سعودی عرب۔ محسن ِ پاکستان

منصور آفاق

محفلین
سعودی عرب۔ محسن ِ پاکستان
منصور آفاق
ناصر باغ سے لے کر چیئرنگ کراس کے درمیان کہیں تقریر کرتے ہوئے پروفیسر ساجد میر نے جو کچھ کہا اس میںکچھ باتیں ایسی ہیں جن سے ہمکلام ہونے کو جی رہا ہے
پہلی بات۔ انہوں نے فرمایا کہ ”ہم کل بھی پارلیمنٹ کی قرارداد کے مخالف تھے آج بھی ہیں ۔کوئی پارلیمنٹ حرمین شریفین سے زیادہ مقدس نہیں ہوسکتی“۔لگتا ہے پروفیسر صاحب نے اچھی طرح پارلیمنٹ کی قرار داد کا مطالعہ نہیں کیا ۔اس میں لکھا ہوا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی اور حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا ۔پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے خلاف تو کم ازکم پروفیسر ساجد میر کو بات نہیں کرنا چاہتے تھی ۔انہیں تو معلوم ہے کہ اسلام میں ”اجماع کی کیا حیثیت ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ تمام مسلمان اجماع کے حرمت پر متفق ہیں حضرت عمر نے قاضی شریح کو لکھا تھا۔اور اگر تمہارے سامنے کوئی ایسا معاملہ آ جائے جس کا ذکر نہ تو اللہ کی کتاب میں ہو اور نہ ہی سنتِ رسول میں تو اس بات کو دیکھو جس پر مسلمانوں کا اجماع ہو اور اسے اختیار کرو۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ”اگرایک مسئلے میں تمام اہل علم متفق ہوں اور کوئی ایک قول بھی اس کے خلاف نہ پایا جاتا ہوتو وہ اجماع ہے۔“ کچھ اور بزرگوں کے نزدیک اکثریت کا قول بھی ”اجماع“ ہے۔ اور اس بات پر پوری پاکستانی قوم کا اجماع ہوا ہے کہ یمن ایک اسلامی ملک ہے اس پر حملہ کرنے کےلئے پاکستانی افواج نہ بھیجی جائیں۔سو پروفیسر صاحب کو اس اجماع کا احترام کرنا چاہئے تھا
دوسری بات۔انہوں نے کہا کہ ”کوئی اگر سمجھتا ہے کہ ہم اسلحہ کے زور مقاماتِ مقدسہ پر قبضہ کرلیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔“میرے خیال کے مطابق تو کوئی غیر مسلم ان تقدس مآب مقامات کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔جہاں تک مسلمانوں کے کسی گروہ کے قبضے کی بات ہے تو اس پر گفتگو ہوسکتی ہے۔اس وقت خادمینِ حرمین شریقین آل سعود ہیں۔اس سے پہلے ان مقامات کے خادم ترکی کے حکمران ہوا کرتے تھے۔سچ یہ ہے ان مقامات پر دنیا بھر کے مسلمانوں اُسی طرح حق ہے جیسے آل سعود کا۔سو ضرورت اس امر کی ہے کہ مکہ اور مدنیہ دونوں آزاد شہر قرار دیا جائے جس کا انتظام دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک اجتماعی کونسل کے پاس ہونا چاہئے۔یقینا یہ بات آل سعود کو پسند نہیں آئے گی مگر وہ اتنا تو کرسکتے ہیں کہ جو ہرسال اربوںڈالراِ ن مقامات ِ مقدسہ کی وساطت سے حاصل کرتے ہیں انہیں دنیا بھر کے غریب مسلمانوں کےلئے وقف کردیں مجھے پورا یقین ہے کہ اس عمل کے بعد ان کی بادشاہی کی عمر ان کی توقع سے بھی بڑھ جائے گی۔اُس دن مجھے ایک بنک کار دوست کہہ رہا تھا کہ آل سعود کا جتنا سرمایہ یورپ اور امریکہ کے بنکوں میںہے وہ اسے اگر پاکستان کے بنکوں میں منتقل کردے تو پاکستانی روپے کی قیمت تقریباً ڈالر کے برابرہوجائے گی۔خیر یہ تو ایک بات یونہی ذہن میں لہرا گئی تھی۔
تیسری بات۔انہوں نے کہا کہ ”حکومت ابھی تک سعودی عرب فوج کیوں نہیں بھیج رہی کیاوہ دہشت گردوں کے حرمین شریقین میں داخل ہونے کا انتظار کر رہی ہے“پروفیسر صاحب کے اس بیان سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے پاکستانی فوج نے سعودی عرب جاکر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنی ہے ۔حیرت سے ششدر ہوں ۔یمن میںدونوں بڑی دہشت گرد تنظیمیں ”القائدہ“ اور ”داعش “سعودیہ کے ساتھ مل کر حوثی قبائل کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں ۔یمن کے علاقہ الملا پر القائدہ نے باقاعدہ قبضہ کیا ہوا ہے۔المکلا کا ایئرپورٹ بھی القائدہ کے قبضے میں ہے اور جہاں تک حوثی قبائل کا تعلق ہے تو انہوں نے اس وقت تک کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ انہیں دہشت گرد قرار دیا جاسکے ۔حوثی قبائل اُس عوامی تحریک کا حصہ ہیں جو یمن کے گلی کوچوں میں پھیل چکی ہے۔
چوتھی بات ۔ پروفیسر ساجد میر نے ریلی کے شرکاءسے سعودی عرب کے تحفظ کے لئے جانی اور مالی قربانی کا حلف لیا ۔جہاں تک جان کی قربانی کی بات ہے تو وہ سمجھ میں آتی ہیںکہ آسائشات ِ زندگی کی فراوانی کی وجہ سے سعودی فوجیوں کےلئے جان کی قربانی آسان نہیں رہی لیکن مالی قربانی کا حلف میری سمجھ میں نہیں آرہا۔وکی لیکس کے مطابق پچھلے چند سالوں میں امریکی معیشت کو سہارا دینے کےلئے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور کویت نے ایک سو پچاس ارب ڈالر سے زائد رقم کا اسلحہ امریکہ سے خریدا ہے۔
پانچویں بات ۔انہوں نے کہا ”سعودی عرب کا دشمن اسلام اور پاکستان کا دشمن ہے “سمجھتے تو ہم بھی یہی تھے مگر جب عرب لیگ میں بھارت میں بحیثیت مبصر شریک کی اجازت دی گئی اور پاکستان کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا تو تھوڑی سی تکلیف ہوئی ۔پچھلے سال جب سعودیہ نائب وزیر اعظم شہزادہ عبدالسلام بن عبدالعزیز بھارت کے تین روزہ سرکاری دورے پر گئے اور وہاں جا کر دفاعی معاہدے کئے تو تکلیف کی شدت میں ذرا سااضافہ ہوا۔بمبئی حملوں کے جرم میں جب پاکستانی نوجوان ریاست علی کو گرفتار کر کے سعودیہ نے بھارت کے حوالے کیا تھا تو ٹیسیں روح سے اٹھی تھی۔مسئلہ کشمیر پر بھی عرب لیگ کو موقف بھی ہم پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ تکلیف دہ رہا ہے۔
چھٹی بات ۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا ہے کہ پاکستان کو اس لئے بھی سعودی عرب فوج بھیجنی چاہیے کہ وہ سعودی عرب سے کئی مرتبہ امداد لے چکا ہے۔بات تو بالکل درست ہے لیکن اس فامولے سے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے کیونکہ پاکستان سے سب سے زیادہ امریکہ سے حاصل کی ہے۔
ساتویں بات ۔ انہوں نے کہا ہے کہ یمن میں ظالم اور مظلوم کی لڑائی ہے اور سعودیہ مظلوموں کا ساتھ دے رہا ہے۔سوچتا ہوں کہ یمن کے وہ ظالم کون ہیں جن کے خلاف سعودیہ کے ساتھ مل کر داعش، القائدہ ،تمام عرب ریاستیں حتی کہ امریکہ تک لڑ رہے ہیں ۔
آٹھویں بات ۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے سعودی عرب پاکستان کا محسن ہے ۔بے شک اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کا شکار ہے ۔جس دہشت گرد نے اس کا بند بند مضمحل کر رکھا ہے۔جس لوڈ شیڈنگ نے اس کی بستیاں تاریک کر رکھی ہیں ۔اس سے سعودیہ کا کوئی تعلق نہیں ۔وہ صرف محسنِ پاکستان ہے۔(محسن ِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے معذرت کے ساتھ)فیض احمد فیض کا ایک شعر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ
ہم پہ احسان ہی ہیں احسان ہیںاِس محسن کے
اتنے احسان کہ گنواو ں تو گنوا نہ سکوں
cleardot.gif
 
Top