واقعہ شق القمراور جدید سائنس

Muhammad Qader Ali

محفلین
واقعہ شق القمراور جدید سائنس
===================
اپالو 10اور 11کے ذریعے ناسانے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتاہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کامرکز بنی ہوئی ہے۔ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ا س تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دوحصوں میں تقسیم ہوا نظر آتاہے۔ایک ٹی وی انٹرویو میں مصر کے م...
اہر ارضیات ڈاکٹر زغلول النجار سے میزبان نے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا:

ترجمہ:۔ ”قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔انہوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام ٹھہرے ہوئے وقت پر مقرر ہے۔“۔( القمر، 1-3)

(ڈاکٹرزغلول النجار یونیورسٹی جدہ میں ماہر ارضیات کے پروفیسرہیں۔ قرآن مجید میں سائنسی حقائق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ اورمصرکی سپریم کونسل آف اسلامی امور کی کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں)۔ انہوں نے میزبان سے کہاکہ اس آیت کریمہ کی وضاحت کے لیے میرے پاس ایک واقعہ موجود ہے۔انہوں نے اس واقعہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈ ف یونیورسٹی میں ایک لیکچر دے رہا تھا۔جس کوسننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلبا ءکی کثیر تعداد موجود تھی۔قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہورہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑ ا ہوا اور مجھے اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمایا ہے ، کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے۔ڈاکٹر زغلول النجار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاءیا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جاسکتی ہے مگر معجزہ ایک مافوق الفطرت شے ہے ،جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کرسکتے۔چاند کا دوٹکڑے ہوناایک معجزہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوت محمد ی ﷺ کی سچائی کے لیے بطوردلیل دکھایا۔حقیقی معجزات ان لوگوں کے لیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اگر یہ ذکر قرآن وحدیث میں موجودنہ ہوتاتو ہم اس زمانے کے لو گ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے۔علاوہ ازیں ہمار ااس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔ پھر انہوں نے چاند کے دوٹکڑے ہونے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ احادیث کے مطابق ہجرت سے 5سال قبل قریش کے کچھ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے سچے نبی ہیں تو ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟انہوں نے ناممکن کام کا خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس چاند کے دو ٹکڑے کر دو۔چناچہ حضور ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا اور چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے حتٰی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اورایک ٹکڑا اس طرف ہو گیا۔ابن مسعود ی فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اورآپ ﷺنے فرمایا دیکھو ،یادرکھنا اور گواہ رہنا۔کفار مکہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ ﷺ کا جادو ہے۔کچھ اہل دانش لوگوں کا خیال تھا کہ جادو کا اثر صرف حاضر لوگوں پر ہوتاہے۔اس کا اثر ساری دنیا پر تو نہیں ہو سکتا۔چناچہ انہوں نے طے کیاکہ اب جولوگ سفر سے واپس آئیں ان سے پوچھو کہ کیا انہوں نے بھی اس رات چاند کو دو ٹکڑے دیکھاتھا۔چناچہ جب وہ آئے ان سے پوچھا ، انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کے دوٹکڑے ہوتے دیکھاہے۔کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آ کر یہی کہیں تو حضور ﷺ کی سچائی میں کوئی شک نہیں۔اب جو باہر سے آیا ،جب کبھی آیا ،جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ا س شہاد ت کے باوجود کچھ لوگوں نے اس معجزے کا یقین کرلیا مگر کفار کی اکثریت پھر بھی انکار پر اَڑی رہی۔

اسی دوران ایک برطانوی مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ میرا نام داود موسیٰ پیٹ کاک ہے۔میں اسلامی پارٹی برطانیہ کا صدر ہوں۔وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر !اگر آ پ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتاہوں۔مَیں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم بات کرسکتے ہو!اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا،ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی۔مَیں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے گھر لے آیا۔گھر آکر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورة القمر کی ابتدائی آیات تھیں۔ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعدمیں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا اس بات میں کوئی منطق ہے ؟کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ جائیں۔وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا ؟ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کامطالعہ برابرجاری رکھوں۔کچھ عرصے کے بعد مَیں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہوگیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا۔یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایساہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہاتھا۔جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے۔ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزامات لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک ،افلاس ،بیماری اورجہالت نے ڈھیرے ڈھالے ہوئے ہیں ،آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کر تے پھررہے ہیں۔جتنا روپیہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات ، صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعما ل ہوتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کررہے بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر ایک کھرب ڈالر خرچ آتاہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسافضول پن ہے ؟ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے ایک کھرب ڈالر خرچ کرنا کہا ں کی عقلمندی ہے ؟سائنسدانوں نے جوابا ً کہا کہ نہیں ! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لیناتھا۔دراصل ہم نے چا ند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کویقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑسکتی ہے۔مگر تاحال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ دوبارہ آپس میں مل گئے۔میزبان نے پوچھاکہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہا ں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک، کو کاٹا ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہوسکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑبھی گئے ہوں۔ برطانوی مسلم نوجوان نے بتایا کہ جب مَیں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی اچھل پڑا اوربے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اللہ نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیا رکیا کہ وہ کھربوں ڈالر لگاکر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں ،وہ معجز ہ کہ جس کا ظہور آج سے 14سو سال قبل مسلمانوں کے پیغمبر ﷺکے ہاتھوں ہوا۔مَیں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہوناچاہیے۔میں نے قرآن کو کھولا اور سورة القمر کو پھر پڑھا۔درحقیقت یہی سورة میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔

علاوہ ازیں انڈیاکے جنوب مغرب میں واقع مالابار کے لوگوں میں یہ با ت مشہور ہے کہ مالابار کے ایک بادشاہ چکراوتی فارمس نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ا س نے سوچاکہ ضرور زمین پر کچھ ایسا ہوا ہے کہ جس کے نتیجے میں یہ واقعہ رونما ہوا۔چنانچہ اس نے اس واقعے کی تحقیق کے لیے اپنے کارندے دوڑائے تو اسے خبر ملی کہ یہ معجزہ مکہ میں کسی نبی کے ہاتھوں رونما ہوا ہے۔اس نبی کی آمد کی پیشین گوئی عرب میں پہلے سے ہی پائی جاتی تھی۔چناچہ اس نے نبی ﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اوراپنے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنا کر عرب کی طرف سفر پر روانہ ہوا۔وہاں اس نے نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں حاضری دی اور مشرف بااسلام ہوا۔نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق جب وہ واپسی سفر پر گامزن ہوا تو یمن کے ظفر ساحل پر اس نے وفات پائی۔یمن میں اب بھی اس کا مقبر ہ موجود ہے۔جس کو ”ہندوستانی راجہ کا مقبرہ“کہا جاتاہے اور لوگ اس کودیکھنے کے لیے وہاں کا سفر بھی کرتے ہیں۔اسی معجزے کے رونما ہونے کی وجہ سے اورراجہ کے مسلمان ہونے کے سبب مالابار کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اس طرح انڈیا میں سب سے پہلے اسی علاقے کے لوگ مسلمان ہوئے۔بعد ازاں انہوں نے عربوں کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھایا۔نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے لوگ اسی علاقے کے ساحلوں سے گزر کر تجارت کی غرض سے چین جاتے تھے۔ یہ تمام واقعہ اور مزید تفصیلات لندن میں واقع”انڈین آفس لائبیریری“کے پرانے مخطوطوں میں ملتاہے۔جس کاحوالہ نمبر (Arabic, 2807,152-173)ہے۔ اس واقعہ کا ذکر محمد حمیداللہ نے پنی کتاب ”محمدرسول اللہ“میں کیا تھا۔

ناسا کی یہ تصویر اور سائنسدانوں کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے 14سو سال پہلے کیا تھا وہ بالکل برحق ہے۔ یہ نہ صر ف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ،امام الانبیا ءکی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کو اکمل و کامل کرے اور ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق اپنے عملوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین۔
سبحان اللہ و بحمدہ،
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
14208_377327235682258_1333940147_n.jpg
 

ماسٹر

محفلین
بہت عرصہ قبل میں نے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ خلا ء میں گردش کرتی بڑی چٹانوں میں سے اگرایک بہت بڑی چٹان چاند پر گر جاے تو اس کے نتیجے میں گرنے والے حصہ سے دباؤ کی ایک لہر دوسری طرف جاے گی اور ایک واپس آئے گی اور دونوں درمیان میَََََََََََََََََںَََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََََ ملیں گی -جس کے نتیجے میں چاند کے درمیان میں گرد کی لکیر بن جائے گی ۔ اور دور سے دیکھنے سے ایسے لگے گا جیسے چاند دو ٹکڑے ہو گیا ہو ۔
۔ ۔ ۔ واللۃ اعلم - - -
 

زیک

مسافر
اس مضمون کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور نہ ہی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے۔
 

x boy

محفلین
سُوۡرَةُ البَقَرَة
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَ۔ٰنِ ٱلرَّحِيمِ
الٓمٓ (١) ذَٲلِكَ ٱلۡڪِتَ۔ٰبُ لَا رَيۡبَ‌ۛ فِيهِ‌ۛ هُدً۬ى لِّلۡمُتَّقِينَ (٢) ٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِٱلۡغَيۡبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَ۔ٰهُمۡ يُنفِقُونَ (٣) وَٱلَّذِينَ يُؤۡمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ وَبِٱلۡأَخِرَةِ هُمۡ يُوقِنُونَ (٤) أُوْلَ۔ٰٓٮِٕكَ عَلَىٰ هُدً۬ى مِّن رَّبِّهِمۡ‌ۖ وَأُوْلَ۔ٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (٥) إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَأَنذَرۡتَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تُنذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُونَ (٦) خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ وَعَلَىٰ سَمۡعِهِمۡ‌ۖ وَعَلَىٰٓ أَبۡصَ۔ٰرِهِمۡ غِشَ۔ٰوَةٌ۬‌ۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيمٌ۬ (٧)

In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful
Alif. Lam. Mim. (1) This is the Scripture whereof there is no doubt, a guidance unto those who ward off (evil). (2) Who believe in the Unseen, and establish worship, and spend of that We have bestowed upon them; (3) And who believe in that which is revealed unto thee (Muhammad) and that which was revealed before thee, and are certain of the Hereafter. (4) These depend on guidance from their Lord. These are the successful. (5) As for the Disbelievers, Whether thou warn them or thou warn them not it is all one for them; they believe not. (6) Allah hath sealed their hearing and their hearts, and on their eyes there is a covering. Theirs will be an awful doom. (7)

سورة البَقَرَة
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الم (۱) یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے (۲) جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (۳) اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں (۴) یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں (۵) جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے (۶) خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے (۷)
 

x boy

محفلین
کوئی بھی عمل پہلے تھیوری ہوتی ہے پھر اسکا پریکٹیکل۔ پھر اس کی ریگولر پرکٹس۔
قرآن الکریم آخری کتاب جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخری اور قرآن الکریم بھی آخری کلام،،
اس میں ماننے اور نہ ماننے والے دونوں کے باتیں ہیں مسلمان جو مانتے ہیں وہ اسکو ریگولر پرکٹس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے رکھتے ہیں؎
اور جو نہیں مانتے ان کے لئے پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ اگر چاند پر شق القمر کے نشانات نہ بھی ہوں تو ہم اس مانیں گے، سنت کے طریق سے۔
میں متعدد بار لکھا ہے کہ قرآن الکریم سائنس کی کتاب نہیں ہے البتہ اس میں زمین ، آسمان ، کائنات کے بارہ میں، مخلوقات کے بارہ میں بہت کچھ نشانیاں رکھی گئی ہیں۔ سائنسدان بھی اللہ کے بندے اور مخلوق ہیں اور سائنس بھی اللہ نے انسانوں کے لئے آسان کیا ہے جو چاہے اس سمندر سے جتنا لے لے البتہ محنت درکار ہے بغیر محنت نہیں مل سکتی۔ جاننا اور ماننا ۔ اس پرکوئی جھگڑا نہیں۔
 
Top