مکمل کلام ن م راشد (دوم)

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی اک پیرہ زن!

۔۔۔زندگی اک پیرہ زن!
جمع کرتی ہے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں!
تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
بال بکھرے، دانت میلے، پیرہن
دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن!

۔۔۔لو ہوا کے ایک جھونکے سے اڑی ہیں ناگہاں
ہاتھ سے اس کے پرانے کاغذوں کی بالیاں
اور وہ آپے سے باہر ہو گئی
اس کی حالت اور ابتر ہو گئی
سہہ سکے گا کون یہ گہرا زیاں

۔۔۔اب ہوا سے ہار تھک کر جھک گئی ہے پیرہ زن
جھک گئی ہے پاؤں پر، جیسے دفینہ ہو وہاں!
زندگی، تو اپنے ماضی کے کنوئیں میں جھانک کر کیا پائے گی؟
اس پرانے اور زہریلی ہواؤں سے بھرے، سونے کنویں میں
جھانک کر اس کی خبر کیا لائے گی؟
۔۔۔اس کی تہہ میں سنگریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں
جز صدا کچھ بھی نہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بوئے آدم زاد

۔۔۔ بوئے آدم زاد آئی ہے کہاں سے ناگہاں؟
دیو اس جنگلے کے سنّاٹے میں ہیں
ہو گئے زنجیر پا خود اُن کے قدموں کے نشاں!

۔۔یہ وہی جنگل ہے جس کے مرغزاروں میں سدا
چاندنی راتوں میں وہ بے خوف و غم رقصاں رہے
آج اسی جنگل میں اُن کے پاؤں شل ہیں ہاتھ سرد
اُن کی آنکھیں نور سے محروم، پتھرائی ہوئی
ایک ہی جھونکے سے اُن کا رنگ زرد
ایسے دیووں کے لیے بس ایک ہی جھونکا بہت
کون ہے بابِ نبرد؟

۔۔۔ ایک سایہ دیکھتا ہے چھپ کے ماہ و سال کی شاخوں سے آج
دیکھتا ہے بے صدا، ژولیدہ شاخوں سے انہیں
ہو گئے ہیں کیسے اُ س کی بُو سے ابتر حال دیو
بن گئے ہیں موم کی تمثال دیو!

۔۔۔ ہاں اتر آئے گا آدم زاد ان شاخوں سے رات
حوصلے دیووں کے مات!
 

فرخ منظور

لائبریرین
گداگر

۔۔۔ جن گزرگاہوں پہ دیکھا ہے نگاہوں نے لُہو
یاسیہ عورت کی آنکھوں میں یہ سہم
کیا یہ اونچے شہر رہ جائیں گے بس شہروں کا وہم
مَیں گداگر اور مرا دریوزہ فہم!

۔۔۔ راہ پیمائی عصا اور عافیت کوشی گدا کا لنگِ پا،
آ رہی ہے ساحروں کی، شعبدہ سازوں کی صبح
تیز پا، گرداب آسا، ناچتی، بڑھتی ہوئی
اک نئے سدرہ کے نیچے، اِک نئے انساں کی ہُو
تا بہ کے روکیں گے ہم کو چار سُو؟

۔۔۔ کیا کہیں گے اُس نئے انساں سے ہم
ہم تھے کُچھ انساں سے کم؟
رنگ پر کرتے تھے ہم بارانِ سنگ
تھی ہماری ساز و گُل سے، نغمہ و نکہت سے جنگ
آدمی زادے کے سائے سے بھی تنگ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اظہار اور رسائی

۔۔۔ مُو قلم، ساز، گلِ تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرے

بات جب حیلۂ تقریبِ ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
بات کی غایتِ غایات نہ ہو!

۔۔۔ایک ذرّہ کفِ خاکستر کا
شررِ جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہِ آنات نہ ہو!

اسی اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گرِ پیر کے خواب
اسی اک ذرّۂ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
۔۔۔آدمی کس سے مگر بات کرے؟

مُو قلم، ساز، گلِ تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
آرزو راہبہ ہے

۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
آرزو راہبہ ہے، عمر گزاری جس نے
انہی محرومِ ازل راہبوں، معبد کے نگہبانوں میں
ان مہ و سالِ یک آہنگ کے ایوانوں میں!
کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری
روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری

۔۔۔ راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
لڑکھڑاتی ہوئی، فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی!
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحرِ نو یہی قندیل بنے!

۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر
خود میں کھوئے ہوئے، سہمے ہوئے، سرگوشی سے ڈرتے ہوئے
راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر
کس لیے راہبہ ہے بےکس و تنہا و حزیں!
راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند
بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں
جس میں اُگتے نہیں دل سوزیِ انساں کے گلاب

راہبہ شمع لیے پھرتی ہے
یہ سمجھتی ہے کہ اس سے درِ معبد پہ کبھی
گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی
سنگریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی!
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمنّا کے تار

۔۔۔ تمنّا کے ژولیدہ تار،
گرہ در گرہ ہیں تمنّا کے نادیدہ تار

۔۔۔ ستاروں سے اترے ہیں کچھ لوگ رات
وہ کہتے ہیں: "اپنی تمنّا کے ژولیدہ تاروں کو سلجھاؤ،
سلجھاؤ اپنی تمنا کے ژولیدہ تار،
ستاروں کی کرنوں کے مانند سلجھاؤ
مبادہ ستاروں سے برسیں وہ تیر
کہ رہ جائے باقی تمنّا نہ تار!"

۔۔۔ تمنّا کے ژولیدہ تار ۔۔۔
ستاروں سے اترے ہوئے راہگیر،
کہ ہے نور ہی نور جن کا خمیر،
تمنّا سے واقف نہیں ۔۔ نہ اُن پر عیاں
تمنّا کے تاروں کی ژولیدگی ہی کا راز!
تمنّا ہمارے جہاں کی، جہانِ فنا کی متاعِ عزیز
مگر یہ ستاروں سے اترے ہوئے لوگ
سر رشتۂ ناگزیرِ ابد میں اسیر!

۔۔۔ ہم اُن سے یہ کہتے ہیں: "اے اہلِ مرّیخ ۔۔۔
(جانے وہ کن کن ستاروں سے ہیں!)
ادب سے خوشامد سے کہتے ہیں: "اے محترم اہلِ مرّیخ،
کیا تم نہیں دیکھتے ان تمنّا کے ژولیدہ تاروں کے رنگ؟"
مگر ان کو شاید کہ رنگوں سے رغبت نہیں
کہ رنگوں کی اُن کو فراست نہیں!
ہے رنگوں کے بارے میں ان کا خیال اور ۔۔۔
اُن کا فراق و وصال اور ۔۔۔
اُن کے مہ و سال اور ۔۔۔۔

۔۔۔ بڑی سادگی سے یہ کہتے ہیں ہم:
"محترم اہلِ مرّیخ، دیکھے نہیں
کبھی تم نے ژولیدہ باہوں کے رنگ؟
محبت میں سر خوش نگاہوں کے رنگ؟
گناہوں کے رنگ؟ ۔۔۔۔"
 

فرخ منظور

لائبریرین
زندگی سے ڈرتے ہو؟

۔۔۔ زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!
آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
"ان کہی" سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، "بے ریا" خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی، ہے رہ ِخداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو!

۔۔۔ شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر
اژدہام ِانساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے، راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے!
آدمی چھلک اٹّھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں
ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!
عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا
عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!
اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے
اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے
لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں
جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب
جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی
محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف
کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی
اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!
یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن
کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے
خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!
خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے
جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں
سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق
جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا
جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!
پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم
خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور
صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق
ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!
اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں
آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔ اور ہر دن کی طرح
ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر
شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح
ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر
اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں
حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم
رقص و رفتار میں ہم
نغمہ و صورت و اشعار میں ہم
کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!
عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم
دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں
اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں
تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں
کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

۔۔۔ ۔ 'آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی'
آپ ۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ
آپ ۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ
آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی
جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں
آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟
اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے
ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب
مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی
اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں
کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!
۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں
کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!
آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم
جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ
آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم
کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!
آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں
اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں
کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں
کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں
کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔ ۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟
دہل و تار کہاں سے لائیں؟
چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟
جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے
ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں
نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔ ۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس
اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!
لوگ حیرت سے پکار اٹھے: "یہ کیا لائے تم؟"
"وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟"
ہم ہنسے، ہم نے کہا: "دیوانو!
زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی
کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟"
لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:
"ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی
یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،
یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!"

۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم
محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!
درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں
اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!
ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں
رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح
ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر
اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں
جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے
روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے
اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں
اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے
دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟
ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!
اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟
اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے
جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،
اور سہی، اور سہی ۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا
شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد
(اپنی ہر"سعی" کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)
اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!
اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!
ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں
ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب
لیتنی کنت تُراب!
کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں
اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
اے غزال شب!

اے غزال شب،
تری پیاس کیسے بجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب جو مری جاں میں ہے؟
وہ سراب ساحرِ خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہ گزر
میں فریبِ رہروِ سادہ ہے
وہ سراب زادہ، سراب گر، کہ ہزار صورتِ نوبنو
میں قدم قدم پہ ستادہ ہے،
وہ جو غالب و ہمہ گیر دشتِ گماں میں ہے
مرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا
مرے ہست و بود پہ چھا گیا!

اے غزالِ شب،
اُسی فتنہ کار سے چھپ گئے
مرے دیر و زود بھی خواب میں
مرے نزد و دُور حجاب میں
وہ حجاب کیسے اٹھاؤں میں جو کشیدہ قالبِ دل میں ہے
کہ میں دیکھ پاؤں درونِ جاں
جہاں خوف و غم کا نشاں نہیں
جہاں یہ سرابِ رواں نہیں،
اے غزالِ شب!
 

فرخ منظور

لائبریرین
آنکھیں کالے غم کی

اندھیرے میں یوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی
جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا
آنے والے جابر کا!
سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے
سب کے ہونٹوں پر تالے
سب کے دلوں میں بھالے!

اندھیرے میں یوں چمکے میلے دانت بھی غم کے
جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے
سر پر ابنِ آدم کے!
غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا
یا جلتا بجھتا شرارا،
جو رستے میں آیا سو مارا!

غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے!
بستی والے بول اٹھے! "اے مالک! اے باری!
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری،
کب ہوگا فرماں جاری؟"
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ حرفِ تنہا
(جسے تمنائے وصلِ معنا)

ہمارے اعضا جو آسماں کی طرف دعا کے لیے اٹھے ہیں
(تم آسماں کی طرف نہ دیکھو!)
مقامِ نازک پہ ضربِ کاری سے جاں بچانے کا ہے وسیلہ
کہ اپنی محرومیوں سے چھپنے کا ایک حیلہ؟
بزرگ و برتر خدا کبھی تو (بہشت برحق)
ہمیں خدا سے نجات دے گا
کہ ہم ہیں اس سر زمیں پہ جیسے وہ حرفِ تنہا،
(مگر وہ ایسا جہاں نہ ہو گا) خموش و گویا
جو آرزوئے وصالِ معنی میں جی رہا ہو
جو حرف و معنی کی یک دلی کو ترس گیا ہو!

ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(کہ سب کو بخشیں بقدرِ ذوقِ نگہ تبسّم)
ہمیں معرّی کی روح کا اضطراب دے دو
(جہاں گناہوں کے حوصلے سے ملے تقدّس کے دکھ کا مرہم)
کہ اُس کی بے نور و تار آنکھیں
درونِ آدم کی تیرہ راتوں
کو چھیدتی تھیں
اُسی جہاں میں فراقِ جاں کاہِ حرف و معنی
کو دیکھتی تھیں
بہشت اس کے لیے وہ معصوم سادہ لوحوں کی عافیت تھا
جہاں وہ ننگے بدن پہ جابر کے تازیانوں سے بچ کے
راہِ فرار پائیں
وہ کفشِ پا تھا، کہ جس سے غربت کی ریگِ بریاں
سے روزِ فرصت قرار پائیں
کہ صُلبِ آدم کی، رحمِ حوّا کی عزلتوں میں
نہایت انتظار پائیں!
(بہشت صفرِ عظیم، لیکن ہمیں وہ گم گشتہ ہندسے ہیں
بغیر جن کے کوئی مساوات کیا بنے گی؟
وصالِ معنی سے حرف کی بات کیا بنے گی؟)
ہم اس زمیں پر ازل سے پیرانہ سر ہیں، مانا
مگر ابھی تک ہیں دل توانا
اور اپنی ژولیدہ کاریوں کے طفیل و دانا
ہمیں معرّی کے خواب دے دو
(بہشت میں بھی نشاط، یک رنگ ہو تو، غم ہے
ہو ایک سا جامِ شہد سب کے لیے تو سم ہے)
کہ ہم ابھی تک ہیں اس جہاں میں وہ حرفِ تنہا
(بہشت رکھ لو، ہمیں خود اپنا جواب دے دو!)
جسے تمنّاے وصلِ معنا ۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے پر و بال

جب کسی سلطنتِ گم شدہ کے خواب
کبھی اشک، کبھی قہقہہ بن کر دلِ رہرو کو لبھاتے جائیں،
(نیم شب کون ہے آوارہ دعاؤں کی طرح
لو چلے آتے ہیں وہ عقدہ کشاؤں کی طرح)
اور وہ راہروِ سادہ کسی اشک، کسی قہقہے کی تہہ میں
سینہ خاک نشینوں کی نوا سُن نہ سکے ۔۔۔
ہم ہیں وہ جن پہ نظر ڈالی ہے سلطانوں نے
ہیں کہاں اور گدا ہم سے گداؤں کی طرح؟
جن سے ہیں آج بھی گلیوں کے شبستاں روشن
کسی جبّار کے کوَڑوں کی صدا سن نہ سکے
(بندگی کام ہے اور بندۂ دولت ہم ہیں ۔۔۔)
منہ پہ اوڑھے ہوئے دستور کا کوتہ دامن
(تُو خداوند ہے کرامر خداؤں کی طرح)
اور اجڑے ہوئے سینوں کا خلا سن نہ سکے
سنسناتے ہوئے ارمانوں کے جن میں ۔۔۔
(شبِ تنہائی در و بام ڈراتے ہیں مجھے
دل میں اندیشے اترتے ہیں بلاؤں کی طرح
ہم سے کیوں خانہ خرابی کا سبب پوچھتے ہو؟
کس نے اس دور میں ڈالی ہے جفاؤں کی طرح)
گو زمانے کا ہر اک نقش، ہر اک چیز سرِ رہگزرِ باد سہی
یاد اِک وہم سہی، یاد تمناؤں کی فریاد سہی
سر سے ڈھل جائے کہیں راحتِ رفتہ کا خمار
شامِ دارائی کا آسودہ غبار؟
جب کسی سلطنتِ گم شدہ کے خواب
کبھی اشک، کبھی قہقہہ بن کر دلِ رہرو کو لبھاتے جائیں
وہ کبھی سرخیِ دامن میں
کبھی شوقِ سلاسل میں
کبھی عشق کی للکار میں لوٹ آتے ہیں
بے پر و بالیِ انساں کی شبِ تار میں لوٹ آتے ہیں
جی کے آزار میں لوٹ آتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہمہ تن نشاطِ وصال ہم

ہمیں یاد ہے وہ درخت جس سے چلے ہیں ہم
کہ اسی کی سمت (ازل کی کوریِ چشم سے)
کئی بار لوٹ گئے ہیں ہم
(میں وہ حافظہ جسے یاد مبدا و منتہا
جسے یاد منزل و آشیاں)
اُسی اِک درخت کے آشیاں میں رہے ہیں ہم
اُسی آشیاں کی تلاش میں
ہیں تمام شوق، تمام ہُو
اُسی ایک وعدۂ شب کی سُو
ہیں تمام کاوشِ آرزو!

یہ خلائے وقت کہ جس میں ایک سوال ہم
کوئی چیز ہم، نہ مثال ہم
جسے نوکِ خار سے چھید دیں
وہی ایک نقطۂ خال ہم
(میں وہ حادثہ، جو ہزار حادثوں کی طرح
ہو اسیرِ حلقۂ دامِ جاں
جو اسیر ہو، مگر اور ایسے ہی حادثوں
کی طرح ہمیشہ رواں دواں
اُسی ایک وعدۂ شب کی سُو!
مری ایک جنبشِ چشم تک
کئی حادثات کا سلسلہ
نہیں جن میں لمحے کا فاصلہ
ہوں اسیر جس میں یہ حادثے، میں وہ حافظہ)
ہمہ تن نشاطِ وصال ہم
مگر آشیاں کے بغیر وہم و خیال ہم
ہیں رواں کہ مِل کے زباں بنیں
کوئی داستاں، کوئی نغمہ، کوئی بیاں بنیں
ہے مگر یہ خطرۂ پے بہ پے کہ یہ جستجوئے عظیم بھی
نہ کہیں ہو رازِ تلاشِ منزلِ جستجو،
کہ یہ جانتے ہیں نہیں ہیں اپنا مآل ہم
کبھی مُو قلم، کبھی پردہ ہم،
کبھی خط ہیں اور کبھی خال ہم
نہیں نقش گر، نہیں نقش گر کا کمال ہم!
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
گرد باد

غم کے دندانے بہت!
گردباد اِک موجِ پرّاں، گردباد اِک ہمہمہ،
گرد باد اِک سایہ ہے،
گرد بادِ غم کے دندانے بہت!
اس کی اِک آواز، اِک پھنکار ۔۔۔ ویرانے بہت!
اس کی آوازوں میں بام و در بھی گُم
اس کی پھنکاروں میں خیر و شر بھی گُم
ریگِ بے مہری سے پُر سینوں کے پیمانے بہت!
شہرِ تنہا اور برہنہ۔۔۔۔ شہر
جن کا کام جاری تھا ابھی،
جن کی صبحوں میں اذاں کا نام جاری تھا ابھی،
(ایک ہی صبحِ اذاں، صبحِ اجل!)
جن کی جولانی کا دورِ جام جاری تھا ابھی،
ہاں انہی کی شاہراہوں کا ضمیر
بے صدائی میں اسیر
ہانپتا پھرتا ہے خون آلود دہلیزوں کے پاس
اُس کی دلجوئی کو دردِ دل کے کاشانے بہت!
۔۔۔ اور تمناؤں کے واماندہ شجر
حیرت آسا خامشی میں تن دہی سے اشک ریز:
گردبادِ غم کے نقشِ پا کہاں!
اس کا پائے لنگ ہو اس کا سہارا تا بکے؟
اس کو ویرانی کا یارا تا بکے؟
۔۔۔ اس کے افسانے بہت!
 

فرخ منظور

لائبریرین
افسانۂ شہر

شہر کے شہر کا افسانہ، وہ خوش فہم مگر سادہ مسافر
کہ جنہیں عشق کی للکار کے رہزن نے کہا: "آؤ!
دکھلائیں تمہیں ایک درِبستہ کے اسرار کا خواب۔"
شہر کے شہر کا افسانہ وہ دل جن کے بیابیاں میں
کسی قطرۂ گم گشتہ کے ناگاہ لرزنے کی صدا نے یہ کہا:
"آؤ دکھلائیں تمہیں صبح کے ہونٹوں پہ تبسم کا سراب!"

شہر کے شہر کا افسانہ، وہی آرزوئے خستہ کے لنگڑاتے ہوئے پیر
کہ ہیں آج بھی افسانے کی دزدیدہ و ژولیدہ لکیروں پر رواں
اُن اسیروں کی طرح جن کے رگ و ریشہ کی زنجیر کی جھنکار
بھی تھم جائے تو کہہ اٹھیں: کہاں ۔۔۔
"اب کہاں جائیں گے ہم
جائیں اب تازہ و نادیدہ نگاہوں کے زمستاں میں کہاں؟"
اُن اسیروں کی طرح جن کے لیے وقت کی بے صرفہ سلاخیں
نہ کبھی سرد نہ گرم، اور نہ کبھی سخت نہ نرم
نہ رہائی کی پذیرا، نہ اسیری ہی کی شرم!

شہر کے شہر کا افسانہ، وہ روحیں جو سرِ پل کے سوا
اور کہیں وصل کی جویا ہی نہیں
پُل سے جنہیں پار اترنے کی تمنّا ہی نہیں
اس کا یارا ہی نہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو

مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طولِ المناکی ہے
ایک ہی رُوح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے

عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
اور کچھ واہمے آئندہ کے
پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا
مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو
کچھ نہیں دیکھتے ہیں
محورِ عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!

"دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی
ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت"
"مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے"
"چاند کے آنے پہ سائے آئے
سائے ہلتے ہوئے، گھُلتے ہوئے، کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں"۔۔۔۔
(مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
اپنی ہی ذات کی غربال میں چھَن جاتے ہیں!)
دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے
چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی

مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
آج جاں اِک نئے ہنگامے میں در آئی ہے
ماہِ بے سایہ کی دارائی ہے
یاد وہ عشرتِ خوں ناب کِسے؟
فرصتِ خواب کسے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
مُسکراہٹیں

مُسکراہٹیں ہیں وہ کرم کہ جس کا ریشہ
استوارِ ازل میں ہے
ابد بھی جس کے ایک ایک پل میں ہے
کبھی ہیں سہوِ گفتگو
کبھی اشارۂ خرد، کبھی شرارۂ جنوں
کبھی ہیں رازِ اندروں
وہ مسکراہٹیں بھی ہیں کہ پارہ ہاے ناں بنیں
وہ مسکراہٹیں بھی ہیں کہ برگِ زر فشاں بنیں
کبود رنگ، زرد رنگ، نیل گُوں
کبھی ہیں پیشہ ور کا التہابِ خوں
کبھی ہیں رس، کبھی ہیں مَے
کبھی ہیں کارگر کا رنگِ خَے
کبھی ہیں سنگِ رہ
کبھی ہیں راہ کا نشاں
کبھی ہیں پشتِ پا پہ چور بن کے گامزن
کبھی فریبِ جستجو،
کبھی یہی فراقِ لب، کبھی یہی وصالِ جاں
مگر ہمیشہ سے وہی کرم
کہ جس کا ریشہ استوار ازل میں ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زمانہ خدا ہے

"زمانہ خدا ہے، اِسے تم برا مت کہو"
مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، نازک، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں،
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی،
انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں،
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدّت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!

مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیارہ، اُس کی محبت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گزرا!
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:
"لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں!
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں
ہو پیدا یہ راہِ وصال؟"
مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!
جہاں یہ زمانہ۔۔۔ ہنوزِ زمانہ
فقط اِک گرہ ہے!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بے مہری کے تابستانوں میں

بے مہری، بے گانہ پن کے تابستانوں میں
ہر سو منڈلانے لگتے ہیں زنبورِ اوہام
اور ساتھ اپنے اک ابدیت لاتے ہیں
شہروں پر خلوت کی شب چھا جاتی ہے
غم کی صرصر تھرّاتی ہے ویرانی میں
اونچے طاقتور پیڑوں کے گرنے کی آوازیں آتی ہیں
میدانوں میں!
بے مہری بے گانہ پن کے تابستانوں میں
جس دم منڈلانے لگتے ہیں زنبورِ اوہام

جب ہم اپنی روحوں کو
لا ڈالتے ہیں یوں غیریت کے دو راہوں میں
روحیں رہ جاتی ہیں جسموں کے نم دیدہ پیراہن
یا جسموں کے بوسیدہ اترن
ہر بے مہری کے ہنگام!
کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:
۔۔۔انساں سب سے بیش بہا ہے،
کیوں اُس کی رسوائی ہو
بے بصری کے بازاروں کی بے مایہ دکّانوں میں؟ ۔۔۔
کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:
ہم سب فرد ہیں، ہم پر اپنی ذات سے بڑھ کر
کس آمر کی دارائی ہو؟ ۔۔۔
کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:
۔۔۔ ہم سب ہست ہیں، ہم کیوں جاں دیں
مذہب اور سیاست کے نابودوں پر؟
موہوموں کی فوقیت دیں
آگاہی کی آنکھوں سے، موجودوں پر؟

بے مہری کے زنبور گئے تو
ذہنِ اوہامِ باطن کی
شوریدہ فصیلوں سے نکلے
غم کے آسیب ایذا کے
نادیدہ وسیلوں سے نکلے
پھر ہم لحنِ آب و زمیں کی
قندیلوں سے سرشار ہوئے
ہم نے دیکھا، ہم تم گویا تاک سے پُر ہیں
ہم تم اس خورشید سے پر ہیں
آہنگِ حرف و معنی کے
ذرّے جس کے دامن میں
ہم تم شیوۂ باراں سے پر ہیں
آہنگِ حرف و معنی کے
نغمے جس کے دامن میں
ہم دریا سے پُر ہیں
ہم ساحل سے پُر ہیں
ہم موجوں سے پُر ہیں
ہم ایک بشارت سے پُر ہیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
مری مورِ جاں

مری مورِ جاں،
مورِ کم مایہ جاں،
رات بھر زیرِ دیوار، دیوار کے پاؤں میں
رینگتی، سانپ لہریں بناتی رہی تھی؛
مگر صبح ہونے سے پہلے
انہوں نے جو دروازہ کھولا
تو مَیں مردہ پایا گیا ۔۔۔
(مرے خواب زندہ بچے تھے!)

مجھے آنسوؤں کے کرم سے ہمیشہ عداوت رہی ہے
تو میں نے یہ پوچھا: "عزیزو!
تمہیں اس کا خدشہ نہیں
کہ میرے زیاں سے، وہ آہنگِ حرف و معانی
نمودار ہو گا، مری مورِ جاں جس کی خاطر
سدا رینگتی، سانپ لہریں بناتی رہی ہے؟
تمہیں اس کا خدشہ نہیں،
کہ یہ خواب بھی،
جو مری موت پر تہ نشیں رہ گئے ہیں،
جنہیں تم ہزاروں برس تک
چھپاتے پھرو گے اساطیر کے روزنوں میں
محبّت کے کافور کو چیر کر
عقیدت کی روئی کے تودوں سے ناگہ نکل کر
عجائب گھروں میں، ہزاروں برس بعد کے
زائروں کے لیے راحتِ جاں بنیں گے،
تمہیں اس کا خدشہ نہیں ہے ۔۔۔ ؟"

ہنسے، جیسے یہ بات میں نے
اُنہی کے دلوں سے چُرا لی!
وہ کہنے لگے: "ہاں یہ خدشہ تو ہے،
آؤ، اس مرنے والے کو پھر سے جلا دیں
(مگر اس کے خوابوں سے نابود کر دیں)
اسے رینگنے دیں
اسے سالہا سال تک رینگنے دیں
کہ اس کی نگاہوں میں پھر خواب پیدا نہ ہوں
اسے رینگنے دیں
اسے سالہا سال تک رینگنے دیں
اور آئندہ نسلوں کی جانیں
غمِ آگہی سے بچا لیں!"
 
Top