"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی۔۔۔۔" (۔۔۔۔۔THE LIFE OF SUPER-EARTHS)

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ پنجم

عبور کا تعاقب


ناسا کا کیپلر مشن عبوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئی زمین جیسے حجم کے اور اسی جیسے مدار میں موجود سیاروں کو دریافت کرے گا ۔ اس مہم کا مقصد منظم اور جامع طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ہم اس بات کی تلاش کر سکیں کہ کتنے ستاروں کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں ۔ اس مہم کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ معیاری عبوری طریقے کو غیر متوقع چیزوں سے بچاتے ہوئے ایک جامع اور انتہائی محتاط دو لاکھ ستاروں پر مشتمل فہرست کو سیاروں کی تلاش کے لئے کھنگالا جائے ۔ اس دوربین کو بنانے کے لئے کئی برسوں کی کڑی محنت کی گئی ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں ۔ شروع کے چند مہینوں میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھ لینے کے بعد، کیپلر کو ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کو دیکھنے کے لئے تقریباً تین سے چار برسوں کے لئے ٹھہرا دیا۔ تمام جدید کام کا مطلب تھا کہ کیپلر کی ضیا پیمائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امیدوار سیاروں کے ہمیں بہت ہی کم غلط اشارے ملیں گے ؛ کیپلر کی ٹیم میں موجود ہم لوگوں نے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ کس طرح سے ہم غلط اشاروں کو اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے الگ کریں گے جو ہم نے اوگل فہرست کے لئے اپنایا تھا ، جیسا کہ میں لکھ رہا ہوں ہمارے طریقہ کار کامیاب ہو رہا تھا ؛ ہماری ابتدائی آزمائش نے بتایا کہ غلط اشاروں کی تعداد بہت ہی کم تھی ۔

آخر کار عبوری طریقہ سیاروں کی دریافت کے لئے انتہائی کامیاب ثابت ہو رہا تھا ، ان سیاروں میں زمین جیسے قابل قدر سیارے بھی شامل تھے ۔ عبوری سیارے ہمارے لئے کم عرصہ میں تجزیہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ بہترین تھے۔ ان کی درست کمیت اور حجم معلوم ہونے کی وجہ سے ہم ان کے انبار کے اجزاء کو ان کی اوسط کمیت سے نکال سکتے تھے ۔ مزید براں یہ کہ عبور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم دور بیٹھ کر بھی سیارے کے ماحول کا تجزیہ کر سکتے تھے ۔عبوری مدت کے دوران ، ستارے کی روشنی سیارے کے ماحول سے رنگدار ہو جاتی ہے ؛ ہم اس وقت کے طیف کو سیارے کے اس وقت کے طیف سے مماثل کر سکتے تھے جب وہ ستارے کو عبور نہیں کر رہا ہو اور ہم طیف نگار کے فن کے استعمال سے سیارے کے ماحول میں موجود کیمیائی اجزاء جیسا کہ پانی ، میتھین یا کاربن ڈائی آکسائڈ کو شناخت کر سکتے تھے ۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ اہمیت کے اعتبار سے پراسرار متوازیت سترویں صدی میں پہلے پہل مشاہدے کیے گئے عطارد اور زہرہ کے عبور اور آج کے دور کے پہلے ماورائے شمس سیارے کے عبور کے مشاہدے میں موجود ہے ۔آج، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا کہ پہلے عبوری مشاہدے نے ایک بڑے نئے تصوّر پر کسی بھی باقی رہنے والے شک کو زائل کیا تھا۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا ، ویسے بھی پہلے عبوری مشاہدے نے غیر معمولی نتائج دیئے تھے ۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا، پہلے عبوری مشاہدے نے عبور طریقے کے مستقبل کے استعمال کے نئے دریچے کھول دیئے ہیں ۔ شاید فرق صرف اتنا ہوگا کہ پچھلے دور میں عبوری طریقے کا فائدہ اٹھانے میں پوری ایک صدی لگ گئی تھی جبکہ ، ہم نے پہلے ہی سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔

یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جو ہا نز کیپلر (Johannes Kepler)جو ایک فلکیات دان ، ریاضی دان ، پیش گو اور صوفی تھا اس کا نام نئی دنیاؤں کی کھوج کی اس مہم کو دیا گیا ۔ اس نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا جو سیاروں کی حرکت کو بیان کرتے ہیں ، اس کے لکھے ہوئے قوانین کو ہم آج بھی ناسا کی کیپلر دوربین سے دریافت کیے ہوئے سیاروں کے مداروں کا حساب لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بس یہ ہی کافی نہیں ہے ۔ ایک حقیقت جو زیادہ تر لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ جو ہا نز کیپلر وہ پہلا شخص تھا جس نے انتہائی درستگی کے ساتھ عطارد اور زہرہ کے عبور کی پیش گوئی کی تھی ۔

جو ہا نز کیپلر نے یہ عبور کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ اپنے پہلے عبور کی پیش گوئی کو دیکھنے سے صرف ایک سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا ، جو عطارد کا ١٦٣١ء میں ہوا تھا ۔ لیکن کم از کم ایک فلکیات دان ، پیری گیسنڈی (Pierre Gassendi)نے کیپلر کی پکار پر توجہ دی اور پیرس سے اس نے ٧ نومبر ١٦٣١ء میں اس عبور کا مشاہدہ کیا ۔

پیرس میں نومبر کا مہینہ اکثر ابر آلود رہتا ہے ، ایک دن پہلے ہی گیسنڈی کو بارش اور بادلوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے سورج کا مشاہدہ کرنے کا منصوبہ عبور کی پیش گوئی کیے ہوئے وقت سے پہلے اور بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ کیپلر نے اپنے حساب کتاب میں کافی زیادہ غیر یقینی کو درج کیا ہوا تھا ۔ ٧ نومبر کی صبح تھوڑی دیر کے لئے مطلع صاف ہوا اور گیسنڈی نے چھوٹا کالا عطارد کا نقطہ شمسی قرص پر دیکھا ۔ وہ سورج کا عکس ایک سفید اسکرین پر ڈال رہا تھا بعینہ ایسے جیسے کہ آج کل عوام الناس گھر پر سورج کو دیکھنے کے لئے کرتے ہیں ۔ گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا کہ کس طرح سے سورج کے تاریک دھبوں کو عطارد کے گہرے دھبے سے الگ کیا جاتا ہے ۔ صرف بیس برس قبل ہی گلیلیو گلیلی نے اپنی نئی دوربین سے سورج کے ان دھبوں کو دریافت کیا تھا کہ وہ کسی طرح سے حرکت کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں ؛ گیسنڈی گلیلیو اور اس کے تجرباتی طریقوں کا ایک پرجوش پیرو تھا اور اس بات کو جانتا تھا کہ عطارد کے ننھے نقطے کو اس کے مدار کا پیچھا کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔

١٦٣١ء میں ہونے والی عطارد کا عبور کافی ساری وجوہات کی وجہ سے اہم تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عالموں نے کوپرنیکن انقلاب کو قبول کر لیا تھا تاہم پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ الغرض روم میں ہوئی جیورڈانو برنو(Giordano Bruno) کی موت کے صرف تیس برس ہی گزرے تھے، جبکہ گلیلیو کی سرکاری تفتیش تو ابھی تازہ تازہ تھی ۔ عبور شمس مرکزی نظام کے ایک اور کامیاب ثبوت تھا، اسی طرح سے گلیلیو کا مشاہدہ زہرہ کی ١٦٠٩ء میں رویت تھا ۔ کیپلر کے عبور کے وقت سے متعلق پیش گوئی گھنٹوں کے حساب سے انتہائی درست تھی ، جو اس دور کے لحاظ سے ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی اور کوپرنیکن کے نظام کی کامیابی اور اس کے پیش بینی کی طاقت کا مظہر تھی ۔

بہرحال ، جو حیرت انگیز بات کیپلر اور گیسنڈی کے عطارد اور زہرہ کے عبور کی تھی وہ براہ راست ان سیاروں یا کسی بھی دوسرے سیاروں کے حجم کو ناپنے کا موقع تھا اور یہ بہت اہم بات تھی ۔ کیپلر سمجھتا تھا کہ اس نے ایک اور قانون دریافت کر لیا تھا یعنی کہ سیارے کی ضخامت اس کے سورج کے فاصلے کی نسبت سے راست تناسب سے ہوتی ہے ۔ سیاروں کے مدار میں حرکت کے قانون کے برخلاف یہ کسی شہادت پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ راست تناسب کی ہم آہنگی پر انحصار کرتا ہے جو کیپلر کے عالمگیری منظر نامے ، کرۂ کی ہم آہنگی کا حصّہ تھا ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب چہارم - حصّہ ششم (آخری حصّہ)

عبور کا تعاقب

گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا اور ننھے سے عطارد کو دیکھ کر بہت زیادہ حیرت زدہ تھا ۔ بہرحال وہ پہلے سے ہی تیار تھا اور اس نے انتہائی درستگی کے ساتھ اس کی پیمائش کی اور اس کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ متشکک سامعین کے سامنے گوش گزار کردی ۔ کیپلر کے سیاروں کے ضخامت کے قانون ہم آہنگی نے عطارد اور زہرہ کے حجم کا تخمینہ بہت زیادہ جبکہ مشتری اور زحل کے حجم کا تخمینہ بہت کم لگایا تھا لیکن اس دور کے عالم کیپلر کے لگائے گئے حساب کو غلط ماننے کو تیار نہیں تھے ۔ آٹھ سال بعد جب زہرہ کو پہلی دفعہ عبور کرتے ہوئے پایا گیا تو وہ ہی حیرت زدہ چیز ویسے ہی موجود تھی ۔ وہ امیدوں کے برخلاف بہت ہی چھوٹا پایا گیا اور اس وقت کے عالموں نے جان لیا کہ سیاروں کے حجم اور مدار سختی کے ساتھ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔


جب تپتے ہوئے مشتری سیارہ HD 209458b کو اپنے ستارے کو عبور کرتے وقت ١٩٩٩ء میں مشاہدہ کیا گیا، تو کچھ متشکک لوگوں نے اس بات کی بحث کی تھی کہ نئے ڈگمگاتے ہوئے ستارے شاید سیاروں کے بجائے کسی دوسری چیزوں کے مظہر ہوتے ہیں ۔ مگر HD 209458b سیارے کے عبور نے ایک ہی دفعہ سارے شکوک و شبہات کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ لیکن مشاہدہ نے ایک حیرت زدہ حقیقت(جیسے کہ ١٦٣١ء میں عطارد نے ) سیارے کے حجم کے بارے میں منکشف کی ، سیارے کا حجم اس کی امید سے کہیں زیادہ تھا یعنی کہ وہ مشتری کے حجم کا تھا ۔

دس برس بعد پھولا ہوئے قطر کےسیارے HD 209458b اور دوسرے درجن بھر سیاروں کا ، ایک معمہ بنا رہا ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ مشتری کے وزن جیسے سیارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہوتے ہیں ۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم جو کائنات کی سب سے ہلکی گیسیں ہیں ، ان کو لے کر کوئی بھی سیارہ ایک خاص حد تک اپنا حجم ، گیسوں کو اپنے وزن سے دبا کر حاصل کر سکتا ہے ۔ کسی بھی بھاری عنصر کی موجودگی جیسا کہ آکسیجن یا دھاتیں سیارے کو سکڑنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔

مشتری اور زحل اس نظریہ کے تابع ہیں ، لہٰذا یہ بات نہایت ہی حیرت انگیز تھی کہ کئی ماورائے شمس سیارے جو مشتری جیسے ہیں وہ اس سے ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد حجم میں بڑے ہیں ۔اگرچہ ایک غیر متوقع صورتحال میں جب وہ خالص ہائیڈروجن سے بنے ہوں ، ان کا یہ حجم صرف ایک مسلسل اندرونی حرارت کے منبع کی بدولت ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ تپتے ہوئے مشتری بہت ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں لیکن سائنس دان اس بات کی وجہ بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کی توانائی کا منبع آخر کہاں پر ہو تا ہے ۔ ایک دفعہ ہم عبوری مشتریوں کو کیپلر کی دوربین کے ذریعہ مختلف قسم کے مداروں میں اپنے ستاروں سے دور تلاش کر کے ان کے نصف قطر کو ناپ لیں اس کے بعد ہم اس سراغ کے بارے میں خوشہ چینی کر سکیں گے جو ان تپتے ہوئے مشتریوں کو اس طرح سے اتنا زیادہ پھلاتا ہے۔

جوہانز کیپلر نے عطارد اور زہرہ کے عبور میں ایک اور غلطی کی تھی : اس نے صرف ایک زہرہ کے عبوری جوڑےکا سترویں صدی میں اندازہ لگایا تھا۔ کیپلر نے زہرہ کے عبور کا اندازہ ٦ دسمبر ١٦٣١ء کو لگایا تھا جو عطارد کے نقش قدم پر ایک مہینے کے بعد تھا ۔ ہمارے پیرس میں موجود دوست پیری گیسنڈی نے لگا تار تین دن تک سورج کا مشاہدہ کیا مگر سب بیکار گیا ۔ یہ اس کی غلطی نہیں تھی : یہ عبور صرف مغربی نصف کرۂ میں دکھائی دیتا جیسا کہ کیپلر نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔ جس چیز کا کیپلر اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا وہ یہ تھا کہ آٹھ سال کے بعد ٤ دسمبر ١٦٣٩ء میں زہرہ ایک دفعہ پھر سے عبور کرتا اور اس دفعہ یہ یورپ میں دکھائی دیتا۔ ایک نوجوان انگریز جیرمیاه ہوروکس(Jeremiah Horrocks) نے کیپلر کی غلطی کو پکڑا اور زہرہ کو عبور کرتے ہوئے سب سے پہلے دیکھا ۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سولہ برس کا ہوروکس کیپلر سے ایک بہتر سیاروی حساب لگا سکتا تھا جو بابائے قوانین مدرتھا ، ؟ اس کا جواب فلکیاتی اکائی (سورج سے زمین کا فاصلہ )کی پیمائش میں موجود تھا جو زہرہ کے عبور کے ایک صدی بعد دریافت ہوا تھا۔ کیپلر کے دور میں یہ فاصلہ معلوم نہیں تھا ، صرف تخمینہ جات موجود تھے اور کیپلر نے ایک مختصر فاصلہ لے کر حساب لگایا تھا ۔ لہٰذا زمین پر موجود ایک شاہد کے لئے ٤ دسمبر ١٦٣٩ء کو زہرہ کا مخالف زاویہ بہت زیادہ بڑا تھا اور کیپلر نے اندازہ لگایا کہ زہرہ سورج کے سامنے سے گزرنے کے بجائے اس سے ہلکا سا دور ہوتا ہوا گزر جائے گا۔ ہوروک نے نئے چھپے ہوئے جدول کی مدد سے دوبارہ حساب لگایا جس میں سورج سے زمین کا فاصلہ زیادہ لمبا بیان کیا ہوا تھا ۔ یوں اس طرح اس نے عبور کو پا لیا تھا !

اس چھوٹی سی حکایت نے ایک اہم حقیقت کو بیان کیا ہے - کیپلر کے قوانین درست اور ٹھیک تھے ، تاہم یہ وہ نسبت دیتے ہیں کہ ایک سیارے کے مدار سے کس طرح سے دوسرے سیارے کا مدار ناپا جا سکتا ہے ۔ اصل (مطلق) فاصلے کو حاصل کرنے کے لئے (مثلاً جیسے کہ کلومیٹر ) ہمیں کم از کم ایک مدار کو اسی قدر میں جاننا لازمی ہے ۔ لہٰذا اگر ہم فلکیاتی اکائی کو جانتے ہیں، تو اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم نظام شمسی میں موجود تمام سیاروں کا فاصلہ جان سکتے ہیں۔ آج فلکیاتی اکائی کی درست پیمائش کو جاننا بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ہم دوسرے ستاروں اور ان کے سیاروں کا فاصلہ ناپ سکتے ہیں ۔

ہوروک کےزہرہ کے عبور کے مشاہدے کے پچیس سال بعد ، اسکاٹ لینڈ میں موجد جیمز گریگوری (James Gregory) نے فلکیاتی اکائی کو درستگی سے ناپنے کے لئے عبور کو استعمال کرنے کی تجویز دی ۔ اسی دوران ، درست راستے کی نشاندہی اس دور کی شاہی قوّت کے لئے تزویراتی اہمیت کی حامل بن گئی تھی۔ فلکیاتی جدول کی درستگی فلکیاتی اکائی پر منحصر ہے اور فلکیاتی جدول کی حیثیت درست راستے کو ناپنے کے لئے مرکزی ہے ۔١٧٦١ء اور ١٧٦٩ء میں زہرہ کے عبور کا معاملہ پیرس کے اپارٹمنٹ میں موجود وقتی فلکیات دان یا انگلستان کے کسی گاؤں کے گھر والے کے ہاتھ میں نہیں رہا تھا ۔ زہرہ کے عبور کا تعاقب کرنا اب بین الاقوامی مقابلہ بن گیا تھا ۔

اٹھارویں صدی میں زہرہ کے عبور کی اہمیت کا احساس کرنے کے لئے ان لوگوں کو دیکھیں جو اس میں ملوث تھے اور ان کی مہمات کو عالمگیر سطح پر مالی تعاون حاصل تھا ۔ چارلس میسن(Charles Mason) اور جیرمیاه ڈکسن(Jeremiah Dixon) ، جو بعد میں شہرہ آفاق میسن –ڈکسن سرحد پنسلوانیا اور میری لینڈ کے درمیان کھنچنے کے لئے گئے ، انہوں نے برطانیہ کی عبور کو ناپنے کی پہلی مہم کی رہنمائی کی۔ کپتان جیمز کک نے دوسرے برطانوی عبور کو ناپنے کی رہنمائی کی اور بعد میں بحرالکاہل کے کافی حصّے کی کھوج کی مہم پر گیا ۔

عطارد اور زہرہ کے عبور نے اپنی عملی اہمیت اکیسویں صدی میں کھو دی ۔ بہرحال ہمارے جہاز اب بھی بندرگاہیں چھوڑتے وقت اور اوپر خلاء میں خلائی سیاروں کے لئے بھی عبور کا تعاقب کرتے ہیں۔ جوہا نز کیپلر اس بات کو جان کر یقینی طور پر خوش ہوتا کہ ان خلائی دوربینوں میں سے ایک اس کے نام پر رکھی گئی ہے اور کپتان کک اس کو شاباش اور ہمیں نئے جہانوں کی کھوج کے لئے ترغیب دیتا ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب پنجم - حصّہ اوّل



فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ


ہمیں اپنے کرۂ ارض سے الفت ہے ۔ ہمیں ہونی بھی چاہئے - یہ ہمارا گھر ہے اور اس جیسی کوئی بھی دوسری جگہ نہیں ہے۔ کوئی بھی جگہ کرۂ ارض سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے نظریوں کی زبردست جذباتی انداز میں حمایت کرتا ہوا سنجیدہ سائنسی مواد بھرا ہوا ہے۔ اس کو اکثر "گولڈی لاکس کا نظریہ"(Goldilocks hypothesis)کہتے ہیں : کرۂ ارض بالکل مناسب حجم کی ہے (نہ زیادہ بڑی ، نہ زیادہ چھوٹی ) اور اس کا درجہ حرارت بھی بالکل مناسب ہے (نہ زیادہ گرم ، نہ زیادہ سرد ) تمام چیزیں حیات کی شروعات کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ حیات ایک نایاب چیز ہے۔ ہمارے چھوٹے سیارے پر زیست کے بسیرے کے علاوہ ہم نے ابھی تک کوئی بھی دوسری جگہ نہیں دیکھی ہے جہاں ہم یقین کے ساتھ حیات کے موجود ہونے کا کہہ سکیں۔ تو کیا زمین کا کائنات میں مرکزی حیثیت کا نظریہ درست ہے۔ کیا ایسا ہی ہے ؟

حیات ایک دفعہ کل پرزے نکال لے تو اس کے بعد وہ بہت ہی زیادہ لچک دار بن جاتی ہے ، لیکن پہلی مرتبہ نمو کے لئے اس کو زرخیز کیمیا، توانائی کے بڑے ذرائع اور تسلسل کی ابتداء ہی سے ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی سیارہ شناسی کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی حالت کا سازگار ہونا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کرۂ ارض بے عیب لگتی ہے جبکہ دوسرے سیاروں میں نقائص پائے جاتے ہیں۔ مریخ چھوٹا ہے ، پانی اور کرۂ فضائی کی کمی ہے اور انتہائی سرد بھی ہے (اگرچہ ہم اب بھی پرامید ہیں کہ وہاں پر کسی قسم کی حیات کا پا لیں گے )۔ مشتری بہت زیادہ بڑا ہے ، اس کا کچل دینے والا دباؤ اور عناصر کی کمی والا ماحول دلچسپ کیمیا کو بنانے سے یکسر قاصر ہے۔ ایسے کسی بھی مماثلت والے تجزیہ کے ساتھ جو مسئلہ جڑا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ان اہم سیاروں کی جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں جو خالص اتفاق سے وجود میں آ جاتے ہیں اور ایسے سیارے ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہیں۔

فوق ارض موجود ہیں ، جن کو ہم اگلے باب میں تفصیل سے زیر بحث کریں گے۔ فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے جو کرۂ ارض کے مقابلے میں زیادہ ضخیم اور بڑا ہوتا ہے، وہ چٹان سے ہی بنا ہوا ہوتا ہے - اور شاید اس میں بر اعظم ، سمندر اور کرۂ فضائی بھی موجود ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بھی سیارہ ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ دوسرے نظام ہائے شمسی میں عام پائے جاتے ہیں۔مزید براں نظریہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ ایسے کسی سیارے میں کرۂ ارض کی تمام اچھی خصوصیات موجود ہو سکتی ہیں ، بلکہ درحقیقت اس کی سطح پر ہم سے زیادہ پائیدار ماحول موجود ہوگا۔ وہ اصلی فوق ارض ہوں گے!

فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے جس کو اس کی کمیت کے حساب سے بیان کیا جاتا ہے - جو ایک سے لے کر دس ایم ای (جس میں ایم ای ، زمینی کمیت کا مخفف ہے )۔زمین کی کمیت ٦٣١٠ ^٢٤ کلوگرام یا ٦ کے ساتھ ٢٤ صفر لگا دیں ، تو اتنی ہے۔ یہ واقعی بہت زیادہ ہے ، مگر سورج کی کمیت زمین سے دس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ اتنی زیادہ کمیت ہے کہ ہماری عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔

میں فوق ارض کو زمین کی کمیت کے دس گنا تک محدود کرتا ہوں اس کی کافی ساری وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے ابھی تک اس حد سے بڑا کوئی بھی فوق ارضی سیارہ نہیں دیکھا ہے۔ ہمیں درجنوں چھوٹے ماورائے شمس سیاروں کی اس حد سے زیادہ اوسط کمیت بھی معلوم ہے ، اس میں سے زیادہ تر گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں جیسا کہ نیپچون۔ دوسرے جب سیارے کسی بھی ابتدائی سیاروی قرص میں بننے شروع ہوتے ہیں (جیسا کہ خاکہ 1.1 میں دکھایا ہے )، دس ایم ای ایک ایسی حد فاصل(Critical Limit) کی کمیت ہے جس میں ہائیڈروجن گیس سیارے میں جمع ہوجاتی ہے اور بڑھتے ہوئے سیارہ میں ہی موجود رہتی ہے یوں وہ سیارے کو نیپچون جیسا دیو ہیکل سیارہ بنا دیتی ہے۔ بلاشبہ اس وقت یہ حد ابھی تک صرف تخمینہ جات ہی ہیں اور اوپری حد فوق ارض کی کمیت کے دس سے بیس ایم ای کے درمیان ہو سکتی ہے۔

پہلا فوق ارض ٢٠٠٥ء میں یوجینو ریورا (Eugenio Rivera)، جیک لیزور(Jack Lissauer) اور کیلی فورنیا – کارنیگی ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے خوش قسمتی سے دریافت ہو گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے ستارے گلیز ٨٧٦ کے گرد چکر لگا رہا تھا اور لگ بھگ زمین سے سات گنا زیادہ ضخیم تھا۔ وہ بہت زیادہ گرم تھا کیونکہ اس کا مدار اپنے ستارے سے بہت ہی زیادہ نزدیک تھا صرف نجمی نصف قطر کے ٧ گنا یا سترہ لاکھ کلو میٹر دور !(سورج سے عطارد کے فاصلے کے مقابلے میں یہ صرف تین فیصد ہے۔) ایک اور تھوڑا ٹھنڈا فوق ارض جو پانچ ایم ای کا تھا وہ جے پی بیولیو(J. P. Beaulieu) اور اس کی پیرس انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کی ٹیم نے ثقلی عدسے کے طریقے کا استعمال کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس طریقے کو ہم باب سوم میں بیان کر چکے ہیں۔ ٢٠٠٧ء کے شروع میں جنیوا میں مچل میئر کی ٹیم نے کم از کم تین سیارے جو گلیز ٥٨١ کے گرد مدار میں موجود تھے ان کو دریافت کیا ، ان میں سے دو فوق ارض تھے جن میں سے ہر ایک کی کمیت کم سے کم پانچ اور آٹھ ایم ای تھی اور یہ زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں ساتھ فیصد سے لے کر پچیس فیصد تک کے فاصلے میں بلترتیب چکر لگا رہے تھے۔ ایک سال کے بعد ہی اسی ٹیم نے کئی اور فوق ارضی سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا جن میں سے کچھ اتنے بڑے اور گرم ستاروں کے گرد چکر لگا رہے تھے جتنا کہ ہمارا سورج ہے۔ سب سے پہلا عبوری فوق ارض سیارہ کوروٹ خلائی مہم نے ٢٠٠٩ء میں دریافت کیا :کوروٹ ٧ ب ، بہت ہی چھوٹا گرم سیارہ شاید گلیز ٨٧٦ جیسا ہی تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب پنجم - حصّہ دوم



فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ

ایسے سیاروں کے براہ راست مشاہدے کا بہت ہی کم موقع ملتا ہے ،اور جب موقع ملتا ہے تب بھی سیارے کی کمیت اور مدار کے ساتھ دوسری چیزوں کے بارے میں حسیاتی طور پر بہت ہی کم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا سائنس دانوں نے ان سیاروں کی ساخت کے بارے میں نظریوں کی مدد سے جواب حاصل کرنے شروع کر دیئے۔ فلکی طبیعیات دان اور سیاروی سائنس کے عملی سائنس دان "نظریہ " اس کو کہتے ہیں جس میں تجربات اور مشاہدات سے حاصل کردہ نتائج کو بیان کرنے اور ان دیکھے اجسام و مظاہر کے بارے میں پیش گوئی کرنے کی تحقیق کی جاتی ہے ۔(یہ ایک مختصر راستہ ہوتا ہے اور اس کو سائنسی نظریہ کے ساتھ ملا کر گڈ مڈ نہ کیا جائے ، جس میں نیوٹن کے میکانیات کے قوانین استعمال کیے جاتے ہیں جو اتنے مستحکم ہیں کہ ہم ان کو قدرتی قوانین کے ہم پلہ ہی سمجھتے ہیں۔) نظری وہ سائنس دان ہوتے ہیں جو نہ تو تجربات اور نہ ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔ ماضی میں وہ پنسل اور کاغذ سے کام چلاتے تھے ، تاہم حالیہ دور میں وہ کمپیوٹر کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ کسی عمل کا نمونہ بناتے ہیں یا ریاضی کی مساوات کو حل کرکے کسی بھی جسم کی خصوصیات کا حساب لگاتے ہیں اور پھر اسے بیان کرتے ہیں۔ سائنس کی تاریخ میں ، البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein)اور اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking) نظری ہیں ، ارنسٹ ردر فورڈ(Ernest Rutherford) تجرباتی سائنس دان تھا ، ایڈون ہبل (Edwin Hubble)ایک شاہد تھا۔ کبھی کبھی ان کے درمیان یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اگرچہ مشاہدات کی ایک حد ہوتی ہے ، سائنس دان نظریاتی نمونوں کو کمپیوٹر کی مدد سے تیار کرکے فوق ارض پر تحقیق کر سکتے ہیں ، تاکہ بعد میں اپنی اس تحقیق کو مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھ سکیں۔ تخمینے اور مشاہدے کا مقابلہ کرکے ہم اپنے نمونے کو اور بہتر کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم غیر معمولی سیاروں کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ جس طرح سے سائنس نے زمین کے اندرون اور نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کے بارے میں پچھلے سو برسوں سے بھی کم عرصے میں مطالعہ کیا ہے یہ اس سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ در حقیقت ہماری مشتری جیسے ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں حاصل کردہ معلومات ، ١٩٥٠ء کے عشرے میں مشتری کے بارے میں موجود معلومات کے برابر ہے۔

نظریہ کاروں نے ٢٠٠٤ء سے اس قسم کی جدوجہد فوق ارض کے بارے میں شروع کی ہے۔ ٢٠٠٤ء سے پہلے نظریاتی طور پر اس کا مطالعہ نہ کرنا صرف ان کی کوتاہی سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔ نظریہ کار عام طور پر ان اجسام اور مظاہر کے اوپر کام کرتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوں۔ وہ کیوں ایسی چیزوں پر وقت ضائع کریں جو فوری طور پر موجودنہ ہوں؟

میں کیونکہ ایک نظریہ کار ہوں ، لہٰذا میں اپنی ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں۔ جب ہارورڈ کے سیاروی سائنس دان رچرڈ او کونیل(Richard O’Connell) اور میں نے پہلی دفعہ کرۂ ارض جیسے کسی سیارے کے کمپیوٹر نمونے کے بارے میں بات کی تو وہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں لگا۔ ہم صرف متجسس ہی تھے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم کچھ زیادہ ناامید نہیں ہوئے - اس قسم کے بڑے چٹانی سیاروں کے نمونے تو درحقیقت میں بہت ہی دلچسپ رہے تھے اور سال کے آخر میں ڈائنا ویلنشیا (Diana Valencia)، جو ایک سند یافتہ طالبعلم تھیں اور جن کو رک(Rick) نے اس منصوبے پر کام کرنے کے لئے رکھا تھا ، وہ ہمیں ایک مختصر جائزہ امریکن جیو فزیکل یونین کی میٹنگ میں دینے کے لئے تیار تھیں۔ مجھے اس وقت بھی شک تھا کہ کسی نے اس سے پہلے اس قسم کے نمونے پر زیادہ کام نہیں کیا ہوگا ، لہٰذا میں نے ڈائنا سے کہا کہ پریزنٹیشن دینے کے بعد اپنے رفقائے کاروں سے گفتگو کے دوران زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ بہت زیادہ حوصلے کے ساتھ واپس آئی۔ لوگ اس میں کافی دلچسپی لے رہے تھے اور ابھی تک کسی کے پاس بھی ایسا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا۔ واقعی ہم ایک نئی دنیا میں قدم رکھ رہے تھے!

فوق ارض کو تلاش کرنے کی میری مسلسل تحریک تجرباتی کامیابی کے نتیجے میں اور زیادہ بڑھ گئی۔ اس تجربے میں وہی طریقہ استعمال کیا جس طریقے کو عبوری سیاروں کو مرکزی ستاروں کو عبور کرنے کے دوران تلاش کرنے میں استعمال کیا تھا۔ ماورائے شمس سیاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ اور کیپلر کی آمد نے تو اس کام کو اور دلچسپ بنا دیا تھا۔

کیپلر کے مشن کی تیاری میں ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے میں اس بات سے باخبر تھا کہ ہم نیپچون سے چھوٹے اور زمین سے بڑے سینکڑوں سیارے دریافت کرنے جا رہے ہیں ، اس کے باوجود ہمیں ان کی کمیت اور نصف قطر کے بارے میں ابھی کچھ نہیں معلوم تھا کہ کیسے وہ ایک دوسرے سے نسبت رکھتے ہیں۔( یہی وہ مسئلہ تھا جو مجھے رک او کونیل کے پاس شروع میں لے گیا جو میرے رفیق تو تھے مگر اس سے پہلے وہ ہارورڈ ارتھ اینڈ پلانٹری سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔)

کسی بھی چیز کو فوق ارض کہلانے کے لئے دو پیمانے جو ڈائنا، رک اور میں نے بنائے وہ یہ تھے (١) ان کو ایک اور دس ایم ای کے درمیان ہونا چاہئے تھا (٢) ان کو زیادہ تر ٹھوس چیزوں سے بنا ہونا چاہئے تھا (جیسا کہ برف اور چٹان )۔ یہ بوقلمونی کے لئے کوئی بہت ہی زبردست اجزائے ترکیبی نہیں تھی اور یہ بات بھی سچ تھی کہ ہمارے بنائے گئے کچھ نمونے کافی زیادہ شناسا بھی تھے۔ بہرحال اکثریت ہم نے ایسے سیاروں کی دیکھی جو نئے اور اجنبی تھے۔

چلیں شروعات ایک شناسا سیارے سے کریں اس کے لئے ہمیں زمین کے قلب تک کا سفر کرنا ہوگا ۔ چٹانی فوق ارض جیسا کہ خاکہ نمبر5.1 الف میں دکھایا گیا ہے ایک اچھا خاکہ ہے جو بتا رہا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔
5.1 by Zonnee, on Flickr
5.1فوق ارض کا اندرون۔ الٹی طرف کی تصویر (الف) چٹانی فوق ارض کے اندرون کے بارے میں بتاتی ہے جو ہمارے کرۂ ارض کے اندرون سے ملتا جلتا ہے ؛(ب) سمندری یا پانی کا فوق ارضی سیارہ جہاں پر زیادہ تر پانی ٹھوس شکل میں ہے ۔

باہری پرت زیادہ تر ٹھوس ہوگی۔ وہ کس چیز سے بنی ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ہم کس جگہ پر موجود ہے۔ ہمارے اپنے سیارے پر ہم اگر اپنے سفر کا آغاز کیلی فورنیا سے شروع کریں ، تو پرت سیلیکا سے بھرپور ہوگی ، جیسا کہ گرینائیٹ جو لگ بھگ بیس کلو میٹر گہری ہوگی ۔ اگر ہم اپنا سفر بحرالکاہل کی تہ سے شروع کریں جو ہوائی کے جزیروں کے قریب ہے ، تو قشر سنگ سیاہ کی چٹانیں ہوں گی ، جو سیلیکا سے کثیف زبرجد جیسی اور صرف پانچ کلو میٹر تک گہری ہو گی۔ زمین کے قشر کی اوسط خشکی میں تیس کلو میٹر دبیز ہوتی ہے جبکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا سمندر میں مہین اور بر اعظمی پہاڑوں پر گہری ہوتی ہے۔ ہمارا سفر قلب تک صرف چھ ہزار چار سو کلومیٹر لمبا ہے لہٰذا تیس کلومیٹر کی قشر تو صرف مختصر سا تعارف ہی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب پنجم - حصّہ سوم



فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ

جتنا ہم گہرائی میں جائیں گے تو اتنا ہی درجہ حرارت متواتر بڑھتا چلا جائے گا ، کان کن یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ، کیونکہ چٹانوں کا دباؤ اس بات کا سبب ہوتا ہے۔ نتیجتاً قشر کے نیچے ایک ایسا جزوی علاقہ ہوتا ہے جو پگھلا ہوا ہوتا ہے (آتش فشانوں کے زیادہ تر لاوا یہاں سے جنم لیتے ہیں ) یہ تیزی سے غلاف (Mantle)بن جاتا ہے ، جو ایک گرم چٹانوں کی کثیف پرت ہوتی ہے جسے اکثر پگھلا ہوا بتایا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ نام کا غلط استعمال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ زمین کی سطح پر دو ہزار ڈگری درجہ حرارت پر چٹان آتش فشانوں سے کسی سیال کی طرح بہتی ہیں ، لیکن گہرائی میں موجود غلاف کے اندر زبردست دباؤ سے وہی چٹانیں ایسی ہو جاتی ہیں جیسا کہ ٹھنڈا شہد : لوچ دار اور بہنے کے لئے حد درجہ آہستہ۔ غلاف اس طرح کی حالت میں ہوتا ہے جیسا کہ وہ آہستگی سے حرکت کرتا ہوا ابل رہا ہو (جس کو ایصال حرارت [convection]کہتے ہیں ) – غلاف اتنا چپچپا ہوتا ہے کہ اس میں بلبلے اوپر آنے کے لئے لاکھوں سال لے لیتے ہیں۔ بہرحال یہ زمین کے عرصہ حیات کے مقابلے میں کافی کم ہے ، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارضیاتی (یا سیاروی ) وقت کے پیمانے پر کافی ساری چیزیں بلوئی اور مکس کی جاتی ہوں گی۔ زمین کی تہ میں موجود غلاف کا درجہ حرارت ٣،٧٠٠ ڈگری ہوتا ہے ؛ یہ حرارت سطح کی جانب بہتی ہے۔ اسی دوران ، ٹھنڈی اور کثیف چٹان جو سطح کے قریب ہوتی ہے وہ تہ میں ڈوب کر نیچے جاتی ہے اور اس عمل کے دوران مکمل طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔ ہم اس کے کچھ اثر کو سطح پر دیکھ سکتے ہیں جب ایصال حرارت قشر کے ٹوٹے ہوئے حصّوں کو دھکیل کر آہستگی کے ساتھ براعظموں کو از سر نو ترتیب دیتی ہے۔ جن کو ہم ٹیک ٹونک پلیٹ(ارضی سختائے ہوئی پرتیں) کہتے ہیں۔

غلاف زمین کی سب سے بڑی پرت ہے ، جو لگ بھگ ٢،٨٦٠ کلو میٹر دبیز ہے اور سیارے کی ٨٤ فیصد ضخامت بناتی ہے۔ غلاف بر اعظمی چٹانوں سے کہیں زیادہ دبیز ہے اور زیادہ تر ایک معدن پروف اسکائیٹ(Perovskite) پر مشتمل ہے :یہ معدن ایک گہری کثیف چٹان ہے جس میں لوہے اور میگنیشیم کی مقدار٥٠ فیصد سے زیادہ ہوتی ہے اور یہ گرینائیٹ سے زیادہ کثیف ہوتی ہے۔

غلاف کے نیچے ، لگ بھگ ٢٩٠٠ کلومیٹر سطح سے نیچے ، ہمیں قلب ملتی ہے جو خالص لوہے اور لوہے کی کچ دھات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں پر درجہ حرارت کافی بلند ٥ سے ٧ ہزار کیلون تک ہوتا ہے جو سورج کی سطح پر موجود درجہ حرارت کے مقابلے کا ہے۔ یہاں دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ قلب کثافت میں غلاف کی دبازت جتنی ہی ہوتی ہے لیکن مرکز میں رہتے ہوئے یہ سیارے کی کل ضخامت کا صرف ١٥ فیصد ہی ہوتی ہے۔ زمین کا قلب دو حصّوں پر مشتمل ہے : ایک باہری جو مائع لوہے کا قلب ہے جبکہ دوسرا اس کے نیچے ایک ٹھوس قلب ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ باہری قلب اسی طرح کے مائع کی طرح ہے جیسا کہ غلاف کا مائع ہوتا ہے۔

یہ تمام باتیں ہم نے زلزلے پر تحقیق کرکے حاصل کی ہیں۔ اندرونی حصّے کا سب سے بہترین نظارہ زلزلے کی موجوں کے راستوں کے تجزیہ سے حاصل ہو سکتا ہے جو زمین میں سفر کرتی ہیں۔ پورے سیارے پر زلزلہ پیما اس بات کو درج کرتے رہتے ہیں کہ کہاں اور کتنی تیزی سے زمین کے اندر اچھلتے ہوئے ایک زلزلے سے مختلف موجیں بنتی ہیں۔(یہ باہر سے انسانی جسم کی اندرونی تصویر کو بالائے صوتی موجوں(Ultrasound Waves) کا استعمال کرکے حاصل کرنے سے زیادہ کچھ الگ نہیں ہے۔) مکمل تصویر اس وقت حاصل ہو جاتی ہے جب ہم اپنا زمین کے مقناطیسی میدانوں ، حرارتی بہاؤ اور ثقلی قوّت کا علم اس میں ڈالتے ہیں۔ یہ علم ہم نے خلائی جہازوں اور تجربہ گاہوں میں چٹانوں پر اونچے دباؤ کو ڈال کر حاصل کیا ہے۔

میں نے کچھ ساختوں کے بارے میں باب دوم میں تھوڑا سا اشارہ کیا تھا ، لیکن مکمل بات جو ذرا زیادہ پیچیدہ ہے وہ میں نے ابھی تک بیان نہیں کی ہے۔ سیارے بننے سے پہلے سیارے کی ساخت - جس کو ہم سیارے کا بیج کہ سکتے ہیں - ٹھوس (زیادہ تر سلیکٹ ) اور طیران پذیر(جیسا کہ پانی اور امونیا ) جیسی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ، جس میں قلیل مقدار میں ہائیڈروجن اور غیر عامل گیسیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ پرت دار قرص (Accretion Disk)بننے کے عمل میں پیدا ہونے والی توانائی اور تسلسل کے ساتھ بڑے اجسام سے تصادموں کی وجہ سے یہ سیاروی بیج پوری طرح سے پگھل جاتا ہے۔(کرۂ ارض کی کچھ اندرونی حرارت اسی عمل کی باقیات ہے۔) اسی حالت میں ساخت امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ لوہے اور فولاد کی کمی کے حامل عناصر (اونچے درجے کی کثافت کی عبوری دھاتیں جو لوہے کے ساتھ بند باندھنے کو پسند کرتے ہیں ) سلیکٹ کے ملغوبے سے بہہ کر اپنے ہی وزن کے زیر اثر مرکز کے قلب میں جا کر بیٹھ گئے۔ جبکہ باقی بچی ہوئی سلیکٹ غلاف میں کم کمیت والوں کے ساتھ اوپر کی سطح سے نزدیک باقی رہ گئی۔ غلاف کے معدنیات کی آبیدگی ہونے کے بعد بچ جانے والے طیران پذیر مادّے سطح اور ماحول پر اوپر اٹھ گئے تھے۔

سیاروی امتیاز(Planetary Differentiation) کہلانے والا یہ عمل ارضیاتی اصطلاح میں بہت ہی تیز تھا اور بڑے اور چھوٹے(جیسا کہ چند میل پر محیط سیارچے ) دونوں اقسام کے سیاروی اجسام پر یکساں لاگو تھا۔ لوہے کے شہابیے - جو لوہے کی کچ دھات کے خالص ٹکڑے ہوتے ہیں اور سورج کے گرد اس وقت تک چکر لگاتے ہیں جب تک ایک دن زمین پر گر کر ہمیں مل نہیں جاتے - یہ سیارچوں کے لوہے کی مختلف امتیازی ساخت والی قلب میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں دوسرے سیاروں کے ساتھ ٹکرا کر تہس نہس ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگرچہ ہمارے پاس زمین کے قلب کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے اور مستقبل میں بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم اس کو حاصل کر پائیں گے ۔ لوہے پر مشتمل شہابیے زمین کے قلب کی زبردست نیابت کرتے ہیں۔ امتیاز کا عمل ایک منظم اور قابل پیش گو ہے ، ہمیں اپنی کیمیا اور دباؤ میں معدنیات کی خصوصیات کے علم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب پنجم - حصّہ چہارم



فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ

کچھ فوق ارضی چٹانی سیارے اسی طرح سے ارتقاء پاتے ہیں ، اگرچہ غلاف میں موجود دباؤ کچھ دس گنا زیادہ ہوتا ہے یوں مختلف قسم کی معدنیات پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسرے فوق ارضی سمندری سیارے مکمل اجنبی سیارے ہیں جہاں ایک سو کلومیٹر گہرے سمندر موجود ہیں جن کی گہرائی میں کثیف گرم ٹھوس پانی اس شکل میں موجود ہے جو برف VII کہلاتی ہے۔

ایسے پانی کو برف کا نام دینا عجیب سا لگتا ہے ، جبکہ اس کا درجہ حرارت جھلسا دینے والا ایک ہزار کیلون ہوتا ہے ، لیکن یہ اتنے دباؤ پرہی بنتی ہے۔ پانی جس کا کیمیائی فارمولا H2O اس کی ساخت اور فارمولا وہی شناسا ہوگا۔ لیکن ہماری اس سے عمومی شناسائی اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتی ہے کہ یہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایک اہم خاصیت تو یہ ہے کہ آکسیجن کا پانی کے سالمات میں موجود جوہر اپنا الیکٹران دو ہائیڈروجن کے جوہروں کے ساتھ مساوی طور پر شریک نہیں کرتا ؛ جس کی وجہ سے سالمہ ایک غیر متشاکل برقی بار کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے۔ پانی کے ننھے سالمے کو ایک چھوٹے مقناطیس کی طرح سمجھیں بس اس کے تین قطب ہوتے ہیں (ایک منفی "O" اور دو مثبت "H"۔) پانی کے سالمے ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہیں کیونکہ ایک سالمے کے ہائیڈروجن کے جوہر کے قریب مثبت بار کمزور بند، دوسرے سالمے کے آکسیجن کے جوہر کے قریب منفی بار ،سے باندھتے ہیں۔ ایسے کوئی کمزور بند مل کر مضبوط ساخت بنا سکتے ہیں بشرطیکہ درجہ حرارت اس قدر کم ہو جو ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے۔ اسی طرح سے عام پائی جانے والی برف بنتی ہے جس کو برف آئی ایچ یا مسدسی برف (Hexagonal Ice) کہتے ہیں۔ عام پائی جانے والی برف میں سالموں کے درمیان کمزور بند سالموں کو حلقے بنانے پر مجبور کرتے ہیں (جو زیادہ تر مسدسی ہوتے ہیں ) جس کے نتیجے میں کافی ساری خالی جگہ ان کے درمیان چھوٹ جاتی ہے۔ خالی جگہ کی وجہ سے اس کی کثافت مائع پانی سے ہلکی ہوتی ہے لہٰذا یہ پانی پر تیرتی ہے۔ اس بات کا مظاہرہ آپ نے بھی پانی کے گلاس میں برف کو تیرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔

اونچے دباؤ پر پانی کی کثافت بڑھ جاتی ہے کیونکہ سالموں پر آپس میں قریب آنے کے لئے طاقت لگتی ہے ؛ جس کے نتیجے میں یہ بند اور تنگ حلقے بناتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے میں گھس بھی جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پانی ٹھوس بن جاتا ہے صرفِ نظر کہ اس کا درجہ حرارت کیا ہے اور اس کی کثافت بھی مائع والی حالت سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اونچے درجے کی برف جو بلند درجے حرارت پر بھی قائم رہتی ہے اس کو ہم برف VII، X اور XI سے جانتے ہیں ؛ یہ برف کے وہ مرحلے ہیں جن کی ہم فوق ارض کے سمندروں میں پائے جانے کی امید کرتے ہیں۔ برف اب بھی چٹان سے ہلکی ہوتی ہے ، بہرحال ، سمندری فوق ارضی سیارے اپنے چٹانی ہمعصر جیسی کمیت والے سیارے کی بہ نسبت کم کثیف ہوں گے۔

یہ بہت ممکن ہے کہ سمندری سیارے کائنات میں بہت ہی زیادہ عام ہوں کیونکہ پانی کم درجے حرارت والے ماحول والی جگہوں پر کافی عام ہیں جہاں پر سیارے بنتے اور ارتقاء پاتے ہیں ۔ یہ بات فوق ارض کے معاملے میں بھی لاگو ہو سکتی ہے جو طیران پذیر مادوں کو اپنی بڑی کمیت اور سطحی ثقل کی بدولت آسانی کے ساتھ روک کر رکھ سکتا ہے۔ کسی بھی سیارے کے لئے جو سمندری سیارے بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ یا تو بنتے وقت یا پھر بننے کے بعد کم از کم اپنی کمیت کا دس فیصد حصّہ پانی سے حاصل کرے۔ امونیا بھی اس میں مل سکتی ہے ، مگر پانی زیادہ غالب طیران پذیر کیمیائی مادّہ ہوتا ہے جو ہم نے ابتدائی سیاروی قرص میں دیکھا ہے۔ تقابل کے طور پر زمین کے سمندر صرف0.002 فیصد زمین کی کل کمیت کے ہیں۔ بہرحال بہت زیادہ پانی کی مقدار زمین کے غلاف میں ڈالی جا سکتی ہے۔ اسی لئے میں نے پانی کی کافی زیادہ مقدار کو فرض کیا ہے (10 فیصد سے بھی زیادہ ) تاکہ سیارے کے گرد ایک تہ بلا روک پانی کی بن سکے (خاکہ5.1 ب )۔
5.1 by Zonnee, on Flickr
5.1فوق ارض کا اندرون۔ الٹی طرف کی تصویر (الف) چٹانی فوق ارض کے اندرون کے بارے میں بتاتی ہے جو ہمارے کرۂ ارض کے اندرون سے ملتا جلتا ہے ؛(ب) سمندری یا پانی کا فوق ارضی سیارہ جہاں پر زیادہ تر پانی ٹھوس شکل میں ہے ۔

اس بات سے صرف نظر کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت کیا ہے ، ایک سمندری سیارے کے اندر وہی پرتیں ہونی چاہئیں : ایک لوہے کا قلب جس کے گرد سلیکٹ سے بھرپور غلاف اس کو گرم پانی کی برف سے الگ کر رہا ہوگا۔ موخّرالذکر سطح کے قریب پہنچ کر (آخری سو کلومیٹر یا اس کے آس پاس ) مائع پانی میں بدل گیا ہوگا۔ مائع پانی کی سطح عام برف سے ڈھکی ہوگی ، بشرطیکہ سیارہ اپنے ستارے سے کافی دور اور سرد ہے ، جیسا کہ مشتری کا چاند یوروپا۔ اگر سیارہ اپنے ستارے سے قریب ہے اور سطح پر کافی درجہ حرارت موجود ہے ، تو مائع سمندر ایک دبیز گرم بھاپ میں بدل جائے گا۔ اگر سیارے کا درجہ حرارت مناسب ہوگا جیسا کہ ہماری زمین کا ہے ، تو پانی کے سمندر ہمارے جیسے ہی لگیں گے ، لیکن وہاں اس کے نیچے کوئی بر اعظمی یا سنگ سیاہ کی ٹیکٹونک پلیٹ موجود نہیں ہوں گی۔ سمندری سیارے کا اندرون سیارے کی اندرونی گرمی کے ذخیرہ کے قابو میں ہی رہے گا۔ سلیکٹ کے غلاف اور گرم پانی کی برف کے درمیان منتقلی میں صرف کثافت میں تھوڑا سا فرق ہوگا مگر درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں ہوگا ، اور دونوں مادوں میں ایک جیسی ہی اونچے درجے کی چپچپاہٹ ہوگی۔ سلیکٹ کے غلاف کی طرح ، گرم پانی کی برف کا غلاف حرارت کا ایصال آہستگی کے ساتھ کرے گا۔

فوق ارض کے دو سیاروی گروہ حجم اور پانی کی مقدار کے لحاظ سے بہت ہی تنوع سے بھرپور ہیں۔ ان کی خصوصیات کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ سیارے کے بنتے وقت کون کون سے عنصر موجود تھے۔ ستاروں کے طیف کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم جانتے ہیں کہ لوہے اور دوسرے بھاری عناصر مختلف سیاروی نظام میں مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ سیارے ،سیاروی قرص کے کس مقام پر بن رہے ہیں یہ امر بھی ان کے بننے میں کافی زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ لہٰذا چٹانی سیاروں کے درمیان ہمیں فوق عطارد بھی مل سکتے ہیں - وہ سیارے جن کے لوہے کا قلب کل سیارے کی کمیت کا 70 فیصد تک ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہمارا سیارہ عطارد ہے۔ یا ہمیں فوق چاند بھی مل سکتے ہیں - وہ سیارے جن کے قلب میں لوہا نہیں موجود ہوتا ، صرف لوہے سے بھرپور غلاف اور شاید پانی کی تہ ہوتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

آوازِ دوست

محفلین
جناب زہیر عباس صاحب انڈیا کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں قابلِ رشک مقام پر ہے بڑی وجہ انگریزی زبان میں موجود بہترین مواد تک آسان رسائی ہے۔ عام پاکستانی طالب علم بوجوہ شائد اِس رکاوٹ کو عبور نہ کر پائے۔ آپ کبھی طلباء کے لیے اہم تدریسی مواد کو ترجمہ کرنے کے بارے میں بھی غور کیجئے۔ آپ پیشہ ور مترجم کے طور پر بھی یہ شغل اپنا سکتے ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
جناب زہیر عباس صاحب انڈیا کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں قابلِ رشک مقام پر ہے بڑی وجہ انگریزی زبان میں موجود بہترین مواد تک آسان رسائی ہے۔ عام پاکستانی طالب علم بوجوہ شائد اِس رکاوٹ کو عبور نہ کر پائے۔ آپ کبھی طلباء کے لیے اہم تدریسی مواد کو ترجمہ کرنے کے بارے میں بھی غور کیجئے۔ آپ پیشہ ور مترجم کے طور پر بھی یہ شغل اپنا سکتے ہیں۔

جناب بات اصل میں یہ ہے کہ میری دلچسپی اصل میں علم فلکیات سے ہے اور یہ ترجمہ کرنے کا کام تو بس شوقیہ ہے۔ آپ کی تجویز بہت اچھی ہے تاہم اس پر عمل وہی شخص بہتر طور پر کرسکتا ہے جس کی اس شعبے میں اچھی گرفت ہواور دلچسپی ہو ۔
معلوم نہیں کہ کب تک یہ کام جاری رہتا ہے فی الوقت تو خدا کا شکر ہے کہ نوکری ٩ سے ٦ والی ہے اور ہفتہ اتوار کی تعطیلات ہیں لہٰذا اپنا شوق پورا کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔
اور جہاں تک پیشہ ور مترجم کی بات ہے تو جناب سچی بات تو یہ ہے کہ اب تک اس شوق میں اپنے پلے سے ہی پیسے خرچ ہوئے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
جناب بات اصل میں یہ ہے کہ میری دلچسپی اصل میں علم فلکیات سے ہے اور یہ ترجمہ کرنے کا کام تو بس شوقیہ ہے۔ آپ کی تجویز بہت اچھی ہے تاہم اس پر عمل وہی شخص بہتر طور پر کرسکتا ہے جس کی اس شعبے میں اچھی گرفت ہواور دلچسپی ہو ۔
معلوم نہیں کہ کب تک یہ کام جاری رہتا ہے فی الوقت تو خدا کا شکر ہے کہ نوکری ٩ سے ٦ والی ہے اور ہفتہ اتوار کی تعطیلات ہیں لہٰذا اپنا شوق پورا کرنے کا وقت مل جاتا ہے۔
اور جہاں تک پیشہ ور مترجم کی بات ہے تو جناب سچی بات تو یہ ہے کہ اب تک اس شوق میں اپنے پلے سے ہی پیسے خرچ ہوئے ہیں۔
بہت خوب! چلیں جب کبھی مناسب لگے طبع آزمائی کیجئے گا۔ شوق کا وزن تو جیب پر آ ہی جاتا ہے آپ کے کام سے دوسروں کو بھی لُطف مِل رہا ہے :)
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب پنجم - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)

ایک ممکنہ فوق ارضی اور میدانی سیاروں کی قسم بھی ہو سکتی ہے - کاربنی سیارے۔ یہ بہت ہی نایاب ہوں گے ، کیونکہ ان کو بننے کے لئے آکسیجن سے زیادہ کاربن کی ضرورت ہوگی۔ عام طور سے کاربن آکسیجن کے مقابلے میں آدھی مقدار میں کائنات میں پایا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے خاکہ نمبر2.1 میں دیکھا تھا۔ لیکن فلکیات دانوں نے ایسے ستاروں کا مشاہدہ کیا ہے جس میں آکسیجن کی با نسبت کاربن کی مقدار زیادہ تھی۔ کوئی بھی سیارہ جو اس طرح کے ملغوبے سے وجود میں آئے گا وہ کافی مختلف ہوگا - اس کے غلاف میں سلیکان کار بائیڈ اور گریفائٹ موجود ہوں گے۔ اس میں سے لوہا بہتا ہوا قلب میں ضرور جا سکتا ہے ، لیکن اس کی سطح اور قشر کی بحیثیت مجموعی حجم اور کیمیائی ترتیب بہت ہی الگ ہوگی۔ سلیکان کار بائیڈ ایک بہت ہی سخت قسم کا عنصر ہوتا ہے - ہم اس کو لمبے عرصے چلنے والے سفال ، دوڑ کاروں کے بریک اور اونچے دباؤ کے ماحول میں کام کرنے والے اوزار بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا آتش فشاں ، ٹیکٹونک اور موسم کی حرکات کا ربنی سیارے پر انتہائی کم ہوں گی۔ کاربنی سیاروں میں پانی کی بھی کمی ہوگی۔

خاکہ نمبر 5.2 کچھ تصوراتی اشکال فوق ارض کے خاندان کی بتا رہا ہے اور اس کا مقابلہ زمین اور نیپچون سے بھی دکھا رہا ہے۔ فوق ارضی سیاروں کا نسبتی حجم ہمارے نظری نمونے کے بہترین اندازوں کے قریب تر ہے۔ کاربنی سیارے خاکہ5.2میں نہیں دکھائے گئے ہیں۔ ان کے حجم چٹانی اور سمندری سیاروں کے درمیان میں کہیں پر ہوں گے۔ نیپچون جیسے دیو ہیکل سیارے جو گلیز ٤٣٦ کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہیں ، موازنے کے لئے خاکے میں دکھائے گئے ہیں۔
5.2 by Zonnee, on Flickr
مختلف حجم کے فوق ارضی سیاروں اور دیو ہیکل سیاروں کا موازنہ۔
آخر کار ، فوق ارض کے تخمینہ جاتی کمیت سے ہم نے ان چھوٹے سیاروں کو دریافت کر لیا جن میں نسبتاً زیادہ مقدار میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم – شاید جو ان کی کمیت کا دس فیصد تک ہو سکتی ہے - جس طرح ہم نیپچون کی حالت میں دیکھتے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی سیارے نیپچون سے چھوٹے ہو سکتے ہیں : جن کو چھوٹے نیپچون کہتے ہیں۔ اس بات سے ابھی تک پردہ فاش نہیں کیا جا سکا کہ وہ کون سی حد ہے جہاں سے ٹھوس سیارے بڑھتے ہوئی کمیت کے ہائیڈروجن اور ہیلیئم میں ملفوف سیارے بن جاتے ہیں۔ نظریہ ہمیں اس مسئلے کے کافی ممکنہ جواب دیتا ہے مگر کوئی واضح پسند فراہم نہیں کرتا لہٰذا قدرت کی پسند کو جاننے کے لئے ہمیں مشاہدے پر بھروسہ کرنا ہوگا ، ناسا کی کیپلر اسی راستے پر اچھی طرح سے گامزن ہے تاکہ وہ ہمیں ایسے مشاہدے فراہم کر سکے۔ خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ ان سیاروں کے رنگوں کا تجزیہ (ضیا پیمائی ) کرنے سے ہم چھوٹے نیپچونوں کو فوق ارضی سیاروں سے الگ کر سکیں گے۔

اس کے باوجود کائنات میں پائے جانے والی میدانی سیاروں کی ممکنہ اقسام ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ سیاروں کی ایک اور ممکنہ صورت مکمل لوہے کا قلب بھی ہو سکتا ہے! زیادہ تر عوامل کے زیر اثر ہم ایسے کسی سیارے کو پانے کی امید نہیں کرتے کیونکہ سیاروی جسم کو پہلے ترتیب پانا ہوتا ہے (اس نقطہ پر وہ زیادہ تر سلیکٹ پر مشتمل ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے ) اور اس کے بعد ہی وہ امتیاز حاصل کر پاتا ہے ، اور پھر لوہے قلب میں بہ کر نکلتا ہے۔ سیلیکا کے غلاف (جس کے بغیر لوہے کا قلب بن نہیں سکتا )کو صرف لوہے کے قلب کو چھوڑنے کے لئے اس سے الگ ہونا ہوگا۔ اس طرح کا عمل چھوٹے اجسام پر وقوع پذیر ہونا تو آسان ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک بارہ میل چوڑے سیارچے پر۔ فوق ارض دوسری طرح کے ہوتے ہیں ، وہ اتنے ضخیم ہوتے ہیں کہ اگر دو فوق ارض آپس میں براہ راست بھی ٹکرائیں تو ریزہ ریزہ نہیں ہوں گے بلکہ صرف خالص لوہے کے قطروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اتنے زبردست دباؤ میں بھی ان کا ثقلی اثر سطح سے بہت دور تک ہوگا جس کے نتیجے میں وہ چٹانوں کو واپس کھینچ لے گا۔ درحقیقت ہمارے اپنا سیارہ عطارد ، جو زمین سے مقابلے میں چھوٹا ہے (صرف ایک بٹا اٹھارہ کی زمین کی کمیت سے نسبت ہے ) بھی ایک براہ راست ٹکراؤ کے باوجود میں اپنی ابتدائی تاریخ میں بچ چکا ہے اور ابھی تک اپنے قلب کا زیادہ تر حصّہ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر لوہے کا فوق ارضی سیارہ امکانی طور پر موجود ہو سکتا ہے ، اور شاید ہم نے اس کو پہلے ہی دریافت کر لیا ہے - نابض سیارے۔

نابض سیارے ایلکس وولز یشن(Alex Wolszczan) اور ڈیل فرائل (Dale Frail)نے ١٩٩٢ء میں دریافت کیے تھے جس کے نتیجے میں ماورائے شمس سیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سیارے ایک نابض ستارے کے گرد چکر لگاتے ہیں - نباض ایک انتہائی درجے کا ضخیم (ہمارے سورج سے بھی زیادہ )، تیز گھومنے والا نیوٹران ستارہ ہوتا ہے ؛ جو عظیم نوتارے یا سپرنووا کی باقیات ہوتا ہے۔ ہم ان کے حجم کے بارے میں نہیں جانتے (اور کوئی ایسا بظاہر طریقہ موجود نہیں ہے کہ ہم مستقبل قریب میں ان کو ناپ بھی سکیں ) نہ ہی ہمیں کوئی اچھا اندازہ ہے کہ یہ بنتے کیوں ہیں۔ نابض سیارے لوہے سے بھرپور ملبے سے بنتے ہیں جو سپر نووا کے دھماکے کے بعد بچ جاتا ہے۔ بھاری دھاتی سیارے !

بہرحال حدود موجود ہیں۔ ہم اس بات کی امید نہیں کر سکتے کہ کوئی خالص پانی کا سیارہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہم اگر امونیا کو پانی میں ملنے کی بھی اجازت دیں اور دوسری کم مقدار میں کثافتیں بھی شامل کر لیں تو بھی ایک خالص فوق برفیلی گیند کے بننے کا امکان اتنا ہی ہے جتنا کہ برفیلے زہرہ غبارے کا۔ خالص فوق ارض کے بننے کا مسئلہ سیاروں کے بننے میں ہی موجود ہے۔ کوئی بھی ایسا طریقہ موجود نہیں ہے جو ملبے کی قرص میں موجود گرد کو برف کے گالوں سے الگ کر دے یا پھر کسی پانی سے بھرے سیارے کو پرتی چٹانی اجسام سے بچا لے۔ تصادم بھی مدد کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور فوق ارض کے بہت زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اپنے نظام شمسی میں ، سب سے زیادہ پانی سے بھرپور اجسام سیارچے اور پلوٹو کے دور دراز کے رشتے دار ہیں ان کی چٹان اور پانی کی نسبت ایک سے ایک کی ہے۔ اگر کیپلر نے کوئی ایسی چیز دریافت کر لی جس کی اوسط کثافت پانی کی ہوئی تو میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ وہ کوئی ماورائے اراضی تہذیب کے پانی کا ذخیرہ ہوگا۔۔۔۔یا شاید ہائیڈروجن گیس ، پانی اور چٹانوں کا ملغوبہ ہوگا - ایک چھوٹا نیپچون سیارہ۔

جب ہم نے اس قسم کے سیاروں کی جماعت کو زیر بحث کر لیا ہے تو آپ شاید اس بات پر حیران ہو رہے ہوں کہ ہم نے اپنے اس خوبصورت سیارہ ارض کا نام کیوں ایسی اجنبی جگہوں کے بھنڈاروں کے لئے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ ان دوسرے سیاروں کے نمونوں کو ہم نے اپنے علم کی بنیاد پر بنایا ہے۔ میرے لئے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ہمارا کرۂ ارض ایک فوق ارض ہے ، ایک بڑے خاندان کا حصّہ ہے اور اس کی کچھ عمومی اور گہری مماثلت ان دوسرے سیاروں سے ہے۔ یہ مماثلت اتنی گہری ہے کہ حقیقت میں آپ زمین کی گہرائی میں اس کے غلاف میں بھی اس کو پا لیں گے۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب ہفتم - حصّہ اوّل



فوق ارضی سیارے - کائنات کی سخت ترین چٹانیں

چٹانوں کی چھان بین کرنا ایک مزیدار کام ہے : ہتھوڑا ، چھینی اور ایک رہنما کتاب لے کر کسی پہاڑی کی طرف روانہ ہو جائیں۔ اگر آپ خوش قسمت (اور ثابت قدم )رہے ، تو آپ کو اپنے گھر میں غلاف کے جمع کئے مجموعہ کے لئے کافی سارے نمونے مل جائیں گے۔ آپ کو اس قدر بوقلمونی ملے گی کہ ایسا لگے گا کہ یہ تو ختم ہی نہیں ہوگی۔ ایک اوسط چٹان شناس تو صرف زمین کی سطح ہی کریدتا ہے۔ اگر ہم زمین کے اندر جھانک سکیں تو سوچیں کہ وہاں کیا کیا عجوبے موجود ہوں گے ؟اصل میں اگر آپ زمین کی گہرائی میں جا سکیں تو معدنیات کی بوقلمونی بہت ہی تیزی کے ساتھ کم ہو جائے گی صرف چند ایک ہی رہ جائیں گے اور اس میں سے ایک پروف اسکائیٹ ہمارے سیارے کے زیادہ تر جسم کا حصّہ ہوگا (اس کی کمیت کا40 فیصد )۔

پروف اسکائیٹ کی سیاروی کثرت کے باوجود اس کو ماہرین ارضیات نے ١٨٣٧ء میں ہی درج اور درجہ بند کیا ہے۔ اس کی دریافت کی شروعات اس وقت ١٨٢٠ء کے عشرے میں ہوئی ، جب روس کے سیزار نیکولس اول(Czar Nicolas I) سائبیریا کی زرخیزی کی نقشہ کشی کے مشتاق ہوئے اورایک جرمن قدرتی ماہر الیگزینڈر وان ہمبولڈت(Alexander von Humboldt) کو دعوت دی کے وہ اس علاقے کی مہم کو سر کرنے کے رہنما بن جائیں۔ ہمبولڈت نے مشرق میں موسم بہار میں اپنے ساتھ دو مدد گار لئے اور مہم شروع کردی ۔وہ یورل پہاڑیوں اورجھیل کیسپین کی چھان بین کرتے ہوئے وسطی ایشیاء میں الٹا ئی پہاڑیوں تک جا پہنچے جہاں روس، چین اور منگولیا ملتے ہیں ۔

ذرائع کے مطابق ہمبولڈت کو اس مہم میں کچھ خاص مزہ نہیں آیا ۔ اس کا ایک مدد گار ، گستاف روز (Gustav Rose) ماہر ارضیات تھا ۔ وہ جو معدنیات جمع کرکے لیا تھا اس میں ایک بھاری گہرا ٹکڑا بھی تھا جو اس کو سلاٹسٹ قصبے کے قریب یورل کے علاقے سے ملا تھا ۔ اس سے پہلے وہ فہرست میں شامل نہیں تھا ، لہٰذا روز کو اس کا نام رکھنے کا اختیار مل گیا تھا ۔ اس نے اس کا نام پروف اسکائیٹ ، روسی ماہر ارضیات کاؤنٹ لیو ایلیزیوچ وان پروفسکی(Count Lev Alexeevich von Perovski) کے اعزاز میں ان کے نام پر رکھا جو ماسکو میں اس مہم کی میزبانی کر رہے تھے۔ گستاف روز کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس نے کرۂ ارض کی سب سے وافر مقدار میں پائی جانے والی معدن کی دریافت کی ہے!

چٹانیں ایک یا کئی معدن پر مشتمل مجموعہ ہوتی ہیں ۔ معدنیات غیر نامیاتی ٹھوس ہوتے ہیں جن کی مخصوص کیمیائی ترکیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک عنصر (جیسا کہ سونے ) سے لے کر انتہائی پیچیدہ سیلیکا تک ہو سکتے ہیں ۔ سیاروں پر سب سے زیادہ غلبہ ان معدنیات کا ہے جو آکسائڈ ہوتی ہے - یعنی ایک یا ایک سے زیادہ آکسیجن کا جوہر سلیکان ، لوہے ، میگنیشیم، المونیم اور اس طرح دوسرے عنصر کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر سیلیکا کو کوارٹز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جو ایک سلیکان اور دو آکسیجن کے جوہروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔سیلیکا معدنیات چٹانوں میں سب سے زیادہ عام پائی جاتی ہے ، ایک سلیکان کا جوہر کافی سارے آکسیجن کے جوہروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے ۔قلموں کی مختلف ممکنہ ساختوں کے بننے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جوہر اپنے آپ کو کس طرح سے لگا تار نمونوں میں ترتیب دیتے ہیں۔

پروف اسکائیٹ معدن جو روس میں گستاف روز نے دریافت کی تھی وہ ٹائٹینیم اور کیلشیم کا آکسائڈ تھا ۔ ایک کافی زرخیز گروہ معدنیات کا ایسا بھی موجود ہے (جس کو پروف اسکائیٹ کا گروہ کہا جاتا ہے ) جس میں سب کے سب ایک منفرد قلمی ساخت رکھتے ہیں، سلیکان اور ٹائٹینیم جو آکسیجن کے چھ جوہروں سے بند باندھ کر ایک جڑی ہوئی ہشت سطحی ساخت بناتے ہیں ۔ اس بات کے باوجود کہ روز نے ٹائٹینیم پروف اسکائیٹ کو سب سے پہلے دریافت کیا تھا ، زمین کے نچلے غلاف میں مقدار کے حوالے سے زیادہ تر جگہ سلیکان پروف اسکائیٹ معدن نے ہی گھیری ہوئی ہے۔

پروف اسکائیٹ معدنیات میں زمین کی نایاب دھاتیں موجود ہیں (جیسا کہ لینتھینم ، نیوڈیمیئم، اور نیوبیئم)۔ طبیعیات دانوں میں پروف اسکائیٹ ایک ایسے معدن کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں اونچے درجے پر فوقی موصلیت پہلی دفعہ ١٩٨٦ء میں الیکس مولر (Alex Muller) اور جارج بیڈنورز (Georg Bednorz)نے دریافت کی تھی ۔ اس بات سے صرف نظر ، زیادہ تر لوگوں نے اس کے بارے میں کبھی سنا بھی نہیں ہوگا اور اس کا ذکر شاذونادر ہی چٹانوں اور معدنیات کی عمومی میدانی رہنما کتابوں میں ملتا ہے ۔(ایک اور زیادہ عام معدن جس کو انسٹاٹائیٹ کہتے ہیں ، جو پروف اسکائیٹ جیسی ہی ہوتی ہے ، وہ بھی مختلف چٹانوں میں پائی جاتی ہے ۔)مشہور ہونے کے لئے اہمیت کا حامل ہونا ضروری ہے ۔

یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ پروف اسکائیٹ - خاص طور پر اونچے درجہ حرارت پر اس کے برتاؤ کو جاننا - فوق ارض کے تجزیہ کے لئے بہت زیادہ اہم ہے۔ درحقیقت یہ ہی وہ رابطہ ہوگا جو ہمارے اور دوسرے سیاروں کو آپس میں ایک دوسرے سے ارضیاتی طور پر جوڑے گا ۔ ٢٠٠٤ء میں ایک اہم دریافت ہوئی ، جب زمین کے قلب میں موجود ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے اسرار کو بیان کیا گیا ۔ زلزلہ شناس اور دوسرے سائنس دانوں نے دیکھا کہ ایک مہین سی پرت غلاف کے نیچے موجود ہے ، جو صرف قلب کی سرحد سے تھوڑا سے ہی اوپر تھی ، اور اس کا غیر متوقع اثر زلزلے کی ان موجوں پر ہوتا ہے جو اس میں سے گزرتی ہیں ۔ اس پرت کا نام "ڈی " رکھا گیا اور یہ صرف ایک سو پچاس کلومیٹر گہری تھی اور کسی کو بھی اس بات کا اتا پتا نہیں تھا کہ یہ کیوں زلزلے کی موجوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔اونچے درجے پر کچھ مختلف ملے جلے تجربات مروکامی(Murukami) اور ان کے رفقائے کاروں نے کئے ، جبکہ نظریاتی تخمینا جات اگانوف (Oganov) اور اونو (Ono)نے کئے اور اس سبب کو پیدا کرنے والے مجرم - یعنی اونچے درجہ حرارت پر پروف اسکائیٹ کے برتاؤ کو پکڑ لیا ۔ اتنی گہرائی میں جہاں دباؤ فضائی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے - پروف اسکائیٹ کی انتہائی قریبی بند ساخت ، بگڑ کر نینو پیمانے پر پرت کی چادریں سی بنا دیتی ہے - ایک نئی ہئیت جس کو دریافت کنان مابعد پروف اسکائیٹ کہتے ہیں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

باب ہفتم - حصّہ دوم (آخری حصّہ)



فوق ارضی سیارے - کائنات کی سخت ترین چٹانیں


جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ پرت ہمارے سیارے پر بہت چھوٹی صرف ١٥٠ کلومیٹر تک ہوتی ہے - تاہم یہ فوق ارضی سیاروں میں ان کا اہم جز ہوگی! کوئی بھی فوق ارض جو لگ بھگ ٢ ایم ای یا اس سے زیادہ ہوگی ، اس کے زیادہ تر غلاف کے اندر دباؤ زمینی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا زیادہ ہوگا ، لہٰذا فوق ارض چاہئے وہ چٹانی ہوں یا سمندری وہ مابعد پروف اسکائیٹ سیارے ہی ہوں گے۔

آپ نے شاید اس غیر اہم نئے معدن کے نام پر توجہ دی ہوگی ۔ یہاں پر اس کو کوئی نام نہیں دیا جا رہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ زمین کی سطح پر موجود چٹانوں میں نہیں پایا جا سکتا ، لہٰذا ابھی تک کسی نے بھی اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا اور ناہی لے سکے گا ۔(اس کی بظاہر وجہ معدنیات کو نام دینے کے لئے قرون وسطیٰ کے ارضیاتی سوسائٹیوں کے اصول ہیں۔) ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ کی ساخت اس کو ایک توانائی سے بھرے ہوئے اسپرنگ کی طرح بنا دیتی ہے ؛ اگر ایصال حرارت کے نتیجے میں وہ سطح کے قریب آئے گا تو وہ اپنی پروف اسکائیٹ کی شکل میں واپس آ جائے گا ۔

مابعد پروف اسکائیٹ کی دریافت بالکل صحیح وقت پر ہوئی تھی کیونکہ اس کی وساطت سے ہی آنے والے دور میں فوق ارض کا تجزیہ کیا جا سکتا تھا ، مگر ہم نے اپنے اس کام کو شاید ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب سے ضخیم فوق ارض کے غلاف میں دباؤ، فضائی دباؤ سے ایک کروڑ گنا زیادہ ہوتا ہے ، یہ دباؤ اس سے کہیں زیادہ ہے جو پروف اسکائیٹ کو مابعد پروف اسکائیٹ میں تبدیل کر دے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ معدنیات کے دوسرے مرحلے بھی اس کے اندر موجود ہوں - ہو سکتا ہے کہ مابعد مابعد پروف اسکائیٹ مرحلہ بھی موجود ہو ؟

نظریہ اور تجربات دونوں پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ مابعد پروف اسکائیٹ کا مقدر اونچے درجہ حرارت پر کیسا ہوگا۔ اونچے درجہ حرارت پر اہم کردار آکسیجن کے جوہر کا ہوگا۔ دو قلمی ترتیب حاصل کرنے کے بعد ، جس کو سنگوانا یا باندھنا(Packing) کہتے ہیں ،پٹی کی مزید تنگی آکسیجن کے جوہروں کو دوبارہ خود سے از سرنو ترتیب دے دیتی ہے ۔ یہ اثردار بندھائی ایک اور ممکنہ قلمی ساخت بناتی ہوئی لگتی ہے - ایک ١٢ نقطے کی ہئیت۔

اس کا سراغ ایک غیر معروف قلم کے تجزیہ سے حاصل ہوا ہے جس کو گیڈولینم گیلیئم یاقوت (Gadolinium Gallium Garnet) - یا جی جی جی کہتے ہیں ۔ جی جی جی اونچے دباؤ پر ایک شفاف اور بہت ہی سخت قسم کا عنصر بن جاتا ہے - وہ سائنس دان جو ہائیڈروجن کو لاکھوں گنا فضائی دباؤ پر دبانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ تھرمو نیوکلیائی توانائی کو تجارتی پیمانے پر قابل عمل بنا سکیں ان کے لئے یہ اپنی اس خاصیت کی بدولت کافی کام کا ہے ۔ ہائیڈروجن کو طاقتور لیزر کی مدد سے دبایا جاتا ہے ، تاہم یہ بہت تیزی سے دب کر جلد ہی واپس اپنی پرانی حالت پر آ جاتی ہے ۔اس طرح سے اس حالت کو دیکھنے کے لئے وقت کا انتہائی مختصر لمحہ ملتا ہے۔ اونچے دباؤ پر یہ اتنی جلدی واپس اپنی حالت پر نہیں پلٹتی ۔ ٢٠٠٥ء میں جاپان اور امریکہ کے سائنس دانوں نے طاقتور لیزر ضربوں کے استعمال سے جی جی جی کو بارہ لاکھ گنا زیادہ فضائی دباؤ پر بھینچا، خلاف توقع وہ قلم ایک ایسے حالت میں بگڑ گئی جو ہیرے سے بھی زیادہ سخت تھی (کم دبنے والی )۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا ۔ لہذا جی جی جی ایک بہتر مادّے کے طور پر نمودار ہوئی جس کو اونچے درجہ حرارت کے تجربوں میں ہائیڈروجن پر استعمال کیا جا سکتا تھا اس طرح سے اس نے نیلم اور ہیرے کی جگہ لے لی جو اس وقت تک تجزیہ کے لئے انتہائی کم وقت مہیا کرتے تھے ۔

جی جی جی تجربے نے اس بات کو ثابت کیا کہ آکسیجن کے جوہروں کی زیادہ کثیف بندھائی مابعد پروف اسکائیٹ مادوں میں ممکن ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ آخری بگاڑ ہو جس کی ہمیں فوق ارض کے اندرون کو جاننے کے لئے ضرورت ہو ۔خوش قسمتی سے ہم تجربہ گاہ میں تجربے کر سکتے ہیں ، اگرچہ وہ مہنگے تو ہوتے ہیں ، لہٰذا اس راز سے پردہ اٹھنے میں اب کچھ زیادہ دیر ہمیں انتظار کرنا نہیں پڑے گا ۔ اسی دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فوق ارض کائنات میں معلوم سخت ترین مادّے سے بنے ہوئے ہیں :مابعد پروف اسکائیٹ نے چٹانی ، پانی ، اور ہیرے والے کمیاب کاربنی سیارے کو بنایا ہوگا ۔ حقیقت میں یہ بات فوق ارض کی تحقیق کی خوبصورتی بیان کرتی ہے جو نئے ثمر آور اجنبی مادّوں کو جدولوں اور تجربہ گاہ میں لے کر آئے ہیں ۔ گرم پانی کی برف VII ، X ، اور XI ہمارے جہاں کے لئے اور کائنات کے لئے اتنی ہی غیر معمولی ہیں جتنی کہ مابعد پروف اسکائیٹ اور جی جی جی ۔ دباؤ میں پانی کی ٹھوس حالت اور زیادہ دبی ہوئی مکعبی قلمی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ برف VII قلمی چٹانی نمک جیسی ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ اسی طرح سے بنتی ہے اور اتنی ہی اوسط کثافت بھی ہوتی ہے ۔ کیا کیا حیرت کدے موجود ہیں!
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب ہفتم - حصّہ اوّل

حیات کا پیمانہ

شیکسپیئر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور تمام مرد و عورتیں صرف کھیل کے کردار ہیں ۔ شیکسپیئر کے اس قول کو میں اس طرح سے کہتا ہوں ، سائنس دان ایک ایسے کھیل کا حصّہ ہیں جس کا اسکرپٹ (اگر وہ موجود ہے تو )وہ نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی اس بات کی خبر رکھتے ہیں کہ سامعین میں سے بھی کوئی ان کو دیکھنے کے لئے موجود ہے ۔ اور یقینی طور پر یہ اسٹیج ہمارے حجم کے لئے نہیں بنا ہے۔ یہ طلسماتی دنیاؤں سے بھی بہت زیادہ بڑا ہے۔ ہم انسان چھوٹی شوخ مخلوق ہیں - ہم دنیا کی وسعت کے حساب سے قابلیت اور توجیہ رکھنے کے قابل ہیں۔

میں جب کالج میں تھا تو میرے پاس ایک چھوٹی دوربین تھی۔ میرے والد نے مجھے اس کا استعمال سکھایا؛ وہ زیادہ تر دن میں سکھاتے تھے ؛ گھر کے پچھواڑے میں رات کے پہر میں، میں خود سے گھنٹوں آسمان کو دیکھتا تھا۔ جس جگہ میں پلا بڑھا تھا وہ ایک چھوٹی جگہ تھی ، ہمارے اسکول میں نہ تو کوئی رصدگاہ تھی نہ ہی کوئی دوربین تھی۔ یہ ضرور تھا کہ میں نے کتابیں پڑھ رکھی تھیں جس میں سے کچھ میں تصاویر بھی موجود تھیں ، لیکن دوربین کے ذریعہ دیکھنے کا اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ تجربہ انتہائی رونگٹے کھڑا کر دینے والا ہوتا تھا - جب میں اپنی دوربین کو ستاروں کی جانب لے جاتا تھا تو ایک سنسنی کی لہر میرے ریڑھ کی ہڈی سے گزر جاتی تھی۔ بالآخر وہ احساس تو غائب ہو گیا لیکن وہ سنسی کی لہر مجھے اب تک یاد ہے۔ جب میں ستاروں کے درمیان تاریکی پر نظر ڈالتا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسا میں اس اندھیرے میں ڈوب جاؤں گا۔ جیسا کہ اونچائی سے گرنے کا خوف ہوتا ہے یہ خوف اس کا الٹ تھا۔ جیسا کہ چکر آنے میں ہوتا ہے۔

میں نے ایک کتاب کئی مرتبہ پڑھی تھی اور میں چیزوں کا تصوّر کافی واضح طور پر کرتا تھا۔ الغرض میں نے ستاروں کے درمیان موجود خالی خلاء کی وسعت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی پڑھا ہوا تھا۔ لیکن اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ کائنات کس قدر بڑی اور عظیم ہے ، تو شاید ہماری ریڑھ کی ہڈی میں ہونے والی سنسنی ساری زندگی برقرار رہے گی۔ کائنات کی وسعت سے پاگل ہونے سے بچنے کے لئے ، فلکیات دان ریاضی کا استعمال کرتے ہیں ، بلکہ کافی زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ اگرچہ اس مشکل کام سے نمٹنے کا یہ ہی ایک سنجیدہ طریقہ ہے۔ قدیم یونان کے ایراٹوستھینس (Eratosthenes) کے عہد سے، جس نے زمین کا حجم ناپا تھا ، انسان ریاضی (جیومیٹری ) کا استعمال کائنات کو ناپنے کے لئے کر رہا ہے۔ ہر مرتبہ نئے حاصل کردہ علم نے ہماری حیرت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ کئی سائنس دان (جس میں سے ایک میں بھی ہوں ) آپ کو بتائیں گے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر یہ وسعت - جو ہمارے ننھے پیمانے سے بالکل بھی میل نہیں کھاتی - شاید حیات کے ظاہر ہونے کے لئے لازمی ہے۔ تو چلیں اس میں سے کچھ کی ہم چھان بین کرتے ہیں۔ میں یہاں سے لفظ "پیمانہ " اکثر استعمال کروں گا ؛ جس کا مطلب ہوگا کشادگی یا کسی چیز کا نسبتی حجم ، چاہئے وہ مکان ہو یا زمان۔ جب یہ وقت کے لئے استعمال ہوگا تو میں "وقت کا پیمانہ "کہوں گا۔ چلیں پہلے خلاء سے نمٹ لیں۔

ہم ایک کہکشاں - ملکی وے - میں رہتے ہیں۔ جو ستاروں اور گیس کا ایک جزیرہ ہے اور یہ مرکز کے گرد مرغولے نما بازوں کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ دوربین کے ذریعہ نظر آنے والی کائنات کہکشاؤں سے لبریز ہے۔ حالیہ اندازہ لگ بھگ دو کھرب کہکشاؤں کا ہے۔

کالج کے ایک نوجوان کی حیثیت سے میں رات کے آسمان میں مختلف قسم کی کہکشاؤں کو دیکھتا تھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ زیادہ تر کہکشاؤں کو دیکھنے کے لئے اندھیرا ، صاف آسمان اور بڑی دوربین کی ضرورت ہوتی تھی۔ بہرحال ایک ایسی کہکشاں تھی جو خالی آنکھ سے دیکھی جا سکتی تھی ، اور دوسری کہکشاؤں کے برعکس اس کا نام بھی تھا :اینڈرومیڈا۔ اگر آپ خط استواء کے شمالی حصّے کی جانب رہتے ہیں تو آپ اس کو دیکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں - ایک دھندلا سے سحابیہ جیسا اینڈرومیڈا مجموعہ نجوم میں - جو موسم گرما کی راتوں کے آخری پہر میں مشرق سے طلوع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، اور خزاں اور سردیوں کے موسم میں عین سروں پر نظر آتا ہے۔ میں آپ کو اس بات کا مشورہ دوں گا کہ اس کو دیکھنے کے لئے کافی زیادہ کوشش کیجئے گا کیونکہ دوربین یا کسی اور چیز کی مدد کے بغیر یہ خالی انسانی آنکھ سے نظر آنے والا دور دراز کا جسم ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں پچیس لاکھ نوری برس دور ہے ، یعنی اس کا فاصلہ ان ستاروں سے لگ بھگ دس ہزار گنا زیادہ ہے جن کو ہم رات میں دیکھتے ہیں۔

اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اینڈرومیڈا بھی ایسی ہی چپٹی ستاروں اور گیس کی قرص ہے ، جس میں زیادہ تر اس کے مرغولہ نما بازوں میں موجود ہیں اور لگ بھگ اس کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ اگر قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو ، اور تاریک صاف رات آپ کو مل سکے تو آپ کو اینڈرومیڈا کا ایک دھندلا دھبہ لمبوترے بیضوی شکل کا نمودار ہوتا دکھائی دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قرص کے اطراف ہماری سمت میں ہیں۔

کہکشائیں زیادہ تر آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں ؛ آپ ملکی وے کے پڑوس کا ایک کہکشانی نمونہ پیمانے کے حساب سے اپنے کمرے میں بنا سکتے ہیں۔ فرض کریں کے ہماری کہکشاں ایک کھانے کی پلیٹ ہے ، تو اینڈرومیڈا ہم سے بارہ فٹ دور ایک دوسری کھانے کی پلیٹ ہوگی ، مثلث کہکشاں (ایک دوسری پڑوسی کہکشاں جس کو ایم ٣٣ بھی کہا جاتا ہے ) وہ ہم سے پندرہ فٹ دور اور اینڈرومیڈا سے کچھ قریب ایک سلاد کی پلیٹ ہوگی۔ ایسا ہماری کائنات میں عام ہے۔ کہکشائیں جو دیوار سے دیوار تک لگی ہوئی ہیں وہ ایک دوسرے سے اپنے حجم کی نسبت سے الگ ہوئی ہیں۔ یہ فاصلہ اتنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ تنگ نہیں کرتیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب ہفتم - حصّہ دوم

حیات کا پیمانہ


ستارے کے معاملے میں تصویر کا رخ ڈرامائی طور پر بالکل ہی تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی طرح سے سیاروں کے بارے میں ہوتا ہے۔ آپ سورج کے پڑوسیوں کا کوئی نمونہ فاصلے کے پیمانے پر نہیں بنا سکتے - ستارے اپنے درمیان موجود فاصلوں کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہیں۔ کہکشاؤں کے لئے حجم اور فاصلے کی نسبت لگ بھگ 1:50 یا 1:10 کی ہوگی (جیسا کہ ایم اینڈ ایم کی چاکلیٹ کی گولیوں سے کھانے کی پلیٹ کی نسبت ہے)، ستاروں کے لئے یہ نسبت 1:100,000,000 یا اس سے بھی زیادہ کی ہے (بعینہ ایسے ہی جیسے کہ انسانوں کا موازنہ جوہروں سے کیا جائے )۔ سیاروں کی نسبت سے بھی یہ عظیم تر ہے اگرچہ ستاروں کی بہ نسبت کم ہے۔ جی ہاں یہ کائنات ایسی ہی ہے !

کیا ان لمبے فاصلوں کا حیات سے کوئی تعلق ہے ؟

ایک جواب ہو سکتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ مختلف پیمانے اس لئے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی ہونا تھا ، اور بس۔ یا شاید نہیں۔ حیات ایک ایسا نظام - ایک کیمیائی نظام - جو ، کم از کم ہمارے علم کے مطابق ، صرف چھوٹے پیمانوں پر ہی کام کرتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ حیات کیا ہے ، لیکن ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اس کی کچھ بنیادی باتیں کیا ہیں۔ حیات نے جو پیمانہ لیا ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ خاص بات تو ہے جو اس بات کو یقین بناتی ہے کہ حیات کو ایک پائیدار ماحول مل سکے جہاں پر وہ کام کر سکے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چلیں واپس بڑی تصویر کی جانب چلتے ہیں۔

کہکشائیں کائنات میں ایک دوسرے کی نسبت حرکت میں ہیں جو لگ بھگ ٥ سو کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ کہکشاں میں موجود ستارے بھی لگ بھگ اسی رفتار سے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت تھوڑا سا ہلکے (٥٠ سے ٢٠٠ کلومیٹر فی سیکنڈ ) چکر لگا رہے ہیں۔ ہمارا روز مرہ واسطہ پڑنے والی رفتار کے مقابلے میں یہ رفتار دماغ کی چولیں ہلا دینے والی ہے۔ مثال کے طور پر گولی کی رفتار اس سے سو گنا زیادہ سست ہے۔

اب یہاں پر مسئلہ یہ ہے : یہ رفتار کہکشاؤں کے فاصلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اینڈرومیڈا کی کہکشاں سیدھی ہماری طرف ٤ سو کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دوڑی چلی آ رہی ہے لیکن ہمارے قریب آنے(اور ہو سکتا ہے کہ ہم سے ٹکرانے ) کے لئے اسے تین ارب سال درکار ہیں۔ ستاروں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ! اس رفتار سے ، اگر ستاروں کا حجم ان کے درمیان فاصلے کی نسبت سے ہو ، تو وہ ایک دوسرے کے اندر ہر وقت گھسے رہتے - ان کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے مقدر کے بارے میں تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ خوش قسمتی سے ستارے اس پیمانے پر وجود نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان کے درمیان تصادم کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر اینڈرومیڈا کہکشاں آج سے لگ بھگ تین ارب سال بعد ملکی وے میں گھس بھی جائے تو دونوں کہکشاؤں کے ستارے پھر بھی آپس میں نہیں ٹکرائیں گے۔ اینڈرومیڈا کے ستارے ملکی وے کے ستاروں سے دور سے گزر جائیں گے ، اور پھر مل کر اپنے مداروں کو نئی بننے والے کہکشاں کے گرد بنا لیں گے۔

لہٰذا سماوی پیمانے پر ، پائیداری نسبتاً تھوڑی زیادہ ہے جو حیات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن کتنی پائیداری کی ضرورت ہے ؟ کیونکہ جو پائیداری جرثومے کے لئے کافی ہوگی وہی پائیداری ڈائنوسارز کے لئے تباہی ہو سکتی ہے۔

یہ مسئلہ اسی قسم کے شہرہ آفاق مسئلہ جیسا ہے جس کو شروڈنگر نے ١٩٤٤ء میں اٹھایا تھا ، کیوں حیات جوہر کے مقابلے میں اس قدر بڑی ہے ؟میں اس سوال کو الٹا کرکے پوچھتا ہوں : حیات سیارے کے مقابلے میں اتنی ننھی کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ کیسے بڑے کیمیائی پیچیدہ جوہروں سے بنے سالمے حیات کی بنیادی اکائی ہیں۔ بڑے سالمے اور ان کے درمیان جاری رہنے والے کیمیائی تعامل حیات سے جڑے ہر عمل کی اصل روح ہیں۔ وہ توانائی کا ذخیرہ بھی کرتے ہیں اور اس کو خارج بھی کرتے ہیں ، وہ اطلاعات اٹھائے پھرتے ہیں جس کو موروثی خاصہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور یہ ریشوں ، دیواروں ، مختلف ساختوں اور دوسری چیزوں میں بھی اپنے آپ کو ڈھال سکتے ہیں۔

شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب بھی اشارہ کیا تھا کہ جوہروں کے چھوٹے پیمانے - ایک ایسا جہاں جس کو کوانٹم میکانیات کے اصولوں سے بیان کیا جاتا ہے - وہ ہر وقت تبدیل ہوتے ناقابل پیش گوئی ہیں (بلکہ کافی تتربتر ہوتے ہیں )۔

ایک ایسے صائب الرائے سائنس دان کے طور پر جس نے کوانٹم میکانیات کو بنانے میں مدد کی تھی ، وہ جانتا تھا کہ یہ اس کلاسیکل میکانیات سے کس قدر مختلف ہے جو تین صدی قبل آئزک نیوٹن نے بنائی تھی۔ کلاسیکل میکانیات بڑے پیمانے اور بڑے اجسام کے حرکت کے اصول بیان کرتی ہے جیسا کہ ستارے ، سیارے ، ان کے مدار ، پل ، گاڑیوں کے انجن وغیرہ وغیرہ۔ حیات کا پیمانہ کلاسیکل میکانیات میں پوری طرح بیٹھنے کے لئے کافی بڑی تھا ، اور اسی طرح سے اس کی بنیادی اکائیاں – بڑے سالموں کے لئے بھی وہ بہت ہی بڑی تھی۔

اپنے سوال کا جواب دینے کے لئے شروڈنگر نے خیال ظاہر کیا کہ حیات کے سالمے اور خلیے اس لئے کافی بڑے ہیں تاکہ وہ جوہروں کے غیر یقینی اور تباہی کے بے سروپا پیمانے سے جان بچا سکیں – یعنی کوانٹم کی طبیعیات کے جہاں سے۔ اور دوسری طرف حیات جوہروں کے خاصے یعنی کہ کیمیائی بندھوں کی ثمر آوری کا فائدہ بھی اٹھا سکے۔ میرے نقطہ نگاہ سے ، حیات کے پیچیدہ سالمے اور کیمیائی جالوں نے اپنے مسکن بڑی کائنات کی شدید تباہی سے بچنے کے لئے ایسے پیمانوں پر بنائے ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کو پائیدار ماحول میسر کر سکیں۔

جاری ہے
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب ہفتم - حصّہ سوم

حیات کا پیمانہ

لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ حیات کے سکونت کے پیمانے کچھ خاص طرح کی خصوصیات رکھتے ہوں گے۔ کائنات کے پیمانے پر خلاء میں دیکھنے سے ہم دلچسپ چیزیں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کہکشائیں جسیم کچھووں کی مانند آہستگی کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں ، ان میں موجود ستارے مکھیوں کی طرح سے بھنبھنا رہے ہیں ، ستاروں کے گرد سیارے اور تیز ی سے چکر کاٹ رہے ہیں ، اور اسی طرح دوسری چیزیں یہاں تک کہ ہم جہاں صغیر - جوہروں اور الیکٹران کی کوانٹم کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ پیمانہ جتنا چھوٹا ہوگا اتنی ہی زیادہ تعجب انگیز چیزیں وقوع پذیر ہوں گی۔ حقیقت میں یہ مخبوط الحواس ہوگی اور جدید طبیعیات کے پاس اس کو بیان کرنے کی ایک اچھی توجیہ ہے۔ اس کو اور آسان بنانے کے لئے، بڑی چیزیں آہستہ حرکت کرتی ہیں، جبکہ چھوٹی چیزیں تیز حرکت کرتی ہیں۔ ایک ٹرک اور سائیکل کے بارے میں سوچیں جو ٹریفک کے اشارے پر رکے ہوئے ہیں اور اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب اشارے میں ہری بتی جلتی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کمیت اور رفتار مل کر توانائی دیتی ہیں اور توانائی باقی رہتی ہے۔ کمیت میں اضافہ کی وجہ سے رفتار میں کمی ہوگی۔ الغرض اس بات میں ایک نظم پوشیدہ ہے۔

حیات کے پیمانے کے لئے پائیدار ماحول کی کثرت کے علاوہ بھی اشیاء درکار ہیں۔ حیات کے پیمانے کی خصوصی خاصیت کو جاننے کے لئے پہلے غیر حیاتی مادوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔


جیسا کہ قدیم یونانیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ جوہر اور جوہری پیمانے عام مادّے کی بنیادی اینٹیں ہیں۔ کم از کم خالص جدولی عناصر کے لئے ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں جیسا کہ کاربن ، لوہا یا سونا اگرچہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ عام مادّہ اصل میں جوہروں کا مرکب ہوتا ہے۔ بہرحال بیسویں صدی میں جو بات عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ عام مادّہ چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جن کو بنیادی ذرّات کہا جاتا ہے اور جوالگ الگ چار ذرّات (اور چار ضد ذرّات )کے تین خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان ذرّات میں سب سے زیادہ عام اور شناسا پہلے خاندان کا ہلکا ذرّہ ہے : یعنی الیکٹران ، اوپر کوارک ، نیچے کوارک اور چھوٹا الیکٹران نیوٹرینو۔


آپ اور میں، ہمارا سیارہ ، ستارہ سب کے سب اسی سے بنے ہیں ، خاص طور پر الیکٹران ، اوپری کوارک ، نچلے کوارک سے۔ کوارک کی دو اقسام مل کر پروٹونوں (دو اوپری اور ایک نچلا ) اور نیوٹرا نوں (دو نچلے اور ایک اوپری )کو بناتی ہیں، اور یہ مل کر جوہر کا مرکزہ بناتے ہیں اور اسی طرح کسی بھی عنصر کی کیمیائی شناخت بنتی ہے۔ ہلکا الیکٹران مرکزے کے گرد چکر لگاتا ہے اور جوہروں کو سالمات میں بندھنے کی صلاحیت ودیعت کرتا ہے۔ جوہر کا مرکزہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پر کمیت موجود ہوتی ہے ، اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے الیکٹران نہایت ہی ہلکے ہوتے ہیں تاہم ان ہی کی بدولت کیمیا ممکن ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے باورچی خانے میں کھانا بناتے ہیں تو آپ الیکٹران سے کھیل رہے ہوتے ہیں - جو کیمیائی بند توڑتے اور دوبارہ سے بناتے ہیں۔ اگر کھانے کے نتیجے میں آپ کا وزن بڑھتا ہے تو اس کی وجہ ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے جسم میں مزید کوارکوں کو جمع کر لیا ہے۔


کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ہم بنیادی قوّتوں کو بھول نہیں سکتے۔ ایک ذرّہ دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے ؛ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے جوہر کا مثبت پروٹون اپنے مدار میں منفی الیکٹران کو پکڑ کر رکھتا ہے۔ مادّے کا ایک ٹکرا دوسرے ٹکڑے پر ان قوّتوں کی صورت میں اثر انداز ہوتا ہے۔ بنیادی قوّتیں چار ہیں – ثقلی قوّت ، برقی مقناطیسی قوّت ، مضبوط قوّت اور کمزور قوّت۔ ہماری روزمرہ زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہم شروع کی دو قوّتوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ قوّت ثقل ہمیں زمین پر ٹکے رہنے میں مدد کرتی ہے (جس کا اثر ہم وزن کی صورت میں محسوس کرتے ہیں ) اور برقی مقناطیسی قوّت ہمیں ہلنے جھلنے میں مدد کرتی ہے (رگڑ کی صورت میں )۔ ان تمام قوّتوں کی ایک عام خاصیت یہ ہے کہ یہ سب ایک مشترکہ ذرّہ سے پہچانے جاتے ہیں(جس پر حالت سکون میں کوئی کمیت نہیں ہوتی ) اور جو طاقت کے سب سے چھوٹے کوانٹم (یا بنڈل ) رکھتے ہیں۔ برقی مقناطیسی طاقت کا ذرّہ فوٹون کہلاتا ہے۔ ہم فوٹون کو روشنی کے ذرّے یا پھر حرارت کی صورت میں دیکھتے ہیں یا مثال کے طور پر ہم اس کو موبائل فون پر بات کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ذرّے کی ثقلی طاقت کو گرویٹون کہتے ہیں۔ ان تمام ذرّات میں موج کی خصوصیت ہوتی ہے۔


اب اس پیمانے پر غور کریں جو بہت زیادہ بڑا ہے - کہکشائیں ، ستارے اور نظام ہائے سیارگان۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں قوّت ثقل کی حکمرانی ہے۔ یہاں پر کوئی رگڑ یا برقی مقناطیسی قوّت نہیں ہے جو ان اجسام کو ان کے مدار سے کج رو یا آہستہ کر دے اور کیمیائی بند جو حیات کے شروع ہونے کے لئے ضروری ہیں وہ اس پیمانے پر یہاں وقوع پذیر نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری انتہاء پر جو پیمانہ ہے وہ ہمارے لحاظ سے بھی بہت چھوٹا ہے یعنی کہ کوانٹم کا پیمانہ۔ قوّت ثقل کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے ؛ انفرادی ذرّات کی کمیت اتنی کم ہوتی ہے کہ یہاں پر برقی مقناطیسی قوّت کی حکمرانی ہے۔ دونوں بڑے اور چھوٹے پیمانوں پر حیات کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں موجود ہے۔ کائناتی پیمانے پر اشعاع کا سمندر ہے اور اس کے باہر منجمد کر دینے والی ٹھنڈ کسی بھی اس چیز کو ختم کر دے گی جو اتصال کے لئے برقی مقناطیسیت پر انحصار کرتی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر اشیاء بہت ہی تیز اور ناقابل پیش گو حرکت کرتی ہیں اور کسی بھی حیات جیسی منظم چیز کو اس پیمانے پر کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ کرۂ ارض پر حیات آسانی کے ساتھ ان دونوں کے درمیان ہی قائم رہ سکتی ہے - جس کو ہم بڑے سالمات کا پیمانے کہہ لیتے ہیں۔ ان کا درجہ ستاروں سے شروع ہوتا ہے جو کوانٹم پیمانے سے کچھ درجے اوپر (١٠٢٩ ایم ) سے کر ہمارے گھر کے درجے سے قریب (١٠٢٥ ایم )پر ختم ہوتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب ہفتم - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)

حیات کا پیمانہ

بڑے سالمات کا پیمانہ ہی اس حیات کا اصل پیمانہ ہے جس کو ہم جانتے ہیں۔ تمام ضروری حیاتی عمل ، اطلاعات لے جانے والے سالمے اور زیادہ تر جاندار (جرثومے ) آسانی کے ساتھ اس پیمانے میں سما سکتے ہیں (خاکہ نمبر7.1 کو دیکھیں ) حیات کے پیمانے کا اطلاق بہت ہی موزوں طریقے سے سیارے پر بھی لاگو ہو جاتا ہے۔ بڑے پودے اور جانداروں جن کی نشو نما بڑے سالمات کے پیمانے پر ہوئی ہے - یہ حالیہ دور کی ہی پیش رفت ہے۔

7.1 by Zonnee, on Flickr
7.1مماثل حجم :حیات کے سالمے پانی کے سالمات (H2O)کے مقابلے میں بہت بڑے ہوتے ہیں؛ یہ بڑے سالمی پیمانے کو بیان کرتے ہیں۔

بڑے سالمات کے پیمانے میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟ قوّت ثقل اب بھی کمزور ہے ، لیکن بڑے سالمات کی کمیت اب نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہے۔ لہٰذا قوّت ثقل کا رد عمل قابل پیمائش ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پانی کا محلول جس میں یہ سالمے اور ان کی ساخت قائم رہ کر کام کرتی ہیں اس پر قوّت ثقل کا اثر ہوتا ہے۔ قوّت ثقل اس پیمانے پر ایک استحکام بخش عامل کے طور پر کام کرتی ہے - برقی مقناطیسی قوّت کے خلاف بطور دافع کام کرکے توازن قائم رکھتی ہے۔ سیارہ زمین اس کی ایک اچھی مثال ہے : یہ اتنا ضخیم ہے کہ اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر سکڑ اور بھینچ سکے۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی چٹانیں بہت ہی زیادہ دباؤ میں آ کر بھینچی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں آکسیجن ، سلیکان اور لوہے کے جوہر ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ ان کے درمیان موجود برقی مقناطیسی طاقت جو بطور دافع کام کر رہی ہے اس نے قوّت ثقل کو مادّے کو بھنچ کر ایک دوسرے کے قریب کرنے کی ایک حد قائم کردی ہے ؛ لہٰذا زمین اسی حالت میں ارب ہا سال سے پائیداری سے جمی ہوئی ہے اور آنے والے لمبے عرصے تک ایسی ہی قائم رہے گی۔ یہی توازن ہمارے سورج کو بھی ارب ہا برسوں تک چمکنے کے لئے قائم رکھے گا۔

چھوٹی چیزیں – مثال کے طور پر ہمارے جسم - بھی اسی طرح کے دباؤ کے توازن میں ایک ساتھ قائم ہیں لیکن یہ توازن قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی طاقتوں والا توازن نہیں ہے۔(ہمارے جسم میں کمیت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ قوّت ثقل اس کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھ سکے )۔ اس کے بجائے ہمیں زمین کی قوّت ثقل کھینچ کر رکھتی ہے اور ساتھ ہی ہمارے اوپر ہوا کا دباؤ بھی موجود رہتا ہے - جو پندرہ پونڈ فی مربع انچ کا ہوتا ہے۔ ہوا کو بھی قوّت ثقل نیچے کی جانب کھینچ رہی ہوتی ہے۔ جتنے چھوٹے پیمانے پر ہم جاتے ہیں برقی مقناطیسی قوّت اسی قدر توانا ہوتی جاتی ہے اور قوّت ثقل اس پیمانے پر مقابلے سے باہر ہو جاتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت جو کیمیائی بندھ کے ذریعہ اپنا مظاہرہ کرتی ہے ہمارے بافتوں کی ساخت کو مضبوط بناتی ہے اور خلیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ملا کر بڑے کثیر الخلوی اجسام بناتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے مناسب اور موزوں طاقت و جسامت کے ساتھ ایک قاعدے میں ہے – جیسا کہ جے بی ایس ہیلڈن (J. B. S. Haldane) - جو ابتدائی ماہر جینیات اور سائنس کو عام لوگوں میں پھیلانے والے تھے - ١٩٢٨ء میں اپنے ایک مضمون کو لکھتے ہوئے اس بات سے انگشت بدنداں تھے۔ وہ اس سوال کا جواب دیتے تھے جو ہم اپنے لڑکپن سے ہی پوچھتے ہیں: کیڑے اس طرح سے کیسے بنے ہیں کہ وہ اپنی جسامت سے کئی گنا بلندی سے گرتے ہیں اور پھر بھی انھیں کچھ نہیں ہوتا ؟ کچھ کیڑے پانی کی سطح پر کیسے چل لیتے ہیں جبکہ دوسرے اس میں ڈوب جاتے ہیں ؟

ہیلڈن نے عام فہم طور سے صحیح جواب دیا تھا۔ ایک سابقہ رفیق کار ، بل پریس(Bill Press) نے زیادہ ریاضیاتی طریقے سے اس کا جواب دیا اور انسانی جسم کے حجم کا صحیح جواب حاصل کر لیا۔ صحیح جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں تین باتیں فرض کرنی ہوں گی :کہ انسانی جسم (١) غیر قلمی ہئیت کے بجائے پیچیدہ سالمات جو دھاگے (کثیر سالمی مرکب ) سے بنے ہیں، (٢) ان کو ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے مل کر نہ بنا ہوا (٣) اور اپنے بڑے دماغ کو جسم میں رکھنے کے لئے جتنا ممکن ہو سکے بڑی جسامت حاصل کر لے، وہ ٹھوکر کھانے اور گرنے والا تو ہو تاہم ایسا کرتے ہوئے اس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح سے اس نے ایک تندرست جاندار کا صحیح حجم بتا دیا جو ٹھوس زمینی سطح پر رہ سکے۔ اس میں وہ درجہ حرارت بھی شامل ہے جس پر انسان (اور زیادہ تر جانور ) جی سکیں - اور اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ - وہ درجہ حرارت ان کے کیمیائی بندھوں کی توانائی کے قریب ہونا چاہئے۔ جیسا کہ بل نے اشارہ کیا ہے کہ یہ حقیقت ہی خوراک کو بنانا ممکن کر پاتی ہے۔

عظیم کائنات بلاشبہ ہمارے انسانی پیمانے پر نہیں بنی ہے اور مسئلہ خلاء کی وسعت کا ہی نہیں ہے یہاں تو ناقابل فہم وقت کا بھی بڑا مسئلہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ جیسا کہ ہم نے بیسویں صدی کی طبیعیات سے سیکھا ہے کہ زمان و مکان لاینفک طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس بات میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کسی ایسی بڑی جگہ میں چیزیں بدلنے کے لئے بہت لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ میری کہانی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ آپ کو ان تمام باتوں کا احساس ہو۔ اس بات سے قطع نظر کہ کائنات بحیثیت مجموعی انسانی پیمانے پر نہیں بنی ہے ، لیکن یہ بات ظاہری طور پر ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی ایسی جگہ موجود ہو جیسا کہ ہمارا اپنا سیارہ ہے اس کو تلاش بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بات کوئی حادثاتی بات نہیں ہے جیسا کہ میں اگلے باب میں زیر بحث کروں گا۔ حیات کو سیارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

بابہشتم - حصّہ اوّل

سیارے ہی کیوں؟


عہد وسطیٰ کے دوران جب ہر بر اعظم کی ایک اپنی ہی الگ دنیا تھی ، لوگوں کے جد امجد کو سنجیدگی کے ساتھ الگ الگ سمجھا جاتا تھا۔ نشاط الثانیہ کے دور میں زمین دوسرے سیاروں کی طرح ایک سیارہ سمجھا جاتا تھا ، جبکہ دوسرے سیاروں میں بلکہ یہاں تک کہ چاند پر بھی مختلف النسل لوگوں کے رہنے کا سنجیدگی سے یقین رکھا جاتا تھا۔ لہٰذا میں ایک قدیمی سوال کے ساتھ ہی جوان ہوا اور اس سوال کو میں نے دوبارہ نئے جہانوں کی دریافت کے ثبوتوں کے ساتھ ملا کر دیکھا کہ حیات کو نمودار اور قائم رہنے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں سے کچھ ثبوتوں کو میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے لیکن اب میں یہاں ان سب کو جمع کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ حیات کے ظہور پذیر ہونے پر بحث کر سکوں کہ یہ صرف سیاروں پر ہی پائی جائے گی۔

لہٰذا ہمیں پھر سے کچھ قدم پیچھے جانا ہوگا اور کائناتی نقطۂ نظر سے چیزوں کو دیکھنا ہوگا۔ سیارے ہی کیوں ؟ کیا کائنات میں دوسری جگہیں موجود نہیں ہیں جو حیات کو پالنے کے لئے اتنی ہی اچھی ہوں جتنا کہ اچھے سیارے ہوتے ہیں ؟

یہاں پر اس جواب دینے کا ایک طریقہ ہے :کائنات میں ہم دوسری جگہوں کے بارے میں معلومات کو حاصل کریں اور اس کو اپنی حیات کے متعلق معلومات سے ملا کر دیکھیں کہ کیا کوئی نتیجہ خیز چیز نکلتی ہے۔ پہلا جز تو حاصل کرنا سب سے زیادہ آسان ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں فلکیات دانوں نے ہماری قابل مشاہدہ کائنات کے بارے میں سوجھ بوجھ کو بدل کر رکھ دیا ہے بہرحال اس بارے میں تو سب لوگ زیادہ تر متفق ہیں کہ کائنات میں کیا موجود ہے - بہت ساری کہکشائیں ، مزید ستارے اور سیاروں کی ایک فہرست جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

حیات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں یہ ایک مشکل بات ہے - بیک وقت ہم کافی باتیں جاننے کے باوجود بھی بہت کم جانتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بنیادی اینٹوں اور حیات کی اشکال اور باہمی ربط کے بارے میں ہماری سوچ میں انقلاب برپا کر دیا ہے ، اس کے باوجود وہ حصّے ایک نظام میں موجود ہیں (نظام کی تعریف ، پیچیدہ چیز کو نسبتی عناصر کے امتزاج میں ڈھالنے سے کی جا سکتی ہے ۔ یہی وہ تعریف ہے جو میں نظام کے لئے یہاں پیش کروں گا کیونکہ نظام کی اس سے بہتر تعریف پیش کرنے کو میرے پاس نہیں ہے ۔)جو ایک جال سا بناتے ہیں ،(جال شاخوں کا ایک ایسا نمونہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے خطوں، سرکٹ، چیزوں اور اسی طرح سے دوسری چیزوں سے جڑا ہوتا ہے، نمونے کو کسی ترتیب کی ضرورت نہیں ہوتی۔) اور یہاں پر کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جو لازمی تو ہے پر مغالطے میں ڈال دینے والی ہے۔

میں شروع مشکل والے حصّے سے کروں گا اور ان چیزوں کی فہرست بیان کروں گا جو ہم حیات کے بارے میں جانتے ہیں - حیات کی تعریف نہیں بیان کروں گا ، صرف اس کے چند لازمی خواص ہی بتاؤں گا:
1. حیات اپنی روح میں کیمیائی ہے۔
2. حیات ایک ایسا نظام ہے جو توازن میں نہیں ہے۔
3. حیات مطابقت رکھنے والی اور خود اصلاحی ہے۔
4. حیات الگ الگ اور ممیز حصّوں میں بٹی ہوئی ہے - اس کو خلیوں ، ملفوفات اور تھیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
5. حیات وہ سالمے استعمال کرتی ہے جو پانی سے موزونیت رکھتے ہوں۔


فہرست کو مرتب کرنا آسان ہے ؛ اصل مشکل اس بات کا تعین کرنا ہے کہ اس میں سے کیا چیز غائب ہے ، کیونکہ ہم حیات کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ صرف ایک ہی مثال - یعنی کہ زمین پر حیات کی مدد سے جانتے ہیں۔دلچسپ طور پر پانچ میں سے ہر ایک نقطہ جداگانہ طور پر ایک غیر حیاتیاتی نظام کو بیان کر سکتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ حیات کے ظہور پذیر ہونے کے لئے ان تمام پانچوں نکات کا ہونا لازمی ہے۔

پہلی خاصیت تو عیاں ہے لیکن بڑی تصویر کو بیان کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ کائنات میں حیات کے کسی بھی ماخذ کے لئے مطلق ضروری ہے۔ مادّے کی کوئی دوسری شکل یا نظام ایسا موجود نہیں ہے جو اتنے منظم جال رکھتا ہو ؛ کیمیائی بند قدرتی ماحول میں حیرت انگیز کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہم اس بات کے امکان کو رد نہیں کر سکتے جس میں حیات ایک نظام کو تشکیل دے (یا نظام کی شکل میں ڈھل جائے )جو سالموں پر انحصار نہ کرے ، لیکن یہ وہ سوال نہیں ہے جو میں پوچھ رہا ہوں۔ میری دلچسپی تو اس عمل میں ہے جس میں حیات ظاہر ہوتی ہے اور اس ماحول میں ہے جو اس کو نمو کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ یعنی کہ ، میں اس عبوری کائناتی مرحلے میں دلچسپی رکھتا ہوں جس میں کیمیا ، حیات کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لوگ غیر سالمی (غیر حیاتیاتی ) حیات کی شکل کو بیان کر چکے ہیں (جیسا کہ ہینز مورویک(Hans Moravec)، رے کرزویل (Ray Kurzweil) اور اسٹیون ڈک (Steven Dick)کی کہانیوں میں ملتا ہے )، لیکن اس کا ماخذ یا ارتقاء ہمیشہ سے سابقہ حیاتیات ہی ہوتی ہے اور اس کی بنیاد جزوی طور پر ہی سالموں یا سالماتی بندھوں پر ہی ہوتی ہے۔ ہم انسان منظم جال سلیکان میں بنانے کے اہل ہو سکتے ہیں لیکن یہ لمبے عرصے پر محیط ٹیکنالوجی میں پیشرفت کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے بغیر حیات کے سیارے کے اصلی ماحول کی وجہ سے نہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

بابہشتم - حصّہ دوم

سیارے ہی کیوں؟

سیارے اس بات کو ممکن بناتے ہیں کہ وہ طبعی طور پر خلائی اشعاع کے خلاف اپنے وزن اور کرۂ فضائی کی بدولت ہمیں حفاظتی مدد فراہم کر سکیں۔ سیارے اوسط وقتی پیمانے پر پائیداری فراہم کرتے ہیں جو اتنے لمبے برسوں پر محیط ہوتی ہے کہ کیمیائی جال کی نشوونما ہو سکے۔ مثال کے طور پر بین النجمی سالماتی بادل (کسی بھی دوسرے بادل کی طرح ) صغیر یا کبیر ماحول نہیں فراہم کر سکتے جو پائیدار ہو۔ یہ ہمیں کائنات کی تباہ کن اشعاع سے وقت کے اس پیمانے پر تحفظ فراہم کر سکے جبکہ سیارے ایسا کر سکتے ہیں۔

دوسری خاصیت بھی ایک مطلق ہے : توازن میں پایا جانے والا نظام ایک مردہ نظام ہوتا ہے جس میں کوئی چیز وقوع پذیر نہیں ہوتی ؛ آپ کو کچھ بھی کرنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو ایک منظم جال بنانے کے لئے کیمیا یا توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو کسی بھی چیز کو ترتیب میں رکھنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ، اندرون کو بیرون سے الگ رکھنے کے لئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

تیسری خاصیت جو ارض پر موجود حیات یا شاید کسی بھی حیات کے بارے میں دل موہ لینے والی ہے - وہ اس کی تیز اور سست تبدیلیوں سے مطابقت پذیری ہے۔ چارلس ڈارون نے اس خاصیت کی روح کو دیکھ لیا تھا ، جو جزوی طور پر اس عمل پر انحصار کرتی ہے جس کے نتیجے میں نئے اور مختلف جاندار جنیاتی مادے تبدیلی کے نتیجے میں نشوونما پاتے ہیں۔ جس کو ارتقاء کہتے ہیں یا ڈارون کو اعزاز دینے کے لئے ڈارونی ارتقاء بھی کہتے ہیں۔ زیادہ تر سائنس دان اس بات کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے حیات کو بیان کرتے ہیں۔ اسکریپس انسٹیٹیوٹ کے جیرالڈ جوائس(Gerald Joyce) نے ناسا کی کمیٹی میں پیش کی جانے والے تجویز کے خلاصے میں ١٩٩٤ء میں حیات کی شہرہ آفاق مختصر ترین تعریف میں بیان کی " ایک خود کو قائم رکھنے والاکیمیائی نظام جو ڈارونی ارتقاء کا اہل ہو "، اس کو اکثر ناسا کی تعریف سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگرچہ ڈارونی ارتقاء ایک عیاں طریقہ ہے جس سے تبدیل ہوتے ماحول کے جواب میں اور دوسرے جاندار اشیاء کے ساتھ میل کھا کر بوقلمونی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اصل میں صرف یہ ہی ایک ایسی چیز نہیں ہے۔

اس کا متبادل ایک ایسے ماحول کی موجودگی ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ حیات کی تخلیق کو بغیر کسی مورثی سالمے کے بننے کی اجازت دے ، لیکن اس میں بھی کچھ غیر متوقع تبدیلی کے ساتھ حیات بنتی رہی۔ ایسی کسی بھی حیاتی کیمیا کی بقاء کا انحصار اس ماحول کی موجودگی پر ہوگا جس نے تسلسل کے ساتھ حیات کی شکل کو تالیف کیا ہوگا۔ ارتقاء ایک سادہ اور سیدھا طریقہ کار پیش کرتی ہے اور اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ کائناتی خاصیت مختلف حیات کے ماخذوں اور حیاتیاتی کیمیا کا خاصہ ہو۔

کائنات میں کیمیا کے حیات میں بدلنے کے عبوری وقت میں سالموں اور ان کے کام کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے؛ صرف ایک دوسری لازمی خاصیت جو توانائی کی پراگندگی کو بیان کرتی ہے - صرف وہی سالموں کے بغیر کام کر سکتی ہے۔ دوسری کسی بھی چیز کے لئے پیچیدہ سالموں خاص طور پر بڑے سالمات جن کو کثیر سالمی مرکب (Polymers) کہتے ہیں ان کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ کثیر سالمی مرکب بہت لمبے سالمے ہوتے ہیں جو چھوٹے حصّوں جن کو یک سالمی مرکب (Monomers)کہتے ہیں۔(دیکھیں خاکہ نمبر7.1)۔ حیات کے بنیادی خامرے جو حیاتی کثیر سالمے کہلاتی ہیں وہ پروٹین ہوتے ہیں - یہ امینو ایسڈ اور نیوکلک ایسڈ کو باہم مربوط کرکے بنتے ہیں - جو نیوکلیوٹائیڈز سے بنتے ہیں۔

شاید ہم یہ بات نہیں جانتے کہ کونسا کیمیائی جال اور خواص حیات کے لئے لازمی ہیں ، لیکن جہاں تک ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے کچھ ضرور ایسے ہیں جو حیات کے لازمی ہیں۔ سالمے بنیادی اینٹیں بن سکتے ہیں اور ان کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگرچہ لاکھوں کی تعداد میں سالمے موجود ہیں ، ان کو بنانے کے اوزار بہت ہی محدود ہیں ، اس طرح سے ہم آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو ان چیزوں تک محدود کر سکتے ہیں جو ہمارے خیال میں حیات کے ارد گرد موجود ہونا لازمی ہونی چاہئیں۔ یہ اچھی بات ہے کیونکہ یہ ہمیں اسے سمجھنے کے لئے ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر چکے ہیں کہ حیات کو اس پیمانے پر ہونا چاہئے جس میں قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی قوّت دونوں قابل توجہ ہوں ، اس کے علاوہ حیات کو خلائی ماحول سے تحفظ کی بھی ضرورت ہے۔ درجہ حرارت کو دیکھیں۔ کائنات میں اس کے بہت ہی زیادہ درجے ہیں - انتہائی منفی (مطلق صفر )سے لے کر کچھ دسیوں لاکھوں ڈگری تک۔ سب سے ٹھنڈی جگہیں وہ گیس کے بادل ہیں جو ستاروں سے دور چھوٹی کہکشاؤں کے مضافات میں واقع ہوتے ہیں۔ کئی سیارے بھی بہت سرد ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں بونے سیارے سیڈنا اور ایرس نیپچون کے سورج کے فاصلے سے تین گنا زیادہ دور ہیں اور ان کی سطح کا درجہ حرارت کبھی بھی ہڈیوں کے گودے تک کو جما دینے والے ٣٠ کیلون (منفی ٤٠٠ فارن ہائیٹ ) سے اوپر نہیں جاتا۔ حالیہ دور میں حاصل کی جانے والی ان گیسی دیوہیکل سیاروں کی تصاویر جو ستارے HR 8799 اور فومل ہوٹ(Fomalhaut) کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں وہ بھی یہ بتا رہی ہیں کہ ان سیاروں کا اپنے ستارے سے اتنا ہی عظیم فاصلہ ہے۔ لہٰذا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اور بھی کافی زیادہ سیارے اتنے ہی سرد ہوں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top