دیوار پہ دستک ۔ منصور آفاق۔دوتہائی اکثریت کا دائرہ

منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک

دوتہائی اکثریت کا دائرہ

منصور آفاق

نئی انصاف گاہوں (عسکری )کے خلاف یومِ سیاہ منایاگیا۔کچہریوں میں چیخ چیخ کر اعلان کیا گیا کہ منصفی کی عمارت میں کوئی نئی کھڑکی نہیں کھولی جاسکتی۔فوری عدل کےلئے انصاف کی دہلیز پر کوئی نیا دروازہ وا نہیں کیا جاسکتاچاہے آپ کے بچے بھیڑوں بکریوں کی طرح ذبح کردئیے جائیں۔
مجھے معصوم بچوں کے بھاری بھاری تابوتوں کی قسم !
مجھے شکار پور کی امام بارگاہ کے ان شہیدوں کی قسم!
جو حالتِ سجدہ میں اپنے رب سے جا ملے۔ اب پاکستانی قوم آوازوں کے کالے کوٹ نہیں دیکھ سکتی۔اب قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیرنے والوں کے احتجاج پر دھیان نہیں دیا جاسکتا ۔ اب اِس قوم نے طے کر لیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کےلئے اپنی جیلیں ذبح خانوں میں بدل دے گی۔اب اس ملک کا ہر چوک ان درندو ں کےلئے پھانسی گھاٹ ثابت ہوگا۔سانحہ ءپشاور کے بعد کا پاکستان ایک اور پاکستان ہے۔یہ وہ پاکستان ہے جس کا اعلانیہ رکھوالاخدا کے بعد راحیل شریف ہے۔یہ وہ پاکستان ہے جس میں عوام ااور فوج دونوں ایک طرف ہیں اور دوسری طرف صرف دہشت گرداور ان کے ہمدردہیں۔
وکیلوں کے اس احتجاج میں بار کونسل کے نو منتخب وائس چیئرمین اعظم نذیر تاڑڑ پیش پیش تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اعظم نذیراِس سے پہلے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے خلاف بھی کورٹ جانے کےلئے پیش پیش تھے۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق ابھی دوچار دن پہلے ان کے ساتھ شہباز شریف کا ٹیلی فونک مکالمہ ہوا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شہباز شریف نے اس سلسلے میں بھی انہیں کوئی نادرمشورہ دیا تھا یا نہیں لیکن تحریک انصاف کے حامد خان و اضح طور پر اعظم نذیر تاڑڑکے ساتھ ساتھ ہیں۔سپریم کورٹ میں انہوں نے ہی اکیسویں ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف حامد خان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کرتی ہے یا نہیں۔بہرحال میرے دوست اور میانوالی سے تحریک انصاف کے ایم این اے امجد خان کے بقول”دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عمران خان واضح طور پر افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں“
ایک عجیب و غریب بات31 دسمبر 2014ءکو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہی تھی کہ ’منتخب نمائندے آئین میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لا سکتے، آزاد عدلیہ کی موجودگی میں کوئی فوجی عدالت قائم نہیں ہو سکتی، اگر آئین میں ترمیم بھی کر لی جائے تو پھر بھی عدلیہ کے نزدیک ا ن کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں ہو گی“۔سابق چیف جسٹس کی اِسی الہامی گفتگو کوسامنے رکھتے ہوئے وکلا بڑے شوق و ذوق سے عدالت ایونیو پر پہنچ گئے ہیں۔یہ پہلا مقدمہ ہے جو آئین ِ پاکستان کے تحت آئین ِ پاکستان کے خلاف سنا جارہا ہے۔پہلی بارقومی اسمبلی کے دوتہائی اکثریت سے کئے جانے والے کسی فیصلے پر عدالت میں اجنبی گفت و شیند ہونے لگی ہے۔ پاکستانی آئین کے تحت اب تک تودو تہائی اکثریت سے ہونے والا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ قرار دیاجاتا تھا۔اسی کو قانون سمجھا جاتا تھا ۔وکلا کہا کرتے تھے کہ آئین کا آرٹیکل 239آئینی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج کرنے سے روکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں عدالت ِ عالیہ ا س حوالے سے کیا نیا فرمان جاری فرماتی ہے۔جہاںتک اپنی یاداشت کا تعلق ہے کہ ہم نے یہی سنا تھا کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی چاہے تو آئین کا بنیادی ڈھانچہ بھی بدل سکتی ہے۔ممکن ہے ہم نے غلط سنا ہو۔ لیکن اس سوال پر بحث تو ہوسکتی ہے کہ کیا واقعی فوجی عدالتوں کاقیام آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے ؟۔ میرے نزدیک 1973کے آئین کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی گئی ہے یعنی اس آئین کی بنیادی شق ہی یہی ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسلام کی رو سے فوجی عدالتیں بنائی جا سکتی ہیں اس سوال کے جواب میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے اور میدان جنگ میں سپہ سالار قاضی القضاة بھی ہوتا ہے۔اسلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قائم ہونے والی فوجی عدالتیں عین اسلام کے مطابق ہیں ۔
آئین کے تحت عدالتوں میں جج مقرر کرنے کا طریقہ کار یہ طے ہے کہ وہ وکیل جنہیں عوام کی نمائندہ حکومت مناسب سمجھے انہیں موجود جج صاحبان سے مشورہ سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جج مقرر کردے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہی عوامی نمائندے اگر وکیلوں کی جگہ فوجی آفسران کو جج مقرر کرنے کا فیصلہ کریں تواسے کیسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اقدام قرار دیاجاسکتا ہے۔
سابق چیف جسٹس نے جویہ عجیب و غریب بات کی تھی اس کے پس منظر میں دراصل ایک آئینی ترمیم موجود ہے۔جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں کہ عدلیہ کے حکم پر آئین میں کوئی ترمیم کر لی گئی ہو۔یہ کام صرف پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوایہ ترمیم سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کے متعلق تھی۔سابق چیف جسٹس اپنی اس کامیابی میں اس بات کو بھول گئے کہ اگر عوامی نمائندے نہ چاہتے تو سپریم کورٹ نے جو ججوں کی تقرری پر نظرثانی کا عبوری حکم دیا تھا اس سے صرف ِ نظر بھی کر سکتے تھے ۔عدالت عالیہ کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کا مشورہ بھی دے سکتے تھے۔آخر میں وکلا سے گذارش ہے کہ کچھ خیال کریں۔صورت حال بہت نازک ہے ۔ دیکھئے پاکستان کے شاعرافواج ِ پاکستان کے حق میں کیسی شاعری پر مجبور ہوگئے ہیں۔
حکومت پر مسلط مافیا سن
وطن کی بے حیا اشرافیہ سن
میں سچ کہنے کی جرات کررہا ہوں
میں اعلانِ بغاوت کر رہا ہوں
صریحاً جھوٹ یہ جمہوریت ہے
ستم کا روٹ یہ جمہوریت ہے
بھرے ہیں حکمرانوں کے خزانے
مسلسل لوٹ یہ جمہوریت ہے
بیاں حرفِ صداقت کر رہا ہوں
میں اعلانِ بغاوت کررہا ہوں​

clip_image001.gif
 
Top