس سے کر رہے ہیں، اور یہ ١٤٨٠ء سے لے کر ١٥٣٠ء تک جیسا ہی ہے۔ جو اس وقت ہوا تھا اس کا تصّور کریں: پرتگالی پہلے افریقی ساحل سے ہوتے ہوئے کورنوناڈو اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے اتنے وقت میں ہی نیا میکسیکو گئے۔ یہ بہت حیرت انگیز رہا ہوگا۔"

١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ءکے عشرے میں خلائی جہاز جن کے نام لونا، رینجر اور سرویئر تھے انہوں نے انسانیت کی خاطر پہلا قدم زمین سے اٹھایا، اور بالآخر اپالو کے خلا نوردوں کے لئے چاند تک پہنچنے کا راستہ کھولا۔ لونا اور رینجر کی طرح شاید وائیجر، گلیلیو اور کیسینی بیرونی تاریکی میں روشنی کے دیئے ہیں، ایک ایسی شمع جس کی روشنی کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے مہم جو راستے پر گامزن ہوں گے۔




خاکہ 3.15 ایک مستقبل کا چھوٹا ہوائی کھوجی جس کو ٹائٹن چاند کے آسمانوں میں اڑان بھرنی ہوگی۔ انسان اس کی پیروی کتنی جلدی کر پائیں گے؟




[1]۔مثال کے طور پر پائینیر یاز دہم کی ہلالی زحل کی لی گئی تصویر نمبر جی ٣ کو لینے کے لئے دو تصاویر کو دو مختلف فلٹروں سے گزارنے میں ٢٨ منٹ لگے۔

[2]۔پائینیر دہم اور یاز دہم اصل میں وہ پہلے اجسام ہوں گے جو ہمارے نظام شمسی کو چھوڑیں گے۔

[3]۔ پیراشوٹ اسراع پیما کو لگانے کے ساتھ ایک ایسے ہی مسئلہ کی وجہ سے جینیسس سولر ونڈ مشن کے واپسی کے کیپسول کو قریباً تباہی کے قریب پہنچنا پڑا، اور اس کو ہنگامی طور پر یوٹاہ صحرا میں ٢٠٠٤ء میں اترنا پڑا۔ اس بات سے قطع نظر جینیسس ایک کامیاب مہم تھی۔

[4]۔دیکھئے "مختلف مہتابوں کی برف" از میگھن روزن، سائنس نیوز ١٧ مئی ٢٠١٤ء۔ صفحہ ٢٠۔
 
Top