آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں ۔۔۔۔ غزل اصلاح کے لیئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر ہے :
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
اساتذہء کِرام اور احباب محفل سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں

میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں

سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں

شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں

وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں

غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں

وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟

ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !

**********--------------**********
 
وعلیکم السلام ۔
اچھی غزل ہے ۔
میری کچھ ملاحظات ملاحظہ ہوں :
1)مطلع کا دوسرا مصرع دیکھیے ۔ آپ خود کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دن کو ؟ اگر اپنی بات کر رہے ہیں تو مصرع کے پہلے حصے میں "کا" کو "کے" کیجیے ۔ اور اگر دن کی بات کر رہے ہیں تو مصرع کے دوسرے حصے میں "تو" کو "کو" کیجیے ۔
2)دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں " الجھے رشتے" سے مراد کوئی بھی رشتے ہو سکتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے مصرع میں "سرے" سے میرے ذہن میں پہلی بات آئی کہ صرف "قریبی رشتے" ۔ تشبیہ مجھے پسند نہیں آئی ۔ (ذاتی رائے :) )
3)درست ہے ۔
4)شعر معنوی لحاظ سے بہت عمدہ ہے مگر بہتری کی کافی گنجائش ہے ۔ :)
باقی اشعار ٹھیک ہیں ۔
 
وعلیکم السلام ۔
اچھی غزل ہے ۔
میری کچھ ملاحظات ملاحظہ ہوں :
1)مطلع کا دوسرا مصرع دیکھیے ۔ آپ خود کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دن کو ؟ اگر اپنی بات کر رہے ہیں تو مصرع کے پہلے حصے میں "کا" کو "کے" کیجیے ۔ اور اگر دن کی بات کر رہے ہیں تو مصرع کے دوسرے حصے میں "تو" کو "کو" کیجیے ۔
2)دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں " الجھے رشتے" سے مراد کوئی بھی رشتے ہو سکتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے مصرع میں "سرے" سے میرے ذہن میں پہلی بات آئی کہ صرف "قریبی رشتے" ۔ تشبیہ مجھے پسند نہیں آئی ۔ (ذاتی رائے :) )
3)درست ہے ۔
4)شعر معنوی لحاظ سے بہت عمدہ ہے مگر بہتری کی کافی گنجائش ہے ۔ :)
باقی اشعار ٹھیک ہیں ۔
نوشین۔
مطلع میں پیغامِ عام ہے۔ "آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں"
کل فوری طور پر بدل جائے اس میں ابہام ہی رہے گا سو لفظ "تو" اسی ابہام کو ذہن میں رکھ کر کہا گیا ہے۔
الجھے رشتے عام طور پر قریبی رشتے ہی ہوتے ہیں۔ دور کے رشتوں کو کوئی اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ :)
چوتھے شعر میں بہتری کی گنجائش کس طرح؟۔
غزل پر آپ کا تبصرہ اچھا لگا۔:)
جزاک اللہ
 
آخری تدوین:
آغا، غزل میں کہیں کہیں ایک بڑا شاعر بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ سے مستقبل میں اچھی امید رکھنی چاہیے ہمیں!
وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
مصرعہ محولہ میں "توُ نے" کے واؤ اور یے کے قصر ہونے سے آہنگ کو نہایت زک پہنچ رہی ہے۔
فَعِلاتُن = تُنَسی کھا
قاعدہ یہ ہے کہ حروفِ علت وہاں ساقط ہوں جہاں عام گفتگو میں بھی ساقط ہو سکتے ہیں۔ یا اگر گفتگو کے انداز سے انحراف ہو تو اسقاط ایک خوشتر آہنگ پیدا کرے۔
غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
بیت الغزل!
 
کاشف اسرار احمد بھائی سب سے پہلے تو اس غزل پر داد قبول کیجئے بہت اچھی غزل کہی ما شاءاللہ
آپ کی غزل پڑھنے میں اس لیے بھی لطف آتا ہے کہ غزل کا ہندوستانی لہجہ اصلاح سخن میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ تو جب جب آپ کا کلام آتا میں تو بہت خوشی خوشی پڑھتا ہوں۔
ہر چند یہاں بات کرنا ایک جسارت ہے بہرحال نوشین فاطمہ عبدالحق ، کی گفتگو کے ذیل میں اپنی گزارشات عرض کئے دیتا ہوں ۔


کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں
تکنیکی باتیں اپنی جگہ، شعر بہت اچھا مطلع خوب صورت ہے ، مجھے تو اس میں کوئی کمی نہیں لگ رہی ۔ فاعل محذوف کے مصرعے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ بُنت اور لب و لہجہ ایسا مناسب ہو کہ بات میں کجی محسوس نہ ہو ۔ اگر دوسری صورت ہو تو گراں محسوس ہوتی ہے ۔ مجھے تو یہ شعر اچھا لگا اور وہ بات محسوس نہیں ہوئی جس کی طرف نوشین فاطمہ صاحبہ نے اشارہ فرمایا ۔

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں
شعر کا بہرحال ایک تاثر تو ہوتا ہے مگر چونکہ میں"سلجھے ریشم" اور "ریشم کے سرے" واقف نہیں ہوں اس لیے شائد اس کا پورا لطف نہیں لے سکا۔ پہلا مصرع تو واضح ہے الجھے رشتوں سے مراد رشتوں کو مابین کشیدہ تعلقات ہے ۔
میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
یہاں شائد سہو کاتب ہے ۔ :):)
اپنی ضد ہے، وہ منانے ہمیں ، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں
واہ واہ بہت خوب ۔ یہاں آپ کو وہ لہجہ بہت نمایاں ہے
شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں
بہت اچھے واہ۔
وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں
یہاں بھی، قافیہ کی رعائت سے ہندوستان میں بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے ، بہرحال اچھا مضمون ہے ۔ یہ "رنگ نکلنا" والی بات بات چھوڑ دیں۔ اچھا شعر ہے ۔
غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
بہت اعلیٰ کیا کہنے
وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟

راحیل فاروق بھائی کی بات مناسب ہے، دونوں مصرعے دیکھ لیئے جائیں ۔ اس کے علاوہ شعر اچھا ہے ماشاءاللہ
ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !

میں "دل دہلنا" سے واقف ہوں ، بہرحال اچھا شعر ہے مقطع میں تعلی خوب ہے

مجموعی لحاظ سے ایک اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
 
آغا، غزل میں کہیں کہیں ایک بڑا شاعر بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ سے مستقبل میں اچھی امید رکھنی چاہیے ہمیں!

مصرعہ محولہ میں "توُ نے" کے واؤ اور یے کے قصر ہونے سے آہنگ کو نہایت زک پہنچ رہی ہے۔
فَعِلاتُن = تُنَسی کھا
قاعدہ یہ ہے کہ حروفِ علت وہاں ساقط ہوں جہاں عام گفتگو میں بھی ساقط ہو سکتے ہیں۔ یا اگر گفتگو کے انداز سے انحراف ہو تو اسقاط ایک خوشتر آہنگ پیدا کرے۔

بیت الغزل!
بہت بہتر راحیل بھائی۔
اس مصرع پر دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔ انشا اللہ
مجھے آپ کے تبصرے اور تاثرات ہمیشہ پسند آتے ہیں۔ :)
جزاک اللہ
:good1:
 
کاشف اسرار احمد بھائی سب سے پہلے تو اس غزل پر داد قبول کیجئے بہت اچھی غزل کہی ما شاءاللہ
آپ کی غزل پڑھنے میں اس لیے بھی لطف آتا ہے کہ غزل کا ہندوستانی لہجہ اصلاح سخن میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ تو جب جب آپ کا کلام آتا میں تو بہت خوشی خوشی پڑھتا ہوں۔
ہر چند یہاں بات کرنا ایک جسارت ہے بہرحال نوشین فاطمہ عبدالحق ، کی گفتگو کے ذیل میں اپنی گزارشات عرض کئے دیتا ہوں ۔



تکنیکی باتیں اپنی جگہ، شعر بہت اچھا مطلع خوب صورت ہے ، مجھے تو اس میں کوئی کمی نہیں لگ رہی ۔ فاعل محذوف کے مصرعے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ بُنت اور لب و لہجہ ایسا مناسب ہو کہ بات میں کجی محسوس نہ ہو ۔ اگر دوسری صورت ہو تو گراں محسوس ہوتی ہے ۔ مجھے تو یہ شعر اچھا لگا اور وہ بات محسوس نہیں ہوئی جس کی طرف نوشین فاطمہ صاحبہ نے اشارہ فرمایا ۔


شعر کا بہرحال ایک تاثر تو ہوتا ہے مگر چونکہ میں"سلجھے ریشم" اور "ریشم کے سرے" واقف نہیں ہوں اس لیے شائد اس کا پورا لطف نہیں لے سکا۔ پہلا مصرع تو واضح ہے الجھے رشتوں سے مراد رشتوں کو مابین کشیدہ تعلقات ہے ۔

یہاں شائد سہو کاتب ہے ۔ :):)
اپنی ضد ہے، وہ منانے ہمیں ، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں

واہ واہ بہت خوب ۔ یہاں آپ کو وہ لہجہ بہت نمایاں ہے

بہت اچھے واہ۔

یہاں بھی، قافیہ کی رعائت سے ہندوستان میں بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے ، بہرحال اچھا مضمون ہے ۔ یہ "رنگ نکلنا" والی بات بات چھوڑ دیں۔ اچھا شعر ہے ۔

بہت اعلیٰ کیا کہنے


راحیل فاروق بھائی کی بات مناسب ہے، دونوں مصرعے دیکھ لیئے جائیں ۔ اس کے علاوہ شعر اچھا ہے ماشاءاللہ


میں "دل دہلنا" سے واقف ہوں ، بہرحال اچھا شعر ہے مقطع میں تعلی خوب ہے

مجموعی لحاظ سے ایک اچھی غزل ہے ماشاءاللہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ریشم والے شعر میں غور کرتا ہوں ۔ اگر کوئی بہتری کی صورت ہو سکی تو ضرور بدل دونگا۔
جی ۔کتابت کی غلطی تھی۔ لفظ "اپنی" نہیں لیکن "میری" یقیناََ" تھا۔۔ ویسے "اپنی" بھی ٹھیک ہی ہے۔ :)
آپ کے تفصیلی تبصرے نے دل خوش کر دیا۔ انشا اللہ اور بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہونگا۔
جزاک اللہ
:)
 
وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !

مصرعہ محولہ میں "توُ نے" کے واؤ اور یے کے قصر ہونے سے آہنگ کو نہایت زک پہنچ رہی ہے۔
فَعِلاتُن = تُنَسی کھا
قاعدہ یہ ہے کہ حروفِ علت وہاں ساقط ہوں جہاں عام گفتگو میں بھی ساقط ہو سکتے ہیں۔ یا اگر گفتگو کے انداز سے انحراف ہو تو اسقاط ایک خوشتر آہنگ پیدا کرے۔
جناب راحیل فاروق اور جناب ادب دوست صاحبان ، یہ کیسا رہے گا؟

کاش ہم سیکھتے واعظ، کبھی تجھ سے یہ ہنر

کیسے اک بات سے سَو معنی نکل سکتے ہیں
 
لفظ "اپنی" نہیں لیکن "میری" یقیناََ" تھا۔

"مجھے" اور "ہم" میں شتر گربہ کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ یہی مسئلہ اگلے حصے میں "میری" اور "ہمیں" سے پیدا ہوگا۔ اس لیے "میری" کو "اپنی" اور " مجھے" کو "ہماری" سے تبدیل کر دینے سے مصرع ثانی میں موجود "ہمیں" سے موافقت پیدا ہو جائے گی ۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں
اتنا ابہام بھی کیا کہ معلوم نہ ہو سکے کہ فاعل مفعول کون ہے!! اس کے علاوہ ’امکان نکل‘ میں نون کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں
سرے نکلنا؟ کچھ بات بھی رشتوں کے ساتھ ہی الجھ گئی۔

میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
ادب دوست کی اصلاح بہترہے۔ میں ذاتی طور پر یوں کہتا
اب یہ ضد ہے۔۔۔۔۔۔
دوسرے مصرع میں ’ہم بھی‘ کا حصہ ’ایک بچے کی طرح‘ سے پہلے آ سکے تو مزید بہتر ہو۔

سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں
اس میں بھی وضاحت نہیں کہ فاعل کون ہے؟ ویسے چھ بھی فرض کر کے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں
درست

وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں
درست، اگرچہ ’اب بھی‘ بعد میں آ سکے تو بہتر ہو۔

غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
خوب

وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟
تُنِ سی‘ پر بات ہو چکی۔’اُن سے‘ مراد کِن سے؟

ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !
نذیر کی بات درست ہے۔ محاورہ دل دہلنا ہوتا ہے۔
 
کاش ہم سیکھتے واعظ، کبھی تجھ سے یہ ہنر
کیسے اک بات سے سَو معنی نکل سکتے ہیں
پیارا ہے، بھائی۔ ویسے ایک ڈھیلا سا مصرع ذہن میں آیا ہے۔ پسند آئے تو رکھ لیجیے ورنہ مصرعِ ثانی سمیت واپس کر دیجیے گا۔
کہہ مکرنی کو تری مان گئے، جان گئے
کیسے اک بات سے سو معنی نکل سکتے ہیں
 
کوششوں سے نئے امکان نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں
اتنا ابہام بھی کیا کہ معلوم نہ ہو سکے کہ فاعل مفعول کون ہے!! اس کے علاوہ ’امکان نکل‘ میں نون کی تکرار سے بچ سکیں تو بہتر ہے۔

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
سلجھے ریشم کے سِرے، پھر سے نکل سکتے ہیں
سرے نکلنا؟ کچھ بات بھی رشتوں کے ساتھ ہی الجھ گئی۔

میرے ضد ہے، وہ منانے مجھے، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں
ادب دوست کی اصلاح بہترہے۔ میں ذاتی طور پر یوں کہتا
اب یہ ضد ہے۔۔۔۔۔۔
دوسرے مصرع میں ’ہم بھی‘ کا حصہ ’ایک بچے کی طرح‘ سے پہلے آ سکے تو مزید بہتر ہو۔

سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں
اس میں بھی وضاحت نہیں کہ فاعل کون ہے؟ ویسے چھ بھی فرض کر کے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں
درست

وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
اب بھی، بچپن کے حسیں رنگ، نکل سکتے ہیں
درست، اگرچہ ’اب بھی‘ بعد میں آ سکے تو بہتر ہو۔

غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں
خوب

وائے یہ سادگی، اُن سے تُو نے سیکھا ہی نہیں !
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟
تُنِ سی‘ پر بات ہو چکی۔’اُن سے‘ مراد کِن سے؟

ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
تند طوفانوں کے سینے بھی دہل سکتے ہیں !
نذیر کی بات درست ہے۔ محاورہ دل دہلنا ہوتا ہے۔

بہت بہت شکریہ استاد محترم۔ میں آپ کے مشوروں اور اصلاحات کی روشنی میں درستی کی کوشش کرتا ہوں۔
کچھ بہتر شکل سامنے آتے ہی پیش کرونگا۔ انشا اللہ
اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔ آمین
جزاک اللہ
 
پیارا ہے، بھائی۔ ویسے ایک ڈھیلا سا مصرع ذہن میں آیا ہے۔ پسند آئے تو رکھ لیجیے ورنہ مصرعِ ثانی سمیت واپس کر دیجیے گا۔
کہہ مکرنی کو تری مان گئے، جان گئے
کیسے اک بات سے سو معنی نکل سکتے ہیں
عمدہ تجویز ہے۔ ماشا اللہ۔
ایک بار دیکھ لوں کہ یہاں کس طرح مناسب رہیگا۔
جزاک اللہ
 
"مجھے" اور "ہم" میں شتر گربہ کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ یہی مسئلہ آگلے حصے میں "میری" اور "ہمیں" سے پیدا ہوگا۔ اس لیے "میری" کو "اپنی" اور " مجھے" کو "ہماری" سے تبدیل کر دینے سے مصرع ثانی میں موجود "ہمیں" سے موافقت پیدا ہو جائے گی ۔
بہت بہتر نذیر بھائی۔
درست کرتا ہوں اسے بھی
جزاک اللہ
 
نوشین۔
مطلع میں پیغامِ عام ہے۔ "آج کا دن نہ سہی، کل تو بدل سکتے ہیں"
کل فوری طور پر بدل جائے اس میں ابہام ہی رہے گا سو لفظ "تو" اسی ابہام کو ذہن میں رکھ کر کہا گیا ہے۔
الجھے رشتے عام طور پر قریبی رشتے ہی ہوتے ہیں۔ دور کے رشتوں کو کوئی اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ :)
چوتھے شعر میں بہتری کی گنجائش کس طرح؟۔
غزل پر آپ کا تبصرہ اچھا لگا۔:)
جزاک اللہ
خوش رہیے بھیا ! میں کم علمی کی بنا پر اپنی بات کی درست طریقے سے وضاحت نہیں کر پائی ۔
محترم استاد الف عین صاحب نے میرے اشکال کو اپنے الفاظ میں بہت بہتر طریقے سے واضح کیا ۔ پہلے دو اشعار کے حوالے سے میری یہی الجھن تھی ۔
:)
 
غزل اصلاح کے بعد پیش ہے۔
اساتذہء کِرام اور احباب محفل سے توجہ کی درخواست ہے۔
**********--------------**********
نئے امکاں، تری کوشش سے نکل سکتے ہیں
آج کا دن نہ سہی، کل کو بدل سکتے ہیں

کچھ توجّہ، اگر الجھے ہوئے رشتوں کو ملے
پھر تعّلق کے نئے گام نکل سکتے ہیں

اب یہ ضد ہے، وہ منانے ہمیں ، گھر تک آئے
ایک بچّے کی طرح، ہم بھی مچل سکتے ہیں

سہم جاتے ہیں اگر ، دیکھ کے صورت اپنی
آپ چہرہ نہیں، آئینہ بدل سکتے ہیں

شرط یہ ہے کہ، سلیقے سے نچوڑا جائے
ہاں، رگِ سنگ سے بھی، اشک نکل سکتے ہیں

وقت کی گرد ذرا ، ذہن سے جھاڑو اپنے
رنگ بچپن کے حسیں ، اب بھی نکل سکتے ہیں

غم ترا سب سے چھپانے کو، یہ سوچا ہم نے
دل کی حالت نہیں، کپڑے تو بدل سکتے ہیں

کہہ مکرنی کو تری مان گئے، جان گئے
کیسے اک بات کے سَو معنی نکل سکتے ہیں؟

ایسا ٹھہراؤ ترے لہجے میں اترا کاشف
آزمانے تجھے طوفاں بھی نکل سکتے ہیں !

شکریہ
**********--------------**********
 
آخری تدوین:
Top