مکمل کلام مجید امجد

فرخ منظور

لائبریرین
صبحِ نَو

اے دوست ! ہو نوید کہ پت جھڑ کی رت گئی
چٹکی ہے میرے باغ میں پہلی نئی کلی
پھر جاگ اٹھی ہیں راگنیاں آبشار کی
پھر جھومتی ہیں تازگیاں سبزہ زار کی

پھر بس رہا ہے اک نیا عالم خمار کا
پھر آ رہا ہے لوٹ کے موسم بہار کا

اے دوست ! اس سے بڑھ کے نہیں کچھ بھی میرے پاس
یہ پہلا پھول بھیج رہا ہوں میں تیرے پاس
کومل سا ، مسکراتا ہوا ، مشک بار پھول
پروردگارِ عشق کا یہ بے زباں رسول
آتا ہے اک پیام رسانی کے واسطے
بسرے دنوں کی یاد دہانی کے واسطے
اے دوست ایک پھول کی نکہت ہے زندگی
اے دوست ایک سانس کی مہلت ہے زندگی
وہ دیکھ پَو پھٹی ، کٹی رات اضطراب کی
اچھلی خطِ افق سے صراحی شراب کی

آ آ یہ صبح نَو ہے غنیمت ، مرے حبیب !
آیا ہے پھر بہار کا موسم ! زہے نصیب !

دسمبر 1938ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ریل کا سفر
( مدّوکی جھنگ )

کراچی کو جاتی ہوئی ڈاک گاڑی
دھوئیں کے سمندر میں تیراک گاڑی
مسافت کو یوں طے کیے جا رہی ہے
سفر کو غٹاغٹ پیے جا رہی ہے
یہ چٹیل سے میداں یہ ریتوں کے ٹیلے
ہیں جن پر بچھے دوب کے زرد تیلے
یہ کپاس کی کھیتیوں کی بہاریں
یہ ڈوڈوں کو چنتی ہوئی گل عذاریں
گھنے بن کی پھلواڑیوں کی تگ و دَو
اور ان پر بگولوں کی زلفوں کے پرتو
یہ چھوٹی سی بستی ، یہ ہل اور یہ ہالی
یہ صحرا میں آوارہ ، بھیڑوں کے پالی
یہ حیران بچے یہ خاموش مائیں
یہ گوبر کی چھینٹوں سے لتھڑی قبائیں
یہ نہروں میں بہتا ہوا مست پانی
یہ گنوں کی رت کی سنہری جوانی
یہ اینٹوں کا آوا ، یہ اونٹوں کی ڈاریں
یہ کیکر کے پیڑوں کی لمبی قطاریں
درختوں کے سایوں سے آباد رستے
یہ آزاد راہی ، یہ آزاد رستے
بدلتے چلے جا رہے ہیں نظارے
نئے سے نئے آ رہے ہیں نظارے
یہ صحرا جو نظروں کو برما رہا ہے
مرے ساتھ بھاگا چلا آ رہا ہے
نظر ایک منظر پہ جمتی نہیں ہے
یہ موج آ کے ساحل پہ تھمتی نہیں ہے
کنواں بن میں برباد سا اک پڑا ہے
کسی یادِ رنگیں میں ڈوبا ہوا ہے
بہت دور ادھر ایک محمل دواں ہے
دلہن کوئی میکے کو شاید رواں ہے
کھجوروں کا جھرمٹ نظر آ رہا ہے
پتا رودِ راوی کا بتلا رہا ہے
وہ گاڑی کے پہیوں کی دلدوز آہٹ
وہ اڑتے ہوئے بگلوں کی پھڑ پھڑاہٹ
یہ شام دلآرا یہ پل کا نظارا
نگاہوں سے چھپتا ہوا وہ کنارا
وہ اٹھتا ہوا مرتعش ناتواں سا
بہت دور اک جھونپڑے سے دھواں سا
وہ ویراں سی مسجد ، وہ ٹوٹی سی قبریں
وہ تارا شفق کے گلابی دھوئیں میں
نیا رنگ ہر دم دکھاتے ہیں منظر
نہیں ختم ہونے میں آتے ہیں منظر
ہر اک شے میں حرکت ہے جولانیاں ہیں
ہر اک ذرے میں وجد سامانیاں ہیں
کشش ہے فسوں ہے نہ جانے وہ کیا ہے
جو گاڑی کو کھینچے لیے جا رہا ہے

مرا خطۂ نور و رنگ آ گیا ہے
مرا سکھ بھرا دیس جھنگ آ گیا ہے

دسمبر 1938ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ سچ ہے

یہ سچ ہے اس کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں ہوتی
پڑا رہتا ہے جب تک بحر کی آغوش میں موتی

یہ سچ ہے پھول جب تک شاخ سے توڑا نہیں جاتا
کسی کے گیسوئے پُر پیچ میں جوڑا نہیں جاتا

شراب ناب جب تک بٹ نہیں جاتی کٹوروں میں
جھلک سکتی نہیں ان مد بھری آنکھوں کے ڈوروں میں

یہ سچ ہے جب ندی اپنی روانی چھوڑ دیتی ہے
تو اس کے ساز کے تاروں کو فطرت توڑ دیتی ہے

یہ سچ ہے اپنے جوہر کھو رہا ہوں دیس میں رہ کر
گزرتی زندگی کو رو رہا ہوں دیس میں رہ کر

اسی ماحول تک محدود ہے نغمہ مری نَے کا
فضا کی تنگیوں میں گھٹ رہا ہے دم مری لَے کا

مجھے آفاق کی پہنائیاں آواز دیتی ہیں
مجھے دنیا کی بزم آرائیاں آواز دیتی ہیں

مگر میں چھوڑ کر یہ دیس پیارا جا نہیں سکتا
بھلا کر میں ان آنکھوں کا اشارا جا نہیں سکتا

وہ آنکھیں جن کی اشک افشانیاں جانے نہیں دیتیں
وہ جن کی ملتجی حیرانیاں جانے نہیں دیتیں

1938ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
انقلاب

مری آنکھوں میں برستے ہوئے آنسو نہ رہے
دل کی دنیا نہ رہی ، درد کے پہلو نہ رہے
آہوں سے روح کی اگنی کی بھبک جاتی رہی
خشک ہونٹوں سے شرابوں کی مہک جاتی رہی
نیند کا چین گیا جاگنے کی بات گئی
نشوں کا دن گیا اور مستیوں کی رات گئی
ذروں کے سینوں میں مہتابوں کی دنیا نہ رہی
قرمزی رنگوں میں گم خوابوں کی دنیا نہ رہی
ڈال رکھا تھا تخیل نے جو رنگیں پردا
رخِ ہستی سے ہے اٹھنے لگا رفتہ رفتہ
اب حقیقت مری آنکھوں کے قریب آتی ہے
نظر اب دنیا کی تصویر مہیب آتی ہے
اب تبسم مجھے غنچوں کا رلا دیتا ہے
دل کے شعلوں کا ہر اک جھونکا ہوا دیتا ہے
حسن کے ناز و ادا جانتا ہوں جانتا ہوں
اس کا سحر اس کا فسوں مانتا ہوں مانتا ہوں
چاند کی قاش سے ماتھے کی صباحت ! سچ ہے
پھول کی طرح حسیں چہرے کی رنگت ! سچ ہے
مست نظروں میں شرابوں کی ملاوٹ ! سچ ہے
سرخ ہونٹوں میں نباتوں کی گھلاوٹ ! سچ ہے
دیکھتی ہیں مگر اب میری نگاہیں کچھ اور !
اب مرے فکر پہ ہیں کھل گئیں راہیں کچھ اور
اب ہر اک شے کی حقیقت پہ گماں رکھتا ہوں
اپنی تخیّل کے قدموں پہ جہاں رکھتا ہوں
دیکھتا ہوں کہ نہیں کچھ بھی یہاں میرے بغیر
خس و خاشاک کا ہے ڈھیر جہاں میرے بغیر

حسن اک دھوکا ہے اور عشق بھی خود بھول ہے اک
تتلی کیوں گل پہ گرے تتلی ہی خود پھول ہے اک

جنوری 1939ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہیں پہ رہنے دے صیّاد ، آشیانہ مرا

یہ باغ تیرا ہے یہ پھول تیرے ہیں چن لے
گلوں کے ریشوں سے دام حسیں کوئی بُن لے
ابھی بچھا نہ اسے ، ایک التجا سن لے

مرے بغیر اجڑ جائے گا ٹھکانہ مرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد ، آشیانہ مرا

یہ سچ ہے ، تیرے چمن سے چرایا ہے میں نے
یہ ایک تنکا یہیں سے اٹھایا ہے میں نے
کہ جس پہ اپنا بسیرا بسایا ہے میں نے

ترے چمن میں تھا حق اس قدر بھی کیا نہ مرا ؟
یہیں پہ رہنے دے صیاد ، آشیانہ مرا

یہیں پہ بیٹھ کے میں چپکے چپکے رو لوں گا
کلی کلی مجھے چھیڑے گی ، میں نہ بولوں گا
نہ گاؤں گا ، میں زباں تک نہ اپنی کھولوں گا

تری فضاؤں پہ گر بار ہے ترانہ مرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد ، آشیانہ مرا

تجھے ہے یاد ؟ یہاں ایک پنچھی رہتا تھا
وہ جس کے نغموں کی رہ میں زمانہ بہتا تھا
یہاں سے جانے لگا وہ تو رو کے کہتا تھا

"رفیق ! جاتا ہوں ! پھر جانے کب ہو آنا مرا
ترے سپرد یہ چھوٹا سا آشیانہ مرا"

اندھیرے میں کوئی پتہ جو سرسراتا ہے
تو اب بھی راتوں کو دل میرا چونک جاتا ہے
سمجھتا ہوں وہ مرا ہم سرود آتا ہے

ہے جس کی ایک امانت یہ آشیانہ مرا
یہ ٹوٹی ٹہنی یہ برباد سا ٹھکانہ مرا

کبھی تو آئے گا وہ مژدۂ امید لئے
اک اور جنت گُل پوش کی کلید لئے
اک اور گلشنِ آزاد کی نوید لئے

بلا کے نام باندازِ محرمانہ مرا
وہ آ کے سر پر اٹھا لے گا آشیانہ مرا

وہ دیکھ ! شاخیں ہلی ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ آ رہا ہو گا
حسین کلیاں کھلی ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ آ رہا ہو گا
رتیں رتوں سے ملی ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ آ رہا ہو گا

یہیں ، ادھر ہی ، وہ سُکھ سنگتی پرانا مرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد ، آشیانہ مرا​
 

فرخ منظور

لائبریرین
صبحِ جدائی

اب دھندلی پڑتی جاتی ہے تاریکیِ شب ، میں جاتا ہوں
وہ صبح کا تارا ابھرا ، وہ پو پھوٹی ، اب میں جاتا ہوں

جاتا ہوں ، اجازت ! جانے دو ، وہ دیکھو اجالے چھانے کو ہیں
سورج کی سنہری کرنوں کے خاموش بلاوے آنے کو ہیں

وہ پھولوں کے گجرے جو تم کل شام پرو کر لائی تھیں
وہ کلیاں جن سے تم نے یہ رنگیں سیجیں مہکائی تھیں

دیکھو ان باسی کلیوں کی پتی پتی مرجھائی ہے
وہ رات سہانی بیت چکی ، آ پہنچی صبحِ جدائی ہے

اب مجھ کو یہاں سے جانا ہے ، پُر شوق نگاہو ! مت روکو
او میرے گلے میں لٹکی ہوئی لچکیلی باہو ! مت روکو

ان الجھی الجھی زلفوں میں دل اپنا بسارے جاتا ہوں
ان میٹھی میٹھی نظروں کی یادوں کے سہارے جاتا ہوں

جاتا ہوں ، اجازت ! وہ دیکھو غُرفے سے شعاعیں جھلکی ہیں
پگھلے ہوئے سونے کی لہریں مینائے شفق سے چھلکی ہیں

کھیتوں میں کسی چرواہے نے بنسی کی تان اڑائی ہے
ایک ایک رسیلی سُر جس کی پیغام سفر کا لائی ہے

مجبور ہوں میں ، جانا جو ہوا ۔۔۔۔۔ دل مانے نہ مانے جاتا ہوں
دنیا کی اندھیری گھاٹی میں اب ٹھوکریں کھانے جاتا ہوں

اگست 1939ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
قیصریت

ایک قطرہ سلطنت کی موج کا
اک سپاہی بادشہ کی فوج کا !
دوش پر تیر و کماں باندھے ہوئے
جا رہا تھا رختِ جاں باندھے ہوئے
چوم کر اس کے گلابی گال کو
جاتے دم کہتا تھا اپنے لال کو
"دیکھتی ہے راستہ امی تری
جاؤ بیٹا ! جاؤ ! میں آیا ابھی "
بچہ مڑ کر چل پڑا ماں کی طرف
اور سپاہی خونی میدان کی طرف


وہ سپاہی جنگ میں مارا گیا
ڈوب اس کی زیست کا تارا گیا
لاش اسکی جوئے خوں میں بہہ گئی
کشتوں کے پشتوں میں کھو کر رہ گئی
لٹ گیا جب اس کی دلہن کا سہاگ
تھام لی شیطان نے اس کے دل کی باگ
اس نے کر لی ایک اور شادی کہیں
حسن اور خوئے وفا ؟ ممکن نہیں

اس سپاہی کا وہ اکلوتا یتیم
آنکھ گریاں ، روح لرزاں ، دل دو نیم
بادشہ کے محل کی چوکھٹ کے پاس
لے کے آیا بھیک کے ٹکڑے کی آس
اس کے ننگے تن پہ کوڑے مار کر
پہرے داروں نے کہا دھتکار کر
کیا ترے مرنے کی باری آ گئی
دیکھ وہ شہ کی سواری آ گئی
وہ مڑا چکرایا اور اوندھا گرا
گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندا گیا
دی رعایا نے صدا ہر سمت سے
"بادشاہِ مہرباں ! زندہ رہے "

جون 1939ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
قیدی دوست

میرے قیدی دوست ! تو مغموم سا رہتا ہے کیوں ؟
لگ کے زنداں کی سلاخوں سے کھڑا رہتا ہے کیوں ؟

رات دن پتھرائی آنکھوں سے مجھے تکتا ہے تو
بات وہ کیا ہے جو مجھ سے کہہ نہیں سکتا ہے تو

تیرے سینے کی نوائے راز کو سنتا ہوں میں
جب تری زنجیر کی آواز کو سنتا ہوں میں

لیکن اے ساتھی نہ گھبرا ، مژدہ ہو ، کل رات کو
سنتری دہرا رہے تھے راز کی اس بات کو

" حکم آیا ہے کہ اس زنداں میں ہیں جتنے اسیر
جن کے دکھیارے دلوں میں ہیں کھٹکتے غم کے تیر

ایک آہن پوش کشتی پر انہیں کر کے سوار
بھیج دو اس بحر کے پُر خوف طوفانوں کے پار "


دیکھ ! افق پر صبح کی دھندلاہٹوں کے درمیاں
وہ نظر آیا سفینے کا سنہری بادباں !

اب ہماری قید گہ کے قفل کھولے جائیں گے
اس سفینے پر ہر اک بدبخت کو لے جائیں گے

اس جگہ اک دوسرے کے متصل بیٹھیں گے ہم
چند گھڑیوں کے لئے آپس میں مل بیٹھیں گے ہم

اپنی اپنی داستاں رو رو کے کہہ جائیں گے ہم
چند لمحوں کے لئے نشّوں میں بہ جائیں گے ہم

بیڑیوں پر تیری رکھ کے اپنی سیمائے نیاز
میں پڑھوں گا میرے قیدی دوست ! الفت کی نماز

اتنے میں کشتی کنارے سے لپٹ جائے گی دوست
اور مرے سجدوں کی عمر ِشوق کٹ جائے گی دوست

پھر قدم رکھتے ہی ساحل پر جدا ہو جائیں گے
از سر نو قیدیِ دامِ بلا ہو جائیں گے

جون 1939ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
آوارگانِ فطرت سے !

(1)
بتا بھی مجھ کو ارے ہانپتے ہوئے جھونکے
ارے او سینئہ فطرت کی آہِ آوارہ !
تری نظر نے بھی دیکھا کبھی وہ نطارہ
کہ لے کے اپنے جلو میں ہجوم اشکوں کے
کسی کی یاد جب ایوانِ دل پہ چھا جائے
تو اک خراب محبت کو نیند آ جائے

(2)
ابد کنار سمندر ! تری حسیں موجیں
الاپتی ہیں شب و روز کیسے بھیانک راگ
بتا کبھی ترے طوفاں بجھا سکے ہیں وہ آگ
جو دفعتاً سلگ اٹھتی ہے دکھ بھرے دل میں
جب ایک بچھڑے ہوئے کا پیام آتا ہے
کسی کا روح کے ہونٹوں پہ نام آتا ہے

(3)
حسین چاند ! ستاروں کی انجمن کے ایاغ !
بتا کبھی تری کرنوں کے سیمگوں سائے
اک ایسے شہر خموشاں پہ بھی ہیں لہرائے
جہاں پہ ایک ابھاگن نے جب جلا کے چراغ
کسی کی قبر پہ مدھم سی روشنی کی ہو !
تو سونے والے نے بھی جاگ کر صدا دی ہو

دسمبر 1939ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بُندا

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا !

رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اُس گوش کا پھر گوشئہ مانوس مجھے
کان سے تُو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی
تُو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربتِ رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں مَیں ترا حلقہ بگوش

کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا !

1939ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
گر اس جہان میں جینا ہے

نہ تاجِ سر کو تو بیچ اور نہ تو سریر کو بیچ
گر اس جہان میں جینا ہے تو ضمیر کو بیچ

حیا کو اپنی نگاہوں سے حکمِ رخصت دے
زباں کو زہر ملے شہد کی حلاوت دے

فریبِ سجدہ سے اپنی جبیں کو واقف کر
ریا کے آنسوؤں سے آستیں کو واقف کر

ہے ترے دل میں جو چنگاری اس کا نام نہ لے
خودی کا رتبۂ خود داری ! اس کا نام نہ لے

1939ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
گھٹا سے

گھٹا ! نہ رو ! مرے دردوں پہ اشک بار نہ ہو
مجھ ایسے سوختہ ساماں کی غم گسار نہ ہو

لپیٹ لے یہ خنک چادریں ہواؤں کی
کسے طلب ہے تری مست کار چھاؤں کی

تو اپنے ساتھ ہی لے چل یہاں سے جاتے ہوئے
کھلونے اپنی پھواروں کے جھنجھناتے ہوئے

یہ بوندیوں کی نوائیں تجھے مبارک ہوں
یہ بہکی بہکی فضائیں تجھے مبارک ہوں

یہ نزہتیں مری محفل سے اے گھٹا لے جا
یہ اپنی بجلیوں کے ارغنوں اٹھا لے جا

میں سن چکا ہوں بہت تیری داستانیں ، بس
خموش ! مجھ کو نہیں راس ترے نغموں کا رس !

نہ چھیڑ آج یہ اپنی رسیلی شہنائی !
ہے مشکلوں سے مرے آنسوؤں کو نیند آئی !

فروری 1940ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
خدا
(ایک اچھوت ماں کا تصور)

خبر ہے تجھ کو کچھ، رلدو! مرے ننھے! مرے بالک!
ترا بھگوان پرمیشر ہے اس سنسار کا پالک!

کہاں رہتا ہے پرمیشر؟ ادھر آکاش کے پیچھے
کہیں دور، اس طرف تاروں کی بکھری تاش کے پیچھے

نہیں دیکھا؟ سویرے جوں ہی مندر میں گجر باجا
پہن کر نور کی پوشاک وہ من موہنا راجا

لئے "سونے کا چھابا" جب ادھر پورب سے آتا ہے
تو ان تاروں کی پگڈنڈی پہ جھاڑو دے کے جاتا ہے

نہیں سمجھے کہ اتنا دور کیوں اس کا بسیرا ہے؟
وہ اونچی ذات والا ہے اور اونچا اس کا ڈیرا ہے

یہ دنیا والے ، یہ امرت کے رس کی چھاگلوں والے
یہ میٹھے بھوجنوں والے ، یہ اجلے آنچلوں والے

یہ اس کو اپنی لاشیں اپنے مردے سونپ دیتے ہیں
عفونت سے بھرے دل اور گردے سونپ دیتے ہیں

جنہیں دوزخ کے زہروں میں بھگو کر بھونتا ہے وہ
جنہیںٍ شعلوں کی سیخوں میں پرو کر بھونتا ہے وہ

یہ اس بھگوان کے دامن کو چھو لینے سے ڈرتے ہیں
یہ اس کو اپنے محلوں میں جگہ دینے سے ڈرتے ہیں

کسی نے بھول کر اس کا بھجن گایا ، یہ جل اٹھے
کہیں پڑ بھی گیا اس کا حسین سایا، یہ جل اٹھے

غلط کہتا ہے تو نادان تو نے اس کو دیکھا ہے
مرے بھولے! ہماری اور اس کی ایک لیکھا ہے

فروری، 1940​
 

فرخ منظور

لائبریرین
گلی کا چراغ
تری جلن ہے مرے سوزِ دل کے کتنی قریب
خدا رکھے تجھے روشن! چراغِ کوئے حبیب
تو جانتا ہے مری زندگی کا افسانہ
تو جانتا ہے میں کس شمع کا ہوں پروانہ
لرز لرز گئی اکثر تری یہ نازک لو
ٹھٹک ٹھٹک کے چلا جب کوئی حزیں رہرو
وہ تیرے سانولے سایوں میں اس کا طوفِ نیاز
وہ دور ... موڑ پہ قدموں کی آخری آواز
صدا خفیف سی دستک سے ملتی جلتی ہوئی
اور اس کے بعد کوئی چٹخنی سی کھلتی ہوئی
ہَوا کے نرم جھکولوں میں سرسراہٹ سی
گلی کے کونے پہ باتیں سی، کھلکھلاہٹ سی
کہ اتنے میں نظر آیا طویل سایا کوئی
پھر اک صدا کہ ’’وہ دیکھو ادھر سے آیا کوئی‘‘
کواڑ بند، گلی بےصدا، فضا خاموش
اور ایک درد کا مارا مسافرِ مدہوش
پلٹ چلا انھی رستوں پہ ڈگمگاتا ہوا
دکھے دکھے ہوئے لہجوں میں گنگناتا ہوا
تو جانتا ہے کسی کی گلی کے پاک چراغ
چراغِ طور سے بھی بڑھ کے تابناک چراغ
کہ تو نہ ہو تو وہ آوارۂ دیارِ حبیب
پہنچ سکے نہ کبھی ’’ان‘‘ کے آستاں کے قریب
جو تو نہ ہو تو یہ راز اک فسانہ بن جائے
نگاہِ اہلِ جہاں کا نشانہ بن جائے
(3-2-1940)
 

فرخ منظور

لائبریرین
پژمردہ پتیاں
بکھری ہیں صحنِ باغ میں پژمردہ پیتاں
دوشیزۂ بہار کے دامن کی دھجیاں!
ہمدم! غمیں نہ ہو کہ یہ مٹتی نشانیاں
اک آنے والی رت کی ہیں شیریں کہانیاں!
ڈھیر ان کے یہ نہیں ہیں چمن میں لگے ہوئے
پیوند ہیں خزاں کے کفن میں لگے ہوئے
جاتی ہوئی خزاں کے جنازے کے ساتھ ساتھ
تالی بجاتے جاتے ہیں ان کے حسین ہاتھ
ان کے دلوں پہ زیست کے راز آشکار ہیں
صرفِ خزاں بھی ہو کے نقیبِ بہار ہیں
(18-2-1940)
 

فرخ منظور

لائبریرین
رخصت

تھک گئیں آنکھیں، امیدیں سو گئیں، دل مر گیا
زندگی! عزمِ سفر کر، موت! کب آئے گی تو؟
آنسوؤ! آنکھوں میں اب آنے سے شرماتے ہو کیوں؟
تھی تمہی سے میرے داغِ آرزو کی آبرو!
اے کسی کے آستاں کو جانے والے راستے!
بخش دینا! میرا پائے شوق تھا سیماب خو
یہ ترا کتنا بڑا احسان ہے بادِ سحر!
عمر بھر کھیلی مری آہوں کے انگاروں سے تو
اے زمانے کے حسیں صیاد! کیا کہنا ترا
جاں گسل ہیں تیرے دامِ خوشنما کے تار و پو
آہ میری روح کو ڈسنے لگی ہے سانس سانس
اب میں رخصت چاہتا ہوں اے جہانِ رنگ و بو!
(7-5-1940)
 

فرخ منظور

لائبریرین
دنیا


جہاں کی حقیقت کی کس کو خبر ہے
فریبِ نظر تھی، فریبِ نظر ہے
یہی پھول کی زیست کا ماحصل ہے
کہ اس کا تبسم ہی اس کی اجل ہے
نہ سمجھو کہ چشمِ حسیں سرمگیں ہے
نہیں، قبر کی تیرگی کی امیں ہے
یہ کیا کہہ رہے ہو کہ ندی رواں ہے
سمندر سے پوچھو، کہاں تھی، کہاں ہے
نہ سمجھو کہ ہے کیف پرور یہ نغمہ
شکن ہے ہوا کی جبیں پر یہ نغمہ
کہاں دھڑکنیں ہیں دلِ زار کی یہ
صدائیں ہیں اک ٹوٹتے تار کی یہ
یہ ہستی کا دریا بہا جا رہا ہے
ہم آہنگِ سیلِ فنا جا رہا ہے
پھنسے کچھ انوکھے قرینوں میں ہیں ہم
حبابوں کے نازک سفینوں میں ہیں ہم
یہ کیا ہے، یہ کیوں ہے، خبر کیا، خبر کیا
مرے تیرہ ادراک کی ہو سحر کیا!
مری بزمِ دل میں نہیں روشنی کیوں؟
ہے بےصید میری نگہ کی انی کیوں؟
یہ دنیا ہے میری کہ مرقد ہے میرا؟
یہاں بھی اندھیرا، وہاں بھی اندھیرا
(31-8-1940)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
خودکشی
ہاں میں نے بھی سنا ہے تمہارے پڑوس میں
کل رات ایک حادثۂ قتل ہو گیا
ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ اک جام زہر کا
دو جیونوں کی ننھی سی ناؤ ڈبو گیا
کوئی دکھی جوان وطن اپنا چھوڑ کر
اپنی سکھی کے ساتھ اک اور دیس کو گیا
دنیا کے خار زار میں سو ٹھوکروں کے بعد
یوں آخر ان کا قصۂ غم ختم ہو گیا
یوں طے کیا انہوں نے محبت کا مرحلہ
ایک ایک گھونٹ اور جو ہونا تھا ہو گیا
دونوں کی آنکھ میں تھا اک اک اشکِ منجمد
جو خشک خشک پلکوں کی نوکیں بھگو گیا
کچھ کہنے پائی تھی کہ وہ خاموش ہو گئی
کوئی جواب دینے کو تھا وہ کہ سو گیا
پیمانۂ اجل کا وہ تلخابہ اس طرح
روحوں کے زخموں، سینوں کے داغوں کو دھو گیا
اکثر یونہی ہوا ہے کہ الفت کا امتحاں
دشواریوں میں موت کی آسان ہو گیا
آؤ نا! ہم بھی توڑ دیں اس دامِ زیست کو
سنگِ اجل پہ پھوڑ دیں اس جامِ زیست کو
(25-9-1940)
 

فرخ منظور

لائبریرین
سیرِ سرما
پوہ کی سردیوں کی رعنائی
آخرِ شب کی سرد تنہائی
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، خدا کی پناہ
دھند میں گم فضا، خدا کی پناہ
ذرّے ذرّے پہ، پات پات پہ برف
ہر کہیں سطحِ کائنات پہ برف
اس قدر ہے خنک ہوائے صبوح
منجمد ہے رگوں میں موجۂ روح
کون کہتا ہے دل ہے سینے میں
برف کی ایک سل ہے سینے میں
پھر بھی آنکھوں کے سرد جاموں میں
پھر بھی پلکوں کے ٹھٹھرے داموں میں
گرم گرم اشک اضطراب میں ہیں
میری مانند پیچ و تاب میں ہیں
ہوں رواں آتشیں خیالوں میں گم
’’آہ تم!
کتنے سردمہر
ہو....تم!‘‘
(18-1-1941)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کنواں
کنواں چل رہا ہے، مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں، نہ فصلیں، نہ خرمن، نہ دانہ
نہ شاخوں کی باہیں، نہ پھولوں کے مکھڑے، نہ کلیوں کے ماتھے، نہ رُت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو یوں چیرتا تیز، خوں رنگ پانی
کہ جس طرح زخموں کی دکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
ادھر دھیرے دھیرے
کنوئیں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جا رہی اک ترانہ
پراسرار گانا
جسے سن کے رقصاں ہے اندھے تھکے ہارے بےجان بیلوں کا جوڑا بچارا
گراں بار زنجیریں، بھاری سلاسل، کڑکتے ہوئے آتشیں تازیانے
طویل اور لامنتہی راستے پر بچھا رکھے ہیں دام اپنے قضا نے
اِدھر وہ مصیبت کے ساتھی ملائے ہوئے سینگوں سے سینگ، شانوں سے شانے
رواں ہیں نہ جانے
کدھر؟ کس ٹھکانے؟
نہ رکنے کی تاب اور نہ چلنے کا یارا
مقدر نیارا
کنوئیں والا گادی پہ لیٹا ہے مست اپنی بنسی کی میٹھی سریلی صدا میں
کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا اور نہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
کہیں بہہ گئی ایک ہی تند ریلے کی فیاض لہروں میں کیاری کی کیاری
کہیں ہو گئیں دھول میں دھول لاکھوں رنگارنگ فصلیں، ثمردار ساری
پریشاں پریشاں
گریزاں گریزاں
تڑپتی ہیں خوشبوئیں دامِ ہوا میں
نظامِ فنا میں
اور اک نغمۂ سرمدی کان میں آ رہا ہے، مسلسل کنواں چل رہا ہے
پیاپے مگر نرم رو اس کی رفتار، پیہم مگر بےتکان اس کی گردش
عدم سے ازل تک، ازل سے ابد تک، بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش
نہ جانے لیے اپنے دولاب کی آستینوں میں کتنے جہان اس کی گردش
رواں ہے رواں ہے
تپاں ہے تپاں ہے
یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے
کنواں چل رہا ہے
(12-2-1941)
 
Top