انگریزی طب کی فوقیت مانو یا نہ مانو

ڈاکٹر مجید خان

اگر دنیا میں انگریزی دوائیں نہ ہوتیں یا پھر ایلوپیتھی کا نظام برخاست ہوجائے تو اس دنیا کا کیا حشر ہوگا ۔ یہ کوئی سوال نہیں بلکہ فکر ہے ۔ اس کا جواب مجھے دینا نہیں ہےاردو صحافت میں بعض موضوعات شجر ممنوعہ کی طرح ہیں، ان مسائل پر قلم اُٹھانا آسان نہیں ہے غیرضروری مخالفت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ ایلوپیتھی کے بغیر اس دنیا کی بقا ممکن نہیں ہے ۔ ایلوپیتھی کی فوقیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ 1940 سے پہلے انگریزی دوائیوں ، یونانی علاج ، آیوروید میں نمایاں فرق نہیں تھا ۔ لوگ ڈاکٹروں سے زیادہ حکیموں کے پاس جایاکرتے تھے ۔ ہومیوپیتھی بھی تقریباً 200 سالوں سے زیادہ پرانی ہے۔ دوسری جنگ سے پہلے یعنی 1944 ء کے قرب و جوار میں پھوڑے ، پھنسی ، خارش وغیرہ تکلیف دہ امراض تھے اور حکماء گندھک سے بنی ہوئی دوائیں لگانے کے لئے دیا کرتے تھے جن سے تکلیف دہ جلن ہوا کرتی تھی ۔ وبائی امراض چیچک ، ہیضہ ، پلیگ سے لاکھوں لوگ جاںبحق ہوجاتے تھے ۔ پلیگ کے مریضوں کو شہر کی آبادی کے باہر رکھا جاتا تھا ۔ حیدرآباد میں ایک دواخانے کا نام کورنٹی ہے جو اب Fever Hospital کہلاتا ہے ۔ متعدی امراض کا یہ قدیم دواخانہ ہے ۔ عالمی جنگوں میں فوجی زخمی ہوا کرتے تھے اور ان کے زخم میں جراثیم داخل ہوجاتے تو بچنا مشکل تھا ۔ غرض کہ کسی بھی طریقۂ علاج میں جراثیم کو ختم کرنے کی دوا دریافت نہیں ہوئی تھی ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کھٹملوں کو مارنے کی د وا بھی 1960 ء میں دریافت ہوئی ۔ عثمانیہ دواخانے میں جب ہم مریضوں کو ہڈی ٹوٹنے کے بعد پلاسٹر آف پیرس میں دیکھا کرتے تھے تو ان کی حالت پر رحم آتا تھا ۔ بیچاروں کے پیر ، کولہے کی ہڈی سے لیکر ٹخنے تک پلاسٹرس میں ڈھکے رہتے تھے اور اس کے اندر ان کو کھجلی ہوا کرتی تھی ۔ 6 ہفتوں کے بعد جب پلاسٹر نکالا جاتا تھا تو اُس کے اندر بے حساب کھٹمل پڑے ہوئے رہتے تھے ۔ عثمانیہ دواخانہ کے لوہے کے پلنگوں میں کھٹمل رہا کرتے تھے ۔ کھٹمل تو ختم ہوگئے مگر مچھروں سے نجات ابھی تک نہیں ملی ۔ امریکہ میں کھٹمل واپس آرہے ہیں ۔ اُس زمانے میں ایلوپیتھی ، یونانی ، آیوروید ، ہومیوپیتھی شانہ بشانہ چل رہے تھے ۔ کسی قسم کی بازاریت یا تجارتی دھندے بازی مریضوں اور معالجوں کے درمیان نہیں تھی ۔ اشتہار بازی ناپسندیدہ اور غیراخلاقی طریقہ سمجھا جاتا تھا ۔ بیماریاں اپنے شباب پر تھیں۔ جراثیم کش دوائیں جن کو Anti Biotic کہا جاتا ہے مثلاً Sulphaا ور پنی سیلین Penicillinجیسی زوداثر دوائیں دوسری جنگ عظیم کے درمیان دریافت ہوئیں۔ انگریزی طب میں یہ ایک زبردست سائنسی انقلاب تھا ۔ اس کے بعد ایلوپیتھی میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہونے لگی جس کی وجہ سے وبائی امراض کا تقریباً صفایا ہوچکا ہے۔ پولیو بھی اب ختم ہوچکا ہے۔ جراثیم سے ہونے والے امراض پر اب پوری طرح قابو پالیا گیا ہے مگر اب ایسے Super Bugs پیدا ہورہے ہیں جن کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے اور لوگ معمولی پھوڑے پھنسی سے فوت ہورہے ہیں۔ بغیر انگریزی علاج کے یہ سب ممکن نہیں تھا ۔ دل کی بیماریوں کا آپریشن کے ذریعے علاج ، ناکام گردوں میں Dialysis کی اہمیت اور پھر پیوندکاری ، جگر کی پیوندکاری اور مستقبل کے امکانات اور بھی روشن ہیں۔ کینسر کا موثر علاج اب ممکن ہے ۔ جوڑوں کو بدل دیا جارہا ہے ۔ پرانے زمانے میں طبی عمر 50 کے لگ بھگ تھی ۔ بے شمار نومولود ولادت کے بعد ہی موت کا شکار ہوجایا کرتے تھے اب یہ سب ماضی کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اب جبکہ انگریزی طب اور انگریزی دوائیں اور طرز علاج نہ صرف ساری دنیا میں مقبول ہے تو اس کی افادیت پر کس کو شک ہوسکتا ہے ۔ طبعی عمر میں جو اضافہ 50 سے لیکر 80ء تک ہوا ہے تو یہ محض انگریزی طب کی دین ہے ۔ اس میں کسی اور طریقہ علاج کو دخل نہیں ہے ۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ دماغی صحت خاص طورسے یادداشت جو ہونی چاہئے تھی وہ جاتی رہی جس کی وجہ سے ضعیف لوگ نوجوانوں کیلئے بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ طوالت عمر بغیر ذہنی صحت کے کیا نعمت و رحمت ہے یا پھر عذاب غور طلب مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ جسمانی صحت کا بھی یہی حال رہا تو پھر لوگ بہ آسانی سو سال تک جیا کریں گے جس کی پیشن گوئی کی جارہی ہے ۔ مگر میرا اصل مقصد معلومات پہنچانا ہے اور عوام کی صحیح رہبری کرنی ہے ۔ یہ اس لئے ضروری ہوتا جارہاہے کہ کیونکہ بڑی پراثر اشتہاربازی میڈیا کے ذریعے ہورہی ہے جس کے شکار معصوم لوگ ہورہے ہیں ۔ چاہے وہ اخبارات ہوں یا الکٹرانک میڈیا اخبارات میں تو روزانہ احتیاطی انتباہ شائع ہوتا ہے کہ اخبار اشتہارات کی صداقت کا ذمہ دار نہیں ہے ۔ پھر بھی ٹیلیویژن وغیرہ پر موثر اور ڈرامائی انداز میں غیرمصدقہ اور اکثر ناکارہ طریقہ علاج کو پیش کیا جاتا ہے کہ نادان لوگ اس پر یقین کرنے لگتے ہیں اور خواہ مخواہ کثیررقم ضائع کربیٹھتے ہیں ۔ بعض اوقات پڑھے لکھے میڈیکل ڈاکٹر بھی اس فریب میں پھنس جاتے ہیں ۔ خاص طورسے اُن بیماریوں میں جن کو ایلوپیتھی لاعلاج قرار دیتا ہے وہاں پر بے حساب چٹکلے استعمال میں آتے ہیں ۔ بہی خواہوں کااصرار رہتا ہے کہ یہ عمل کیا جائے ۔ اس جڑی بوٹی کا استعمال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس کو میں اعتقادی علاج کہتا ہوں ۔ میں اس کے خلاف نہیں ہوں ۔ میں صرف عوام کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ گوکہ یہ سب معلومات ہر پڑھے لکھے کمپیوٹر استعمال کرنیو الے کیلئے دستیاب ہیں مگر میرا نصف صدی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ اشتہارات پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ۔ اگر کوئی علاج موثر ہو تو اس کی تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کاش یونانی ، آیوروید اور ہومیوپیتھی میں بھی انگریزی طب کی طرح تحقیق و ترقی ہوتی مگر یہ ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ صرف ایلوپیتھی سائنس کی تحقیق و ترقی سے جڑی ہوئی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ پیشہ بھی تجارتی اساس پر چلایا جارہا ہے اور مجبور مریضوں کا مالی استحصال ہورہا ہے ۔ دوائیاں بنانے والی کمپنیوں اور ڈاکٹروں میں گٹھ جوڑ قابل مذمت ہے ۔ نئے اقسام کے علاج جو متعارف ہورہے ہیں وہ کامیاب تو ہیں مگر بے انتہا مہنگے ہیں کیونکہ اکثر دوائیں DNA پر اثر کرتی ہیں اس لئے مہنگی ہیں۔ دوسرے تمام طریقۂ علاج غیرسائنٹفک ہیں۔ ہومیوپیتھی ایک زمانے میں کافی مقبول متبادل طریقۂ علاج ہوتا جارہا تھا ۔ لندن میں ایک مشہور ہومیوپیتھک سرکاری دواخانہ بھی تھا جو چند سال پہلے دوسرے طریقۂ علاج کے دواخانے میں تبدیل کردیا گیا ۔ مصدقہ سائنسی شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ اپنا مقام کھورہا ہے ۔ اب ان حالات میں ایک عام آدمی کو کیا کرنا چاہئے ۔ کیسے طئے کیا جائے کہ کس قسم کاعلاج کروایا جائے ۔ حادثات اور اچانک جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلاً بخار ، بیہوشی ، سینے میں درد وغیرہ ہو تو انگریزی دواخانے کے علاوہ کہیں اور جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگوں میں سب سے زیادہ غلط فہمیاں اور غلط مشورے ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے تعلق سے پائی جاتی ہیں۔ یہیں پر پریشان مریض اشتہاری چکر میں آجاتے ہیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجئے ۔ تشخیص ساری انگریزی طریقۂ علاج اور طرز علاج سے ہوتی ہے اور علاج سنی سنائی باتوں پر یا پھر بے بنیاد عقیدوں پر کیسے کیا جاسکتا ہے ۔Prostate ، 50 سال سے زائد کی عمر والوں میں بڑھا ہوتا ہے ۔ الٹرا ساؤنڈ سے اس کے سائز کا پتہ لگایا جاسکتا ہے ایک خون کے امتحان سے کہا جاسکتا ہی کہ کیا اس میں کینسر ہونے کے کوئی علامات ہیں ، اس کے کینسر کا بہترین علاج ہے اگر کوئی اور متبادل کامیاب علاج کرتے ہیں تو اس کو سائنسی اعتبار سے ثابت کرنا چاہئے جوکہ نہیں ہے ۔ بڑھتے ہوئے Prostate کو آج کل معمولی گولیوں سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹری میں مسلسل تعلیم ناگزیر ہے ۔ جیسے جیسے نئی معلومات امراض کے تعلق سے دریافت ہونے لگی ماہر طب بننے کیلئے زائد تعلیم کی ضرورت محسوس ہونے لگی ۔ آج ماہر بننے کیلئے 11 سال کی محنت و تجربے کی ضرورت ہے ۔ بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے علاج میں اگر لاپروائی برتی جائے تو جسم کا ہر اہم عضو ناکارہ ہونے لگتا ہے اور گردے آسانی سے متاثر ہوجاتے ہیں۔Dialysis ان مریضوں کیلئے ناگزیر ہے ۔ اگر شروع ہی سے پابندی سے ذیابیطس اور بلڈ پریشر کا خاطر خواہ علاج ہوتا رہا تو گردے متاثر کم ہوتے ہیں۔ پھر بھی بہ بانگ دہل اشتہارات دیئے جاتے ہیں کہ بغیر Dialysis کے علاج ہوسکتا ہے یہ مجرمانہ تشہیر ہے ۔ اب یہ اشتہار بازی کم ہونے والی نہیں ہے اب تو مشہور قابل بھروسہ فلمی ستاروں کو استعمال کیاجارہاہے ۔ اس کے علاوہ کافی رقم خرچ کرتے ہوئے مصدقہ خبروں کی طرح شائع کروائی جاتی ہیں۔ بیماریوں اور علاج کے معاملے میں ان تمام دل لبھانے والے اشتہارات کو یکلخت نظرانداز کیجئے ورنہ بعد میں عمر بھر پچھتائیں گے ، شرطیہ علاج کادعویٰ دھوکہ ہے ۔ خطرناک بیماریوں سے کھلواڑ مت کیجئے ۔ چند سالوں قبل Aids کی وباء کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا جوکہ غلط ثابت ہوا مگر اُس کے بھی مکمل علاج کے دعویدار پیدا ہوگئے تھے ۔ مغربی ممالک میں ایسے دعوے کرنا قابل سزاء ہے ۔ ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم کو اختیار ہیکہ جس طرح کا علاج ہم چاہیں کرواسکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سب کو انگریزی علاج ہی کروانا پڑتا ہے کیونکہ یہ مفت میں ہوتا ہے ۔ آپ کی بیماریوں کی ذمہ دار حکومتیں ہوا کرتی ہیں۔ یہ سب لکھنے کے بعد میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آج انگریزی علاج اور اُس کے خانگی دواخانوں میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اعلیٰ ظرف ، برائیوں سے پاک ، صالح اور پابند طبی اخلاقیات ہے ۔ اکثر کارپوریٹ دواخانے اخلاق کے اساس پر نہیں بلکہ تجارتی منافع کے بازاری طریقوں پر کام کرتے ہیںاور اپنے ہی مریضوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہیں پر ذمے دار ڈاکٹر کے روشن ضمیر کاامتحان ہوتا ہے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حال ہی میں ایک دہلی کے ٹی وی چینل نے خفیہ ریکارڈنگ ڈاکٹروں اور ڈائیگناسٹک سنٹر کے گٹھ جوڑ کی تفصیلات دکھائی تھیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوگئی ہے ۔ کم از کم اب تو دواخانوں کو اپنی روش بدلنی چاہئے مگر اُس کی امید کم ہے ورنہ 80 فیصد خانگی دواخانوں کا دیوالیہ نکل جائے گا ۔ میرا مشورہ یہ ہیکہ اپنے فیملی ڈاکٹر سے تفصیلات حاصل کریں اور ایسے دواخانوں کو نہ جائیں جو مریضوں کا چوری چھپے بددیانتی سے استحصال کرتے ہیں۔ آج کل کی ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی مدد اس معاملے میں لی جاسکتی ہے اور خاطی دواخانوں کی تشہیر ممکن ہے اور یہ وقت کا تقاضہ ہے ۔
http://www.siasat.com/urdu/news/انگریزی-طب-کی-فوقیت-مانو-یا-نہ-مانو
 
Top