لارڈمیکالے کا نظام تعلیم اور اس کے اثرات ونتائج !

لارڈمیکالے کا نظام تعلیم اور اس کے اثرات ونتائج
ربط

برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظام سیاست کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کا ہر شعبہ تہہ وبالا کردیا تھا‘ وہاں تعلیم کے شعبہ کا متاثر ہونا ایک لازمی بات تھی‘ تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علمبردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی۔
بقول ڈاکٹر احسن اقبال:
”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں۔ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لئے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لئے‘ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لئے کوئی نظم نہ تھا“۔(۱)

دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درسگاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی‘ اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے‘ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیئے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔ (۲)

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی‘ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لئے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی‘ جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷ء)‘ بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱ء) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳ء) وغیرہ وغیرہ۔(۳)

۱۸۳۳ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لئے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔ (۴)

ان پادری حضرات نے اہل ہند کے مذاہب خاص کر دین اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا‘ جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ مولانا منصور علی خان اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہل باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔ (۵)

دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا جب ہندوستانیوں کے لئے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھی اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی پر نسپ صاحب سیکریٹری ایشاٹک سوسائٹی تھے جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے‘ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈمیکالے (T.B Macaulay)تھے جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور مؤید تھے بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکة) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی‘ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:

”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے ،جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے‘ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے‘ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں․․․․“۔
”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی‘ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے‘ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے‘ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے․․․ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“۔(۶)


”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے‘ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر‘ فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے․․․․ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔(۷)

بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں‘ انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا‘ استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں‘ انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟“۔
”․․․․عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کررہے ہیں‘ یہ حق ہے‘ بلکہ غلط کاروں کی پرورش وتربیت کے لئے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے‘ اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کررہے ہیں جن میں نہ صرف بے یارو مددگار‘ بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں‘ بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ دراہوں گے‘ اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہوگا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی․․․․“ (۸)


”․․․․․عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے‘ بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے‘ لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے‘ ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق․․․․جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں‘ ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے“۔(۹)
”․․․․میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۱۳ء کے پابند نہیں ہیں‘ نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایةً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہئے جو بہترین طور پر شایان مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان‘ عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لئے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں‘ انہیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لئے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے“۔(۱۰)”․․․․․میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتاہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے‘ میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکة کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا‘ اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو السنہ الشرقیہ کے فروغ کے لئے کافی ہوگا بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے‘ اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے۔ (۱۱)

وہ اس نظریہ تعلیم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”․․․․فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لئے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں‘ ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق ‘ ذہن‘ اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو ․․․․“۔(۱۲)

تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا‘ تب لارڈمیکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجراء کا راستہ ہمیشہ کے لئے ہموار کردیا۔(۱۳)
ثمرات ونتائج

بالعموم ملک کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے اس فیصلہ کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلہ کے ذریعے دراصل ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا یعنی اس نظام نے علی گڑھ تحریک کو جنم دیا اور علی گڑھ تحریک نے پاکستان کو جنم دیا۔

بقول صلاح الدین احمد:
آج ہم اس مملکت میں ایک باوقار اور آزاد زندگی اس طرح بسر کررہے ہیں‘ گویا یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر سرسید قومی وحدت اور قومی ہستی کی وہ بنیاد استوار نہ کرتے جس پر تحریک علی گڑھ کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور قومی احساس اور روشن خیالی کی وہ شمع روشن نہ کرتے جو آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر انہوں نے روشن کی اور ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کے صحیح انداز سے روشناس نہ کراتے تو آج ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“۔ (۱۴)

حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں‘ گمراہ کن بھی ہے۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے حوالے سے علی گڑھ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام‘ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے توسط سے علی گڑھ سے جا ملتا ہے‘ لیکن کیا محض اس وجہ سے علماء ہند اور ان ہزاروں مسلمانوں کی جد وجہد آزادی سے بیک جنبش قلم انکار کردیا جائے جو مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے یا بالفاظ دیگر تحریک علی گڑھ سے وابستہ نہ تھے‘ جس نے بقول ان کے مسلمانان ہند کو ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلاکر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تاریخ نہ تو عدل وانصاف پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندو ومسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ پھر مسلمانوں میں بھی علماء ہند کی جد وجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی دلخراش داستانیں کالاپانی (خلیج بنگال) سے لے کر مالٹا (بحیرہ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔ جب کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کا دامنِ تاریخ اس قسم کی قربانیوں سے تقریباً خالی ہے‘

رہی موصوف کی یہ بات کہ” سرسید کی تحریک نے ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا‘ ورنہ ہم لوگ ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“

تو اس کا جواب صرف یہی دیا جاسکتا ہے کہ امت کے سواد اعظم نے سلف صالحین کا دامن پکڑتے ہوئے سرسید کی مذہبی تعبیرات کو قطعاً رد کردیا ہے۔ جو بقول مولانا ابو الکلام آزاد:
”یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں‘ بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے“۔ (۱۵)
اب اگر کوئی روشن خیال سلف سے روگردانی کرتے ہوئے سرسید کی ان تعبیرات کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے مبارک ہو۔

۲- اس فیصلہ کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ جو زیادہ تر مسلمان تھا‘ پس منظر میں چلاگیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا ،جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے زبردست جد وجہد کی ،جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا ،جیساکہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپریل ۱۸۷۱ء میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے‘ نہایت ہی مایوس کن ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے جن پر ہندو‘ مسلمان اور انگریز سب فائز ہوسکتے ہیں‘ اس کے مطابق کل ۲۱۱۱ آسامیوں میں یورپئین کی تعداد ۱۳۳۸‘ ہندو ۶۸۱ اور مسلمان فقط ۹۲ ہیں۔ (۱۶)
ہائی کورٹ کے وکلاء کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرتناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۸۵۱ء تک کل دوسو چالیس ہندوستانی داخل کئے گئے جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔
(۱۷)ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر مزید لکھتاہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیئے ہیں‘ مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے‘ بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے‘ ہندو اسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندو انگریزی خوب سیکھتے ہیں‘ اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی جو فارسی زبان جانتا تھا“۔(۱۸)

۳- سرسید احمد خان نے برصغیر پاک وہند میں لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی‘ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے‘ جیساکہ آپ لارڈمیکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:”․․․․ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے‘ بلکہ دھوکہ میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈمیکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھادیا تھا“۔ (۱۹)

علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کئے گئے ہیں:
”․․․․․ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کرسکیں اور زمانہ سلف کے دھوکہ دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں․․․․ اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق وکار آمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں‘ بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے․․․․“۔(۲۰)

بدقسمتی سے آج کی طرح اس دور میں بھی مسلمانوں کی تنزلی کا واحد علاج انگریزی کے حصول میں سمجھ لیا گیا تھا۔ بقول شیخ اکرام:
”․․․․․مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انہیں جو نئے مسائل پیش آرہے تھے‘ وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لئے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور وہ اس سے بدکتے تھے․․․․“۔ (۲۱)

اور مشکلات کا یہ ہفت خوان سرسید احمد خان نے سرکیا جس میں حکومت برطانیہ نے دامے درمے سخنے ان کی مکمل مددکی۔ لارڈناتھ بروک وائسرائے وگورنر جنرل ہند نے اپنی جیب سے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا‘
سرولیم میور نے (یوپی کے گورنر جس نے ذات اقدس ا پر رکیک حملے کئے تھے) ایک ہزار دیا اور دوسرے انگریز افسروں نے بھی مدد کی‘ اس طرح بالآخر ۸/جنوری ۱۸۷۷ء کو لارڈلٹن کے ہاتھوں ایم اے او کالج علی گڑھ کا افتتاح ہوا۔(۲۲)
جاری
حوالہ جات وحواشی
____________________________________
۱- اقبال حسن خان‘ ”شیخ الہند مولانا محمود حسن‘ حیات اور علمی کارنامے“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۱۹۷۳ء ص:۳۹۔
۲- منگلوری‘ طفیل احمد‘ سید‘ ”مسلمانوں کا روشن مستقبل“ حماد الکتبی شیش محل روڈ لاہور (س ن) ص:۱۶۲-۱۶۴۔
۳- ایضاً ص:۱۶۸-۱۶۹۔۴- ایضاً ص:۱۷۰۔
۵- الف: رضوی‘ سید محبوب‘ ”مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میرمحمد کتب خانہ مرکز علم وادب آرام باغ کراچی جلد۱‘ص:۱۱۷-۱۲۰۔
ب۔ الحسنی ‘ سید محمد‘ ”سیرت مولانا محمد علی مونگیری“ مجلس نشریات اسلام کراچی (س ن) ص:۴۵-۶۹۔
۶- بخاری‘ سید شبیر‘ ”میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار‘ انارکلی لاہور ۱۹۸۶ء ص:۳۰-۳۳۔
۷- ایضاً ص:۳۳-۳۴۔ ایضاً ص:۳۷-۴۰۔ ۹-ایضاً ص:۴۲-۴۳۔
۱۰- ایضاً ص:۴۴-۴۵۔۱۱- ایضاًص:۴۶۔۱۲- ایضاً ص:۴۵۔
۱۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۱۷۰-۱۷۱
۱۴- حالی‘ الطاف حسین‘ مولانا ”حیات جاوید“ آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور‘ ۱۹۶۶ء سرسید احمد خان پر ایک نظر ص:۴۶-۴۷
۱۵- ملیح آبادی‘ عبد الرزاق‘ ”ذکر آزاد“ مکتبہ جمال اردو بازار لاہور ۲۰۰۶ء ص:۱۵۲۔
۱۶- ہنٹر ‘ ڈبلیو ڈبلیو‘ آئی سی ایس بنگال‘ ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ مترجم ڈاکٹر صادق حسین دفتر اقبال اکیڈیمی ظفر منزل تاج پورہ لاہور ۱۹۴۴ء ص:۲۳۴-۲۳۵۔
۱۷- ایضاً ص:۲۳۸-۲۳۹۔ایضاً ص:۲۴۵۔ ۱۹-حیات جاوید ص:۴۰۲۔
۲۰- زبیری ‘ محمد امین‘ مولوی‘ ”تذکرہ سرسید“ پبلشر زیونائیٹڈ انار کلی لاہور (س ن) ص:۶۴-۶۵۔
۲۱- اکرام‘ شیخ محمد‘ ”موج کوثر“ ادارہ ٴ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۹۲ء ص:۷۷
۲۲- ایضاً ص:۸۸-۱۹
 
تو ڈاکٹر عبدالسلام جیسے ہندوستانی نوبیل انعام کیسے لے گئے اسی نظام تعلیم کے ذریعے؟ :)

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی‘ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لئے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی‘ جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷ء)‘ بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱ء) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳ء) وغیرہ وغیرہ۔(۳)
۱۸۳۳ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لئے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔ (۴)
دوم ڈاکٹر صاحب نے اعلی تعلیم کیمرج یونیورسٹی سے حاصل کی تھی
That same year, he was awarded a scholarship to St John's College, Cambridge, where he completed a BA degree with Double First-Class Honours in Mathematics and Physics in 1949.[25] In 1950, he received the Smith's Prize from Cambridge University for the most outstanding pre-doctoral contribution to Physics.[26] After finishing his degrees, Fred Hoyle advised Salam to spend another year in the Cavendish Laboratory to do research in experimental physics, but Salam had no patience for carrying out long experiments in the laboratory.[23] Salam returned to Jhang, Punjab (now part of Pakistan) and renewed his scholarship and returned to the United Kingdom to do his doctorate.[23]
He obtained a PhD degree in Theoretical Physics from the Cavendish Laboratory at Cambridge.[27][28] His doctoral thesis contained comprehensive and fundamental work in quantum electrodynamics.[29] By the time it was published in 1951, it had already gained him an international reputation and the Adams Prize.[30] During his doctoral studies, his mentors challenged him to solve within one year an intractable problem which had defied such great minds as Dirac and Feynman.[23] Within six months, Salam had found a solution for the renormalisation of meson theory. As he proposed the solution at the Cavendish Laboratory, Salam had attracted the attention of Bethe, Oppenheimer and Dirac.[23]
 

عثمان

محفلین
طعنہ آمیزی اور الزامی گفتگو سے بہتر ہے کہ حقائق اور دلیل سے بات کی جائے
حقائق اور دلائل سے بات کرنے کا شوق ہے تو کاپی پیسٹ لت سے چھٹکارا پا کر خود سے کچھ لکھنا سیکھیے۔ ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے مغلوں والے دھاگے میں اسی قسم کے موضوع پر مدلل مکالمہ ہوچکا ہے۔
 
حقائق اور دلائل سے بات کرنے کا شوق ہے تو کاپی پیسٹ لت سے چھٹکارا پا کر خود سے کچھ لکھنا سیکھیے۔ ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے مغلوں والے دھاگے میں اسی قسم کے موضوع پر مدلل مکالمہ ہوچکا ہے۔

ذرا منطق اور عقل کا اعلی نمونہ ملاحظہ کیجئے ، کہ حقائق اور دلائل سے بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ کاپی پیسٹ سے چھٹکارا پا لے ،
صاحب، میں نے اردو ویب پر تلاش کیا تھا تو مجھے اس موضوع ( لارڈ میکالے کا نظام تعلیم ) پر کوئی تحریر نہیں ملی ، آپ مہربانی فرما کر اس مغلوں والے مبینہ دھاگے کا ربط عنایت فرمائیں


لارڈمیکالے کا نظام تعلیم اور اس کے اثرات ونتائج(آخری قسط)

علی گڑھ کالج (جو بعد میں مسلم یونیورسٹی بنا) نے مسلمانوں کی تعلیم وترقی میں جو نمایاں خدمات سرانجام دیں اگرچہ ان کی فہرست بڑی طویل ہے

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شبلی اور حالی کی طرح سرسید کے رفقاء بھی علی گڑھ کالج کے نتائج سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے‘ جیساکہ علامہ شبلی جنہوں نے سرسید کے ساتھ سولہ سال علی گڑھ میں مل کرکام کیا‘ اس کے پست معیار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مولوی محمد سمیع کے نام خط میں لکھتے ہیں:
”․․․․․معلوم ہوا کہ انگریزی خوان فرقہ، نہایت مہمل فرقہ ہے‘ مذہب کو جانے دو‘خیالات کی وسعت‘ سچی آزادی‘ بلند ہمتی ‘ ترقی کا جوش برائے نام نہیں‘ یہاں ان چیزوں کا ذکر تک نہیں آتا‘ بس خالی کوٹ پتلونوں کی نمائش گاہ ہے․․․“۔ (۲۳)
جب کہ مولانا حالی کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبد الحق کہتے ہیں:

”جدید تعلیم کے بڑے حامی تھے اور اس کی اشاعت اور تلقین میں مقدور بھر کوشش کرتے رہے لیکن آخر عمر میں ہمارے کالجوں کے طلباء کو دیکھ کر انہیں کسی قدر مایوسی ہونے لگی تھی‘ مجھے خوب یاد ہے کہ جب ان کے نام حیدر آباد میں ایک روز اولڈ بوائے آیا تو اسے پڑھ کر بہت افسوس کرنے لگے کہ اس میں سوائے مسخرے پن کے کچھ بھی نہیں ہوتا‘ انہیں علی گڑھ کے طلباء سے اس سے بڑھ کر توقع تھی“۔ (۲۴)

غرض یہ کہ علی گڑھ نے ہندوستانی طلباء میں انگریزی تعلیم اور تہذیب وثقافت کا وہ صحیح ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا جس کا خواب لارڈ میکالے نے دیکھا تھا اور جس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرسید مرحوم نے اس ادارہ کی بنیاد رکھی تھی‘ جسے بعد میں آنے والوں نے مزید آگے بڑھایا یہاں تک کہ

نوبت بایں جارسید‘ بقول مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم:

”․․․․ہمیں اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں کہ ہماری اولاد کافر اٹھے گی‘ بے دین اٹھے گی‘ کیا اٹھے گی‘ ہمیں محض اس چیز سے تعلق ہے کہ جب یہ ہمارا بیٹا کسی انٹرویو میں جائے گا تو انگریزی اس طرح سے بولے گا کہ اب تک انگریز کا جانشین جو کرسی پر موجود ہے‘ وہ مرعوب ہوجائے گا ۔اس کے علاوہ اور کوئی مقصد ہمارا نہیں ہوتا اور اس کی خاطر ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ ہماری اولاد مسلمان نہ رہے‘ نہ رہے تو کیا بات ہے․․․“ (۲۵)

۴- حقیقت یہ ہے کہ گلوبل ویلج کے اس دور میں انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور ویسے بھی علمی لحاظ سے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور غالباً انہی ضرورتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمارے اکابرین نے شروع ہی سے اس کے سیکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا‘ جیساکہ سرسید احمدخان کے ہم عصر مولانا عبد الحئی فرنگی محلی ارشاد فرماتے ہیں:”․․․․لغت انگریزی کا پڑھنا یا انگریزی لکھنا، سیکھنا اگر بلحاظ تشبہ ومحبت ہو تو ممنوع ہے اور اگر اس لئے ہو کہ ہم انگریزی میں لکھے ہوئے خطوط پڑھ سکیں اور ان کتابوں کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ مشکوٰةشریف میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو یہود کا خط سیکھنے کے لئے حکم فرمایا اور انہوں نے تھوڑے دنوں میں اسے سیکھ لیا ․․․“۔(۲۶)حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے فتاویٰ میں انگریزی پڑھنے پڑھانے کے جواب میں تحریر ہے کہ:
”․․․․انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ آئے․․․“۔(۲۷)

اسی طرح دار العلوم دیوبند کی اساسی شخصیت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا واقعہ ہے کہ جب انہیں سفر حج کے دوران ایک انگریزی خواں کپتان سے ترجمان کے ذریعہ گفتگو کرنے میں دقت محسوس ہوئی تو آپ نے مصمم ارادہ فرمایا کہ واپس ہونے کے بعد خود انگریزی زبان سیکھوں گا تاکہ اس زبان میں گفتگو پر اچھی طرح قادر ہوسکوں۔ (۲۸)
جب کہ مولانا سید محبوب رضوی نے ان اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے ہوئے بڑے جامع انداز میں لکھا ہے کہ:
”․․․․․انگریزی تہذیب وکلچر انگریزی تعلیم کے ساتھ لازم وملزوم بن گئے تھے اور انہیں کو ذریعہ ترقی وتہذیب سمجھا جاتا تھا‘ علماء صرف اس چیز کے خلاف تھے․․․․“۔(۲۹)
”․․․․․سرسید کی یہی انتہاء پسندی تھی جس نے انگریزی زبان کی تعلیم کے ساتھ انگریزی کلچر کو بھی ضروری قرار دیا اور صرف انگریزی تعلیم کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ انگریزی کلچر کی تربیت گاہ کی حیثیت سے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی جس کے نتیجے میں وہ اختلافات برپا ہوئے جس کا شور آج تک کانوں میں گونج رہا ہے ․․․․“ (۳۰)
ناقدین
۱- برصغیر کے جن مسلم اکابرین نے اس نظریہ تعلیم کو خصوصیت سے ہدف تنقید بنایا ہے‘ ان میں مولانا ابو الکلام آزاد سرفہرست ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

”․․․․․تاریخ اس طرز تعلیم کے لئے کوئی جواز پیش کرنے سے قاصر ہے‘ جس کی میکالے نے ڈالی تھی۔ میکالے کی یہ دلیل کہ سنسکرت اور فارسی کو ذریعہ تعلیم نہیں قرار دیا جاسکتا‘ غلط نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حجت لغو ہے کہ ذریعہ تعلیم صرف انگریزی زبان ہو سکتی ہے“۔(۳۱)

آپ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ وہ کون سی زبان ہونی چاہئے جسے برصغیر کی اقوام کے لئے ذریعہ تعلیم بنایاجائے‘ تاہم ایک مستند عالم دین اور عبقری شخصیت ہونے کے ناطے ظاہر ہے کہ آپ کی پسندیدہ زبان (Choice)عربی ہی ہو سکتی ہے جو آپ کی مادری زبان بھی تھی۔ ورنہ کم از کم اردو‘ جس کے آپ صاحب طرز ادیب تھے۔

۲- علامہ مناظر احسن گیلانی اسلامی نظام تعلیم وتربیت کے فیوض وبرکات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

”․․․․․اور یہ سلسلہ اس وقت تک باقی رہا جب تک بجائے مشرق کے مغرب سے ایک عجیب تعلیم اور غریب تربیت کا آفتاب طلوع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد تو خیر قیامت ہی برپاہوگئی۔ ہند میں بھی‘ مصر میں بھی‘ ترکی میں بھی‘ ایران میں بھی‘ حتی کہ اب تو اس کی شعاعیں عرب کو بھی گرمارہی ہیں اور اسلام غریب کا آخری کوہستانی حصار یا پناہ گاہ افغانستان بھی اس کی روشنی نماتاریکی میں بتدریج گھرتاچلا گیا۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امراً․․․“۔(۳۲)

۳- شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسے دین ومروت کے خلاف ایک سازش قرار دیا‘ جیساکہ آپ ضرب کلیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
اک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
اس کی تقدیر میں محکومی ومظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
جب کہ کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف (۳۳)

ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:

یہ مدرسہ‘ یہ کھیل‘ یہ غوغائے روارو
اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو (۳۴)

۴- اردو شعراء میں اکبر الٰہ آبادی سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے اس نظام تعلیم پر تنقید کی ہو‘ جیساکہ آپ جدید تعلیم پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

نقص تعلیم سے اب اس کی سمجھ ہی نہ رہی
دل تو بڑھ جاتا تھا اجداد کے افسانے سے
شیخ مرحوم کا قول اب مجھے یاد آتا ہے
دل بدل جائے گا تعلیم بدل جانے سے
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ ومسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھاڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
مسجدیں سنسان ہیں اور کالجوں میں دھوم ہے
مسئلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے
بے سبب زیں لائبریرہا مرااکراہ نیست
ہرکتابہ ٴ را کہ بکشاد یم بسم اللہ نیست
نئی تعلیم میں تقوے کا وہ اکرام کہاں
ناز بے حد ہیں مگر غیرتِ اسلام کہاں
توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسولاہٹا تو رندا ہے
مسٹر نقلی کو عقبیٰ میں سزا کیسی ملی
شرح اس کی نامناسب ہے جیسی ملی
اس نے بھی لیکن ادب سے کردیا یہ التماس
چارہ کیا تھا اے خدا تعلیم ہی ایسی ملی
برگڈ کواٹا لے سے نزدیک کروں کیونکر
روٹی کے لئے کالج جنت کے لئے مسجد
مے فروشی کو تو روکوں گا میں باغی ہی سہی
سرخ پانی سے بہتر ہے مجھے کالاپانی
یہ مغربی ترقی اخلاق کی عدو ہے
گھر گھر ہے اس کا چرچا یہ ذکر کو بہ کو ہے
عمدہ حدیث اکبر چاہو جو یاد کرنی
رکھو نظر کے آگے خیر القرون قرنی
دینی طریق کو اب سمجھے ہیں اک تماشا
کالج کے کورس پر ہم گرتے ہیں بے تحاشا
وہ فخر امر دینی دل سے نکل گیا ہے
عزت کا ادب تو ہم میں حس ہی بدل گیا ہے
حس سے کہاں مفر احساس ہے تو سب کچھ
ہوجائے پاس لڑکا اور یاس ہے تو سب کچھ
(۳۵)

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا جنہوں نے اکبر الٰہ آبادی پر ”پی ایچ ڈی“ کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے کے مطابق‘ آپ کے نزدیک ہندوستان میں انگریزی تعلیم سے لوگوں کو صرف یہ فائدہ ہوا کہ:
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کرگئے ۔
بی اے کیا‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی اور مرگئے
(۳۶)
بقول پروفیسر سید محمد سلیم

”․․․․․لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو اگر تعلیم برائے ملازمت کا عنوان دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اور دنیا میں شایدہی کسی نے نظام تعلیم کا مقصد اتنا پست مقرر کررکھا ہو“۔(۳۷)

۵- اس بحث کو ختم کرنے سے قبل بابائے اردو مولوی عبد الحق مرحوم کے ایک خطبے کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں جو انہوں نے بلوچستان ٹیچر ایسوسی ایشن کے سالانہ جلسہ کے موقع پر دیا تھا:
”․․․․انگریزی حکومت میں ہماری تعلیم کا جو ڈول ڈالا گیا تھا‘ اس کا مقصد ہمیں علم سکھانا نہ تھا بلکہ اس کی تہہ میں زیادہ تر سیاسی اغراض تھیں۔ اہل حکومت صاف کہتے تھے کہ ہم مٹھی بھر آدمی ایک ایسے وسیع ملک اور ایسی آبادی میں ہیں جن کی کوئی بات ہم سے نہیں ملتی۔ رنگ وروپ‘ مذہب واخلاق‘ رسم ورواج‘ تہذیب وتمدن غرض ہر چیز میں ہم سے مغائر ہیں۔ ایک قوم کو بہ زور شمشیر فتح کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس سے مغائرت اور نفرت کم نہیں ہوتی، بڑھتی ہے․․․․اس خطرہ سے بچنے کی صرف ایک ہی تدبیر ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ اہل ہند کو فاتح کی تہذیب اور تمدن میں ڈھال لیا جائے اور یہ تہذیبی فتح انگریزی زبان کے ذریعے پوری علم وحکمت کی تعلیم دینے سے ہوسکتی ہے“۔(۳۸)
”․․․․ایک اور بات جو انگریزی کی تعلیم کی محرک ہوئی ‘ وہ یہ تھی کہ دفتروں میں انگریزی داں کلرکوں اور اس قسم کی چھوٹی موٹی ملازمتوں کی ضرورت تھی۔ انگریز کم تنخواہ پر کہاں کام کرتے‘ انگریزی پڑھے لکھے ہندی بہت سستے ملنے لگے‘ اس میں سرکاری کفایت مدنظر تھی“۔(۳۹)آپ فرماتے ہیں کہ:
”․․․سب سے بڑا نقص جو اس تعلیم میں ہے وہ یہ کہ اس تعلیم کے بندے اپنی روایات وتہذیب اور اپنے اخلاق اور تاریخ سے بیگانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ چیزیں جو قومیت کی بنیاد ہیں‘ ان کی نظروں میں حقیر معلوم ہونے لگتی ہیں‘ وہ مغربی تہذیب ورسوم کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور مغرب کی نقالی ان کا سب سے بڑا ہنر ہوتا ہے۔ ان کا اب ایک فرقہ بن گیا ہے جو قومی نظام کے لئے نہایت خطرناک ہے“۔(۴۰)
غرض یہ کہ اگر لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو موصوف کے اصل نام (T.B. Macaulay) کی مناسبت سے مسلم تہذیب وتمدن کے حق میں حقیقی T.Bکا مصداق قرار دیا جائے جو اسے تا حال دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔
حوالہ جات وحواشی
_______________________________________________________
۲۳- شبلی نعمانی‘ ”مکاتیب شبلی“ مرتبہ سید سلیمان ندوی‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد طبع اول ۱۹۷۹ء حصہ اول ص:۴۵۔
۲۴- موج کوثر ص:۲۲۸
۲۵- محمد سعید‘ حکیم‘ ”مقالات شام ہمدرد“ مکتبہ جدید لاہور ۱۹۶۹ء ص:۷۱-۷۲
۲۶- عبد الحئی فرنگی محل‘ مولانا‘ ”مجموعة الفتاویٰ“ اردو ترجمہ شہزاد پبلشرز جان محمد روڈ انار کلی لاہور (س ن) جلد ۱‘ص:۱۲۱)
۲۷- گنگوہی‘ رشید احمد‘ مولانا ”فتاویٰ رشیدیہ کامل“ ایچ ایم سعید کراچی ۱۳۹۵ء ص:۲۷۳
۲۸- گیلانی‘ مناظر احسن‘ علامہ‘ ”برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت“ ۲۰۰۶ء جلد ۲‘ ص:۴۰
۲۹- مکمل تاریخ دار العلوم دیوبند جلد ۲‘ ص:۳۰۸
۳۰-میاں‘ سید محمد‘ مولانا‘ ”علماء ہند کا شاندار ماضی“ مکتبہ محمودیہ کریم پارک لاہور (س ن) جلد ۴‘ص:۴۰۳
۳۱- شاہجہان پوری‘ ابوسلمان‘ ڈاکٹر‘ ”فیضان ابو الکلام آزاد“ مکی دار الکتب میکلیگن روڈ لاہور ۲۰۰۴ء ص:۲۵۲
۳۲- برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت جلد ۲‘ ص:۲۷۸
۳۳- اقبال ‘ محمد‘ ڈاکٹر ”کلیات اقبال اردو“ نیشنل بک فاؤنڈیشن لاہور ۱۹۹۹ء ص:۵۹۹
۳۴- ایضاً ص:۶۷۸ ۳۵- اکبر الٰہ آبادی‘ سید اکبر حسین‘ ”کلیات اکبر“ فرید بک ڈپولمیٹڈ نئی دہلی (س ن) ص:۸۹‘ ۳۲۳‘ ۳۵۹‘ ۳۷۳‘ ۴۳۱‘ ۵۰۰‘ ۵۹۷‘ ۶۳۲‘ ۶۸۵‘
۳۶- زکریا‘ خواجہ محمد‘ ڈاکٹر‘ ”اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقیدی مطالعہ“ سنگ میل پبلی کیشنز چوک اردو بازار لاہور ۱۹۸۶ء ص:۱۷۵
۳۷- سلیم‘ سید محمد‘ پروفیسر‘ ”مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ“ ادارہٴ تعلیمی تحقیق‘ تنظیم اساتذہ پاکستان ۱۹۸۹ء ص:۱۱۹
۳۸- عبد الحق مولوی‘ بابائے اردو‘ ”خطبات عبد الحق“ گلڈ‘ انجن کتاب گھر وکٹویہ روڈ کراچی ۱۹۶۴ء ص:۴۰۲‘۴۰۳۔
۳۹- ایضاً ص:۴۰۴ ۔ ۴۰- ایضاً۔
 
http://dailyaaj.com.pk/urdu/لارڈ-میکالے-زیادہ-غلط-بھی-نہیں-تھا/
لارڈ میکالے زیادہ غلط بھی نہیں تھا

تھامس میکالے (Thomas Babington Macaulay) جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے 1835میں اپنے ’’تعلیم کے بارے میں مقالے‘‘ کے ذریعے ہندوستان میں ایسے نظام تعلیم کی وکالت کی جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی ایک ایسی کلاس پیدا کی جائے جو انگریز کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرے۔ ان میں سے اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جنرل ڈائر اور ماؤنٹ بیٹن ہی اصل میں مجرم ہیں کیونکہ لارڈ کلائیو نے اپنی کمپنی کے لئے بہترین کارنامہ سرانجام دیا ‘لارڈ میکالے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کو غلط طور پر مورد الزام قرار دیا گیا ہے یہ بہت ضروری ہے کہ میکالے کے بارے میں ذرا تفصیل سے تفتیش کی جائے اور محض سنی سنائی باتوں اور الزامات سے ان کے خلاف فیصلہ نہ دیا جائے۔
عام ہندوستانیوں کے اندر میکالے کی تعلیم کے بارے میں منٹس (Minutes on Education) سے دو پیراگراف بہت اجاگر کیے گئے ہیں۔’’میں مشرقی علوم کے بارے میں ان کے عالموں کی رائے لیتا رہتا ہوں‘اس بات پر سب متفق ہیں کہ یورپ کی کسی بھی اچھی لائبریری کے صرف ایک شیلف میں ہی ہندوستان کی تمام عربی اور ہندوستانی علوم کے لٹریچر سے بہتر علم موجود ہے ‘‘۔اور اس سے بھی زیادہ بدنام زمانہ قول یہ ہے کہ ’’ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جو ہمارے اور ان لاکھوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کر سکے جن پر ہم حکمرانی کر رہے ہیں‘افراد کا ایسا طبقہ جو رنگ اور نسل سے ہندوستانی ہو لیکن کردار ‘خیالات اور اخلاقی لحاظ سے انگریز ہو ‘‘۔ان اقوال کی بنیاد پر ان کے مخالفین نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کو تباہ کردیا اور ہندوستان میں مالدار اور غریب طبقوں کے درمیان خلیج کو وسیع کیا۔
جنوبی ایشیاء کے بہت کم لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ لارڈ میکالے کا تحریر کردہ ہندوستان کی تعلیم کے نظام کے بارے میں مقالہ جس کو (Minutes on Indian Education) کہا جاتا ہے کیا چیز تھی اور کس کے بارے میں تھا ؟اگر اس ڈاکومنٹ پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ان اقوال کے باوجود جو اوپر دیے گئے ہیں ‘میکالے ایک انتہائی صاف ذہن اوردور اندیش تجزیہ نگار تھے اور انہوں نے اپنی انتہائی بدنام رائے (unpopular) کو پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کی ۔ میکالے کی ’’تعلیم کے بارے میں منٹس‘‘ کا تعلق اس فنڈ کے بارے میں تھا جو برٹش انڈیاکی حکومت نے اپنے عوام کی علمی استعداد بڑھانے کے لئے مختص کیا تھا ۔ مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس فنڈ کو کیسے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے؟اور خاص کر یہ مسئلہ کہ تعلیمی نظام کے لئے بطور ذریعہ تعلیم کون سی زبان (Medium of instruction) استعمال کی جائے؟یہاں پر لوگ فوراً نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ میکالے نے ایک ضدی اور مغرور سامراجی حکمران کی طرح مقامی زبانوں کی بجائے انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کی سفارش کردی تھی۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کیونکہ مسئلہ یہ نہیں تھا ‘جب میکالے ہندوستان آیا تو ان کو’’ کونسل برائے تعلیم ‘‘ کا صدر بنایا گیا‘کونسل کے دس ممبر تھے اور وہ نظام تعلیم کے بارے میں تقسیم تھے ۔5ممبران کی رائے تھی کہ طریقہ تعلیم کے لئے ان کلاسیکی زبانوں کو اختیار کیا جائے جو پہلے سے ہندوستان میں رائج تھیں‘ان میں سنسکرت‘عربی اور فارسی شامل تھیں جو عام طور پر عوام میں زیادہ نہیں بولی جاتی تھیں ۔ دیگر5ممبران کا خیال تھا کہ ترقی کرنے کے لئے ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہونا چاہئے ۔ اس مباحثے میں مقامی زبانوں (پنجابی ‘ پشتو ‘ سندھی ‘ گجراتی‘تامل‘ بنگالی ‘ مہاراشٹری وغیرہ)کا ذکر ہی نہیں تھا ۔ میکالے کاووٹ فیصلہ کن تھا اور انہوں نے اپنا ووٹ انگریزی زبان کو بطورذریعہ تعلیم اختیار کرنے کے حق میں استعمال کیا اس مسئلہ پر کافی لمبی بحث ہوئی اور میکالے سے منسوب جملے جو اوپر دیے گئے ہیں شاید اس بحث کے دوران بولے گئے ہیں۔
ایک بات واضح ہے کہ ان کے بحث کی بنیاد بہت واضح ہے اور اس کا تجزیہ غیر جذباتی اور ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے ‘اس دلیل کی بنیاد کسی تعصب اور بے ایمانی پر مبنی نہیں ہے۔ میکالے کا خیال تھا کہ ہندوستان میں عام طور پر بولی جانے والی زبانیں اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیںکہ ان میں اعلی تعلیم دی جائے ‘جن زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے بحث ہورہی تھی ان میں ایک طرف عربی اور سنسکرت تھی اور دوسری طرف انگریزی تھی ۔میکالے نے صرف یہ سفارش کی تھی کہ ان زبانوں کو امداد نہ دی جائے جن کو لوگ خود بھی سیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کی رائے تھی کہ ’’عوام کو ہماری طرف سے رشوت اور ترغیب کے ذریعے کسی طرز تعلیم کو اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے ذریعہ تعلیم کا انتخاب ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ‘‘۔میکالے نے بنارس کے سنسکرت کالج اور دہلی کے اسلامی کالج کو بحال رکھنے کے حق میں رائے دی ‘ان کا خیال تھا کہ مشرقی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لئے یہی دونوں ادارے کافی ہیں۔اپنی رائے کے حق میں دلائل دینے کے لئے انہوں نے خود انگلینڈ میں زبان کی تاریخ پر روشنی ڈالی ۔
انہوں نے لکھا کہ!’’سب سے پہلے میںجس واقعہ کا ذکر کرونگا وہ مغربی اقوام میں پندرہویں صدی کے اواخر اور سولویں صدی کی ابتداء میں الفاظ کی از سر نو تشکیل (Revival) سے ہوئی ‘اس وقت ہر وہ چیز جو پڑھنے کے قابل تھی جو یا توقدیم یونانی یا قدیم رومن زبان میں تھی اگر ہمارے آباء و اجد اد اسی طرح سوچتے اور عمل کرتے جس طرح آج کی کمیٹی کا عمل ہے اگر وہ سیسرو (Cicero)(رومن سیاستدان‘وکیل‘سیاسی دانشور ‘فلاسفر106 BC-43 BCt ) اور ٹیسیٹس(Tacitus) (رومن سلطنت کا سینیٹر اور تاریخ دان 56 AD-117AD)کی زبان کو نظر انداز کردیتے اگر وہ اپنی توجہ صرف اپنی سر زمین کی پرانی زبان کی طرف رکھتے اگر وہ یونیورسٹیوں میں کچھ نہ سیکھتے اور نیا کچھ نہ چھاپتے بلکہ اپنا علم صرف اینگلو سیکسن داستانوں اور نارمن فرنچ کی رومانی داستانوں تک محدود رکھتے تو کیا انگلینڈ اس شکل میں ہوتا جس میں آج ہے۔مور(More) اور اسشام (Ascham) کے دور کے لوگوں کے لئے یونانی اور لاطینی زبانیں ایسی تھیں جیسے آج انگریزی زبان ہندوستانیوں کے لئے ہے‘‘۔( میکالے کا باقی قصہ آئندہ )
 
پچھلے کالم میں لارڈ میکالے کے انگریزی زبان کے حق میں دیے گئے دلائل پر بات ہو رہی تھی وہ آگے لکھتے ہیں کہ

۔’’دوسری مثال شاید اب بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ پچھلے 120سالوں میں ایک قوم جو بالکل اسی طرح وحشی تھی جس طرح ہمارے آباء و اجداد صلیبی جنگوں سے قبل تھے ’جہالت کے اندھیروں سے نکل کر مہذب قوموں میں شمار ہونے لگی ہے۔میری مراد روس سے ہے ’اب اس ملک میں بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے جو کسی بھی طرح پیرس اور لندن کے دانشور حلقوں سے کم ترنہیں یہ امید رکھنے کی وجوہات موجود ہیں کہ روس کی یہ وسیع سلطنت جو شاید ہمارے آباء و اجداد کے زمانے میں پنجاب سے پیچھے تھا اب ہمارے پوتوں پوتیوں کے زمانے میں ترقی کی راہ پر برطانیہ اور فرانس کے مقابلے کا ہو گا ’آخر یہ تبدیلی کیسے آئی؟انہوں نے اپنے قومی تعصب اور برتری کے احساس پر اصرار کیا اور نہ ہی انہوں نے ماسکو کے نوجوانوں کے ذہن پرانی عورتوںیا سینٹ نکولس کی جھوٹی عظمت کی کہانیوں جن پر ان کے ظالم والدین کا عقیدہ تھا سے بھرے۔
انہوں نے اپنے جوانوں پر اس بارے میں بھی زور نہیں دیا کہ وہ اس بڑے سوال کے بارے میں مطالعہ کریں کہ دنیا 13ستمبر کو پیدا ہوئی تھی کہ نہیں؟اور ان سب اسباق کو پڑھنے والے کو مقامی عالم کا درجہ بھی نہیں دیا ۔ان سب کی بجائے انہوں نے اپنے نوجوانوں کو وہ زبانیں پڑھائیں جن میں علوم کے خزانے چھپے ہوئے تھے ’اس طرح ان تمام علوم تک ان نوجونوں کی رسائی ہو گئی۔مغربی یورپ کی زبانیں سیکھنے کے بعد ہی روس تہذیب یا فتہ ہو گیا مجھے یقین ہے کہ جس طرح مغربی علوم نے وحشی تاتاریوں کو مہذب بنایا اسی طرح وہ ہندوستانیوں کو بھی تہذیب اور علوم کے خزانوں سے مالامال کر نے میں مددگار ثابت ہوں گی ‘‘

۔ہم جو بھی محسوس کریں لیکن اس رائے میں ایک وزن ہے اور یہ دلائل حقائق کے منافی نہیں ہیں۔
اصل میں میکالے کا فیصلہ اس دور کے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی رائے کا عکاس تھا ‘ ایک ہندوستانی علم دوست شخصیت اور بنگالی سماجی کارکن راجہ رام موہن رائے نے میکالے کے مقالے (Minutes) لکھنے سے دس برس قبل ہندوستان کے گورنر جنرل کو ایک اپیل بھیجی تھی کہ برطانوی حکومت جو رقم ہندوستان میں تعلیم کی ترویج کے لئے دے رہی ہے اس کو سنسکرت اور عربی پر خرچ کرنے کی بجائے اس رقم سے ہندوستانیوں کو مغربی سائنس اور دیگر علوم پڑھائے جائیں‘اصل میں 19ویں صدی کے یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ان مستشرق افسران کی پالیسی پر تنقید کی جو سنسکرت‘عربی اور فارسی زبان کی ترویج چاہتے تھے۔1822میں انہوں نے ’’انگلو ہندو سکول‘‘ کی بنیاد رکھی جہاں پر جزوی تعلیم انگریزی میں دی جاتی تھی۔
رائے نے گورنر جنرل لارڈ امرسٹ پر زور دیا کہ وہ انگریزی تعلیم کو وسعت دیں۔میکالے کی’’ تعلیم کے بارے میں مقالے‘‘ (Minutes on Education)کے بارے میں کرسٹوفر بائیلی کے خیالات کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ان کا خیال ہے کہ یہ تاثر انتہائی غلط ہے کہ میکالے کے تعلیم کے بارے میں منٹس نے کسی بھی صورت میں سنسکرت ‘فارسی یا کسی اور مقامی زبان کو انگریزی کے مقابلے میں کم تر گرداننے کی کو شش کی ہے۔ان منٹس نے برصغیر میں انگریزی زبان کی توسیع کے بارے میں بھی کوئی خاص حکمت عملی نہیں دکھائی ‘انگریزی کا استعمال میکالے کے کلکتہ آنے سے قبل ہی برصغیر میں شروع ہو چکا تھا ۔
بنگال میں تو کمرشل ایجنٹ 1835سے بھی 50سال قبل سے انگریزی زبان استعمال کرتے تھے۔ اپنے مقالے میں پونم اوپدھائیا (Ponam Upadhyaya)نے زور دیا ہے کہ میکالے نے اصل میں رام موہن رائے کے ان خیالات کو مناسب الفاظ میں پیش کیا ہے جن میں انہوں نے یورپ کے علوم کی ترویج کی بات کی تھی ‘یہ رائے انہوں نے ’’Remarks on settlement in Indian by Europeans‘‘ میں دی تھی جو مشرقی ہندوستان کے بارے میں پارلیمانی سیلیکٹ کمیٹی کی 1832 کی رپورٹ کے ساتھ منسلک تھی ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’میکالے کے تعلیم کے بارے میں منٹس اصل میں رام موہن رائے کے اس خط کی میکالے کے اپنے مخصوص انداز میں تشریح ہے جو انہوں نے گورنر جنرل کو انگریزی زبان کی ترویج اور طریقہ تعلیم قرار دینے کے بارے میں لکھی تھی‘‘۔
میکالے نے اصل میں اس بات پر زور دیا ہے کہ زبانوں کی ترویج ضرور ہونی چاہئے ان کا زور اس بات پر تھا کہ’’ دہلی مدرسے میں عربی‘‘ اور’’ بنارس کالج میں سنسکرت‘‘ لازمی طور پر پڑھائی جانی چاہئے ‘ان کا خیال تھا کہ انگریزی کے آنے سے مشرقی زبانوں میں بھی قوت آجائے گی وہ اس بات میں یقین رکھتے تھے کہ ہندوستان میں زیادہ تر تعلیم مشرقی زبانوں میں ہی دی جائے گی۔
اس سب کے کہنے کے باوجود کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ میکالے ماڈرن ازم یا جدت پسندی کے بہت بڑے وکیل تھے ‘ان کے خیال میں ماڈرن ازم صرف انگریزی تعلیم سے نہیں آئے گا بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ انگریزی آزاد خیالی اور انصاف کا نظام نافذ کیا جائے۔ میکالے نے ہندوستان کے بعض افراد کے لئے ایک مستقل ورثہ چھوڑا ہے ‘ان لوگوں میں بنگال کے بولاناتھ چندرا گھوش اور آر سی دت’یوپی کے سید احمد خان ‘ دادا بھائی نورو جی‘مغربی ہندوستان کے مشہور لبرل اور میکالے کے سب سے بڑے ترجمان جی ڈبلیو لیٹنر شامل تھے ‘ان تمام نے جدیدیت کی حمایت کی لیکن کسی نے بھی قدیم طرز تعلیم کی قیمت پر نئی طرز کی حمایت نہیں کی ‘ان تمام لوگوں نے قدیم طرز تعلیم اور جدید طرز کے درمیان ایک توازن کے قیام پر زور دیا ‘یہ بات بہت اہم ہے کہ جیسا کہ باربرا میٹکاف نے اپنی کتاب ”Islamic Revival in British India:Deoband1867-1900” میں لکھا ہے کہ جدیدیت کی تحریک اتنی تیز تھی کہ دارالعلوم دیو بند اور دارالعلوم ندوۃ علماء جیسے مذہبی ادارے بھی اس سے صرف نظر نہ کر سکے۔
اوپر دیے گئے حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ لارڈمیکالے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے آج بھی ہمارے بعض دانشور اور مذہبی علماء جب بھی تعلیمی یا معاشی نظام کی بات آتی ہے تو لارڈ میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ اپنی تمام نا اہلیوں کا ملبہ میکالے کے سر پر ڈالنے کی کو شش کرتے ہیں ورنہ انگریز کو گئے 67سال ہوگئے ہیں ہم نے نیا نظام تعلیم کیا بنانا تھا پرانے نظام کا بھی حلیہ بگاڑ دیا ۔سرکاری سکولوں کا حال تو نہ پوچھئے نہ سلیبس کا پتہ نہ انتظامی اور تعلیمی استعدادلیکن یہ جو درجنوں قسم کے تعلیمی نظام یہاں رائج ہیں‘ فرقہ وارانہ اور تجارتی بنیادوں پر قائم مدرسوں نے اتحاد امت کو پارہ پارہ کردیا ہے قسم قسم کے انگریزی سکولوں میں نہ جانے کہاں کہاں کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور پسماندہ ٹاٹ اردو میڈیم سکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں طبقاتی نفرت پروان چڑھائی جا رہی ہے۔ایک قوم اور ملت کے تصور کو بڑھانے کی بجائے پاکستان کے عوام کو اتنے خانوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ اب ان کا اتحاد اور یک جہتی مشکل سے قائم ہوگی۔
کیا یہ تباہی اور بربادی میکالے نے ہمارے اوپر مسلط کی ہے یا یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اورخود غرضیوں کا نتیجہ ہے۔بعض دانشوروں کی یہ رائے اہمیت رکھتی ہے کہ ہر بچے کو ایف اے‘ ایف ایس سی تک یکساں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹری ‘ انجینئرنگ ‘دینی تعلیم‘کمپیوٹر یا کسی اور خصوصی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی آزادی ہونی چاہئے ۔ایف ایس سی یا ایف کرنے کے بعد کم از کم اس کا شعور تو کچھ پختہ ہوچکا ہوگا‘جماعت اسلامی خصوصی طور پر میکالے کو تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہے لیکن آج خیبر پختونخوا کی حکومت کا پروگرام ہے کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے جب کہ وہ خود حکومت کا حصہ ہے ‘ان حالات میں میرا سوال یہ ہے کہ میکالے نے کیا غلط کیا تھا؟ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی تجویز انہوں نے 1835ء میں دی تھی اور وہی بات آج ہم 2014میں بھی کر رہے ہیں۔ان کی دور اندیشی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔
 
Top