گھر میں ٹماٹر اُگائیے

گھر میں ٹماٹر اُگائیے اور مہنگائی کو شکست دیجیے
۔

وجہ فصلوں کی تباہی ہو یا ذخیرہ اندوزوں کی ہوس،سچ یہ ہے کہ سبزیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے نچلے و متوسط طبقوں کو ازحد متاثر کیا۔ظاہر ہے،دس پندرہ ہزار روپے کمانے والا 200روپے کلو ٹماٹراور 100روپے کلو آلو خرید کر نہیں کھا سکتا۔ عام سبزیوں کی قیمتیں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔اس مہنگائی کا ایک توڑ یہ ہے کہ اپنے گھرکم از کم روزمرہ استعمال کی سبزیاں مثلاً ٹماٹر،آلو،پیاز،گوبھی،دھنیا،پودینہ اگا لی جائیں۔ان کا اگانا مشکل نہیں اور نہ ہی وسیع زمین کی ضرورت ہے،بس یہ
عمل تجربہ اور محنت مانگتا ہے۔

گھریلو کاشت کاری انسان کو دو اہم فوائد دیتی ہے:اول کم خرچ میں قیمتی سبزی میسّر آتی ہے۔دوم وہ فارمی سبزیوں سے زیادہ غذائیت رکھتی ہیں۔یہی فوائد مدنظر رکھ کر فی الوقت گھر میں ٹماٹر اگانے کا طریق کار پیش ہے۔ ٹماٹر کا پودا معتدل موسم میں پلتا بڑھتا ہے۔اگر درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ سے زیادہ یا 10سینٹی گریڈ سے کم ہو جائے،تو وہ صحیح طرح پرورش نہیں پاتا۔خصوصاً کہر یا پالا اسے تباہ کر دیتا ہے۔لہذا پودے کو کہر سے بچانا لازمی ہے۔ گرمی زیادہ ہو تو اس کا توڑ پودے کو زیادہ پانی دینا ہے۔تاہم پودے کو زیادہ نمی سے بھی بچائیے۔نمی اسے مختلف امراض کا نشانہ بنا ڈالتی ہے۔یاد رہے،نشونما پاتے پودے کو روزانہ کم ازکم چھ گھنٹے دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹماٹر کی 7500سے زائد اقسام وجود میں آ چکیں جن کے دو بڑے گروہ ہیں ۔غیر معین (Indeterminate) اور محدود (Determinate) ۔غیر معین اقسام اُگ کر مسلسل پھل دیتی ہیں تاایں کوئی بیماری یا کہر پودے کو مار ڈالےجبکہ محدود اقسام کے پودے صرف ایک دفعہ پھل دیتے اور پھر مر جاتے ہیں۔ آپ اپنی پسند کی قسم کا انتخاب کر سکتے ہیں۔اور اگر نوآموز ہیں ،تو بہتر ہے کہ شروع میں ایک دو پودے ہی لگائیے تاکہ تجربے سے جو اسباق ملیں ،ان کی مدد سے آپ خودکو مستند گھریلو کسان بنا سکیں۔ اب آئیے اُگانے کے مرحلے کی طرف!سب سے پہلے ا س گملے ،ڈبے،برتن،کریٹ،بالٹی وغیرہ کا انتخاب کیجیے جس میں پودا اگانا مقصود ہو۔اسے کم از کم 8 انچ گہرا ہونا چاہیے۔تاہم 16انچ گہرائی بہترین رہے گی۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ٹماٹر کا پودا پلاسٹک کے کسی ڈبے یا برتن میں لگائیے۔وجہ یہ کہ ایسا برتن گملے کے برعکس جلد نمی نہیں چوستا اور خشک ہونے میں دیر لگاتا ہے۔چونکہ ٹماٹر کا پودا پانی پسند کرتا ہے،لہذا وہ اس میں پنپتا ہے۔دوسرے پلاسٹک کے چھوٹے برتن عموماً گملوں کی نسبت سستے پڑتے ہیں۔ جب موزوں ڈبے یا برتن کا انتخاب کر لیں ،تو اس کا پیندا دیکھیے۔اگر اس میں سوراخ نہ ہوں ،تو چھوٹے چھوٹے چھ سات سوراخ کر دیجیے تاکہ مٹی میں پانی کھڑا نہ ہو۔جمع شدہ پانی پودے کو سڑا کر مار ڈالتا ہے۔تاہم سوراخ اتنے بڑے نہ ہوں کہ ساراپانی مٹی میں جذب ہوئے بغیر نکل جائے۔ اب ڈبا کھاد ملی مٹی سے بھر دیجیے۔پودے اگانے والی مٹی ہر نرسری سے مل جاتی ہے۔ڈبے میں باغ یا زمین کی مٹی نہ ڈالئیے کیونکہ اس میں اتنی غذائیت نہیں ہوتی کہ پودا پنپ سکے۔ یہ کام تکمیل پائے ،تو بیج بونے کا مرحلہ آتا ہے۔ٹماٹر کی من پسند قسم کے بیج بڑی نرسریوں سے مل سکتے ہیں۔راقم کے ایک دوست نے تو انوکھا گُر آزمایا۔انھوں نے ڈبے میں کھاد ملی مٹی بھری،اور اس میں عام ٹماٹر بو دیا۔ڈبا پھر کھڑکی پہ رکھ دیا تاکہ اسے دھوپ ملتی رہے۔پانی بھی باقاعدگی سے دیا گیا۔دو ہفتے بعد ٹماٹر سے پودا نکل آیا۔اب وہ موسم پہ رس بھرے پھل دیتا ہے۔ موسم سرما میں خصوصاً بیجوں سے پودا نکالنے کا یہ طریق بھی مروج ہے کہ پہلے انھیں چھوٹے سے گملے میں بویا جائے۔تاکہ جب سورج نکلے تو اسے باآسانی دھوپ کے سامنے رکھ سکیں ۔ورنہ وہ گرم کمرے میں ہی رہے۔جب پودا نکل آئے اور تھوڑا بڑا ہو چکے،تو پھر اسے بڑے ڈبے یا گملے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ٹماٹر کا پودا خاصی نگہداشت مانگتا ہے۔نشونما پاتے ہوئے اسے کافی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔پانی دینے کا وقت جاننے کا آسان طریق یہ ہے کہ ڈبے یا گملے میں انگلی ڈالئیے۔اگر دو انچ تک مٹی خشک ملے،تو گویا پانی دینے کا سمّے آ پہنچا۔ دوسری اہم بات یہ کہ بڑھتے پودے کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔لہذا جب پودا پرورش پانے لگے،تو ڈبے میں بانس یا ڈنڈا نصب کیجیے اور اسے اس کے ساتھ پودا نرمی سے باندھ دیجیے تاکہ وہ بلند ہو سکے۔بانس مٹی میں گاڑتے ہوئے احتیاط کیجیے کہ وہ پودے کی جڑوں کو نقصان نہ پہنچائے۔ٹماٹر کا پودا آٹھ فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ بڑھتے پودے کو خاصی غذائیت بھی درکار ہوتی ہے۔سو بہتر ہے کہ ہفتہ دس دن بعد ڈبے میں مناسب کھاد ڈال دیں۔یوں پودا تیزی سے نشوونما پائے گا۔ بڑھتے پودے کے جو پتے زرد ہو جائیں،انھیں توڑ ڈالئیے۔نیز بالائی شاخوں کو چھوڑ کر نیچے اگر ٹہنیاں نکلیں،تو انھیں بھی کاٹ دیں۔یوں پودے کے مرکزی تنے کو زیادہ غذائیت ملتی ہے اور وہ جلد بڑا ہوتا ہے۔ ٹماٹر کی قسم کے لحاظ سے پودے پر تین تا پانچ ماہ میں پھول نکل آتے ہیں۔چونکہ پودے پہ پولی نیشن(زیرگی)سے پھل لگتا ہے،لہٰذا بہتر ہے کہ پھول نکلنے کے بعد تین چار بار ڈبے کو ذرا زور سے ہلا دیں،تاکہ پھولوں کے نر و مادہ حصّے مل جائیں۔ پھول نکلنے کے بعد پودے کو پانی دینا کم کر دیں۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ایک ہفتے تک صرف صبح ایک گلاس پانی دیں۔جب پھول پہ پھل نمودار ہوں،تو تب موسم کے اعتبار سے پانی دیجیے۔ صوبہ پنجاب اور سند ھ کے ہم وطن معتدل موسم والے مہینوں مثلاً اپریل مئی اور ستمبر میں ٹماٹر کے پودے لگا سکتے ہیں۔یوں انھیں نشوونما پانے کی خاطر مناسب ماحول ملتا ہے۔پھر تین چار ماہ بعد آپ گھر میں اگے رس بھرے،سرخ ٹماٹر کھا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ شروع میں غلطیاں کرنے کے باعث آپ کو کامیابی نہ ملے۔مگر حوصلہ نہ ہارئیے ،بلکہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر دوبارہ پودے اگایئے۔نیز ماہر باغبانوں اور مالیوں سے مشورہ کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں۔تھوڑے سے صبر اور محنت سے آپ بھی ماہر باغبان بن سکتے ہیں۔

سید عاصم محمود کی یہ تحریر روزنامہ دنیا لاہور ، 10 نومبر 2013ء کے ڈائجسٹ ایڈیشن میں شائع ہوئی
 
بڑے پیمانے پر ٹماٹر کی کاشت
ٹماٹر پاکستان میں انتہائی مقبول سبزی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال کھانا پکانے میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹماٹر کا اہم استعمال کیچپ میں ہوتا ہے۔ اس لیٔے پاکستان میں ٹماٹر کی کاشت کسان کے لیٔے منافع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیٔے ضروری ہے کہ ٹماٹر کی کاشت جدید پیداواری طریقہ کار سے کی جانی چاہیے۔ ذیل میں
زرعی ماہرین کی تجاویز پر مبنی پیداواری ٹیکنالوجی دی جا رہے ہے۔

زمین کا انتخاب
ٹماٹر کے لیٔے اچھی نکاسیٔ آب کی حامل زرخیز زمین کو منتخب کیا جائے۔
وقتِ کاشت
جولائی تا ستمبر
پنجاب
جولائی تا اکتوبر
سندھ
ستمبر، اکتوبر یا اپریل
بلوچستان
جون تا اگست
خیبر پختونخواہ
نرسری کی تیاری
زمین پر ایک فٹ اونچے، چار فٹ چوڑے اور چھ فٹ لمبے بیڈ بنا لیں۔ اور چوڑائی کے رُخ آدھا انچ گہری لائنیں بنائیں جن کا کا درمیانی فاصلہ کم سے کم ۲ انچ تک ہو۔ اس مقصد کے لیٔے ڈیڑھ انچ قطر کا سریہ یا چھڑی بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
بعد ازاں بیج کو ان لائینوں کے درمیان اس طرح ڈالیں کہ بیج ایک دوسرے کے اوپر نہ آئیں۔ پھربیجوں کو مٹی سے ڈھانپ دیں اور مناسب مقدار میں پانی لگا دیں۔
نرسری کی منتقلی
تیارشدہ نرسری کی منتقلی سے ۲ دن پہلے نرسری میں پانی دینا بند کر دیں تاکہ پودے سخت جان ہو جائیں۔ اور پھر منتقلی سے تقریباً ۲ یا ۳ گھنٹے پہلے پانی لگائیں تاکہ پودوں کو اُکھاڑنا آسان ہو سکے۔
شرحِ بیج
گرام فی ایکڑ80 تا60
فی ایکڑ10,000 سے 8,000 : پودوں کی تعداد
طریقہِ کاشت
فٹ کی پٹڑی5 فٹ سے4.5
دو طرفہ بیجائی کی صورت میں
فٹ1.5
پودے سے پودے کا فاصلہ
کھادوں کا استعمال
بوری پوٹاش 2+ بوری ہوریا 1/2+ بوری ڈی اے پی 2
بیجائی کے وقت
آدھی بوری یوریا
پہلی کھاد کے
ہفتے بعد 4-3
ایک نائٹروفاس
دوسری کھاد کے
ہفتے بعد 4-3
نرسری کی منتقلی کے دوران جڑوں کو کسی کمرشل اور قابلِ اعتماد بائیو فرٹیلائزر کے محلول میں ۲۰منٹ کے لیٔے بھگو کر کھیت میں لگانا مفید ہو سکتا ہے۔
بائیو فرٹیلائیزر کا استعمال
فصل اور زمین کی ضرورت کے مطابق مائیکرو نیوٹرینٹ والی کھاد کا استعمال کیا جانا ضروری ہے۔
دیگر مائیکرو نیوٹرینٹ کھادوں کا استعمال
آبپاشی
نرسری کھیت میں منتقل کرتے وقت پانی دینا ضروری ہے اور بعد میں ہفتہ وار پانی لگائیں۔ موسمی صورتِ حال اور فصل کی ضرورت کے مطابق پانی کی مقدار اور وقفے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
ٹماٹر کی بیماریاں اورکیڑے اور انکا تدارک
ٹماٹر کے پودے پر تیلا، سفید مکھی، چور کیڑا اور لیف مائینر کا حملہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جڑوں کا گلنا اور جراثیمی سوکھنا عام بیماریاں ہیں جن کے تدارک کے لیٔے محکمۂ زراعت کے نمائندے کے مشورے سے ادویات کا استعمال کریں۔
وقتِ برداشت
پھل کی برداشت ضرورت کے مطابق کریں ارو اگر پھل دور لے کر جانا مقصود ہو تو پھل کو سبز حالت میں برداشت
کرلیں۔
 
"نرسری کی منتقلی " اور "پھل کی برداشت"سے کیا مراد ہے؟
میرے خیال سے نرسری کی منتقلی سے مراد یہ ہے کہ نرسری میں جو پودے لگ جاتے ہیں ان کو گملے میں ڈالنے اور بیچنے یا پھر گھر میں رکھنا ہے اور سخت سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ نے نرم حالت میں اکھاڑ لیا تو پھر یہ آکیسجن لگنے سے جل جائے گا اسی لیئے اس کو کچھ دن پانی نہ دیکر سخت کیا جاتا ہے اور اکھاڑ لیا جاتا ہے گملے میں لگانے کے لیئے
 
"نرسری کی منتقلی " اور "پھل کی برداشت"سے کیا مراد ہے؟

نرسری کی متنقلی سے مراد یہ ہے کہ پہلے تھوڑی سی جگہ پر کافی مقدار میں قریب قریب بیج لگا کر پودے اگانا مقصود ہوتا ہے۔ جب پودے اگ جاتے ہیں تو پھر بالشت بھر پودوں کو اس جگہ سے نکال کر باقاعدہ کاشت کرنے والی جگہ پر منتقل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جسے عرف عام میں پنیری کہا جاتا ہے۔

بہت سے لوگ تو صرف پنیری کا کاروبار کرتے ہیں یعنی وہ بیج سے پودا اگاتے ہیں اور پھر انہیں مناسب وقت آنے پر نرسری سے نکال کر سوتلی کی گیلی بوری میں لپیٹ کر آگے کاشت کرنے والوں کو بیچتے ہیں۔ ٹماٹر ، بینگن، ہری مرچ، بھنڈی، وغیرہ کی پنیری ہم تقریباََ منڈی سے لایا کر اپنے ہاں بو دیا کرتے تھے کیوں کہ بیچ سے پودا اگنا اور پھر بالشت بھر ہونے کا مرحلہ کافی نازک ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے موسم کے حوالے سے کئی قسم کی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ پودوں کو کہیں منتقل کرنے سےپہلے پانی دینا بند کر دینے کی وجہ میرے ابو یہ بتاتے تھے کہ اس سے پودے پانی کی تلاش کے لیے نئی جڑیں نکالنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے نئی جگہ پر جا کر وہ زیادہ طاقت سے آسانی سے ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔

پھل برداشت کرنا مجھے تو پھل توڑنا لگا۔ اس میں ظاہر ہے پھل اگر درخت کے ساتھ ہی پکا ہوا توڑیں گے تو وہ زیادہ عرصے نہیں رہ پائےگا دوسرے یہ کہ پکا ہوا پھل نازک ہونے کی وجہ سے سفر کی سختیاں بھی نہیں جھیل پاتا۔ اس لیے سبزحالت میں توڑا جاتا ہے اور پھر بھوسے کے بیچ میں رکھ کر اسے آرام سے پکایا جاتا ہے اسی دوران وہ سفر بھی طےکر لیتا ہے۔
 
Top