’ڈاکٹروں کی قلت بہت بڑا چیلنج ہے‘

’ڈاکٹروں کی قلت بہت بڑا چیلنج ہے‘
عنبر شمسیبی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
150826205731_medical_students_class__624x351_bbc.jpg

Image captionپاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں
اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں میڈکل کالج کے چوتھے سال کے طلبا کی کلاس جاری ہے جس کا موضوع گلے کی بیماریاں ہیں۔
اس کلاس کے استاد عملی مظاہرے کے لیے ایک اصلی مریضہ کا معائنہ 20 طلبا کے سامنے کر رہے ہیں۔ چونکہ مریضہ مرد ڈاکٹروں سے معائنہ نہیں کروانا چاہتیں، اسی لیے استاد خواتین طلبا کو بلاتے ہیں۔
اس مظاہرے کے لیے انھیں خواتین طالبِ علموں کے چناؤ میں کوئی مسلہ نہیں ہے، کیونکہ کلاس میں 17 لڑکیاں ہیں اور صرف تین لڑکے ہیں۔
پاکستان میڈکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا کہنا ہے کہ قریبا 70 فیصد میڈکل طالبِ علم خواتین ہیں۔
ان کالجوں میں داخلہ آسان نہیں ہوتا۔ مجھے ایک کالج کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کے کالج میں 100 نشستوں کے لیے دس ہزار درخواستیں آتی ہیں۔ بعض کالج میں داخلے کے لیے 90 فیصد نمبر درکار ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم
میں نے ایک مرد طالبِ علم سے پوچھا کہ خواتین کیسے ان سے زیادہ نمبر لے لیتی ہیں۔ وہ میڈکل کے پانچوے سال میں ہیں اور کان، ناک اور گلے کی بیماریوں کے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا ’لڑکے باہر جاتے ہیں، اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ لڑکیاں گھر بیٹھتی اور رٹا لگاتی ہیں۔‘
یعنی خواتین طلبا کی کامیابی کی وجہ ان کی اپنی محنت نہیں ہے، بلکہ معاشرتی تقاضوں کے باعث ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق لڑکیوں کی اکثریت تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹری کا پیشہ اختیار ہی نہیں کرتیں۔
پی ایم ڈی سی کے پاس اندراج شدہ ڈاکٹروں کی فہرست میں صرف 23 فیصد خواتین ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لڑکیاں لڑکیوں کے مقابلے نہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف زیادہ متوجہ ہیں بلکہ وہ کام کو بھی اتنی ہی توجہ دیتی ہیں۔ تاہم، ایسی لڑکیاں بھی ہیں جو اپنے کریئر سے زیادہ شوہر کے تلاش میں ہوتی ہیں۔
150826204357_dr_javed_akram__624x351_bbc.jpg

’اس میں کوئی شک نہں کہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کر کے لڑکیوں کو اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں زیادہ آسانی ہوتی ہے اور کئی لڑکیاں رشتہ ڈھونڈنے کی نیت سے کالج میں داخلہ لیتی ہیں۔ میں ایسی سینکڑوں لڑکیوں کو جانتا ہوں جنھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔‘
بہت سے مرد اور خواتین ڈاکٹر یہ بات شاید کھل کر نہیں بتاتے کہ ایک میڈکل ڈگری اچھے رشتے کے لیےگارنٹی ہے۔
اس بات کی تصدیق کے لیے میں نے عائیشہ میرج بیورو چلانے والے جوڑے، کامران احمد اور وجیہہ کامران سے ملاقات کی۔
کامران نے مجھے بتایا کہ آدھے گاہک وہ والدین ہیں جو ڈاکٹر بہو کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ’اصل میں جب آپ اپنی بہو یا بیوی کا تعارف ڈاکٹر کے طور پر کرتے ہیں تو آپ کی جاننے والوں میں عزت بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹر لڑکی دیکھنے میں ذرا سی بھی خوب صورت ہو اور اس کی بول چال اچھی ہو تو اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔
لیکن ایک ڈاکٹر بیوی صرف نمائش کے لیے نہیں ہے، ہسپتالوں میں خواتین ڈاکروں کی غیر موجودگی پاکستان کے صحتِ عامہ کے نظام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل کی کمی ہے۔
یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ڈاکٹر شائستہ فیصل​
ایک طرف سرکاری میڈکل کالج میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو حکومت کی جانب سے ان کی فیس میں 35 لاکھ روپے کی رعایت ملتی ہے تو دوسری جانب ملک میں ڈاکٹروں کی بھی کمی ہے، خاص کر دیہاتی علاقوں میں جہاں خواتین صرف خواتین ڈاکٹروں سے ہی علاج کروانا پسند کرتی ہیں۔
ڈاکٹر شائستہ فیصل پی ایم ڈی سی کی رجسٹرار ہیں اور ان کی تحقیق کو بنیاد بنا کر کونسل نے فیصلہ کیا کہ داخلوں میں مرد اور خواتین کی تعداد برابر رکھنی چاہیے لیکن جب پی ایم ڈی سی کا یہ فیصلہ گذشتہ سال عام ہوا، تو اس پر بہت تنقید بھی ہوئی۔
پی ایم ڈی سی اصرار کرتا ہے کہ اس مسلے کا یہی بہترین حل ہے۔
ڈاکٹر شائستہ کا کہنا ’یہ کوٹہ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 50 فیصد داخلہ لڑکیوں اور 50 فیصد لڑکوں کے ہوں، یہ امتیازی قدم نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان لڑکوں کو داخلہ دے رہے ہوں جو محنت نہیں کرتے یا پڑھتے نہیں ہیں لیکن ڈاکٹروں کی قلت ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے وکیل شہزاد اکبر کا موقف مختلف ہے۔ ’اس کوٹے سے پی ایم ڈی سی لڑکیوں کوذہین ہونے پر سزا دے رہا ہے۔‘
شہزاد اکبر نے اس کوٹے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس کے خلاف ایک اور پٹیشن دائر ہوئی ہے۔
150826210236_kamran_ahmed__624x351_bbc.jpg

Image captionعائیشہ میرج بیورو چلانے والے کامران احمد
شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ یہ قدم غیر آئینی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ہسپتالوں میں خواتین کو سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پیشہ نہ چھوڑیں۔
کالم نگار فسی زکا کا بھی خیال ہے کہ حکومت اس کو داخلوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگانی چاہیے جو پیشہ چھوڑ رہے ہیں۔
’صرف خواتین ہی تو ڈاکٹری نہیں چھوڑ دیتیں، بہت سارے مرد بھی سی ایس ایس یا ایم بی اے کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین سال تک کام کرنے پر پابند کیا جانا چاہیے یا پھر وہ حکومت کو ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی سرکاری رقم واپس دیں۔
میڈکل کالج میں دو خواتین نے مجھے یقین دلایا کہ وہ ڈاکٹری نہیں چھوڑیں گی۔ تاہم، جب میں نے ان سے پوچھا کہ اگر ان پر اپنے خاندان یا کریئر کے درمیان چناؤ کرنے کے لیے مجبور کیا جائے، تو وہ کیا چنیں گی؟
بیس سالہ ایلیا خاور نے کہا ’میں انھیں منانے کی کوشش کروں گی لیکن اگر وہ نہیں مانے تو خاندان کو منتخب کروں گی۔‘
ان کی ساتھی منزا مقصود نے جواب دیا۔ ’میں بھی خاندان کو ہی چنوں گی کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان ہی اولین ہوتا ہے۔‘
 
کالم نگار فسی زکا کا بھی خیال ہے کہ حکومت اس کو داخلوں پر پابندی لگانے کی بجائے ان ڈاکٹروں پر پابندی لگانی چاہیے جو پیشہ چھوڑ رہے ہیں۔
’صرف خواتین ہی تو ڈاکٹری نہیں چھوڑ دیتیں، بہت سارے مرد بھی سی ایس ایس یا ایم بی اے کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹروں کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تین سال تک کام کرنے پر پابند کیا جانا چاہیے یا پھر وہ حکومت کو ان کی پڑھائی پر خرچ کی گئی سرکاری رقم واپس دیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ مناسب قدم ہوگا البتہ پابندی 3 کی بجائے 5 سال کی ہونی چاہئے
 

عثمان

محفلین
جب ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میڈیکل کا پروفیشن ان کی اولین ترجیح نہیں ، تو اتنا وقت ، توانائی اور سرمایہ کسی دوسرے رخ پر خرچ کریں۔
 

عزیزامین

محفلین
مکے جایاں گل نی مک دی جے دلوں نہ مُکائیے، یہ بات مرد ڈاکٹر حضرات کے لیے ہے ۔ مطلب آپ نے جوش جوش میں میڈیکل کا شعبہ چن تو لیا اب آپ کا فرض ہے اس پیشے کی حساسیت کو سمجھیں اور ریٹائرڈ ہونے تک اپنے آپ کو وقف کر دیں خواتین کی جاب نہ کرنی مجبوریاں ہو سکتیں ہیں۔
 
جب ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میڈیکل کا پروفیشن ان کی اولین ترجیح نہیں ، تو اتنا وقت ، توانائی اور سرمایہ کسی دوسرے رخ پر خرچ کریں۔
پیسہ تو ریاست کا خرچ ہو رہا ہے ۔ شوقیہ ڈاکٹر بننے والوں پر پیسہ ضایع نہیں کرنا چاہئے۔ سرکاری کالجوں سے ڈاکٹر بننے والوں پر پانچ سال تک ملک سے باہر نہ جانے اور لازمی ملک میں جاب کرنے کی پابندی ہونی چاہئے۔
خواتین کی جاب نہ کرنی مجبوریاں ہو سکتیں ہیں۔
جب نیت ہی اچھا رشتہ ڈھونڈنے کی ہے تو سرکار کا پیسہ جو دراصل عوام کا پیسہ ہے کو ضایع کرنے کی کیا تک ہے؟
البتہ جن خواتین کو تحفظ کے خدشات ہیں ان کو کام کے دوران پورا تحفظ دینے کے لئے حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے
 

آوازِ دوست

محفلین
اگر ڈاکٹروں کی کمی ہے تو کوٹہ سسٹم کی بجائے نئے میڈیکل کالجز بنائیں اور قدم قدم پر مریض بنانے والے کارخانے بند کریں فارغ التحصیل طلباء پر کثیر عوامی روپے کا تصرف اُنہیں اخلاقی طور پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی طرف لانے میں ناکام ہے تو اُنہیں قانونی طور پر پابند کیا جائے۔ یہاں سکولوں کے باہر اور بازاروں میں مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کی بھرمار ہے ہوٹلوں میں آپ کو کُچھ بھی کھلادیا جاتا ہے، دو نمبر اشیائے خوردنی سے دو نمبر دوائیوں اور عطائیوں تک ہر جگہ عوام تختہء مشق بنے ہوئے ہیں اور سیاستدان بیوروکریسی، بشمول اسٹیبلیشمنٹ سب پرائے گھر کی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ سب نچلے طبقے مسائل ہیں اِن سے ہمارا کیا لینا دینا ، بابر عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ جہاں سرکاری ڈاکٹرز موجود ہیں وہاں بھی صورتِ حال تشویشناک ہے۔میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے کا پالا مار لینے والے اکثر نونہال ایک مریضانہ قسم کے احساسِ تفاخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ساری زندگی اِن کا دامن نہیں چھوڑتا پھر جب اِنہیں سرکاری اسپتالوں میں غریب اور مفلوک الحال، پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوئے میلےکُچیلے مریضوں سے واسطہ پڑتا ہےتو اِن کے ماتھےپر تیوری کی شکن اپنی مستقل جگہ بنا لیتی ہے جبکہ پرائیویٹ ہسپتال میں یہی ڈاکٹر صاحبان آپ کو حُسنِ اخلاق کے علمبردار لگیں گے۔ گاؤں، دیہات میں پوسٹنگ ہو جائے تو یہ جوائین کر کے ڈیوٹی کرنے کی بجائے ٹرانسفر کروانے کے لیے سارا زور لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا شرمناک رویہ اور روپ دیکھنا ہو تو آپ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلیں جائیں۔ آپریشن کا اضافی سامان منگوا کر واپس میڈیکل سٹوروں پر فروخت کر دیا جاتا ہے اَب کسی کو کیا پتا دورانِ آپریشن کیا استعمال ہونا ہے کیا نہیں۔ آپ کو اگر ایسی ادویات لکھ کر دے دی جائیں جو ڈاکٹر صاحب کے کسی منظورِ نظر میڈیکل سٹور سے ہی مِل سکیں تو سمجھ جائیں کہ آپ کا سامنا ڈاکٹر کے روپ میں پیسہ اکٹھا کرنے والے ایک ذہنی مریض سے ہوچُکا ہے۔ کئی ڈاکٹر صاحبان نے ٹائینز کمپنی کے ملٹی وٹامنز جان بچانے والی ادویات کے طور پر لکھ کر لاکھوں کھرے کیے۔ ڈاکٹر صاحبان کو مخصوص کمپنی کی مہنگی ادویات تجویز کرنے پر اُن کی ڈیلی پریکٹس کے مطابق بڑے ہوشربا قسم کے پیکجز دیے جاتے ہیں۔ ایک گولی دس روپے میں مِل سکتی ہے مگر ڈاکٹر آپ کو دو سو روپے والی لکھ کر دے گا اور میکسیمم ڈوز تجویز کرے گا تکہ ہردو فریقین کی بہتری جلد از جلد ممکن ہو۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نام سے اِن کے سر پر ایک حفاظتی چھتری قائم ہے جو اِنہیں پاکستان میں ہر قسم کی من مانی کرنے کی بے لگام آزادی کے لیے کوشاں و کامیاب ہے۔ اگر ڈاکٹروں کو اُن کے پیشہ ورانہ ضابطہء اخلاق کا پابند بنادیا جائے اور اِن کی سرکاری نوکری کی صورت میں پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی جائے نیز مریضوں کی زندگی کے سمجھوتے پر اِن کی جُملہ حرام خوریوں کے تمام ذرائع بند کر دیے جائیں تو لوگ اِس لائن میں آنے سے پہلے سوچنا شروع کر دیں گے۔
 
اگر ڈاکٹروں کی کمی ہے تو کوٹہ سسٹم کی بجائے نئے میڈیکل کالجز بنائیں اور قدم قدم پر مریض بنانے والے کارخانے بند کریں فارغ التحصیل طلباء پر کثیر عوامی روپے کا تصرف اُنہیں اخلاقی طور پر پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی طرف لانے میں ناکام ہے تو اُنہیں قانونی طور پر پابند کیا جائے۔ یہاں سکولوں کے باہر اور بازاروں میں مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کی بھرمار ہے ہوٹلوں میں آپ کو کُچھ بھی کھلادیا جاتا ہے، دو نمبر اشیائے خوردنی سے دو نمبر دوائیوں اور عطائیوں تک ہر جگہ عوام تختہء مشق بنے ہوئے ہیں اور سیاستدان بیوروکریسی، بشمول اسٹیبلیشمنٹ سب پرائے گھر کی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہیں یہ سوچ کر کہ یہ سب نچلے طبقے مسائل ہیں اِن سے ہمارا کیا لینا دینا ، بابر عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ اصل المیہ تو یہ ہے کہ جہاں سرکاری ڈاکٹرز موجود ہیں وہاں بھی صورتِ حال تشویشناک ہے۔میڈیکل کالجز میں داخلہ لینے کا پالا مار لینے والے اکثر نونہال ایک مریضانہ قسم کے احساسِ تفاخر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ساری زندگی اِن کا دامن نہیں چھوڑتا پھر جب اِنہیں سرکاری اسپتالوں میں غریب اور مفلوک الحال، پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوئے میلےکُچیلے مریضوں سے واسطہ پڑتا ہےتو اِن کے ماتھےپر تیوری کی شکن اپنی مستقل جگہ بنا لیتی ہے جبکہ پرائیویٹ ہسپتال میں یہی ڈاکٹر صاحبان آپ کو حُسنِ اخلاق کے علمبردار لگیں گے۔ گاؤں، دیہات میں پوسٹنگ ہو جائے تو یہ جوائین کر کے ڈیوٹی کرنے کی بجائے ٹرانسفر کروانے کے لیے سارا زور لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا شرمناک رویہ اور روپ دیکھنا ہو تو آپ پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلیں جائیں۔ آپریشن کا اضافی سامان منگوا کر واپس میڈیکل سٹوروں پر فروخت کر دیا جاتا ہے اَب کسی کو کیا پتا دورانِ آپریشن کیا استعمال ہونا ہے کیا نہیں۔ آپ کو اگر ایسی ادویات لکھ کر دے دی جائیں جو ڈاکٹر صاحب کے کسی منظورِ نظر میڈیکل سٹور سے ہی مِل سکیں تو سمجھ جائیں کہ آپ کا سامنا ڈاکٹر کے روپ میں پیسہ اکٹھا کرنے والے ایک ذہنی مریض سے ہوچُکا ہے۔ کئی ڈاکٹر صاحبان نے ٹائینز کمپنی کے ملٹی وٹامنز جان بچانے والی ادویات کے طور پر لکھ کر لاکھوں کھرے کیے۔ ڈاکٹر صاحبان کو مخصوص کمپنی کی مہنگی ادویات تجویز کرنے پر اُن کی ڈیلی پریکٹس کے مطابق بڑے ہوشربا قسم کے پیکجز دیے جاتے ہیں۔ ایک گولی دس روپے میں مِل سکتی ہے مگر ڈاکٹر آپ کو دو سو روپے والی لکھ کر دے گا اور میکسیمم ڈوز تجویز کرے گا تکہ ہردو فریقین کی بہتری جلد از جلد ممکن ہو۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے نام سے اِن کے سر پر ایک حفاظتی چھتری قائم ہے جو اِنہیں پاکستان میں ہر قسم کی من مانی کرنے کی بے لگام آزادی کے لیے کوشاں و کامیاب ہے۔ اگر ڈاکٹروں کو اُن کے پیشہ ورانہ ضابطہء اخلاق کا پابند بنادیا جائے اور اِن کی سرکاری نوکری کی صورت میں پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگائی جائے نیز مریضوں کی زندگی کے سمجھوتے پر اِن کی جُملہ حرام خوریوں کے تمام ذرائع بند کر دیے جائیں تو لوگ اِس لائن میں آنے سے پہلے سوچنا شروع کر دیں گے۔
یہ جو مرد ڈاکٹر سرکاری کالجوں سے پڑھ کر بیرون ملک روزگار کے لئے چلے جاتے ہیں اور خواتین ڈاکٹر کورس کرنے کے بعد گھر بیٹھی جاتی ہیں ان کے اس رویے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
 

آوازِ دوست

محفلین
یہ جو مرد ڈاکٹر سرکاری کالجوں سے پڑھ کر بیرون ملک روزگار کے لئے چلے جاتے ہیں اور خواتین ڈاکٹر کورس کرنے کے بعد گھر بیٹھی جاتی ہیں ان کے اس رویے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
باہر جانے والے قیمتی زرِمبادلہ بھجوا کر بالواسطہ ملک کی بہتری میں شامل ہو جاتے ہیں تاہم اگرمُلکی عوام خود علاج کے لیے ایڑیاں رگڑ رہی ہو تو باہر سے آنے والا پیسہ کیا دُکھ دور کرے گا۔ جب تک طلب اور رسد کا توازن قائم نہ ہو آپ ڈگری لینے کے بعد لازمی 3 یا 5 سالہ سروس کی شرط کو داخلے کا جزوِ لازم بنا دیں اور نئے ڈاکڑ بنانےجتنا ہی ضروری ہے کہ جو موجود ہیں اُنہیں موثر اور فعال بنایا جائے نیز بے وسیلہ عوام کو بے ضمیر لوگوں کے ہاتھوں کُھلے شکار کے لیے بے یارو مددگار نہ چھوڑ دیا جائے۔
 
Top