جنگ طرابلس

عمیر فہد

محفلین
جنگ طرابلس
Tripolitanian War

جنگ طرابلس Tripolitan War یا پہلی بربر امریکا جنگ Barbary Coast War جو کہ بربری ساحل کی جنگ کے نام سے بھی معروف ہے جس کی نسبت شمال مغربی افریقا کے ساحل کی جانب کی جاتی ہے یہ پہلی جنگ ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکا نے شمالی افریقہ کے ممالک کے خلاف لڑی جن کا ایک حصہ اس وقت مملکت عثمانیہ کے تابع تھا جو اس وقت مجموعی طور پر بربر ممالک کے نام سے معروف تھے۔ ان ممالک میں مراکش میں مستقل حکومت تھی جبکہ 3 عثمانی صوبے الجزائر ، تیونس اور طرابلس تھے جو تقریبا نیم خود مختار اور سلطنت عثمانیہ سے منسوب تھے۔


پس منظر:

عثمانی اور بربری ساحلی ممالک کے بحری بیڑے بحر متوسط میں تجارتی کشتیوں کی بحری قزاقوں سے حفاظت کیلئے گشت کیا کرتے تھے ، اس کے بدلے یورپی ممالک انھیں اپنی کشتیوں کی حفاظت کے بدلے ٹیکس ادا کرتے تھے۔برطانیہ سالانہ 600 جنیۃ سلطنت عثمانیہ کو ادا کرتا تھا ، ڈنمارک جنگی مہمات میں شمولیت کے ساتھ ساتھ جنگی سازوسامان جس کی قیمت 4000 ریال شنکو تھی اس کے علاوہ قیمتی تحائف ادا کرتا تھا۔

ہولینڈ 600 جنیۃ ، مملکت صقلیۃ 4000 ریال ، سرڈینیا 6000 جنیۃ ، امریکا جنگی مہمات میں شرکت اور جنگی سازوسامان جس کی قیمت 4000 ریال اور اس کے ساتھ ساتھ 10 ہزار ریال نقد اور اس کے ہمراہ قیمتی تحائف ادا کرتا تھا ۔

فرانس اپنے سفیروں کی تبدیلی پر قیمتی تحائف بھیجتا ، پرتگال قیمتی ترین تحائف پیش کرتا ، سویڈن اور ناروے ہر سال قیمتی بحری جنگی سامان ادا کرتے ، اسپین قیمتی تحائف پیش کرتا۔

18 ویں صدی کے اواخر میں امریکی کشتیا ں امریکا کی1776 میں انگلستا ن سے آزادی کے بعد 1783 میں پہلی بار امریکی پرچم لہرا کر سمندر اور بحیروں میں گشت کرنے لگیں ، ترک بحریہ کا ٹکراو امریکا کی کشتیوں سے ہوا اور انھوں نے قادش کے پانیوں میں ایک کشتی پر قبضہ کر لیا ، یہ جولائی 1785 کی بات ہے ، تھوڑے ہی عرصے میں مزید 11 امریکی کشتیوں پر قبضہ کر لیا اور انھیں الجزائر کے سواحل پر لے آئے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کے تابع ایک ولایت (صوبہ ) تھا۔

اور جب امریکا ان کشتیوں کو بزور طاقت واپس لینے سے عاجز آ گیا ، اس کیلئے بحری بیڑے کی تیاری کیلئے کئی سال درکار تھے جو عثمانی بحری بیڑے کا مقابلہ کر سکتے ، اس وجہ سے امریکا نے مجبورا ترکی کے ساتھ 5 ستمبر 1795 کو معاہدے پر دستخط کئے ، اس معاہدے کی 22 شقیں تھیں اور ترکی زبان میں لکھا گیا تھا ، یہ دستاویز امریکا کی دو صدیوں سے زیادہ تاریخ کا واحد معاہدہ ہے جو انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھا گیا اور امریکا نے اس پر دستخط کئے ، اسی طرح یہ واحد معاہدہ ہے جس میں امریکا نے کسی غیر ملک کو سالانہ ٹیکس دینے کا عہد کیا ہو ، اس معاہدے کے نتیجے میں امریکا کو اس کی تمام کشتیاں واپس مل گئیں اور اس کی کشتیوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانے کی ضمانت دی گئی۔

18 ویں صدی کے اواخر میں امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے بکلر حسن الجزائر میں ترکی کے پاشا کے ساتھ صلح معاہدے میں دستخط کئے جس کے تحت امریکا ترکی کو فی الفور 642 سونے کے ڈالر اور 1200 عثمانی لیرۃ دینے کا پابند تھا ، جس کے بدلے الجزائر نے امریکی قیدیوں کو آزاد کرنا اور بحر متوسط اور محیط اطلس میں کسی امریکی جہاز کو نقصان نہ پہنچانے کی ضمانت دی۔

باوجود اس کے کہ سلطنت عثمانیہ ایک سال تک امریکا کی کشتیوں پر حملہ نہ کیا مگر انھیں طے شدہ سالاہ ٹیکس ادا نہ کیا گیا ، انگریز نے اپنی پرانی دشمنی کا انتقام لینے کیلئے طرابلس میں اپنے قونصلر کے ذریعے اس نقطہ سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کی ، اس کیلئے یوسف پاشا القہ مانلی کو اس بات پر ائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ امریکا کے ساتھ کئے گئے معاہدہ میں نظر ثانی کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں کی مشکل اقتصادی صورتحال اور اپنی افواج اور انتظامی اداروں کو چلانے کیلئے درکار سرمائے کی کمی نے یوسف پاشا کو شدید غصے میں مبتلا کر دیا ۔

امریکا کے خلاف اعلان جنگ :

طرابلس کا پاشا مضبوط اعصاب کا شخص تھا وہ جانتا تھا کہ امریکی بحر متوسط میں اپنی گذرنے والی کشتیوں کیلئے طے کردہ جزیہ ادا کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں ، چنانچہ اس نے انھیں ذلیل کرنے کیلئے ان کی قومی عزت کی اہانت کا ارادہ کیا ۔14 مئی 1801 کو اپنے سپاہیوں طرابلس میں امریکی قونصل خانے کے سامنے امریکی پرچم کو اتارنے کا حکم دیا ، جو امریکا کو آگاہ کرنے کیلئے اعلان جنگ تھا اس کے بعد لیبیا کی کشتیاں سمندر می امریکی کشتیوں کی تلاش کیلئے نکلیں تاکہ ان پر قبضہ کر کے انھیں مال غنیمت بنایا جا سکے اور واشنگٹن حکومت کو سالانہ جزیہ دینے پر مجبور کیا جا سکے۔

طرابلس میں موجود امریکی قونصلیٹ نے پاشا کے ساتھ ملاقات میں اپنی مملکت کی جانب سے امریکی پرچم کے ساتھ کئے گئے ذلت آمیز سلوک پر رسمی احتجاج پیش کیا اور اس سازوسامان کا مطالبہ کیا جو امریکی کشتیوں سے چھینا گیا تھا، پاشا نے اسے کہا:اے قونصلر کوئی ایسی قوم نہیں ہے جس سے میں صلح کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ تمہاری قوم ہے، اور دنیا کے تمام ممالک مجھے جزیہ دیتے ہیں تمہارے لئےبھی لازم ہے کہ مجھے جزیہ دو ، قونصلر نے کہا : ہم نے معاہدے کے مطابق تما م جزیہ ادا کیا اب ہمارے ذمہ کوئی بھی واجب الاداء رقم نہیں ، پاشا نے شدید غصے سے کہا جہاں تک امن معاہدے کا تعلق ہے تم نے واقعتا اس کا جزیہ ادا کیا جبکہ اس امن معاہدے کو برقرار کھنے کیلئے تم نے ادائیگی نہیں کی۔

امریکی پرچم جلانے کا واقعہ قونصلر کے دل پر بجلی بن کر گرا اور اس کا غصہ اس وقت اور شدید تر ہو گیا جب اسے پاشا کہ پیغام ملا جس میں اس نے امریکی قونصلیٹ کے عملے کو فی الفور ملک چھوڑنے کا حکم دیا فضاء طرح جنگ کیلئے ہموار تھی اور فریقین ناپسندیدگی اور انتقام کے جذبات سے لبریز تھے ، قونصلر امن ودوستی کے معاہدہ کو پھاڑنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکا جس پر اس نے طرابلس کے ساتھ 1796 میں دستخط کئے تھے۔

شام ہونے پر منادی جنگ کے طبل بجاتے سڑکوں پر گشت کرنے لگے موذنوں نے قرآن کریم کی آیات پڑھ کر لوگوں کو جوش دلاا اور صلیبیوں کے خلاف قتال پر تحریض دینی شروع کر دی۔ اس حادثے کے 10 دن بعد امریکی قونصلر اپنے خاندان کے ہمراہ طرابلس چھوڑ کر خشکی کے راستے تیونس کا رخ کیا ، اس طرح سے پاشا نے واقعتا طبل جند بجا دیا جس کی گونج امریکی بیڑے کے قائد ڈیل کو 30 جون کو سنائی دی جب وہ جبل الطارق میں اپنے لئے خوراک کے ذخائر لینے کیلئے داخل ہوا، ڈیل اس معاملے کو سن کر بھونچکا رہ گیا ، کیونکہ اسے توقع نہ تھی کہ معاملات اس قدر تیزی کے ساتھ رونما ہوں گے ، اس نے فی الفور بڑی تعداد میں طرابلسی جہازوں کو جلاے اور تباہ کرنے کے احکامات جاری کئے جن کے بارے میں احتمال تھا کہ بحر متوسط میں ان سے سامنا ہو سکتا ہے۔

امریکا نے جولائی 1801 میں اپنا جنگی بیڑا جو دو فریگیٹس پریذیڈینٹ اور فلاڈیلفیا پر مشتمل تھا ان می سے ہر ایک پر 44 توپیں نصب تھیں ان کے ہمراہ دو جنگی کشتیاں تھیں جن پر 32 توپیں نصب تھیں پھر اس بیڑے میں مزید دوسری کشتیاں بھی شامل کی گئیں ، امریکی صدر نے 1803 کو اس بیڑے کو بحر متوسط میں درنۃ کا محاصرہ کرنے کا اور درنۃ پر اپنی توپوں کے ساتھ بمباری کرنے کا حکم دیا۔

چھٹا امریکی بیڑا

امریکا نے اپنا جنگی بحری بیڑا بحر متوسط کی جانب روانہ کیا اس بیڑے میں دو بڑے فریگیٹ جہاز جن میں سے ہر ایک میں 44 توپیں نصب تھیں یہ جہاز پریذیڈینٹ اور فلاڈیلفیا تھے ان کے ساتھ ایک چھوٹا جہاز جو 32 توپوں پر مشتمل تھا اور ایک چھوٹی کشتی انٹر پرائز جس میں 12 توپیں نصب تھیں۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن جنہوں نے تیسرے امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھانے براہ راست اس جنگ کی روانگی کیلئے احکامات جاری کئے اس کی خواہش تھی کہ بحر متوسط میں اپنی بہترین فوج روانہ کی جائے جو اس علاقے میں امریکا کی دھاک بٹھا سکے۔

ہم اس عثمانی کو ایسا سبق سکھائیں گے جسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکے صدر امریکا نے اپنے صدارتی دفتر میں نائب امریکی وزیر دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم اس زبردست فتح کے ذریعے اپنے بحری بیڑوں کے ایک نئے دور کا آغاز اور دنیا کے ناگزیر مقامات میں اپنی عسکری موجودگی یقینی بنانا چاہتے ہیں اس طرح سے ہم امریکن ایمپائر کی بنیاد کی جانب پہلا قدم اٹھائیں گے امریکی صدر کی آواز بھرپور خود اعتمادی سے بھری ہوئی تھی۔

امریکی صدر نے ایڈمرل "رچرڈ ڈیلRichard Dale " کو اس مہم کی قیادت سونپی اور اسے بحر متوسط جانے اور عثمانی حکام اور شمال مغربی افریقہ کے بحری قزاقوں کے دلوں میں رعب و دہشت ڈالنے اور اس جدید ایمپائر کیلئے نئی آماجگاہیں ڈھونڈنے کا حکم دیا یہ انتخاب بڑی دیکھ بھال کے بعد کیا گیا تھا یہ ایڈمرل جنگ آزادی کا ایک ہیرو تھا جو بحری جنگ کے وسیع تجربہ سے مالا مال تھا اس کے ساتھ ساتھ صدر جیفرسن کے ساتھ اس کے گہرے گرمجوش تعلقات تھے ، دونوں کا تعلق ورجینیا کے ایک گاں سے تھا ایڈمرل ڈیل نے اپنی 45 سالہ بیوی اور دو بچوں کو الوداع کیا اور فلاڈیلفیا جہاز پر اپنے ساتھیوں اور سپاہیوں سمیت روانہ ہو گیا۔

1801 میں یوسف نے امریکی صدر تھامس جیفرسن سے مطالبہ کیا کہ ٹیکس کی ادائیگی بڑھا کر 225،000 ڈالر تک کیا جائے ، لیکن نئے منتخب شدہ صدر اور امریکا کی طاقت اور امریکی جہازوں کی حفاظت کیلئے نئی نئی قائم شدہ امریکی بحریہ کی قوت پر حد درجہ اعتماد کرنے والے تھامس جیفرسن نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

6 فروری 1802 میں کانگرس نے امریکی بحری تجارت اور امریکی بحری عملے کی طرابلسی جہازوں سے حفاظت کیلئے قانون پاس کیا۔


فلاڈیلفیا کی گرفتاری:

31 اکتوبر 1803 کو طرابلس شہر میں لیبیا کی بحریہ فلاڈیلفیا فریگیٹ کو گرفتار کرنے می کامیاب ہو گئی اس پر 308 امریکی سیلز سوار تھے جنہوں نے ہتھیار ڈال دئیے ان کا قائد کیپٹن Bainbridge تھا جب امریکی اس کشتی کو واپس لینے سے عاجز آگئے تو انھوں نے اس پر حملہ کر کے اس کو تباہ کر دیا تاکہ یہ لیبیوں کے ہاتھ غنیمت نہ بن جائے فلاڈیلفیا کا حادثہ امریکا کیلئے ایک مضبوط بحریہ کے قیام کیلئے مضبوط محرک ثابت ہوا، اور اسی کی یاد مین امریکی میرینز کے ترانے میں طرابلس کا ذکر ہے جسے ہر صبح اس کے سپاہی دہراتے ہیں جس کا مطلع یہ ہے۔

TheHalls of Montezuma to The Shores of Tripoli, we Fight our Countrys Battes In theair, on land, andsea


مونٹیزوما کے ہالز سے لے کر طرابلس کے سواحل تک ہم اپنے ملک کیلئے زمین اور سمندر پر جنگ لڑیں گے۔



فلاڈیلفیا کے جلنے کا منظر​

جنگ درنۃ:

اس جنگ کے ساتھ ساتھ امریکا تیونس میں اپنے قونصل خانے کے ذریعے بھی جنگ چھیڑے ہوئے تھا، جہاں ولیم ایتھون طرابلس کی حکومت کو بدلنے کے منصوبے پر کام کر رہاتھا اس کیلئے حاکم طرابلس یوسف کے بھائی احمد پاشا القراملی کو استعمال کیا جانا تھا۔

احمد پاشا مصر میں مقیم تھا اور اپنے آپ کو اپنے چھوٹے بھائی سے زیادہ تخت کا حقدار سمجھتا تھا جس نے اس کے خلاف انقلاب برپا کر کے اسے حکومت سے ہٹایا تھا تاکہ تنہا حکومت کر سکے۔چنانچہ امریکیوں نے تیونس میں اپنے سفیر ولیم ایتھون کے ذریعے منصوبہ بنایا کہ احمد القراملی کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ اس کے بھائی کا خاتمہ کر کے اسے اس کا تخت لوٹانے پر قادر ہیں۔

کرائے کے سپاہیوں کا فوجی دستہ امریکی فوج کے آفیسر ولیم ایتھون کی قیادت میں تشکیل دیا گیا یہ امریکی بحریہ کا پہلا انفنٹری دستہ (میرینز) سمجھا جاتا ہے اس نے مشرقی لیبیا پر حملہ کر کے درنۃ شہر پر حملہ کیا جو کہ بحر متوسط پر ایک چھوٹا سا شہر تھا اور طرابلس دارلحکومت سے 1 ہزار کلومیٹر سے زیادہ دوری پر واقع ہے عثمانیوں نے اس حملے کے خلاف مزاحمت کی پاشا نے ینی چری فوج درنۃ کی جانب روانہ کی یہ شہر حملہ آور فوج کے ہاتھ لگا اور اس ے قلعہ پر امریکا کا پرچم لہرایا گیا ، اس طرح سے یہ پہلا زمین کا ٹکڑا سمجھا جاتا ہے جس پر امریکا نے اپنی تاریخ میں قبضہ کیا۔

جنگ کا خاتمہ:

جنگ درنۃ کے بعد عثمانی اور بربر افواج نے اس میں موجود حملہ آور افواج کا محاصرہ کر لیا جس کے نتیجے میں امریکا نے مذاکرات کا سہارا لیا اور 10 جون 1805 کو جنگ کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کئے گئے جو معاہدہ طرابلس کے نام سے جانا جاتا ہے ، لیبیا کے پاشا یوسف پاشا نے امریکا سے 3 ملین ڈالر سونا جنگ کا تاوان اور سالانہ ٹیکس 20 ہزار ڈالر طلب کیا امریکا اپنی کشتیوں کی حفاظت کیلئے یہ ٹیکس 1812 تک ادا کرتا رہا اس سال ترکی میں امریکی سفیر نے 62 ہزار ڈالر سونا ادا کیا یہ آخری بار تھا کہ جب امریکا نے یہ سالانہ ٹیکس ادا کیا ہو۔
 
عمیر فہد بھائی آپ کی تحریر پڑھ کر اندزہ ہوا کہ عنقریب یہاں احساسِ محرومی کے بھٹکے ہوئے راہی، اور احساسِ کمتری کے بے تیغ سپاہی کھنچے چلے آئیں گے۔ عوامی توجہ کے طالب بھات بھات کی بولیاں بولیں گے دلیل و منطق سے عاری شعبده بازی کا مظاہرہ، تماشیوں کی داد کی لالچ میں اخلاقیات کی سرحد سے پار نکل جائے گا ۔
 
آخری تدوین:
Top