خارجہ پالیسی

نور وجدان

لائبریرین
جاوید نقوی یہ ترجمہ پڑھ لیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
مجھےے اردو الفاظ انگریزی کے متبادل نہیں مل رہے تھے ۔۔معذرت کے ساتھ اور شریک نہیں کروں گی ۔اسکو برداشت کرلیں اور نہ ہی میں ہی مترجم ہوں ۔۔ ایسے ہی دل کیا شریک کردیا ۔کئی الفاظ میں خود گھوم گئ کہ اس کی اردو کیا ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ بھی سہو اور غلطیاں ہو سکتی ہیں ۔۔ اس لیے اس کو خذف کردیا تھا۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
واہ ! دلچسپ عنوان ہے۔ خارجہ پالیسی قوموں کی زندگیوں کے رُخ متعین کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں نہ تو دوست مستقل ہوتے ہیں نہ ہی دُشمن واحد مستقل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں اور سمجھدار قومیں اِن پر سمجھوتہ نہیں کرتیں۔ اچھی اور بُری خارجہ پالیسی کی مثال دینی ہو تو آپ بلاجھجک ہندوستان اور پاکستان کی خارجہ پالیسیز کا ذکر کر سکتے ہیں جس میں اوّل الذکر کا مرکز و محور قومی مفادات ہیں جبکہ دوسری، ذاتی پسند و ناپسند اور کج فہمی کا نادر نمونہ ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہيں۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گئے اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔

جہاں تک مستقبل ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کا تعلق ہے تو امريکہ ميں کوئ بھی حکومت برسراقتدار آئے، وہ امريکی آئين ميں طے شدہ جمہوری اقدار اور عام انسان کی آزادی اور حفاظت کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی عالمی کوشش کی حمايت کرے گی۔ دہشت گردی کے ذريعے معاشرے پر اپنا
تسلط قائم کرنے والے گروہ مستقبل کی کسی بھی امريکی حکومت کے ليے قابل قبول نہيں ہوں گے۔

امريکی حکومتی حلقے اس حقيقت سے بھی واقف ہيں کہ امريکی مفادات کا تحفظ اسی صورت ميں ممکن ہے جب عالمی برادری کے مشترکہ مفادات کو يکساں تحفظ فراہم کيا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top