جنرل ہو یا زرداری، قانون سب پر بھاری

تاریخ: یکم جولائی ، 2015
جنرل ہو یا زرداری، قانون سب پر بھاری
تحریر: سید انور محمود

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیربھٹونے پیپلز پارٹی کو توبچالیا تھا لیکن اُنکے شوہر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو کبھی بھی سیاسی پارٹی کے طور پرنہیں لیا، وہ پہلے دن سے ہی پیپلز پارٹی کو اپنے کرپشن کو بڑھانے اور لوٹ مار کرنے کےلیے استمال کرتے رہے۔ 1988ء سے 1996ء تک دو مرتبہ بینظیربھٹو ملک کی وزیراعظم رہیں ، اور پیپلز پارٹی کی چیرمین شپ بھی اُنکے پاس تھی۔ اس درمیان میں آصف زرداری مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب حاصل کر چکے تھے۔ 1997ء میں بینظیربھٹو ملک سے چلی گیں اور 18 اکتوبر 2007ء کو وہ واپس آیں۔ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں بینظیربھٹو کوقتل کردیا گیا۔ بینظیرکے قتل کے بعدآصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری کردیا اور پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ فروری 2008ءکے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا اور جسطرح بینظیر بھٹو نے اپنے والد سے قریب لوگوں کی چھٹی کی ٹھیک اُسی طرح آصف زرداری نے اُن لوگوں کی چھٹی کی جو بینظیر بھٹوکے قریب تھے۔ آصف زرداری نے ایک ایسی پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی جس کا ماضی شاندار تھا، جسکے ساتھ عوام کی ایک بڑی تعداد تھی، پیپلز پارٹی جو اُس وقت پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی، عام طور پر پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک ہمیشہ 38 فیصد رہا۔ چاروں صوبوں*میں ایک بڑی تعداد مخلص کارکنوں*کی جن کو عام طور پرجیالا کہا جاتا ہے وہ موجود تھے۔ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پر اس سے برا وقت کبھی نہیں آیا ۔

جب پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کی قیادت میں اپنی پانچ سالہ 2008ء ۔2013ء حکومت کی مدت مکمل کی تو کرپشن اورلوٹ مار کی وجہ سےپارٹی تباہ ہوچکی تھی۔ 2013ء کےانتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو صرف اندرون سندھ تک محدود کردیا۔ جس پیپلز پارٹی کو ضیاءالحق اپنی ننگی بربریت اور پرویزمشرف اپنی چالبازیوں سے ختم نہ کرپائے ، آصف زرداری نے اپنی کرپشن اور لوٹ مار سے اُسے ختم کردیا ۔ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے، حالیہ انتخابات کے بعد گلگت بلتتسان سے بھی اُسکی چھٹی ہوچکی ہے، جبکہ جلدہی یہی صورتحال آزاد کشمیر میں ہوگی۔ زرداری کے پانچ سالہ دور میں صرف پیپلزپارٹی ہی تباہ نہیں ہوئی ،اسکے ساتھ ساتھ ملک کے عوام * کو بھی زرداری کے کرپشن سے ہونے والے منفی اثرات کو*بھگتنا پڑا ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کر کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا۔ قومی ادارے ایک ایک کر کے ڈوبتے گئے۔حقیقت یہ ہے کہ ایساکرپٹ سیاسی لیڈر پیپلزپارٹی نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ایسی بدترین مرکزی اور سندھ حکومتیں ۔ سندھ کے اور خاصکر کراچی کے حالات ایک عرصے سے خراب چلے آرہے ہیں، شہرقائد کراچی گذشتہ کئی عشروں سے بدامنی، لسانی، فرقہ پرستی اور نسلی فسادات کے علاوہ دہشتگردی ،قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار اور بھتہ خوری کی زد میں ہے۔ گذشتہ رمضانوں کے مقدس دنوں میں بھی ہزاروں جرائم ہوتے رہے ہیں۔4ستمبر 2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بدامنی سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو مرکزی کردار دینے کی تجویز پیش کی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیا کہ کراچی میں رینجرز کی سربراہی میں فوری طور پر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گی جو اس آپریشن کی نگرانی کرتی ہے۔

مرکز سے تو پیپلز پارٹی کا 2013ء میں خاتمہ ہوچکا ہے لیکن بدنصیبی سے سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ بری کارگردگی کے باوجود دوبارہ برسراقتدار ہےاورقائم علی شاہ ہی مسلسل وزیراعلی ہیں۔ سندھ نے بھی کبھی ایسا بدترین وزیراعلیٰ جو انتہائی کرپٹ ہو نہیں دیکھا تھا، قائم علی شاہ جیسا کرپٹ شخص اب بھی اپنی کرپشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے گذشتہ پانچ سال 2008ء سے 2013ء ہوں یاحالیہ دو سال قائم علی شاہ نے سندھ میں سوائے کرپشن اور بیڈگورنس کے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے۔ قائم علی شاہ کی گذشتہ سات سال میں جو کارکردگی رہی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ کسی چھوٹے سے شہر کےلیے بھی کچھ نہیں کیا، صرف لوٹ مار اور اقرباپروری میں مصروف قائم علی شاہ کی حکومت ہر شعبہ میں ناکام رہی ہے۔ کراچی آپریشن سے پہلےامن و امان کی صورتحال بدترین تھی، اسٹریٹ کرائم، ٹارگٹ کِلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور کرپشن عام تھے۔ رشوت لے کر نوکریاں دی جاتی ہیں ، لہذا کارکردگی صفر ہے۔ لیکن سندھ میں رہنے والوں کی بدنصیبی کہ ابھی تک ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیر بھٹو کے نام پر نام نہاد پیپلز پارٹی نے پورئے سندھ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ قائم علی شاہ کے سات سالہ دور میں صرف کراچی میں دہشتگردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، سرکاری اور فوجی املاک پر حملے ، فرقہ وارانہ نفرت ، بے روز گاری اور مہنگائی کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ کی ترقی کےلیے کچھ نہیں کیا، کراچی تو چھوڑیں اُنہوں نے تو لاڑکانہ، نواب شاہ یا خیرپور میں بھی عوامی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا۔

کراچی آپریشن شروع ہونے کے کچھ عرصہ بعد رینجرز اور پیپلز پارٹی میں اختلاف شروع ہوگئے۔ 16 فروری 2015ء کو ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس جس میں وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری بھی موجود تھے سندھ میں موجود پیپلز پارٹی کی حکومت کو رینجرز کی جانب سے نااہل کہا گیا اور ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا کہ آپریشن کراچی میں سندھ حکومت کی جانب سے تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔ آصف زرداری نے کراچی کو تو تباہ کرکے رکھ دیا۔ زرداری کو شاید یہ خیال ہی نہیں تھا کہ کوئی اور خاصکر فوج اُنکے بدترین کرپشن کو بے نقاب کرئے گی۔آصف زرداری نے اپنی بہن فریال تالپور المعروف ادی اور اپنے دوست مظفر اویس عرف ٹپی کو سندھ پر مسلط کیا، ہر شعبے میں لوٹ مار کی گئی، دہشت گرد تنظیموں سے گٹھ جوڑ اور ہر قسم کے مافیاز کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ لیکن جب یہ سارئے جرائم سامنے آئے ، لیاری گینگ وار میں آصف زرداری کا کردار بے نقاب ہوا، دو ارب روپے ایک صوبائی وزیر کے گھر سے برآمد ہوئے، ایک ماڈل کے زریعے منی لانڈرنگ کی حیران کن کہانیاں*سنائی دینے لگیں۔گیارہ جون کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز نے ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق سالانہ 230 بلین روپے دہشتگردی میں استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔فش ہاربر، فطرہ ، پتھاروں، بچت بازاروں،قبرستان ،پانی کی ترسیل اور زمینوں پر قبضہ سے حاصل ہونے والی رقم دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوتی ہے، میچ فکسنگ، منی لانڈرنگ ، سائبر کرائم ، فقیر مافیا اور مدارس کی بیرونی فنڈنگ بھی دہشتگردی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ڈی جی رینجرز کی بریفنگ کے بعد آصف زرداری کو اپنی کشتی ڈوبتی دکھائی دی تو فوج کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کرڈالی۔ بغیر نام لیے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُنکو دیوار سے لگانے اور اُن کی کردار کشی کرنے کی روش ترک کردیں ورنہ وہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کے جرنیلوں کے بارے میں وہ سب کچھ بتائیں گےکہ وہ (فوجی جرنیل) وضاحتیں دیتے پھریں گے۔ انھوں نے کہا کہ سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اُنھوں نے دھمکی دی کہ جب بھی پیپلز پارٹی نے ہڑتال کی کال دی تو خیبر سے لے کر کراچی تک جام ہو جائے گا۔ اینٹ سے اینٹ بھی نہ بجی اورپوراپاکستان تو کیا بند ہوگا، زرداری کی کرپشن کا خاتمہ ضرور ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کی ایک بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعت نے زرداری کے بیان کی حمایت نہیں کی۔ عوام فوج کے ساتھ کھڑئے ہیں، عوام زرداری کے ساتھ کیوں*کھڑے ہوں، عوام جانتے ہیں کہ اُنکی مشکلات بڑھانے کے ذمہ دار آصف زرداری ہیں۔آصف زرداری اپنی پارٹی کو آپ تباہ کرچکے ہیں، ملک اور صوبہ سندھ کو بربادی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے، تھر کے معصوموں کی بددعایں تو آپکو لگیں گیں۔ کراچی میں مرنے والے 2000 بے قصوروں کے لواحقین تو نواز شریف کے ساتھ آپکوبھی بددعایں دئے رہے ہیں۔جب کسی طرف سے کوئی حمایت نہ ملی تو ملک چھوڑکر بھاگ گئے۔

کس نے کہا کہ فوج میں سارئے معصوم ہیں، سابق جنرلوں میں بہت سارئے ایسے ہیں جنکے خلاف کارروایاں بھی ہوئی ہیں اور ہونی چاہیں۔اس مرتبہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے احتساب کا عمل فوج سے شرع کیا ہے، فوج کے اندر ان جرنیلوں کے خلاف خاموشی سے انکوائری ہورہی ہے جن کے بارے میں کرپشن کے الزامات ہیں، خصوصا ایک سابق آرمی چیف کے رشتہ دار کے بارے میں بھی انکوائری ہورہی ہے جس کے بارے میں بہت سی افواہیں تھیں کہ اُس نے آرمی چیف کا سہارا لے کر کنسٹرکشن بزنس میں بہت سے گھپلے کئے ہیں۔ اب اگر آرمی چیف فوج کے اندر ہی احتساب کررہے ہیں تو آصف زرداری، فریال تالپور، مظفر اویس عرف ٹپی اور پیپلز پارٹی کے دوسرئے بہادرجیالوں کو ملک چھوڑ کر نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔ بلاول کی واپسی پارٹی کےسینئرز کے کہنے پر ہوئی ہے کیونکہ وہ اب تک کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات سے بچا ہوا ہے اور اُسکو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اب آصف زرداری یا الطاف حسین یا کوئی اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف کو یہ نہیں کہہ سکتےکہ آپ نےفلاں کو ناجائز پکڑا ہے۔اگر فوج بیوروکریسی، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کررہی ہے تو پھرآصف زرداری کو بزدلوں کی طرح ملک سے بھاگنے کے بجائے اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے تھا۔ آصف زرداری کے مجرمانہ کارناموں سے سب ہی واقف ہیں، اس ملک کی سیاست کا پتہ نہیں ہوتا لہذا ہوسکتا ہے کل آصف زرداری کی واپسی ایک اور این آر او کے زریعے ہو، لیکن اس مرتبہ واسطہ ایک ایسے جنرل سے پڑا ہے جو شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ جس نے سیاست میں*پی ایچ ڈی کرنی ہے، وہ سیاست آصف زرداری سے سیکھے ، شاید وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ جس نے لوٹ مار کرنی ہے وہ لوٹ مارآصف زرداری سے سیکھے، پیپلزپارٹی کے جیالے تو ویسے بھی نعرئے لگاتے ہی ہیں کہ ایک زرداری، سب پر بھاری۔ لیکن اگر جنرل راحیل شریف نے کرپشن ختم کرنے کےلیے راست اقتدام کیا تواب شاید نعرہ یہ ہوگا کہ“ جنرل ہو یا زرداری، قانون سب پر بھاری”۔
 
Top