کارگل آپریشن‘ ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر - ہارون الرشید

کارگل آپریشن‘ ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر

یہ اقتباسات، حال ہی میں شائع ہونے والی جنرل عبد المجید ملک کی خودنوشت ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘، سے لیے گئے ہیں ۔
''عسکری نقطۂ نظر سے کارگل کی پہاڑیوں کی بہت اہمیت ہے۔ ان کی بلندی تقریباً 16000فٹ تک جاتی ہے ۔ اور یہ چوٹیاں اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان پر سے اس بڑی سڑک کی کڑی نگرانی کی جا سکتی ہے ، جو بھارت کی سپلائی لائن ہے او رجو لدّاخ اور لیہہ کو سری نگر سے ملاتی ہے ۔ جو فوج بھی ان چوٹیوں پر قابض ہو ، وہ اس بڑی سڑک پر ٹریفک کو کسی وقت بھی بند کر سکتی ہے ۔ یہ چوٹیاں پہلے پاکستان کے قبضے میں تھیں مگر 1971ء کی لڑائی میں یہ بھارت کے قبضے میں چلی گئیں۔ یہ چوٹیاں چونکہ بہت بلند ہیں او رسردیوں میں درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے بہت نیچے چلا جاتاہے‘ اس لیے بھارتی فوجی موسمِ سرما میں ان کو خالی کر جاتے ۔
1998-99ء میں بھی موسمِ سرما کے آغاز پر بھارت نے یہ چوٹیاں خالی کر دیں ۔ جی ایچ کیو میں یہ پلان تیار کیا گیا کہ ان چوٹیوں پر قبضہ کر لیا جائے ۔ اس پلان کے پسِ پردہ یہ فکر کارفرما تھی کہ جب پاکستانی فوج کارگل کی ان چوٹیوں پر قابض ہو جائے گی تو اس کے بعد بھارت پرکشمیر کے حل کے لیے دبائو ڈالا جا سکے گا ۔ اس ساری پلاننگ کے محرک چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف، جنرل محمود کمانڈر 10کور اور میجر جنرل جاوید حسن کمانڈر ناردرن ایریاز تھے۔ اس کے علاوہ جنرل محمد عزیز جو اس وقت چیف آف جنرل سٹاف تھے ا ور جنرل توقیر ضیاء جو ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن تھے ، وہ بھی اس منصوبہ سازی میں شریک تھے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے جب ایکشن لیا گیا تو بقول آرمی ہائی کمان کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم مجاہدین نے ان چوٹیوں پر قبضہ کر لیا ۔ پاک آرمی نے اس آپریشن کو ''آپریشن بدر‘‘ کانام دیا۔ یہ واقعہ فروری 1999ء کا ہے ۔
بھارت کو کافی عرصہ تک اس قبضے کا علم نہ ہو سکا۔ یہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی ثابت ہوئی ۔ برف پگھلی تو ان چوٹیوں کی جانب ایک سرحدی گڈریا اپنے مویشی لے کر آیا تو اس نے واپس جا کر بھارتی افواج کو اطلاع کی کہ ان چوٹیوں پر تو پاکستانی آن بیٹھے ہیں ۔ اس کے بعد بھارت نے وسیع پیمانے پر یہ واویلا کرنا شروع کر دیا کہ پاکستان نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ مارچ ،اپریل تک بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر الزام عائد ہونا شروع ہو گیا ۔ اس سارے عرصے میں پاکستان کا موقف یہی تھا کہ کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کرنے والے دراصل کشمیری مجاہدین ہیں ۔
آخر کار ہندوستان نے کارگل پر بڑے پرزور انداز میں جوابی کارروائی کرنا شروع کر دی ۔ کارگل کی چوٹیوں تک رسائی کے لیے پاکستان اور ہندوستان دونوں میں صورتِ حال یکسر مختلف تھی ۔ ہندوستانی جانب پر تو پکی سڑکیں اور پل وغیرہ موجود تھے ، جہاں سے آرمی آپریشن کے لیے رسد پہنچانا اور ہندوستانی فوجی دستوں کے لیے نقل و حرکت کرنا آسان تھا مگر پاکستان کی طرف کارگل تک رسائی کے تمام راستے نہایت دشوار تھے ، کوئی پکی سڑک نہیں تھی اور اکثر راستوں پر فوجی رسد کی ترسیل صرف اور صرف خچروں اور گدھوں کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی تھی ۔
کارگل آپریشن کے بارے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں مختلف آرا پائی جاتی تھیں ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اور آرمی ہائی کمان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو اس سارے آپریشن سے باخبر رکھا اور مختلف اوقات میں بریفنگ دی مگر نواز شریف کا کہنا ہے کہ کارگل کے بارے میں 17مئی 1999ء کو جس دن پہلی بریفنگ ہوئی ، ان کو اس بارے میں اس دن معلوم ہوا۔
پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اس عرصے میں 12ڈویژن کی کمان کر رہے تھے ، جس کی ذمہ داری کشمیر کا دفاع ہے ۔ 12ڈویژن کی آپریشنل بائونڈری اور شمالی علاقہ جات (جہاں کارگل آپریشن کیا جا رہا تھا) کی بائونڈری آپس میں ایک دوسرے سے متصل تھیں ۔ اس لحاظ سے یہ بھی لازم تھا کہ 12ڈویژن کے کمانڈر کو اس آپریشن کی پیشگی اطلاع دی جاتی تاکہ کشمیر فرنٹ پر اگر کسی اور جگہ ہندوستانی افواج کی دخل اندازی ہوتی تو اس کے دفاع کے لیے یہ پوری طرح تیار ہوتے مگر جی او سی 12ڈویژن کو بھی اس آپریشن کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی ۔ میرے علم میں ہے کہ بعد میں جب اشفاق پرویز کیانی کوکارگل آپریشن کی اطلاع ملی تو وہ اس کے پوری طرح مخالف تھے ۔
میرے خیال میں حقیقت یہ ہے کہ چونکہ لائن آف کنٹرول شملہ معاہدے کے تحت ایک قسم کی بین الاقوامی حد بندی لائن ہے ؛لہٰذا لائن کو کراس کرنا جنگ کی صورتِ حال پیدا کرنے کے مترادف تھا ۔ اس لائن کو کراس کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کے لیے لازم تھا کہ وہ کابینہ سے منظوری لیتے مگر چونکہ انہوںنے ایسا نہیں کیا اس لیے اس واقعے کی تمام تر ذمہ د اری بھی ان پر ہی عائد ہوتی ہے ۔
اپریل اور مئی 1999ء میں جب حالات کافی سنگین ہو گئے تو آرمی کمان نے فیصلہ کیا کہ حکومت کو باقاعدہ طریقے سے ساری پوزیشن کے بارے میں بریفنگ دی جائے ۔ 17مئی کو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں میٹنگ ہوئی ، جس میں فوج کی طرف سے جنرل پرویز مشرف، جنرل محمود، جنرل عزیز ،جنرل جاوید حسن، جنرل توقیر ضیاء اور بریگیڈئیر (اب جنرل) ندیم شامل تھے ۔ حکومت کی طرف سے وزیرِ اعظم نواز شریف اس میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے ۔ ان کے ساتھ سرتاج عزیز(وزیرِ خارجہ ) ، سیکرٹری ڈیفنس جنرل افتخار علی خان (چوہدری نثار علی خان کے بھائی ) شامل تھے اور میں بھی بحیثیت وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر موجود تھا۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے شمشاد احمد سیکرٹری اور مسٹر فاطمی ایڈیشنل سیکرٹری بھی موجود تھے ۔ راجہ ظفر الحق اور چوہدری شجاعت اگرچہ اس میٹنگ میں قدرے تاخیرسے شامل ہوئے؛ تاہم وہ بھی اس ساری بحث میں موجود تھے ۔
اس سارے علاقے کے نقشے لگا کر پاکستانی فوجی دستوں اور چوکیوں کی پوزیشنیں واضح کی گئیں ۔ کارگل کے نقشے سے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن نے پہلے بریفنگ دی اور پھر اسی بریفنگ میں کور کمانڈر جنرل محمود بھی شامل ہو گئے ۔ جب وزرا کی طرف سے اپنی رائے دینے کا وقت آیا تو سب سے پہلے سرتاج عزیز نے اپنے انداز میں اس آپریشن کی مخالفت کی اور کہا کہ سفارتی سطح پر وزارتِ خاجہ کے لیے اس آپریشن کا دفاع ناممکن ہوگا۔ لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خاں نے کہاکہ خدانخواستہ اگر یہ جنگ اور پھیل گئی تو ہمارے پاس اس طرح کے فوجی وسائل نہیں کہ ہم اس جنگ کے متحمل ہو سکیں ۔
جب میری باری آئی تو میں نے فوج کے سینئر افسران سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے 1971ء کی لڑائی میں 11ڈویژن کی کمان کی اور اس کے بعد 12ڈویژن کی کمان بھی کی، جس کے دوران لیپا ویلی آپریشن ہوا۔ میں ڈائریکٹر ملٹری آپریشن اور چیف آف جنرل سٹاف رہا ہوں اور اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہو ں ۔ اب جب کہ میرے پاس امورِ کشمیر کی وزارت ہے ، جس میں کارگل سمیت سارا ناردرن ایریا شامل ہے ۔ا س لیے میں اس علاقے ، اس آپریشن اور اس کے اثرات کو سمجھتاہوں ۔ میں نے کہا کہ یہ آپریشن پاکستان کے لیے دیر پا فوائد کا حامل نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
میری اس بات پر جنرل مشرف نے خود اپنی سٹک لے کر بڑے پرجوش انداز سے نقشے پر اپنی پوزیشنیں مضبوط ہونے کے بارے میں بریفنگ دینا شروع کر دی۔ میں نے ہندوستانی سائیڈ پر مضبوط لائن آف کمیو نی کیشن کا تذکرہ بھی کیا اور کہاکہ ہندوستان توپخانے کو اکٹھا کر کے اور ائیر فورس کے ذریعے آپ کو اڑا سکتاہے اور بعد میں درپیش آنے والے حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ میری پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی‘‘۔
(جاری)
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2015-05-25/11381/48523621#tab2
 
جنرل عبد المجید ملک کی خود نوشت پڑھنے کو دل کر رہا ہے۔ کہیں اس کی پی ڈی ایف فائل دستیاب ہے کیا؟
 
جنرل عبدالمجید ملک کی کتاب کے کچھ مزید اقتباسات حامد میر کے قلم سے
’’ہم بھی وہاں موجود تھے ‘‘...
حامد میر (روزنامہ جنگ)
1946ءمیں کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے تو مہاتما گاندھی اور حسین شہید سہروردی فسادات ختم کرانے کیلئے کلکتہ پہنچ گئے۔برطانوی سرکار نے فیصلہ کیا کہ گاندھی کی حفاظت مسلمان فوجی کریں گے اور سہروردی کی حفاظت ہندو فوجی کریں گے۔جن مسلمان فوجیوں کو گاندھی کی حفاظت پر مامور کیا گیا ان کے انچارج کیپٹن عبدالمجید ملک تھے۔ان مسلمان فوجیوں نے ایک ماہ تک گاندھی کی حفاظت کی۔کچھ عرصے کے بعد اس فوجی یونٹ کو رانچی بھیج دیا گیا۔ 13اور 14اگست 1947ء کی درمیانی رات کو پاکستان وجود میں آیا تو کیپٹن عبدالمجید ملک نے صوبیدار نور خان اور صوبیدار شرف دین کی مدد سے پاکستان کا پرچم تیار کیا اور چار سو مسلمان فوجیوں نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے پرچم کو سلامی دی۔ یہی کیپٹن عبدالمجید ملک بعدازاں پاکستانی فوج میں لیفٹیننٹ جنرل بنے اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اس 96سال کے بزرگ نے فوج اور سیاست میں گزرے زمانے کی یادوں کو بڑی ایمانداری سے اپنی داستان حیات میں لکھ دیا ہے جو ’’ہم بھی وہاں موجود تھے ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عبدالمجید ملک صاحب نے ناصرف اپنی کچھ غلطیوں کو تسلیم کیا ہے بلکہ ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں جن کو زبان یا قلم کے ذریعہ کہنے کی گستاخی کرنے والوں کیلئے غداری کا الزام تیار رہتا ہے ۔ ملک صاحب نے بڑی سادگی کے ساتھ لکھا ہے کہ 2000ء میں نواز شریف دس سال کیلئے پاکستان سے باہر چلے گئے لہٰذا چودھری شجاعت حسین اور میاں محمد اظہر نے انہیں جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر مجبور کر دیا لیکن مشرف کا ساتھ دینا ایک غلطی تھی۔ملک صاحب اپنی یہ غلطی تسلیم نہ بھی کرتے تو انہیں کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ مشرف کے بہت سے ساتھی آج کل وزیراعظم نواز شریف کے ارد گرد نظر آتے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی جرات نہیں کی۔ملک صاحب اب مسلم لیگ (ن) میں واپس آ چکے ہیں لیکن انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہیں پھر بھی انہوں نے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔عبدالمجید ملک صاحب نے اپنی داستان حیات میں یہ بھی لکھا ہے کہ 1955ءمیں انکی تقرری مشرقی پاکستان کے علاقے کومیلا میں ہوئی تو انہیں احساس ہوا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں ذہنی فاصلے بہت زیادہ ہیں ، ہمارے ذہن کے کسی کونے میں احساس برتری موجود تھا اور مقامی لوگ ہمیں قابض فوج سمجھتے تھے ۔انہوں نے لکھا ہے ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مغربی پاکستان کے لوگوں کا کافی قصور ہے۔‘‘ملک صاحب پہلے ریٹائرڈ جرنیل نہیں جس نے اپنے احساس برتری کو پاکستان ٹوٹنے کی وجہ لکھا ہے ۔ مشرقی پاکستان میں وقت گزارنے والے کئی ریٹائرڈ فوجی افسران اس احساس برتری پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے ۔ جب وہ وردی پہن کر تاریخ بنا رہےہوتے ہیں تو اپنے احساس برتری کی سنگینی کا احساس ہونے کے باوجود عاجزی سے دور رہتے ہیں لیکن جب وہ وردی اتار کر خود تاریخ بن جاتے ہیں تو عاجزی و انکساری کا پیکر بنے نظر آتے ہیں ۔بہرحال عبدالمجید ملک صاحب کی داستان حیات ان سب مہربانوں کو بڑے غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے جو آج بھی پاکستان کا اقتدار کسی فوجی جرنیل کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک صاحب نے بتایا ہے کہ انہوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو قریب سے دیکھا ان سب کو خوشامدی ٹولے لے ڈوبے۔
1958ءمیں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا تو عبدالمجید ملک جی ایچ کیو میں کرنل تھے اور اس مارشل لاء کی خفیہ پلاننگ کرنے والے جرنیلوں کی معاونت کر رہے تھے۔ ملک صاحب کی داستان حیات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے مارشل لاء کی پلاننگ کرنے والے بہت محتاط تھے ۔انہیں خدشہ تھا کہ اگر وزیر اعظم فیروز خان نون یا وزیر دفاع ایوب کھوڑو کو اس منصوبے کا پتہ چل گیا تو کسی کی خیر نہیں لہٰذا منصوبہ اس انداز میں بنایا گیا کہ اگر مارشل لاء کے منصوبے کی دستاویز پکڑی جائے تو صرف کرنل عبدالمجید ملک قربانی کا بکرا بنتے لیکن یہ منصوبہ کامیاب رہا۔مارشل لاء لگا کر ملک فیروز خان نون کو ہٹایا گیا اور کچھ دن بعد کرنل عبدالمجید ملک نے صدر سکندر مرزا کے ملٹری سیکرٹری کے ساتھ مل کر ان کا استعفیٰ لکھا اور ایک رات ایوان صدر میں گھس کر استعفے پر دستخط کرا لئے۔
ملک صاحب نے اپنی داستان حیات میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ 1976ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی۔ ملک صاحب پشاور کے کور کمانڈر تھے ۔وزیر اعظم نے ملک غلام مصطفیٰ کھر کے سامنے انہیں آرمی چیف بنانے کا عندیہ دیا ۔ملک صاحب نے وزیر اعظم سے کہا کہ پانچ جرنیل مجھ سے سینئر ہیں اور ایک جرنیل ضیاء الحق مجھ سے جونیئر ہے ۔سنیارٹی میں میرا نمبر چھٹا ہے اگر مجھے آرمی چیف بنایا گیا تو پانچ جرنیلوں کا عسکری تجربہ ضائع ہو جائے گا۔ملک صاحب نے مشورہ دیا کہ میری بجائے سب سے سینئر جرنیل محمد شریف کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف اسٹاف اور جنرل محمد اکبر خان کو آرمی چیف بنا دیا جائے دوسری طرف جنرل ضیاءالحق نے وزیر اعظم کو خوش کرنے کیلئے انہیں آرمرڈ کور کا اعزازی کرنل انچیف بنا دیا اور پھر وزیر اعظم نے اس جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنا دیا ۔ جنرل ضیاء کے آرمی چیف بننے پر جنرل اکبر خان اور جنرل عبدالمجید ملک نے ملازمت سے استعفیٰ دیدیا ۔وزیر اعظم نے ان دونوں کو میکسیکو اور مراکش میں سفیر بنا دیا ۔ایک سال کے اندر اندر جنرل ضیاء نے بھٹو کا تختہ الٹ کر انہیں پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا تو ملک صاحب نے مراکش سے جنرل ضیاء کو خط لکھا اور انکی جان بخشی کی اپیل کی لیکن جنرل ضیاء نے یہ اپیل نظرانداز کر دی۔
عبدالمجید ملک صاحب نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ فوجی و غیر فوجی حکمران آرمی چیف کی تقرری میں میرٹ کو نظرانداز کرتے رہے۔ سکندر مرزا نے بطور سیکرٹری دفاع دو سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے لیاقت علی خان کے ذریعہ ایوب خان کو آرمی چیف بنوایا اور پھر اسی ایوب خان نے سکندر مرزا کو ایوان صدر سے نکالا ۔جنرل ایوب خان نے دو سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے یحییٰ خان کو آرمی چیف بنایا اور یحییٰ نے ایوب خان کی چھٹی کرائی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پانچ جرنیلوں کو نظرانداز کرکے جنرل ضیاء کو آرمی چیف بنوایا اور ضیاء نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا ۔
نواز شریف نے دو سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے مشرف کو آرمی چیف بنوایا اور مشرف نے نواز شریف کی چھٹی کرا دی ۔عبدالمجید ملک صاحب نے صاف صاف لکھا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے پر میرٹ کو نظرانداز کرنے والے کسی ایسے مناسب شخص کو تلاش کرتے ہیں جو ان کے اقتدار کو دوام دے سکے لیکن یہ مناسب شخص اکثر اوقات انتہائی نامناسب شخص بن جاتا ہے لہٰذا آرمی چیف کے عہدے پر تقرری صرف اور صرف میرٹ پر کی جانی چاہئے ۔ملک صاحب کا یہ مشورہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مجموعی طور پر سامنے رکھ کر دیا گیا ہے اس مشورے کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا غیر ضروری ہے البتہ مستقبل کے فیصلوں میں ایک 96سالہ بزرگ کے اس مشورے پر غور کر لیا جائے تو کوئی بری بات نہیں۔
 
کارگل آپریشن ، ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر… (2)
یہ اقتباسات، حال ہی میں شائع ہونے والی جنرل عبد المجید ملک کی خودنوشت ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘، سے لیے گئے ہیں ۔
''وزیرِ اعظم نواز شریف ، جو کہ اس میٹنگ کی صدارت کر رہے تھے، انہوں نے اس ساری بحث کو غور سے سنا اور اپنی حتمی رائے کا اظہار نہ کیا۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اگر کارگل کے اس معاملے سے کلی طور پر بے خبر ہوتے تو وہ یہ بات پرویز مشرف سے آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ جنرل صاحب آپ نے مجھے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی لیکن شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک معاملات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ پوچھنا مناسب نہیں تھا۔ نوا زشریف نے اس میٹنگ میں نہ ہی کسی واضح ردّعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی زیادہ سوالات پوچھے ۔ صرف یہ پوچھا کہ کیا ہماری پوزیشن مضبوط ہے تو جواباً جنرل محمود اور جنرل عزیز وغیرہ نے کہا کہ ہم بہت ہی مضبوط ہیں ۔
پرویز مشرف کو 17مئی کے فوراً بعد چین جانا پڑا۔ اس دوران وزیرِ اعظم ہائوس میں کارگل آپریشن پر دوسری بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ بریفنگ ایکٹنگ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سعید ظفر کی سربراہی میں ہوئی ۔ اس بریفنگ میں بھی پہلی بریفنگ کی تمام باتوں کی تکرار کی گئی اور میں نے وہی نکات اٹھائے اور اب کی بار بھی ان کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ کوئی نئی بات سامنے نہ آئی اور شرکاء کی اکثریت غیر مطمئن نظر آئی ۔
پرویز مشرف چونکہ اس اہم ترین معاملے کی تشویشناک صورتِ حال کے بارے میں فکر مند تھے ، اس لیے انہوںنے بیجنگ میں اپنے ہوٹل کے کمرے سے ٹیلی فون کر کے چیف آف
جنرل سٹاف جنرل عزیز سے ایک طویل گفتگو کی اور اس بریفنگ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا سب مطمئن ہیں یا نہیں اور کیا کسی نے کوئی خاص اعتراض تو نہیں کیا ؟ تو انہوں نے میرے موقف کے بارے میں کہا کہ باقی سب مطمئن ہیں مگر "Mr. Malik is still not satisfied"
جنرل عزیز کے یہ الفاظ اور دیگر ساری گفتگو انڈیا کی ایجنسیوں نے ٹیپ کر لی اور بعد ازاں ان کو بہت نشر کیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کا ایک نہایت حساس اور اہم ترین ملکی معاملے پر بیرونِ ملک سے اپنے چیف آف جنرل سٹاف کے ساتھ اس طرح اوپن ٹیلی فون لائن پر بات کرنا ایک بہت بڑی غلطی (Breach of Security)تھی ۔ صدر مشرف کا یہ اقدام نہایت سنگین اور ناقابلِ معافی جرم تھا ۔ اس سے ہندوستانی حکومت کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ کارگل کے معاملے میں پاک فوج ملوّث ہے ۔
کارگل کا معرکہ اب ایک جانب تو میڈیا کی سطح پر شروع ہو چکا تھااور دوسری جانب ہندوستان نے کارگل کی طرف بہت سے آرٹلری یونٹس لا کر توپخانے کا زبردست فائر شروع کر دیا ۔ ہندوستان نے یہ چوٹیاں واپس حاصل کرنے کے لیے جو آپریشن کیا اس کوانہوں نے ''آپریشن وجے‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ پاکستان کے فوجی جو اس وقت ان چوٹیوں پر موجود تھے ، انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ ہمارے حوصلے انہی چوٹیوں کی طرح بلند ہیں ۔ پاکستانی فوجی جوانوں نے جرأت، استقلال ، شجاعت اور حب الوطنی کے وہ بے مثال نمونے پیش کیے کہ اسلامی تاریخ کے مجاہدین کی یاد تازہ ہو گئی ۔ کارگل کی چوٹیوں تک پاکستان کی جانب سے جنگی سامان کی رسد چونکہ بہت ہی دشوار تھی اس لیے جب اس میں قدرے تعطل پیدا ہوا تو کارگل پر پاکستانی جانبازوں نے ایک تاریخی اور دلیرانہ پیغام بھیجا کہ ہمیں کھانے کو کچھ بھیجیں یا نہ بھیجیں مگر اسلحہ ضرور روانہ کریں ۔
ہندوستان کے پے درپے حملوں کے باوجود کارگل پر ہمارے فوجی ڈٹے رہے ۔ ہندوستانی فوج نے اگرچہ کچھ چوکیوں پر قبضہ بھی کرلیا مگر اسے زیادہ تر پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے میں ہماری جانب سے کافی شہادتیں بھی ہوئیں لیکن ہندوستان کا بھی بہت جانی نقصان ہوا۔ اسی دوران ہندوستان نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ، جس کے نتیجے میں ان کا ایک لڑاکا جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی مار گرائے گئے مگر عالمی حالات اور ہندوستانی پراپیگنڈے کے باعث رفتہ رفتہ صورتِ حال ہندوستان کے حق میں ڈھلنے لگی اورپاکستان پر ہر جانب سے دبائو بڑھنے لگا۔ ایسے حالات میں پاکستان آرمی اور سول لیڈر شپ کے ذہنوں میں یہ خیالات پرورش پانے لگے کہ اس جنگ سے کس طرح باعزت طور پر سرخرو ہوا جائے۔
ادھر یہ محدود جنگ جاری تھی اور بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر زور پکڑ رہاتھا کہ چونکہ پاکستانیوں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے ، اس لیے اس جنگ کی ذمہ داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ صحیح معنوں میں یہ کہنا پڑتاہے کہ اس وقت پاکستان کو بقا کا مسئلہ درپیش آگیا تھا کیونکہ کچھ خدشات یہ تھے کہ فریقین کی طرف سے نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ موجود ہے ۔ اس امر کا اظہار پرویز مشرف نے اپنی کتاب "In the line of fire"میں بھی کیا ہے ۔
حکومتِ پاکستان نے امریکہ کے توسط سے اس معاملے کو باعزت طریقے سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس سلسلے میں وزیرِ اعظم پاکستان نے امریکہ کے صدر بل کلنٹن سے رابطہ کیا۔ بالآخر 4جولائی 1999ء کو وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف نے واشنگٹن جانے کا فیصلہ کیا تاکہ امریکہ کے صدر کے ذریعے اس معاملے کو آبرومندانہ طریقے سے سلجھایا جائے۔ا س سے قبل امریکہ کے جنرل زینی کمانڈر سنٹرل کمانڈ جو کہ صدر مشرف کے د وست تھے، پاکستان آکر پاکستانی عسکری قیادت سے یہ بات کہہ چکے تھے کہ آپ کارگل کی چوٹیاں چھوڑ دیں ‘ کیونکہ لائن آف کنٹرو ل کے مطابق یہ چوٹیاں ہندوستان کی طرف ہیں ۔ جنرل مشرف سے جنرل زینی کی کئی ملاقاتوں کے تذکرے ہیں۔ جنرل مشرف نے جب نواز شریف اور جنرل زینی کی ملاقات کرانا چاہی تو نواز شریف پہلے تو جنرل زینی سے ملنے پر آمادہ نہ ہوئے لیکن مشرف کے کہنے پر ان سے ملاقات کی۔ جنرل زینی نے امریکی حکومت کی طرف سے مشرف اور وزیرِ اعظم دونوں حضرات پر صاف ظاہر کیا کہ پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں ضرور چھوڑنا ہوں گی ۔
نواز شریف نے اس سلسلے میں 2جولائی کو صدر کلنٹن سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا او ران سے کارگل کے معاملے میں میٹنگ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کلنٹن نے فوری طور پر تو کوئی جواب نہ دیا مگر 3جولائی کو فون کر کے نواز شریف سے بات کی اور کہا کہ آپ 4جولائی کو واشنگٹن میں ملاقات کے لیے آجائیں ۔ شنید ہے کہ اسی دوران کلنٹن نے واجپائی سے رابطہ کرکے اس کو بھی واشنگٹن آنے کی دعوت دی مگر اس نے انکار کر دیا اور ساتھ ہی صدر کلنٹن کو کہاکہ پاکستان کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرناپڑیں گی ۔ یاد رہے کہ 4جولائی امریکہ کا قومی دن ہے اور امریکی اپنے قومی دن کو بہت شایانِ شان طریقے اور سنجیدگی سے منانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اس موقعے پر ان کے صدر اور وزراء بہت مصروف دن گزارتے ہیں۔ اس سارے تناظر میں کلنٹن کا 4جولائی کو میٹنگ کے لیے وقت دینا اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ اس میٹنگ کی ان کی نظر میں کتنی اہمیت تھی ۔ نواز شریف نے فوری طور پر یہ فیصلہ کیا کہ امریکہ میں ان کے ساتھ سرتاج عزیز ، نثار علی خان ، سعید مہدی ، فارن آفس کا ایک نمائندہ اور عبد المجید ملک شریک ہوں گے ۔ (جاری )
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2015-05-26/11392/89763184#tab2
 
کارگل آپریشن‘ ایک عینی شاہد کا نقطۂ نظر… (آخری قسط)
یہ اقتباسات، حال ہی میں شائع ہونے والی جنرل عبد المجید ملک کی خودنوشت ''ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘، سے لیے گئے ہیں ۔ '' میرا معاملہ یہ تھا کہ میں اس وقت کشمیر کے سلسلے میں وزیرِ اعظم کا ایک خط لے کر افریقہ کے مختلف ممالک کے دورے پر تھا اور اس دورے سے واپسی پر تین جولائی کی رات کو لندن پہنچا تھا ۔ اسی اثنا میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکرٹری نے اسلام آباد میں میری رہائش گاہ پر ٹیلی فون کر کے میرا پتہ کیا۔ گھر پر موجود میجر طاہر اقبال کو انہوںنے کہا کہ جنرل صاحب اس وقت کہاں ہیں ؟ وزیرِ اعظم ان سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ میجر طاہر اقبال نے کہا کہ وہ شاید اس وقت لندن پہنچے ہوں گے ۔ اس پر ملٹری سیکرٹری نے کہا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف خود آپ سے بات کریں گے ۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی میجر طاہر اقبال سے میرے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ آپ جنرل صاحب سے رابطہ کریں اور ان کو بتائیں کہ میں امریکہ کے دورے پر جا رہا ہوں ۔ آپ کل صبح امریکہ پہنچ جائیں ۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے نواز شریف کافون آیا اور انہوں نے 4جولائی کو واشنگٹن جانے کے سلسلے میں مجھے قدرے تفصیل سے بتایا اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ کچھ ہی دیر میں لند ن میں پاکستان کے ہائی کمشنر آپ سے رابطہ کریں گے ۔ میں اس وقت لندن میں اپنے دوست محمد حسین کی رہائش گاہ پر موجود تھا ۔ رات گئے پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ریاض کا ٹیلی فون آیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے امریکہ جانے کا انتظام کردیں ، میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔ ہائی کمشنر نے مجھے یہ بات بتائی کہ لندن سے امریکہ کو جانے والی اکثر فلائٹس عموماً شام کو چلتی ہیں اور صبح امریکہ پہنچتی ہیں، جو اب نکل چکی ہیں مگر سا تھ ہی انہوںنے یہ بھی بتایا کہ کنکارڈ(Concord)جہاز کی فلائٹ صبح کو امریکہ جاتی ہے ۔ کنکارڈ جہاز کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت کاجدید اور تیز ترین طیارہ تھا ، جس کی شہرت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس پر سیٹ حاصل کرنا مالی لحاظ سے اور دوسرے کئی لحاظ سے ناممکن کی حد تک مشکل خیال کیا جاتا تھا ۔ اس فلائٹ کے ذریعے میں نواز شریف اور ان کے وفد سے ایک گھنٹہ قبل واشنگٹن کے بلئیر ہائوس (Blair House)پہنچ گیا، جہاں ہمارے وفد کو ٹھہرنا تھا۔ کارگل کے معاملے میں امریکی قیادت کی شرکت کے بارے میں بھی نواز شریف اور پرویز مشرف کی متضاد آراء سامنے آتی رہتی ہیں۔ نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ مجھے مشرف نے یہ کہاتھاکہ آپ کلنٹن کو اس معاملے میں شریک کریں مگر مشرف یہ کہتے ہیں کہ کلنٹن سے ملاقات کا فیصلہ نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا اور اس فیصلے میں میری رائے شامل نہ تھی ۔ جب نواز شریف بلئیر ہائوس پہنچے تو میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ نے مشرف کواعتماد میں لیا ہے تو انہوںنے مجھے جواب دیا کہ میں نے نہ صرف ان کا اعتماد حاصل کیا ہے بلکہ وہ مجھے چکلالہ ائیر پورٹ تک الوداع کہنے بھی آئے تھے ۔ مشرف بھی یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوںنے نواز شریف کو چکلالہ ائیر پورٹ سے امریکہ کے لیے الوداع کیا تھا مگر یہ بات نہیں مانتے کہ انہوں نے نواز شریف کو واشنگٹن جانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ اس سے نتیجہ یہ ظاہر ہوتاہے کہ واشنگٹن کے دورے کے سلسلے میں نواز شریف ا ور مشرف دونوں اس فیصلے میں مکمل طور پر شامل تھے۔ اسی دن کچھ دیر بعد بلئیر ہائوس میں کلنٹن کے ساتھ نواز شریف اور ان کے وفد کی ملاقات ہوئی ۔ کلنٹن کے ساتھ بھی ان کے دو سینئر مشیر تھے ۔ یہ تو طے پا گیا کہ پاکستان کارگل کی چوٹیاں چھوڑ دے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس ملاقات سے قبل کلنٹن نے نواز شریف کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ کو یہ چوٹیاں ضرور چھوڑنا پڑیں گی ۔ میٹنگ کے بعد جب پریس ریلیز جاری کرنے کا مرحلہ آیا تو پاکستانی وفد کی سرتوڑ کوشش تھی کہ اس پریس ریلیز میں میٹنگ کا لبِ لباب بھی آجائے اور پاکستان کا وقار بھی قائم رہے ۔ جب اس پریس ریلیز کو ترتیب دینے میں مشکلات پیدا ہوئیں تو ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد نواز شریف اور کلنٹن کی ون ٹو ون ملاقات ایک علیحدہ کمرے میں ہوئی ۔ کہاجاتاہے کہ نواز شریف نے یہ درخواست کی تھی کہ اس میٹنگ میں کوئی تیسرا آدمی موجود نہ ہو لیکن کلنٹن نے کہامسٹر ریڈل اس میٹنگ میں شامل ہوں گے جو کہ اس میٹنگ کی کارروائی کو تحریر کریں گے ۔ کارگل کے بارے میں جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی اب بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک کلاسک آپریشن تھا۔ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے آپریشن اس مقصد کے لیے کیا تھا کہ کشمیر کا معاملہ دوبارہ زندہ ہو جائے اور ہم نے اپنا یہ مقصد یقینی طور پر حاصل کر لیا ۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انہیں کارگل کی چوٹیاں چھوڑنے کو نہ کہتی تو وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے ڈٹے ہوئے تھے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کارگل آپریشن کی و جہ سے کشمیر کا مسئلہ زیادہ اجاگر نہیں ہوا بلکہ اس کو نقصان ہی پہنچا ہے کیونکہ واجپائی کے دورے کے باعث مسئلہ کشمیر کے سلجھائو کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی بلکہ یہ معاملہ مزید الجھائو کا شکار ہو گیا۔ اس معرکے میں جو ان گنت لوگ شہید ہوئے یا زخمی ہوئے، ان کا گھائو اپنی جگہ ہے ۔ کارگل آپریشن سے جو نتائج حاصل ہوئے، ہم کبھی ان کا کوئی واضح جواز پیش نہیں کر سکتے ۔کارگل جیسے اہم ترین معاملے کی تحقیقات اور چھان بین لازمی تھی مگر ہم نے ہمیشہ کی طرح اپنے روایتی تساہل کا ثبوت دیا؛البتہ ہندوستان اس معاملے میں ہم سے بہت آگے ہے ۔ ہندوستانی اس قسم کے واقعات کی انکوائری بھی کرتے ہیں اور اس انکوائری کی رپورٹ کو شائع بھی کرتے ہیں ۔ وہاں ذمہ دار لوگوں کو سزا بھی ملتی ہے ۔ کارگل آپریشن کے اختتام پربھی انہوںنے تحقیقات کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کیا گیا اور اس سلسلے میں ضروری کارروائی کی گئی ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی بھی معاملے کی کوئی انکوائری نہیں ہوتی ۔ پاکستانی تاریخ کے متعدد واقعات صرف اور صرف یادداشت کا حصہ رہ گئے ہیں ۔ ان سے ہم نے نہ کچھ سبق سیکھا ہے اور نہ کوئی نتیجہ اخذ کیا۔ کئی نامور لوگ قتل ہوئے، کئی ناخوشگوار واقعات ہوئے مگر ان سب میں سے کسی کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی اور کبھی کسی کو جرم ثابت ہونے پر سزا دینے کا تو ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہ سامنے لانے کے لیے حمود الرحمن کمیشن قائم کیا گیا، جس پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی گئی مگر حمود الرحمن کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی اس کو کبھی سامنے نہیں لایا گیا۔ یہاں تک کہ یہ رپورٹ سب سے پہلے پاکستان کی بجائے انڈیا سے شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی ۔ کارگل آپریشن کی کامیابی اور ناکامی کا معاملہ اپنی جگہ پر‘ اس آپریشن سے حکومت اور فوج کے مابین اعتماد کو شدید دھچکا لگا۔ مختصر یہ کہ کارگل Fiascoکی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویز مشرف اور ان کے تین ساتھی جرنیلوں پر عائد ہوتی ہے‘‘۔ - See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/haroon-ur-rahid/2015-05-27/11404/38975346#tab2
 
Top