مطالعہ تقلید

دیوان

محفلین
تمہید
اس موضوع کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے چند باتوں کو جاننا ضرورہے۔ سب سے پہلی بات جو اس سلسلے میں جاننی ضروری ہے کہ دینی علوم جس انداز سے آج مدون اور مرتب ہیں اس طرح رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔
علوم کی تدوین
بہت سے علوم صحابہ کرام ؓمیں رائج تھے لیکن ان کی زندگیاں جہاد میں گزریں، اس لیے تدوین (کتابی شکل)کے کام کی ان کو فرصت نہ ملی۔ گو کہ ان کی اصل رسول اللہ ﷺ کے دور میں تھی لیکن تدوین بعد میں ہوئی۔ مثلا:چاروں خلفائے راشدین اعلی درجے کے محدث تھے۔ لیکن خود ان سے کوئی حدیث کا مجموعہ ہمارے پاس نہیں۔ حدیث کی تدوین کا کام بعد میں ہوا۔ یا جیسے حضرت کعبؓ بہت بڑے قاری تھے۔ لیکن ان کی طرف سے اس علم پر کوئی تصنیف نہیں۔ البتہ بعد کے لوگوں نے اس کو مدون کردیا۔ اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے کام آسان فرما دیا۔
زمانے کے تقاضے
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں نے بہت سے مسائل پیدا کیے اور بہت سے وہ کام کیے گئے جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھے۔ مثلا قرآن پاک کو ایک مصحف (کتابی شکل) میں جمع کرنا رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں ہوا تھا لیکن حالات کے تقاضوں نے اس کی ضرورت پیدا کردی۔ چنانچہ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع کردیا گیا۔ اسی طرح آگے کے زمانے میں جب عرب و عجم کا ملاپ ہوا اور خالص عربیت کا ذوق کم ہوگیا اور ضرورت محسوس ہوئی تو قرآن پاک پر اعراب لگائے گئے، آیتوں کی علامتیں ڈالی گئیں، وقوف کی علامتیں لگائیں گئیں۔ یہ سب نبی کریم ﷺ کی حیات پاک میں نہیں تھا۔ان تمام باتوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دین پر سہولت سے عمل ہوجائے۔ اسی کو سامنے رکھتے علمائے امت نے دین کی تقویت یا اعانت کے تمام جائز طریقوں کو اختیار کیا۔ مساجد میں تنخواہ دار امام اور موذن کا تعین، قرآن پڑھانے کے لیے اجرت کی ادائیگی، مساجد میں وضو اور حاجات کی سہولت، جانمازوں اور قالین کا اہتمام، کتابوں کی تالیف و اشاعت، درس و تدریس، دعوت و تبلیغ، اصلاح باطن کے اعمال وغیرہ سب اس کی مثالیں ہیں۔
تدوین صرف و نحو
قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے بھی مختلف علوم وجود میں آئے جن کا وجود رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔مثلا دین کا کوئی طالب علم بھی علم النحو (عربی گرامر) پڑھے بغیر آگے نہیں چل سکتا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دور میں علم النحو بحیثیت علم موجود نہیں تھا۔ دیگر اسلامی علوم کی طرح اس کو بھی مدون کیا گیا اور اس کی اصطلاحات متعین کی گئیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بعد کے آنے والے ان علوم (لغت، صرف و نحو، منطق، بیان، تفسیر، حدیث وغیرہ) میں ان پچھلوں کا اتباع یا تقلید کرتے ہیں یعنی ان کی تحقیق کو تسلیم کرتے ہیں جس کے بغیر خود قرآن و حدیث کا سمجھنا محال ہے۔
تدوین حدیث
اسی طرح وقت اور حالات کے تقاضوں نے حدیث کی تدوین کی ضرورت پیدا کی چنانچہ علمائے دین نے اس کی طرف توجہ کی اور علم الحدیث کی بنیاد ڈالی جس میں حدیث اور سند حدیث پر بحث کی جاتی ہے اور ایسے اصول متعین کیے جن سے حدیث کی صحت اور عدم صحت کا پتہ چلایا جاسکے۔ اور جیسا کہ ہر علم میں ہوتا ہے کہ سمجھنے سمجھانے اور تبادلہ خیال میں سہولت کے لیے اس علم کی اصطلاحیں (مثلا: صحیح، حسن، ضعیف وغیرہ) بھی وجود میں آئیں ۔ علم الحدیث کے اصول اور اس کی اصطلاحیں سب اجتہادی ہیں۔یہ کام رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں تھا۔
امام مسلمؒ صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’(پہلے) لوگ (حدیث کی) سند کے متعلق پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے لیکن جب فتنہ عام ہوگیا تو پھر راوی سے سند کے متعلق پوچھ گچھ شروع ہوئی۔‘‘
یہاں تک کہ اہل علم نے سند کی تحقیق واجب (ضروری) قرار دے دی۔
تدوین فقہ
اسی طرح شریعت کی روشنی میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے فقہا نے فقہ کی تدوین کی اور اس میں تحقیق کے طریقے اور اصول بنائے۔ اس کی اصطلاحیں وجود میں آئیں (فرض، واجب سنت وغیرہ) اور تدوین فقہ کا کام سرانجام ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین کے تمام علوم اجتہادی ہیں ان معنوں میں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں موجود تو تھے لیکن اس طرح مدون (یعنی مرتب) نہ تھے جیسے بعد میں ہوگئے۔ اس تدوین و ترتیب سے ان علوم سے فائدہ اٹھانے میں سہولت ہوگئی۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا ہر شخص کا الگ الگ ہے، عالم اپنے علم کے مطابق ان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غیرعالم اپنی حیثیت کے مطابق۔ علوم چاہے دینی ہوں یا دنیاوی، ہر علم کا یہی حال ہے۔ کچھ لوگ علوم ایجاد کرتے ہیں، کچھ ان ایجاد کردہ علوم کو ترقی دیتے ہیں اور باقی لوگ ان کی کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ درحقیقت ہر عالم اپنی تحقیق کا مدار پچھلوں کی ثابت شدہ تحقیق پر رکھتا ہے۔
ایک تاریخی حقیقت
ایک تاریخی حقیقت جو انتہائی اہم اور ذہن نشین کرنے کے قابل ہے وہ یہ کہ فقہ کی تدوین پہلے ہوئی اور حدیث کی تدوین بعد میں۔ فقہا نے فقہ کی تدوین اور اس میں تحقیق کے طریقے پہلے بنا لیے جب کہ محدثین نے یہ کام بعد میں کیا۔ بلکہ حدیث کے مجموعے فقہا کی دی گئی ترتیب کے مطابق تیار کیے گئے ہیں۔ تدوین فقہ کا دور رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے قریب کا تھا۔ یہ تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ تھا۔ اس دور کے علما کے لیے سنت رسول ﷺ کو جاننے کے لیے صحابہ کرام کا عملی نمونہ موجود تھا۔ اسی لیے اس وقت کے علمائے کرام کے نزدیک تعامل (عمل) صحابہؓ کی بہت اہمیت تھی۔ اور خیرالقرون میں تعامل صحابہؓ (یعنی صحابہ کرام ؓکا عمل) ہی معیار سنت تھا۔ انہوں نے اختلاف احادیث کے وقت ردوقبول میں بھی اور حدیث کے مفہوم کی تعیین میں بھی اصل معیار تعامل صحابہؓ و تابعینؒ کو ٹھہرایا۔ ابتدائی دور کے فقہا کے نزدیک سب سے بڑی دلیل صحابہ ؓکا عمل تھا۔ اس دور کے فقہا کثرت روایت سے زیادہ کثرت تعامل کا اعتبار کرتے ہیں۔ تعامل صحابہ کو معیار بنانا عین فطری بات ہے اس لیے کہ وہ مقدس ہستیاں حیات رسول ﷺ کی عینی شاہد تھیں اور کسی واقعے کے بارے عینی شاہد ہی سب سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ وہ فقہا جن کے سامنے یہ عملی نمونے موجود نہیں تھے انہوں نے اختلاف حدیث کے وقت نقد روایات (روایات کا صحیح یا غیر صحیح ہونا) کا معیار روایوں پر رکھ لیا۔ پہلے دور میں پرکھنے کا معیار پوری جماعت (صحابہؓ اور تابعینؒ) کے تعامل پر تھا بعد میں یہ اشخاص پر آگیا۔ اہلسنت و الجماعت کی یہی فضیلت ہے کہ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا عمل اور ان کے صحابہ کرامؓ کا عمل بھی قابل حجت ہے۔ اسی سے عنوان، اہلسنت والجماعت نکلا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک حدیث کی تعریف یہ ہے:
رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین کے قول فعل و تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔کبھی اس کو اثر اور خبر بھی کہتے ہیں۔
اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الرقاق)
عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو اُن کے بعد ہوں گے۔‘‘
اسی لیے حدیث کی کتابوں میں صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال اور اعمال کا ذکر بھی موجود ہے۔
عملِ صحابی کی مثال: وكان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض على لحيته فما فضل اخذه۔ الحدیث (صحیح البخاری، کتاب اللباس)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی ( ہاتھ سے ) پکڑ لیتے اور ( مٹھی ) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے ۔
صحابی کا فتوی: لا ناخذ بقولک و ندع قول زید۔الحدیث (صحیح البخاری، کتاب الحج)
بعض لوگوں نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے ایک مسئلہ پوچھا اور ان کا جواب سننے کے بعد بولے: ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں یعنی ان کے فتوے کو چھوڑ دیں۔
قول تابعی: قال عطا آمین دعا ۔ الحدیث (صحیح البخاری، باب جہرالامام بالتامین)
یعنی عطاؒ (تابعی) نے فرمایا: کہ آمین دعا ہے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
علم کے درجے
سورۃ توبہ کی آیت 122 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وما كان المؤمنون لينفروا كافة فلولا نفر من كل فرقة منهم طائفة ليتفقهوا في الدين ولينذروا قومهم إذا رجعوا إليهم لعلهم يحذرون o
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کی دو جماعتیں تھیں: ایک وہ جو علم کے شغل میں رہتی تھی، دوسری وہ جو جہاد کے عمل میں لگی رہتی تھی۔ اس دوسری جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ اہل علم سے علم سیکھو، اسی کو اتباع یا تقلید کہتے ہیں۔
یہ آیت تو ہر مسلمان کو یاد ہے جس میں وہ اپنے رب سے ان لوگوں کے اتباع کی دعا کرتا ہے جس پر اس کا انعام نازل ہوا۔ اس اتباع کو فقہ میں تقلید کہا جاتا ہے۔
اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم (الفاتحہ)
ہم کوسیدھےرستےچلاان لوگوں کےرستےجن پرتواپنافضل وکرم کرتارہا۔
حدیث
عن ابي مسعود ليلني منكم اولو الاحلام والنهى ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم (الحدیث) (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے قریب عاقل و سمجھدار صحابہ کھڑے ہوں، پھر جو عقل و فہم میں دوسرے درجہ پر ہوں پھر جو عقل و فہم کے تیسرے درجے پر ہوں۔ ‘‘
فائدہ:
یعنی علم کے اعتبار سے سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔
شرعی احکام کی قسمیں
ایک اور اہم بات جو اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے وہ شرعی احکام کی قسمیں ہیں۔شرعی احکام کی دو قسمیں ہیں:
i)ایک وہ جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود ہے ۔
ii) دوسری قسم وہ ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں براہ راست حکم موجود نہیں ہے۔
حدیث
عن معاذ انّ رسول اللّه صلى الله عليه وسلم بعث معاذًا الى اليمن فقال ‏كيف تقضي ‏ ‏ فقال اقضي بما في كتاب اللّه ‏قال ‏ فان لم يكن في كتاب اللّه ‏ ‏ ‏ قال فبسنّة رسول اللّه صلى الله عليه وسلم ‏‏ قال ‏ ‏ فان لم يكن في سنّة رسول اللّه صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ ‏‏ قال اجتهد رايي ‏ قال ‏ ‏ الحمد للّٰه الّذي وفّق رسول رسول اللّه صلى الله عليه وسلم۔ (ترمذی، کتاب الاحکام عن رسول اللہ ﷺ، ابوداؤد کتاب الاحکام عن رسول اللہ)
روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ان سے پوچھا:’’جو مسئلے تمہارے سامنے آئیں گے ان کا فیصلہ کیسے کرو گے؟‘‘ انہوں نے کہا:’’کتاب اللہ سے۔‘‘ فرمایا (رسول اللہ ﷺ نے): ’’اگر کتاب اللہ میں نہ ملا؟‘‘انہوں نے کہا:’’تب سنت رسول ﷺ سے۔‘‘ فرمایا (رسول اللہ ﷺ نے): ’’اگر سنت رسول ﷺ سے نہ ملا؟‘‘ انہوں نے کہا:’’اپنی رائے سے۔‘‘ (یعنی اجتہاد سے)۔
اس حدیث میں مجتہد کے لیے دلائل کی ترتیب یہ آئی ہے(1) کتاب اللہ (2) سنت رسول اللہ ﷺ (3) اجتہاد مجتہد۔
سورۃ نساء آیت 59میں ہے:
فان تنازعتم في شيء فردوه الى الله والرسول (الآیۃ)
پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ (یعنی قرآن) اور رسول (یعنی سنت) کے حوالے کردو۔
اہل سنت و الجماعت کے یہاں بھی مسائل کے حل کے لیے دلائل کے یہی ذرائع ہیں۔ (1) کتاب اللہ (2) سنت رسول اللہ ﷺ (3) اجتہادِ مجتہد۔
اجتہاد
: وہ طریقہ کار جس سے شریعت کا حکم معلوم ہوجائے اس کا نام اجتہاد ہے۔یہ بات تو ہر شخص سمجھتا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حالات بے حد و بے حساب ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ ہر واقعے کے بارے میں نص (قرآن و حدیث) موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ جب نصوص محدود اور واقعات و حالات لامحدود تو لازماً حکم شریعت معلوم کرنے کے لیے نصوص میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس غور و فکر کو اجتہاد کہتے ہیں۔
البتہ اجتہاد کے باب میں اہلسنت و الجماعت ان تمام اجتہادات، جن پر پہلے دور میں صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں علمائے امت، اتفاق یعنی اجماع کرچکے ہیں اس کو بھی دلیل مانتے ہیں۔ جیسے ابوبکرؓ کی خلافت کا قیام۔ رمضان کے پورے مہینے میں بیس رکعتوں کے ساتھ تراویح کی ادئیگی، ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی ماننا، جن پر سیدنا عمرؓ کے دور میں اجماع ہوگیا۔ قیاس کو وہ اس اعتبار سے دلیل مانتے ہیں کہ وہ اجتہاد کا طریقہ ہے۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے اس کو ہم اسی کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
ويتبع غير سبيل المؤمنين
یعنی جب مسلمان کسی بات پر جمع ہوجائیں یعنی اجماع کرلیں تو اس سے الگ راہ جہنم کا راستہ ہے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
اجماع
حقیقت اجماع یہ ہے کہ کسی زمانے کے تمام علما کسی دینی مسئلہ پر متفق ہوں گو بعض کا اس میں اختلاف بھی ہو۔ اہل علم کے اس طرح کے اتفاق کو شریعت کی اصطلاح میں اجماع کہاجاتا ہے۔ اجماع کی ایک مثال سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کا انعقاد ہے۔ اجماع کی ایک اور مثال تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین (ہاتھ اٹھانے) کا مسئلہ ہے جس پر تمام مجتہدین متفق ہیں اس لحاظ سے یہ ایک مسئلہ اجماعی ہوگیا۔ اجماع کی ایک اور مثال صحیح بخاری کو قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب مانا جانا ہے۔ حالانکہ اس پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل نہیں لیکن علمائے اسلام نے دلائل کی روشنی میں اس کو طے کردیا ہے۔ اسی لیے اجماع اہل سنت و الجماعت کے نزدیک شرعی مسائل کی ایک دلیل ہے۔ ایسا مسئلہ جس پر اجماع ہوچکا تو اب اس کو موضوع بحث نہیں لایا جائے گا۔ اب اگر کوئی ان اجماعی امور کے خلاف بات کرے گا تو اس کو خلاف شریعت کہا جائے گا۔
قیاس
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
فاعتبروا یا اولی الابصار (الحشر: 2)
عبرت حاصل کرو، اے بصیرت والو
اعتبار یا عبرت کہتے ہیں کسی گزرے ہوئے واقعہ سے سبق حاصل کرنا۔ فقہا کی اصطلاح میں اس کو قیاس کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اس کوAnalogy (مماثلث) کہا جاتا ہے۔ قیاس اجتہاد کا ایک طریقہ ہے جس میں معلوم مسئلے کے ذریعے نامعلوم مسئلے کا حل دریافت کیا جاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں نامعلوم مسئلے کی نظیر معلوم مسائل میں ڈھونڈی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں جو اصول شریعت مطہرہ نے دیے
حدیث معاذ میں حضرت معاذؓ نے مسئلے کا حل معلوم کرنے کا آخری طریقہ ذکر فرمایا ہے وہ اجتہد برائی یعنی :’’اپنی رائے سے اجتہاد‘‘۔ مناسب ہوگا کہ رائے کی قسمیں بیان کردی جائیں۔ رائے کی تین قسمیں ہیں:
) رائے کی پہلی قسم وہ ہے جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
) ایسی رائے سے دین کے مسئلے گھڑنا جس کی بنیاد نہ کتاب ہو نہ سنت ہو۔ ایسی رائے کو بدعت کہتے ہیں
) رائے کی تیسری قسم وہ ہے جو قرآن و سنت کی تشریح کے لیے ہو۔ سیدنا معاذؓ نے فرمایا تھا: اجتہد برائی ’’اپنی رائے سے۔‘‘ اس سے یہی رائے مراد ہے۔
حدیث
عن ابي هريرة ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ولد لي غلام اسود فقال هل لك من ابل قال نعم قال ما الوانها قال حمر قال هل فيها من اورق قال نعم قال فانى ذلك قال لعله نزعه عرق قال فلعل ابنك هذا نزعه۔(صحیح البخاری، کتاب الطلاق)
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور بولا:’’میری بیوی نے کالا بچہ جنا ہے تو میں نے (اس کو اپنا بچہ ماننے سے) انکار کردیا ہے (کیونکہ میں سفید ہوں)۔‘‘ تب رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا:’’کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟‘‘اس نے کہا:’’جی ہاں!‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کا رنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’سرخ۔‘‘ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:’’ان میں کوئی سیاہی مائل بھی ہے؟ اس نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ تب آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:’’وہ کیسے ہوگیا؟‘‘ اس (دیہاتی) نے کہا:’’بنیاد کا اثر ہوگا۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ بھی کوئی بنیاد ہوگی جو ظاہر ہوگئی۔‘‘ اس لیے آپ ﷺ نے اسے نفی کرنے (لعان) کی اجازت نہیں دی۔
حدیث
عن ابن عباس ان امراة جاءت الى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت ان امي نذرت ان تحج فماتت قبل ان تحج افاحج عنها قال نعم حجي عنها ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضيته ؟ قالت نعم فقال : اقضوا الله الذي له فان الله احق بالوفاء۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی پاک ﷺ خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی لیکن حج سے قبل ہی وفات پاگئی تو میں اس کی طرف سے حج کرلوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں اس کی طرف سے حج کر۔‘‘ پھر آپ ﷺ نےفرمایا: ’’اگر اس پر کسی کا قرضہ ہوتا تو کیا اسے ادا کرتی؟‘‘ اس عورت نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر قرض والے کا قرضہ کرو تو اللہ تو اس بات کا زیادہ حق دار ہے ہے اس کا قرضہ ادا کیا جائے۔‘‘
· ان دو حدیثوں سے قیاس کا ثبوت ملتا ہے۔
· ‏حدیث 3 میں رسول اللہ ﷺ نے انسان کے بچے کو اونٹ کے بچے پر قیاس فرمایا۔
· ‏حدیث 4میں آپ ﷺ نے ادائیگی حج کو ادائیگی قرض پر قیاس فرمایا۔
اسی طرح جب کسی مسئلہ میں شریعت میں براہ راست حکم نہیں ہوتا تب قیاس کے ذریعے سے شریعت کا حکم معلوم کیا جاتا ہے۔
قیاس کی مثالیں
أ‌) سیدنا ابوبکر کی خلافت کا انعقاد حضرت عمرؓ کے اجتہاد سے ہوا۔ اس بارے میں نہ کوئی آیت پیش کی گئی نہ ہی کسی حدیث کا حوالہ دیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ قیاس فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکرؓ کو نماز میں ہم سب کا امام بنایا تھا، اسی پر قیاس کر کے ہم احکام سلطنت میں بھی آپؓ کو اپنا امام بناتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ کے الفاظ تھے:
يا معشر الانصار الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد امر ابا بكر ان يؤم الناس قالوا بلى قال فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر قالت الانصار: نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر۔ (مسند احمد، صحیح)
اے انصاریو! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓکو حکم فرمایا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں؟ ان (انصاریوں) نے جواب دیا کیوں نہیں، اس پر عمرؓ بولے پھر تم میں سے کس کا جی چاہے گا کہ ابوبکر ؓسے آگے بڑھے، انصار بولے: ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ابوبکرؓ پر سبقت لے جائیں۔
اس اجتہاد کی تقلید سب سے پہلے خود عمرؓ نے ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے کی جس کے بعد دوسرے صحابہ نے بھی اس کی تقلید کی۔
ب‌) صحیح بخاری کتاب المغازی میں ایک روایت میں آتا کہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ روانہ فرمایا جس کا ایک امیر مقرر فرمایا اور باقی لوگوں کو امیر کی اطاعت کا حکم فرمایا۔ کسی سبب سے امیر لشکر کو غصہ آگیا اور انہوں ایک آگ روشن کروائی اور لشکریوں کو اس آگ میں داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ اولا تو لوگوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کرلیا لیکن بالآخر رک گئے اور بولے:
فررنا الى النبي صلى الله عليه وسلم من النار
رسول اللہ ﷺ کا حکم اتباع امیر کا تھا لیکن صحابہ کرامؓ اس آگ کو نار جہنم پر قیاس کرکے آگ میں داخل نہیں ہوئے۔ اس کی تصدیق آپ ﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے جو اسی روایت میں ہے:
لو دخلوها ما خرجوا منها الى يوم القيامة
اگر یہ لوگ (اس آگ میں) داخل ہوجاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکلتے۔
ت‌) شراب پینے کی حد اسّی (۸۰) کوڑے ہے۔ اس حد کی بنیاد کوئی قرآنی آیت ہے نہ کوئی حدیث بلکہ یہ حد قیاس (بہتان) کی بنیاد پر مقرر کی گئی ہے۔
ث‌) نفاس کے بارے میں شریعت میں کوئی براہ راست حکم موجود نہیں ہے۔ البتہ حیض والی عورتوں سے دور رہنے کی وجہ خود قرآن میں ناپاکی بتائی گئی ہے۔ یہ اس حکم کی علت ہوگئ چنانچہ اسی علت (ناپاکی) کو سامنے رکھتے ہوئے نفاس کو حیض پر قیاس کرلیا گیا ہے اور اس کے مسائل بھی طے کرلیے گئے۔
ج‌) شریعت میں بھینس کے دودھ یا گوشت کے استعمال کے بارے میں کوئی براہ راست حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ بھینس کو گائے پر قیاس کرکے اس کے مسائل طے کرلیے گئے ہیں۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
شرعی احکام کی قسمیں اور اجتہاد کے مواقع
شرعی احکام یعنی منصوص احکام یعنی جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
أ‌) متعارض
ب‌) غیر متعارض
ا) متعارض: اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ حکم موجو دہیں۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ان حکموں کی تاریخی ترتیب کیا ہے۔ بعض اوقات احادیث ہی سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے مثلا آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ پہلے میں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب اجازت دیتا ہوں (صحیح مسلم)۔ چنانچہ وہ احادیث جن میں زیارت قبور کا منع فرمانا آیا ہے وہ اس حدیث سے منسوخ ہوگئیں (حاشیہ: [1])۔ اس مسئلے میں ہمیں معلوم ہے کہ کون سی حدیث پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی۔ اس علم کی وجہ سے اس مسئلے میں ایک حکم متعین کرنا ممکن ہوتا ہے (حاشیہ: [2])۔لیکن بعض اور احادیث کے سلسلے میں اس طرح کی وضاحت نہیں ملتی۔ اس میں یہ طے کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کون سی حدیث پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی۔ اس موقع پر اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے (حاشیہ: [3])۔اس کی مثال رکوع و سجود کے وقت رفع یدین کا مسئلہ ہے۔ صحیح بخاری، سنن نسائی، مسند احمد وغیرہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین فرماتے تھے۔ جب کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سمرۃؓ سے فرمایا:
’’کیا ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ مست گھوڑوں کے دم ہیں، نماز میں سکون پکڑو۔ ‘‘
عبداللہ ابن مسعود کی حدیث ہے کہ انہوں نے کہا:
’’کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟‘‘ پھر آپؓ نے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔ (مسند احمد، صحیح، سنن ابوداؤد، صحیح ، سنن النسائی، صحیح)
اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سا حکم پہلے کا ہے اور کون سا بعد کا۔ ایسے موقع پر اجتہاد (غور و فکر) اور دیگر نصوص پر توجہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔اور مجتہد کسی ایک عمل کو راجح (ترجیح دینا) قرار دے کر اس پر عمل کو اختیار کرتا ہے اور دوسرے کو مرجوح (ترجیح نہ دینا) قرار دے کر اس پر عمل ترک کرتا ہے۔ ایسا ہونا شریعت کے خلاف بھی نہیں۔ یہ چیز صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ احادیث جن کی تاریخی ترتیب ہمیں نہیں معلوم ہے اس وقت تمام حدیثوں پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔ نماز میں رفع یدین کا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ظاہر ہے جو رفع یدین کا قائل ہوگا وہ رفع یدین نہ کرنے والی حدیثوں کو ترک کر رہا ہوگا۔ اسی طرح جو رفع یدین نہ کرنے کا قائل ہوگا وہ رفع یدین کرنے والی حدیثوں پر عمل نہیں کرسکے گا۔
حدیث
حضرت ہذیل بن شرحیبل کی روایت ہے کہ حضرت ابوموسی اشعریؓ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔ پھر وہی مسئلہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے بھی پوچھا گیا اور حضرت ابوموسی اشعریؓ کے فتوی کے بارے میں ان کو بتادیا گیا تو عبداللہ ابن مسعودؓ نے کچھ اور فتوی دیا۔ ان کے فتوے کی خبر حضرت موسی اشعریؓ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا:
لا تسئلونی عن شيءما كان هذا الحبر بين اظهركم (صحیح البخاری، کتاب الرضاعۃ)
جب تک اتنے بڑے عالم تم لوگوں میں موجود ہیں تو تم مجھ سے مت پوچھا کرو۔
فائدہ:
اس روایت سے چند فائدے حاصل ہوئے:
· حضرت ابوموسی اشعریؓ کا حضرت عبداللہ ابن مسعود پر حسن ظن تھا جس کی بنیادپر انہوں نے لوگوں مسائل کے لیے ان کی طرف رجوع کرنے کا ارشاد فرمایا۔
· صحابہ کرام فتوی دیا کرتے تھے۔
· ایک ہی مسئلہ میں صحابہ کرامؓ کے فتووں میں فرق ہوجاتا تھا۔
· حضرت موسی اشعریؓ نے فتوی لینے کے لیے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو متعین کردیا جس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ایک متعین عالم سے فتوی لینے کو شریعت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔ بعد میں اس کو اصطلاحا تقلید شخصی کہا جانے لگا۔
أ‌) غیرمتعارض: جن مسائل میں نصوص آپس میں متعارض نہیں ہوتیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
محکم
: اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اس کا کوئی دوسرا مطلب ممکن نہیں۔ ان مسائل میں جو منصوص ہیں (یعنی قرآن و حدیث میں ان کا ذکر ہے) اور جو کسی دوسری نص (آیت یا حدیث)سے متعارض نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے معنی میں اختلاف ہے۔ ایسے مسائل دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں بلکہ ایسا کرنا جائز ہی نہیں۔ اس کی مثال تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین (نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہہ کر ہاتھوں کا اٹھانا) ہے جس پر تمام ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے۔ یا بکری کے حلال ہونے اور خنزیر کے حرام ہونے میں بھی کوئی اختلاف نہیں (حاشیہ: [4])۔
محتمل
: یہ احتمال سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے ایک سے زیادہ معانی ممکن ہوسکتے ہیں۔ وہ مسائل جن میں نص تو موجود ہے لیکن اس میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال )امکان (ہے (حاشیہ: [5])۔ اس طرح کا ایک مسئلہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث جو صحیح بخاری میں ہے:
لا صلاة لمن لم يقرا فيها بفاتحة الكتاب۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ)
اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
جب کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آتا ہے:
و اذا قرا فانصتوا۔
جب وہ (امام) قرات کرے تو تم خاموش رہو۔
اور مسند امام احمد میں صحیح حدیث ہے:
عن ابي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما جعل الامام ليؤتم به فاذا كبر فكبروا واذا قرا فانصتوا۔
ابوہریرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’امام تو اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، پس جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘
عن ابي نعيم وهب بن كيسان انه سمع جابر بن عبد الله يقول من صلى ركعة لم يقرا فيها بام القرآن فلم يصل الا ان يكون وراء الامام۔ (سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، حسن صحيح)
ابو نعیم وھب بن کیسان بتاتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہؓ کو فرماتے سنا کہ جو کوئی ایک رکعت بھی ایسی پڑھے جس میں الحمد نہ پڑھی ہو تو اس کی نماز نہیں ہوئی بجز اس صورت کے کہ اس نے امام کے پیچھے (نماز) پڑھی ہو۔
اور قرآن پاک کی آیت ہے:
و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون (الاعراف: 204)
آیت اور حدیثوں سے معلوم ہوا کہ امام کی قرات کے وقت مقتدی کو خاموش رہنا ہے۔ یعنی امام کی قرات مقتدی کے لیے کافی ہے۔
یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں لیکن ان سے فاتحہ خلف الامام پر ایک رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس کی ایک اور مثال بنی قریظہ والی حدیث ہے۔
عن عبد الله قال نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الاحزاب ان لا يصلين احد الظهر الا في بني قريظة فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة وقال آخرون لا نصلي الا حيث امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وان فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير)
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جنگ خندق کے دن میں صحابہؓ سے فرمایا کہ عصر کی نما بنی قریظہ (کی بستی) میں پہنچنے سے پہلے کوئی نہ پڑھے۔ لیکن صحابہ( کو تاخیر ہوگئی اور) عصر کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہوگیا اس پر بعض صحابہؓ نے بنی قریظہ پہنچے سے پہلے ہی نماز پڑھ ڈالی اور بعض دوسروں نے کہا کہ نے کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق (بنی قریظہ) نہ پہنچ جائیں چاہے وقت ختم ہوجائے، (پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ کے سامنے پیش ہوئی تو) آپ ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں کی۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض حدیثوں کا مفہوم ایک سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ایسی کسی حدیث کا معنی متعین کرنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے اور مجتہد اپنے علم کی بنیاد پر کسی ایک معنی کو ترجیح دیتا ہے۔
غیر منصوص مسائل: یعنی وہ مسائل جس کوئی نص (یعنی قرآن و حدیث) میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی ایسے مسائل میں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اگر دین کامل ہے تو یقینا ان مسائل کا حکم بھی ہوگا۔ ایسی صورت میں مجتہد منصوص مسائل (جن کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے) میں کوئی علت (نکتہ اشتراک) ڈھونڈتا ہے۔ وہی علت جن غیرمنصوص مسائل میں پائی جاتی ہے تو وہی حکم اس میں جاری کرتا ہے اور مقلد مجتہد کی رہنمائی میں اسی حکم پر عمل کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے دودھ میں چیونٹی گرجائے تو اس کا استعمال جائز ہوگا یا نہیں شریعت میں اس کا کوئی حکم نہیں۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان موجود ہے کہ پینے کی چیز میں اگر مکھی گر جائے تو اسے غوطہ دے کر نکال کر پھینک دو اور و ہ چیز ناپاک نہیں ہوتی۔ اس حدیث سے مجتہدین نے یہ علت تلاش کی کہ مکھی میں دوڑتا ہوا خون نہیں ہوتا اس لیے جس جانور میں یہ علت پائی جائے گی وہاں یہی حکم پایا جائے گا۔ یا گائے کے دودھ اور گوشت کے متعلق تو روایات موجود ہیں لیکن بھینس کا دودھ اور گوشت استعمال کرنے کے متعلق کوئی ہدایت موجود نہیں ہے یا حالت جنابت میں غسل کے لیے اگر پانی نہ ملے تو تیمم کا حکم حدیث میں موجود ہے لیکن حائضہ کو اگر پانی نہ ملے تو کیا وہ تیمم کرسکتی ہے اس پر قرآن و حدیث میں کوئی حکم نہیں۔ ایسے تمام مسائل کا فیصلہ اجتہاد کے ذریعے کیا جائے گا جس کے لیے قیاس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ اجتہاد اہل علم پر لاز م ہے۔ حق تعالی کا ارشاد ہے:
واذا جاءهم امر من الامن او الخوف اذاعوا به ولو ردوه الى الرسول والى اولي الامر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم۔(النساء:83)
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر یا اولی الامر (حکام یا علما) کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے۔
یعنی اولی الامر کی ذمہ داری ہے کہ جدید مسائل میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ اس کو استنباط کہا گیا ہے۔ اسی استنباط کو قفہ میں قیاس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ وہ مسلمان جو اس کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے ذمہ اپنے مسائل کو اولی الامر سے پوچھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔
عن علي قال قلت يا رسول الله ان نزل بنا امر ليس فيه بيان امر ولا نهي فما تامرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين ولا تمضوا فيه راي خاصة۔ (مجمع الزوائد، للھیثمی، رجاله موثقون من اهل الصحيح‏‏)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ میں نے کہا:’’اے اللہ کے رسول اگر کوئی مسئلہ ہمیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہیں نہ حکم نہ منع تب ہم کیا کریں گے؟‘‘(رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا:’’فقہا اور عابد لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ کرنا اور اس (طرح کے معاملے) میں ایک رائے پر مت چل پڑنا۔‘‘
فائدہ:
· وہ مسلمان جو اہل اجتہاد (استنباط) میں سے نہیں ہیں ان کے لیے اجتہادی احکام جاننے کا راستہ یہی ہے کہ وہ کسی اہل علم کا اتباع یا تقلید کریں۔
استنباط کی ایک مثال
سنن الترمذی کی ایک روایت ہے جس میں ایک بدو نے آپ ﷺ کے پاس دوزانو بیٹھ کر کچھ سوالات کیے تھے جن کے جوابات آپ ﷺ نے ارشاد فرمائے تھے۔ اس روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں:
سمعت محمد بن اسمعيل يقول قال بعض اهل العلم فقه هذا الحديث ان القراءة على العالم والعرض عليه جائز مثل السماع واحتج بان الاعرابي عرض على النبي صلى الله عليه وسلم فاقر به النبي صلى الله عليه وسلم(سنن الترمذی، كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، صحیح)
اس عبارت کا مفہوم یہ کہ امام ترمذی کہتے ہیں کی میں نے محمد بن اسمعیل (یعنی اپنے استاد امام بخاریؒ) سے سنا کہ بعض اہل علم نے کہا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلا کہ طالب علم کا (عبارت) پڑھنا اور استاد کا اس کو سننا جائز ہے جیسا کہ استاد کا عبارت پڑھنا بھی جائز ہے۔ یہ مثا ل ہے حدیث سے مسئلہ اخذ کرنے کی۔ گو کہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم میں اس کی کوئی گنجائش نہیں نظر آتی لیکن فقہا نے اس سے یہ حکم اخذ کیا (یعنی استنباط کیا) کہ شاگرد بھی عبارت پڑھ سکتا ہے۔
[1]: اصطلاحا اس کو ناسخ حقیقی کہتے ہیں۔
[2]: اس کو اصطلاح میں معلوم التقدیم و التاخیر کہتے ہیں۔
[3]: اس اصطلاحا کو غیرمعلوم التقدیم والتاخیر کہتے ہیں۔
[4]: ایسے مسائل کو متفق علیہ مسائل کہا جاتا ہے۔
[5]: اصطلاح میں اس کو منصوص غیرمتعارض محتمل وجوہ مختلفہ کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
رسول اللہ ﷺ کے افعال کی درجہ بندی
اجتہاد کا ایک موقع آپ ﷺ کے افعال کی درجہ بندی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آپ ﷺ نے جو کام اپنی حیات پاک میں کیے ان کا درجہ کبھی فرض ہوتا ہے کبھی واجب یا سنت مؤکدہ یا مستحب یا مخصوص اور بعض موقعوں پر وہ منسوخ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ کام جن سے آپ ﷺنے منع فرمایا ان میں یہ احتمال ہے کہ وہ حرام تھا یا مکروہ وغیرہ۔ چنانچہ مجتہد اپنی اجتہادی صلاحیت سے طے کرتا ہے کہ آپ ﷺ کا فعل مبارک ہمارے لیے کس درجے کا ہے۔ اس اجتہاد کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے کہ کسی حدیث سے ہمیں یہ ہدایت نہیں ملتی کہ رسول اللہ ﷺ کا فعل شرعا کس درجے کا تھا۔ فقہا نے حدود شرعیہ (یعنی فرض، واجب سنت، مستحب وغیرہ) کا تعین کیا ہے جو ان کا بڑا کارنامہ ہے اور تمام امت اس میں ان کی مقلد ہے۔ البتہ اس درجہ بندی میں مجتہدین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا اختلاف خود صحابہ کرام میں بھی پایا جاتا تھا۔
حدیث
عن ابن عباس ، قال ليس التحصيب بشيء ، انما هو منزل نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حاجی کا محصور (یعنی وادی ابطح )میں اترنا کچھ بھی نہیں وہ صرف ایک پڑاؤ کی جگہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ ٹھہرگئے تھے۔
فائدہ
: اس حدیث سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کا فعل سنت ہونے کی دلیل ہے لیکن حضرت ابن عباسؓ اپنی اجتہادی قوت سے فیصلہ فرماتے ہیں کہ یہ فعل سنت نہیں بلکہ آپ ﷺ اس جگہ اتفاق سے ٹھہرگئے تھے۔ چنانچہ وہ اس کو مستحب سمجھتے تھے۔
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ ، ابوبکرؓ اور عمرؓ ابطح پر ٹھہرا کرتے تھے۔(مسلم، کتاب الحج)۔ اسی لیے وہ اس مقام پر ٹھہرنے کو سنت قرار دیتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ قوت اجتہاد سے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کے فعل کا درجہ متعین کرتے تھے۔
مجتہد بھی اپنی قوت اجتہاد سے فعل کی حیثیت کو متعین کرسکتا ہے۔ چنانچہ نماز کے جتنے اعمال ہیں ان کی درجہ بندی یعنی ارکان، شرائط، واجبات وغیرہ کی تفصیل خالصتاً اجتہادی ہے جو مجتہدین نے بیان کی ہے اور امت آج بھی اس درجہ بندی کا اتباع یا تقلید کرتی ہے۔
اجتہاد کی مثالیں
احادیث کی درجہ بندی (صحیح، حسن وغیرہ) بھی اجتہادی امر ہے۔ اور اس درجہ بندی کے جو اصول ہیں وہ بھی قیاسی ہیں جن پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں۔
بخاری کو حدیث کی صحیح ترین کتاب ماننا ایک اجتہادی امر ہے جس پر علما کا اجماع ہے۔ اس پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے۔حدیث کی اصل غایت فہم ہے
حدیث
عن ابن مسعود سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول نضرالله امرءًاسمع مناشيئًافبلغه كماسمعه فرب مبلغ اوعي من سامع‏۔(سنن الترمذی،کتاب العلم،حسن)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:’’تروتازہ کرے اللہ اس بندے کو جو میری بات سنے اور اس کو اس طرح (آگے) پہنچائے جیسا کہ اس نے اُس کی سنا کہ کئی بار جس تک بات پہنچائی جاتی ہے کیونکہ بعض پہنچانے والے علم کو سمجھنے والے نہیں ہوتے اور بعض ایسوں کو پہنچاتے ہیں جو اس پہنچانے والے سے زیادہ اس کو سمجھتے ہیں ۔‘‘
فائدہ:
حدیث کی روایت کے دو مقصد ہوتے ہیں: الفاظ رسول اللہ ﷺ کو روایت کرنا اور مراد رسول اللہ ﷺ کو امت تک پہنچانا۔اس حدیث کے مطابق حدیث کا اصل مقصد فقہ ہی ہے۔
صرف نص (قرآن و حدیث) کا یاد ہونا فہم کے لیے کافی نہیں ہے۔
حدیث : حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود تو انہوں نے ایک سیاہ دھاگا اور ایک سفید دھاگا لے کر رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:
انما ذلك سواد الليل وبياض النهار (صحیح البخاری، کتاب الصوم)
اس سے تو رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی مراد ہے۔
فائدہ:
حضرت عدی بن حاتم عربی زبان سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اس کے باوجود قوت اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے فہم آیت میں غلطی ہوگئی۔
آپ ﷺ نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کا انکار نہیں فرمایا البتہ ان کے فہم کی غلطی کی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث
عن ابن مسعودقال قال رسول الله انزل القرآن على سبعةاحرف لكل آيةمنهاظهروبطن ولكل حدمطلع۔(صحیح ابن حبان ، كتاب العلم باب الزجر، حسن- الجامع الصغیر ، حسن )
حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:‘‘قرآن سات حرفوں پرنازل کیا گیا ہے ہرآیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر حد کے لیے طریقہ اطلاع الگ الگ ہے۔’’
حدیث
عن ابي جحيفة قال قلت لعلي بن ابي طالب هل عندكم كتاب قال لا الا كتاب الله او فهم اعطيه رجل مسلم، (صحیح البخاری، کتاب العلم)
حضرت ابن جحیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر (اللہ کا دیا ہوا) فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔یعنی نصوص کی گہری باتوں کو سمجھنا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص دین ہے۔
اس فہم کو کبھی فقہ کہا گیا ہے، کبھی رائے، کبھی اجہتاد، کبھی استنباط اور کبھی شرح صدر کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)​
 
حد ہو گئی کتاب کا کچھ حصہ
اطاعتِ رسول ﷺ
کوئی بھی انسان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتاجب تک وہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت نہ کرے ۔ کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت، اﷲ ہی کی پیروی ہے اور آپ ﷺ کی اتباع ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ جو سید المرسلین ﷺ کی اطاعت کرئے گا ، اﷲ تعالیٰ اس سے محبت کرئے گا اور گناہ بھی معاف فرما دے گا ۔ آپ ﷺ کی پیروی قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے واجب ہے ۔ اتحاد المسلمین ، صرف قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے پر ہو گا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ کسی اور راستے پر یا کسی اور شخص کے پیچھے چلنے والا سراسر گمراہ ہے ۔ جو عمل نبی پاکﷺ کی سنت کے مطابق نہ ہو وہ قابل قبول نہیں اور بربادی کا باعث ہے ۔ جو شخص بھی رسول اﷲ ﷺ کی حدیث کا علم ہونے کے بعد کسی امام ، عالم یا ولی کی بات پر جما رہے ، وہ اﷲ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے ۔
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے جس طرح توحید کو چھوڑ کر شرک کو پسند کیا ، اسی طرح اطاعتِ رسول ﷺ کو ترک کر کے تقلید کو اپنا لیا ۔ امت مسلمہ میں فرقہ واریت اور شرک و بدعت کی وجہ صرف اور صرف تقلید ہے ۔ تقلید کی وجہ سے اتنی زیادہ فرقہ واریت پھیلی ہے کہ : ’’ ایک ہی امام کے مقلدوں نے کئی فرقے بنا رکھے ہیں اور ایک ، دوسرے کو کافر ، کافر کہتے ہیں ‘‘ ۔ مقلدین کا حال یہ ہے کہ : ’’ سید المرسلین ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے قول کو سینے سے لگاتے ہیں ، چاہے وہ نبی کریم ﷺ کی بات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ‘‘ ۔
اطاعت رسول ﷺ کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ جس نے رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کی اس نے دراصل اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘‘ ، ( النساء : ۸۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ نماز کی پابندی کرو ، زکوۃ ادا کرو اور رسول اﷲ ( ﷺ ) کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘ ، ( النور : ۵۶ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ کہہ دیجئے ! کہ اﷲ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر یہ منہ پھیر لیں تو ( جان لیں کہ ) بے شک اﷲ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا ‘‘ ، ( العمران : ۳۲ ) ۔ اور چوتھے مقام پر ہے : ’’ اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ( اتباع سے منہ موڑ کر ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو ‘‘ ، ( محمد : ۳۳ ) ۔
مزید دیکھیے : ’’ ( العمران : ۳۱ ) ، ( العمران : ۱۳۲ ) ، ( النساء : ۱۳ ) ، ( النساء : ۵۹ ) ، ( النساء : ۶۴ تا ۶۵ ) ، ( النساء : ۶۹ ) ، ( المائدۃ : ۹۲ ) ، ( الانفال : ۲۰ ) ، ( الانفال : ۴۶ ) ، ( النور : ۴۷ تا ۴۸ ) ، ( النور : ۵۱ تا ۵۲ ) ، ( النور : ۵۴ ) ، ( الاحزاب : ۳۶ ) ، ( الاحزاب : ۷۱ ) ، ( الفتح : ۱۷ ) ، ( الحجرات : ۱۴ ) ، ( الحشر : ۷ ) اور ( التغابن : ۱۲ ) ۔
’’ عبدالرحمن ! تقلید تو واجب ہے اور قرآن مجید کی آیت سے ثابت ہے ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
کونسی آیت میں ہے کہ : ’’ تقلید واجب ہے ‘‘ ۔ عبدالرحمن نے پوچھا ۔
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور اپنے آپ میں سے ’’ اولو الامر ‘‘ کی اطاعت کرو ‘‘۔ ’’ اولو الامر ‘‘ ، سے مراد امام ہیں امام ۔
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
بابا جی ! پہلی بات : ’’ اولو الامر سے مراد بعض کے نزدیک امرا و حکام اور بعض کے نزدیک علما و فقہا ہیں ‘‘ ، ( تفسیر احسن البیان ) ۔
دوسری بات : ’’ چلو میں کچھ دیر کے لئے آپ کی بات مان لیتا ہوں اس سے مراد امام ہیں ‘‘ ۔ لیکن آپ نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا ہی نہیں جس میں تقلید کا رد ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے ایمان والو ! اطاعت کرو اﷲ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( ﷺ ) کی اور تم میں سے اولوالامر کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ، اگر تمہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور ثواب کے لحاظ سے بھی اچھا ہے ‘‘ ، ( النساء : ۵۹ ) ۔
اس آیت کے دوسرے حصے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ’’ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ ، اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف ‘‘ ۔ میں ایک مثال دیکر بات کو واضح کرتا ہوں کہ : ’’ امام ابو حنیفہ ؒ رفع الیدین نہیں کرتے تھے ‘‘ ۔ جبکہ : ’’ امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد ابن حنبل ؒ رفع الیدین کرتے تھے ‘‘ ۔ اختلاف پیدا ہو گیا کہ : ’’ تین امام رفع الیدین کرتے ہیں اور ایک نہیں کرتا ‘‘ ۔ اختلاف میں اﷲ اور رسول ﷲ ﷺ کے طرف جانا چاہیے یعنی قرآن و حدیث سے تنازعہ ختم کرنا چاہیے ۔ پھر آپ کیوں تقلید پر ہی جمے رہتے ہیں ؟ کیوں احادیث پڑھ کر رفع الیدین نہیں کرتے ؟
بوڑھا شخص ، بڑے سنجیدہ انداز میں:
چاروں امام حق پر ہیں ، سب کے پاس اپنی اپنی دلیل ہو گئی ۔
عبدالرحمن :
اپنی ، اپنی دلیل کا کیا مطلب ہے ؟ مسلمان کے لیے تو حجت صرف کتاب و سنت ہے ۔ جس کی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہو گی صرف وہ حق پر ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ ایک بندہ پنسل کو پنسل کہتا ہے ، دوسرا پنسل کو مسواک کہتا ہے ۔ تیسرا آدمی پنسل کو چابی کہتا ، چوتھا پنسل کو پائپ ( Pipe) کہتا ہے ۔ دلیلیں بھی چاروں ہی دیں گے کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں لیکن صحیح وہ ہو گا جو پنسل کو پنسل کہتا ہے ۔ آپ کیوں نہیں چاروں اماموں کے اقوال کو کتاب و سنت کے ترازو سے ماپتے ؟ کیوں سیدالمرسلین ﷺ سے نفرت کرتے ہو ؟ ضعیف آدمی غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے :
ارے خناس ! ہم نفرت کرتے ہیں ؟ اوخبیث ! ہم بغض رکھتے ہیں ؟ تم کیا جانو ! عشق کیا ہوتا ہے ۔ تم تو شیطان ہو شیطان ۔ تم کو کیا معلوم مصطفی ﷺ کی قدر ، ہم نے آقا ؑ کی عظمت کو پہنچانا ہے ۔ اچھا تو ہی بتا ہم کیسے نفرت کرتے ہیں ؟
عبدالرحمن ، بردباری ( Tolerance) کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ اگر میں آپ کو حدیث پڑھ کر سناؤں کہ نبی پاک ﷺ نماز میں رفع الیدین کرتے تھے ، تو کیا آپ حدیث پر عمل کریں گے یا مجھ سے نفرت کریں گے ؟ ‘‘
ضعیف آدمی :
’’ میں تجھ سے نفرت کروں گا کیونکہ تم مجھے میرے امام کے طریقے سے ہٹانا چاہتے ہو۔ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ امام کا قول نہ چھوڑو چاہیے کتاب و سنت سے ٹکرا جائے ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ آپ ، مجھ سے نفرت حدیث کی وجہ سے کریں گے اور حدیث بات ہے رسول اﷲ ﷺ کی ۔ کسی کی بات سے عداوت ، اس انسان سے نفرت کے مترادف ہے ۔نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں اگر موسیٰ ؑ کی بات بھی آ جائے تو بھی ہم ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ آپ امام کے قول کو قرآن و حدیث پر ترجیح دے رہے ہو ، افلا تعقلون؟ ‘‘
نبی پاک ﷺ کی کثیر التعداد احادیث سے ثابت ہے کہ اتباع سنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا : ’’ جس نے میری اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی نافرمانی کی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۱۳۷ ) ۔ اور رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں تمہارے لئے دو ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو سکو گے ، ایک تو اﷲ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت ، دونوں دنیا سے جانے کے بعد مجھے حوض پر ملیں گے ‘‘ ، ( مستدرک حاکم : ۳۲۲ ) ۔
صحابہ کرامؓ نے بھی تقلید کا رد ہی کیا ہے ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ سنت وہ ہے جو اﷲ اوراس کا رسول ﷺ مقرر کرے ۔ رائے کی خطا کو امت کے لیے سنت نہ بنا دو ۔ رائے والے حدیث کے دشمن ہیں ، ان پر اس کا حفظ مشکل ہو پڑا تو انہوں نے ( لوگوں کو ) رائے سے تباہ کیا۔ دینی مسائل میں رائے لگانے سے بچتے رہو ۔ اہل رائے ، حدیثوں کے دشمن ہیں ان سے حدیثیں یاد نہیں ہوتیں تو پھر اپنی رائے سے فتوے دیتے ہیں جو حدیثوں کے خلاف ہوتے ہیں ۔ پس ان سے بلکل علیحدہ رہنا اور انہیں بھی اپنے پاس نہ پھٹکنے دینا ‘‘ ، ( اعلام الموقعین ، ص : ۵۴ تا ۵۵ ) ۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : ’’ تمہارے علماء مر جائیں گے پھر لوگ جاہلوں کو امام بنا لیں گے جو امور دین میں رائے ، قیاس لگائیں گے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۵ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’ جس نے ایسی رائے نکالی جو نہ کتاب اﷲ میں ہو اور نہ سنت رسول ﷺ ( یعنی حدیث ) میں ، میں نہیں کہہ سکتا کہ اﷲ کے ہاں اس کا کیا حال ہو گا ؟ دین تو صرف قرآن و حدیث میں ہی ہے ‘‘ ، (اعلام الموقعین ، ص : ۵۶ ) ۔ ضعیف آدمی سے ایک بار پھر صبر نہ ہو سکا اور اچانک بول پڑا :
’’ لوگو ! یہ غیر مقلد ہے اور فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ تم لوگ اپنے اپنے کام پر جاؤ ، اسے تو کوئی کام نہیں ۔ تم کماؤ گے نہیں تو کھاؤ گے کہاں سے ، اپنے بیوی ، بچوں کا خیال نہیں ہے کیا ؟ ‘‘ عبدالرحمٰن کی بائیں سمت موجود لڑکے نے کہا :
یہ تو فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں لیکن جب ہماری مسجد کا مولوی لاؤڈ اسپیکر میں گالیاں دیتا ، بازاری اور گندی زبان استعمال کرتا ہے اس وقت تو آپ نہیں کہتے کہ : ’’ یہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے‘‘ ۔ دوسری بات : ’’ ہم نے ساری زندگی کام ہی کیا ہے ، آج اگر اﷲ کی رضا اور رحمت کے لیے ورک ( Work) نہ بھی کریں گے تو بھی ہم بہت خوش ہیں ‘‘ ۔ انکل ، میں بھی فرقہ واریت اور تقلید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بلال نے دھیمی آواز میں کہا :
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
’’ آپ ضرور فرمائیں ! ‘‘
بلال :
بابا جی ! جو کتاب و سنت سے سمجھائے وہ فرقہ واریت نہیں بلکہ جو قرآن و حدیث کے علاوہ کسی شخص ، کتاب یا جگہ کی طرف بلائے وہ فرقہ واریت پھیلا رہا ہے ۔ مثلاََ : ’’ لاہور سے پانچ آدمی سفر پر روانہ ہوئے ہیں جنہوں نے کراچی جانا ہے ۔ پتوکی پہنچ کر ایک ، اسلام آباد کا رخ کر لیتا ہے اور دوسرا ، چھانگا مانگا کی طرف چل پڑتا ہے ۔ تیسرا ، قصور کی جانب مڑ جاتا ہے اور چوتھا، سیالکوٹ کو جانا چاہتا ہے ۔ پانچواں ، کراچی کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پانچوں ہی نے ایک ، دوسرے کو بھی کہا ہے کہ : ’’ میرے ساتھ آ جاؤ ، میں کراچی جا رہا ہوں ‘‘ ۔ اب اصل شاہرہ کی جانب یعنی کراچی کی طرف بلانے والا فرقہ واریت نہیں پھیلا رہا کیونکہ وہ صحیح راستے کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔ باقی چاروں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں کیونکہ وہ ایسی شاہرہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس پر جتنی مرضی محنت سے سفر کر لیں اصل منزل ( یعنی کراچی ) سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے ۔
بابا جی ! آپ نے کہا یہ غیر مقلد ہے ۔ آپ اسے اطاعت رسول ﷺ کرنے والا کیوں نہیں کہتے ؟ مقلد کا الٹ غیر مقلد نہیں ، متبع سنت ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر : ’’ رات کا متضاد دن ہوتا ہے ، غیر دن نہیں ۔ شام کا الٹ صبح ہوتا ہے ، غیر صبح نہیں ۔ سردی کا متضاد گرمی ہوتا ہے ، غیر گرمی نہیں ۔
تقلید کے متعلق میں ، آپ سے کچھ سوال پوچھتا ہوں کہ : ’’ کیا اماموں نے کسی کی تقلید کی ، کیا اماموں نے تقلید پر خود کتابیں لکھیں یا کہا کہ حدیث مصطفی ﷺ کو چھوڑ کر ہمارے اقوال کو ترجیح دو اور کیا اماموں کی تقلید نبی پاک ﷺ کی اتباع سے بہتر ہے ؟ اﷲ کا دین کون لے کر آئے ، امام ؒ یا رسول اﷲ ﷺ ، کیا دین امام کے فتوے کا نام ہے یا وحی الہی کا ؟ صحابہ کرامؓ نے اماموں کی تقلید کی یا اتباع رسول ﷺ ؟ ایک مسلمان کو کس کی پیروی کرنی چاہیے ، رسول اﷲ ﷺ کی یا اماموں کی ؟ تقلید نے مسلمانوں کو متحد کیا ہے یا تقسیم ؟ کامیابی اماموں کی تقلید میں ہے یا اتباع رسول ﷺ میں ؟ قرآن و حدیث زیادہ ضروری ہے یا بزرگوں کے اقوال ؟ قیامت کے دن اﷲ کس کو انعام سے نوازے گا ، جس نے نبی کریم ﷺ کی حدیث کو چھوڑ کر اماموں کے اقوال کو فوقیت دی یا جس نے اماموں کے اقوال کو ترک کر کے نبی پاک ﷺ کی حدیث کی ترجیح دی ؟ عبدالرحمن نے خوشی سے بلال کو گلے سے لگا لیا اور کہا :
’’ جزاک اﷲ خیر‘‘ ، اور اپنی بات جاری کی :
ائمہ اربعہ نے بھی تقلید کی مذمت ہی کی ہے ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا ہے کہ : ’’ جو شخص میری دلیل سے واقف نہ ہو ۔ اس کو لائق نہیں کہ میرے کلام کا فتویٰ دے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۸۸ ) ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ’’ جب صحیح حدیث مل جائے پس وہی میرا مذہب ہے ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۷ ۸ ) ۔ امام ابو حنیفہ ؒ سے کسی نے پوچھا : ’’ اگر آپ نے کچھ کہا اور کتاب اﷲ ( قرآن ) کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو کتاب اﷲ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر رسول اﷲ ﷺ کی خبر ( حدیث ) کے خلاف ہو تو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول جو رسول اﷲ ﷺ کے مقابلہ میں ہو ترک کرو ‘‘ ۔ اس نے پھر پوچھا کہ : ’’ اگر صحابہؓ کے قول کے مخالف ہو ؟ ‘‘ جواب دیا کہ : ’’ میرا قول صحابہؓ کے مقابلہ میں ترک کرو ‘‘ ، ( حقیقۃ الفقہ : ۶ ۸) ۔
امام مالک ؒ فرمایا کرتے تھے : ’’ میں ایک انسان ہی تو ہوں صحیح بات بھی کہہ دیتا ہوں اور غیر صحیح بھی ، پس میری باتوں کو دیکھو ، پرکھو جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو اسے چھوڑ دو ‘‘ ، ( اعلام الموقعین : ۶۶ ) ۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : ’’ جب میں کوئی مسئلہ کہوں اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے خلاف ہو ۔ تو جو مسئلہ نبی پاک ﷺ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے وہی اولیٰ ہے ۔ پس میری تقلید مت کرو ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۲ ) ۔ اور امام احمد ؒ فرماتے تھے کہ : ’’ اپنا علم اسی جگہ سے لو جہاں سے امام لیتے ہیں اور تقلید پر قناعت نہ کرو کیونکہ یہ اندھا پن ہے سمجھ میں ‘‘ ، (حقیقۃ الفقہ : ۹۷ ) ۔

مکمل کتاب پڑھنے کے لیے لنک:
scribd.com/doc/268024515/Had-Ho-Gai
http://universalurdupost.com/?p=26262
 

دیوان

محفلین
حدیث کی اصل غایت فہم ہے(بعض تبدیلیوں کے ساتھ)
حدیث 1
عن ابن مسعود سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول نضر الله امرءا سمع منا شيئا فبلغه كما سمعه فرب مبلغ اوعي من سامع‏۔ (سنن الترمذی، کتاب العلم، حسن)
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’تروتازہ کرے اللہ اس بندے کو جو میری بات سنے اور اس کو اس طرح (آگے) پہنچائے جیسا کہ اس نے اس کی سنا کہ کئی بار جس تک بات پہنچائی جاتی ہے کیونکہ بعض پہنچانے والے علم کو سمجھنے والے نہیں ہوتے اور بعض ایسوں کو پہنچاتے ہیں جو اس پہنچانے والے سے زیادہ اس کو سمجھتے ہیں۔‘‘
فائدہ:
· حدیث کی روایت کے دو مقصد ہوتے ہیں: الفاظ رسول اللہ ﷺ کو روایت کرنا اور مراد رسول اللہ ﷺ کو امت تک پہنچانا۔اس حدیث کے مطابق حدیث کا اصل مقصد فقہ ہی ہے۔
· صرف نص (قرآن و حدیث) کا یاد ہونا فہم کے لیے کافی نہیں ہے۔
· حدیث یاد کرنا اور اسے سمجھنا اور اس کا مطلب نکالنا دو الگ الگ کام ہیں۔
· پہلا کام یعنی یاد کرنا محدثین کا کام ہے، دوسرا کام یعنی اس کو سمجھنا فقہا کا کام ہے۔
· امام ترمذیؒ اپنے مجموع حدیث سنن ترمذی میں ایک حدیث نقل کے فرماتے ہیں:
وكذلك قال الفقهاء وهم اعلم بمعاني الحديث (سنن الترمذی، باب غسل المیت، صحیح)
اور اسی طرح فقہا نے (اس حدیث کا مطلب) بیان کیا ہے اور فقہا ہی حدیث کے معانی کو بہتر سمجھتے ہیں
حدیث 2: حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود تو انہوں نے ایک سیاہ دھاگا اور ایک سفید دھاگا لے کر رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا:
انما ذلك سواد الليل وبياض النهار اس سے تو رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی مراد ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم)
فائدہ:
· حضرت عدی بن حاتم عربی زبان سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اس کے باوجود قوت اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے فہم آیت میں غلطی ہوگئی۔
· آپ ﷺ نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کا انکار نہیں فرمایا البتہ ان کے فہم کی غلطی کی طرف اشارہ فرمایا۔
حدیث 3
عن ابن مسعود قال قال رسول الله انزل القرآن على سبعة احرف لكل آية منها ظهر وبطن ولكل حد مطلع۔(صحیح ابن حبان ، كتاب العلم باب الزجر، حسن- الجامع الصغیر ، حسن)
حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:‘‘قرآن سات حرفوں پرنازل کیا گیا ہے ہرآیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور ہر حد کے لیے طریقہ اطلاع الگ الگ ہے۔’’
حدیث 4:
عن ابي جحيفة قال قلت لعلي بن ابي طالب هل عندكم كتاب قال لا الا كتاب الله او فهم اعطيه رجل مسلم(صحیح البخاری، کتاب العلم)
حضرت ابن جحیفہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر (اللہ کا دیا ہوا) فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔
· یعنی نصوص کی گہری باتوں کو سمجھنا یہ اللہ تعالی کی خاص دین ہے۔
· اس فہم کو کبھی فقہ کہا گیا ہے، کبھی رائے، کبھی اجہتاد، کبھی استنباط اور کبھی شرح صدر کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مراد حدیث چند مثالیں
حدیث 5
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
افضل الصلوۃ طول القنوت (صحیح مسلم)
افضل نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو۔
لیکن جب حضرت معاذؓ نےایک نماز کی امامت کرتے ہوئے طویل قیام کیا جس سے ایک آدمی نے نماز توڑ دی اور اس طویل قیام کی خبر رسول اللہ ﷺ کو کی تو آپ ﷺ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا:فتان فتان فتان (تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنے والے ہو)، (صحیح بخاری)۔
فائدہ:
· رسول اللہ ﷺ کا حضرت معاذ کو تنبیہ فرمانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مطلب وہ نہیں تھا جو حضرت معاذؓ نے سمجھا۔
· صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق رسول ﷺ نے موت کی تمنا سے منع فرمایا ہے، لیکن امام بخاریؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے یہ دعا کی تھی:’’اے اللہ مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔‘‘ صرف ایک ماہ کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ حدیث شریف کے واضح حکم کے باوجود امام بخاری کا اپنی موت کی دعا کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امام بخاری کے نزدیک حدیث کا مفہوم کچھ اور تھا۔
· حدیث میں آتا ہے:
لا صام من صام الابد (صحیح البخاری، کتاب الصیام)
جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود امام بخاری ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔
· صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ ہفتے میں صرف ایک قرآن ختم کرو۔ لیکن سیدنا عثمانؓ کے متعلق ان کی اہلیہ کا بیان ہے کہ وہ ایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے (طبرانی بسند حسن)۔
حدیث 6
عن ابي ايوب الانصاري قال قال رسول لا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول ولا تستدبروها ولكن شرقوا او غربوا(سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، صحیح)
اس روایت کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ رفع حاجت کے وقت قبلہ رخ نہ منہ کرو نہ پشت بلکہ اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف رکھو۔
· اس حدیث کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اگر کسی علاقے کے لوگ مغرب کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں تو اس حدیث کی رو سے وہاں کے باشندوں کی نماز نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ہر سمجھدار شخص سمجھ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
حدیث 7
عن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إذا تبايعتم بالعينة واخذتم اذناب البقر ورضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، صحیح)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم بیع عینہ کرنے لگو اور گائے (بیل) کی دم پکڑنے لگو اور زراعت پر خوش ہو کر جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کردے گا جو اس وقت تک نہیں اتارے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹو گے۔
اس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ذلت کا سبب خرید و فروخت اور زراعت ہی ہیں جب کہ باقی کام مثلا ، فیکٹری لگانا، دکان کھولنا وغیرہ کا اس ذلت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ظاہری مفہوم ٹھیک نہیں۔ اس کا دوسرا مطلب جو فقا ہت (یعنی غور و فکر) سے نکلتا ہے وہ یہ کہ دنیا کے کاموں میں اس طرح لگ جانا کہ جہاد اور اس کے دیگر امور کی طرف غفلت ہوجائے اس سے دشمنان دین کو مضبوط ہونے کا موقع ملتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی ذلت کا باعث بن جاتا ہے۔
حدیث 8
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يبولن احدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل فيه (صحیح البخاری، کتاب الوضوء)
حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں )جو جاری نہ ہو (پیشاب نہ کرے پھر اسی میں غسل کرنے لگے۔
اگر ظاہری الفاظ پر جایا جائے تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں صرف پیشاپ کرنے سے وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر پیشاپ بہہ کر ٹھہرے ہوئے پانی میں چلا جائے تو کیا حکم ہوگا؟ یا اگر کوئی کسی برتن میں پیشاپ لاکر ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈال دے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ یا اگر اس میں کوئی اور گندگی ڈالی جائے تو کیا حکم ہوگا؟
 

دیوان

محفلین
صحابہ کرام اجتہاد کیا کرتے تھے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فباذن الله (الایۃ) (الحشر: 5)
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو (تمہارا یہ کرنا) اللہ کے حکم سے تھا
یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب ایک جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ کے حکم سے صحابہ کرام دشمن کے کھجور کے درخت کاٹنے لگے اس دوران ان میں اختلاف رائے ہوا کہ بعض ان درختوں کاٹنا چاہتے تھے اور بعض نہیں۔ اس آیت میں دونوں رایوں کو اللہ کے حکم کے مطابق بتایا گیا۔ یعنی جو درخت رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کاٹے گئے اور وہ جو اپنی رائے سے صحابہ کرامؓ نے چھوڑ دیے دونوں اللہ کے حکم کے مطابق تھے۔ معلوم ہوا کہ کسی معاملے میں مسلمانوں کی صحیح رائے بھی اللہ ہی کے حکم کے زمرے میں آتی ہے۔ البتہ صحیح رائے قائم کرنے کے لیے بھی علم و تدبر کی ضرورت ہے۔ ہر کس و ناکس کی رائے کا اعتبار نہیں ہے۔
حدیث 1
عن طارق ان رجلا اجنب فلم يصل فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال اصبت فاجنب رجل آخر فتيمم وصلى فاتاه فقال نحو ما قال للآخر يعني اصبت (سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، صحیح)
طارق سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کی حاجت ہوگئی (پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل نہ کیا اور) اس نے نماز نہیں پڑھی اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تو نے ٹھیک کیا۔‘‘پھر ایک اور شخص کو غسل کی حاجت ہوگئی اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے وہی ارشاد فرمایا جو پہلے شخص کو فرما چکے تھے، یعنی تو نے ٹھیک کیا۔
فائدہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں:
· اس مسئلے میں شرعی حکم نہ ہونے کی وجہ سے دونوں صحابہؓ نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔
· اس حدیث سے اجتہاد کا جواز صاف ظاہر ہے۔ کیونکہ اگر ان صحابہ کو نص (شرعی دلیل) کی اطلاع ہوتی تو پھر عمل کے بعد سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
· ایک ہی مسئلے میں دو اجتہادی آرا کا ہونا ممکن ہے۔
· آپ ﷺ کا دونوں کی تحسین و تصویب یعنی پسند فرمانا اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے۔
· شرعی اجتہاد کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
حدیث 2
عن عمرو بن العاص انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول اذا حكم الحاكم فاجتهد ثم اصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد ثم اخطا فله اجر۔ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
حضرت عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب حاکم اجتہاد کرے اور پھر حق کو پہنچے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
حدیث 3
عن عمرو بن العاص قال احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل فاشفقت ان اغتسلت ان اهلك فتيممت ثم صليت باصحابي الصبح فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال :يا عمرو صليت باصحابك وانت جنب فاخبرته بالذي منعني من الاغتسال وقلت : اني سمعت الله تبارك وتعالى يقول : ولا تقتلوا انفسكم ان الله كان بكم رحيما فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقل شيئا۔ (سنن ابی داؤو، کتاب الطھارۃ، صحیح)
حضرت عمروؓ بن العاص روایت کرتے ہیں کہ مجھے غزوہ ذات سلاسل کے سفر میں ایک سخت ٹھنڈی رات کو احتلام ہوگیا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو شاید ہلاک ہوجاؤں گا چنانچہ میں نے تیمم کرلیا اور صبح کو اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھا دی۔انہوں اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘اے عمرو! تم نے جنابت کی حالت میں لوگوں نماز پڑھا دی۔‘‘میں نے وہ سبب جس کی وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا اس کی اطلاع آپ ﷺ کو کردی اور یہ (بھی) کہا کہ میں نے حق تعالی کو یہ فرماتے سنا کہ اپنی جانوں کو قتل مت کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’ اس بات پر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہیں فرمایا۔
فائدہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں:
· حضرت عمرو بن العاصؓ نے قرآن کی آیت پر غور کرکے ایک مسئلے کا حل نکالا جو اس آیت میں براہ راست موجود نہیں بلکہ ایک اصول دیا گیا ہے جس کو انہوں نے ایک حالت پر منطبق (نافذ) کیا۔
· یہ حدیث بھی اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے۔
· اہل علم صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی حیات میں اجتہاد کیا کرتے تھے۔
· مجتہدین بھی قرآن حدیث کو اصول بنا کر ان سے مسائل اخذ کرتے ہیں۔
صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے سامنے فتوی دیتے تھے جونافذ ہوتے تھا
جنگ خندق کے دوران بنی قریظہ نے مسلمانوں سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا تھا۔ جنگ سے فراغت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے ان کا گھیراؤ کیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے مستقبل کا فیصلہ حضرت سعدؓ بن معاذ کے ذمہ کیا۔ صحیح مسلم، کتاب المغازی میں آتا ہے:
فرد الحكم الى سعد
تو آپ ﷺ نے (بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ) سعد کے حوالے کردیا۔
حضرت سعد نے جو فیصلہ کیا وہ پوری طرح نافذ کیا گیا۔
صحیح بخاری، کتاب الشروط میں ایک واقعہ روایت کیا گیا ہے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں:
فسالت اهلالعلم فاخبروني (الحدیث)
پھر میں نے علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا (یعنی فتوی دیا)
اسی روایت میں ہے کہ ان اصحاب علم کا وہ فتوی رسول اللہ ﷺ کے علم میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فتوی بدل دیا لیکن غیرنبی سے فتوی لینے پر کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
فائدہ:
· صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی حیات میں اجتہاد کرتے تھے جو تسلیم بھی کیے جاتے تھے۔
· رسول اللہ ﷺ ان کے اجتہادات کی اصلاح فرماتے تھے۔
صحابہ کرام فتوی دیا کرتے تھے
حدیث 4
عن اسود بن یزید اتانا معاذ بن جبل باليمن معلما واميرا فسالناه عن رجل توفي وترك ابنته واخته فاعطى الابنة النصف والاخت النصف۔ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض)
اسود بن یزید سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاذؓ ہمارے پاس معلم اور امیر (یمن) بن کر آئے۔ پس ہم نے ان سے سوال کیا کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن وارث چھوڑی ہے۔حضرت معاذؓ نے بیٹی کے لیے نصف (مال کا) اور بہن کے لیے نصف (مال کا) حکم فرمایا جب کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت حیات تھے۔
· جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کا حاکم و معلم بناکر بھیجا تو یقینا اہل یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلہ ان سے دریافت کریں۔
· اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام مسلمان اہل علم صحابہ کرامؓ سے فتوی دریافت کرتے تھے اور ظاہر بات ہے کہ ان کے فتوؤں پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔
· ایک فرد معین سے فتوی پوچھنا اور اس پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں۔
 

دیوان

محفلین
تقلید شخصی
حدیث 1

اني لا ادري ما بقائي فيكم فاقتدوا باللذين من بعدي واشار الى ابي بكر وعمر۔(سنن الترمذی، کتاب الدعوات، صحیح)
حضرت حذیفہؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھ کو نہیں معلوم کہ تم لوگوں میں کب تک (زندہ) رہوں گا سو تم لوگ ان کی اقتدا (اتباع) کرنا جو میرے بعد ہوں گے۔‘‘ اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ فرمایا۔
فائدہ:
· یعنی ہر ایک کی خلافت کے زمانے اس کی بات ماننا اور ان کا اتباع کرنا۔یعنی ایک شخص معین کی اتباع کرنے کا حکم فرمایا۔ یہی تقلیدشخصی ہے۔
سیدنا ابوبکرؓ نے حضرت زیدؓ کو جمع قرآن کے کام پر مقرر فرمایا تھا۔ بعد میں سیدنا عثمانؓ نے اسی نسخے کی نقلیں کروا کر اس وقت کے اسلامی علاقوں میں بھجوائیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جمع قرآن میں امت حضرت زیدؓ کی تقلید شخصی کررہی ہے یعنی ان کی تحقیق کا پھل کھا رہی ہے
غیراہل علم صحابہ کا اہل علم صحابہ سے فتوی دریافت کرتے تھے
حدیث 2

عن سليمان بن يسار ان ابا ايوب الانصاري خرج حاجا حتى اذا كان بالنازية من طريق مكة اضل رواحله وانه قدم على عمر بن الخطاب يوم النحر فذكر ذلك له فقال عمر اصنع كما يصنع المعتمر ثم قد حللت فاذا ادركك الحج قابلا فاحجج واهد ما استيسر من الهدي۔ (موطا مالك، كتاب الحج)
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ حج کے لیے نکلے جب مکہ کی راہ میں جنگل میں پہنچے تو اپنی سواریاں کھوبیٹھے اور یوم النحر (یعنی 10 ذی الحجہ جب حج ہوچکا تھا) کو پہنچے اور حضرت عمرؓ کو (اپنا) قصہ بتایا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’جو عمرے والا کیا کرتا ہے اب تم بھی وہی کرو، پھر تمہارا احرام کھل جائے گا۔ پھر جب اگلے حج (کا زمانہ) آئے تو حج کرو اور کچھ میسر ہو (اس کی) قربانی کرو۔
فائدہ:
· سب صحابہ اہل فتوی نہیں تھے۔
· غیرمجتہد صحابہ، مجتہد صحابہ سے فتوی لیتے تھے۔
· مجتہد صحابہ اپنے فتوں کی دلیل نہیں دیا کرتے تھے نہ ہی فتوی دریافت کرنے والے اس کو دریافت کرتے تھے۔
· مجتہد کے لیے بھی ضروری نہیں کہ وہ اپنے فتووں کی دلیل دے۔
· جو شخص قرآن و حدیث کا ماہر ہو لیکن ان سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ کسی فقیہ سے پوچھ لے کہ کسی مسئلے میں شریعت کا حکم کیا ہے اور وہ جو کچھ بتادے اس پر عمل کرے۔
اہل علم اور غیراہل علم میں فرق
حدیث 3

من افتى الناس بغير علم كان اثمه على من افتاه۔(سنن ابی داؤد، حسن ، الجامع الصغیر للسیوطی ، صحیح ، مشكوة المصابيح ، حسن)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتوی دے تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے کو ہو گا۔‘‘
فائدہ:
· اس حدیث میں فتوی دینے کے لیے علم کی شرط لگائی گئی ہے یعنی غیرعالم فتوی نہیں دے سکتا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیراہل علم، فتوے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں گے اور اس پر عمل کریں گے چاہے ان کو اس فتوے کی دلیل معلوم ہو یا نہ ہو کیونکہ حدیث میں علم کی شرط مفتی پر لگائی گئی ہے۔غیراہل علم کو تقلید یا اتباع کے علاوہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔
صحابہ کرام سے لے کر آج تک یہی معمول ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے وہ عالم سے پوچھے، عالم نے جو حکم بتایا سوال کرنے والے نے مانا اور عمل کرلیا۔ اسی کو اصطلاح میں اتباع یا تقلید کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام ہوں یا بعد کے علما، کسی نے بھی عامی کو دلیل سمجھنے کا ذمہ دار نہیں سمجھا۔ رہا دلیل کا جاننا اور سمجھنا یہ خود علم پر منحصر ہے اور غیرعالم کے لیے اس کا جاننا بلکہ کوشش بھی کرنا کارلاحاصل ہے۔ امام غزالی کی نصیحت ہے کہ عوام کا فرض ہے کہ ایمان اور اسلام لاکر عبادتوں اور روزگار میں مشغول رہیں اور علم کی باتوں میں مداخلت نہ کریں اس کو علما کے حوالے کردیں۔ عامی شخص کا علمی سلسلہ میں حجت کرنا زنا اور چوری سے زیادہ نقصان دہ اور خطرنا ک ہے۔
یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث سے براہ راست مسئلہ سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں ایسا کرنا مجتہد مطلق ہی کا منصب ہے۔اس لیے کہ ہرشخص اس بات سے آگاہ نہیں کہ فلاں حدیث منسوخ ہے یا نہیں۔ یا یہ کہ حدیث کا ظاہری معنی مقصود ہے یا نہیں یا کوئی اور حدیث اس کےمعارض ہے یا نہیں۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے ظاہری معنی مرادنہ ہوں، یا وہ حدیث منسوخ ہو، بخلاف فتوے کے کیونکہ فتوی تحقیق کے بعد دیا جاتا ہے۔
صحابہ کرامؓ تقریبا سوا لاکھ تھے جو سب کے سب عربی دان تھے، مگر کتابوں میں چھ سات صحابہ کے فتاوی ملتے ہیں، باقی صحابہؓ انہی فتاوی پر بلامطالبہ دلیل عمل کرتے تھے اور یہی تقلید ہے۔ ابن قیم اعلام الموقعین میں لکھتے ہیں کہ فتوی دینے والے صحابہ صرف 149 تھے جن میں سے صرف سات صحابہ بکثرت فتوی دیتے تھے، تیرہ صحابہ کبھی کبھار فتوی دیتے تھے اور 110 صحابہ نے ساری زندگی میں ایک ایک یا دو دو فتوے دئیے، باقی صحابہؓسے ایک فتوی دینا بھی ثابت نہیں۔ اسی کتاب میں مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے گئے تھے۔
(جاری ہے)​
 

دیوان

محفلین
فتوے کی دلیل بتانا ضروری نہیں ہے
حدیث 1

عن سالم بن عبد الله عن عبد الله بن عمر انه سئل عن الرجل يكون له الدين على الرجل الى اجل فيضع عنه صاحب الحق ويعجله الآخر فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه۔ (موطا مالك، كتاب البيوع، صحیح)
حضرت سالم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر کچھ میعادی قرض ہے (یعنی کوئی ادائیگی کا وقت مقرر ہے)۔ اب قرض خواہ کچھ قرض معاف کرنے کو راضی ہے بشرطیکہ قرض دار قبل از وعدہ قرض لوٹا دے۔انہوں (عبداللہ بن عمرؓ) نے اس کو ناپسند فرمایا۔
فائدہ:
· حضرت عبداللہ بن عمر کا جواب ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔
واجب بالذات اور واجب بالغیر
اللہ تعالی نے اطاعت رسول ﷺ کا حکم دیا ہے یعنی ہم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ لیکن اس حکم اطاعت کو پورا کرنے کے لیے ہمیں احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا بھی واجب ہوا۔ اطاعت رسول ﷺ واجب بالذات ہے۔ جب کہ احادیث کے مجموعوں کی طرف رجوع کرنا واجب بالغیر ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم ہے جو واجب الذات ہے۔ پھر خود حدیث کی صحت مقرر کرنے کے لیے سند کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ لیکن اس کی سند کی تحقیق واجب بالغیر ہے۔ واجب بالذات کے لیے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے، واجب بالغیر کے لیے نص (دلیل) کی ضرورت نہیں ہوتی صرف علمائے کرام کا اتفاق درکار ہوتا ہے۔ (حاشیہ: [1]
صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من علم الرمي ثم تركه فليس منا او فقد عصى
جو شخص تیراندازی سیکھ کر چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں یا( یہ فرمایا کہ) وہ گناہگار ہوا۔
اصل مقصود تو دشمنان دین سے دین کی حفاظت ہے جو واجب ہے لیکن اس کے لیے تیراندازی (یا ہمارے دور کے ہتھیاروں کا استعمال) سیکھنا بھی واجب ہوا جس کو ترک کرنے پر اس حدیث میں وعید آئی ہے۔ یعنی مقدمۃ الواجب بھی واجب ہوتا ہے۔ یعنی واجب کو پورا کرنے کا ذریعہ بھی واجب ہوتاہے۔ایک اور مثال یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب بالذات ہے اس پر نص (حدیث) موجود ہے، لیکن عام لوگ اس کو بغیر اعراب کے صحیح نہیں پڑھ سکتے چنانچہ اس کوصحیح پڑھنے کے لیے اس پر اعراب لگانا واجب بالغیر ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب بالذات ہے جو واجب بالغیر (اعراب) کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح تقلید بھی ہے کہ دین پر عمل کرنا واجب بالذات ہے لیکن یہ عمل بھی واجب بالغیر یعنی فقہائے امت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ فقہائے امت ہی حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے واسطہ ہیں اس لیے ہمیں فقہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یا دوسر ے لفظوں میں فقہا کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔ یہ اسی طرح کی تقلید ہے جس طرح سند کی صحت کے لیے ہم محدثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گو اس کو اصطلاحی پر تقلید نہ کہا جائے لیکن عملا تو یہی ہے۔
تقلید
تقلید ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے: تسلیم القول بلادلیل یعنی کسی عالم کی بات کو دلیل کے مطالبے کے بغیر مان لینا تقلید ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں کسی عالم کا قول اس حسن ظن پر قبول کرلینا کہ وہ جو بتارہا ہے وہ حق ہے اور دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔
اس کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہے۔ جو خود اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد کہتے ہیں اور خود اجتہاد نہ کرسکے اور مجتہد کی تقلید کرے اس کو مقلد کہتے ہیں۔اس کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے:
فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون (النحل: 43)
اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل ذکر (علم والے) سے پوچھ لو
گو تقلید کا تعلق فقہی مسائل ہے لیکن روح تقلید تو ہر فن میں جاری ہے۔ علم کی دنیا میں یہ عام ہے۔ مثلا، صحت حدیث کے بارے میں امام بخاریؒ کا قول ان کا علمی اجتہاد ہے اور ان کے اجتہاد کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ اسی طرح فقہائے کرام نے شرعی مسائل کے حل کے سلسلے میں اجتہادات کیے ہیں۔ ان کے اجتہادات کو تسلیم کرنا ان کی تقلید یا اتباع ہے۔ یہی حال تمام دینی علوم کا ہے۔ فہم لغت (عربی) کے لیے اہل لغت اور اہل صرف و نحو و کی تحقیق کو مانا جاتا ہے یہ اس علم میں ان کی تقلید ہے۔ یا مثلا تفسیر میں ابن کثیر ؒکی رائے کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس میدان میں ان کی رائے کو ماننا یہ ان کی تقلید ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا، اس حکمنامے میں نہ آیت سے دلیل بیان کی نہ حدیث سے، محض اپنی رائے یعنی اجتہاد سے ایسا کیا۔ تمام صحابہ نے ابوبکرؓ کی رائے کی تقلید میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔ تلاوت قرآن میں بھی ہر مسلمان تقلید ہی کرتا ہے کیونکہ نہ وہ اعراب سے واقف ہے نہ اوقاف کے دلائل سے واقف ہے۔ صرف اس حسن ظن پر وہ قبول کرتا ہے کہ لگانے والے نے بادلیل لگائے ہیں۔ دلیل سے آگہی نہیں ہے۔ اس کے باجود اس کی تلاوت باعث اجر اور مقبول ہے۔
--------------------------------------
[1]: اس کو اصطلاح میں مقدمۃ الواجب واجب کہتے ہیں۔
 
Top