Six Questions on "The Listeners" and their answers.

نور وجدان

لائبریرین
چاچو نے مجھے ایک کام کہا اور میں نے بضد خوشی اس کو قبول کیا ۔۔اور مزید براں مجھ پر واضح ہوا کہ یہ ان کا مطالعہ کتنا وسیع ہے ۔۔انہوں نے مجھے پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ اس لیے ایک نظم پر بحث یہاں پیش کر رہی ہوں
The Listeners
‘Is there anybody there?’ said the Traveller,
Knocking on the moonlit door;
And his horse in the silence champed the grasses
Of the forest’s ferny floor:
And a bird flew up out of the turret,
Above the Traveller’s head:
And he smote upon the door again a second time;
‘Is there anybody there?’ he said.
But no one descended to the Traveller;
No head from the leaf-fringed sill
Leaned over and looked into his grey eyes,
Where he stood perplexed and still.
But only a host of phantom listeners
That dwelt in the lone house then
Stood listening in the quiet of the moonlight
To that voice from the world of men:
Stood thronging the faint moonbeams on the dark stair,
That goes down to the empty hall,
Hearkening in an air stirred and shaken
By the lonely Traveller’s call.
And he felt in his heart their strangeness,
Their stillness answering his cry,
While his horse moved, cropping the dark turf,
’Neath the starred and leafy sky;
For he suddenly smote on the door, even
Louder, and lifted his head:—
‘Tell them I came, and no one answered,
That I kept my word,’ he said.
Never the least stir made the listeners,
Though every word he spake
Fell echoing through the shadowiness of the still house
From the one man left awake:
Ay, they heard his foot upon the stirrup,
And the sound of iron on stone,
And how the silence surged softly backward,
When the plunging hoofs were gone.





1۔ جنگل کی فضا کی کیا معنویت ہے



۔2۔ وہ گھوڑسوار ہے کون؟


۔3۔ سامعین کہاں ہیں؟ اور اس کو اپنی پکار کا جواب نہ ملنے پر بھی ان کے ہونے کا یقین کیوں ہے؟
۔4۔ حویلی کی خاموشی کی کیا معنویت ہے؟
۔5۔ وہ کون ہیں جن کا حوالہ وہ دیتا ہے کہ انہیں بتا دینا میں آیا تھا اور میں نے اپنا کام کر دیا ہے؟
۔6۔ آخری سوال ۔۔ اس نظم کا مرکزی خیال کیا ہے




یہ ایک ایسی نظم ہے جس کو ٹی ایس ایلیٹ جیسے شاعر نے inexplicable mysteryکے بطور متعارف کروایا۔ سوائے رابرٹ فراسٹ کے کوئی اس نظم کو ٹھیک سے سراہ نہ سکا ۔ شاید وہ بھی ایک علامتی شاعر تھے جن کی نظموں میں جنگل ، درخت ، پانی اور اس طرح کے قدرتی علامتیں ملتی ہیں جو بظاہر بہت سادہ ہوتی ہیں مگر ان کا سیاسی ، مذہبی اور سماجی اطلاق ہوتا ہے ۔ لسنرز نظم ایک ایس پراسرار نظم ہے جس میں علامتیں کہیں کھو گئیں یا راستہ بھول گئیں ۔ علامتوں کا تعلق دراصل لکھاری کے ذہن سے ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ اپنی شاعری میں مستقبل کی پیش گوئی بھی کر دیتا ہے ۔ شعرا اور ناول نگار ؛ بہت سے ایسے آئے ہیں جو اپنی موت کی پیش گوئی کرتے کرتے اس جہان سے رخصت ہوگئے ۔ اس نظم میں شاعر نے مستقبل میں آنے والے حالات کے متعلق اسرار کو واضح کیا ہے ۔ جب کوئی شاعر علامتیں استعمال کرتا ہے تو اس میں اس کی زندگی ، خود نوشت کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے ۔ اس طرح سے بہت کم لوگ اس میں دیے گئے مفہوم کو سمجھتے ہیں ۔ باقی علامتوں سے حظ اٹھاتے ہیں ۔ اس نظم کی کوئی ساخت نہ ہونا اور بطور ایک فری ورس کے طور پر موجود ہونا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ شاعر کی لاشعوری کوشش ہے ۔
اس نظم میں ایک گھڑ سوار ایک حویلی کے سامنے کھڑا ہے ،رات کا سماں ہےاور چاندنی حویلی کی سیڑھیوں پر دستک دے رہی ہے ۔ گھڑ سوار اپنا وعدہ پورا کرنے آیا ہے.گھڑسوار کا گھوڑا زمین پر موجود گھاس کو ہنہنا کر کھاتا ہے ۔ اور پھر گھڑ سوار دروازے پر دستک دیتا ہے ۔ اس کو جواب دینے والی صرف واحد مونث '' خاموشی '' ہوتی ہے ۔ زندگی موت کو دستک دیتی ہے ، موت کے پیچھے بھاگتی ہے ۔موت میں اسرار ہے ۔ پھر دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔ جواب ندارد۔چاندنی دھیرے دھیرے سیڑھیوں پر اندھیرے سے مدغم ہوکر گھڑ سوار کے سامنے آتی تھی اور وہ بدستور جواب کے انتظار میں کھڑا رہتا ہے۔ گھوڑ اس کو چھوڑ جاتا ہے اور وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے ۔خاموشی سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ میں نے اپنا وعدہ دیر سے پورا کیا مگر میں آگیا ہوں ۔ میرے الفاظ جو میں نے تمھیں دیے میں ان کا بھرم رکھا ہے ۔ مگر جواب نہیں ملتا ہے سوائے خاموشی کے جو سمندر کی لہروں کی طرح زور سے پیچھے کی جانب ہٹ جاتی ہے ۔اس سے مراد مرنے والوں کی روحیں اس بات سے آگاہ ہوتی ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔۔
اس کو ہم شعور اور لا شعور کی جنگ بھی کہ سکتے ہیں ۔۔

میں اگر ایک دائرہ بناؤں اور اس کے درمیان میں ایک لائن ڈال دوں تو وہ قطر بن جائے گی ۔ ایک حصہ زندگی کو اور ایک حصہ میں موت کو دے دوں گی ۔ اس نظم میں ایسا ہی ایک دائرہ ہے کیونکہ زندگی بھی مدار میں گھومتی ہے ۔ موت اور زندگی ۔۔ جنگل کی فضا زندگی کی علامت ہے ، سانس کی ، ہوا کی دلیل ہے ۔ گھوڑا ''سورج'' کی ، حکمرانی کی ، یا اچھی قسمت کی نشانی ہے ۔ گھوڑے کا ہنہا کر جنگل میں گھاس کھانا سے مراد اپنی قسمت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے ۔ دوسری جانب چاندنی جو دروازے پر رقصاں ہے اس کو کھٹکھٹاتا ہے ۔ اس سے مراد وہ اپنے آبا اجداد کو پکار رہا ہے بالخصوص اپنی ماں کی جانب سے جو کہ ایک لکھاری خاندان سے تھیں ، ۔ جبکہ اس کا باپ بہت بڑا بینکر تھا. 1908کے بعد سے لکھاری نے خود کو دنیا سے بالکل الگ کرکے صرف لکھنے کی جانب توجہ مرکوز کرلی تھی ۔ بہت سے حوالوں میں یہ کہا جاتا ہے اس کی مدر کا تعلق ایک بہت بڑے شاعر رابرٹ براؤننگ سے تھا سوائے وکی پیڈیا کے ۔ تاریخ بتاتی ہیں اس کی ماں کا تعلق سکاٹ لینڈ سے تھا اور رابرٹ براؤننگ کے آباواجداد کا تعلق بھی ۔۔۔شاعر کا تعلق عیسائیت کے فرقے پروٹسٹنٹ سے تھا۔۔۔۔۔ اور جو کیتھولکس کے بر عکس دوہریوں کے حامی تھا ۔۔

حویلی سے مراد آباؤاجداد ہیں یا انکی قبریں ہیں ۔۔۔ ان کی قبروں کی گھاس بھی مردہ ہے جبکہ جو گھاس گھوڑا کھاتا وہ سر سبز فرنز ہوتے ہیں ۔ یعنی زندگی اور موت کے درمیان کھڑا مسافر ۔۔

مسافر ۔۔ شاعر خود ہے ۔ گھوڑے کو چھوڑ دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے شان و شوکت والی زندگی پر خاموش زندگی کو ترجیح دی ہے ۔وعدہ ے سے مراد '' لکھنا'' ہے ۔۔۔ قبروں کے سامنے زندگی کی آواز ۔۔ دستک ۔۔۔ دستک کے بعد پرندے کا اڑنا یعنی خاموشی کے جمود کو زندگی نے توڑ دیا اور وہ پرندہ اس قلعے یا حویلی کے چبوترے کے سب سے اوپر والے حصے سے پرواز کر گیا ۔ چاندنی اور دروازہ ۔۔چاندنی سے مراد اس کی ماں اور اسے منسلک یادیں ہیں جو لکھاری کے لاشعور سے ٹکراتی رہتی ہیں ۔۔ یا چاندنی خاموشی میں ایک زبان ہے کسی کے ہونے کا احساس ہے ۔ اب جب شہرت ،دولت چھوڑ جاتی ہے تب خاموشی ایک سمندر کی طرح پیچھے ہٹ جاتی ہے ۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کچھ نہیں ہوا۔۔ خاموشی کا پیچھے ہٹ جانا ۔۔اسرار کا کھل جانا ہے یا اس کا جواب مل جانا ہے جس کے لیے وہ بار بار دروازے کو کھٹکھٹاتا ہے ،تیس سال کی عمر میں لکھاری آئل کمپنی سے ریٹائر ہوجاتا ہے اور اپنا سارا دھیان لکھنے کی طرف مرکوز کر دیتا ہے گویا وہ 'وعدہ' لاشعوری احساس ہے جس نے اس کو دنیا کی جاہ و شوکت چھوڑنے پر مجبور کردیا اور خود کو لکیروں میں مقید کرلیا تھا۔
اس کا مرکزی خیال '' اپنی خود کی روح سے وابستگی'' ہے ۔ گھڑ سوار روایات کا پاس دار ہے ۔ ان کے مرنے کے بعد وہ اس کے لاشعور میں موجود تھے ۔دنیا کی حقیقت صرف ایک عارضی ٹھکانے کی سی ہے ۔موت اور زندگی کے درمیان ایک باریک سی لائن ہے ۔انسان کو ذات کا اطمینان اپنے اندر سے حاصل ہوتا ہے نا کہ دنیاوہ چیزوں سے نا ان کی طلب سے ۔۔۔ یہ نظم شاعر کی تخییل میں ایک اطمینان کی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔۔ کہ وہ اپنے لاشعور سے قریب ، اپنے دل سے قریب ہو کر وہ کام کر رہا ہے جو کہ اس کرنا چاہیے اور اس نے اس میں اپنے شعور کو شکست فاش دے دی ہے ۔
محترم استاد یعقوب آسی کا جواب


۔۔۔ (۱)۔۔۔۔۔
عمدہ تشریح ہے ۔ جیسے شاعر نے ایک تخیلاتی فضا تخلیق کی ہے ویسے ہی شارحہ نے بھی ایک تخیلاتی ماحول خود بنا کر نظم کو اس میں فٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شارحہ کے خیال میں یہ نظام شاعر کی اپنی زندگی اور اپنے متعلقین کی متفرق یادوں کو ایک ادب پارے میں تحویل کرنا ہے۔
یہ توضیحات خارج از امکان بہر حال نہیں ہیں تاہم ایک متجسس ذہن کی تشفی نہیں کر پا رہیں۔ شاعر کو محض اپنی یادداشتوں اور بزرگوں کو موضوع بنانا ہوتا تو اسے اتنی پُر اَسرار فضا تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ والٹر ڈی لا مئیر کی اس خاص اسلوب کی یہ منفرد نظم ہے، دیگر نظموں میں اس کا اسلوب خاصا مختلف ہے۔
شاعر پر یہ لازم بھی تو نہیں کہ وہ اپنی ہی ذات کو موضوع بنائے گا۔ شارحہ خود بھی شعر کہتی ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان کی اپنی شاعری بھی محض اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتی۔ شاعر جس معاشرے میں بھی ہو وہ جہاں معاشرے کی نباضی کرتا ہے وہیں انسانی ذہن، تاریخ، نفسیاتی اور فکری تاریخ جیسے عناصر کو بھی زیرِ بحث لا سکتا ہے۔
July 8, 2015 at 12:02 AM
۔۔ محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ said...
۔۔۔۔(۲) ۔۔۔۔۔
میں نے اس نظم کو انسان کی ذہنی، نفسیاتی، معاشرتی تایخ کے تسلسل میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ الٰہیات انسانی فکر کا فطری جزو ہیں۔ شاعر کی قوتِ متخیلہ اس کے اظہار کا زاویہ بھی متعین کرتی ہے۔ ملٹن نے اپنے افکار کی مطابقت میں ایک ایسا ماحول تخلیق کیا جس میں مخلوق اپنے خالق کے خلاف صف آرا ہو جاتی ہے۔ مثبت اور منفی قوتوں کے ٹکراؤ کا یہ منظر نامہ ’’فردوسِ گم گشتہ‘‘ کے نام سے ادب کا ایک شہ پارہ قرار پاتا ہے۔ میرا یا آپ کا ملٹن کے افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مجھے اس نظم ’’سامعین‘‘ میں الٰہیات پر اظہار کی ایک بہت مختلف جہت کا پتہ ملتا ہے۔

والٹر ڈی لا مئیر الٰہیات کے اس پہلو کو اجاگر کر رہا ہے جس میں خدا اپنے بندوں کو اپنی طرف بلاتا رہا ہے۔ تاہم انسان نے اکثر مواقع پر لاتعلقی کا رویہ اپنائے رکھا ہے۔ اسی انداز کی فضا اور ماحول علامتی انداز میں اس نظم کا تانا بانا بناتا ہے۔ جنگل، رات، چاند روشنی کا فرحت انگیز نہ ہونا، گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ کا دور تک پہنچنا مگر جھینگرو وغیرہ سے بڑی کسی جنگلی مخلوق کا متوجہ نہ ہونا۔ بڑی سی تنہا حویلی اور اس پر تاریکی اور خاموشی کا راج بظاہر ویرانی کا منظر ہے مگر شاعر جانتا ہے کہ اس ویرانی میں بھی کوئی شعور افراد (وہ چاہئ انسان ہوں، جنات ہوں، کچھ بھی ہوں) ضرور موجود ہیں۔
July 8, 2015 at 12:21 AM
۔۔ محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ said...
۔۔۔ (۳)۔۔۔۔۔
گھڑسوار کا ٹھیک تین بار پکارنا ایک عظیم استعارہ ہے۔ جب کہ پکارنا بذات خود آگہی کا مظہر ہے کہ سننے والے یہاں لازمی طور پر موجود ہیں۔ شاعر کے نزدیک وہ سننے والے اتنے اہم ہیں کہ وہ نظم کا عنوان ہی ’’سامعین‘‘ رکھتا ہے۔ گھڑسوار خود اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ پکارتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر دیا اور یہ کہ انہیں بتا دینا، یعنی آگے سے آگے اس پکار کو پہنچا دینا۔ اسے یقین ہے کہ اس کی بات سنی جا رہی ہے مگر اس کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ یہ وہی انسانی بے اعتنائی کا رویہ ہے۔
گھڑسوار یہاں ایک پیغامبر لگتا ہے جس نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور چلا گیا۔ پھر اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز جنگل کے ہموار شور میں گم ہو گئی۔ یہ اس کے بھلا دئے جانے کا استعارہ بھی تو ہو سکتا ہے۔

یہاں ایک اشتراک کی بات بھی آتی ہے۔ مسلمان اور مسیحی اور یہودی؛ تینوں کے ہاں حیات بعد الموت اور قیامت کا تصور بہت واضح ہے۔ ہم نے متعدد روایات میں پڑھا سنا ضرور ہے (یعنی ایک عام تصور پایا جاتا ہے) کی قیامت کے دن جب اللہ کے پیغمبر اپنی اپنی امتوں کو ساتھ لئے میدان میں جمع ہوں گے، ان میں کئی پیغمبر ایسے بھی ہوں گے جن کے ساتھ ایک امتی بھی نہیں ہو گا۔ اس تصور کو ایک مسیحی یا یہودی کیسے دیکھے گا، یہ قاری پر منحصر ہے۔ تاہم یہ بات کھل جاتی ہے کہ وہ گھڑسوار ایک پیغام بر ہے اور گھوڑا ممکنہ طور پر وہی ناموس ہے جس کا ذکر ورقہ بن نوفل کے کیا تھا۔
July 8, 2015 at 12:33 AM
۔۔ محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ said...
۔۔۔۔(۴)۔۔۔۔۔
یوں والٹر ڈی لا مئیر کی نظم ’’سامعین‘‘ کا منظر نامہ اسی مسلسل سرمدی پیغام کی ایک کڑی ہے جو شاعر کے نزدیک بے اثر گزر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://sadiashafeeqsheikh.blogspot.com/2015/07/six-questions-on-listeners-and-their.html
 
Top