کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

نظام الدین

محفلین
کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے


کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں

گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے

تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی


عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر

ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا

ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں

انہی حسین فسانوں میں محو رہتا


پکارتیں مجھے جاب تلخیاں زمانے کی!

ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا

حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں

گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا


مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے

کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں

گزرر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے

اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں


زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے

گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے

مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں

حیات و موت کے پرہول خار زاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ

بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری

انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر

میں جانتا ہوں مری ہم نفس مگر یونہی


کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

(ساحر لدھیانوی)
 

محمدظہیر

محفلین
کچھ اس طرح یہ غزل کوسنا تھا۔۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لئے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بسرہی تھی کہیں
تجھے زمیں پر بلایا گیا ہے میرے لئے۔۔
 

نظام الدین

محفلین
کچھ اس طرح یہ غزل کوسنا تھا۔۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لئے
تو اب سے پہلے ستاروں میں بسرہی تھی کہیں
تجھے زمیں پر بلایا گیا ہے میرے لئے۔۔

۔۔۔۔۔۔ اوریجنل غزل یہی ہے جو پوسٹ کی گئی ہے
 
آخری تدوین:
ساحر صاحب نے نوجوانوں کے دل کی آواز بن خوب سحر گھولا مگر مجھے
فیض کا یہ جواب اس سحر کو توڑتا محسوس ہوتا ہے۔

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں میں محبت کے سوا
راحتیں او ربھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
 
Top