درد سے کہہ دو ٹھکانے سے رہے ! ۔۔ برائے اصلاح

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر رمل مسدس سالم مخبون محذوف
فاعلاتن فعلاتن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*********** --------------------***********
غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے !
درد سے کہہ دو ٹھکانے سے رہے !

صدقہِ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے !

ہم محبّت کو، عقیدہ نہ کریں!
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے !

سوزشِ جان فُزُوں ہے ، تو رہے !
ہم لگی دل کی بجھانے سے رہے !

روز آتے ہیں تو آئیں آلام
ہم تو مہمان بھگانے سے رہے !

دل کو بہلانے کی خاطر یارو
محفلیں روز سجانے سے رہے !

اب نہ دہرائینگے ہم کوئی دعا
پھر نیا درد جگانے سے رہے !

ہر سکوں مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے!، اب ہم تو منانے سے رہے !

اوپری دل سے یوں پوچھے گا اگر
حال اپنا تَو سنانے سے رہے !

کہنے کو کہہ تو دو کاشف لیکن
تیر لگنے پہ نشانے سے رہے !
*********** --------------------***********
جزاک اللہ
 
ازراہِ علم استفسار ہے کہ کیا یہ دونوں مصرعے محاورتاً درست ہیں؟

درد سے کہہ دو ٹھکانے سے رہے
تیر لگنے پہ نشانے سے رہے !
درد والا مصرع میرے خیال میں بالکل درست ہے، لیکن تیر والا مصرع شاید اتنا رواں نہیں ہے۔
استاد محترم کا منتظر ہوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
درد والا مصرع میرے خیال میں بالکل درست ہے، لیکن تیر والا مصرع شاید اتنا رواں نہیں ہے۔
استاد محترم کا منتظر ہوں۔
رواں یا سست کا مسئلہ نہیں بلکہ تعقید کا اور محاوراتی سقم کا معاملہ ہے جیسے کہ "ٹھکانے پہ رہا" جاتا ہے "ٹھکانے سے رہا" چہ معنی دارد؟ اسی طرح "نشانے پہ لگنے سے" بات درست ہے نہ کہ "لگنے پہ نشانے سے"۔ واللہ اعلم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
خوب ہے غزل۔
ٹھکانے سے رہنا تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن نشانے سے رہنا میں واقعی ابن رضا کی رائے مجھے درست محسوس ہوتی ہے۔
 
اصلاح اور کچھ اضافے کے ساتھ غزل پیش ہے۔
*********** --------------------***********
غم کی پونجی تو گنوانے سے رہے !
درد سے کہہ دو، ٹھکانے سے رہے !

صدقہِ دولتِ ہجراں ہی سہی
اشک اب ہم تو بہانے سے رہے !

اس محبّت کو، عقیدہ نہ کریں!
الجھنیں، اور بڑھانے سے رہے !

سوزشِ جان فُزُوں ہے ، تو رہے !
ہم لگی دل کی، بجھانے سے رہے !

روز آتے ہیں تو آئیں آلام !
ہم یہ مہمان، بھگانے سے رہے !

ہر سکوں، مجھ سے خفا ہو کے گیا
روٹھے!، اب ہم تو منانے سے رہے !

مردنی چہرے پہ پھیلی لیکن
قرض اک جاں کا چکانے سے رہے


اب نہ مانگیں گے، نئی کوئی دعا
پھر نیا درد، جگانے سے رہے !

اک نِدامت کا، گِراں بوجھ ہے جو
ہاں، وہ قِصّہ تو سنانے سے رہے !


اوپری دل سے یوں پوچھو گے اگر
حال اپنا تَو، سنانے سے رہے !

کہنے کو کہہ تو دیں کاشف، لیکن
ہر خلش دل کی، مٹانے سے رہے !
*********** --------------------***********
 
Top