جہانگیر ترین کی غلطیوں نے تحریک انصاف کو یہ دن دکھایا: حامد خان

جہانگیر ترین کی غلطیوں نے تحریک انصاف کو یہ دن دکھایا: حامد خان
اسلام آباد (سپیشل رپورٹ) جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد تحریک انصاف میں داخلی طور پر ’’بلیم گیم‘‘ شروع ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما اور ممتاز قانون دان حامد خان کھلم کھلا اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کا کیس سپریم کورٹ میں صحیح طورپر نہیں پیش کیا گیا اور کمیشن کے ارکان کو اس بات پر قائل نہیں کیا جا سکا کہ 2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کئی رہنما دبی زبان میں اس بات پر نکتہ چین ہیں کہ ٹھوس شواہد اکٹھے کئے بغیر اور سنجیدہ ہوم ورک کئے بغیر معاملہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کر دیا گیا جس سے تحریک انصاف کی سبکی ہوئی۔ کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف صفوں میں پارٹی کی قیادت اور اس کے فیصلوں کے طریقہ کار اور صلاح مشورے کو ایک یا دو لیڈروں تک محدود رکھنے پر سخت نکتہ چینی ہو رہی ہے آئی این پی کے مطابق جوڈیشل کمشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کی سینئر قیادت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے، پارٹی کے سینئر رہنمائوں جہانگیر ترین اور حامد خان کے درمیان بیان بازی عروج پر پہنچ گئی۔ جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ میں حامد خان کے بیان کا جواب نہیں دینا چاہتا اس بارے میں پارٹی اجلاس میں بات کروں گا ، انکوائری کمیشن رپورٹ نظریہ ضرورت کے تحت آئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے پیرا گراف 534 کو نظریہ ضرورت سمجھا جا سکتا ہے۔حامد خان کا کہنا ہے کہ انتخابی دھاندلی میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا کوئی کردار نہیں، جہانگیر ترین کی غلطیوں نے تحریک انصاف کو یہ دن دکھایا۔ نظریہ ضرورت کا اسے علم ہوگا جو نظریہ ضرورت والوں کے ساتھ رہا ہوگا، جہانگیر ترین غلطیاں چھپانے کے لیے الٹی سیدھی باتیں کررہے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کی سیکرٹری اطلاعات شیریں مزاری نے کہا کہ میں جہانگیر ترین اور حامد خان کی لڑائی میں نہیں پڑنا چاہتی، جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ مخالفانہ بیان بازی افسوسناک ہے ، میں افتخار چودھری کی پارٹی میں شامل نہیں ہورہا۔ حامد خان نے گزشتہ روز دھرنوں میں پیدا کشیدہ صورتحال کا ذمہ دار جہانگیر ترین کو دیتے ہوئے بیان دیا تھا جہانگیر ترین پرویز مشرف کے ساتھی رہے ہیں، انہوں نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا، وہ عمران خان کو مس گائیڈ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تحریکِ انصاف نے انتخابی شفافیت کا مقدمہ بڑے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے لڑا اور فیصلہ کُن ثبوت حاصل کیے بغیر ایک جذباتی اور بے لچک مہم جوئی کا راستہ اپنایا گیا جِس کا نتیجہ آج قوم کے سامنے ہے۔ آج اگر اِس ساری ناکامی کا ملبہ جہانگیر ترین یا شیخ رشید پر ڈال دیا جاتا ہے تو یہ سیچویشن اور بھی تباہ کُن منظر پیش کرتی ہے۔ کیا تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی اجتماعی دانش اِس قدر آسان ترنوالہ ہے کہ اِسے شیخ رشید یا جہانگیر ترین جیسا کوئی شخص مفلوج کر کے رکھ دے۔ اگر واقعتا" ایسا ہی ہے تو قوم اِن سے کیا اُمیدیں وابستہ کر سکتی ہے۔ اگر پارٹی اپنی بچی ہوئی توانائیوں کا رُخ انتخابی اصلاحات کے بروقت نفاذ پر لگا دے تو شائد یہ ہاری ہوئی بازی اگلے انتخابات میں جیتی جا سکتی سکے۔
 
پاکستان کی تاریخ میں اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں انتخابات میں ہارنے کے بعد دھاندلی کا الزام لگاتی رہتی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے ججوں سے اس کی تحقیقات کرائی گئیں۔ اس نکتے پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو کریڈٹ جاتا ہے۔
لیکن جن دھاندلی کے الزامات کا ڈھنڈورا تحریک انصاف پٹتی رہی ان کے ثبوت بلکہ ان الزامات کو کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ یہ سراسر قانونی اور سیاسی نا پختگی کا ثبوت ہے۔
اب عمران اپنے لکھے ہوئے معاہدے کے مطابق الزامات بھی واپس لینے کو تیار نہیں۔ یہ بھی چھوٹے پن کا مظاہرہ ہے۔
مگر۔ ۔ ۔
تحریک انصاف کی تمام سیاسی غلطیوں کے باوجود ن لیگ اگر عوامی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابیوں کا راستہ خود بخود ہموار ہوجائے گا۔
 
Top